۔۔۔۔ اور پھرچہار اطراف کھڑی ہوئی بلند فصیلیں ۔۔۔۔ نا قابل عبور ۔۔۔۔۔ اور انکے درمیان ،دھرتی پہ پھوڑوں سمان اگے ہوئے ڈھیروں چھوٹے چھوٹے خیمے اور چھولداریاں ۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی چھولداری کے باہر بیٹھا اپنے پائوں کے انگوٹھے میں بنے زخم کو دیکھ رہا تھا۔ابھی دو دنوں قبل ہی اسے ہلکی سی چوٹ آئی تھی اور وہ چوٹ زخم میں تبدیل ہو گئی تھی۔اسے ڈر تھا۔۔۔۔۔ کہیں جو یہ زخم اور بڑھاتو یہاں اس کا علاج کیونکر ہوگا۔پھر بھلا زخم ہی تو ناسور بنتے ہیں۔اسی بے علاجی کے سبب تو اس نے اپنی بیوی کو کھویا تھا۔ ۔۔۔سارا کا سارا کچھ۔۔۔ ابھی بھی اسکی آنکھوں کے سامنے زندہ تھا کہ جب اس کی بیوی نے اسے چاند سا ایک بیٹا دیا تھا۔ وہ خود بھی ٹھیک تھی پر جانے کیا ہوا کہ اچانک اسے درد اٹھا۔پھر اس درد میںوہ کئی دن تڑپتی رہی اور وہ اسے نہیں بچا پایا تھا۔۔۔۔۔تو کیا اب وہ خود !
وہ اٹھنا ہی چاہتا تھا کہ اسے اپنا بیٹا ۔۔۔ ایک اکیلے بٹن پر ٹکی شرٹ بدن پر جھلائے اور سر پر سوکھی لکڑیاں اٹھائے سامنے سے آتا دکھائی دیا۔
’’ آگیا چھوکرے ۔۔۔۔ ‘‘ اس نے اسے آتے دیکھ کرکہا پھر ایک لمحہ کو اس کے اور قریب آنے کا انتظار کیا اور تب بولا۔ ’’ لکڑی اندر رکھ آ ۔۔۔ ‘‘
بیٹے نے اندر جاکر لکڑیوں کا گٹھر زمین پر پٹخ دیا۔دادی وہیں پر پڑی کھاٹ پر آنکھیں بند کئے نڈھال پڑی تھی۔آہٹ پاکر دادی نے آنکھیں کھول دیں۔ایک ساعت کو وہ اسکی بوڑھی آنکھوں میں جھانکتا رہا پھر بولا ۔۔۔’’ دادی تو بھی کہتی ہے ۔۔۔ پاس والا جو راجو ہے اسکا ابا بھی اہی کہتا ہے کی ای سب تو ہمارے پرکھوں سے ہے۔‘‘
تبھی باہر سے اس کے باپ نے اسے آواز دی۔ ۔۔۔۔’’ ابے او چھوکرے۔۔۔۔ باہر جلدی آ ََََ۔۔۔۔۔ جا دیکھ، سامنے گڈھے میں پانی ہے ۔ تیتر نہلانے ہیں ۔۔۔۔۔ تھوڑا لے آ۔۔۔۔ سنا تو ۔۔۔۔ پانی ۔۔۔۔‘‘
پانی نے جب آہستہ آہستہ ۔۔۔۔ قطرہ قطرہ ۔۔۔۔۔ان کی رگوں میں سارا تیزاب حل کر ڈالا تو وہ بلبلا اٹھے۔
بات یوں تھی کہ بارش کا تسلسل کئی دنوں سے برقرار تھا او ر اس کے رکنے کی کوئی امید نہ تھی کہ موٹے موٹے سیاہ بادل اب بھی چھائے تھے اور چاروں اور گھٹاٹوپ اندھیرا ۔۔۔ پائوں پسارے پڑا تھا۔
ایسے میں اس کی رگوں کا تیزاب اسے جھلسائے دے رہا تھا اور وہ بیحد پریشان تھا۔۔۔۔ اور نیم تاریک دن ۔۔۔۔تاریک رات اور ہر لمحے میںکہ جب بھی کوئی آہٹ ہوتی، اس کا دل بیٹھنے لگتا کہ لو آخر وہ منحوس گھڑی آہی گئی جس کا ڈر روم روم میں بسا تھا۔
