پیدائش: یکم اپریل 1876 وفات: 28اپریل 1935
آغا حشر کاشمیری اردو ڈراما نگاری میں ایک بلند اور منفرد مقام رکھتے ہیں۔ آغا حشر نے پہلی بار ڈرامے کو فن کی طرح برتا تھا اور ملک کے معاشرتی مسائل کو اپنے ڈرامے کے ذریعے لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ اردو ڈرامے کو بام عروج تک پہنچانے کے لیے انھیں اردو ڈراما نگاری کا شیکسپیئر بھی کہا جاتا ہے۔
آغا حشر کی پیدائش یکم اپریل،1876 کو بنارس میں ہوئی۔ان کا نام محمد شاہ رکھا گیا۔ ان کے نام کے ساتھ کاشمیری لگنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے جد امجد سید احسن شاہ تجارت کے سلسلے میں کشمیر سے بنارس آئے تھے اور پھر بنارس میں ہی رہ گئے ۔ آغا حشر کے والد غنی شاہ سید احسن شاہ کے بھانجے تھے۔ سید احسن شاہ نے بعد میں غنی شاہ کو بھی بنارس بلا لیا اور ان کی شادی 30 جولائی1868 کو کر دی۔ ان کے گھر میں تقریبا آٹھ برس بعد آغا حشر نے آنکھیں کھولیں۔
آغا حشر نے عربی، فارسی اور اردو کی تعلیم گھر میںحاصل کی۔ راج نارائن ہائی اسکول سے انگریزی کی تعلیم بھی حاصل کی۔ آغا حشر کو پڑھائی سے زیادہ کھیلوں سے دلچسپی تھی، جوانی کی سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہی فارسی میں اشعار موضوع کرنے لگے۔ آواز کافی اچھی تھی اور اچھے اشعار کہتے تھے اس لیے مقبول ہوتے گئے۔بچپن سے ہی آغا حشر کی دلچسپی ڈراما دیکھنے میں تھی۔ اس وقت گاؤں میں کٹھ پتلی کے ناچ ہوا کرتے تھے۔ گاؤں میں لوگوں کا رجحان نو ٹنکی اور تماشے وغیرہ دیکھنے کی طرف زیادہ ہوتاتھا۔ ( یہ بھی پڑھیں حبیب تنویر: لوک تھیٹر کی بازیافت-محمدشاہ نواز قمر)
1897 میں ان کے گاؤں میں ایک تھیئڑ یکل کمپنی الفریڈ جوبلی آئی ہوئی تھی جس نے بنارس میں اپنے ڈرامے کو احسن کے ڈرامے کے نام سے مشہور کیا۔ احسن کا ایک ڈرامہ چند ر اولی کا فن بہت زیادہ مقبول ہورہا تھا۔ آغا حشر بھی ڈرامہ دیکھنے گئے لیکن ڈراما گروپ نے رعایتی ٹکٹ نہیں دیا خیر اس وقت تو پورے ٹکٹ پر ہی آغا حشر اور ان کے دوستوں نے ڈراما دیکھا لیکن دوسرے دن ایک اخبار میں کمپنی والوں کے خلاف مضمون شائع کرا دیا جس کے وجہ سے کمپنی والوں کو معذرت کرنی پڑی اور صلح اس بات پر ہوئی کہ آغا حشر اپنے دوستوں کے ساتھ بغیر ٹکٹ لیے ڈرامہ دیکھیں گے۔ وہ برابر وہاں جاتے تھے ایک دن احسن سے ان کی بحث ہو گئی اور غصے میں یہ کہہ کر آگئے کہ تمھارے جیسے ڈرامے میں ایک ہفتے میں لکھ سکتا ہوں اور پھر ضد میں ’آفتاب محبت‘ کے نام سے ایک ڈرامے کی تخلیق کی جو جواہر ایکسپریس میں 1897 میں ہی شائع ہوا۔ تو کچھ اس طرح ہوئی آغا حشر کی ڈراما نگاری کی ابتدا۔ آفتاب محبت ان کا پہلا ڈراما تھا۔ آغا حشر ایک ضدی انسان تھے۔ والد سے ناراض ہو کر ممبئی چلے گئے اور وہاں جا کر ملازمت تلاش کی۔ وہاں اپنے دوست عبد اللہ کے یہاں ٹھہرے۔ کچھ دنوں کے بعد ان کی ملاقات اتفاق سے امرت لال سے ہو جاتی ہے جو الفریڈ جوبلی کمپنی کے ڈائرکٹر تھے۔ آغا حشرنے کمپنی کے مالک کو کئی اشعار سنائے۔ کمپنی کے مالک نے دوسرے دن آنے کو کہا لیکن آغا حشر ناراض ہو گئے اور نہیں گئے۔امرت لال کے اصرار کرنے پر وہ کمپنی کے دفتر میں پہنچے اور انھیں وہاں 15 روپیہ ماہوار پر رکھ لیا گیا۔ احسن جن سے پہلے بحث ہو چکی تھی اس کمپنی کے ڈراما نگار تھے اس لیے آغا حشر ان سے کچھ بہتر کر کے دکھانا چاہتے تھے۔ آغا حشر دوسروں سے مقابلہ کرنے میں کافی مہارت رکھتے تھے۔ احسن سے مقابلہ کرنے کے لیے انھوں نے ہندی بھی پڑھی اور اشعار کے قوافی اور ردیف پر بھی کافی محنت کی۔ ان کی دوستی آزاد اور خواجہ حسن نظامی سے بھی تھی۔ یہ سارے دوست مل کر مذہبی مناظرے میں حصہ لیا کرتے تھے۔ ایک غیر ملکی خاتون کی مددسے شیکسپیئر کے ڈرامے کا ترجمہ کرنا شروع کیا اور اس کمپنی کے لیے پہلا ڈراما مریدشک لکھا جو شیکسپیئر کے ڈرامے The Winter’s Taleسے ماخوذ تھا۔ ان کا کمپنی کے لیے لکھاپہلا ہی ڈراما بہت زیادہ مقبول ہوا اور وہ اچانک شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔
آغا حشر کبھی ایک کمپنی سے بندھ کر نہیں رہے اس سے ان کی لاابالی قسم کی طبیعت کا پتہ چلتا ہے۔ کبھی الفریڈ تھیئٹر کمپنی تو کبھی اپنی کمپنی دی گریٹ الفریڈ تھیٹریکل کمپنی سے جڑے رہے۔ بعد میں اپنی کمپنی بند کر دی۔ انھوں نے اپنی کمپنی حیدر آباد میں راجہ راگھوندر راؤ کی شرکت میں کھولی تھی۔ مشہور ڈراما سلور کنگ کا پہلا شواسی کمپنی کے لیے حیدر آباد میں ہوا تھا۔ کمپنی بند کرنے کے بعد وہ لاہور گئے جہاں 1913 میں ان کی شادی ہوئی،1914 میں بنارس میں ان کے یہاں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام نادرشاہ رکھا گیا مگر تین ماہ بعد اس کا انتقال ہو گیا۔ آغا حشر کی پھر دوسری کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ 3مئی 1918 کو ان کی اہلیہ کا بھی انتقال ہو جاتا ہے جس کے بعد آغا حشر بالکل تنہا ہو جاتے ہیں اور بیوی کی موت کے غم میں ساری دنیا سے الگ ہو جاتے ہیں۔ لیکن زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لیے انھیں پھر سے دنیا داری کی طرف واپس آنا پڑتا ہے۔ انھوں نے نظم اور غزل بھی کہی ہے۔ ان کی ایک نظم ’شکریہ یورپ ‘کافی مشہور ہوئی تھی۔ آغا حشر نے بنارس میں بھی ڈراما کمپنی شروع کی۔ الٰہ آباد کے مہاراجہ چرکھا ری نے اس کمپنی میں آغا حشر کا ڈراما کافی پسند کیا۔ بعد میں مہاراجہ نے کمپنی خرید لی تھی اور آغا حشر کو پندرہ سو روپئے ماہوار پر ملازم رکھ لیا۔ اپنے محل میں رہنے کی جگہ دی لیکن آغا حشرکبھی مستقل مزاجی سے ایک جگہ نہیں ٹکے۔ وہ ہمیشہ زندگی میں کچھ نئے کی تلاش کرتے رہتے تھے۔ فلموں کی ایجاد سے تھیئٹر کی مقبولیت میں کمی آگئی اس لیے آغا نے اب فلموں کا رخ کیا اور کئی کہانیاں لکھیں۔ اپنی فلم کمپنی کی بھی شروعات کی اور فلم بھیشم پرتگیہ کی شوٹنگ شروع کی لیکن فلم کے شروعاتی دور میں ہی آغا حشر کی موت ہو گئی۔ وہ 28اپریل 1935 کی منحوس شام تھی جب آغا حشر نے زندگی کے سارے ڈراموں کو الوداع کہہ دیا اور مالک حقیقی سے جا ملے۔
