نفیس اکبر بھٹو
( اسکالر بی ایس اُردو، نمل یونیورسٹی اسلام آباد )
تاریخ و تہذیب کی اہمیت مسلمہ ہے۔ انسان دنیا میں کسی بھی خطے سے تعلق رکھتا ہو اس کی اپنی تاریخ اور تہذیب ہوتی ہے جس سے انسان کبھی منکر نہیں ہو سکتا۔ دیکھا جائے تو تاریخ و تہذیب دونوں الگ شناخت رکھتے ہیں لیکن انسانی زندگی پر دونوں کے اثرات گہرے ہیں۔ تاریخ کو اگر علم کہا جائے تو تہذیب کو عمل کہہ سکتے ہیں لیکن دونوں کی حیثیت الگ ہونے کے باوجود بھی ان کا چولی دامن والا ساتھ ہے۔ انسان نہ تو تاریخ کو جھٹلا سکتا ہے اور نہ ہی تہذیب کے دائرے سے نکل سکتا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں کہ :
"تاریخ وہ واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے قومیں اپنے کارنامے اور تاریخی عمل کو زندہ رکھتی ہیں۔ جب کسی قوم کی تاریخ نہیں ہو گی تو اس کے پاس اپنے ماضی کا کوئی ثبوت بھی نہیں ہو گا اور اسی سبب سے اقوام عالم میں اس کوئی مقام بھی نہیں ہوگا۔” (۱)
تاریخ انسان کے ماضی کو زندہ رکھتی ہے تو تہذیب انسان کو زندگی گزارنا سکھاتی ہے۔ کسی بھی تاریخ کو بدلا نہیں جا سکتا۔ تاریخی صداقتوں سے کٹ کر کوئی معاشرہ کوئی قوم کوئی علاقہ ترقی نہیں کرسکتا۔ تاریخ انسانی معاشرے کو ایک وسعت دیتی ہے جس کا علم انسان کو آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے۔
"تاریخ انسان کے مطالعے کے لیے ایک بہت بڑا کینوس فراہم کرتی ہے۔ اس لیے تاریخ کے ذریعے مختلف نقطہ ہائے نظر کو پیش کیا گیا ہے۔ جو مورخ تاریخ کو اخلاقی قدروں کے استحکام کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ تاریخ کے ایسے واقعات تلاش کرکے لاتے ہیں جن میں نیکی کی فتح اور بدی کی شکست،انسانی بداعمالیوں کی سزا،عروج و زوال سے عبرت اور ظالموں کے برے انجام کے واقعات ہوتے ہیں ۔” (۲)
تاریخ ایک ایسا علم ہے جو اپنے اندر ایک معنی اور مقصدیت رکھتا ہے ۔تاریخ کے بغیر کوئی قوم کوئی نسل کوئی انسان مکمل نہیں بلکہ یوں کہیے کہ بنا تاریخ کے دنیا کا ہر علم ہی نا مکمل ہے۔ بعض علماء نے تاریخ کو صرف ماضی کی یاداشتوں کے مجموعے کا نام دیا ہے لیکن یہ ایک نظریہ ایک طاقت ہے۔ اس کی بدولت انسان خود کو پہچان سکتا ہے اپنے آپ کو دوسروں کے ساتھ ممیز کرسکتا ہے ۔
"تاریخ عہد گزشتہ کی وسیع دنیا سے عبارت ہے۔ یعنی تاریخ مڑ کر دیکھنے سوچنے اور یادوں کو محفوظ رکھنے کا عمل ہے۔”(۳)
تہذیب کا لغوی مطلب ہے کانٹ چھانٹ کرنا،پاک صاف کرنا ،سنوارنا،اصلاح کرنا اور عیوب کو دور کرنا وغیرہ۔ اصلاح میں اس کے معنی یہ ہیں کہ خاص ذہنی ساخت جس سے کسی قوم اور افراد کے کردار اور سیرت کی تشکیل ہوتی ہے۔ آج کل لفظ تہذیب کا استعمال کسی قوم کے طرز بودو باش اس کے رسم و رواج اور اصول و ضوابط کے لیے ہوتا ہے۔ تہذیب کو سماجی اقدار بھی کہا جاسکتا ہے۔ ہر خطے کی جیسے اپنی ایک الگ تاریخ ہوتی ہے اسی طرح ہر قوم کی اپنی الگ تہذیب ہوتی ہے اور یہی تہذیب اس کی شناخت ہوتی ہے ۔
"ہر قوم کی ایک تہذیبی شخصیت ہوتی ہے۔ اس شخصیت کے بعض پہلو دوسری تہذیبوں سے ملتے جلتے ہیں۔لیکن بعض ایسی انفرادی خصوصیتیں ہوتی ہیں جو ایک قوم کی تہذیب کو دوسری تہذیبوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ ہر قومی تہذیب اپنی انہی انفرادی خصوصیتوں کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔”(۴)
زمانہ قدیم میں انسان اور جانور کی حرکات میں زیادہ فرق نہیں تھا ۔انسان میں جیسے جیسے شعور آتا گیا وہ اس وحشی پن سے باہر نکلا اور مہذب بن گیا۔ تہذیب کے دائرے میں رہنا ہی انسان ہونے کی علامت ہے۔ اگر انسانیت ختم ہو جائے تو جانور اور انسان کی تمیز نہیں رہتی ۔
"اصطلاحاً تہذیب سے مراد انسان کا نظام فکر ہے۔ یعنی انسان کے وہ عقائد و نظریات اور افکار جن سے اسکی شخصیت بنتی اور سنورتی ہے۔ اس کے خیالات جتنے زیادہ پاکیزہ ،روشن اور سلجھے ہوئے ہوں گے وہ اتنا معاشرے کا اتنا ہی زیادہ مہذب شخص متصور ہوگا۔ تہذیب کا تعلق انسانی فکر و خیال اور ذہن سے ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے تہذیب کی کیفیت نظریاتی،فکری اور روحانی اور غیرمادی ہوتی ہے ۔”(۵)
اگر تہذیب کو اسکے وسیع پر معنوں میں پرکھا جائے تو یہ واضح ہوگا کہ تہذیب کسی بھی قوم کے معاشی،سیاسی نظام اورعلم و فن کی اہمیت اور اخلاقی اقدار کا نام ہے ۔انسان کے اندر جب سوچ کر سمجھ کر فیصلہ کرنے کی طاقت پیدا ہوئی تب ہی وہ مہذب کہلانے لگا۔ مقصد تخلیق آدم کو پا لینا ہی مہذب ہونے کی علامت ہے۔
"کسی بھی معاشرے کی با مقصد تخلیقات اور سماجی اقدار کے نظام کو تہذیب کہتے ہیں۔ تہذیب معاشرے کی طرز زندگی اورطرز احساس کا جوہر ہوتی ہے۔ چنانچہ زبان ، آلات و آواز اور پیداوار کے طریقے اور سماجی رشتے،رہن سہن،فنون لطیفہ،علم وادب،فلسفہ وحکمت،عقائد افسوں،اخلاق و عادات،رسوم روایات،عشق و محبت کے سلوک اور خاندانی تعلقات وغیرہ تہذیب کے مختلف مظاہر ہیں۔”(۶)