اس نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا تو وہ برستے ہوئے سرمئی آسمان کو تک رہی تھی۔لگاتار برسنے والے پانی سے اس کی آنکھوں کی جھیل لبالب بھر چکی تھی۔ کنارے چھلکنے کو تھے ۔۔۔۔۔ ایک پل ۔۔۔۔ دو پل ۔۔۔۔۔
اس سے قبل کہ کنارے چھلکیں اور سیلاب اس کے تن من کا گاؤں بہا لے جائے، اس نے اسے آواز دی ۔۔۔۔ ’’ سنو ، کیا ہم یونہی قطرہ قطرہ پگھل جائیں گے! ‘‘
اس کی بیوی پلٹی ۔۔۔ ’’ نہیں ۔۔۔۔ ‘‘
’’ تو پھر ۔۔۔‘‘
’’ آؤ ، ہم مل کر ایک بار پھر سوچیں َ‘‘
و ہ سوچ کے گہرے چکنے غار میں ٹٹول ٹٹو ل کر ۔۔۔۔ آہستہ آہستہ اترنے لگے تھے۔۔۔۔۔ نیچے اور نیچے۔۔۔
اور دونوں بچے غار سے بہت دور ۔۔۔۔ آنگن کے سست رو پانی میں اب تک کاغذ کی کتنی ہی کشتیاں بہا چکے تھے۔ کشتیاں آگے جاکرپانی کے بوجھ سے ڈوب جاتیں اور کچھ بھیگ کر کھل جاتیں۔ وہ کاغذ کی نائو پھر بناتے۔ اسے پانی میں چھوڑتے اور اچھل اچھل کر تالیاں بجانے لگتے۔
بارش کچھ اور تیز ہو گئی تو بچے بستر میں آ سمائے۔بڑا بچہ جھانک کر بار بار آسمان کی طرف دیکھتا اور پھر پانی کی لڑیوں کو گھورنے لگتا۔
تھوڑی دیر بعد وہ دونوں غار سے اوپر ابھرے اور اس نے کہا ۔۔۔’’ کیوں نا ہم ۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘
تبھی اس کا بڑا بچہ بول اٹھا ۔۔۔’’ چھوٹے، دیکھو ۔۔۔۔ اللہ میاں سیوئیاں بنا رہے ہیں جیسے ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
بڑے کی بات کو بیچ سے ہی کاٹ کر چھوٹا چہکا ۔۔۔’’ جیسے ہمارے گھر میں عید کے لئے بنتی ہیں ََََ۔۔۔۔۔۔ ‘‘
اس کا دل ایک دم دھک سے رہ گیا۔ اس نے گھبرا کر اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور جیسے ساری کی ساری باتیں وہیں غار میں چھوٹ گئیں ۔ اس نے چاہا کہ دے ۔۔۔۔ چھوٹے اپنے گھر میں بنتی سیوئیوں پر چاہے جتنا خوش ہو لو۔۔۔۔پر ان سیوئیوں پر تو مسرت نہ کرو کہ ممکن ہے ۔۔۔ ممکن ہے ۔۔۔۔لیکن الفاظ اس کی زبان سے نہ پھوٹے اور وہ یونہی سا چپ رہ گیا۔
یہاں وہاں ۔۔۔۔ ایک چپ۔ باہر۔۔۔ بھیتر۔۔۔۔ ان کی آنکھوں میں ۔۔۔۔ گھنگھور گھٹاٹوپ خاموشی۔
۔۔۔۔۔اور ایک آواز ۔۔۔ صرف ایک ۔۔۔ جھم جھم برستے پانی کی۔
اچانک زوروں کی ایک دھڑدھڑاہٹ ہوئی تو وہ ایکدم سے دروازے کی جانب جھپٹا۔ کچھ دیر دھندھلاہٹوں میں آنکھیں پھاڑتا رہا۔ پھر واپس لوٹااور آپ ہی آپ بدبدانے لگا۔ ۔۔۔۔۔ سب بیکار ۔۔۔ سب کچھ بیکار۔۔۔۔۔
اپنی بیوی کی متفکر نگاہوں کے استفسار پر اس نے آہستہ سے نفی میں گردن ہلا دی۔پھر ایک ساعت بعد بولا ۔۔۔ ’’ مگر کہیں نا کہیں ، کچھ نا کچھ ہوا ضرور ہے !‘‘