ایسے تو اپنے عہد کے سب سے بڑے ڈراما نگار وہی تھے کیوں کہ اردو ڈرامے کو ایک نیا موڑ عطا کرنے میں آغا حشر کا نام سب سے پہلے آتا ہے۔ ان کے عہد کے دوسرے ڈراما نگاروں میں مہدی حسن احسن، بیتاب بنارسی ، طالب بنارسی، احمد شجاع وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ پنڈت نرائن پر شاد بیتاب بنارسی تو الفریڈ تھیئٹر کمپنی میں ڈراما نگار تھے۔ ان کا پہلا ڈراما قتل نظیر مقبول ہوا تھا۔ دوسرا مقبول ڈراما مہابھارت ہے۔ اردو ڈرامے کی یہ بدقسمتی رہی کہ یہ اپنے دور کے ساتھ تال میل نہیں بیٹھا سکا۔آزادی سے قبل اردو ڈراما نگاری کا دور بہت زیادہ کامیاب نہیں کہا جاسکتا۔ 1947 کے بعد باصلاحیت ڈراما نگار آئے، جن میں حبیب تنویر، بانو قدسیہ، محمد حسن، ابراہیم یوسف، امتیاز علی تاج وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے۔ امتیاز علی تاج کوآغا حشر کے بعد دوسرا بڑا ڈراما نگار کہا جاسکتا ہے لیکن انھوں نے اسٹیج کی ضروریات کے مطابق ڈرامے نہیں لکھے۔ اردو ڈراموں کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان ڈراموں کو بہتر اسٹیج نہیں مل سکا۔
آغا حشر کو سلور کنگ سے ہی شہرت دوام حاصل ہوگئی تھی لیکن انھوں نے کل اڑتیس (38) ڈرامے لکھے جن میں فلمی کہانیاں بھی شامل ہیں۔ آغا حشر کے ڈرامے وقت کے ساتھ ہم قدم ہوتے تھے۔ انھوں نے اپنے ڈراموں سے پارسی اسٹیج کی روایت کو ختم کیا۔ ان کے مشہور ڈرامے صید ہوس ، اسیر حرص، میٹھی چھری، سفید خون، شامِ جوانی، آنکھ کا نشہ خواب ہستی،یہودی کی لڑکی، رستم وسہراب غیرہ ہیں۔ ان کے ڈرامے کے کردار اسی دنیا کے چلتے پھرتے لوگ ہیں۔ انھوں نے سماج میں پھیلی برائیوں کو، روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کو ڈراموں کا موضوع بنایا۔ حشر کے بعض ڈراموں میں نغمے بھی ہوتے تھے کیونکہ اس دور کی مشہور مغینہ مختار بیگم تھیئٹر سے جڑی تھیں اور آغا اس کمپنی کے لیے ڈرامے لکھ رہے تھے۔ آغا حشر اردو ڈرامے کو عالمی زبانوں کے ڈرامے کے مقابل لے آئے ۔ ان کے تحریر کردہ شروعاتی ڈراموں میں گانے زیادہ تھے بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ ان میں کمی آتی گئی۔ پہلے کے ڈراموں میں زبان نہایت مقفی اور مشکل استعمال کی ہے لیکن بعد کے ڈراموں میں سادہ،رواں اور عام بات چیت کی زبان کو اپنایا۔ ان کے ڈرامے ’یہودی کی بیٹی پر فلم بھی بنی تھی۔ آغا حشر نے عوام کی پسند کا خیال رکھتے ہوئے ڈرامے لکھے۔ ان کے ڈراموں سے ایک تبدیلی کا آغا ہوتا ہے۔ ان کے ڈرامے مغربی ڈراموں سے بھی ماخوذ تھے لیکن انھوں نے ان ڈراموں کے کردار ہندوستانی رکھے تھے۔ یہاں کی روایات یہاں کی زندگی یہاں کے سماجی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے انھوں نے مغربی ڈرامے کو ہندوستانی روپ دیا۔
