فکشن ادب بالخصوص اختراعی فکشن میں مبین صدیقی ایک علامت کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ مجموعہ حالیہ ’’ایجادات‘‘ کی اشاعت ( 2018) کے بعد یہ بات خاص طور سے عام ہوچکی ہے کہ موجد حالیہ نے نہ صرف ایک صاحب طرز فن کار کی حیثیت سے ایک نئی طرز اور ایک نئی صنف ’’حالیہ ‘‘ کی ایجاد کی ہے بلکہ ایک صاحب اسلوب ادیب اور نظریہ ساز (theorist) کی حیثیت سے نظریہ حالیہ، جواز حالیہ، تعریف حالیہ، اختصاص حالیہ اور اجزائے حالیہ کو بھی قائم کیا ہے۔
صنفی لحاظ سے دیکھا جائے تو مبین صدیقی نے دنیائے فکشن کو جس تصوراتی ڈراما کا تصور دیا ہے اور جس تصوراتی ڈراما کی تخلیقی و اختراعی مثالیں ’’ایجادات‘‘ میں پیش کی ہیں ان تصوراتی ڈراما کو در اصل ڈرامائی افسانہ یعنی ’’حالیائی افسانہ‘‘ قرار دینا بدرجہا بہتر ہے۔ اس طرح وہ جسے ’’حالیہ‘‘ کہتے ہیں ہم اسے ’’حالیائی افسانہ‘‘ کہیں گے۔ اردو کے مایہ ناز نقاد شمس الرحمٰن فاروقی نے بھی ’’حالیہ‘‘ کو فلم کی تکنیک میں لکھا ہوا افسانہ ہی بتایا ہے۔ فاروقی صاحب نے مثال کے طور پر راب گریے اور بلراج مینر ا کے افسانے سے اس کی مماثلت کا ذکر کرتے ہوئے ’’حالیہ‘‘ کو ایک نئی صنف قرار دیا ہے۔عبد الصمد، نیر مسعود، پروفیسر عتیق اللہ، وہاب اشرفی اور سلیم شہزاد جیسے دانشوروں نے بھی ’’حالیہ ‘‘ کو افسانہ و ڈراما کے انضمام سے پیدا ایک نئی انضمامی صنف تسلیم کیا ہے۔ لہذا، کسی الجھن کے بغیر صاف طور پر سبھی کو یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ مبین صدیقی جسے ’’حالیہ ‘‘ کا نام دے رہے ہیں در اصل وہ افسانہ کی ایک اختراعی صنف ’’حالیائی افسانہ‘‘ ہے جس کی بے مثال فنی و فکری خوبیوں سے ہم سب کو فیضیاب ہونا چاہیے۔
’’ایجادات‘‘ کے حالیوں کے مطالعے سے یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ فکر و فلسفہ ، موضوع و مقصد اور نصب العین کے لحاظ سے بھی موجد حالیہ ایک بلند فکر، رجائیت پسند اور آشاوادی ادیب ہیں۔ اس تناظر میں اور آج کے مایوس کن ادب کے مقابلے میں دیکھا جائے تو یقینا ایک زمانے کے بعد اردو ادب کو ایک ایسا ادیب مل سکا ہے جو نفی پر اثبات ، مایوسی پر امید، بیزاری پر خواب، کشمکش و تذبذب پر تحمل و طمانیت ، لادینیت پر وحدانیت، مصنوعیت و کلوننگ (cloning) اور سحر ونقل پر حق و اصل اور فطرت و حقیقت اور گہری گہری تاریکیوں پر روشنی وانوار کو ترجیح دیتا ہوا ریگزاروں میں پھول کھلاتا ہے۔
لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں اور یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ موجد حالیہ کا قلم نہ صرف ایک عہد ساز قلم کار کا قلم ہے بلکہ ایک دور اندیش ادیب کا قلم ہے جو بڑی خاموشی کے ساتھ گزشتہ تیس برسوں سے اردو ادب کی غیر معمولی خدمات انجام دے رہا ہے۔ ’’حالیہ‘‘ اور صاحب حالیہ کے متعلق متذکرہ نتائج کی تصدیق کے لیے ’’ایجادات‘‘ کے چند حالیوں کے آخری سطور ملاحظہ فرمائیں۔ حالاں کہ ’’ایجادات‘‘ کے بہت سے حالیائی اقتباسات صاحب حالیہ کی فصیح و بلیغ زبان اور ممتاز طرز بیان کے نمونے کے طور پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
۱۔ پورا تصور جیسے ایک دم سے روشن ہو اٹھتا ہے۔ اور نگاہیں جیسے ایک دم سے دیکھتی ہیں کہ بکھرے ہوئے ملبوں کے ڈھیر سے ———
یہاں تک کہ آہنی توپوں کے اوپر جمی ہوئی گیلی مٹی کی تہہ سے سبز سبز کونپلیں جھانک رہی ہیں۔ ہریالی کا ایک غیر متوقع احساس سر ابھارتا ہے اور اس انکشاف پر موسیقی ہولے ہولے جھومتی ہوئی نشاطیہ آہنگ میں تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے۔ ؎1
۲۔ ’’ناچتے، تممتاتے، سنسناتے، ‘‘
پہاڑیوں کی اوٹ سے تاریکیوں کا سینہ چیر کر باہر نکلتے ہوئے سورج کی سمت اس کے قدم بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں اور وہ ہر قدم پر جیسے لپکتا ہوا، بخوشی بخوشی کہہ اٹھتا ہو،
’’! اے مصور
——! اے مصور‘‘ ؎ 2
افسر اعلیٰ بھی ایک لمحہ کو چونکتے ہیں۔ چونک کر وہ بھی بزرگ کو بہ غور دیکھتے ہیں کہ اک ذراسی مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پر بھی تیر جاتی ہے۔ مگر اس سے قبل کہ دوسرے کچھ سمجھ سکیں وہ اپنی گاڑی میں جاکر دراز ہوجاتے ہیں۔
نیم تاریکیوں میں کھلتے گلاب ،
شکر گزار چہرے،
مسکراتا ماحول،
اور منظر ساکت !! ؎3
۴۔ ایک جانب بطن گیتی سے،
سنسناتے سورج کی لاتعداد کرنیں ،
دوسری طرف اڑتے ہوئے گھوڑسوار،
گھوڑوں ———–کے ٹاپوں کی اڑتی ہوئی گونج۔
اور تیسری سمت کیمپوں کی قطاروں کے درمیان سے،
جانب فلک، بلند ہوتے ہوئے،
معصوم دست دعا ! ؎4
276 صفحات کے اس مجموعہ حالیہ میں 31 حالیوں اور نظریہ حالیہ کے طور پر خود موجد حالیہ کے دورہ نما مقالات (مقدمات) -1حالیہ کی شعریات -2 حالیہ کی ایجاد، کے علاوہ جناب شمس الرحمٰن فاروقی سمیت پینسٹھ ادبائے کرام کی بیش قیمتی آراء شامل کتاب ہیں۔
مجموعہ حالیہ ’’ایجادات‘‘ کی نہایت پرکشش ، دلنشیں ، خوبصورت، اثر آفریں اور فصاحت و بلاغت کی انتہا کو پہنچتی ہوئی حالیائی زبان کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں۔
ی‘Zاور bجیسے حروف جھرنوں کی مانند اپنے نیم تاریک سرچشموں سے جھرجھربہتے ……خون کے مختلف رنگ‘ مختلف نوع کے آلات اور اسلحات جھرنوں کی نئی نئی قسموں میں اور دودھ کی نہر کے علاوہ ہمہ شکل وہمہ رنگ پھلوں اور پھولوں کی نہریں‘ نہریں سونے اور چاندی کی‘ ہیرے اور جواہرات کی‘ سیپوں جیسے نوخیز نوجوانوں اورموتیوں جیسی حسین بالائوں اور پیارے پیارے خوبصورت جانداروں کی نہریں بہتی جارہی ہیں…… بہتی جارہی ہیں‘ بہتی جارہی ہیں…… ایسی وادیوں کی سمت جن کی لامختتم گہرائیوں میں غلاظتوں کے تہہ بہ تہہ جال ہیں مگر جن سے بھینی بھینی خوشبو پھوٹ رہی ہے۔ ؎ 5
تصور میں چہار جانب گہری دھندمیں ڈوبے ہوئے ملبوں کا احساس ‘
منظر دھواں دھواں
………………
مگر ایک لمحہ توقف کے بعد دھیرے دھیرے دھند چھٹنے لگتی ہے یہاں تک کہ — نیچے صرف بکھرے ہوئے ملبے‘
اوپر صرف کالی گھٹا‘
دفعتاً،ایک گونج سی اٹھتی ہے جیسے آسمان غرارہاہو۔کڑکتی ہوئی بجلیوں کی خوفناک چمک اور آندھیوں کی سرسراہٹ کے ساتھ ہی غبار آلود ملبے ادھر ادھر بکھرنے لگتے ہیںتھوڑی ہی دیر میں برف کے چھوٹے چھوٹے ٹکرے ملبوں پر موتیوں کی مانند ٹپکنے اور چمکنے لگتے ہیں،
رفتہ رفتہ جھماجھم بارش شروع ہوجاتی ہے ،
بارش تیز تر ہوتی چلی جاتی ہے،
اور موسیقی ،
جیسے لگاتار بارش کی دھن برسائے جارہی ہو!
: تصور سوم :
مدھم مدھم روشنی! نیم تاریکی!
