آخر شب کے ہم سفرفیض نہ جانے کیا ہوئے ۔
آخر شب کے ہم سفر یہ نام احمد فیض کے شعرکا نصف اول ہے اور اسی نام سے قرۃ العین حیدر نے عنوان باندھا ہے۔ قراۃ العین حیدر نے اس ناول کو 1979 ء میں لکھاہے اور قراۃ العین حیدر کے تقریباً سبھی ناول کے نام کسی نہ کسی شعر کے حصے ہیں ۔اس طرح اس ناول کا نام بھی فیض کے شعر کا ایک ٹکڑا ہے ۔ چونکہ میرے مقالے کا عنوان آخر شب کے ہمسفر میں منعکس مشترکہ تہذیب کا تنقیدی جائز ہ ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس ناول کے بارے میں جاننے سے پہلے ہم مشترکہ تہذیب کے بارے میں جان لیں کہ تہذیب کسے کہتے ہیں ، تہذیب میں کیا کیا چیز یں شامل ہوتیں ہیں ۔تہذیب ایک ایسا لفظ ہے جس کے سائے میں انسان سماجی ارتقاء کی منزلیں طے کرتا ہے ۔تہذیب انسانی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہے۔اور تہذیب میں وہ تمام چیزیںشامل ہوتیں ہیں جن کا تعلق انسان کی علمی جدو جہد اس کی ذھنی کوشش اور سوچ فکر سے ہے ۔ مادی نقطہ نظر سے تہذیب میں لباس ،مصوری ،سنگتراشی اورفن تعمیر وغیرہ شامل ہیں۔
در حقیقت تہذیب ایک معاشرتی ورثہ ہے جو مقد س اور محترم روایت کے مطابق ایک نسل اپنے بعد آنے والی نسل کو منتقل کرتی ہے ۔ اسی تناظر میں مشترکہ تہذیب اسے کہتے ہیں کہ کثرت کو وحدت میں ڈھالنے کا ایک ایسا عمل ہے جب مختلف تہذیبوں کے پروردہ لوگ اور الگ الگ زبانیں بولنے والے سماجی گروہ ایک ساتھ ایک جیسے حالات میں زندگی گزارتے ہیں تو ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں،تو ان کے رسم ورواج آداب معاشرت کو اپناتے ہیں ، تو اس کا اثر پورے معاشرہ پر پڑتا ہے تو اسے’’ مشترکہ تہذیب ‘‘کہتے ہیں ۔ مشترکہ تہذیب کے قیام کے لئے جن مشترک عناصر کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے وہ مذہب ،زبان اور تاریخ کا کسی نہ کسی سطح پر اشتراک ہوتا ہے ، مشترک تہذیب در حقیقت کثرت میں وحدت دیکھنے اور دیکھانے کا جذبہ عمل ہے ۔اس کا لب لباب یہ ہے کہ سماج کے تمام طبقوں اور گروہوں کے افراد چاہے ان کا مذہبی اور تہذیبی پس منظر کچھ بھی ہوایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کے رشتے میں منسلک ہوجائے اور ایک دوسرے کے مذہبی اور تہذیبی اداروں کا احترام کریں اور ساتھ ملکر اعلی ٰ مقاصد کے لئے جد و جہد کریں۔ ؎
اس چیز کو قرۃالعین حیدر نے اس ناول کے اندر دیکھانے کی کوشش کی ہے ۔ اس لئے ناول کے اندر ہندوستان پاکستان اور بنگلہ دیش کے شورش اور انقلابات کو محور بنایا گیا ہے ۔دراصل قراۃ العین نے اس ناول کے اندر پیدائش سے لے کر موت تک کے ان سارے ناسازگار حالات واقعات اور تجربات کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اور تقریبا اپنے تمام ناولوں میں ان حالات کوبروکار لانے کی کوشش کی ہے ۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس ناول کے عنوان’’ آخر شب کے ہم سفر ‘‘کے پیش نظر اس ماحول کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ مکمل طور سے اس ناول کا عنوان ہی مشترکہ تہذیب کی وضاحت کردیتا ہے ، اس لئے کہ اس ناول میں ہندو بھی ہیںمسلمان بھی ہیں اور عیسائی بھی ہیں۔