تاریخ و تہذیب کو ادب نےصحیح معنوں میں زندہ رکھا ہے۔ ادب علم بھی ہے اور عمل بھی اسی لیے تاریخ و تہذیب کے آغاز و ارتقا اس کے عروج و زوال سب قلم کے ذریعے محفوظ ہیں۔ کسی بھی قوم کی تاریخی حقیقت اور تہذیبی روایات کتابوں میں کہانیوں کے ذریعے بیان کی جاتی ہیں۔ انسان روز اول سے کہانی سننے سنانے کا شوقین رہا ہے ۔کہانی انسان کو اپنی گرفت میں رکھتی ہے اور کہانی کا حصار اس قدر مضبوط ہوتا ہے کہ یہ کئی نسلوں تک پکڑ میں رہتا ہے ۔
"قصہ سننا اور سنانا انسان کی فطرت میں داخل میں ہے۔ ہوا یوں کہ جب زمانے کا ورق پلٹا تو انسان سمجھدار ہوگیا تو اسے خیال آیا کہ ان ہوائی اور فرضی باتوں کاکیا فائدہ اپنی اصلی اور حقیقی دنیا کی باتیں کرو۔ ایسی قصے اور کہانیاں سناؤ جو ہماری حقیقی زندگی سے جڑے ہوں تاکہ اصلی دنیا کو سمجھنے میں مدد ملے اور فرصت کم ہے اس لیے غیر ضروری طوالت کو بھی طاق میں رکھو۔ فوق فطری عناصر قصے سے خارج ہوئے اور قصے کی لمبائی کم ہو گئی تو ناول وجود میں آگیا۔ نااول ایک ایسا نثری قصہ ہے جس میں ہماری حقیقی زندگی کا عکس نظرآتا ہے۔۔۔۔۔گویا ناول زندگی کی تصویر کشی کا فن ہے۔”(۷)
ناول ایک ایسی نثری صنف ہے جس میں زندگی کے ہر تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ ادیب چوں کہ معاشرتی زندگی کو ہی موضوع بناتا ہے اس لیے جب کوئی ناول منظر عام پہ آتا ہے تو وہ انسانی زندگی کی کسی حقیقت کا ہی پرتو ہوتا ہے۔ ناول میں پھر بہت سے موضوعات ضم ہو جاتے ہیں۔
"ناول کی جو خصوصیت اسے دیگر نثری اصناف سے الگ کرتی ہے وہ اس کا مرکزی خیال ہے۔ ناول نگار لکھتے وقت حقیقتوں کو پیش نظر رکھتا ہے۔۔۔۔ناول نگار زندگی کے چند پہلوؤں کا انتخاب کرتا ہے ۔”(۸)
ان میں سے تاریخی ناولوں کی اہمیت مسلمہ ہے۔ تاریخی ناول نگار کے پاس باقی موضوعات کی طرح کہانی میں چکنی چپڑی باتیں یا قاری کو محظوظ کرنے کی ذرائع کم ہوتے ہیں کیوں کہ اسے صرف تاریخی حقائق کو ہی مدنظر رکھ کے اپنے قصے کو آگے بڑھانا ہوتا ہے ۔
جدید مورخین کے پاس کہانی کے ذریعے تاریخ میں دلچسپی پیدا کرنے کے بہت سے ذرائع ہیں جن سے قاری کہانی سے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی واقعات میں بھی دلچسپی لینے لگتا ہے۔ اردو ادب میں تاریخی ناولوں کی ایک لمبی قطار ہمارے سامنے ہے۔ انیسویں،بیسویں اوراکیسویں صدی میں بیسیوں ناول تاریخی حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں چند اہم ناول یہ ہیں۔ملک عزیز ورجینا، آگ کا دریا، شام اودھ، اداس نسلیں، ایسی بلندی ایسی پستی، لہو کے پھول، تلاش بہاراں، انسان مرگیا، رقص ابلیس، پندرہ اگست، خون بے آبرو، مجاہد، خاک اورخون، خون جگر ہونے تک، جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں، ایک قطرہ خون، چہرہ بہ چہرہ روبرو، دشت سوس، غالب بن ولید، ایک گرم موسم کی کہانی، بہاو، کئی چاند تھے سرآسمان، چاندنی بیگم، گردش رنگ چمن، دوگز زمین، ہڑپا اور ہری یوپیا وغیرہ۔
"ہری یوپیا” جدید دور کا ایک اہم ناول ہے اور تاریخی حوالے سے اس کا نام مقبول ہوا۔ اس سے پہلے کہ ہری یوپیا کے بارے میں بات کی جائے پہلے اس کی مصنفہ کے متعلق کچھ کہنا ضروری ہے۔ ڈاکٹر حنا جمشید افسانہ نگار، ناول نگار، کالم نگار، محقق اور اردو زبان و ادب کی استاد ہیں۔ ان کی منصبی ذمہ داریوں میں نژادنو کی ادبی و لسانی تعلیم و تربیت کلیدی مقام رکھتی ہے۔ یقینی طور پر وہ اپنی یہ ذمہ داریاں بطریق احسن نبھاتی ہوں گی۔ وہ بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ اردو کے روشن فکر اساتذہ کی لائق اسکالر بھی ہیں۔ تدریس ان کی مصروفیت ہے تو تصنیف و تالیف اور تنقید و تحقیق ان کا شوق۔ وہ اپنے اس ذوق و شوق کو کتابی صورت میں پیش کرتی رہتی ہیں۔ ساہیوال جیسے تہذیبی شہر کے وقار کو فراواں کرتی ہوئی یہ بے چین مصنفہ اپنی سات عدد وقیع کتابوں سے پاکستان کے جہان فراست کو اپنے علم اور اپنی دانش کے پیہم مظاہر سے متاثر کرنے میں مسلسل مصروف ہیں۔ ڈاکٹر حنا جمشید کی تصنیفی مہمات کا دائرہ تحقیق و تنقید اور تدوین و تسہیل سے لے کر افسانہ نگاری، ناول نگاری اور تاریخ نگاری تک پھیلا ہوا ہے۔ ان کا ناول "ہری یوپیا” جو کہ قدیم ہڑپائی تاریخ اور تہذیب و تقافت کے دل چسپ بیان پر مبنی ہے اس پر انھیں اردو ادب کے موقر اعزاز "آصف فرخی ایوارڈ برائے علم و آگہی” سے بھی نوازا گیا ہے۔
ناول "ہری یوپیا” قدیم ہڑپا کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت کی عکاسی کرتا ہے۔ اس ناول میں حنا جمشید نے بارہ ابواب پر مشتمل ایک کہانی بیان کی ہے جس کا بنیادی نکتہ نظر ہڑپا کی تاریخ و تہذیب کو اجاگر کرنا ہے۔ محمد ادریس صدیق ہڑپا کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس کا پرانا نام ہری یوپیا ہی تھا جو بگڑ کر ہڑپا بن گیا:
