مولاناعبدالحلیم شررادبی دنیامیں کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔وہ بطورناول نگار، شاعر،مترجم ،ڈرامہ نگار،مورخ اورمدیراپنی ایک منفردپہچان رکھتے ہیں مگرسب سے بڑھ کربطورناول نگار اُن کی ایک خاص پہچان ہے۔مولاناعبدالحلیم شرراُردوناول کاایک اہم نام ہے۔انھوں نے اُردومیں کم وبیش 42 ناول تخلیق کیے ۔اُردومیں تاریخی ناول نگاری کاسہراشررہی کے سرہے۔انھوں نے سب سے پہلے اُردومیں تاریخی ناول نگاری کاآغازکیااوران کے 42ناولوں میں سے 28 تاریخی ناول ہیں ۔انھوں نے 1888ء میں اپناپہلا تاریخی ناول "ملک العزیزورجنا” لکھااور اپنے رسالے "دل گداز” میں قسط وارشائع کیا۔شررکے ناولوں میں اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے اوران کے ناول اسلامی تاریخ کے عکاس ہیں ،مگرشرر ایک پختہ کہانی کارتھے اس لیے انھوں نے تاریخ کو بھی افسانوی اندازمیں پیش کیاہے اوراسلامی تاریخ کوبھی عشقیہ داستان کے طورپرپیش کرتے ہیں ۔اُن کے اسی طرزبیان کے حوالے سے سید وقارعظیم ناول "فردوسِ بریں "کے مقدمے میں رقم طراز ہیں ۔
"شررنے جو بہت سے ناول لکھے ان میں سے زیادہ تاریخی ہیں اوربقول شخصے "اسلامی تاریخی”ہیں۔دوسرے یہ کہ یہ”اسلامی تاریخی”ناول تاریخی ہونے کے علاوہ "عاشقانہ” ہیں ۔یہ دونوں باتیں عوام کے من بھاتے موضوع ہیں اوران موضوعات کو شررنے اپنی شاعرانہ انشاپردازی سے عوام کا من بھاتا کھاجابنادیا ہے۔”(1)
”فردوسِ بریں” بھی ان کاایک تاریخی ناول ہے جو1899ء میں منظرعام پرآیااوراس وقت سے اب تک مسلسل شائع ہوتا آرہاہے جواس کی مقبولیت کامنہ بولتا ثبوت ہے۔میرے زیرمطالعہ مرتبہ سیدوقارعظیم اشاعت نومبر2003ءہے۔
عبدالحلیم شررکایہ ناول”فردوسِ بریں” بھی ایک اسلامی تاریخی ناول ہے۔اس ناول میں پانچویں صدی میں پیداہونے والے فرقہ باطنیہ کے عروج وزوال کی تاریخ قلم بندکی گئی ہے۔ناول میں شرر نے ایک عشقیہ داستان کے روپ میں فرقہ باطنیہ کے تصورات،عقائد،نظریات،واردات،اندازِ تبلیغ،عارضی فردوسِ بریں اوروہاں کے طورطریقے اوراس فرقے کی مکمل کہانی کو اس ناول میں جگہ دی ہے۔اس ناول کوپڑھنے سے معلوم ہوتاہے کہ کس طرح اس فرقے نے لوگوں کواپنے جال میں پھنسایا اورپھراس فرقے کاخاتمہ کیسے اور کیوں کرہوا ؟ تمام صورتِ حال کو شررنے بڑے سلیقے سے بیان کیا ہے ۔
شررایک منجھے ہوئے اورپختہ کہانی کارہیں اورکہانی بنانے اور بیان کرنے کے فن سے خوب واقف ہیں اس لیے انھوں نے ناول کے عنوان اور کہانی کوایک دوسرے سے جدانہیں ہونے دیاورنہ کمزورلکھاری عنوان سے بہت دورہی نہیں بلکہ بالکل متضاد نکل جاتے ہیں ۔