اور تمام مذاہب کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں۔آپس میں ایک دوسرے کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اسی چیز کو عینی آپا نے اس ناول کے اندر دیکھانے کی کوشش کی ہے ۔ کہ وہ تمام کردار ،’’ دیباجی سرکار ‘‘ ، ’’ریحان الدین احمد‘‘ ، ’’ پادری بنرجی ‘‘، ’’امارائے ‘‘، ’’نواب ‘‘قمرالزماںچودھری ،جہاںآرابیگم، ناصرہ نجم السحر ، یاسمین بلونٹ جو کہ مختلف جگہوںمختلف مذہب اور مختلف علاقے اور مختلف زبانوں سے ان کاتعلق ہے ۔
لیکن اس افتراق کے ساتھ ان میں اتصال نظر آتا ہے ۔اس لئے کہ وہ اتصال اس طرح نظر آتا ہے کہ ان کا طرز گفتار ، ان کا طرز معاشرت ، اور ان کاطرز زندگی الگ الگ ہیں۔ لیکن ان تمام کے مختلف ہونے کے باوجود ان کے اندر اتحاد و اتصال کی عمدہ مثال پائی جاتی ہے ، جوکہ کھلے عام طور پر مشترکہ تہذیب کی عکاسی کرتی ہے ۔
او ر یہاںپر ایک بات واضح کرتا چلوں کہ چندر کنج ،وڈلینڈ،ملی کالج اور راجمند منزل یہ چاروںمکان اس ناول میں بہت اہم ہیں ایک طرح سے یہ کہاجا سکتا ہے کہ یہ چاروں مکان مشترکہ تہذیب کا بورڈ ہیں ۔ اور یہی بورڈ اس پورے ناول کا محور ہیں ۔
ناول کی ابتداء چندر کنج کے اس مکان سے ہوتی ہے جس میں ایک چھوٹا سا خاندان رہتاہے اس خاندان کی ایک فرد ریبالی سرکار ہے، اس کی دادی کی دی ہوئی وہ تین ساڑیاں ہیں جو کہ تین رنگ کی ہیں ۔ بالو چر ساڑیاں کا نسی ، فیروزی اور نارنجی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ زمانے قدیم میں بزرگ حضرات کچھ پرانی چیزیں وراثت میں دیا کرتے تھے ، وہی ساڑی وراثت میں اس کی ماں کو ملی تھی ۔اسی طرح سے ایک تہذیب عہد بہ عہد رواں دواں ہوتی ہے ، اور اس گھر میں بھوتارنی دیوی جو کہ ہر وقت پوجا کرتے ہیں مصروف رہتی ہیں اور جس صندوق میں وہ تین ساڑی رکھی رہتی تھی،دیبالی اس صندوق کی چابی حاصل کرتی ہے ۔اقتباس ملاحظہ ہوں :
’’کانسی ،نارنجی ،فیروزی‘‘
اس میںکانسی ساری سب سے قیمتی تھی ۔اور اس کے آنچل میں مرشدآباد کے نواب بیٹھ کر پچوان نوش کرتے ہیں ۔ اورنارنجی ساڑ ی کے اوپر ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز ناؤں میں بیٹھے ہیں۔اور فیروزی ساڑی کے آنچل پر مغل بیگمات ہاتھی کے ہودے پر بیٹھے گلاب کا پھول سونگھنے میں مصروف تھیں۔( آخری شب کے ہمسفر ص: 60 )
اس اقتباس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان تین ساڑیوںمیں تین مذہب کے لوگ ہیں ،اور تین قوم کے لوگ ہیں ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس عہد کے آپسی تعلقات اتحاد و اتصال کے اندر قائم و دائم تھے۔ اور عینی آپا نے اس ناول کے اندر ایک مشترکہ خاندان میں ایک مشترکہ تہذیب کی نمائندگی کو ایک ساڑی کے طور پر پیش کر رہی ہیں جو کہ باری باری ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ ہوتے کہاںپہونچ جاتی ہے ،خاص طور پر اس ناول میںسرزمین بنگال کی مشترکہ تہذیب کا محور ومرکز ہے ۔ اور اس ناول میں ان سارے کرداروں کا آپس میں بات چیت کرنا مشترکہ تہذیب کی علامت ہے ۔اس لئے کہ ان میںہر ایک کی زبان اور لب ولہجہ الگ الگ ہے ۔