گیلے ملبوں کے ڈھیر کہیں اٹھے ہوئے کہیں دھنسے ہوئے‘
موسیقی– جیسے دعائیں الاپ رہی ہو‘
منظر—جیسے نہایت فرحت بخش اور نہایت پر سکون‘
دفعتاً، موسیقی کی زوردار گونج کے ساتھ ہی روشنی جیسے ایکدم سے تیز ہوجاتی ہے۔ پورا تصور جیسے ایکدم سے روشن ہواٹھتا ہے۔اور نگاہیں جیسے ایکدم سے دیکھتی ہیں کہ بکھرے ہوئے ملبوں کے ڈھیر سے——- یہاں تک کہ آہنی توپوں کے اوپر جمی ہوئی گیلی مٹی کی تہہ سے سبز سبز کونپلیں جھانک رہی ہیں…
ہریالی کا ایک غیر متوقع احساس سرابھارتا ہے اوراس انکشاف پر موسیقی ہولے ہولے جھومتی ہوئی نشاطیہ آہنگ میں تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے۔!؎ 6
تصور کے تمام گوشوں میں تیرتی مختلف النوع…مخمورومدہوش آنکھیں…
اورشاہراہِ چشمِ مسرور سے گذرتا شہ سوارِ نوجوان……
شہ سوار کی جانب لپکتی…اپنے آغوش میں محصور کرتی…مدہوش نگاہی…
اورحصارِ نگاہِ مدہوش کو توڑتا …نبردآزما…آگے آگے…آگے بڑھتا شہ سوار…
: تصوردوم :
تصور کے تمام گوشوں میں تیرتی مختلف النوع نقاب پوش غزال آنکھیں…
شاہراہِ چشم نوخیز سے گذرتا نوجوان شہ سوار…
شہ سوار کی جانب بڑھتی حسین حجاب آگیں آنکھیں…
متعاقب حسرتی آنکھوں سے آنکھیں پھیرتا…تیز رفتار شہ سوار…
-وقفہ-
خواب ناک آنکھوں سے بہتے جھرجھر…جھرنے…
اور چشم نوخیز سے رفتہ رفتہ اوجھل ہوتا شہ سوار۔ ؎7
تصور اول صبح کی حسین جھلملاتی کرنوں میں نہایا ہوا‘
ہلکے ہلکے کہرے میں چھپی برفیلی پہاڑیاں‘
زندہ پہاڑیوں کے ماتھے پر رقصاں جھرجھر………جھرنے‘
رنگ برنگے خوبصورت درختوں پر من موہک پھلوں کے حسین جھڑمٹوں کی اٹھکھیلیاں‘
پھولوں‘پھلوں اور باغوں پر ٹپکتی‘چمکتی برفیلی موتیوں سی بوندیں‘
معطر‘مدہوش‘رومانی فضا‘
————‘
چڑیوں کی چہچہاہٹ اور ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ‘
’’چوں‘چوں‘‘
’’پھڑ۔پھڑ‘‘
یک لخت‘
چڑیوں کے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ ‘چوں چوں کرتی کھلی چونچیں اور بہاروں کا حسن سب ایک دم سے ساکت! اور ان ساکت نظاروں کے درون سے رفتہ رفتہ جیسے نمودار ہوتا اور ٹھہر ٹھہرکر ابھرتا‘ گونجتا ہوا یہ شعر‘
اگر فردوس بروروئے زمیں است
ہمیں است وہمیں است وہمیں است ؎8
پھیلتے ‘کانپتے‘ تھرتھراتے اندھیرے‘
رفتہ رفتہ ساکت ہوتے مناظر‘
اور ساکت منظروں کے بطون سے‘
رفتہ رفتہ نمودار ہوتے،
گھٹ گھٹ کرابھرتے،
اورٹھہر ٹھہر کر گونجتے یہ الفاظ—-
’’اگر فردوس برروئے زمیں است
ہمیں است وہمیں است وہمیں است‘‘ ؎9
فرشتہ ذیشان’’ آخر وہ اربوں سماقد ـؔ اور اربوں سربخش ؔجنہیں سحر وتسحیر میں درجہ بدرجہ ملکہ عطاکیا گیا ہے اور جو بے شمار کمالات کے مالک ہیں انہیں ہم جیسے ناچیز بھی جب چاہیں چٹکیوں میں گھمادیں ،تو پھر ہمیں اپنی سطح کو اس قدر جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہی کیا ہے ‘‘
فرشتہ احسان ’’مگرہمارے سامنے اس ایک آسمان دنیا کی سطحو ں اور درجات کا جب یہ عالم ہے تو پھر اس عالم کے علاوہ عالمین کل کے سات سماوات کا عالم کیا ہوگا اور وہاں کے درجات کے درجات کیا ہونگے ؟‘‘ ؎10
گہرے تاریک تصور میں روشنی کے ننھے ننھے داغ…اور سر سراتی کوند…
چند لمحوں بعد ایک گونج ابھرتی ہے‘
’’یہ وہ مقام ہے جہاں سے پوری دنیا پر نگاہ رکھی جاسکتی ہے۔دنیا کے اکثر گوشوں کی روشن لکیریں اسی فلسفیانہ نظام سے فیض پاتی ہیں۔تربیت‘ طریقت‘عقیدت… اکثر اس کے درباری ہیں۔ بنیادی اور ارتقائی ذریعوں پر اسی کی مرضی کے پہرے ہیں۔ علم وفن‘ طاقت ودولت اور نشاط ونعمت کے ایجاد ہائے روزگار میں اس کا کوئی مقابل نہیں۔ اس کے آگے کسی کا سر نہیں اٹھتا۔ زبان نہیں کھلتی ۔ اس کی غلامی اور صرف غلامی ہی میں نجات ہے۔ دنیا جسے آزادی بہ خوشی جانتی ہے۔یہ وہ مقام ہے جہاں سے پوری دنیا پر نگاہ رکھی جاتی ہے۔‘‘ ؎11
چند لمحوں بعد کچھ غضبناک ٹھہاکے گونجتے ہیں ۔لہریں اور سانسیں دب جاتی ہیں اور بڑی مہذب ،شیریں اور باوقار آوازیں بلند ہوتی ہیں۔
ایک آواز ’’اور جناب کو معلوم کہ یہ دوسو پچاسویں منزل ہے۔ دنیا کی بلند ترین منزل۔‘‘
دوسر ی آواز ’’میرا خیال ہے کہ ملچھوں اور صحرا نشینوں کو اس کا شعور نہیں ہوسکتا۔ وہ اس کا تصور تو کرسکتے ہیں، اس تک رسائی لاحاصل ہے۔‘‘
تیسری آواز’’ہماری قائم کردہ اصطلاحیں لغوی نہیں ہیں۔ انہیں ہمارے مخالفین محسوس توکرسکتے ہیں اس سے مبرا نہیں ہوسکتے ۔‘‘
چوتھی آواز ’’وہ ہماری اصطلاحوں میںایسے مقید وملوث ہیں جیسے مچھلیاں تالاب میں–اور بیمار سے دوا کا اٹھانا اور پتھر سے سختی کا ناپید کرنا بھی ہمیں کوزیب ہے۔‘‘ ؎12
دوسر ی آواز ’’ناقابل تصور یا ناقابل یقین طورپر جو کچھ ہوا ہے وہ اتنا ہیبت ناک اور حیرت انگیز ہے کہ طمانیت کے مستقبل کا تصور تک متزلزل ہوکر رہ گیا ہے۔کیا کسی لافانی پہلوان کو لقویٰ مارسکتا ہے؟‘‘
تیسری آواز ’’زیادہ مت سوچو۔اور فکر نہ کرو کہ طمانیت ہماری منتظر ہے اور بہت عنقریب ہے کہ …کہ ہمیں ہلکا ساشائبہ بھی نہ ہوگا کہ کوئی ادنیٰ ترین حرکت بھی ہمیں چھوکر گذری ہے۔یاد رکھو کہ علم الارواح اور فیضانِ طب بھی ہماری ہی ملکیت ہیں۔‘‘
چوتھی آواز ’’رہی تاریخ‘سواس کی تقدیر بھی ہمیشہ ہم ہی نے لکھی ہے۔ہم اپنے ساتھ پوری دنیا کی رائے عامہ کو شامل کریںگے اور دنیا کی کسی ایک ادنیٰ لہر نے ہماری مخالفت کی اگرجرات بھی کی ہے تو ہم اسے نہ صرف پاتال سے ڈھونڈنکالیں گے بلکہ اس کے وجود کو تاریخ دنیا میں عبرت ناک سزا کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ناپید کردیںگے۔‘‘ ؎13
’’مشقت ہرمحاذ پر‘سانسوں کی ہرکیفیت کو لازم ہے۔آواز‘اصطلاح‘انداز‘ تصور‘عمل‘ڈرامہ‘سائنس یا افواج عالم…کوئی گوشہ‘ کوئی جہت ہمارے انقلاب کے دائرے سے دور نہ ہو نے پائے …غلامو! صفوں کی صفیں بچھادو۔ہمارے اقدام کا ہر حملہ بہترین انصاف ہے۔ہماری پالیسیوں کی بے شمار جہتیں ہوںگی کیوں کہ ہماری کوئی ایک پالیسی ہی نہ ہوگی۔دنیا کے تمام موقع سازوں اور موقع خواہوں کے واسطے ہمارے دربار کا فیض عام کردو۔ ہمارے غلام ہمارے ساتھی ہوںگے اور وہی مخالف کو کافی ہوںگے۔‘‘
’’نہیں!……‘‘ بچوں والے شخص کی بے ساختہ چیخ گونجتی ہے‘
‘‘ہم …ہم اپنی نمائندگی خود کریںگے۔اپنی مشقت سے‘ اپنی پوری طاقت سے‘ کسی بھی قیمت پر کسی بھی حال سے گذرکر‘ کچھ بھی لوٹ کر‘ کچھ بھی لُٹاکر ہم خود اپنے نصب العین کو پہنچیںگے۔ دیکھنا‘دیکھنا ان گہری تاریکیوں کے بعد ایسی پر بہار طمانیت پھوٹے گی کہ ‘کہ…کہ انقلاب زندہ باد،انقلاب زندہ باد،انقلاب …‘‘ ؎14
بسیط تاریکی‘
روشنی کے داغ‘کوند‘
درمیان سے رفتہ رفتہ پہلی آواز ابھرتی ہے‘
’’یہ وہ مقام ہے جہاں سے پوری دنیا پر نگاہ رکھی جاتی ہے۔یہ وہ مقام ہے کہ جس کے حاسد کیڑے مکوڑے واسطے انتشار کے جرأت غیر متوقع میں غرقاب یعنی آپ اپنا شکار ہوئے۔حکمت ہماری کہ موسم بہار کو نئے پیراہن عطا ہوئے۔ مسند نشینِ منازلِ فلکی ہمارے غلام عش عش کرتے ہیں۔دنیا ہماری محتاج ِفیضان‘ دنیا جسے بہ خوشی مختاری جانتی ہے…………یہ وہ فلسفیانہ مقام ہے…………‘‘ ؎ 15
سماقدی جماعت سے ایک سماقد علیحدہ ہوکر رفتہ رفتہ شاہکاروں کی جماعت کے سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔ کچھ لمحوں تک بھرپور نگاہوں سے شاہکاروں کا جائزہ لتیا ہے۔ مسکراتا ہے…‘
جیسے برگزیدہ لبوں کی بے نیاز مسکراہٹ…‘
شاہکار بھی مسکرااٹھتے ہیں،
پس‘ سماقدایک ہلکی سی پھونک مارتا ہے اور شاہکاروں کی پوری جماعت موم میں تبدیل ہوتی ہوئی جلتے ہوئے موم کی مانند پگھلتی چلی جاتی ہے۔ 16
تا حد نگاہ،
تاحد تصور،
طویل القامت اسٹیج………..
