میں نے بارہویں جماعت میں انگریزی کی ایک کتاب میں ابراہم لنکن کا یہ اقتباس پڑھا تھا ’’Your freedom ends where my nose begins ‘‘۔ یعنی آپ کی آزادی وہاں پر ختم ہو جاتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے۔ کتاب کا نام تو اس وقت میرے ذہن میں نہیں ہے مگر اتنا یاد ہے کہ وہ کتاب بارہویں کلاس کے نصاب میں شامل تھی۔ بہر کیف! آج سے تقریباً چودہ سال قبل جب اس اقتباس کو پڑھا تھا تو بہت معمولی سا لگا تھا، بلکہ اس کی لفظیات پر مجھے ہنسی بھی آئی تھی۔ ممکن ہے اس وقت اس میں استعمال ایک لفظ ناک کا لفظی مفہوم ہی میرے ذہن میں رہا ہو۔ دوران مطالعہ جب مذکورہ جملہ نظر سے گزرا تو میں نے خود سے یہی کہا کہ کسی کی آزادی کو بھلا ہماری ناک سے کیا لینا یا ہماری ناک کو کسی کی آزادی سے کیا سروکار ہو سکتا ہے۔ میرے ذہن میں ایک لمحہ کے لیے یہ بھی خیال آیا کہ ہو سکتا ہے ابراہم لنکن کی ناک کچھ زیادہ لمبی رہی ہوگی۔ اس وقت عمر بھی کچی تھی اور علم بھی محدود تھا۔ (میرا علم تو خیر آج بھی محدود ہی ہے۔) کبھی کبھی وقت کا فاصلہ آپ کو بہت کچھ سکھا دیتا ہے۔ اب جب کہ وقت کے گھوڑے پر سوار ہو کر تھوڑا آگے بڑھا ہوں تو اس جملے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ بلکہ اس کو ایسے کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کے بعد اس جملے کا مفہوم مجھ پر از خود واضح ہو گیا ہے۔ آج ساری دنیا میں جتنے بھی مسائل ہیں ان کو ترازو کے ایک پلڑا میں رکھ دیا جائے اور اظہار رائے کی آزادی پر مچنے والے واویلا کو ایک پلڑا میں تو ثانی الذکر کا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔ اظہار رائے کی آزادی ایک بڑا مسئلہ اس لیے ہے کیونکہ ہر کوئی مطلق آزادی کا خواہاں ہے۔ مسئلہ یہیں سے پیدا ہوتا ہے۔ ہم صرف بولنا اور لکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ ہمیں کیا بولنا اور لکھنا ہے۔ اس کو دوسرے لفظوں میں ایسے بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں اپنی آزادی کی زیادہ فکر ہوتی ہے اور ذمہ داری کا احساس کم ہوتا ہے۔ لکھنے اور بولنے کی آزادی پر مکالمہ کرنے والے سماج میں ایک فرد کی ذ مہ داری پر گفتگو کم ہی ہوتی ہے۔ کسی کے لیے بھی یہ طے کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے کہ سماج میں ایک انسان کی ذمہ داری کیا ہونی چاہیے۔ آزادی پر بات کرتے ہوئے ذمہ داری کو مطلق نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ زبان کا وجود خیالات کے ابلاغ و ترسیل کے مقصد سے ہوا ہے، دوسروں کو نیچا دکھانے یا دوسروں کا مذاق بنانے کے لیے نہیں۔ جس دن ہمیں یہ احساس ہو جائے گا کہ سماج اور معاشرے میں ہماری کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں، اس دن شاید ہم مطلق آزادی کا مطالبہ ترک کردیں گے۔ اوپر مذکور ابراہم لنکن کے اقتباس میں ہمارے سارے مسئلے کا حل موجود ہے۔ اس ایک چھوٹے سے جملے میں اظہار رائے کی آزادی اور ہماری ذمہ داری کے اصول پوشیدہ ہیں۔ اس جملے میں یہ بلیغ پیغام دیا گیا ہے کہ ہم اپنی آزادی کا استعمال وہیں تک کر سکتے ہیں جہاں سے دوسروں کی آزادی میں خلل پیدا نہ ہو۔ جس طرح آپ آزاد ہیں اسی طرح دوسرے لوگ بھی آزاد ہیں۔ آپ کی آزادی کا دائرہ لا محدود نہیں ہے۔ یعنی ہم کوئی بھی کام کرنے کے لیے مطلق آزاد نہیں ہیں۔ مطلق آزادی انارکی کو جنم دیتی ہے اور جہاں انارکی پھیل جائے گی وہاں دوسروں کی آزادی کے چھن جانے کا خدشہ رہتا ہے۔ ہمارے اوپر کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں۔ لیکن ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم آزادی اور ذمہ داری کو الگ الگ دیکھنے کے عادی ہیں۔ اس لیے مطلق آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی آزادی کے حق کے استعمال کی جس قدر فکر ہوتی ہے اتنی فکر اپنے اوپر عائد ذمہ داریوں کی نہیں ہوتی۔ اگر ہم ایک ذمہ دار انسان اور شہری بن جائیں تو پھر اپنی آزادی کا استعمال محدود سطح پر کریں گے۔ یہ طے کرنا مشکل ہے کہ ایک انسان کو کیا بولنا چاہیے اور کیا نہیں۔ لیکن اگر ہمیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہو جائے تو یہ بہت آسان بھی ہے۔ ہم کچھ بھی لکھتے ہیں تو یہ خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ اسے پڑھیں۔ ہم کچھ بولتے ہیں تو یہ تمنا کرتے ہیں کہ اسے سنا جائے۔ ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ ہم ایسا کیوں سوچتے ہیں؟ در اصل ہم جس سماج میں رہتے ہیں اس میں موجود دوسرے لوگوں سے ہمارا ایک انسانی رشتہ ہوتا ہے۔ جہاں ہم یہ سوچتے ہیں کہ دوسرے ہم کو سنیں اور پڑھیں وہیں دوسرے لوگ بھی ہم سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو بھی بخوبی نبھائیں۔ ایک انسان کو جتنا آزاد ہو نا چاہیے اسی قدر اسے ذمہ دار بھی ہونا چاہیے ۔فکر کی آزادی اور ذمہ داری کا احساس دونوں ایک ساتھ ہی چلتے ہیں۔ دونوں ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں۔ امریکی نوبل انعام یافتہ باب ڈیلن[Bob Dylan]نے لکھا ہے :
A hero is someone who understands the
responsibility that comes with his freedom
یعنی ہیرو وہ ہے جو اس ذمہ داری کو سمجھے جو اس کی آزادی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اس کا تعلق اظہار رائے کی آزادی سے بھی ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کی اپنی اخلاقیات ہے جس کا شعور ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہمیں کیا اور کیسے بولنا اور لکھنا ہے۔ دنیا کے تقریبا ہر ملک میں اظہار رائے کی آزادی کو بنیادی حقوق میں شامل کیا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی آئین کی دفعہ A 19 میں اظہار رائے کی آزادی کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کسی بھی ملک اور قوم کی ترقی اور بہتری کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس لیے آپ دیکھیں گے کہ تقریبا دنیا کے ہر ملک میں اس کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ہمارے ملک کا آئین ہمیں اپنی رائے رکھنے اور اپنے خیالات کے اظہار کی پوری اجازت دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں اور دیگر ممالک میں بھی میڈیا کو جمہوریت کا ایک ستون سمجھا جاتاہے۔ یہ اس بات کا اشاریہ ہے کہ اظہار خیال کی آزادی کو کتنی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن قانون میں جہاں یہ بات لکھی ہے کہ اظہار رائے کی آزادی ہمارا بنیادی حق ہے وہیں یہ بات بھی لکھی ہے کہ اس حق کا استعمال دوسروں کی تذلیل و تحقیر کے لیے نہیں کر سکتے۔ اظہار رائے کی آزادی کی تاریخ پر غور کریں تو ہم پائیں گے کہ اس کی شروعات در اصل حکومت سے مخاصمت کے نتیجے میں ہوئی۔ یعنی حکومت کی پالیسی اور منصوبے پر تنقید اور اس کو عام کرنے کی کوشش اظہار رائے کا اہم مقصد رہا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کا استعمال اتنے غلط انداز میں کیا جانے لگا کہ اظہار رائے جو اب تک ایک اچھی چیز تصور کی جاتی تھی وہ ساری دنیا میں ایک بڑا مسئلہ بن گئی۔ آج ہم اظہار رائے کی آزادی کا مطالبہ کسی مذہب کو گھٹیا بتانے، پیغمبر کا کارٹون بنانے، مذہبی لوگوں کی تضحیک کرنے اور کسی کی شخصیت کو مجروح کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں میں تشدد کے واقعات نے اسی لیے زور پکڑا ہے کہ لوگوں نے اظہار رائے کی آزادی کے نام پر ایک خاص قسم کے منفی پیغام کو پھیلانے کو اپنا حق سمجھ لیا۔ فرانس کی مشہور ومعروف مزاحیہ میگزین پر کچھ سال قبل حملہ ہوا تھا جس نے محمد ﷺ کا کارٹون شائع کیا تھا۔ میں اس حملے کی کسی بھی طور پر حمایت نہیں کرتا۔ لیکن جس طرح پوپ فرانسس نے یہ بات کہی تھی کہ مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنا ہر شہری کی ذمہ داری ہے، اس کو سنجیدگی سے لینا چاہیے تھا۔ سویڈن، ڈینمارک، ہالینڈ اور یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی اظہار رائے کی آزادی کا استعمال ایک خاص مذہب یعنی اسلام کے خلاف ہوتا رہا ہے۔ بدنام زمانہ مصنفہ تسلیمہ نسرین کو بنگلہ دیش سے ملک بدر اس لیے کیا گیا کیونکہ اس نے اسلام کے خلاف ہی زہر اگلنے کو اظہار رائے کی آزادی سمجھ لیا تھا۔ سلمان رشدی بھی برطانیہ میں رہ کر یہی کام انجام دے رہے ہیں۔ اظہار رائے کے حق کا استعمال موجودہ دور میں ذاتیات پر حملہ کرنے کی غرض سے بھی کیا جا رہا ہے۔ ہم کسی کے بارے میں کچھ بھی بول دینے کو اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔ ہم اظہار رائے کے حق کا استعمال کرتے ہوئے جس قانون کی دہائی دیتے ہیں اسی قانون میں شہریوں کے بنیادی فرائض کا بھی ذکر ہے۔ آئین کی دفعہ A 51میں گیارہ بنیادی فرائض بتائے گئے ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ آپسی ہم آہنگی کو بنائے رکھنا ہر شہری کا بنیادی فریضہ ہے۔ اب یہ بتائیں کہ ہم کسی کے مذہب کی تذلیل کرکے قانون کی نافرمانی کے مرتکب ہوتے ہیں یا نہیں؟ لیکن اس کی پروا کسی کو نہیں کہ ہمارے فرائض کیا ہیں؟ سب کو اظہار رائے کی آزادی کی فکر ستائے جا رہی ہے۔ بھلا ہو ہمارے قانون بانے والوں کا جنہوں نے ہتک عزت کا قانون بھی بنایا۔ ورنہ آج جس قدر لوگ ایک دوسرے کے زہر اگلنے کو اپنا حق سمجھ رہے ہیں اگر یہ نہ ہوتا تو ایک دوسرے کو گالی دینے کو بھی بنیادی حق ہی تصور کرتے۔ آئین کی دفعہ 499 ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اگر کوئی تحریر و تقریر کے ذریعہ ہمیں بدنام کرنے، ہماری توہین کرنے یا کردار کشی کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ہم اس کے خلاف عدالتی کاروائی کر سکتے ہیں۔ یہ قانون فرد کے تحفظ کے لیے نہایت ہی ضروری تھا۔ لیکن اس قانون کی بھی دھجیاں بلا خوف و خطر اڑائی جاتی ہیں۔ بلا شبہ ہمارے آئین میں اظہار رائے کی آزادی بنیادی حقوق میں شامل ہے لیکن یہ آزادی مطلق نہیں ہے۔ اس کے کچھ حدود ہیں اور کچھ بندشیں ہیں۔ ہم کسی سے مختلف نظریہ رکھ سکتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کر سکتے ہیں۔ اختلاف کرنا ایک بات ہے لیکن اختلاف میں ساری حدوں کو پار کرتے ہوئے وہاں تک پہنچ جانا جہاں سے کسی کی تذلیل و تحقیر شروع ہو جاتی ہے، یہ ایک دوسری بات ہے۔ ہمارے معاشرے کا نظام اس لیے درہم برہم ہے کہ ہم کسی کی مخالفت کرنے اور تذلیل کرنے کے باریک فرق کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ہمارا سماج اتھل پتھل کا شکار اس لیے بھی ہے کہ ہم ذمہ داری سے دور بھاگتے ہیں اور آزادی کی گہار لگاتے ہیں۔سیگمنڈ فرائڈ نے بڑی اچھی بات کہی ہے:
"Most people do not really want freedom, because freedom involves responsibility and most people are frightened of responsibilty”
اکثر لوگ آزادی اس لیے نہیں چاہتے کیونکہ آزادی کے ساتھ ہی ذمہ داری پیدا ہو جاتی ہے اور اکثر لوگ ذمہ داری سے گھبراتے ہیں۔ اس کو اگر اظہار رائے کی آزادی سے جوڑ کر دیکھیں تو آج کا منظر نامہ بالکل اس کے برعکس نظر آئے گا۔ آج کسی کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہی نہیں ہے۔ میڈیا میں کچھ بھی دکھا دیا جاتا ہے۔ قلم کسی کی بھی تحقیر میں اٹھ جاتا ہے۔ سماج میں لوگوں پر اس کے کیا منفی اثرات مرتب ہو رہیں اس کی فکر کسی کو نہیں۔ مطلق آزادی کی اس سوچ سے تشدد کا جو ماحول پیدا ہو رہا ہے اس کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا۔ جب ٹوکا جاتا ہے کہ بھائی آپ اپنی آزادی کا غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں تو اظہار رائے کی آزادی کے نام پر واویلا شروع ہو جاتا ہے۔جب تک ہم اپنے فرائض اور ذمہ داری سے دور بھاگیں گے اظہار رائے کی آزادی کا غلط استعمال ہوتا رہے گا۔ ہمیں سب سے پہلے اپنے فرائض اور اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے نہ کہ اپنے حقوق کا۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہم اظہار رائے کی آزادی کا استعمال ایک بہتر سماج کی تعمیر کے لیے کرسکتے ہیں۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page