اکثرناول اورافسانے دیکھنے کوملتے ہیں جن کے عنوانات توکچھ ہوتے ہیں مگرجب کہانی کوپڑھاجائے تواس کاعنوان سے کوئی تعلق اور واسطہ نظرنہیں آتا،مگرشررکایہ ناول پڑھتے ہوئے کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوتاکہ وہ عنوان سے دورہٹ رہے ہیں بلکہ ساری کہانی "فردوسِ بریں” کے گرد گھومتی ہے اوروہیں پرناول کااختتام بھی ہوتاہے۔عنوان اور کہانی ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں جس طرح جسم اورروح ،عنوان اورکہانی کابڑامضبوط اور گہراربط ہے جوکہ دل چسپی اورقاری کوناول سے جوڑے رکھنے میں مدددیتاہے۔
"فردسِ بریں”کا پلاٹ سادہ اورمضبوط پلاٹ ہے۔ناول کی مرکزی کہانی حسین اورزمردکے عشق پرمبنی ہے جومختلف صورتوں سے ہوتی ہوئی شادی پراختتام پذیرہوتی ہے۔اس مرکزی کہانی کے ذریعے پورے فرقہ باطنیہ کے عروج وزوال کی داستان قلم بندکی گئی ہے اورکچھ ضمنی واقعات مرکزی کہانی کومضبوط اور مدلل بنانے کے لیے آئے ہیں جن کاایک دوسرے سے بڑاگہراربط ہے ۔تمام واقعات کو ایک دوسرے سے جداکرنامشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے۔کوئی واقعہ بھی اضافی یاغیرضروری نظرنہیں آتااورنہ ایسامحسوس ہوتاہے کہ یہ واقعہ نکال بھی دیا جائے توناول پر کوئی فرق نہیں پڑے گا،بلکہ اگرکسی واقع کو نکالنے کی کوشش کی جائے توکہانی ادھوری،خلا پرمبنی اورغیرمنطقی نظرآئے گی۔یہی کسی اچھے ناول نگارکی خوبی ہوتی ہے کہ ناول کاپلاٹ اس طرح تیارکرے کہ کوئی چیزاضافی اورفضول نظر نہ آئےاورپوراناول ایک کہانی نظرآئے نہ کہ ڈائری، کیوں کہ اکثرناول ایسے بھی ملتے ہیں جوڈائری نماہوتےہیں ۔پلاٹ کے تینوں حصے آغاز،نقطہ عروج اوراختتام بھی بڑے سلیقے سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں کہ اُن میں ایک منطقی ربط موجودہےجوآغازسے انجام تک موجودہے۔شررکایہ ناول بہترین پلاٹ کاحامل ناول ہے ۔اس ناول کاپلاٹ مضبوط،منطقی،سادہ،مدلل اور ایک وحدت میں ڈھلا ہوا ہےجس کی مثال اُردوناول میں کم کم ملتی ہے ۔
ناول”فردوسِ بریں” کااسلوب داستانوی فضامیں گوندھاہوا اسلوب ہے ۔ناول کے شروع سے ہی ایسے محسوس ہوتا ہےجیسے یہ کوئی ناول نہیں بلکہ داستان ہے۔آغازمیں ہی طلسماتی وتخیلاتی فضاسے پالا پڑتاہےجوناول کے آنے والے واقعات اوراسلوب کاپتادیتی ہے۔جوں جوں ناول آگے بڑھتا ہےوہ فضااپنے رنگ بکھیرتی نظرآتی ہے۔ناول کے آغازسے داستانوی اسلوب کی فضا ملاحظہ کیجیے۔
” انھیں دلچسپ اورقدرت کے انھیں نظرفریب منظروں نے اس کوہسارکے متعلق طرح طرح کے خیالات پیداکردئیے ہیں ۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ جنت انھیں گھاٹیوں میں ہےاوربعض سمجھتے ہیں کہ قدیم دیوزادوں کو توکیو مرث ورستم ونریمان کے زور بازو نے فناکردیا مگراگلی یادگار میں بہت سی پریاں آج تک ان تنہائی کے مقامات میں سکونت پذیرہیں ۔ خوش عقیدہ لوگوں میں سے اکثر وں نے ان پریوں کواڑتے دیکھاہے اوربعض سیاحوں کو توپریوں کے بڑے بڑے ہوش رباغول گھاٹیوں سے ناگہاں نکل پڑتے نظرآئے ۔یہ بھی سناجاتا ہے کہ جوکوئی یکہ وتنہا ان پریوں کے غول میں پڑجاتاہے فوراَََمرجاتاہے۔”(2)
یہی داستانوی فضااورداستانوی اسلوب پورے ناول میں موجودہے اوراول سے آخر تک یہی فضابرقرارہے ۔شررنے خوب صورت اندازمیں اس اسلوب کونبھایاہے ۔اب ذرا ناول کے آخرسے اسی طرح کے اسلوب کی مثال دیکھیے۔
"کاظم جنونی نے یہ الفاظ سنتے ہی سراٹھاکے چاروں طرف دیکھا اورایک شکستہ حال بڈھے کی طرف جو کئی آدمیوں کے درمیان میں زمین پرننگے سر بیٹھا تھا،اشاراکیااورپھرزمین پر گرکے کہنے لگا”اے شجرِ معرفت کی شاخ!مجھے پناہ دے”حسین نے غضب آلودتیوروں سے اس ذلیل خوشامدی کودیکھا اور یہ کہہ کے کہ”تجھ سے ذلیل فریبی کے لیے پناہ نہیں ہے” اس کاسر اڑادیا۔”(3)
داستانوی اسلوب کے علاوہ کہیں کہیں سادہ اورعام فہم اسلوب بھی ملتاہے مگرزیادہ تراسلوب داستانوی اورلکھنوی اندازکااسلوب ہے ۔شرر کا تعلق لکھنو سے تھااورانھوں نے اپنے ناول میں لکھنوی اسلوب ہی اپنایاہے۔لکھنوی اسلوب کی نمایاں خصوصیات میں شاعرانہ لفاظی ،سحرآفرینی،روزمرہ ومحاورات ،فصاحت وبلاغت،مفرس ومعرب لفاظی اوررنگیں مزاجی نمایاں اورقابلِ ذکرخصوصیات تھیں ۔یہ تمام چیزیں شررکے ہاں موجودتھیں اور یہی تمام خصوصیات اس ناول کاخاصہ ہیں ۔ذیل میں رنگیں اسلوب کی مزید مثالیں پیشِ خدمت ہیں ۔
"صبح کاوقت تھا اورنسیم کے جھونکے چل رہے تھے کہ مرغانِ سحرنے اپنے اپنے نشیمنوں سے نکل نکل کے حسین کو خوابِ بیہوش سے جگایا۔خمار کی سی کروٹیں بدل کے آنکھیں ملتا ہوا اٹھا اورچاروں طرف مڑمڑکے دیکھا ۔زمردکاکہیں پتا نہ تھا۔ جب معشوقہ دلرباکی پیاری پیاری اورمحبت بھری صورت کسی طرف نظرنہ آئی توکلیجا دھک سے ہوگیا۔”(4)
"زمرد۔خیرتم نے یہ داستان چھیڑی ہے تولوسنو۔یہ باغ فدائیوں اور باطنیوں کے اعتقاد میں توجنت ُ الفردوس اورملااعلیٰ کا سرمدی عشرت کدہ ہے مگرسچ پوچھو توشاہانِ التمونت کے سراپا حرم کی حیثیت رکھتا ہے۔”(5)
یہ چندمثالیں تواس کے اسلوب کو بیان کرنے کے لیے ناکافی ہیں مگران کوپڑھنے سے تھوڑابہت اندازہ لازمی ہوجاتاہے ۔پورے کاپوراناول رنگین مزاجی وشیریں بیانی سے بھرپور ہے جس وجہ سے اس ناول کو لکھنو کا نمائندہ ناول کہاجاسکتاہے۔شرر نے مکالمات میں کرداروں کے عین مطابق زبان استعمال کی ہے جو اُن کی زبان پر گرفت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔مختصراََناول "فردوسِ بریں ” کااسلوب شاعرانہ، سحرآفریں ،محاورات وتشبیعات سے مزین،مکالمات سے بھرپور،ٖفصاحت وبلاغت کا مرقع،ٹھیٹھ زبان ِ اُردوسے لبریز،مفرس اندازِ بیان سے لیس اور لکھنوکے طرزِ تحریر کاعکاس ہے۔
ناول "فردوس ِ بریں” میں شررنے زیادہ تربیانیہ تکنیک سے کا لیا ہے مگر بیانیہ کے ساتھ ساتھ مکالماتی تکنیک،خطوط کاانداز،طلسماتی اندازِ تحریر اور شعورکی رو سے بھی مدد لی ہے ،لہذا اس ناول میں شرر نے کئی تکنیک اکٹھی کردی ہیں اور واقعات کے مطابق تکنیک کااستعمال کیا ہے۔ زمردکے حسین کے نام خطوط اور زمرد کے بلغان شہزادی کے خطوط بیانیہ سے ہٹ کر خالصتاََ خطوط کی تکنیک میں ہیں ۔اسی طرح بعض جگہوں پرشعورکی رواور مکالماتی اندازِ تحریر بھی نمایاں ہے۔
ناول "فردوسِ بریں” کے کرداربھی لاجواب اوراپنی مثال آپ ہیں ۔ناول کے تمام کردار تاریخی کردارہیں سوائے حسین اور زمردکے،یہ دوکردارشرر نے اپنے تخیل کی بنیاد پر قائم کیے ہیں اورانھی دوکرداروں کے درمیان عشق ومحبت کی فرضی کہانی بناکر شرر نے تاریخی کہانی کوخوب صورت اورداستان بنادیاہے۔حسین اور زمردکی عشقیہ داستان ایک فرضی داستان ہے مگرناول کوپڑھتے ہوئے یہ ایک حقیقی کہانی لگتی ہے جوشررکے کمال فن کامنہ بولتاہے ۔اس عشقیہ داستان کے علاوہ باقی تمام واقعات وکردارحقیقی ہیں جن میں شیخ علی وجودی،امام قائمِ قیامت(خورشاہ)،دیدار،بلغان شہزادی،منقوخان،ہلاکوخان،امام نصربن احمد، طورِ معنی،امام نجم الدین نیشاپوری اورعلامہ نصیرالدین طوسی قابلِ ذکرکردارہیں ۔ ناول کاہیروحسین جب کہ ہیروئن زمردہے ۔یہ دونوں کرداربڑے جان داراور مضبوط کردار ہیں ۔دونوں کرداروں میں کشش،ہمت،وفااوردوسری کئی خصوصیات شامل ہیں جواچھے کرداروں کاخاصہ ہیں ۔مگرحسین سے بھی زیادہ مضبوط کردار زمرد کا ہے کیوں کہ وہ عورت ہوتے ہوئے بھی جرات مندی ،دلیری اور صبر کامظاہرہ کرتی ہے اور ساری کہانی اسی کے گرد گھومتی ہے ،اگرسچ کہاجائے توزمرد ہی سے ناول شروع ہوتاہے اور اسی پرناول کااختتام ہوتا ہے باقی جتنے کردار بھی ہیں وہ زمرداوراس کے عمل سے جڑے ہوئے ہیں اوراس کے اشاروں پر عمل کرتے ہیں ۔ زمرد کے کردار کے حوالے سے سیدوقارعظیم ناول کے مقدمے میں لکھتے ہیں ۔
"زمرد کے کردار میں حسین سے زیادہ کشش ہے،محض اس کے حسن وجمال کی وجہ سے نہیں جس کا ذکر ناول نگار نے بڑے رومانوی انداز سے کیا ہے ،بلکہ مستقل مزاجی ،دوراندیشی،مصلحت بینی،ضبط،تحمل،احتیاط اور پاک دامنی کے ان اوصاف کی بنا پر جواس کے مزاج کی نسوانی نزاکت اوراس کے جذبہ محبت کی پاکیزگی اور صداقت کے گہرے رنگ کے نیچے دب جانے کی بجائے برابراس کے قول وفعل سے نمایاں ہوتے ہیں ۔”(6)
زمردکے کردار کے علاوہ امام ِ قائم قیامت (خورشاہ) کے کردار میں جان ہے کیوں کہ باقی کرداراس کے اشاروں کے تابع ہیں ۔وہ جوکچھ کہتاہے وہ سب کرتے چلے جاتے ہیں مگر اس کے باوجود شرر نے کمال مہارت سے تمام کرداروں کواپنے فن میں ماہرکرکے دکھایاہے کسی کردارمیں کمزوری نظرنہیں آتی ،جس کے ذمے جوذمہ داری ہے وہ اس کوپوراکرتا نظر آتاہے ۔ہرکردارکی نوعیت اوراس کی قابلیت کے مطابق مکالمات کروانا بھی ایک مہارت سے کم نہیں ۔شرراس مرحلے میں بھی کمال مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام کرداروں کی قابلیت اور کام کے مطابق مکالمے کرواتے ہیں جس سے ناول میں مزید خوب صورتی اور دل کشی نظر آتی ہے ۔
شررکی کردارنگاری کے حوالے سے سیدوقارعظیم رقم طراز ہیں ۔
"فردوسِ بریں کے کرداروں کی ساخت دونوں طرح کے فنی عمل سے ہوئی ہے اور ناول نگار کی کامیابی یہ ہے کہ جس طرح پلاٹ کے کسی حصے کی طرف سے اس کے دل میں (بعض اوقات متحیر ومتعجب ہوجانے کے باوجود)شبہ یا بے یقینی نہیں پیدا ہوتی اسی طرح کرداربھی جوکچھ کہتے اور کرتے ہیں وہ ان کے مزاج کی بنیادی خصوصیتوں سے ہم آہنگ ہے۔”(7)
ناول "فردوسِ بریں” کے تمام کردارجان داراوراپنے قول وفعل میں حقیقی کردارنظر آتے ہیں اور کہانی کے مطابق ضرورت کے تحت کردارلائے گئے ہیں ،نہ کردارکم ہیں اور نہ ضرورت سے زیادہ وگرنہ عام طور پردیکھا جاتاہے کہ کہانی میں ضرورت سے زیادہ کرادرلا کرکہانی کوبوجھل اورلایعنی بنادیاجاتاہے مگرشررنے اس مرحلے میں بھی کمال مہارت سے ضرورت کے مطابق کردارتخلیق کیے ہیں ۔
ناول”فردوسِ بریں "کے واقعات خوب صورت اوردلنشیں ہیں ۔تمام واقعات ہرلحاظ سے مکمل ہیں اورتمام واقعات کی بنت اورجڑت بڑی مضبوط اورمدلل ہے ۔شررکو واقعات بنانے اوران کوبیان کرنے کاخوب ملکہ حاصل ہے جواُن کے تمام ناولوں اور بالخصوص "فردوسِ بریں” سے ظاہر ہوتاہے۔واقعات میں کہیں کوئی کمی یاکمزوری نظر نہیں آتی ،ہرواقع کے لیے وہ پوری فضا اور ماحول تخلیق کرنے کے ماہر ہیں ۔مذکورہ ناول میں حسین اورزمرد کی عشقیہ داستان ،اُن کاحج پرجانا،راستے میں زمردکے بھائی موسیٰ کی قبر پرجانا ،وہاں زمرد کاغائب ہوجانا،عارضی فردوس بریں کے مناظر اورفرقہ باطنیہ کے لوگوں کامعصوم لوگوں کو اپنے جال میں لانے کے تمام واقعات کے لیے شررنے باقاعدہ فضائیں اور ماحول بنائے ہیں اور کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ کوئی واقعہ کمزوریاکہیں سے غیرحقیقی ہے بلکہ شررنے کوشش کی ہے کہ تمام واقعات کوحقیقت کے قریب کرکے پیش کیا ہے اوراس میں وہ کامیاب بھی ہوئے ہیں ۔
واقعات نگاری کے علاوہ ناول میں شرر نے خوب صورت نظرنگاری سے بھی کام لیاہے۔تمام جگہوں اور تمام واقعات کے لیے الگ الگ منظر نگاری کی گئی ہے۔مختلف مناظرکو لفظوں کے ذریعے ہوبہوپیش کرنامشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوتاہے مگرشررکے ناول”فردوسِ بریں”کی ورق گردانی کرتے وقت ایسے لگتا ہے کہ وہ تمام مناظرقاری کے سامنے ہیں اور قاری ان سب مناظر کاآئینی شاہدہے ۔اسی لیے توساراناول پڑھے بغیرچین نہیں آتاکیوں کہ شررقاری کوان تمام مناظر کی سیر کرواتے ہیں اورقاری کولگتاہے کہ وہ سب مناظراپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہے ۔یہ ناول پڑھتے ہوئے کہیں کہیں یوں محسوس ہوتاہے کہ یہ ناول کی بجائے سفر نامہ ہے ،جیسے سفرنامہ نگارقاری کومختلف علاقوں کی سیر کراتاہے بالکل اسی طرح اس ناول میں بھی شررقاری کومختلف جگہوں کی سیرکراتے ہوئے گزرتے ہیں ۔ناول کی منظرنگاری بڑی خوب صورت،دل کش،دلربا اور آنکھوں کو خیرہ کردینے والی ہے ۔آئیے ناول سے منظرنگاری کی چند مثالیں دیکھیے۔زمردکے غائب ہونے اور صبح کے وقت زمرد کی تلاش میں حسین کے ردعمل کے حوالے سے منظرنگاری ملاحظہ کریں ۔
"صبح کاوقت تھااورنسیم کے جھونکے چل رہے تھے کہ مرغانِ سحر نے اپنے اپنے نشیمنوں سے نکل نکل کے حسین کو خواب ِ بہیوش سے جگایا۔خمارکی سی کروٹیں بدل کے آنکھیں ملتا ہوا اٹھا اور چاروں طرف مڑمڑ کے دیکھا ۔زمردکا کہیں پتا نہ تھا۔”(8)
اسی طرح زمرداور حسین (موسی ) کی قبر پرجارہے ہیں ،راستے اوراس وقت کی کیفیت کی منظرنگاری ملاحظہ کیجیے۔
"اب دونوں آہستہ آہستہ چلے جاتے ہیں اوراس سنسان مقام کا رعب دلوں اس قدر بیٹھ گیا ہے کہ بالکل خاموش ہیں۔جوں جوں آگے بڑھتے ہیں جنگل گھنا ہوجاتا ہے ،سردی ساعت بہ ساعت بڑھ رہی ہے،سناٹے نے نہر کے بہنے کی آواز زیادہ تیز کردی ہے جس سے اس مقام کے وحشت ناک منظر میں ایک اہمیت پیدا ہوگئی ہے۔اب راستہ دشوارہے،گدھوں سے اترناپڑا۔دونوں آگے پیچھے اپنے اپنے گدھے کے دھانے ہاتھ میں پکڑے چٹانوں سے بچتے اور جھاڑیوں میں گھستے چلے جاتے ہیں ۔آخردیر کے سکوت کے بعد حسین نے مرعوب ہوکر کہا ۔”بے شک دیوپری ایسے ہی سناٹے کے مقام میں رہتے ہیں ۔انسان کیا معنے یہاں توجانور کا بھی پتانہیں "۔”(9)
پورے ناول میں ایسے ہی مناظر دکھائے گئے ہیں اورہرواقع کی لفظوں میں مکمل تصویر اتارکے قاری کے سامنے لائی گئی ہے ۔واقعات کوپڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتاہے جیسے قاری ان مناظرکو آنکھوں کے سامنے دیکھ رہاہے اور ان کی سیر کررہاہے ۔
منظرنگاری کے ساتھ ساتھ جزئیات نگاری بھی کمال کی ہے ۔ہرواقع میں چھوٹی سے چھوٹی چیز کا بھی ذکر ملتاہے ۔فردوسِ بریں کے مناظر بیان کرتے ہوئے شرر نے جس قدر جزئیات نگاری سے کام لیا ہے یہ انھی کا خاصہ ہے ۔حسین جب شیخ علی وجودی کی تلاش میں نکلااور وہاں پہنچاتواس واقع کوبیان کرتے ہوئے جزئیات نگاری دیکھیے۔
"آٹھویں دن شام کے وقت حلب میں داخل ہوا ۔راہ گیروں سے پوچھتا ہوا محلہ رامنہ اور پھر مسجد الثماتین میں پہنچا۔یہاں آتے ہی کمرکھول دی اور سرشام ہی کچھ کھانے کے بعد عشا کی نماز پڑھی اور پڑھ کے سوگیا۔اگرچہ تھکا ماندہ تھا مگر زمرد کاوصال غالب تھا۔آدھی رات سے زیادہ نہ گزری ہوگی کہ آنکھ کھل گئی اور صبح تک نمازِ فجر کے انتظار میں کروٹیں بدلتا رہا ۔صبح کی اذان سے پہلے ہی وضو کرکےتیار ہوگیا اور دروازے پربیٹھ کے ہرآنے والے کی صورت کا مطالعہ کرنے لگا۔”(10)
اسی طرح جگہ جگہ اور ہرواقع میں جزئیات نگاری ملتی ہے ۔شررہرواقع کوبڑی تفصیل سے بیان کرتے ہیں اور تفصیل بیان کرتے وقت وہ چھوٹی سے چھوٹی چیز کوبھی بیان کرتے ہیں ۔
ناول”فردوسِ بریں” کی مکالمات نگاری بھی بڑی خوب صورت اور جان دار ہے ۔شررکیوں کہ ایک پختہ کہانی کارہیں لہذاانھیں کرداروں کے مطابق مکالمات اداکروانے کا ہنر بھی آتاہے ۔ان کے مکالمات حقیقی اور وزنی ہیں ان میں کہیں بھی کمزوری کااندیشہ نظر نہیں آتااور نہ ان کی گفتگوسے لگتا ہے کہ یہ مصنوعی لفظیات سے کام لے رہے ہیں بلکہ ان کی گفتگو سے محسوس ہوتا ہے کہ حقیقی کردارآپس میں گفتگوکررہے ہیں ۔ذرامکالمات نگاری دیکھتے ہیں کہ شررنے کس طرح اپنے تخلیق کردہ کرداروں سے مکالمات کروائے ہیں ۔
"حسین:پھرایسے مقام میں توہرگز نہ جانا چاہیے۔
زمرد:نہیں حسین میں تو ضرور جاؤں گی۔
حسین: فرض کرو کہ ہم وہاں پہنچے اور ہمارے سامنے پریاں اتریں تو ؟
زمرد: میں تواس سے نہیں ڈرتی ۔اگر تمہیں خوف ہے تو نہ چلو۔
حسین:تم اکیلی جاؤ اور میں نہ چلوں ؟جو تمہاری محبت میں جان دینے کو تیار ہوں ۔”(11)
"حسین: (آنسو پونچھ کے)زمرد یہی فردوسِ بریں ہے؟
زمرد: یہی!
حسین : تم یہاں چلی آئیں اور مجھے اس دردوالم میں چھوڑ دیا؟”(12)
"شاہزادی: تم میرے ساتھ والوں میں سے ہو؟
تاتاری: نہیں !
شاہزادی:(خوش ہوکے)بھائی آگئے ؟
ہوئی نکلی۔تاتاری دوڑ کے اس کے قدموں پر گرپڑااور عرض کیا۔”ہم حضور کی تلاش میں تھے۔”
شاہزادی: تم میرے ساتھ والوں میں سے ہو؟
تاتاری: نہیں !
شاہزادی:(خوش ہوکے) بھائی آگئے؟
تاتاری : جی ہاں۔”(13)
شررنے مکالمات نگاری میں بھی کمال مہارت سے کام لیتے ہوئے تمام کرداروں کے کام اور ان کی ذہنی وعلمی حالت کے مطابق لفظ اداکروائے ہیں جس سے تمام کرداروں کی گفتگو حقیقت پر مبنی نظر آتی ہے اور کہیں مصنوعی پن کاشبہ تک نہیں ہوتا۔
ناول "فردوسِ بریں” میں سوانحی خاکے بھی ملتے ہیں ۔شررنے کمال مہارت سے حسین اور زمرد کی حلیہ نگاری لفظوں میں اتاری ہے جسے ادب کی اصطلاح میں حلیہ نگاری یا خاکہ نگاری کے نام سے پکاراجاتاہے ۔حسین کاحلیہ بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں ۔
"مردکی ابتدائے جوانی ہے ایک خوب صورت نوجوان ہے ۔یہ ایک اونی کفتان پر بڑا پوستین کا لباس پہنے ہے۔سرپرقدیم لمبی ترکی ٹوپی ہے جوبانس کی تیلیوں سے ایک مخروطی صورت میں بنا کے بکری کی سیاہ کھال سے مڑھ دی گئی ہے۔ ٹوپی پر عمامہ ہے اوراس کے کئی پیچ سرسے نیچے اترکے کانوں اور گلے میں بھی لپٹے ہیں ،پاؤں میں موزےاورایک اونی پائجامہ ہے۔کمر میں چمڑے کی پیٹی کسی ہے،جس میں خنجر لگا ہے اورتلوار لٹک رہی ہے ۔اس نوجوان کے پاس کمان اور تیروں کا ترکش بھی ہے۔”(14)
اسی طرح زمردکی تصویرلفظوں میں کیسے اتاری گئی ہے۔ملاحظہ کیجیے۔
"اس دلربا لڑکی کے حسن وجمال کی تصویر دکھانا مشکل ہے،مگرغالباََیہ چند باتیں مشتاق دلوں میں اورآرزومندنگاہوں کے سامنے اس کے زاہدفریب چہرے کا ایک معمولی خاکہ قائم کرسکیں ۔گول آفتابی چہرہ جیسا کہ عموماََپہاڑی قوموں میں ہوتاہے،ستے اورکھنچے ہوئے سرخی کی جھلک دینے والے گال،بڑی بڑی شربتی آنکھیں ،لمبی نوکدار پلکیں ،بلند پیشانیمگرکسی قدر پھیلی ہوئی،نازک نازک اور خم دار ہونٹ،باریک اور ذراپھیلی ہوئی باچھیں ،سانچے میں ڈھلی ہوئی نوکدار ٹھڈی،شرم گیں اور معمولاََنظروں کے ساتھ شوخ اور بے چین چشم ِ وابرو اور اس تمام سامانِ حسن کے علاوہ تمام اعضاء کاغیرمعمولی تناسب ہرشخص کو بیتاب وبے قرار کردینے کے لیے کافی ہے ۔”(15)
حسین اور زمردکے علاوہ بھی کئی کرداروں کے ہلکے پھلکے خاکے ملتے ہیں ، جن میں شیخ علی وجودی ،امامِ قائم قیامت (خورشاہ)،بلغان شہزادی اورامام نجم الدین نیشاپوری کے نام قابل ِ ذکر ہیں ۔
ناول "فردوسِ بریں "کی کہانی ایک طربیہ کہانی ہے کیوں کہ ناول کے اختتام پرحسین اور زمردکاعشق کامیاب ہوجاتاہےاوروہ دونوں شادی کے بندھن میں بندھ کرحج کوروانہ ہوتے ہیں ،پھرحج سے واپس آکروہ اپنے وطن آمل جاتے ہیں اوروہاں سے وہ بلغان شہزادی کے وطن قراقرم میں جاکراس کی صحبت میں باقی ماندہ زندگی گزارتے ہیں ۔
مختصراََناول کے تمام اجزاء عنوان سے اختتام تک اپنی جگہ جامع اور مکمل بھی ہیں اورایک دوسرے سے ان کی بنت اس قدرمضبوط ہے کہ کسی ایک اجزاء کو دوسرے سے جداکرنامشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ناول کے تمام اجزاء ایک نامیاتی وحدت میں ڈھلتے ہوئے نظرآتے ہیں ۔تمام اجزاء مل کرایک کل میں ڈھلتے دکھائی دیتے ہیں ۔ناول میں داستانوی اورڈرامائی فضابھی بڑی کمال اورخوب صورت دکھتی ہے اورشرراس فضاکوبھی حقیقت کے قریب کرکے دکھاتےہیں۔ناول”فردوسِ بریں”اپنے اندرمعاصرتاریخ کوسمیٹے ہوئے ہے،جس طرح اس ناول میں معاصرتاریخ کوقلم بندکیاگیاہے کسی تاریخی کتاب میں اس طرح بیان کرنامشکل تھا۔
حوالہ جات :
1)۔عبدالحلیم شررلکھنوی،مولانا؛فردوسِ بریں،مرتبہ؛سیدوقارعظیم،(لاہور:علم وعرفان پبلشرز،نومبر،2003ء)،ص7
2)۔ایضاََ،ص28
3)۔ایضاَ،ص137
4)۔ایضاََ،ص37
5)۔ایضاََ،ص 122
6)۔ایضاََ،ص17
7)۔ ایضاََ،ص17
8)۔ایضاََ،ص37
9)۔ایضاََ،ص33
10)۔ ایضاََ،ص46
11)۔ایضاََ،ص 32
12)۔ایضاََ،ص70
13)۔ ایضاََ،ص 132
14)۔ایضاَ،ص 29
15)۔ایضاَ،ص 30
عمیرؔ یاسرشاہین
پی۔ایچ۔ڈی (اسکالر)
شعبہ اُردویونی ورسٹی آف سرگودھا
0303.7090395
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page