” ہڑپہ کا موجودہ نام رگ وید میں بیان کیے ہوئے”ہاری یوپویا” کا مخفف ہے ۔”(۹)
حنا جمشید نے تاریخ کو ایک نئے انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کا یہ انداز قاری کو ناول کے آخر تک متجسس بھی رکھتا ہے اور قاری کہانی سے حظ بھی اٹھاتا ہے۔ اس کہانی میں مرکزی کرداروں کے ساتھ ضمنی کردار بھی بھرپور انداز میں اداکاری کرتے نظر آتے ہیں۔ تاریخی ناول میں یہ انداز حنا جمشید کی اپنی اختراع ہے کیونکہ اردو ادب میں ایسی کوئی اور مثال اس حوالے سے سامنے نہیں آئی۔ ہاں البتہ مغربی ادب میں ایسے رنگ نمایاں ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حنا جمشید مغربی لکھاریوں سے خاصی متاثر ہیں۔ تاریخی ناولوں میں جس خطے کی تاریخ بتائی جاتی ہے اس میں زیادہ تر اس خطے کی تہذیب و تمدن کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ اس ناول میں بھی ایراوتی دریا کے کنارے ایک خطہ ہڑپا موجود ہے جس کا نام ہری یوپیا بھی ہے اسی کی ہی تہذیب تمدن کو حنا جمشید نے واضح کیا ہے۔ مصنفہ ناول کے آغاز میں کچھ یوں لکھتی ہیں کہ:
"ہری یوپیا میرا وہ خواب ہے جو ہڑپا کے کھنڈرات میں اپنی آنکھوں سے میں نے کئی بار دیکھا اور بارہا محسوس کیا ہے۔”(۱۰)
اس ناول کو ایک تاریخی دستاویز کے طور پر بھی لیا جا سکتا ہے۔ بظاہر یہ کہانی حنا جمشید کے تخیل کی ایک خوبصورت پیش کش ہے لیکن اس تخیل کے ساتھ ہڑپا کی تاریخی حیثیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے اس کہانی میں ہڑپا کی تاریخ کے ساتھ ساتھ اس کی تہذیبی تمدنی،سیاسی،معاشی اور معاشرتی زندگی کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ کہانی کے مرکزی کردار اور اس کے معاون کردار سبھی نے ہر یوپیا کا ایک بہت پیارا اور دلکش نظارہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ ہڑپا کی ہزاروں سال پرانی تہذیب ایسے کہانیوں میں بیان کر کے حنا جمشید نے اسے ازسرنو زندہ کر دکھایا ہے۔ ہڑپا کے بازار کی رونقیں اور یہاں کے رہن سہن یہاں کے بادشاہ کا اپنی رعایا سے اپنائیت کا سا سلوک اور ایسی بہت سی چیزیں کہانی میں ایسے بیان کی گئی ہیں کہ قاری خود کو اس کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ پل بھر میں تو ایسا لگتا ہے کہ پڑھنے والا یہیں کہیں ہری یوپیا کے بازار اور اس کے دربار میں ہی گشت کر رہا ہے۔ سب آنکھوں کے سامنے ہوتا نظر آتا ہے۔
اس ناول میں ہری یوپیا کے متعلق بہت سی معلومات دی گئی ہیں۔ یہ کہانی کالی بنگن کے علاقے سے شروع ہوتی ہے اور ہری یوپیا پہنچتی ہے۔اس بستی سے ابھایا،باسا،کومیل اورگانیکا ہری یوپیا جاتے ہیں۔ ان کے وہاں جانے کا مقصد اپنے ہاتھ کی بنی چیزوں کو ہری یوپیا کے بڑے بازار میں جا کے فروخت کرنا ہے۔ جن میں زیور، برتن اور مٹی اور موتیوں سے بنی نایاب اور خوب صورت چیزیں شامل ہیں۔ مصنفہ نے بڑے عمدہ انداز میں مسافروں کی مشکلات کا ذکر کیا ہے۔ جیسے ہی اپنا سامان لے کر باسا اور ابھایا ہری یوپیا کے بڑے بازار میں داخل ہوتے ہیں۔ ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں اتنا بڑا بازار انہوں نے پہلے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔ پھر جہاں اچھائی ہو وہاں برائی بھی ساتھ ہوتی ہے تو بازار میں خرید و فروخت ایک فطری عمل ہے اس کے ساتھ لوٹ مار بھی اسی فطرت کا حصہ ہے۔
"بابل کے ایک بیوپاری کو پہرے داروں کی منتطم اعلیٰ نے اس وقت نصف کمر تک جھک کر سلام کیا جب اس نے اپنی درمیانی انگلی سے سنہری انگوٹھی اسے نکال کر دان کی۔ تعجب کی بات یہ تھی کہ اس کا سامان بغیر کسی نگرانی کے نگر میں داخل کر دیا گیا۔۔۔باسا کو بابل کے بیوپاری کا طرز عمل یاد آیا اور تبھی باسا نے اپنا تھیلا کھول کر اس پہرے دار کو اجازت دی کہ اس خام و عام مال میں سے کچھ بھلا لگتا ہے تو اٹھا سکتا ہے۔ پہرے دار جو اسی بات کا منتظر تھا اس نے جھٹ سے ہاتھ ڈال کر باسا کے تھیلے سے مٹی کی دو رکابیاں نکال لیں ۔”(۱۱)
رشوت خوری کا یہ عمل ہزاروں سال پرانا چلا آرہا ہے اور یہ عمل آج کے دور میں بھی جوں کا توں ہی ہے ۔ایک چھوٹے علاقے میں کام کرنے والے محنت سے چیزیں بنا کے جب بڑے بازار بیچنے آتے ہیں تو ان کے لیے بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا سامان ایسے ہی کسی کو تھما دیں اور وہ خالی ہاتھ رہ جائیں۔ ہری یوپیا میں اس طرح کے عمل کی حنا جمشید نے بہت عمدہ طریقے سے تصویر کشی کی ہے اور اسی اثنا میں جب باساکی دردناک موت واقع ہوتی ہے اس منظر کو قاری ناول کے اختتام کے بعد تک اپنے ذہن پہ سوار رکھ سکتا ہے۔ اس کہانی میں سمارا کا کردار بھی روائیتی انداز میں سامنے آتا ہے جو مسافروں کو ان کی مشکل گھڑی سے باہر نکالتا ہے۔ ہری یوپیا کا یہ ایک انوکھا روپ سامنے آتا ہے۔ کیوں کہ باسا اور ابھایا تو ہڑپا کے اس بازار کی شہرت کے چرچے سن کے یہا ں آئے تھے اور وہ اس بھیانک حادثے کا شکار ہو گئے۔ جب یہ مسافر اس علاقے کے پروہت کے پاس مدد کے لیے جاتے ہیں تو یہاں مصنفہ نے کس طرح بیان کیا ہے۔