آغا حشر نے ’سلور کنگ‘نامی ڈراما راگھوندر راؤ کے ساتھ مل کر بنایا تھا اور اپنی کمپنی دی گریٹ الفریڈتھیٹریکل کمپنی آف حیدر آباد کے لیے لکھا تھا۔ اس ڈرامے کے واقعات و پلاٹ مغربی ڈراما نگار Henry Arther Jones اور Henry Hermanکے ڈرامےSilverKing Theسے لیے گئے تھے۔
اس ڈرامے کے مختلف نام تھے۔ سلور کنگ، نیک کنگ، نیک پروین، پاکدامن، اچھوتا دامن، ناعاقبت اندیش ، دوچور ، شہید ناز، جرم وفا۔
ڈرامے کی بنیاد چھے اجزا پر رکھی جاتی ہے۔ پلاٹ، کردار، مکالمہ، زبان، موسیقی، آرائش ۔ آئیے اب اس عظیم ڈرامے پر گفتگو کی جائے۔
سلور کنگ کا پلاٹ امریکہ و لندن میں کافی مشہور ہوا تھا۔ اس ڈرامے میں روزمرہ کے حالات کو بہتر ڈھنگ سے دکھایا گیا ہے۔آغا نے اس ڈرامے کو ہندوستانی رنگ و روپ دے کر ایسا بنا دیا جیسے یہ یہیں لکھا گیا ہو اور یہیں کا ہو۔ ڈرامے کا پلاٹ ایک سبق آموز کہانی سے ملتا جلتا ہے۔ پلاٹ میں مختلف واقعات مثلاً افضل کا گھر چھوڑنا، ہوٹل میں شراب پینا، پروین کا آکر دیکھنا پھر پروین کا منیر سے باتیں کرنا اور افضل کا دیکھ لینا۔ ان واقعات کو اتنے اچھے انداز میں سلسلہ وار طریقے سے سجایا گیا ہے کہ کہیں بھی واقعات میں جھول نہیں لگتا۔ جیسے جیسے واقعات ایک کے بعد رونما ہوتے ہیں تو واقعات کا ارتقا ہوتا رہتاہے اور کہانی نقطہ عروج پر پہنچ جاتی ہے۔
اس ڈرامے میں تہہ دار پلاٹ کا استعمال ہوا ہے۔ کامیاب ڈرامہ وہی ہے جو شروع سے ہی دلچسپ ہو اور ناظرین کو باندھ کر رکھنے میں کامیاب ہو اور اس ڈرامے میں وہ ساری خوبیاں موجود ہیں۔
اس ڈرامے میں تھوڑی خامیاں بھی ہیں اور بہت گہری نگاہوں سے ان خامیوں کا احساس ہوتا ہے۔ پہلی تو یہ کہ افضل کے سفر کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا پھر بھی اس کے حادثے کے وقت یہ کیسے پتہ چلا کہ افضل اسی ٹرین سے سفر کر رہا تھا۔ افضل کو بھی نہ جانے کیسے پتہ چلا کہ اس ٹرین کو بدل لینا چاہیے ورنہ حادثہ ہو جائے گا۔ وہ پھر افریقہ سے تین سال میں کروڑ پتی بن کر واپس آتا ہے ۔واہ رے اوپر والا۔ خدا نے بھی افضل پر جیسے اپنی برکت کے خزانے لٹا دیے۔ افضل نے ساری دولت جائز طریقے سے کمائی تھی۔ ڈرامے میں مرزا چونگا کا کردار کچھ عجیب لگتا ہے۔ گھریلو واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ المیے پر المیے ہو رہے ہیں اور مرزا چونگا مزاحیہ انداز میں فرما رہے ہیں۔ ہائے ہائے جورو کی محبت بھی عجیب چیز ہے۔ لاکھ دل کو سمجھایا مگر طبیعت نہ مانی اور آدھے راستے سے واپس آیا۔ مرزا چونگا کا ڈرامے کے اصل واقعات سے تعلق نہیں ہے۔ شاید آغا حشر نے ناظرین کی تفریح طبع کے سامان کے طور پر انھیں ڈرامے میں جگہ دی تھی۔