اس کی بیوی بولی ۔۔۔’’ سنو جی ، سنا ہے دھیمے دھیمے برستا پانی دیواروں کے لئے بیحد خطرناک ہوتا ہے۔ ؟ ‘‘
’’ مگر ہم کر بھی کیا سکتے ہیں ؟‘‘
’’ ہمیں کچھ تو کرنا ہی ہوگا۔۔۔۔ کم از کم اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے۔‘‘ اس کی بیوی نے کہا تو یکلخت اسے بچوں کا خیال آیا اور اس نے ان کی طرف دیکھا۔ بچے اپنے طویل کھیل کو کھیلتے کھیلتے جیسے اکتا گئے تھے اور چپ بیٹھے تھے۔ وہ انہیں دیکھتا رہا۔پھر اس غار میں کہ جس میں وہ تھوڑی دیر قبل اترے تھے، کوئی چیز چمکیلی دکھائی دی۔وہ اسی میں جھانکنے لگا اور ایک پل بعد گویا ہوا۔ ۔۔۔’’ ہم اپنے کسی پڑوسی کی مدد لے سکتے ہیں ۔‘‘
’’ رہ رہ کر یہ جو دھڑدھڑاہٹیں اٹھتی ہیں وہ یقیناََ ہمارے پاس پڑوس کے مکانوں کے گرنے کی ہوں گی۔اب ایسے میں ۔۔۔۔۔۔‘‘
ــ ’’ مگر کچھ ایک مکان بڑے مضبوط اور محفوظ ہیں ۔‘‘
’’ جن کے گھر مستحکم ہیں انہیں ہماری کیا فکر ۔۔۔۔۔ وہ اپنے گھروں میں بند۔۔۔ آرام سے زندگی کے مزے لوٹتے ہونگے۔ ‘‘
’’ ہم ان کے دروازوں پر دستک دے کر تو دیکھ لیں۔۔۔۔‘‘
’’ اگر وہ دروازہ کھول بھی دیں تو کیاخبر ۔۔۔۔ ان کی کوئی دیوار بھی چپکے چپکے سڑ گئی ہو ۔۔۔۔‘‘
’’ پھر بھی، ہمیں کچھ تو کرنا ہی ہوگا۔۔۔ اور پھر دیکھ لینے میں کیا ہرج ہے۔ ‘‘ وہ باتوں باتوں میں چلتا ہوا کھڑکی کی طرف گیا اور اس کے پٹ کھول ڈالے۔ مانو دیوار کی جڑوں سے اگ کر تاریکی کی بیلیں پورے مکان کے گرد لپٹ گئی تھیں۔مند مند چلتا ہوا وہ اپنی بیوی کے قریب آیا۔مایوسی اسکی آنکھوں کے کنویں میں مینڈ تک لبالب بھری تھی۔ اس کی بیوی گھبرا سی گئی ۔ ۔۔۔’’ کیا ہوا ۔۔؟ ‘‘
کنویں میں ایک گونج ہوئی پھر اس کی جڑ سے ابھر کر ایک آواز آئی ۔۔۔’’ کچھ نہیں ۔۔ کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔ ‘‘
’’ کچھ بھی نہیں ؟ ‘‘
’’ نہیں ۔۔۔۔‘‘
’’ کیا کچھ بھی نہیں ہو سکتا ؟ ‘‘ بیوی نے سوال کیااور اس نے جواب میں ایک گہری، گمبھیر اور بھری بھری سی خاموشی دی تو وہ جھنجھلا گئی۔’’ تم سوچتے کیوں نہیں ۔ کچھ نہیں ہونے سے کچھ نہیں بچے گا۔۔۔۔ ہمارے بچے۔ ۔۔۔ ‘‘
یکبارگی اسے بچوں کا خیال آیا اور اس کے جسم پر ڈھیروں چیونٹیاں رینگ گئیں۔۔۔’’ مگر اب ہم کر بھی کیا سکتے ہیں ؟ ویسے ہمارا یہ کمرہ تو ابھی بھی محفوظ ہے۔ہم اسی کی پناہ میں رہیں ۔‘‘
’’ محفوظ تو ہے لیکن تم سوچتے کیوں نہیں کہ جب کبھی ہمارے مکان کا وہ مخدوش حصہ گرے گا ، اس کے دھکے سے تباہی ادھر بھی آئے گی۔ ‘‘