” ہم اس سانحے کا ہر طرح ہرجانہ دینے کو تیارہیں۔ تم کھل کر بتا سکتے ہو کہ یہ ہرجانہ کس شکل میں چاہیے۔ اجناس،قیمتی پتھر،سونا یا چاندی میں ہر طرح کی دیت دینے کو تیار ہوں۔ پروہت کے چہرے پر تذبذب اور تفکرکی لکیریں صاف عیاں تھیں۔۔۔۔جانے والے کی اگر مقدس روح کو لوٹا سکو تو ہمارے لیے تمھارا مال و دھن کسی کام نہیں ابھایا زہر خند لہجے میں بولا۔” (۱۲)
ہری یوپیا کی ہزاروں سال پرانی تہذیب میں بھی یہ دیت کی روایت پائی جاتی ہے۔ بہت پرانا رواج ہے قتل کے بدلے ہرجانہ دے دیا جائے۔ ہری یوپیا میں مصنفہ نے ایک ایسی تہذیب کی کہانی بیان کی ہے جو نسل در نسل چلتی آرہی ہے۔ یہاں لوگوں کے رویے ایک دوسرے سے محبت قربانی و ایثار کے جذبے،امید خوشی ہر طرح سے زندگی کے عوامل کو پیش کیا گیا ہے۔
تہذیب کا تعلق انسان کے مہذب ہونے سے بھی ہے۔ انسان مہذب تب کہلاتا ہے جب اسے اپنے مذہب کے تقدس کا علم ہو۔ وہ اپنے مذہب کی تکریم و تکزیم میں اپنے جان مال اپنا نفس اپنی خواہشات سب کو پس پشت ڈال دے۔ اس ناول میں چونکہ ہری یوپیا کی تاریخ و تہذیب کو اجاگر کیا گیا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مصنفہ نے مذہب کے تقدس کے متعلق کچھ نہ بیان کیا ہو۔ ہری یوپیا کی تہذیب تقریباً پانچ ہزار سال پرانی ہے لیکن ہماری تہذیب سے کافی حد تک مماثلت رکھتی ہے ویسے دیکھا جائے تو قوم یا قبیلہ یا خطہ کوئی بھی ہو تہذیب ہر جگہ اولین درجے میں شمار ہوتی ہے ۔
ہری یوپیا کے باسی بھی مذہب کے معاملے میں عقیدے کے پکے تھے۔ ان کا مذہبی تقدس اپنے ہر عمل سے برتر تصور کیا جاتا جیسا کہ ہر قوم اور خطے میں ہوتا ہے۔ مذہب انسان کو جینا سکھاتا ہے اور انسان کے اندر حیوانی خصلتوں کو پنپنے سے روکتا ہے۔ ہری یوپیا کے لوگ دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے۔ یہاں عبادت خانے الگ سے بنائے جاتے تھے جہاں صرف اور صرف عبادت کے لیے ہی لوگ جمع ہوتے تھے ان کی عبادت گاہوں کو معبد کا نام دیا جاتا تھا۔ ہر مذہب کا اپنا اپنا عقیدہ ہوتا ہے اور اس مذہب کے تعلق رکھنے والے اپنے اس عقیدے کی مرتے دم تک حفاظت کرتے۔ ہری یوپیا کے لوگ سانپوں کی بہت تکریم کرتے تھے کیونکہ ان کے ایک دیوتا میں ناگ دیوتا کا نام بھی شامل تھا۔وہ ناگ دیوتا کی بھی ویسے ہی پوجا کرتے تھے جیسے اپنے باقی دیوتاؤں کی کیا کرتے تھے۔ ان کے دیگر دیوتاؤں میں مختلف قسم کے درخت، سورج،پرندے،آگ،بڑے سینگوں والے بیل،مچھلی اورچیتے وغیرہ شامل تھے۔ ناگ دیوتا کے متعلق کہانی میں کچھ اس طرح لکھا گیا ہے کہ:
"ایک داسی زور سے چلائی وہ دیکھو!ناگ دیوتا لگتا ہے یہ بھی اتنی صبح مہان ایراوتی کے پانیوں میں اشنان کرنے نکلے ہیں۔ کیا ہری یوپیا کی دھرتی پہ ایسے وشال ناگ ہوتے ہیں؟گانیکا نے حیرت سے پوچھا۔ہماری دھرتی میں ہر طرح کے سانپ ہوتے ہیں۔ ایسے ہی وشال ناگ دیوتا یہاں قریبی جنگلوں میں رہتے ہیں ۔جب من کرے اس طرف آنکلتے ہیں۔پجاری کہتے ہیں ناگ دیوتا مقدس خداؤں کا اوتار ہیں۔ وہ دھرتی کی حفاظت کرتے ہیں اورکسی کو کچھ نہیں کہتے۔ اس لیے ہم مقدس معبد میں بھی ان کے لیے دودھ رکھتے ہیں۔مقدس پروہت کہتے ہیں کہ اگر ناگ دیوتا کبھی کسی پر غضبناک ہوجائیں تو وہ ضرور دوشی ہوتا ہے ۔جواپنے برے کرموں کا پھل کھاتا ہے۔” (۱۳)
ایسے ہی دیوتاؤں کی پوجا کے ساتھ رقص بھی ان کی عبادت کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ ان کے معبدوں میں خصوصی طور پر رقص کا انتظام کیا جاتا ہے۔ رقص میں محو انسان کو مہذب شمارکیا جاتا ہے اور اگر کوئی عورت رقص میں اتنی محو ہو جائے کہ اپنے اردگرد سے بالکل غافل ہوجائے تو پھر باقی دیکھنے والے لوگ کہتے ہیں کہ اس کے اندر کوئی دیوی اتر آئی ہے۔ اس کے علاوہ علم کہانت رکھنے والوں کو بھی مقدس سمجھا جاتا تھا۔ کہنت کا علم رکھنے والے ہری یوپیا کے باسیوں کو پہلے سے ہی آگاہ کر دیتے تھے کہ اب کہ بار اگر پانی آیا تو کس قدر خطرناک ہوگا اور کون کون سے نقصانات ہونے کے خدشات ہیں۔ اسی لیے وہاں کی انتظامیہ پہلے سے ہی اپنے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کر لیتے تھے۔جب کبھی ایراوتی میں بہاؤ کا زور بڑھ جاتا ہے تو اس کا پانی ہری یوپیا کی مزدور بستی کی طرف رخ کرتا ہے جس کی وجہ سے سیلاب کا یہ ریلا علاقے میں تباہی کا سبب بنتا ہے ۔ایسے ہی ایک منظر کو حنا جمشید نے کچھ یوں بیان کیا ہے کہ !