اس ناول میں دوسرا پہلویہ ہے کہ ہندوستان تقسیم در تقسیم ہونے کی وجہ سے وہ تہذیبی اشتراک منتشر ہوجاتا ہے ۔بہر حال ناول کے قصے کی دلچسپی انجام کی نہیں جدو جہد کی ہے ۔ اگر چہ کی ان کے درمیان آپسی تعلقات نہایت خوشگوار ہوتے ہیں جیسے کہ سندربن کے اندر دیبالی سرکار کشتی پر سوار ہوکر ریحان الدین سے ملنے کے لئے جاتی ہے ۔ اور سندر بن کا وہ حسین علاقہ دنیا کے حسین ترین اور خطرناک ترین خطوں میں سے ہے۔
دیپالی سرکار کی کشتی باگھر گھاٹ سے روانہ ہوکر ایک نامعلوم منزل کی طرف بہتی جارہی تھی ۔اور دیپالی چاروں طرف کے ہیبت ناک اور خوبصورت مناظر کو دیکھ دیکھ کر سکتے میں بیٹھی تھی۔اور اس کادل دھڑک رہا تھا ۔اور وہ ریحان داس سے ملنے جارہی تھی ۔
اس نا ول میں مشترکہ تہذیب کی نشانی اس جگہ پر ہوتی ہے جب دیبالی سندر بن کے اس مندر میں ریحان دا کے ساتھ گھومنے کی غرض سے جاتی ہے اور وہاںپر ریحان عقیدت مندانہ طور پر بچاری سے ٹیکہ لگواتا ہے اور اس کی مرضی سے گلے میں پھولوں کا ہار پہناتا ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اس وقت بنگال کے اندر ہندوستان کا آپسی تعلقات ایسا تھا کہ ان کے درمیان مذہب اور قوم کے برعکس آپس میں ایک دوسرے سے عقیدت تھی ۔ایک دوسرے کی عزت کیا کرتے تھے اور عینی آپا نے اس ناول میں اس تہذیب کو اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
اور ایک دوسری جگہ پر جب دیپالی سرکار ریحان کے گھر پہونچتی ہے دریا کے راستے سے کشتی پرسوارہو کر ۔تو اس وقت مولوی صاحب گھر پر ہوتے ہیں ۔ اور اند ر داخل ہوتے ہی اسے سوال کیا گیا ’’ آپ نے کچھ کھانا کھایا ہے کہیں راستے میں کچھ کھانے کو ملا ہے ۔ چلو جلدی سے کھانا کھالو اور دیپالی کو کھاٹ پر بیٹھا کر اسے ماچھی بھات کھانے کو دیا جاتا ہے ۔ اور دیپالی بھر سیر ہو ہو کر کھایا۔
تو اس طرح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بنگال کے اندر مسلمانوں اور خاص کر مولوی صاحب جو کہ ایک غریب خاندان سے تھے جو ایک چھوٹے سے گھر میں رہا کرتے تھے او ر مچھلی مارکر اپنا گزارا کرتے تھے ۔مگر ان کے اندر مہمان نوازی کی اتنی زندہ دلی تھی کہ اسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔کہ ایک ہندو لڑکی کو اپنے گھر میں مہمان بنایا ہے اور اسے کسی چیز کی کمی محسوس نہیںہونے دیا ہے ۔ اور خاص کر بنگال کے اندر مچھلی بھات کھانا بہت اسپیشل کھانا شمار کیا جاتا ہے ۔یہ بھی وہاں کی تہذیب میں داخل ہے۔اور عینی آپا نے اس ناول میں ان ساری چیزوں کو دیکھانے کی کوشش کی ہے کہ ہندوستان اور ہندوستان کے دوسرے علاقے میں کس طر ح سے مشترکہ تہذیب میں رچی بسی ہوئی تھی ۔کہ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔اس لئے کہ جب دیپالی ریحان کے یہاں مولوی صاحب کے قیام کیا تو اسے کلثم کہہ کر پکارتے تھے ۔اور دیپالی کو بھی اس نام کی تبدیلی سے کوئی اعتراض نہیں تھا ۔
اقتباس ملاحظہ ہوں ۔
