دوسروں کو خوش کرنا اخلاقی اور سماجی طور پر ایک اچھا عمل ہے۔ انسانی سماج کی یہ خوبصورتی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ انسانی ہمدردی ہماری فطرت کا حصہ ہے، اسی لیے ہم ایک دوسرے کی ضرورت میں ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ کوئی شناسا غم میں ہو تو اسے ہم حوصلہ دیتے ہیں کہ اس کا غم ہلکا ہو۔ خوشی کا موقع ہو تو ہم اس کے ساتھ ہوتے ہیں کہ اس کی خوشی دوبالا ہو جائے۔ انسان اور جانور میں جو فرق ہے وہ صرف نطق کا تو نہیں ہے۔ ایک دوسرے کا خیال رکھنا اور ایک دوسرے کے کام آنا بھی انسانی اوصاف میں ہی شمار ہوتے ہیں۔ اگر آپ سے وہ لوگ خوش نہیں رہتے جن سے آپ کی ملاقات اور گفتگو ہوتی ہے، تو آپ کبھی کسی کے ساتھ مضبوط اور پائیدار رشتہ استوار نہیں کر سکتے اور بطور انسان یہ ایک بہت بڑی کمزروی ہے۔ آپ کے اندر دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ ہے، خوش اخلاق ہیں اور نرم لہجہ اختیار کرتے ہیں تو آپ کے ملاقاتی آپ سے خوش رہیں گے۔ تاہم، اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ ہر اس فرد کو خوش رکھیں جو آپ کے گرد و نواح میں رہتا ہے، تو یہ ممکن نہیں ہے اور اگر آپ کی یہ خواہش ہے تو پھر ایسی خواہش آپ کے لیے مسئلہ پیدا کر سکتی ہے۔
یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک انسان اپنی زندگی کے سفر میں ملنے والے ہر انسان کو خوش کر سکے۔ میں یہ بات اتنی قطعیت اور یقین کے ساتھ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ہر انسان کی سوچ اور فکر الگ ہے۔ اس کا مقصد حیات جدا ہے۔ اس کی پسند اور ناپسند میں کبھی زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اس کی ضروریات اور اختیارات مختلف ہیں۔ اس کے علاوہ ایک انسان پر ہمیشہ ایک جیسے حالات نہیں رہتے۔ کبھی خوشی تو کبھی غم ہر انسان کی زندگی سے جڑا ہے۔ اگر ایک انسان خود اپنی زندگی کے برے دور سے گزر رہا ہے تو وہ بھلا کیسے کسی کو خوش کر سکتا ہے۔
ہر کسی کو خوش کرنے کی کوشش میں انسان کسی کو خوش نہیں کر پاتا۔ اگر کوئی اس طرح کی بیوقوفی کرتا ہے تو وہ خود اپنی زندگی تباہ کر دیتا ہے۔ سب کو خوش کرنا ایک غیر فطری اور غیر ممکن الحصول ٹاسک ہے۔ آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ آپ سب کو خوش کر سکتے ہیں تو ایسی صورت حال میں آپ کو ہمیشہ دوسروں کے خیالات و نظریات اور خواہشات سے اتفاق کرنا ہوگا۔ ان کی تمام اچھی بری خواہشوں کی تکمیل کرنا ہوگی اور ان کے غلط رویے پر بھی آپ کو شکایتی لہجہ اختیار نہیں کرنا ہوگا۔ اگر آپ یہ سب کچھ کرنے پر راضی بھی ہوتے ہیں تب بھی سماج میں کچھ ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو آپ کی مذکورہ تمام قربانیوں سے کبھی مطمئن نہیں ہوں گے۔ کیونکہ ان کی سوچ اس مشہور کہاوت کی طرح ہوتی ہے:
You can lie down for people to walk on you, and some will complain that you are not flat enough
آپ لوگوں کے چلنے کے لیے زمین پر لیٹ بھی جائیں تو کچھ لوگوں کو شکایت ہوگی کہ آپ ٹھیک سے نہیں لیٹے ہیں۔