ایک گوشۂ اسٹیج میں تقریباً سات ہزار سات سو ستر گزاونچا ایک سایہ لہرارہا ہے ،
ہیبت ناک موسیقی کی ہلکی ہلکی گونج،
معاً ،ستر ہزار سات سو ستر گز اونچا ایک دوسرا سایہ نمودار ہوتا ہے ،نمودار ہو تے ہی پہلے سائے سے مخاطب ہوتا ہے ،
’’سربخش……..سربخش……..!‘‘(گونج در گونج)۔
پہلاسایہ : ’’جی، جی عالی مقام ،آپ کا بندہ ،آپ کا غلام سربخش حاضر ہے !‘‘
دوسرا سایہ : ’’مجھے تمہارا یہ نام بہت پسند ہے ‘‘
سر بخش خوشی سے اچھلتا ہوا’’شکریہ ،شکریہ عالی جاہ‘‘
پہلا سایہ : ’’نام تو مجھے اپنا بھی بے حد محبوب ہے ،ورنہ تم خوب جانتے ہوکہ سماقدؔجس وقت جس نام کو چاہے وجود سمیت تبدیل و تحلیل کر سکتا ہے ،خواہ وجود کسی انسان کا ہو کہ جنات کا ،خبیث کا ہو کہ حیوان کا ۔اگر چہ ہمارا سب سے بڑا ہدف وجودِ انسان ہی تو ہے کہ ہمارا اصل نصب العین تو ارتقائے انسانیت ہی ہے ‘‘۔
سربخش : ’’ ارتقائے انسانیت ؟یہ آپ کیافرمارہے ہیں عالی جاہ؟‘‘
سماقدؔ ـ: (مسکراتے ہوئے) ’’ ہم نے اپنے غلاموں یعنی اصطلاحوں کو پیدا کرکے انہیں سب سے زیادہ سمتِ اصل ہی سے متنفر کیا ہے ۔انہیں تشکیک اور تذبذب کی خواب ناک وادیوں سے لطف اندوز کرکے ان کے تیقن و تدبر کو پگھلایا،پھر انہیں جاہ و ہشم اور شاہ و سلطنت کی شرا ب پلا پلا کر اور ان کی انس کو آتشِ ہوس میں سلگا سلگاکر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کی انسانیت پر زنا بالجبر کو مسلط کر دیا ہے ‘‘۔
سربخش : ’’لیکن میرے آقا ،انسانیت کو تو ہم بہت پہلے فتح کرچکے ۔اب تو انسان میں بہت کم ایسے اوصاف ہونگے جن کی ضد خود انہیں کے اندرسے ابھر کر ان پر غالب نہ آگئی ہو ۔اب تو انسان زائد از نصف حیوان بن چکا اورکہیں کہیں تو بشکل و صورت محض رہ گیا ہے ‘‘۔
سماقد ؔ : ہم اس کی و ہ شکل و صورت بھی بہت جلد اتار لیں گے کہ ہم اسے شکستِ فاش کے قریب تر کرچکے اور اس درجہ کہ اسکے تمام خمیری فلسفے عاجز عاجز ہوکر بخوشی بخوشی ہماری تحویل کے تلوے چاٹ رہے ہیں۔مگر سربخش ،تم ہماری اصطلاحوں کے سحر سے خوف زدہ ہوکر اپنی سمتِ اصل سے یاد رکھو اور یاد رکھو کہ متنفر مت ہونا ورنہ …‘‘ ؎ 17
سماقدؔ: ’’جس طر ح میری بندگی تم پر فرض ہے اسی طرح میں بھی اپنے آقا کا بندہ و غلام ہوں ۔میری طرح اسکے ہزاروں غلام ہیں او ر ہمارے آقا کا نصب العین ہی ہم سب کا نصب العین ہے۔اور و ہ یہ ہے کہ از اول تا آخر انتہائے شرک کے جدید ترین اور نا قابل گرفت نمونے حاصل کئے جائیںحتیٰ کہ کائنات کی ہر شئے اپنی وحدت سے برگشتہ و منقطع ہوجائے۔یعنی کہ ہر شئے میں اس حد تک شرک داخل ہوجائے کہ ہر شئے پر نہ صرف شرک کا غلبہ و غلغلہ عام ہوجائے بلکہ ہر وحدت اور تخمِ وحدت پر بھی شرک کا مکمل اختیار و اقتدار نظر آئے ۔‘‘
سربخش : ’’تو کیا کائنات کی ہر ایک شئے میں ایک وحدت ہیـ؟‘‘
سماقدؔ: ’’تم نے سہی سمجھا اور بہت قیمتی سوال کیا ہے ۔آج ہم تم سے بہت خوش ہیں سر بخش۔تو سنو؛کائناتِ کل کی تخلیق ہی برائے اظہارِ وحدت ہوئی ہے اور ہم آج سے نہیں ،لاکھوں ،کروڑوں ،اربوں سال سے اس کاوشِ عظیم میں مستغرق ہیں کہ کس طرح تمام اشیائے کائنات کی وحدت کو اور خود اس پوری کائنات کو بحوالہ شرکِ عظیم کرڈالیں۔‘‘
سربخش: ’’لاکھوں ،کروڑوں ،اربوں سال سے ؟‘‘
سماقد ؔ: ’’بالکل ! بالکل!اور سنوکہ اس پوری کائنات میںتمام تر جنگوں کی اصل صرف دو قسم کی جنگیں رہی ہیں ۔ایک وحدت کی اور دوسری شرک کی ۔مگر اس پوری کائنات میں یعنی کائنات کی ہر ایک ادنی سے ادنی اور اعلی سے اعلی شئے میں وحدت اتنی مضبوط ،طاقتور اور باریک ترین واقع ہوئی ہے کہ عظیم سے عظیم اور باریک سے باریک تمام اقسام کی شرکت یکجا و یکجان ہوکر بھی کسی ایک وحدت کو نابود نہیں کر پاتی ۔‘‘
سربخش : ’’یہ آپ کیا فرمارہے ہیں عالی جاہ؟‘‘
سماقدؔ: ’’تمہیں معلوم نہیں ہے سر بخش کہ خود شرک کے اندرونِ خانہ بھی ایک وحدت ہوتی ہے ،جسے تم شرک کی وحدت کہہ سکتے ہو۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہم آج تک ایک شرک بھی ایسی ایجاد نہ کرسکے جس کی بنیا دمیں وحدت شامل نہ ہو ۔چنانچہ ہم لاکھوں سال سے یہ کاوشیں کر رہے ہیں کہ شرک بغیرِ وحدت ایجاد کرسکیں اور اس پوری کائنات میں صرف شرک ہی کی بنیاد پر تمام تر ایجادات کا ظہور ہو۔اور اب ایسا لگتا ہے، ایسالگتا ہے سربخش کہ عنقریب ہمارے محققین اس میں کامیاب ہو جائیں گے ۔پس عنقریب یہ دن ہمارا دن ہوگا۔یہ دن تمہارا دن ہوگا،یہ ہم سب کا دن ہوگا سربخش، ہم سب کا۔‘‘
سربخش: ’’تو کیا ہم لوگ آنے والی سب سے بڑی خوشخبر ی کے قریب پہنچ چکے ہیں؟‘‘
سماقدؔ: ’’یقینا ،ہم کائنات کی سب سے بڑی خوشخبر ی کے قریب تر ہیں ۔اور اس وقت پوری کائنات میںپھیلے ہمارے برادران وبزرگ و عزیز کی شب و روز کی کاوشیں تخمِ وحدت کو بحرِ اختلاط و اشتراک کے تلاطم میں غرقاب کیا ہی چاہتے ہیں ۔پس جشنِ فتحِ شرک و ایجادات کی تیاری میں لگ جائوسر بخش!جشنِ فتحِ ایجادات کی تیاری میں !‘‘
سربخش: (فرطِ مسر ت سے )’’میرے آقا ،میرے آقا !سر بخش اپنی قوم کے ساتھ جشنِ عظیم کی تیاری کو بے چین و بے قرار ہے ۔پس رختِ سفر کی اجازت ہو!‘‘
سماقدؔ بڑے غور سے سربخش کو دیکھنے بلکہ سر سے پائوں تک ٹٹولنے لگتا ہے ،مگر ا س سے قبل کہ سر بخش کچھ سمجھ سکے سماقدؔ ایک ہلکی سی پھونک مارتاہے اور سر بخش کے ٹکرے ٹکرے ہوجاتے ہیں ۔ان میں سے کچھ ٹکرے گھنے گھنے درختوں میں اور کچھ اونچے اونچے پہاڑوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں ،
ہیبت ناک موسیقی،
اورانتہائی سرعت کے ساتھ تحلیل و تبدیل ہوتے گردو پیش کے مناظر،
اور رفتہ رفتہ گرتا ہوا پردئہ تاریک!! ؎18
میلوں لمبے، اونچے تصور کے ایک گوشے میں ننھی کرنیں جھلملاتی ہیں‘
اور جب روشن ہوکر متحدہوتی ہیں‘
ایک گوشے میں شفاف نہر بہہ رہی ہے‘
رواں موجوں کا ہلکا ہلکا شور‘
سبز وشفاف نہر‘
سبز زار کنارے‘
چمن زار کی خوشنمائی‘
صباکے سرسراتے جھونکے‘
اور تازہ تازہ راحت کا احساس‘
تصور کے دوسرے گوشے میں یہ اضافہ کہ سبز زار شفاف نہر کی لہروں پر ایک حورلیٹی ہے۔لیٹے لیٹے رواں نہر پر نگاہ ناز کو جنبش دیتی ہے۔
رفتہ رفتہ کھلتی نرگسی آنکھیں‘
مدہوش نگاہی ایسی کہ نگار خانہ ٔ چشم ِناز میں رقصاں میناکاریاں‘
حتیٰ کہ پھیلتی رنگ آمیزی—- روشنی کے سائے میں تبدیل ہوتی ہوئی ازنہر تا سما…قد وقامت اختیار کرجاتی ہے۔یعنی سایہ نماروشن سماقد کے دیو قامت پائوں کے دیوقامت ناخن میں نہر‘ سبز زار اور حور سب تیرتے نظرآتے ہیں۔ ؎ 19
’’اور سنوسربخش۔ تم جو درختوں میں مرد وزن کو یوں آزاد دیکھ رہے ہو اور جالوں میں لپٹے لوگوں کو ایک دوسرے پر بھونکتے ہوئے پارہے ہو‘سو ہم نے اس کی بھی صورتیں بنارکھی ہیں۔ تدبیر ہماری کہ ہم نے دولت کو غلام کیا۔ اس کے اقسام کئے اور تقسیم کی۔ سو چکانے والوں اور دولت کے خیرخواہوں نے مسئلوں سے شغف اختیار کیا۔ ہم نے مسئلے پیداکئے اور مسئلوں پر فتح یابی حاصل کی۔ قرض خوروں اور سود خوروں کو ہم نے علوم وفنون کے جو ہر سکھائے۔انہیں سحر مبین میں درجہ بہ درجہ ملکہ عطا کیا۔اور جب وہ اپنے قدوں کے تنہا بادشاہ ٹھہرنے لگے تو تحفظات وترقیات کی تنہائیوں ‘ پنہائیوں اور آزادیوں کے دیوانے بھی مشہور ہوئے۔ اور دنیائے دولت کے سحر نے انہیں خواب گاہ روحانی تک پہنچادیا۔ اور ابجد کے مفاہیم یکسر تبدیل ہوگئے۔‘‘
سربخش’’یعنی سحر مال ومآل بڑا کام آیا‘‘
سماقد ’’اسے رحمت مال ومآل کہو۔تم نے واقعی کچھ نہیں سیکھا۔‘‘
سربخش’’ناچیز سیکھنے کی سعی کی ہی جانب ہے قبلہ‘‘