چلو بیٹی کلثم(دیپالی ) مولوی ابو الہاشم نے آوازدی وہ اور زینب برابر کلثم کہہ کر پکارتے تھے۔اس لئے کہ انہیں یقین کامل تھا کہ بہت جلد یہ لڑکی ریحان کے ہاتھوں مشرف بہ اسلا م ہوکر اس سے نکاح کرے گی ۔جانے ریحان ان دونوں بھولے میں بیوی کو کیا پڑھا رکھی تھی کہ زینب بی بی نے ایک دن بڑی رازداری سے ریحان سے کہا کہ کلثم کو مولوی صاحب کلمہ پڑھا دیںاور شربت کے پیالے پر نکاح ہو جائے،یوںبھی برسات کا زمانہ ہے ،اور اس کی دادی نے برسوں سے سینت کر رکھی ہوئی ایک نئی سوتی ساڑی بھی نکال کر ریحان کو پیش کردی تھی ،اور یہ ساری انہوںنے بہو کے لئے رکھی تھی ۔ ختم (اخیر شب کے ہمسفرص:108)۔
اس اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور میںشادیوں کے موقع پر جہیز جیسی بیماری بھی نہیںتھی ۔ اور نکاح کے وقت کلمہ پڑھانے کا رواج تھا ۔ اور ساڑی دینے کارواج تھا۔ توا س طرح سے ساڑ ی کا دیا جانا تہذیب کی علامت ہے، اور خاص کر برسات کاموسم شادیوں کے لئے اچھا مانا جاتا ہے ۔
ایک بات یہاں و اضح ہو کہ جب 1909 میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تو ڈھاکہ کے اندر تو نواب قمرالزماں اس کے اولین اراکین میں شامل تھے اور ڈھاکہ کے اکثر مسلمان رئیسوں کے مانند نواب صاحب مرحوم کے یہاں بھی اردو کا چرچا تھا ۔ اور گھر پر بچوں کو بنگلہ زبان کے ساتھ ساتھ اردو زبان بھی پڑھائی جاتی تھی۔
یہ بھی ایک طرح سے مشترکہ تہذیب کی علامت ہے کہ ایک زبان کے ساتھ ساتھ دوسری زبان کو فروغ دینا اگر چہ کہ بول چال کے طور پر اردو زبان کولوگ استعمال کرتے تھے ۔اور رسالے بھی لکھاکرتے تھے۔اور اردو زبان کو گھر گھر پڑھائی جاتی تھی۔تو اس طرح سے مشترک زبان میں مشترک تہذیب بھی شامل تھی ۔
اس کے بعد ارجمند منزل کے ایک اقتباس کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت ہندو اور مسلمان اپنے مذہبی تہواروں جیسے پوجا اور عید کے موقع پر تحفہ میں ساڑیاں دیا کرتے تھے۔اور ایک موقعہ پر دیپالی سرکارکو بھی اس کاتحفہ دیا گیا ۔
تواس طرح سے ہندو ں اپنے تہوار کے موقعہ پر مسلمان کوتحفہ دیا کرتے تھے ۔اور مسلمان بھی اپنے عید کے موقعہ پر ہندو کو تحفہ دیا کرتے تھے ،تو یہ تحفہ دینا اور لینا بھی آپس میں بھائی چارہ اور مشترک تہذیب ہے ۔ اور اسی طریقے سے نواب صاحب کو’’کاکا‘‘ کہہ کرپکارنا دیپالی سرکار کا اوروں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا۔
اقتباس ملاحظہ ہوں ۔
نواب صاحب: ہاں بھائی دیپالی کیا پوچھنا چاہتی ہو نواب صاحب ایک دم دور سے پہچو ان گڑگڑاکر آنکھیں کھولے ہوئے بولے ۔
دیپالی: کاکا آپ کیوں چاہتے ہیں کہ ملک تقسیم ہوجائے۔
نواب صاحب : چند سکنڈ یبچوان گڑگڑاتے رہے۔ اور پھر شان سے کہابیٹی تم کو معلوم ہے کہ سارے ہندوستان کے مسلمان تباہ حال ہیں۔ ایک وقت تھا کہ اسی بنگال کامسلمان خوش حال اور آسودہ تھا ۔ صرف اس ملک میں ایک لاکھوں اسلامی مدارس تھے ۔ بیٹی ایک لاکھ مدرسے اب یہاںمسلمانوں کی غربت اور جہالت کی کیا حالت ہے؟ خود تمہارے گرو نیگور بنگالی مسلمانوں کی اقتصادی پسماندگی او ر ان کے سماجی بے انصافی کا اعتراف کر چکے ہیں۔