"ہمالہ کے جٹاؤں سے پھوٹتے چشموں نے پانی میں ایسی تندہی اور روانی بھر دی تھی کہ وہ ایراوتی کے کنارے چیرتا ہوا مزدور بستی میں پورے غیص و غصب سے داخل ہو گیا۔ آن کی آن میں مزدور بستی پانی کی نذر ہوگئی۔ لوگ اپنی جان بچانے کو بھاگ رہے تھے۔ یہ ایک قیامت کی ہلچل تھی جس کا خمیازہ بوڑھوں اور بچوں کو بھگتنا پڑ رہا تھا۔ جو ایک بار گر جاتے تو اس ہلچل میں اٹھ ہی نہ پاتے۔ بڑے پانیوں کا بہاؤ انہیں اپنے سنگ بہا کر لے جاتا۔”(۱۴)
ایسے سیلابوں کا ڈر ہری یوپیا کے باسیوں کو ہمیشہ ہی رہتا تھا۔ وہ اپنی حفاظت اور سیلاب نقصانات سے خودکو بچانے کے لیے بہت سے اقدامات کرتے لیکن جب قسمت ساتھ نہ دے تو ایسے ہزاروں اقدامات بھی کام نہیں آتے۔ اس مقدر کے بے بس کھیل کو اس کہانی کا موضوع بنایا گیا ہے۔ ہری یوپیا کی تہذیب وثقافت اپنے عروج پر پہنچ کر پھر زوال کی طرف آتی ہے۔ قدرت کا یہ عمل ہے کہ جہاں عروج ہے وہیں زوال بھی ہے یہ انسان طاقت ور ہونے کے باوجود بھی بے بس ہے کیوں کہ انسان سے بڑی طاقت تقدیر بنانے والے کی ہے جس کے آگے کسی کا کوئی زور نہیں چلتا۔ایسے ہی ایک فلسفیانہ نکتے کو حنا جمشید نے اپنی کہانی کے آخری جملوں میں ایسے بیان کیا ہے کہ!
"کیا سمے اب بھی ان پر مہربان تھا ؟انہوں نے ایک دوسرے کی جانب تحیر آمیز سوالیہ نگاہوں سے دیکھا جیسے اب ایک دوسرے کے من کی بولی سمجھنے کے لیے انہیں کسی زبان کے سہارے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ جانتے تھے کہ گزرے سمے کا لافانیت اور ایک بھرپور شہر کی تہذیب کے معدوم نشانات ان کے من میں ماضی کی خوشگوار یادوں کے انمول خزانے کی صورت دفن ہو چکے تھے۔ جن میں بہرحال لوٹ جانے کی حسرت اب انہیں کبھی مرنے نہیں دے گی ۔” (۱۵)
کسی بھی تہذیب میں مذہب اس کی بنیاد ہے تو اس کے بعد وہاں کے باشندوں کی زبان ان کا رہن سہن ان کے رویے ،رسم ورواج ،قانون،عادات واطوار ،اور ریاستی انتظامات یہ سب بھی تہذیب کے دائرے میں شمار ہوتے ہیں۔ ہری یوپیا میں معبد کو سنبھالنے والے پروہت کے ذمے سب ریاستی امور بھی ہوتے ہیں۔ اس خطے کے سب انتظامات اسی پروہت کے ذمہ ہوتے ہیں۔ یعنی اس علاقے میں مذہب سے جڑے اور اس کے قریب رہنے والے انسان پر ہی بھروسہ کیا جاتا ہے اسی لیے تو سارے انتظامات اس کے سپردکر دیے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ عدالتی کاروائیاں بھی سب معبد میں ہی بیٹھ کر کی جاتی ہیں اور حتمی فیصلہ بھی پروہت نے ہی دینا ہوتا ہے جس پر ساری عوام سر تسلیم خم کرتی ہے۔ ہری یوپیا کے لوگ مذہبی حوالے سے اپنے عقیدے میں پختہ تھے۔
کسی بھی خطے کی تہذیب کے چرچے میں اس کی زبان کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے زبان تہذیب کے دائرے میں اس لیے شامل ہے کیونکہ اس کا تعلق اخلاقیات سے ہے۔ اگر انسان کا اخلاق اچھا ہے تو وہ دنیا جیت سکتا ہے۔ اس لیےتو تلوار کی دھار سے زیادہ تیز زبان کی دھار ہوتی ہے۔ بہت سے بادشاہوں نے اپنی زبان یعنی اپنے اخلاقی رویوں کی بدولت رعایا کے دلوں میں جگہ بنائی ہے اور سال ہا سال ریاست پر اپنی حکومت کے جھنڈے گاڑے رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ انہی میں ہری یوپیا کے پروہت بھی شامل ہیں۔ اس کے اخلاقی رویے نے ہی کالی بنگن کے باسا،کومیل اور گانیکا کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور انہوں نے واپسی کا ارادہ ترک کر کے ہری یوپیا کو ہی اپنا گھر بنا لیا۔ اس بستی کے لوگوں کا رہن سہن، بول چال، عادات رسم و رواج سب کی عکاسی حنا جمشید نے بہت اچھے انداز میں کی ہے اور کہیں کہیں قاری کو یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ یہ صرف تخیلی بستی ہے کیونکہ حقیقت میں ایسے پروہت ایسے لوگ ایسے انتظامات کہیں نہیں ملتے۔ مثال کے طور پر یہ جملے ملاحظہ کریں:
"جانتے ہو یہ سب لوگ محض اپنے شکم کے لیے جیتے،یہ ایک دوسرے کا بھی پیٹ پالتے ہیں۔ہری یوپیا کے وہ لوگ جو محنت مزدوری نہیں کر پاتے،چاہے وہ بیمار ہوں،کمزور،اپاہج یا مزدور۔۔۔یہاں سب ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ہر سال سب کو ان کی ضرورت کے مطابق کنک تقسیم کی جاتی ہے۔ یہاں سب کا چولہا جلتا ہے اور کوئی بھوکا نہیں رہتا۔ بس جو محنت کرتے ہیں وہ زائد اجرت پاتے ہیں ۔”(۱۶)
ہری یوپیا ایک ایسی بستی ہے جہاں سب کے دکھ سکھ سانجھے ہوتے ہیں۔ یہاں کی تہذیب کو حنا جمشید نے بڑے خوبصورت الفاظ میں پیش کیا ہے۔ کیونکہ حنا نے اپنے ناول کے آغاز میں ہی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یہ ناول ہری یوپیا کی تہذیب کی کہانی پر مبنی ہے وہ کچھ یوں لکھتی ہیں کہ”ہری یوپیائی تہذیب کے اس شعور کامل کے نام جس نے امر ہو کے میرے تخیل کو فزوں تر کردیا۔” اس کہانی میں تخیل کی کارفرمائی زیادہ ملتی ہے۔ یہاں کے لوگوں کے رہن سہن کے ساتھ ان کے لباس بھی دیکھائے گئے ہیں۔ ہر تہذیب کے اپنے اپنے رسم و رواج ہوتے ہیں تو لباس بھی تہذیب کا حصہ ہے ۔ہری یوپیا میں لباس اور اس کے ساتھ خواتین کے زیورات بھی بہت مختلف طرز کے نظر آتے ہیں۔ یہاں ہرطبقے کے لوگ رہتے ہیں اس لیے ملبوسات اور زیوارات بھی ہر طبقے کے الگ الگ بتائے گئے ہیں۔ زیورات میں سیپیوں اور موتیںوں سے بنے ہار وغیرہ شامل ہیں۔امراء کی عورتوں نے سر،بازو،کلائی اور کمر پر بھی مختلف قسم کے زیوارت پہنے ہوتے تھے اور یہی ان کی شخصیت کی عکاسی کرتے تھے۔ ان کے سروں پر بھی عجیب طرز کے جوڑے بنے ہوتے تھے بہر حال مزدور طبقے اور ان عورتوں کے لباس اور زیوارت میں بہت نمایاں فرق تھا۔ یہاں ذرا ان امیر عورتوں کے پہناوے پر ایک نظر ڈالتے ہیں!