سماقد ’’اور سنوکہ انڈوں سے لیکر بچوں تک‘ سبزیوں سے بیل بوٹوں تک اور گھاس سے تناور درختوں تک۔ اسی طرح باورچی خانوں سے مہمان خانوں تک ،ہوٹلوں سے قحبہ خانوں تک، مسجدوں سے بت خانوں تک، سواریوں سے حواریوں تک ، مدرسوں سے یونیورسٹیوں تک، خاندانوں سے ممالک تک اور انسانوں سے حیوانوں تک ہی نہیں، ندیوں، پہاڑیوں، سمندروں، صحرائوں، خلائوں اور سیاروں سے شمس وقمر کی شعائوں تک ہم نے سب کو سحرمبین کے حوالے کررکھا ہے۔سب کی اصلوں میں سحر آفریں اختلاط کا غلبہ اور غلغلہ دیکھ لو اور خوب دیکھ لو کہ یہ کس طرح برکتوں کی دلیلیں ثابت ہوچکی ہیں۔‘‘
سربخش’’شاہا۔کیا برکتوں کی ان دلیوں کو کبھی اندیشے بھی ہوںگے ؟‘‘
سماقد ’’بے قوف‘ سماقد جسے بابرکت کردے وہی بابرکت ہے۔اور کس کی مجال کہ وہ اپنی ہی نقل سے پھر جائے۔ اور جو پھر ا تباہی تو صرف اسی کی منتظر ہے۔‘‘ ؎20
’’سربخش- اور یہ دیکھو—‘‘ وہ اپنے ایک ہاتھ کو سرکے قریب لاکر نیچے تک ایسے لے جاتا ہے جیسے اوپر سے نیچے تک ایک پردہ قائم کررہا ہو۔ اوپر سے نیچے تک چاروں طرف اندھیروں کی جھلمل باریک چادر پورے تجربہ گاہ پر محیط ہوجاتی ہے۔اور رفتہ رفتہ تمام اشیاء جو نیم تاریک پردوں کے پس پشت ہیں‘ سے مانند دولمبے سانپوں کے جو آپس میں لپٹے اور بلکھاتے جسموں کے ساتھ نمودار ہورہے ہیں‘ سربخش کا سامنا ہوتاہے۔ سربخش سوالیہ نگاہوں سے سماقد کی جانب دیکھتا ہے۔
سماقد:’’ اور یہ سطحیں جو نمودار ہورہی ہیں یہ سرشت کے اور زندگی کے بنیادی مادے ہیں اور ہم نے تمام مادوں کو باہم اختلاط میں مدہوش کررکھاہے۔ ہم جتنوں کو چاہیں ایک میں بدل دیں اور جس کو چاہیں انیک کریں۔ پیکروں میں ہماری حکومت ہے اور زندگیوں میں ہماری چاہ‘‘
سیڑھی نما، بل کھاتی، نمودار ہوتی لہریں تمام اشیاء کے گرد اور ایک دوسرے میں پیوست ہوتی ہوئی بے شمار رنگوں کے جال بنتی نظر آتی ہیں۔ ایک گوشئہ تاریک میں ایک بڑے بیکر کے اندر ایک مجموعہ مخلوقات رفتہ رفتہ ڈیولپ ہورہاہے۔اس کے ہاتھ پائوں اور جسم کا ہیولا نسان نما ہے۔مگر اس کے جسم کے ہرایک انچ دوانچ پردوسری مختلف ہیئتوں کا گمان گزرتا ہے۔غریق حیرت سربخش سماقد کی جانب دیکھتا ہے تو سماقد ہولے ہولے مسکراتا ہے جیسے برگزیدہ لبوں کی بے نیاز مسکراہٹ۔
سماقد:اور سربخش ‘قبرستان کی سیر بھی کیا کرو۔ کیا تمہیں موت سے شغل نہیں؟‘‘
سربخش:’’موت سے شغل؟ موت سے—–؟؟‘‘ ؎21
گوشۂ دھند سے رفتہ رفتہ ایک طویل القامت گیڈرنمودار ہوتاہے…‘
وہ طائروں کی طرح انگڑائی لے کر مور کی چال چلتا ہوا سیب کی شاخ کے قریب پہنچتا ہے۔چند لمحوں تک سیب چبانے کے بعد وہ پھولوں کی سمت بڑھتا ہے یہاں تک کہ گلاب سے بھری شاخوں میں اس کی ناک چھپ جاتی ہے۔
ایک الگ گوشۂ نیم تاریک میں ایک بے حد خوبصورت شخص مانند خنزیروں کے غلاظتوں کو اپنی لپلپاتی زبان سے چاٹ رہاہے‘ معاً رکتا ہے،سیدھا ہوکر کھڑا ہوتاہے،انتہائی چمکیلی نگاہوں سے دوسری جانب گھورتا ہے اور اپنے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ ایک سمت میں ایسے سرمارتا ہے جیسے زہریلا ناگ اچانک پھنکاررہاہو۔وہ پھر رکتا ہے‘سنبھلتا ہے اور دوچار قدم آگے بڑھ کر شیر کی طرح انگڑائی لیتا ہوا ایسے چنگھاڑتا ہے جیسے بدمست ہاتھی اپنے پورے جوش میں چنگھاڑ رہاہو۔وہ پھر رکتا ہے ،دوچار قدم اور آگے بڑھتا ہے اور بالآخر ایک جگہ رک کر پھر اپنی زبان باہر نکالتا ہے اور اپنی لپلپاتی زبان سے دوبارہ غلاظتوں کو چاٹنا شروع کردیتا ہے۔اس بارسماقد خود حیرت سے اچھلتا ہوا سربخش کی جانب دیکھتا ہے:
’’دیکھا– دیکھا تم نے سربخش– یہ تو میری امیدوں سے کہیں زیادہ بڑی بقا ہے‘‘ ؎22
سماقد ’’تم ہماری تکوین کو نہیں جانتے۔ عالم اشیاء‘عالم عصر اور عالم بریہ میں سے کچھ بھی ہم سے مبّرا نہیں۔ پھر ایک دائرہ محض کی اوقات ہی کیا۔ ؎ 23
—طویل وقفہ تاریک—
تاریکیوں میں ہلکی ہلکی روشنی‘
سماقد اور سربخش کے طویل القامت سائے‘
قدموں میں حور کے کئی ہیبت ناک ٹکرے‘
مگر ہر ٹکرے سے ایک نئی حور کی برآمدگی،
کسی ٹکرے پر آہنی حور ،
کسی پر نباتاتی ،
کسی پر جماداتی ،
کسی پر آتشی ،
کسی پر فضائی ،
مگر کسی ایک ہی ٹکرے پر مختلف حیوانی و انسانی و جناتی وبین المخلوقاتی وماحولیاتی
یعنی ایک عجیب المخلوق حور نظر آتی ہے ۔ ؎ 24
بسیط تاریکیوں میں سے ایک گوشۂ تاریک جو کہ تاریک تر ہے ذراذراسا روشن ہوتا
ہوا………
جہاں سماقد کے دیو قامت پائوں کے دیو قامت ناخن میں تیرتی ایک دوسری نو خیز
حور………………،
چہار جانب نئی نئی خوبصورت نہریں‘
اور نئے سبز زار کنارے جلوہ افروز ہورہے ہیں………! ؎ 25
حالیوں کے منفرد وممتاز طرزِ بیان اور بلیغ، تخلیقی زبان کے علاوہ مقدمہ حالیہ ’’حالیہ کی شعریات‘‘ اور ’’حالیہ کی ایجاد‘‘ کی تنقیدی زبان اور اس کے اعلیٰ نمونے بھی ملاحظہ فرمائیں۔
کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ تحریر میں زندگی نہیں ہوتی؟ تحریریں قوت و صلاحیت، صورت و کیفیت، رس رنگ اور آواز سے عاری ایسی بے جان لکیریں ہیں جن میں اشیاء کا وجود نہیں ہوتا؟ پھر ان میں دنیا بھر کی ایسی ترجمانی کہاں سے پیدا ہوتی ہے جو جیتی جاگتی دنیا کو تہہ و بالا کرنے کی تاریخ سے بھری پڑی ہے۔ تحریر کے بجائے بولی، زبان، کلمہ، لفظ اور تصور کے بارے میں بھی ایک آواز کی خاصیت کو چھوڑ کر کیا ہمارا استدلال یہی ہوگا؟ مگر ذرا ٹھہرئیے! ؎ 26
یہ کہنا آسان نہیں ہے کہ فن براہ راست کا خاصہ یہ ہے کہ اس میں اصل یا نقل جو کچھ ہے وجودی طور پر زندہ و مجسم اور واقعاتی طور پر قطعی ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہ بھی نقل کی ہی ایک شکل ہے، یعنی حقیقت نہیں ہے بلکہ بقول افلاطونؔ حقیقت سے تین منزل دور ہے۔ ایک بار پھر یاد کیجئے، افلاطونؔ کی اس بصیرت کو کہ فن حقیقت سے تین منزل دور ہے، کبھی رد نہیں کیا جاسکا۔ سوائے اس تاویل کے کہ فن کی بھی اپنی اہمیت ہے اور بس۔ تو فن میں بھی حقیقت کی جھلک ہو یہ ممکن ہے مثلاً فن میں چاند کی تصویر تو ممکن ہے مگر تصویر میں خود چاند؟ البتہ یہ دلچسپ ہے کہ فن ہمیشہ سے حقیقت کو متوجہ و متاثر کرنے کی ازلی خصوصیت سے عبارت ہے۔ آدمی یا سماج حقیقی ہیں مگر فن اپنے وسیع تر معنوں میں جس میں سائنٹیفک عملی و تکنیکی اقدام بھی شامل ہیں، آدمی یا سماج کو بحسن و خوبی متاثر کرتا رہا ہے۔ اگر میں یہ عرض کروں کہ حقیقتوں کی ریاست میں فنون اور فنون کے علاقوں میں حقیقتیں بھی ہیں تو آپ کو متعجب نہیں ہونا چاہئے۔ دینیات کی رو سے بھی کائنات کے تمام منظر نامے اور لمحات ایک پلاٹ کے تحت مقرر ہیں۔ چاند کی مجال نہیں کہ سورج کو جالے اور سورج کی کیا مجال کہ دوسرے سیاروں کو خلل پہنچائے۔ سبھی اپنے اپنے دائروں میں تیر رہے ہیں۔ ہر شئے کی عمر اور ادا مقرر ہے حالانکہ عمر کی عمر اور ادا کی ادا بھی طے شدہ ہے۔ چیزیں بنتی اور مٹتی رہتی ہیں جیسی کہ وہ مقرر ہیں اور بالآخر تمام چیزیں جو کہ فانی ہیں اپنی فنا کو پہنچ جاتی ہیں۔
تو کیا پوری کائنات ایک فن پارہ ہے؟ وہ فن پارہ، جس کی ایک ابتدا ہوتی ہے، ایک انتہا اور بالآخر ایک اختتام۔ نہیں، کیوں کہ کائنات ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ یعنی کائنات وہ ٹھوس حقیقت ہے کہ اگر اپنی تخلیقی ترتیب کے لحاظ سے ایک فن پارہ کے مصداق ہے تو اس لحاظ سے کائنات کے تمام فن پاروں اور شاہ کاروں کا مولد ومسکن بھی ہے۔ تو کیا حقیقت کے اسی احساس و ادراک سے سوانگ کی عقل آئی؟ بے شک فنون نقل حقیقت ہیں لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فنون وہ نقل حقیقت ہیں جو حقیقت ازلی میں شامل اور اس کا حصہ ہونے کے سبب عناصر حقیقت بھی ہیں۔ حالانکہ ارسطوؔ کی دانشوری (بس اتنی تھی) کہ فن کی اہمیت و افادیت بھی مسلم ہے، نتیجہ خیز اور ثمر آور تو ہے مگر پھر بھی یہ افلاطونؔ کا جواب نہیں ہے ۔ ظاہر ہے راقم الحروف سے قبل افلاطونؔ کی تردید تقریباً ناممکن رہی ہے۔ ؎ 27