آغا حشر کے کرداروں کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہوگی۔ انھوں نے بہت ہی اچھی کردار نگاری کی ہے۔ افضل کا کردار بہت ہیمتاثر کن ہے۔ مردانہ کرداروں میں افضل مرزا اور تحسین کا کردار بھی کافی اچھا ہے لیکن زنانہ کرداروں میں انھوں نے پروین کا مرتبہ زیادہ بلند کر دیا ہے۔ فاقہ کشی کے بعد بھی وہ وفا شعار بیوی اف تک نہیں کرتی اور ثابت قدم رہتی ہے۔ آغا حشر کے کرداروں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ وقت اور حالات کے ساتھ بدلتے نہیں بلکہ ہمیشہ ثابت قدم رہتے ہیں۔ پروین کا کردار ایک پتی ورتا اور فرماں بردار بیوی کا ہے جو اپنے گھر کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ تحسین کی وفا داری ذہن پر انمٹ نقش چھوڑ جاتی ہے۔ بس خود فاقے کروں گا اور انھیں بھوکا نہ رکھوں گا۔ اسد کا کردار ایک ویلن کا ہے جو بری حرکتیں کرتا ہے اور پروین کو اپنانے کے لیے ہر جائز و ناجائز کام کرتا ہے لیکن پرانی روایتیں درست ہوتی ہیں اور برائی کی ہار ہو جاتی ہے۔
آغا حشر نے جس وقت ڈراما نگاری شروع کی، وہ وقت منظوم مکالموں کا تھا۔ آغانے بھی اپنے ڈراموں میں اشعار کا استعمال کیا ہے ساتھ ساتھ سلیس نثر بھی استعمال کی ہے۔ اپنے بہترین اور اثردار مکالموں کے لیے بھی وہ جانے جاتے ہیں۔ پڑھے لکھے گھرانوں میں کس طرح سے باتیں کی جاتی ہیں یہ بھی ڈرامے میں دکھایا ہے۔ ہوٹلوں میں افضل کی بیرے سے بات چیت آج کے اعلیٰ طبقے کی ترجمان ہے۔ اُس وقت انھوں نے ایسے مکالمے لکھے جیسے کسی نے کل یہ ڈراما لکھا ہو۔ یہ ان کے تخیل کا کارنامہ تھا۔ انگریزی تعلیم کے کیا اثرات ہوں گے یہ بھی دکھایا ہے۔ ان کے کردار کبھی باتیں کرتے ہیں تو کبھی شاعری ۔ ان کے کردار اسی سماج کے جیتے جاگتے لوگ ہیں جو روز مرہ کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ کرداروں نے اشعارمیں بڑے پتے کی بات کہہ دی ہے۔ افضل شراب پی کر باتیں کرتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی فلسفی دنیا کی سچائی بتا رہا ہے۔ایک جانب ایک کردار شراب پی کر سچ بولتا ہے تو دوسری طرف حشر نے شراب کتنی بری چیز ہے یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے۔ پروین کے اشعار ذہن پر نقش رہ جاتے ہیں۔ پروین جب یہ کہتی ہے کہ عورت کی دولت اس کی نیکیاں ہیں اور عورت کا گہنا اس کا شوہر ہے، عورت کا لباس اس کی عصمت ہے۔ آغا حشر نے کہیں کہیں تک بندی کا استعمال بھی کیا ہے جس سے ڈرامے کی خوبصورتی پر اثر پڑا ہے لیکن پھر بھی اس کے مکالمے اچھے ڈرامے کی ساری خوبیاں لیے ہوئے ہیں۔
اس ڈرامے کی زبان بالکل سادہ ہے جو سارے تماشائی سمجھ لیتے ہیں۔ ڈرامے کی کامیابی اس میں ہے کہ زبان سماجی حالت کی عکاسی کرتی ہو۔ اس ڈرامے کی زبان بھی معاشرے کی عکاس ہے۔ دوستوں کی ایک دوسرے سے باتیں ، پولس انسپکٹر سے باتیں، منیر اور پروین کی باتیں یہ ساری باتیں بالکل حقیقی اور فطری لگتی ہیں۔ زبان میں مشکل الفاظ کا استعمال نہیں ہوا ہے۔ ڈرامے میں گانے نہیں ہیں صرف اشعار ہیں اور سبھی اشعار معنی خیز ہیں۔ تحسین کی زبان ہو یا اسد کی بالکل حالات کی عکاسی نظر آتی ہے۔