اس حقیقت کے باوجود بھی ہمارے یہاں کچھ ایسے لوگ ہیں جو ہر قیمت پر دوسروں کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ اب چونکہ یہ ایک غیر فطری عمل ہے اس لیے وہ ہمیشہ ایک طرح کے ذہنی دباؤ میں رہتے ہیں۔ ان کو کو ہمیشہ یہ خوف ستاتا رہتا ہے کہ کوئی ان کی کسی بات سے ناراض نہ ہو جائے۔ وہ اپنے حقیقی جذبات اور احساسات کو دبا دیتے ہیں۔ وہ خود کیا سوچ رہے ہیں، ان کی پسند اور ناپسند کیا ہے، ان کا مقصد حیات کیا ہے، ان کے ارمان اور خواہشات کیا ہیں، وہ دوسروں پر کبھی واضح نہیں کرتے۔ اپنی فطری شخصیت کو مار کر دوسرے کی سوچ اور پسند کے مطابق ایک جھوٹی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔ اب وہ جو کچھ کرتے ہیں اس کی بنیاد جھوٹ پر ہوتی ہے۔ دوسروں سے رشتے ناطے سب جھوٹ کے باریک دھاگے سے بندھ جاتے ہیں جو نہ چاہتے ہوئے بھی ٹوٹ سکتے ہیں۔ ان کی کمزوری لوگوں پر واضح ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروں کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ وہ ان کو استعمال کرتے ہیں۔ لوگ ان کے پاس جاتے ہیں، اپنا دکھ درد بیان کرتے ہیں اور اپنا کام نکلواتے ہیں۔ دھیرے دھیرے وہ استعمال ہونے کے عادی ہوجاتے ہیں اور ان کو احساس تک نہیں ہوتا۔ اگر ان کو محسوس بھی ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کو خوش کرنے کی کوشش میں استعمال ہو رہے ہیں یا اپنی جھوٹی شخصیت سے ہار چکے ہیں، پھر بھی وہ کسی کو منع کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ کسی کو منع کیا تو اس سے رشتے خراب ہو جائیں گے۔ ان کے دوستوں کا حلقہ محدود ہو جائے گا یا پھر وہ لوگوں کے درمیان چہیتے نہیں رہیں گے۔ یہی رشتوں کے خراب ہونے کا ڈر ان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ استعمال ہوتے رہیں یا اپنی خواہشوں کو قربان کرتے رہیں۔ اپنی خواہشوں کی قربانی دیتے دیتے ایک ایسا وقت آتا ہے کہ وہ خود اپنی عادت سے ہار جاتے ہیں اور اس وقت وہ مایوسی اور ناکامی کی چوکھٹ پر تن تنہا کھڑے ہوئے ہوتے ہیں۔
یہ خیال حماقت پر مبنی نہیں تو اور کیا ہے کہ آپ دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اپنے مقصد حیات کو کہیں دفن کردیں۔ دوسروں کی ناراضگی کے ڈر سے آپ اپنے احساسات و جذبات کا گلا دبا دیں۔ آپ اتنے بزدل کیسے ہو سکتے ہیں کہ آپ اپنی پسند اور نا پسند کا اظہار نہیں کر سکتے۔ جو لوگ آپ کے ارد گرد رہتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کی مصروفیات اور خواہشات کیا ہیں۔ آپ کی ترجیحات کا انہیں علم ہونا ضروری ہے اور ان پر یہ لازم ہے کہ آپ کی ترجیحات کو سمجھیں۔ آپ اپنے اوپر سے ڈر کا غلاف اتار دیں کہ آپ کے دوست و احباب آپ سے خفا ہو جائیں گے۔ وہ دوست ہی کیا جو آپ کے فیصلے اور آپ کی خواہشوں کی قدر نہ کرے۔ اپنی ترجیحات اور خواہشات کا اظہار کرنا کوئی جرم نہیں ہے جس کے لیے آپ کسی کی عدالت میں قصوروار ٹھہریں گے۔ اگر آپ کی اس عادت سے دوسرے لوگ خفا ہوتے ہیں کہ آپ اپنی خواہشات اور ضروریات کو ترجیح دے رہے ہیں تو انہیں خفا ہونے دیں۔ استعمال ہونے سے بہتر ہے کہ مطلبی لوگ آپ سے خفا ہی رہیں۔ ان کی ناراضگی وقتی اور عارضی ہوگی۔ لیکن ان کو خوش کرنے کی کوشش میں آپ دائمی طور پر ناشاد رہیں گے۔ آپ ہر کسی کو خوش نہیں کر سکتے، یہ نہ تو آپ کی ذمہ داری ہے اور نہ ہی آپ کے اوپر فرض ہے۔ آپ بہت اچھا بھی بنیں تو ایک دن کس کی نظر میں برے بن ہی جائیں گے۔ غالب نے ٹھیک ہی کہا ہے۔
غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page