دیپالی: مگر کا کا آزا د ہندوستان میں بھی تو مسلمان خوشحال ہو سکتے ہیں۔
نواب صاحب : متحدہ ہندوستان ہرگز نہیں اور ہندوستان متحدہ کب تھا۔اسے انگریز نے متحد کیا۔ دیپالی تم میری بچی ہومیں تم سے کیا بحث کروں ۔
دیپالی: کاکا میں بچی نہیں ہوں ۔
بقول نواب صاحب کے اس وقت ہندوستان میں ایک لاکھ مدارس تھے۔اور مسلمان خوشحالی کی زندگی گزارتے تھے۔اور دوسری جگہ پر رد کرتے ہیں کہ ہندوستان انگریز وں کی وجہ سے متحد تھا ۔ مطلب یہ ہے اس زمانے میں تہذیبی ماحول ایسا تھا کہ ہندو اور مسلمان ایک مدرسے میں بچے تعلیم حاصل کیا کرتے تھے ۔اور ایک دوسرے کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے عباد خاتون کی عزت کرتے تھے ۔صرف مذہب کی کوئی تفریق نہیں تھی۔ آپس میں اتحاد قائم تھا ۔ تو اس طرح سے کہا جاسکتا ہے کہ آپس میں اتحاد و اتصال میں مشترک تہذیب بھی شامل تھی ۔اگر چہ کہ بعد کے زمانے میں مسلمان تباہ و برباد ہوگئے ۔ اور پاکستان اور بنگلہ دیش کا بٹوارہ ہوگیا ۔ اور وہ تہذیب انتشار میں تبدیل ہوگئی ۔جس کی تاریخ برسوں سے قائم و دائم تھی۔
اس ناو ل میں اہم کردار دیپالی سرکا ر اور ریحان الدین ہیں ۔ اور انہیں کے توسط سے اور کرداروں کی نمائندگی ہوتی ہے۔ اور ناول آگے بڑھتی ہے جیسے کہ دوزی ، تمجہ ،جہاںآرا اور اختر آرا وغیرہ جب ایک شادی کے موقعہ پر ان کی ملاقات ہوتی ہے۔ اور دیپالی ان کے ذریعہ سے ہار مونیم بجانا بھی سیکھتی ہے ۔ایسا اس ماحول میں کبھی اس کو احساس نہیںہوا کہ وہ اپنے گھر سے دور اورر کس مقصد کے تحت یہاں آتی ہے۔
وہ ایک جگہ کہتی ہے:
دیپالی نے سوت کی جگمگاتی شیل اور ساری کے ہم رنگ دھاگے کی ریل لچھے سے اٹھائے ہوئے سوچا پاکستان ، کمیونسٹ تحریک ،ہندو مسلم آویزش اور عالمی جنگ ان سب جھگڑوں سے بروں ہو کر جہاںآرا اپنے بھائی کی شادی کی تیاری کر رہی ہے میںخواہ مخواہ دنیا کے جھگڑے میںکیوں ہلکاں ہوتی ہوں یہ سوچ کر بساست اور زندہ دلی اپنے اوپر طاری کرلیتی ہے۔اور جہاں آرا دوسری لڑکیوں کے ساتھ مل کر ہسنے بولنے اور گیت گانے میں مصروف ہوجاتی ہے۔
اس اقتباس سے بات صا ف ہو جاتی ہے ۔ کہ کبھی کبھی ایسا ماحول پیدا ہو جاتا ہے کہ نہ چاھتے ہوئے بھی اس ماحول میں ڈھلنا پرتا ہے، اور سب کچھ بھلا کر اسے اپنا نا پڑتا ہے، اور خاص کر شادی وغیرہ کے موقعہ پر خوشی کا ماحول ہوتا ہے ، جب پرانی روایتیںادا کی جاتی ہیں۔
اس لئے کہ یہ تہذیبی ورثہ ہوتی ہے جیسے کی گیت گانا اور اس میںہر کسی کو لطف آتا ہے ۔اور ایسے ماحول میں ہر کوئی ڈھلنے پر مجبور ہو جاتا ہے، بالکل یہی حال دیپالی سرکا ر کے ساتھ ہو ا وہ یہاں آکروہ سب کچھ بھول جاتی ہے ، کہ میں کس مقصد کے تحت یہاں آئی ہوں ۔