ڈرامے کی کامیابی کے لیے مناسب موسیقی کا ہونا ضروری ہے۔ جب یہ ڈراما عوام کے سامنے دکھایا گیا تو جہاں پر ضروری سمجھا گیا موسیقی کا بھی استعمال ہوا۔ آرائش تو ضروری ہے ہی۔ بوڑھے کا کردار ادا کرنا ہے تو بھیس بدلا گیا ساتھ ساتھ اسٹیج کی دوسری ضروریات کا بھی خیال رکھا گیا۔
سلور کنگ میںنقطۂ عروج کافی اچھا ہے کیوں کہ نصف کے بعد ڈراما ایسا لگتا ہے کہ نہ جانے اب کیا ہوگا۔ لوگ جلد سے جلد جاننا چاہتے ہیں کہ اب کیا معجزہ ہوگا۔ مثال کے طور پر اسد کا پروین کو قرقی کرنا اور اچانک افضل کا آکر روک دینا۔ اس طرح کے مناظر اگر اچانک اسٹیج پر آئیں گے تو ناظرین تالی بجانے لگیں گے۔
ڈرامے میں تنزل بھی ہے۔ انجام سے پہلے یہ احساس ہو جاتا ہے کہ اب اجڑتا ہوا گھر پھر سے بس جائے گا اور لوگ خوش ہو جاتے ہیں۔ اس ڈرامے کو لکھتے ہوئے آغا حشر نے تماشائیوں کی پسند ناپسند کا خیال رکھا ہے کہ لوگ کیا پسند کرتے ہیں۔ ڈرامے میں تصادم کی بھرمار ہے۔ کبھی افضل اور منیر کے درمیان ،کبھی تحسین اور اسد کے درمیان کبھی پروین و اسد کے درمیان اور کبھی افضل و اسد کے درمیان۔ تصادم سے بھی ڈرامے میں دلچسپی بڑھتی ہے، منیر کا خون ہونے کے بعد تماشائی سوچیں گے کہ اب کیا ہوگا۔ اصل قاتل کا پتہ نہیںچلتا اور آخر میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قاتل اسد ہے۔
سلور کنگ ایک ڈرامے کے ساتھ ساتھ سبق آموز کہانی ہے۔ جگہ جگہ پر ایسے فقرے استعمال ہوئے ہیں جن کو سن کر ایسا لگتا ہے کہ دو کردار باتیں کرتے ہوئے تماشائیوں کو نیک اور صالح بننے کی تلقین دے رہے ہوں۔ کبھی افضل نصیحت کرتا ہے تو کبھی تحسین ،غرض پورا ڈراما اس طرح کے اقوال سے بھرا ہوا ہے۔ ساری حقیقتوں کا جائزہ لیتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ڈراما برائی پر اچھائی کی جیت کو دکھاتا ہے۔ اس کا انجام طربیہ ہوتا ہے۔ پلاٹ کے ہلکے سے جھول کے باوجود یہ ایک کامیاب اور اپنے وقت کا نمائندہ ڈراما تھا۔ اردو میں جتنے ڈرامے لکھے گئے اور کامیابی سے اسٹیج کا حصہ بنے ان میں زیادہ تر آج ماضی کا حصہ بن چکے ہیں، لیکن آغا حشر کا سلور کنگ آج بھی ویسا ہی مشہور و مقبول ہے اور آغا حشرآج بھی اردو ڈراموں کے بادشاہ ہیں۔
کتابیات :
.1 سلور کنگ: آغا حشر کاشمیری، مرتبہ: عبدالمغنی
.2 آغا حشر اور ان کے ڈرامے: وقار عظیم
.3 ڈراما فن اور روایت: ڈاکٹر محمد شاہد حسین، حسین پبلی کیشنز نئی دہلی۔2002
.4 عوامی روایات اور اردو ڈراما: ڈاکٹر محمد شاہد حسین، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی۔6 ،1999
.5 رنگ منچ سدھانت اور ویو ہار۔ ڈاکٹر اگیات۔ ہمالیہ پاکٹ بکس پرائیویٹ لمیٹیڈ (ہندی)
رسائل:
.1 کتاب نما نومبر 1995، مضمون ’ڈراما اور اس کی اہم ضروریات: ڈاکٹر محمد شاہد حسین‘
.2 ایوان اردو ، مارچ 2000، مضمون ’اردو ڈراما- فکر و فن کے نئے زاویے: سلیم شہزاد‘
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
3 comments
[…] آگا حشر کی ڈراما نگاری […]
Urdu me jankari
شانزہ