لفظ ’’حالیہ‘‘ میں دیگر رموز کے علاوہ کچھ چیزیں اوربھی ہیں۔ مثلاً وہ حال جو جدید ترین حالات کا نچوڑ ہو اور جس کا اسلوب باریک ترین کیفیات کا محلول ہو ۔وہ حال جو صاف طور پر قال کی ضد ہو ۔جس میں صرف بات ہی بات نہ ہو ،بیان ہی بیا ن نہ ہو بلکہ جذب و انجذاب کی کیفیات ہوں ۔اعمال و انکشافات ہوں ،مسلسل انہماک ہو ،ابتلاء و القاء ہو ،ورود و نزول ہو ،دورہ ہو ،استغراق ہو،ایک حالت خاص ہو ،ایک کیفیت مخصوص ہو ،موجودہ وموجود ہو ،حاضر وناظر ہو ،زندۂ و پائندہ ہو ،تحرک و تغیر ہو ،عشق و جنون ہو اور جاری و ساری ہو ۔جس میں اب، ابھی، ابھی تک، اب تک، اب سے، ابھی سے، تازہ ترین، نچوڑ، محلول، محل، نتیجہ، عین موقع، عین عہد، عین وقت، حاصلِ حال، ابتک کا حاصل، مکمل ترین، سب سے قریب، ناگزیر، ضرورتِ عام وخاص، مجموعۂ احوال، سب سے نادر، بے نظیر وبے مثال، سب سے جدا، بے بدل، سب سے منفرد، سب میں ممتاز،سب میں اکمل ، عظیم ترین ،حاصل الحصول، مابعد دریافت، مابعد انکشاف، مابعد استنباط، وغیرہ وغیرہ بھی ہو ۔ ؎28
غالبؔ نے کس قدربیش قیمت مصرعہ کہا ہے ؎ عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے۔ مگر حالیہ میں نہ صرف آرائش خیال بلکہ نظامِ عمل و لائحہ عمل بھی ہے۔ نظامیات، انتظامیات، اخلاقیات، دینیات، سماجیات، سیاسیات اور سائنسیات بھی۔ پلاٹ، شاعری، اداکاری، مناظر، تصادم، نقطۂ عروج، آغاز، انجام، تحریر، تحقیق، مکالمہ، تنقید، خطاب، بیان تقریباً سب کچھ۔ یعنی حالیہ بہ معنی سر چشمۂ اصناف ؍مجموعۂ اصناف۔۔۔ سر چشمۂ فنون؍ مجموعۂ فنون ۔۔۔ مجموعۂ علوم اور مجموعۂ اعمال۔ ؎29
کیوں تصور ماورائے فنون بھی ہے، اندرون فنون بھی، برائے فنون بھی ہے، مقتضائے فنون بھی اور تصور بنیاد فنون بھی ہے۔ تصور میں عمل تو ہے ہی توصیف عمل بھی ہے۔۔۔ ؎ 30
اندازہ کیجئے کہ تصور کی دنیا کتنی وسیع و عریض ہے۔ جس قدر میں بیان کررہا ہوں اس سے کہیں زیادہ۔ تصور یعنی منبع رمزیات ،تصور یعنی منبع علامات واستعارات، تصور یعنی منبع مجموعات اورسرچشمۂ کائنات ازاول تا آخر جاری و ساری! حیرت ہے کہ اس تصور کو لغات نے صرف خیال، شکل، تصویر، نمائندگی یا ترجمانی بتا کر تمام کردیا ہے۔ ؎31
’’نئی آمد اپنے ساتھ جو خداداد اور عظیم نشانیاں لاتی ہے حجت کے ستر پر دوں میں ملبوس کر کے بھی انہیں قدیم ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ امر بھی مسلم الثبوت ہے کہ ادبِ عظیم کے بطن سے ہمیشہ نئے معانی، نئی اصطلاحیں، نئی تعریفیں اور نئے نئے زاوئے روشن ہوتے ہیں۔ پہلی نظر میں یہ چیزیں اجنبیت اور بے توجہی حتیٰ کہ شدید مخالفت کا شکار بھی ہو سکتی ہیں لیکن رفتہ رفتہ ان کا رنگ غالب آہی جاتا ہے۔ پھر ان غالب رنگوں کے فیض سے نئی تنقید، نئی بوطیقا (نیا قاعدہ) اور اس کا نیا جہان و جودپذیر ہوتا ہے اور پھر انہیں رنگوں کے صدقے کتنے ہی لوگ بلبل تنقیدبن کر چہکنے لگتے ہیں۔ بہ ایںہمہ۔۔۔ ادبِ عظیم کا عالم اس ماورا کی طرح ہوتا ہے جو تعریف یا تنقیص کے برہماستروں کو موتیوں کی مالابنا کر اپنے گلے میں ڈالتا اور ہنوز بلند اور ہنوزگہرا محسوس ہوتا چلا جاتا ہے۔ حالانکہ وہ بے نیازجب چاہے تعریف یا تنقیص میں سے کسی کو بھی اپنے قدموں میں مخملی قالین کی مانند بچھا سکتا ہے۔‘‘ ؎ 32
نظریۂ تصور
(۱) تصور کسی بھی میڈیا کی بنیاد ہے۔
(۲) تصور منبعٔ رمزیات ،منبع مجموعات، سر چشمۂ کائنات از اول تا آخر جاری و ساری ہے۔
(۳) تصور کے اسکرین سے بڑا اورکامل پوری کائنات میں کہیں کوئی اسکرین و اسٹیج نہیں ہے۔
(۴) کائنات کی تمام حقیقتوں میں،امورمیں، اشیاء میں، کاوشوں، کارناموں یا نقل و فنون کی جڑ میں تصور یا کسی تصور کی کوئی جہت ضرور کارفرما ہے۔
(۵) کائنات بذات خود ایک تصور ہے۔ اور بہ ایں معنی تصور محض ایک خیال نہیں رہ جاتا جیسا کہ لغات میں مذکور ہے بلکہ یہ اصلِ عزم و عمل اور اصلِ اسرار و امکانات کی بے شمار و لا محدود منزلوں سے گذرتا ہوا از خود تحریکِ کل اور کارنامۂ عظیم بن جاتا ہے۔
نظریۂ تصوراتی ڈراما
(۱) جس طرح لفظی بنیادوں پر دیگر اصناف اور کائنات کی تمام چیزیں سرتاپا تسلیم کی جاتی ہیں ڈراما بھی تصور شدہ اور تسلیم شدہ ہے۔ البتہ ایسے ڈراما کو ’’اسٹیج ڈراما‘‘ کے نام سے یکسر مختلف ’’تصوراتی ڈراما‘‘ کے نام سے مشہور کیا جانا چاہیے۔
(۳) لوگوں کی بصیرت، عقل و دانش اور دماغ کو اسٹیج تسلیم کیا جائے اور حسب موقع و محل پوری کائنات کو اسٹیج اور کائنات کی ہر شئے کو ’’کردار‘‘ تسلیم کیا جائے۔
(۳) کائناتی ڈراما ہی تصوراتی ڈراما ہے اور تصوراتی ڈراما غیر اسٹیجی ڈراما ہے ۔ اس Non-stageکا تعلق کسی بھی طرح مروجہ اسٹیج سے نہیں بلکہ خالصتاً تصورو ادب سے ہے۔ ؎33
نظریۂ حالیہ
(۱) ایک ایسی واقعاتی صنف جو ادب میں اسٹیج کا نعم البدل بھی ہواور جس میں چیزیںزندہ و متحرک محسوس ہوں۔
(۲)ایک ایسی صنف جس میں انسانوں یا حیوانوں کی طرح دیگر مخلوقات یعنی جانداروں کے علاوہ غیر ذ ی روحوں اور مظاہر فطرت مثلاً سورج ،چاند ،ستارے ، درخت ،سمندر ،ہوا ،طوفان ،پانی ،بارش ،روشنی ،تاریکی ،آوازیں ،احساسات و کیفیات وغیرہ کو بنیادی اور کلیدی کردار کی حیثیت حاصل ہو سکے۔
(۳)ایک ایسی صنف جس میں تمام اصناف کا امتزاج بھی حسب ضرورت ممکن ہو مگر صنف واحد بھی جہاں زمانۂ حال ہی میں واقع ہو۔چنانچہ ماضی و مستقبل کو بھی زمانۂ حال میں پیش کرنے والے ’’ حالیہ‘‘ کی ایک ہیئت کے اندرمختلف و متعدد ہیئتوں کا انضمام ہو سکتاہے ۔
(۴) ’’حالیہ‘‘ کیلئے اجزائے ترکیبی حالیائی روشنی میں طے ہوں گے۔ حالیہ کی اجزائے ترکیبی اندرون مقالہ ملاحظہ فرمائیںاور ذہن نشیں رکھیں کہ و ہ حال جو جدیدترین حالات کا نچوڑ ہو اور جس کا اسلوب باریک ترین کیفیات کا محلول ہو ،’’حالیہ‘‘ ہے ۔
(۵) ’’حالیہ‘‘ اپنی انتہائی منفرد خاصیت (Specialization)کے ساتھ سرچشمۂ اصناف؍ مجموعۂ اصناف ،سر چشمۂ فنون؍ مجموعۂ فنون،مجموعۂ علوم اور مجموعۂ اعمال بھی ہے۔
(۶) ’’حالیہ‘‘ کا جواز دیگر اصناف مثلاً مروجہ شاعری یا روایتی افسانہ وغیرہ کے جواز سے بہت زیادہ ہے۔
(۷) ’’حالیہ‘‘ طویل ترین ہو سکتا ہے اور محض چند الفاظ پر مبنی بھی حتیٰ کہ ایک جملہ بھی اس کے لئے کافی وشافی ہے مثلاً طویل ترین حالیہ ’’سحر مبین ‘‘اور یک جملہ حالیہ ’’رنگ ہائے کیف‘‘وغیرہ۔و ما علینا الاالبلاغ!؎ 34
اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ابتداہی سے قدرتی مناظرومظاہر میںمیری گہری دلچسپی رہی ہے ۔ یہاں تک کہ یہ میرے مزاج کا حصہ بن گئے ۔ بچپن ہی سے یہ میرے دل ،دماغ اور روح کی گہرایئوں میں اترتے،مجھے حیران وپریشان کرتے،میرے شوق وتجسس کو گدگداتے اور طبیعت کو گہراتے رہے ہیں ۔مجھے یاد ہے ،میرے محلہ قلعہ گھاٹ (شہردربھنگہ)سے ہوکر ایک ندی باغ متی گذرتی ہے ۔ جس میں نہانے کے بہانے کئی کئی گھنٹوں اور کبھی پورے پورے دن ندی میں ،ندی کے کنارے آم کے باغات اور متصل کھیتوں میں گھوماکرتا۔ندی میں تیرتے ہوئے ندی کی ہیئت اورہیبت سے لطف اندوز ہونامیراپرانا مشغلہ تھا۔کبھی سانس روکے رکھنے کے چکر میں ندی کی گہرائیوں میں اترکر،آنکھیں کھول کھول کر پانی کے اندر کی عجیب عجیب چیزوں کو دیکھنے ،سمجھنے ،محسوس کرنے اور محظوظ ہونے کی کوششیں کرتا۔اسی طرح،ندی کی لہروں پرکھیلنا،اس کے اچھلتے مچلتے پانی سے مکالمہ کرنا ،جی ہاں، ندی سے مکالمہ کرنے کی دیوانگی بھی اچھی لگتی تھی ۔ کبھی تنہائیوں میں آم،لیچی، کھجور، امرود، املی، پپیتا، پیپل اوربرگدوغیرہ کے درختوں سے ،کبھی سورج اور اس کی تپش سے ،کبھی اڑتے بادلوں اور برسات سے ،کبھی ہواؤں سے، برف سے ،کہاسہ اور شبنم سے ،کبھی فجرکے فرحت بخش خوشگوارروحانی لمحوں سے ،کبھی رنگ برنگی چہچہاتی چڑیوں سے توکبھی سکوت اورسناٹوں سے ،رات کی گہری گہری تاریکیوں سے ،آسمان کے حیرت ناک نظاروں سے ،جگنو،چاند،ستاروں سے چپکے چپکے گفتگو کرنا، پہروں محوگفتگو رہنا اور انکی ہزارہا کیفیات کو روح کی گہرائیوں تک محسوس کرنامجھے عزیز رہاہے ۔ مختصر یہ کہ شروع ہی سے میں فطرت کادیوانہ قدرت پر فریفتہ رہاہوں ۔ ؎35