"ہری یوپیا کی امرا عورتیں اپنے منفرد نین نقش،لباس،تہذیب وثقافت اور پراعتماد شخصیت کی بدولت اپنی کنیزوں کے ہمراہ خرید و فروخت کرتی الگ اور نمایاں دکھائی دیتی تھیں۔ ان کے سر،گلے،بازواور کلائیاں یہاں تک کہ کمر بھی موتیوں،سیپیوں اور ہاتھی دانت کے آرائشی زیورات سے سجی ہوئی تھی۔سر کے بالوں کو طرح طرح کے دیدہ زیب نمونوں اور جوڑوں میں گوندھ کر ان کی پر پشت کی جانب سے آرائشی منقش پنکھے لگائے جاتے ۔کانوں میں خوبصورت آویزے اورانگلیوں میں قیمتی پتھروں کی انگوٹھیاں ان کی شوبھا بڑھا دیتی تھیں ۔”(۱۷)
ایسے ہی ہری یوپیا کے مقدس پروہت کا لباس باقی سب سے مختلف ہوتا تھا۔پروہت کے لباس میں تین پتیوں والے پھولوں کی گیروی مائل زردسوتی چادر بہت اہم شمار ہوتی تھی جسے وہ اپنے کندھوں پر رکھتا تھا اور اس کے ماتھے پہ ایک منکا بندھا ہوتا تھا اورگلے میں سونے کے پتھرکا منقش ہار ہوتا تھا۔ یہاں کے بڑے بازار کے پہرداروں کا لباس بھی ایک عجیب طرز کا تھا۔ ان کے سربراہ کا لباس دیکھیں!
"ان پہرے داروں کو بد مزاجی سے آدیش جاری کرنے والا ان کا کسرتی جسم والا لحیم شحیم سربراہ ابھی اگرچہ ویسی ہی سوتی چادر میں ملبوس اوراپنا بھالا تھامے ہوئے تھا، تاہم اس کا بازو۔ موٹے موتیوں سے بنا تھا۔ سلیقے سے گندھے لمبے بال جن میں ایک خاص طرز سے لگائی گئی لکڑی کی چھوٹی سی سجاوٹی کنگھی اور پیشانی کے وسط میں باندھے گئے ایک بڑے سنہری قیمتی منکے کے سبب اس کی امتیازی حیثیت نمایاں تھی۔” (۱۸)
ہری یوپیا کے لوگ محنتی اور ہنرمند تھے ۔ان کی ہنرمندی کے چرچے عام تھے۔ یہاں جب بڑا بازار لگتا تو دور دور سے لوگ خرید و فروخت کرنے آتے اور یہاں کی ہنرمندی کے نمونے اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ یہاں لکڑی پر سوتی کپڑا بنا جاتا تھا۔ ہری یوپیا کی ہنرمندی دکھانے کے لیے یہاں ایک طویل اقتباس دینا ہوگا ملاحظہ کریں!
” ہمارے ہری یوپیا کا سوت نگر نگر جائے ہے۔ بلکہ دور کے پانیوں اور دوسری بستیوں سے آنے والے سفید چمڑی والے تو حیرت سے کہتے ہیں کہ ہمارے کھیتوں میں اون کے پھول اگتے ہیں اور بعض تو انہیں چاندی کے سفید پھول بھی کہتے ہیں۔۔۔۔۔ہاں یہاں تانبا ،پیتل اور کانسی کی دھاتوں کو پگھلا کر برتن اور مجسمے وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔ تم کیا جانو ہری یوپیا کے کاریگر سنسار بھر میں اپنے ہنر کو تسلیم کرواچکے ہیں۔خود موہنجودوڑو جیسے بڑے شہرکے بیوپاری یہاں برتن اورمجسمے بنوانے آتے ہیں۔۔۔۔۔سرخ اینٹوں سے بنی اس بھٹی میں مختلف دھاتوں کو پگھلا کر مختلف شکلوں کے سانچوں میں ڈھال کر عام استعمال کی اشیا تیار کی جارہی ہیں۔”(۱۹)
اس علاقے کے لوگوں کی ہنرمندی کا ایک مظاہرہ تو ان کے علاقے کی باہر لمبی چوڑی فصیل اور ان کے حفاظتی اقدامات تھے۔ یہاں کے کاریگروں نے اپنے شہر کو بیرونی حملوں سے بچانے کے لیے ایک مضبوط،پختہ اور اونچی فصیل بنائی گئی تھی۔ اس شہر کے داخلی دروازے اور اس کی فصیل کی ایک مثال ملاحظہ کریں۔
"سرخ پختہ اینٹوں سے بنی،بلند و بالا قلعے کی فصیل پر لگے شان و شان دار بلند قامت دروازے کی ہیبت نے انہیں گنگ کردیا تھا۔۔۔۔۔عمدہ لکڑی کو خوبصورتی سے تراش کر بنایا گیا یہ، مضبوط اورخوبصورت دروازہ ،جس پرکئی شناسا و ناشناسا جانوروں اور اشیا کی تصاویر کسی عکسی تحریر کے ساتھ کندہ کی گئی تھیں۔ کسی اور ہی دنیا کا در معلوم ہوتا تھا۔”(۲۰)
ہری ہوپیا کے لوگ ہنر مند اور محنتی ہونے کے ساتھ باہر سے آنے والوں کو کھلے دل کے ساتھ قبول کرتے تھے اور ان کا یہ رواج تھا کہ مہمان کی خوب خاطرداری کی جائے ان کے کھانے پینے کا خاص انتظام کیا جائے اور ان کے آرام کا بھی اہتمام کرتے تھے۔ جب کالی بنگن کے بیوپاری اس علاقے میں داخل ہوئے تو وہ ڈرے اور سہمے ہوئے تھے کہ اتنے بڑے بازار میں ہم چھوٹے بیوپاریوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا جائے گا لیکن جب وہ بازار میں اپنے سامان کے ساتھ داخل ہوئے تو اندر کا ماحول ان کی سوچ سے خاصا مختلف لگ رہاتھا۔ پروہت کی طرف سے بازار میں آنے والے ہر بیوپاری کے لیے کھانے اور آرام کا بندوبست کیا گیا تھا۔ جس کا اظہار حنا جمشید نے یوں کیا ہے کہ !
"اور اس کھانے کے دام؟باسا نے ساول سے احتیاط پوچھا تاکہ اپنی جیب کے مطابق کھانا خریدا جاسکے۔۔۔۔منڈی اور بازار کے بیوپاریوں کے لیے ہری یوپیا کے پروہت کی جانب سے مفت دان کیا جاتا ہے۔ ان کے لیے یہ چونکا دینے واکی بات تھی۔۔۔۔ہمارے پروہت کا کہنا ہے کہ ہری یوپیا جیسے بڑے شہرکی منڈی اور بازار میں جو دور دراز سے تاجر سودا گری کے لیے آتے ہیں وہ ہمارے دوست اور مہمان ہیں۔ مہمانوں کو کھانا کھلائے بغیر بھیجنا اس دھرتی کی ریت نہیں۔”(۲۱)
فن تعمیر میں ہری یوپیا کے ہنرمندوں کے جیسی اور کوئی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے نکاسی کے لیے خاصا عمدہ انتطام کیا ہوا تھا۔ ایسا نطام جو کہیں اور نہیں نطر آیا۔ یہ ایک منظم شہر کی حیثیت سے جانا جاتا تھا اس کے رہنے والے لوگ تہذیب یافتہ تھے۔ اسی لیے تو انہوں نے اپنے علاقے کی حفاظتی درو دیوار کے ساتھ ساتھ قلعے میں پانی کی نکاسی کا بھی بہترین انتطام کر رکھا تھا۔ اس نظام نکاسی کا ذکر کچھ ان الفاظ میں کیا گیا ہے کہ !