اس کے بعد روزی دیبالی او رسمشہ خالد اور جہاں آرا بیگم ان سب کا آپسی تال میل اور ایک ساتھ بیٹھ کر شادی کے موقعہ پر گیت گانا یہ مشترک تہذیب کی نشاندہی ہے ایک طرح سے کہا جاسکتا ہے ان تمام لوگوں میں کچھ بھی کسی طرح کا فرق نظر نہیں آتا ہے ۔ اسلئے کہ سب ایک دوسرے کو اپنا سمجھ کر ساتھ رہتے ہیں ۔اب یہاںپر خاص طور سے لباس کے تعلق سے ایک بات سامنے آتی ہیکہ اس وقت ہندوستان میں شادی کا جوڑا ساڑی ہوا کرتی تھی ۔لیکن جب بٹوارہ ہو ا تو ہندوستان میںغرار ہ دلہن کو پہنا یا جاتا تھا ۔ اور بنگلہ دیش کے فرشی پائجامہ دار سوٹ ، وغیرہ لیکن جب ہندوستان الگ نہیںہوا تھا ان سب کا جوڑا ایک تھا صرف لال رنگ کی ساڑی تھی مگر اس میں ہندوسماج کی کوئی تفریق نہیں تھی ، تمام عورتیں اسے تہواروں اور شادی کے موقعہ پر پہنا کرتی تھیں یہ بھی مشترکہ تہذیب کی بہت بڑی علامت ہے۔
اس ناول میں خاص کر ساڑی کا ذکر بڑا معنیٰ خیز ہے۔اس لئے کہ شروع سے لیکر آخر تک اسی کے ذریعہ سے تہذیبی اشتراکیت کو دیکھانے کی کوشش کی گئی ہے اور وہ ساڑ ی ہر قوم کے لئے ایک ہی تھی ۔اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں تھی۔
ناول کے اختتام ہونے تک ایسا ماحول رونما ہوتا ہے کہ یہ ساری تہذیبی باتیں پاش پاش ہو کر رہ جاتی ہے لیکن ان میں ایک اور اشتراکیت باقی رہ جاتی ہے جب مولوی صاحب کی بیٹی یاسمین ایک غیر مسلم سے شادی کرتی ہے، اور دیبالی سرکا ر اپنے والدین کی مرضی کے مطابق ویسٹ انڈیز کے اندر ایک انگریز بیر سٹر ملک سینٹ سے شادی کرتی ہے۔
اور جہاں آراء کی شادی ایک رئیس شہزادے سے کرائی جاتی ہے اس کے والدین کی مرضی کے مطابق اس لئے کہ ان کے والدین بہت تہذیب و ثقافت کے شیدائی تھے۔اور روزی بنرجی سینت کمار سانہال سے شادی کرتی ہے۔
تو اس طرح سے ایک مسلم لڑکی کا غیر مسلم لڑکے سے شادی کرنا اور ایک ہندو لڑکی کا ایک انگریز سے شادی کرنا اور عیسائی سے شادی کرنا یہ مشترک تہذیب کی سب سے بڑی علامت ہے۔
عینی آپا نے اس ناو ل کے اندر ان سارے تعلقات کو دیکھانے کی کوشش کی ہیکہ اس وقت ایسا ماحول تھا کہ آپس میں کسی قوم کو کسی مذہب کسی فرقے سے کوئی بیر نہیں تھا ۔اگر چہ کی ان سب کے پس پردہ ایک مقصد تھا۔ لیکن پھر بھی ان کے درمیان ایسی مشتر ک تہذیب قائم تھی کہ اس کی مثال ملنی مشکل ہے ۔اور انہیں ساری وجوہا ت کی بناء پر عینی آپا کو اس عہد کاسب سے بڑا فنکار اور ناول نگار شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی باتوں کو اور ان کی فکر کو سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے اگر چہ کی ان کے تصانیف کے اوپر بہت ساری تنقید ہوئیں ہیں۔ لیکن پھر بھی انہو ں نے اردو ادب کی دنیا میں اپنا لوہا منوایا ہے ۔ اور ان کی تخلیقات اردو ادب کے لئے بہت ہی قیمتی سرمایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی ساری ناولیں اردو ادب میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں ۔
٭٭٭٭٭
کتابیات:
(۱)آخر ِ شب کے ہمسفر ۔ قرۃ العین حیدر
(۲)ماہنامہ اردو دنیا (2010)
(۳)ہندوستانی تہذیب اور اردو ۔سید عبد اللہ
- فکر وتحقیق۔ شمارہ 2012
- (۵)ایوان اُردو ۔ شمارہ 2013
Ibrahim Azmi
Coordinator.Shaheen group of Institutions
Bahraich Centre
Mob.9036744140
9611954067
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
اس مضمون میں اِملا کی اَغلاط بہت ہیں۔ براہِ مہربانی ان کی درستی کیجیے۔ شکریہ