میں ان سوالوں سے نبرد آزمارہاکہ جب کردار کی ادائیگی اور اداکاری صرف انسان ہی کے رگ وپے میں نہیں بلکہ ہر ذرۂ کائنات،تمام اشیائے موجودات اور کُل جزئیاتِ مظاہرفطرت میں موجودومخصوص ہے تو پھر صرف مروجہ اسٹیج ہی پر اور صرف انسان ہی کے ذریعہ سے اس کے اظہارپردنیااتنی بضد کیوںہے؟ انسانوں کے علاوہ دنیابھر کے جانداروں اور غیر جانداروں کو بھی ذریعہ اظہار وکردار کیوں نہیں سمجھتے ، اور اگرسمجھتے ہیںتواس پر ایمان کیوں نہیں لاتے؟ ایسے دقیق سوالوں سے ایک زمانے تک الجھتارہاہوں بلکہ اس سے متعلق مختلف اقسام کے اپنے انکشافات سے بھی نبردآزما رہاہوں۔تو کیا واقعی اہل ادب کے درمیان بہت اکیلا اور بہت مختلف ہوں؟ ایسے ہی کچھ پریشان کن سوالوں سے ایک دن گھرا ہوا تھا کہ اچانک میرے ذہن کے راڈار سے ایک مصرعہ ٹکرایا ؎
سکوت ِ لالہ وگل سے کلام پیداکر
مَیں ایکدم سے ٹھٹھک گیا ۔ غور سے اس دیوقامت مصرعہ کی طرف دیکھا۔ صاف محسوس ہوا کہ یہ تومیرے دیرینہ انکشافات کی کھلی تائید کررہاہے۔ میرے دل کے سمندر میں ولولوں کا ایک طوفان برپا ہونے لگا تو رفتہ رفتہ کچھ اور اشعار بھی میری طرف پنکھ پھڑپھڑا نے لگے۔ جیسے جیسے وہ اشعار میرے قریب آتے رہے ،محسوس ہوتارہاکہ یہ تو سب کے سب دنیائے ادب کے مایۂ ناز شاعر علاّمہ محمد اقبالؔ کے خیالات ہیں۔ ؎36
ا ب میں آپ کو بتاؤں کہ مذکورہ خیالات اوراس پائے کے دوسرے بہت سے خیالات جو خود میرے دل میں کسی پھول کی مانند کھلتے رہتے تھے، خیال کی حدتک تو بڑے سہل اور سحر آفریں معلوم ہوتے تھے مگر سکوت ِواقعی کوزبان بخشنے اور لالہ وگل کو حقیقی کرداروں میں ڈھالنے کی تدبیرکر ناپہاڑ کاٹ کر دودھ کی نہر نکالنے سے کم نہ تھا۔ اس کے باوجودکہ یہ ایک کار زیاں ہی تھا۔ بڑے گھاٹے اور نقصان کا سودا۔ اس لئے کہ اس پہاڑتوڑ کا رنامہ کے باوجود کسی قسم کا انعام واکرام نہیں ملنا تھا۔ ظاہرہے ایسے کاموں کو صرف ایک مجاہد ،ایک عاشق، ایک دیوانہ یا ایک فقیر ہی انجام تک پہنچا سکتاتھا۔ مَیں نہ مجاہد تھا ،نہ عاشق ، نہ دیوانہ، نہ فقیر۔ پس یہ کہ میری تقدیرمیں نیرنگیٔ فطرت سے عشق، فطرت کی جلوہ سامانیوں سے عشق، قوتِ نموئے فطرت سے عشق، جی ہاں، قوتِ نموئے فطرت سے عشق لکھا جاچکا تھا۔ پس اسی لئے میں نے بھی اسی جنون بھرے ا جتہاد اور اجتہاد بھری دیوانگی کو پسند کیا اور سمندر بھر سوچنے کے بعد قطرہ بھر لکھ کر ہمیشہ کے لئے مطمئن ہوگیا۔ ؎37
۔’’سحرمُبین‘‘ کی اشاعت کے ایک ڈیرھ سال بعد ایسی ہی کسی کیفیت میں ایک دن پھر مبتلا تھا،شایدایک عالم استغراق میں کہ میرے ذہن کے اسکرین پرا یک مصرعۂ نادر ابھرااورجگمگانے لگا ؎
عالم تمام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حلقۂ ِدام خیال ہے
میں حیران رہ گیا۔سوچنے لگاکہ مجھ کم نصیب کے سوا یہ کون خوش نصیب ہے جوخیال کا اس قدر خیال کررہاہے۔ میرے سوایہ خیال اورکس کے خیال میں آسکتاہے ؟احباب کے مزاج کو دیکھتے ہوئے میرے لئے یہ غیر متوقع، ناقابل یقین ،حیران کن اورتعجب خیزتھا۔میں نے سوچا ،یا اللہ ہمارے شاعروں کو آپ نے یہ کیا کیا عطاکردیا ہے ۔مجھے تو لگتاہے کہ خود غالبؔیکتائے روز گار کو بھی یہ خیال نہ آیاہوگاکہ کیسے کیسے نادرالخیال مضامین انکی شاعری میں درآئے ہیں۔بہر حال مَیں پورے دن خوشی سے جھومتارہا کہ چلو،بعض اہلِ اد بِ اردونے مجھ افسردہ کو افسردہ کیا تو کیا،ایک غالبؔ یکتائے روز گارجو میرے تصور اعلیٰ وبالا کی تائید کررہا ہے تویہی کیاکم ہے۔یوں میرے اس اجتہاد کی بھی تصدیق ہوگئی کہ:
’’تصور کے اسکرین سے بڑااور کامل پوری کائنات میں کہیں کوئی اسکرین واسٹیج نہیں ہے۔ ڈرامہ اسی لئے فرض کرنے کی چیز بھی ہے اورمتصور کرنے کی چیز بھی ۔ اپنے Dramatic Streemمیں ذہن سے دیکھنے والی بھی ،ذہن کو دکھانے والی بھی ،لامحدود بھی ،لامختتم بھی۔‘‘ یا
’’لوگوں کی بصیر ت ، عقل ودانش اور دماغ کو اسٹیج تسلیم کیاجائے اور حسبِ موقع ومحل پوری کائنات کو اسٹیج اور کائنات کی ہرشئے کو ’’کردار‘‘تسلیم کیاجائے ۔‘‘(مقدمہ سحرمُبین) ؎38
مجھے لگتا ہے کہ ہر نئی صنف کو خواہ وہ کتنی ہی خوبیوں سے مالا مال ہو، مروجہ اصناف کے مقلدین کی جانب سے بے رخی ، استہزا ، نکتہ چینی یابے جا اختلاف کا کرب جھیلنا ہی پڑتا ہے۔موجد ،اپنی ایجاد واختراع میں خواہ کتنا ہی خالص و مخلص ہو ،خون جگر سے اور غیر معمولی طور پر اپنی کاوش و اختراع کی تشکیل و تکمیل کرتا ہو اور اپنے وقت کا خواہ سب سے بڑا مجددو مجتہد ہو ،ہم اس کا استقبال ممنونیت کے پھولوں سے نہیں ،ناشکری کے کانٹوں اور نا قدری کے پتھروں سے کرتے ہیں۔ ؎39
ذی علم حضرات جانتے ہیں کہ کسی ایجاد واختراع کی تشکیل و تکمیل کی اہمیت اور خصوصیت (Merit)ایک چیز ہے اور اس ایجادو اختراع کا فروغ اور Marketing ایک دیگر موضوع ۔اللہ کے فضل و کرم سے میںنے اب تک جو کچھ کیا ہے ،ڈنکے کی چوٹ پر کیا ہے اور اس وقت بھی انتہائی خلوص کے ساتھ یہ عرض کرتا ہوں کہ دنیا کا کوئی بھی ایماندار اور ذی شعور شخص ’’حالیہ‘‘ کی ایجاد کو جسے بہ فضلہ تعالی مَیں کامیاب ثابت کرچکا ہوں ،ناکام ثابت نہیں کرسکتا۔ رہی کٹ حجتی ،تو وہ اس خاکسار کو زیب نہیں ۔چمگادڑکی آنکھ میں ایک عظیم آفتابِ تازہ بھی اگر ایک رتی بھر نظر آئے تو اس میں قصور کس کا؟چمگادڑ کی آنکھ کی اوقات یا بینائی کایا سورج کی بڑائی کا ؟؟ ؎40
تاریخ لکھنے والوں کو مؤرخ کہلانے کا شوق تو بہت ہوتا ہے مگر اکثر اہل قلم مؤرخ کہلانے کے لائق ہوتے نہیں ہیں۔وہ مرتب ہواکرتے ہیں ۔کیونکہ مرتب اپنی پسندو ناپسند کے انتخاب سے کام لے سکتا ہے اور لیتا ہے ۔مگر ایک ایماندار مؤرخ کے قلم کو اپنے ذاتی اختلافات یا ناپسندیدگی سے مبرّا ہوناچاہئے۔ ایک دیانتدار مؤرخ کے پیش نظر فنکار اور اس کے فن تک بہر صورت رسائی ہونی چاہئے اور اسے اپنے چہیتوں کے علاوہ پرایوں تک، دوستوں کے علاوہ دشمنوں تک اور’ معروف‘ کے علاوہ ’غیر معروف‘ تک بھی پہنچنا چاہئے۔ مگر یہاں تو مؤرخین کا قلم نہ صرف اپنی ذاتی ناپسندیدگی اور اختلاف رائے میں ڈوبا ہوتا ہے بلکہ اپنے دوستوں اور چہیتوں کی ناپسندیدگی اور اختلاف رائے سے بھی بندھا ہوتا ہے۔ اسی طرح مروجہ اصناف سخن پر تو سیمینار وکانفرنس ہوتے رہتے ہیں مگر اختراعات وایجادات پر بھی سیمینار وکانفرنس ہوتے ہوں، مجھے نہیں معلوم۔ تو اس وجہ سے بھی نئی اصناف پر گفتگو عام نہیں ہوپاتی اور لوگ نئی اصناف کے اسرار ورموز سے باالعموم ناآشنا رہتے ہیں اور اس سے خاطر خواہ استفادہ نہیں کرپاتے۔ ؎
۱۔ ایک نئی واقعاتی صنف کے طور پر ’’حالیہ‘‘کی ایجاد ہوئی ہے۔
۲۔ ’’حالیہ‘‘اپنے پہلے لفظ سے آخری الفاظ تک زمانہ ٔ حال میں ہے اور از اول تاآخر اس کے الفاظ آپکو ’’بتانے‘‘کی جگہ‘‘دکھانے‘‘کے فرائض انجام دیتے ہیں۔یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ جدید ترین حالات کے نچوڑ اور اس کی باریک ترین کیفیات کے محلول کو ’’حالیہ ‘‘ کہتے ہیں۔