"اس نے دیکھا کہ اس کی اوک سے پانی گر کر مٹی میں جمع ہو کر کیچڑ بنانے کی بجائے کھلے منہ کی نالی سے آگے بہتا چلا جاتا ہے۔ اس کی نظروں نے آگے تک اس نالی کا تعاقب کیا تو اسے پتہ چلا کہ آگے جا کر یہ کھلے منہ کی نالی ایک ڈھکے ہوئے بڑے منہ کے نالے کے سینے میں جا اترتی ہے اس نے من ہی من میں ہری یوپیا کے اس نکاسی آب کے نظام کو داد دی ۔”(۲۲)
نظام نکاسی کے ساتھ یہاں خوبصورت عمارات بھی تعمیر کی گئی تھیں جنہیں دیکھ کے باقی علاقوں کے لوگ دنگ رہ جاتے تھے۔اس کی سب سے بہترین مثال تو ان کا اناج گھر ہیں۔ جہاں وہ اناج کا ذخیرہ کرتے تھے کیونکہ یہ ان لوگوں کے لیے بہت ضروری تھا۔ اس علاقے میں سیلاب کا خطرہ رہتا تھا اسی وجہ سے انہوں نے اپنا اناج گھر بنا رکھا تھا۔ اس اناج گھر کا نقشہ دیکھیں !
"اندر سے اناج گھر کی یہ عمارت ایک دوسرے بالمقابل یکساں کھڑے دو حصوں پر مشتمل تھی۔ جس کے درمیان ایک چوڑی سڑک موجود تھی۔ اس سڑک پر یقیناً اناج سے لدے دو بیلوں کی رتھ آرام سے گزر سکتی تھی۔ اس چھتی ہوئی سڑک کے دورویہ چھے دائیں اور چھے بائیں یکساں کشادہ کمرے بنے ہوئے تھے،جن کی چھتیں کافی بلند تھیں اور اوپر کی جانب ہوا کی گزر گاہ کے لیے بڑے جالی دار روشن دان بنے ہوئے تھے تاکہ نمی نہ ٹھہرے۔ یہ کمرے اناج اور دیگر اجناس کے لیے مختض تھے۔ ان کے حجم اور کشادگی سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہاں دنوں نہیں،سالوں کی کنک ذخیرہ کیا جا سکتا تھا۔۔۔۔یہ اناج گھر انہوں نے سمندر کے کنارے بنایا ہوا تھا لیکن اس کی اونچائی بہت زیادہ رکھی گئی تھی تاکہ سیلاب کے پانی کے اندر جانے کا کوئی خدشہ نہ رہے ۔”(۲۳)
اس کہانی کے ذریعے حنا جمشید نے ہری یوپیا کی تاریخ و تہذیب کو اجاگر کرنے کے لیے جن کرادروں کو پیش کیا ان میں سر فہرست باسا،ابھایا،گانیکا،اجو،کومیل ،سمارا،دیشم ،بوڑھا ،پروہت تھے۔ اس کے علاوہ جتنے بھی کردار سامنے آئے وہ تہذیب کی اس کہانی میں مددگارثابت ہوئے ہڑپا کی تہذیب چونکہ ہزاروں سال پرانی ہے تو اسے آج کے دور میں حنا جمشید نے بڑے عمدہ انداز میں پیش کیا ہے۔ ہڑپا کی اس تہذیب کے متعلق اقبال حسین نے بھی لکھا ہے جو اس ناول میں بھی ہم دیکھ چکے ہیں۔ اقبال حسن کچھ یون بیان کرتے ہیں کہ !
"ہڑپہ تہذیب کے لوگوں نے بڑے منصوبہ بند طریقے پر سلیقے سے اپنے شہروں ،مکانوں اور سڑکوں کی تعمیرکی تھی۔ ان لوگوں کو صفائی کا بھی بہت خیال تھا۔ اسی لیے تو انہوں نے نالیوں غسل خانوں اور صفائی کی دیگرضرویات پر خصوصی توجہ دی تھی۔ سڑکیں کشادہ تھیں جن کے دونوں جانب پانی کے اخراج کے لیے نالیاں بنی ہوئی تھیں۔ ہڑپہ عہد کے کاشتکار عام طور پر ہلکے ہل استعمال کرتے تھے ۔ان کی زراعت کا انحصار عموماً سیلاب سے سینچی ہوئی زمین پر تھا۔ یہ لوگ مٹی کے برتن بنانے کے لیے چاک کا استعمال کرتے تھے ۔” (۲۴)
ایسی تہذیب کو حنا جمشید نے بھی اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے ہری یوپیا کے باسیوں کا منفرد رہن سہن ان کے رسم و رواج، ان کے عادات و اطوار، ان کی ہنرمندیاں، ان کی تعمیری فن کاریاں غرض ہر طرح سے یہاں کی تہذیبی زندگی کو پیش کیا ہے۔
حنا جمشید نے جیسے ہری یوپیا کی تہذیب کو بیان کرتے ہوئے یہاں کے مہذب لوگوں کا ذکر کیا ان کی زبان و بیان، ان کا نداز، رہن سہن، قدرتی آفات کا مقابلہ اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شرکت کرنا انہیں ایک تہذیب یافتہ معاشرے سے ہی جوڑتا ہے۔ اسی طرح ناول کے ہر نئے باب کے آغاز میں حنا جمشید کی ایک ایک لائن جو قاری کو جنھجوڑ کر رکھ دیتی ہے مصنفہ کے تہذیب یافتہ ہونے کی دلیل ہے۔ ناول کے ان جملوں کو نظراندار کر دینا لکھاری کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔ تہذیب کو لفظوں کے موتیوں کی لڑی میں حنا جمشید نے کس خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے اس کی چند لائینیں ملاحظہ کریں!