’’ ہاں تو پھر ۔۔۔ ‘‘
’’ تو کیا ہم بحثوں کے درمیان خود کو منہدم کر لیں گے۔ ‘‘
’’ نہیں ۔۔۔۔۔‘‘
’’ تو بچاؤ کا کوئی راستہ تو ہمیں تلاش کرنا ہی ہوگا۔ ‘‘
’’ کوشش کرو ۔ میں بھی سوچتا ہوں ۔ ‘‘
وہ دونوں اپنے آپ میں اتر کر کہیں دور چلے گئے تھے۔ چند ساعتوں بعد اس کی بیوی لوٹ آئی ۔۔۔’’ سنا ہے ۔۔۔ اگر گھر کے صدر دروازے کی زنجیر پکڑ کر کوئی کھڑا رہ جائے تو ڈھہنے والا مکان بھی نہیں ڈھہتا۔‘‘
’’ ہاں ، تو جائو۔۔۔۔ جائو ۔۔۔۔ ‘‘ مانو اندھیرے کنویں میں جگ مگ جگ مگ کئی جگنو روشن ہو اٹھے تھے۔ پھر وہ جلدی سے بولا ۔۔’’ رکو ،میں ہی جاتا ہوں۔ ‘‘
وہ جھومتا ہوا سا صدر دروازے کی جانب بڑھا اور وہاں پہنچ کر جیسے بھک سے اڑ گیاکہ جانے کب اور کیسے ٹوٹ کر ۔۔۔ زنجیر دروازے کے قدموں میں ۔۔۔۔ زنگ میں لتھڑی پڑی تھی۔
اس نے جھک کر زنجیر اٹھائی اور بلبلا اٹھا۔
ٹوٹی ہوئی زنجیر دیکھ کر اس کی بیوی کا چہرہ نا امیدی کے اندھیرے میں کھو گیا۔ ۔۔۔۔ ’’ دیکھو کہ انہدام ہمارے گھر کا مقدر ہے ! ‘‘
’’ ہاں ، شاید ۔۔۔ مگر اس گھر کو چھوڑ کر ہم جائیں گے بھی تو کہاں ؟ ‘‘
اس کی بیوی کی امیدوں کی زنجیر ٹوٹ کر نیچے گری ۔۔۔۔ بہت نیچے۔۔۔۔ اور جیسے پاتال میں کہیں کھو گئی۔
’’ اب یہ اور سوچنے کا وقت نہیں۔ ہم وہیں چلیں جو جاء پناہ ایسے حالات کیلئے بنائی گئی ہیں ۔ ‘‘
اس نے بچوں کی طرف دیکھا ۔ چھوٹے کے ساتھ اب بڑا بھی سو چکا تھا۔ انہوں نے چند ضروری چیزوں کی ایک گٹھری بنائی اور ایک ایک بچے کو اپنی گود میں اٹھا کر دروازے کی سمت قدم بڑھا دئے۔تبھی جیسے کسی نے انہیں پکارا ۔۔۔۔ گھر کے در و دیوار میں سما کر مانو انکے چھوٹے بڑے نے انہیں آواز دی ہو ۔ پر بچے ان کی گود میں سو رہے تھے۔ وہ چند لمحوں کیلئے دیواروں کو یوں تکتے رہے جیسے وہ بھی انکے چھوٹے بڑے ہوں اور ان کی گود میں آ سمانا چاہتے ہوں۔ چند گھڑیاں ۔۔۔ چند پل ۔۔۔۔۔ وہ یونہی کھڑے رہے پھر اس نے بیوی کی آنکھوں میں جھانکا اور دروازے سے باہر قدم بڑھا دئے۔
۔۔۔۔۔ وہ چھولداری کے باہر آگیا۔ اس کی دادی نے شایدکمزوری کے سبب اسکے سوال کا جواب نہیں دیا تھا۔ باپ کے پاس آکر وہ بولا ۔۔ ’’ ابا ، بتا دے نا ۔۔۔ ‘‘
’’ ابے ، پاگل ہو گیا ہے ۔۔۔۔ بتا دے نا ۔۔۔ بتا دے نا۔ ارے جان کے کرے گا کا۔ ‘‘