۳۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں کہ ایک ’’حالیہ‘‘کے اندر کسی ایک صنف کی خوبی یا متعدد صنفوں کی خوبیوں کا استعمال کیا جائے ۔ اسی طرح مجھے کوئی اعتراض نہیں کہ ایک افسانہ جب حالیائی اسلوب میں لکھا جائے تو اسے حالیائی افسانہ کہا جائے یا کوئی ڈرامہ حالیائی انداز سے لکھاجائے تو اسے حالیائی ڈرامہ کہا جائے یا حالیائی طرز میں لکھی گئی شاعری کو حالیائی شاعری(مثلا حالیائی نظم،حالیائی غزل وغیرہ) کانام دیا جائے ۔
۴۔ ’’حالیہ‘‘میں ہرذرہ کائنات (ذی روح+ غیر ذی روح)کے رول کی قوت ووسعت ہے ،آپ حسب منشا کسی ایک یا متعدد کا استعمال ان کے ماحول، کیف وکم اورحسّ وسکوت کے اشتراک کے ساتھ کرسکتے ہیں۔
۵۔ اسٹیج کی قدیم روایت سے اجہتاد کرتے ہوئے قدیم اسٹیج کے وجود کے بدل کے طور پر انسانی ذہن وتصور کے وجود کو اسٹیج تسلیم کیا گیاہے، لہذا اس تصوارتی اسٹیج پر ہرشئے خواہ جاندار ہو کہ بے جان کہ مناظرو مظاہر، فقط لفظوں سے تشکیل پاتے ہیں ۔یعنی ہر ایک شئے کا وجود خیالی وتصوراتی یعنی خالصتاً لفظی وادبی ہے۔
’’حالیہ‘‘ کے ضمن میں میری مذکورہ وضاحت کے بعد ،مجھے یقین ہے کہ لوگ مجھ سے کہیں زیادہ بہتر طور پر اب ’’ حالیہ‘‘ کی تعریف وتوصیف بیان کرسکیں گے۔پھربھی، اگر ایک جملہ میں’’ حالیہ‘‘ کی تعریف (Definition)مقصود ہو تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ، ایک ایسا تصوراتی کمال جس میں کائنات کے کسی ایک جانداریاجانداروں ،کسی ایک ذرہ یاذروںبشمول مظاہر قدرت ومناظرفطرت کی ایسی مشترکہ کردارسازی جواپنے پہلے لفظ سے آخری الفاظ تک صرف زمانہ ٔ حال میں ہو اور صرف ’’دکھانے‘‘ہی کی طرز میں ہو ،جدید ترین حالات کا نچوڑ اور ان حالات کی باریک ترین کیفیات کا محلول ہو،خواہ نثر میں ہو کہ کلام منظوم میں،خواہ طویل ترین ہو کہ مختصرترین ، ایک نئی واقعاتی صنف ’’حالیہ‘‘ ہے۔ ؎41
فن پارہ ایک ایسے پھو ل کے مصداق ہے جسکی خوشبو توموضوع یا Contentہے مگر خود پھول(یعنی فن )اس کا ذریعہ اظہار ہے۔ اسی طرح فن اس جسم کی مانند ہے جسکی روح تو موضوع ومسئلہ ہے ، جوکہ ظاہر ہے بنیادی چیزہے اور پیرایہ فن کا سبب بھی ہے ، مگر مسائل کومؤثر طریقہ سے پیش کرنے کیلئے ایک دل نشیں،اثر آفریں، خوبصورت اور پرکشش ذریعہ اظہارتوفن ہی ہے۔ اس طرح معلوم ہواکہ کسی فن پارہ کی بنیاد پر بحث لازماًہونی ہی چاہیے۔ مثلاً حالیہ ’’سحرمبین ‘‘یا ’’شاہکارآمد‘‘ کے Contentیا موضوع کی اہمیت و افادیت پرگفتگو ہونی چاہئے ۔اسکی بلندفکری یا پست فکری پر ، اس کے پیغام ، مقاصد اور نصب العین کی درجہ بندی پرگفتگولازماًہونی چاہئے۔اس کے بعد اس کے اندازِ پیشکش یا پیرایۂ فن یاہیئت صنفی پر گفتگو ہوتوبہترہو ۔یعنی میں یہ عرض کررہاہوں کہ’’ ساز باز نازراز‘‘یا ’’میں ماورا‘‘ یا ’’عجیب المخلوق‘‘یا ’’ایجادات‘‘کو وجود میں لانے کا مقصد کیا ہے؟ اس کی فکر کس درجے کی ہے ؟اس کا پیغام کیا معنی رکھتاہے؟ اس بنیادی نقطہ نظر پر گفتگو ہونی چاہئے ،نہ کہ ہمارامقصد صرف فنی وہیئتی گفتگومیں الجھ کررہ جانا، ہونا چاہئے۔ لیکن افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتاہے کہ کسی فن پارہ کے بنیادی نقطۂ نظر کو، آج کل نظر انداز کرنے کا ایک مزاج سابنتاجارہا ہے ۔آپ دیکھیں گے کہ ادبی اختراعات و ایجادات پر گفتگو کرتے ہوئے سب سے زیادہ اور سب سے ہلکی اور غیر سنجیدہ گفتگو ہیئت پر کی جاتی ہے ۔ ؎ 42
کسی قوم کی تنزلی کے اسباب اگر یہ ہوں کہ وہ فنی طو رپر قدامت و روایت کی اسیر ہوجائے اور فکری لحاظ سے اس کے خیالات سطحی و بازاری ہوجائیں تو یقینا اس قوم کی ترقی کے اسباب یہ ہوں گے کہ تفکر اتی سطح پر وہ بلند افکار اور فنکارانہ طورپر ندرت پسند،جدت پسند، اجتہاد پسند اور ایجادات پسند ہوجائے!! ؎43
’’حالیہ‘‘ پر بطور نمونہ مشاہیر کی قیمتی آراء ملاحظہ فرمائیں۔’’حالیہ‘‘ کے متعلق شمس الرحمن فاروقی فرماتے ہیں:
٭ اس کتاب کی تحریریں ایک نئی صنف سخن کی آمد کا مژدہ سناتی ہیں۔
٭ ان کے حالیے عہد حاضر کی گھنائونی سچائیوں، ظلم، استحصال اور دیانت کے فقدان کے خلاف احتجاج ہیں۔
٭اس میں شک نہیں کہ مبین صدیقی کا احتجاج اس وقت بہت پر زور اور ان کی برہمی بہت پرشور ہے۔
٭مبین صدیقی کی یہ تحریریں جنہیں وہ ’’حالیہ‘‘ کہتے ہیں، ایک طرح کاافسانہ کیوں نہ کہی جائیں؟
٭راب گرئے(Robbe Grillet)کے کئی افسانے اس طرح کے ہیں۔ ہمارے یہاں مین را نے ایسے افسانے لکھے ہیں۔
٭ یہ تخلیقی فن پاروں کا مجموعہ ہونے کے ساتھ نظری تنقید اور خاص کر ڈرامے کی نظری تنقید اور اصناف سخن میں ڈرامے کی حیثیت اور مرتبے کے بارے میں سوالات قائم کرتاہے۔
٭خالص ادبی اقدار کی روشنی میں دیکھاجائے تو مبین صدیقی کی یہ تحریریں ارتکاز اور بصری تخیل کے اچھے نمونے پیش کرتی ہیں۔ ان میں شدت احساس اور قوت اظہار کا وفور بھی ہے۔ انہیں جدید تحریروں کے کسی بھی مجموعے میں رکھاجائے، وہ ممتاز معلوم ہونگی۔
پروفیسر وہاب اشرفی رقم طراز ہیں:
٭مبین صاحب کی تخلیقات کی پرکھ کیلئے کسی مارٹن اسلن کی ضرورت ہے۔
٭ سچی بات تو یہ ہے کہ ایسی تخلیق جو ڈرامہ اور افسانہ کے بیچوں بیچ چلتی ہوئی نظر آتی ہے اس کی تفہیم کیلئے مجھے کوئی واضح صورت نظر نہیں آئی، لہٰذا ایک اہم نام کی جانب میں نے اشارے پر بس کیا۔
٭ مبین صدیقی کی فنکاری کی دنیا وسیع بھی ہے اور عریض بھی اور فن اپنے امتیازات واوصاف کی وجہ سے نہ صرف قابل لحاظ ہے بلکہ اردو کے تجرباتی ڈراموں کی تاریخ میں ایک اضافہ ہے ۔
٭اگر مبین صدیقی یہ کہتے ہیں کہ انہیں ’’حالیہ‘‘ سے منسوب کیاجائے تو مجھے کیا اعتراض ہوسکتاہے ۔ اس لئے کہ خالق خود ایسی فکر رکھتاہے کہ اسے اپنی تخلیقات کے لئے مروجہ اصطلاحیں ناموزوں اور ناکافی معلوم ہوتی ہیں۔
٭۔۔مبین صدیقی ’’سحرمبین‘‘میں لفظ لفظ مجتہد ہیں ، خون جگر سے اپنے فن کی تشکیل کرتے ہیں اور اس کی پرواہ نہیں کرتے کہ پڑھنے والوں کی جانب سے پھول آئیں گے یا پتھر۔مجھے کہنا ہے کہ ان کی ذہنی سطح جس طرح سامنے آرہی ہے وہ خاصی اختراعی ہے ۔
’’فرہنگ ادبیات‘‘ کے مصنف سلیم شہزاد کے مطابق:
٭’’An Experiment in Fictionکے ذیلی عنوان سے ’’سحر مبین‘‘ مبین صدیقی کے ایسے ادبی اظہار ات کا مجموعہ ہے جس پر ڈرامہ، افسانہ اور شاعری تینوں کے اثرات صاف دکھائی دیتے ہیں…افلاطونیت کا ڈسکورس مبین صدیقی نے تشکیل کردیا ہے …یہ انداز بھی فلسفیانہ مکالمت کے تیور رکھتا ہے …مبین کے معروضات افلاطون اور سقراط اور قواعدئین کی گفتگوکا تناظر پیدا کرنے والے ہیں …قواعد، لغت اور فلسفے کے توسط سے مبین نے ’’تصور‘‘کے جو لامحدود معنی بتائے ہیں وہ حالیہ یعنی موجودہ معنیاتی نہج پر سوچنے کی عمدہ مثال ہے ‘‘۔
عبد الصمد لکھتے ہیں:
٭نئے تجربو ں کی تاریخ میں ان کا نام تو امر ہو ہی گیا ہے ۔
٭مبین صدیقی اس لئے بھی قابل مبارک باد ہیں کہ انتہائی نامساعد حالات میں گھرے رہنے کے باوجود انہوں نے اپنی سوچ کی ہری کونپلوں کو کبھی مرجھانے نہیں دیااور اپنے لئے ایک ایسی تخلیقی راہ کو خلق کیا جہاں دور دور تک ان کاکوئی ہمسر نہیں ہے۔