من کی شانتی دریا سے گہری ہوتی ہے ۔
مسافر کو منزل کی نہیں وقت کے تیز بہاو کی فکر بے چین رکھتی ہے ۔
تاخیر منزل کو کھوٹا نہیں کرتی وقت سمے کی وقعت بڑھا دیتی ہے ۔
درد صرف تکلیف ہی نہیں احساس کو بھی جنم دیتا ہے ۔
من کی نگری کے بھید نرالے سب کجھ ہار کےسب کچھ پالے۔
کچھ کانٹے انسان اپنی راہ میں بڑی چاہ سے بوتا ہے۔
چیزیں خودبخود اپنے اصل کے پاس لوٹ جاتی ہیں۔
اپنے ہاتھوں سے دفنائے گئے دکھ سب سے وزنی ہوتے ہیں۔
مصائب انسان کا نہیں اس کے ظرف کا امتحان لیتے ہیں۔
یہ چند جملے جنا جمشید کے اس ناول میں کہانی کے ساتھ جوڑ جوڑ کے ہی لکھے گئے ہیں۔ جب مصنفہ نے ان جملوں کو ترتیب دیا تو ان لفطوں کو بھی اسی تہذیب کا حصہ بنا دیا۔
حنا جمشید نے ادب میں جس راستے کا انتخاب کیا یہ خاصا کٹھن ہے کیونکہ ایک کہانی کار جب تاریخی اور تہذیبی حوالے سے بات کرتا ہے تو اس میں وہ تخیل کے جولانیاں نہیں دکھا سکتا۔ لکھنے والے کو اسی خطے کی تاریخ اور تہذیبی حقیقت کو ہی سامنے رکھ کے اپنی کہانی اور کراردوں کو چلانا ہوتا ہے۔ لیکن ایک ادیب تاریخ و ثقافت سے کٹ کر نہیں رہ سکتا کیونکہ ادب کی حیثیت بنیادی ہے اسے ثانوی درجے پہ نہیں رکھا جا سکتا اس کا اعتراف حنا جمشید نے بھی کیا ہے !
” ادب ثقافت اور تاریخ کی باہمی ہم رشتگی کا تصور نہایت قدیم ہے۔ ادب کو تاریخ و ثقافت کی بنیادی مبادیات سے کاٹ کر نہ تو پیش کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کی یوں آزادانہ تفہیم ممکن ہے۔ اس بات سے قطعی انکار ممکن نہیں کہ تاریخ جو محض عہداروں کے تسلسل کا نام ہے، جب اپنی تشکیلی صورت سے گزرتی ہے تو اپنے اندر وہ تمام سیاسی،سماجی،تہذیبی،معاشی و ثقافتی تصورات سموئے ہوتی ہے۔ جو اس عہد کے مقتدر طبقات کے ہاتھوں متشکل ہوئے ہوتے ہیں ۔ "(۲۵)
ہری یوپیا بھی ایسی ہی ایک تخلیق ہے جسے مصنفہ نے کڑی محنت اور تحقیق کے ساتھ ایجاد کیا ہے۔ بظاہر یہ ایک عام سی کہانی ایک علاقے کی جہاں لوگ مل جل کر رہتے اور بادشاہ رعایا اور اس کے دربار کے منظر ہیں لیکن جب قاری اس کی گہرائی اور گیرائی میں جاتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود بھی ابھا باسا گانیکا کومیل کے ساتھ اسی پانچ ہزار سال پرانی تاریخ و تہذیب میں پہنچ گیا ہے۔ وہ خود کو اس کا حصہ سمجھنے لگتا ہے وہ بھی ہری یوپیا کے اس میلے میں بیلوں کی دوڑ کے مقابلے اور بیوپاریوں کے ساتھ مال کی لین دین میں مصروف ہوجاتا ہے۔ قاری کو اس قدر طویل ناول اور کرداروں کی بھرمار سے کوئی کوفت نہیں محسوس ہوتی کیونکہ مصنفہ نے اس کہانی میں تجسس اور دلچسپی کا عنصر نمایاں رکھا ہے جو کسی بھی ناول کی کامیابی کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔
حنا جمشید نے اس کہانی کے ذریعے ہڑپا کی قدیم تہذیب کو نئے رنگ نئے انداز اور نئے دور میں پیش کر کے خود کو اردو ادب کے میدان میں کھڑا کر دیا ہے جہاں بہت سے لکھنے والے پہلے سے ہی موجود ہیں جن میں تاریخی حوالے سے بھی لکھنے والے ہیں۔ مگر ان کا انداز بیان ان کا طرز تحریر انہیں منفرد پہچان دیتا ہے ۔جدید دور میں جب تاریخی ناول نگاروں کا ذکر آئے گا تو حنا جمشید کا نام سرفہرست ہوگا۔ جن لوگوں سے ہری یوپیا کا مطالعہ کیا ہوگا اگر ان کا گزر کبھی ہڑپا کے علاقے سے ہوگا تو حنا جمشید کی یہ کہانی ایک منظر بن کے ان کی آنکھوں کے سامنے آجائے گی۔ ہری یوپیا کے بڑے بازار اور اس کے معبد خانے کو قاری اس علاقے میں تلاش کرے گا ۔
حوالا جات :
۱۔ مبارک علی،ڈاکڑ، "تہذیب کیا کہتی ہے”، فکشن ہاؤس لاہور، ۲۰۱۳، ص۴۲
۲۔ مبارک علی،ڈاکٹر، "تاریخ اور فلسفہ تاریخ”، سنگ میک پبلی کیشنز لاہو،۲۰۱۲،ص۳۹
۳۔ محمد شاکر،”اردو میں تاریخی ناول نگاری”، مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی،بھوپال ،۲۰۰۳،ص۲۵
۴۔ سبط حسن،”پاکستان میں تہذیب کا ارتقا”٫مکتبہ دانیال،کراچی ،۱۹۹۸ص۱۱
۵۔ سجادظہیر،ڈاکٹر،”مطالعہ تہذیب”، قرطاس گلستان جوہر ،کراچی،۱۹۹۳،ص۱۸
۶۔ سبط حسن،”پاکستان میں تہذیب کا ارتقا”، ص۱۸
۷۔ نورالحسن نقوی ،پروفیسر،”تاریخ ادب اردو”، ایجوکیشن بک ہاؤس علی گڑھ،۱۹۹۷،ص۳۰۰
۸۔ احمد صغیر،ڈاکٹر،”ناول کا تنقیدی جائزہ”، ایجوکیشنل بک ہاؤس نئی دہلی،۲۰۱۵،ص۹
۹۔ محمدادریس صدیقی،” وادی سندھ کی تہذیب”، محکمہ آثارقدیمہ،پاکستان،اکتوبر۱۹۵۹ء،ص ۴۰
۱۰۔ حنا جمشید،ڈاکٹر،”ہری یوپیا”،بک کارنرجہلم،۲۰۲۲،ص۱۲
۱۱۔ ایضاً ،ص۷۲
۱۲۔ ایضاً،ص۱۳۰
۱۳۔ ایضاً،ص۱۳۹
۱۴۔ ایضاً،ص۳۱۹
۱۵۔ ایضاً،ص۳۵۹
۱۶۔ ایضاً،ص ۱۶۲
۱۷۔ ایضاً،ص۹۸
۱۸۔ ایضاً،ص۷۱
۱۹۔ ایضاً،ص ۸۹
۲۰۔ ایضاً،ص۴۷
۲۱۔ ایضاً،ص۹۷
۲۲۔ ایضاً،ص۵۵
۲۳۔ ایضاً،ص۱۶۰
۲۴۔ اقبال حسین،ڈاکٹر، "ہندوستانی تہذیب”، اتر پردیش اردو اکیڈمی،لکھنو،۱۹۸۲،ص۲۵
۲۵۔ حنا جمشید،ڈاکٹر، "کھلی تاریخ” بک کانر جہلم، ۲۰۲۳، ص ۳۲۰
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page