دراصل پرکھوں کی باتیں ۔۔۔ وقت کی پرتوں سے گذرتے گذرتے۔۔۔۔ اس تک پوری کی پوری پہنچ بھی نہیں پائی تھیں ۔ مگر اتنا ضرور یاد تھا کہ یہ فصیلیں نئی نئی تھیں اور یہ اس کی نظروں کے سامنے اٹھائی گئی تھیں۔تب بڑوں کے ساتھ وہ بھی تھا۔انہوں نے احتجاج کیا۔۔۔نعرے لگائے۔۔۔۔۔ مزاحمت کی۔۔۔۔۔ زخمی ہوئے۔۔۔۔۔ جانیں گنوائیں۔۔۔۔ پھر جانے کیا ہوا کہ ان کے دماغ ماؤف و مفلوج سے ہو گئے اور جب ان کے ہوش و حواس درست ہوئے تو ان کے گرد فصیلوں کا حصار کھڑا ہو چکا تھا اور بڑے سے پھاٹک پر سنگین بردار سنتری تعینات تھے ۔
دور افق سے ٹکے۔۔۔۔ ان کے اندیکھے۔۔۔ انجانے در و دیوار سے احساس کا رشتہ بھی جیسے منقطع ہو گیا۔
آواز سن کر دادی کراہتی ہوئی چھولداری سے باہر نکل آئی۔باپ سے منہ پھلائے، وہ تھوڑی دوری پر جا کھڑا ہو ا تھا ۔ تھوڑی دیربعد جب اس نے بیٹے کی طرف نگاہیں کیں تو وہ اسی کو گھور رہا تھا۔اس کا غصہ دھیرے دھیرے سرد ہو چکا تھا۔بڑی شفقت سے اس نے اسے بلایا ۔۔۔ ’’ ارے بٹوا ، ادھر سن ! ‘‘ لیکن وہ اپنی جگہ پر اڑا رہا۔ اس نے اسے پھر آواز دی ۔۔ ’’ ارے سن ادھر ۔۔۔۔ !‘‘
شام کا دھندلکا چھا چکا تھا۔دور ۔۔۔۔ آبادیوںسے پھوٹتی ہوئی روشنی،اونچی فصیلوں کی حد سے بھی اونچی اٹھ کر آسمان پر چھانے لگی تھی۔پھر پٹاخوں کی آوازیں آنے لگیں اور آسمان میں طرح طرح کے رنگ و روپ والی آتش بازیاں بکھرنے لگیں ۔
کچھ ڈر، کچھ خوشی ، کچھ استعجاب سے بھرا بچہ اپنے باپ کے پاس آیامگر اس کی نظریں آسمان میں کھیلتی روشنیوں پر مرکوز تھیں ۔ اس نے بڑی شفقت سے بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولا۔۔۔۔’’ بیٹا ، میں نہیں جانتا۔ دوسرے بھی اتنا نہیں جانتے مگر جہاں آج اتنے پٹاخوں کی گونج ہے اور روشنیاں ناچ رہی ہیں ، کبھی ہم نے وہاں عیدیں منائی ہیں ۔ پھر ہمارے پرکھوں پر جانے کن مصیبتوں کی بارش ٹوٹی کہ انہوں نے اپنا گھر چھوڑا اور ان پر کیا بیتی کہ وہ واپس نہ جا سکے۔‘‘ اس کی آواز روہانسی ہو چلی تھی۔ وہ چپ ہو گیا اور ایک لحظہ بعد بولا ۔۔۔’’ وہ بے گھر ہوئے اور ہم بے جڑ !‘‘
تبھی ایک لمبی سی روشنی اڑتی ہوئی اوپر کی طرف گئی اور پٹاخہ ایک زوردار دھماکے کے ساتھ پھٹ گیا۔ بچہ سہم کراس کی جانگھوں سے لپٹ گیا۔خوف کے اس عمل میں بیٹے کا پائوں اس کے ٹیس مارتے انگوٹھے پر پڑا۔ اور اس کے ہونٹوں سے ایک تیز سسکاری نکل گئی ۔
اوپر آسمان میں رنگ برنگی روشنیاں پھیل رہی تھیںاور نیچے اس کے زخموں میں چنگاریاں ۔۔۔۔۔۔۔
درد سے اس کی آنکھیں بند تھیں۔جانے اب اس کے بچے کی نگاہیں آسمان کی سمت تھیں یا نہیں !
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page