٭در اصل ’’حالیہ‘‘ نامی ایجاد فکشن کی دنیا میں ایک نئی صنف کی ایجاد ہے جو صنفِ افسانہ، ڈراما اور شاعری کی مختلف خوبیوں کے باریک ترین انضمام اور تہدار فنکارانہ نظام کا ایک حیرت انگیز نمونہ ہے ۔آپ کسی بھـی حالیہ کا بغور مطالہ فرمائیں، صاف محسوس ہوگاکہ ’’حالیہ‘‘ کی تخلیق(Creation) ، ہیئت (form) اور ساخت (Structure) میں شاعرانہ اسالیب کی خصوصیت ، افسانویت کی کشش اور ڈرامائی کردار سازی کا بے مثل و بے مثال سنگم پایا جاتا ہے۔اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فکشن ادب (Fiction Literature)میںصنف حالیہ ایک ایسے کرشمائی درخت کی مانند ہے جس میں ایک ساتھ افسانہ، ڈرامااور نظم کے رنگ برنگے پھول کھلتے ہیں ۔حالیہ ،جوحال کی جڑوںسے شروع ہوکر حال کی لامختتم بلندیوں تک محیط ہے ۔ حالیہ ، جسے ذہن کے لامحدود اسکرین اور تصور کے لامحدود اسٹیج پر لفظوں کی آنکھوں سے دیکھا اور دکھایا جاسکتاہے۔حالیہ، جونہ صرف سکوت لالہ وگل سے کلام پیدا کرتاہے بلکہ یہ قدرتی و فطری مناظراور حالات و کیفیات کی کردار سازی کے ذریعہ ندرت فکر و فن کی رہ نمائی کے فرائض بھی سر انجام دیتا ہے ۔در اصل ’’حالیہ‘ ‘ میں استعمال ہونے والے الفاظ کے درمیان ایسی مقناطیسی کشش موجزن ہوتی ہے کہ اس کے تمام مشمولات انسانی دل ودماغ کے تصور پرکسی چلتی ہوئی فلم کی مانند محسوس ہونے لگتے ہیں ۔
حالیہ کا ایک مخصوص انفراد یہ بھی ہے کہ اس میں انسانی کرداروں کی طرح دیگر جانداروں،نباتات، حیوانات،چرندوپرند اورفطرت کی رنگارنگ وجودی علامتوں کو متحرک کرداروںکی شکلوں میں متشکل کیا گیا ہے۔جیسے روشنی،تاریکی، سورج ،چاند ،ستارے،آگ ، پانی ،ہوا، بادل، بارش، سمندر، جھرنا، موسیقی کی لہریں،تہہ بہ تہہ گونج ،خاموشی،سکوت، پیڑپودے، درخت ، ہریالی،مٹی اور پھل پھول جیسے تمام قدرتی نمونوں کو اچھے برے کرداروں (Roles)میںیعنی جھوٹے سچے، مثبت منفی،امیدوناامیدی، جنگ وجدال اور جہدوسکوت کے نتیجہ خیز اور باریک ترین کرداروں کی شکلوں میںنہ صرف متشکل کیا گیا ہے بلکہ دنیائے ادب میں ان قدرتی وفطری کرداروں کو پہلی بارفنکارانہ طرز میں قائم بھی کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے بھی، حالیہ ایک فن نایاب ہے۔
دنیائے ادب میںغالباً یہ بھی پہلی بار ہواہے کہ ایک نئی اختراعی صنف’’حالیہ‘‘ کے موجد اور بنیاد گزار مبین صدیقی نے تاریخِ ادب کو نہ صرف ایک انضمامی صنف کا تحفہ دیا ہے بلکہ اس نئی صنف نے ازخود اپنی جدید اجزائے ترکیبی، جدید تصورات ونظریات اورجدید قاعدہ وکلیہ(بو طیقا)کی تشکیل جدیدکے ذریعہ ایک جدیدترین Idiolکوقائم کیا ہے ۔یہاں یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ دنیا کا ہر بڑا فن پارہ اپنے نصب العین ، اپنی فکر ، اپنے بنیادی مزاج میں اثبات ، امید، خواب،خوشخبری،تعمیر اور رہنمائی کا استعارہ ہوا کرتاہے۔ہمارے لئے یہ بڑی خوشخبری ہے کہ مجموعہ حالیہ ’’ایجادات‘‘ کے تقریباً تمام حالیے آج کی تباہ ہوتی انسانیت کے لئے امن و سلامتی ، رہنمائی، اثبات، امید، خواب اور ارتقاء کے بہترین استعارے ہیں۔سچ پوچھئے تو عالمی سطح کے تباہ کن حالات کے لئے ایسے مثبت اندازحالیائی فن پاروں کی نہ صرف شدید ضرورت ہے بلکہ یہ حالیائی فن پارے مایوس کن طرز حیات کے لئے ایک بڑے امید افزا انقلاب کی قوت رکھتے ہیں۔خلاصۂ کلام یہ کہ انسانی کرداروں کے علاوہ غیر انسانی کرداروں کو زبان وبیان اور حرکات وسکنات دیکر اور قدرتی وفطری علامات کوکرداروں میں ڈھالنے کے ساتھ ساتھ فنِ حالیہ نے ایک نایاب اختراعی کارنامہ پیش کیا ہے۔
نیرّ مسعود
٭آپ نے فکشن اور ڈرامے کو مخلوط کرکے اچھی چیزیں لکھی ہیں۔
(۹)سلام بن رزاق
٭آپ کی سحر آفرینی نثر کا میں ہمیشہ قائل رہا ہوں ۔آپ اختلافی بات کو بھی مؤثر طریقہ سے پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور یہ ہنر کم لوگ جانتے ہیں۔
٭آپ کے قلم میں زبردست فشار ہے اور آپ کی قوت تخیل بے محابا ہے ۔
اقبال مجید
٭آپ کے یہاں ندرت ہے اور اسی کے ساتھ تازگی بھی ۔
پروفیسر عتیق اللہ
٭’’سحر مبین‘‘ کو خواہ آپ کچھ نام دیں، کتاب ایک ہے لیکن اس میں کئی افسانے اور کئی ڈرامے حل ہوگئے ہیں۔ اگر چہ آپ نے ایک ’’انضمامی صنف‘‘ سے متعارف کرانے کی کوشش کی ہے لیکن صنف کے روایتی تصور پر غور کئے بغیر بھی متعلقہ کتاب میں بڑی قوت ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تکنیک نامانوس اور نئی ہونے کے باوجود Readability میں کوئی فرق نہیں پڑا، یہ آپ کی تحریر کی بڑی خوبی ہے۔
٭آپ نے موجودہ لہو رنگ اور دہشت آگیں حالات کے جومنظر نامے خلق کئے ہیں ، وہ بے حد ڈرائونے اور ظلمت آگیں ہیں۔ ان سے اکراہ کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا بلکہ اپنے آپ سے نفرت ہونے لگتی ہے۔
پروفیسرعلیم اللہ حالی
٭مبین صدیقی مجھے بہت عزیز ہیں ۔اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ وہ غیر معمولی اختراعی ذہن کے مالک ہیں ۔ان کی تحریرمیں بے باکی ہے ۔اظہار و بیا ن پر انہیں حیرت انگیز دسترس حاصل ہے ۔ان کا انداز فکر اچھوتا ،منفرد اور اجنبی ہے ۔ان میں بے پناہ جرأت و بیباکی ہے ۔ان کی ساری دوستی و دشمنی کا مدارشعر و ادب اور نقد و بصر ہیں۔ان کا ذہن غیر اتباعی اور مجاہدانہ ہے ۔ان کی شخصیت فرسودہ اور روایتی اقدار سے پاک ہے ۔ادب کے حوالے سے ا ن میں ایک درویشانہ اور مجذوبانہ کیفیت کا احساس ہوتاہے ۔چنانچہ اس مکمل اخلاص اور انہماک کی بنا ء پر ان کی کئی باتوں سے اختلاف کے باوجود وہ مجھے بہت عزیز ہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ اردو ادب کی تاریخ میں ’’ایجادات‘‘ ایک یادگار اور عظیم اختراعی تحفہ ہے۔
٭٭٭
حواشی
-1 ہری کونپلیں ص 24،ایجادات،(مجموعہ حالیہ )موجد ومصنف:مبین صدیقی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی۔2018
-2 اے مصور، ص 30،ایضا
-3رت جگے، ص 166،ایضا
-4 بطن گیتی سے، ص 197 ،ایضا
-5ساز باز ناز راز ص 17،ایضا
-6 ہری کونپلیں ص 18،ایضا
-7چشم نوخیز ص 34،ایضا
-8 اگر فردوس برروئے زمیں است ،ص 35،سحر مبین ،مبین صدیقی ،ایجو کیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی،۴۰۰۲
-9 اگر فردوس برروئے زمیں است، ص 41،ایضا
-10 سبز نقطہ ص 64 ،ایضا
-11خاک شد ص 80 ،ایضا
-12خاک شد ص 81 ،ایضا
-13خاک شد ص 82 ،ایضا
-14خاک شد ص 82،ایضا
-15خاک شد ص 84 ،ایضا
-16شاہکار ص 94 ،ایضا
-17 ایجادات (مجموعہ حالیہ) ،ص 96 ، موجد و مصنف:مبین صدیقی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی۔2018
-18ایجادات ص 99 ،ایضا
-19سحر مبین (مجموعہ حالیہ ) ص 103 ،مصنف:مبین صدیقی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی۔2004
-20 سحر مبین ص 106 ،ایضا
-21 سحر مبین ص 111 ،ایضا
-22 سحر مبین ص 113 ،ایضا
-23 سحر مبین ص 113 ،ایضا
-24 سحر مبین ص 118 ،ایضا
-25 سحر مبین ص 118 ،ایضا
-26 حالیہ کی شعریات ص 197، اکسیر (تنقیدی مضامین )ما خوذ از مجموعہ حالیہ :ڈاکٹر مبین صدیقی ،بک امپوریم ،سبزی باغ ،پٹنہ۔2008
-27 حالیہ کی شعریات ص 197 ،ایضا
-28 حالیہ کی شعریات ص 212 ،ایضا
-29 حالیہ کی شعریات ص 213 ،ایضا
-30 حالیہ کی شعریات ص 218 ،ایضا
-31 حالیہ کی شعریات ص 219 ،ایضا
-32 حالیہ کی شعریات ص 220 ،ایضا
-33 حالیہ کی شعریات ص 225 ،ایضا
-34حالیہ کی ایجاد ص 227 ،ایضا
-35حالیہ کی ایجاد ص 229 ،(مجموعہ حالیہ )موجد ومصنف:مبین صدیقی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی۔2018
-36حالیہ کی ایجاد ص 234 ،ایضا
-37حالیہ کی ایجاد ص 236 ،ایضا
-38حالیہ کی ایجاد ص 244 ،ایضا
-39حالیہ کی ایجاد ص 246 ،ایضا
-40حالیہ کی ایجاد ص 247 ،ایضا
-41 حالیہ کی ایجاد ص 248 ،ایضا
-42حالیہ کی ایجاد ص 255 ،ایضا
-43حالیہ کی ایجاد ص 257 ، ایضا
Dr. Khan Mohd Rizwan
D-307, M.M.I.P
Abul Fazl Enclave, Jamia Nagar
New Delhi 110025
Mob: 9810862283
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |