نہاں
ریسرچ اسکالر
الہ آباد یونیورسٹی ،پریاگ راج
E Mail- nehaansariali@gmail.com
Mob. 7985966630
رومان یعنی خیالی داستان، حیرت انگیزقصہ، داستانِ عشق و محبت۔گویا رومان قصے یا ادب کی وہ صنف ہے جس میں روز مرہ زندگی سے ہٹے ہوئے واقعات بیان کیے جائیں۔رومانیت لفظ ’’رومانس‘‘ سے نکلا ہے۔ جس کا اطلاق عموماً اس قسم کی کہانیوں پر ہوتا ہے جوپُر شکوہ منظر کے ساتھ عشق و محبت کی داستان پیش کرتی ہیں۔ ڈاکٹر محمد حسن کے مطابق:
’’رومانس ‘زبانوں میں اس قسم کی کہانیوں پر اس کا اطلاق ہوتا تھا جو انتہائی آراستہ اور پُر شکوہ پس منظر کے ساتھ عشق و محبت کی ایسی داستانیں سناتی تھیں جو عام طور پر دورِ وسطیٰ کے جنگ جو اور خطر پسند نوجوانوں کے مہمات سے متعلق ہوتی تھیں اور اس طرح اس لفظ سے تین خاص مفہوم وابستہ ہو گئے:
۱۔ عشق و محبت سے متعلق تمام چیزوں کو رومانوی کہا جانے لگا۔
۲۔ غیر معمولی آراستگی، شان و شکوہ، آرائش، فراوانی اور محاکاتی تفصیل پسندی کو رومانوی کہنے لگے۔
۳۔ عہدِ وسطیٰ سے وابستہ تمام چیزوں سے لگائو اور قدامت پسندی اور ماضی پرستی کو رومانوی کا لقب دینے لگے۔‘‘۱؎
اس اقتباس سے جو نتائج بر آمد ہوتے ہیں ان میں عشق و محبت، شان و شکوہ، قدامت پسندی اور ماضی پرستی رومانیت کے اجزا ہیں۔ لیکن پروفیسر احتشام حسین کا خیال ذرا مختلف ہے۔ لکھتے ہیں:
’’رومان سے مراد حسن و عشق کا افلاطونی اور تخیلی بیان نہیں، بلکہ روایت سے بغاوت،نئی دنیا کی تلاش، خوابوں اور خیالوں سے محبت، ان دیکھے حسن کی جستجو، وفور تخیل اور وفورجذبات، انانیت میں ڈوبی ہوئی انفرادیت، آزادئیِ خیال، حسن سے تا بمقدور لطف اٹھانے میں نا آسودگی کا احساس اور اس کا کرب، میں ان سب کو رومانیت کہتا ہوں۔ رومان اسے بھی کہتا ہوں جو حقائق کی جستجو، مادی اسباب سے زیادہ خیالات و تصورات کی رنگین دنیا میں کرتا ہے۔‘‘۲؎
تاہم ان اصول و ضوابط کے خلاف سب سے پہلے روسو کی آواز ابھری کہ ـ’’انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر جہاں دیکھو وہ پا بہ زنجیر ہے‘‘ ۔روسو کی یہی آواز رومانیت کا نقطئہ آغاز کہلائی۔ لیکن اردو شعر و ادب کی رومانیت مغرب کی رومانیت سے مختلف تھی کیونکہ یہ ایک باقاعدہ منظم تحریک تھی جو کلاسیکیت کے رد عمل کے طور پر ابھری تھی۔ جبکہ اردو شعر و ادب میں رومانیت ،کلاسیکیت کی ضد میں ظہور پزیر نہیں، ہوئی بلکہ یہ ایک زاویۂ نظر یا رجحان کے طور پر سامنے آئی۔ جس نے مقصدیت پر حسن اور جذبہ کو ترجیع دی۔ اتنی بات ضرور ہے کہ ان کے سامنے مغربی ادبیات کا وافر ذخیرہ موجود تھا جس کے اثر سے آزاد خیالی ان کی تحریروں میں در آئی۔ اس طرح رومانیت اپنے دامن میں حسن اور انقلاب دونوں عناصر سے تشکیل پذیر ہوئی اور اپنا سفر آگے بڑھایا۔
رومانیت کی مکمل چھاپ اردو شاعری میں سب سے پہلے اختر شیرانی کی نظموں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان کے بعد دوسرے اہم شاعر جوش ملیح آبادی ہیں جن کے یہاں جذبات کی شدت ہے۔اختر شیرانی کے یہاں نرم گوئی اور آہستہ روی پائی جاتی ہے جبکہ جوش کے یہاں گھن گرج اور جذباتی ولولہ کی روش عام ہے۔ علاوہ ازیں رومانی اثرات کے زیرِ اثر شاعری کرنے والے دوسرے شعرا مثلاً حفیظ جالندھری، حامد اللہ افسر، احسان دانش، سرور جہان آبادی اور چکبست کا نام قابلِ ذکر ہے۔ اسی سلسلہ کی ایک لطیف اور جدیدکڑی اختر الایمان بھی ہیں۔
اختر الایمان ادبی زندگی میں ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ بیک وقت نظم نگار، گیت نگار، مکالمہ نگار، منظر نامہ نگار اور اعلیٰ نثر تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، لیکن ان کا اصل جوہر نظم نگاری میں ہی کھلتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے۔ اختر الایمان جس دور میں ادبی میدان میں داخل ہوئے وہ ذہنی و فکری تبدیلیوں کا دور تھا۔ ترقی پسند ادبی تحریک اپنی شناخت قائم کر چکی تھی اور اس کے مخالف کے طور پر حلقئہ ارباب ذوق اپنا حلقئہ اثر بڑھا رہا تھا۔ آزادی کے بعد ترقی پسند ادبی تحریک اپنی معنویت تقریباً کھو چکی تھی جس کے نتیجے میں جدیدیت اور دوسرے ادبی رجحانات کو فروغ پانے کا موقع میسر آیا۔ اختر الایمان نے اپنے آپ کو ان تمام تحریکات و رجحانات سے آزاد رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظمیں اس دور کے دونوں ادبی گروہوں کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہیں۔ حالانکہ آزادی کے پہلے کی نظموں میں ترقی پسند خیالات کی گونج آزادی کے بعد کی نظموں کی بہ نسبت زیادہ نظر آتی ہے۔ اختر الایمان کی شاعری روایت اور جدت کا حسین امتزاج ہے۔ انھوں نے اپنے ہم عصروں سے اثرات ضرور قبول کیے لیکن ان کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لیا۔ ان کی نظمیں فیض اور راشد کی طرح سماجی اور معاشرتی مسائل کی جانب تو لے جاتی ہیں ،لیکن ان کا زاویۂ نظر دونوں سے مختلف ہے۔ ان کی نظمیں ماضی اور حال کی ترجمانی کرتی ہیں۔ مستقبل کے متعلق ان کا نظریہ اتنا واضع نہیں ہے جس قدر ان کے ہم عصر دیگر شعرا کا ہے۔ اختر الایمان بنیادی طور پر ماضی کی بازیافت اور اقدار کے شاعر ہیں جس کا براہ راست تعلق ماضی اور حال سے ہے۔
اس کے علاوہ اختر الایمان کے کلام کا ایک بڑا حصہ ان کی رومانوی خیالات و تجربات پر مشتمل نظر آتا ہے۔ عشق انسانی زندگی کا بہت اہم اور محرک جذبہ ہوتا ہے اس کی تخیلی توانائی سے انکار کرنا مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر محقیقین و ناقدین نے اخترالایمان کی رومانوی شاعری کا ماخذان کی زندگی میں پیش آنے والے کامیاب اور ناکام عشق کو بتایا ہے۔ ان کی شعری کائنات ان کی خودنوشت سوانحی کیفیات سے لبریز ہے۔ ان کی ابتدائی نظمیں رومانیت کی دھند میں ڈوب کر بھی اپنی فکری شناخت برقرار رکھتی ہے۔
اختر الایمان کی رومانی نظمیں ان کو اکثر شعرا سے ممتاز کرتی ہیں۔رومانوی انداز کی چند مختصر اور طویل نظموں کے عنوانات بطورِ مثال ملاحظہ ہوں۔ انجان، جب اور اب، اتفاق، دور کی آواز ، ریت کے محل، اجنبی، بنتِ لمحات، عہدِ وفا، ترکِ وفا، آخری ملاقات، رخصت، تجھے گماں ہے ، تجدید، پس و پیش، ڈاسنہ اسٹیشن کا مسافر، مفاہمت، نادیدہ، باز آمد ایک۔ منتاج،ترغیب اور اس کے بعد، برندابن کی گوپی، نیند کی پریاں ،ایک لڑکی کے نام، شفقی، ایک جامد تصویر اور بزدل وغیرہ۔
یہاں مذکورہ بالا تمام نظموں کو گفتگو کا موضوع نہیں بنایا جا سکتا۔لہٰذایہاں صرف تین نظمیں، تجھے گماں ہے، ڈاسنہ اسٹیشن کا مسافر، ترغیب اور اس کے بعد، کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔،جس میں سے پہلی نظم ’تجھے گماں ہے‘ یہ نظم سیدھے سادھے انداز میں لکھی گئی ہے اس کا موضوع رومان کے ساتھ ساتھ انتظار کے پہلو کو اپنے اندر سموئے ہوے ہے۔ مثال کے طور پر یہ بند ملاحظہ ہوں:
تجھے گماں ہے مری محبت، ترے کرم سے جواں ہے شاید
مری جوانی، تری جوانی کی بے رخی کا شکار ہوگی
مرا لہو میرے اشک بن کر، سیاہ راتوں کی نذر ہوگا
یہ وسعتِ کائنات شاید حکایتِ انتظار ہوگی
مرے لبوں پر سلگ رہا ہے طویل زلفوں کا ایک بوسہ
ترے تبسم کی یاد باقی ہے، زہر کے گھونٹ پی رہا ہوں
مرے تخیل کی تنگ دنیا، ترے تصور سے ہے فروزاں
تجھے گماں ہے کہ میں ابھی تک، تری تمنا میں جی رہا ہوں
درج بالا بندمیں ایک عاشق کی رودادِ عشق نظر آتی ہے۔ اس نظم کا عاشق واحد متکلم اپنے محبوب کو یہ بتا رہا ہے کہ اسے محبت تو ہے مگر اس کی محبت ایسی نہیں کہ وہ اس سے بچھڑ کر جی نہیں سکتا۔ مثلاً پہلا مصرعہ ملاحظہ ہوں، ع:
’’تجھے گماں ہے مری محبت، ترے کرم سے جواں ہے شاید‘‘
وہ کہتا ہے اسے محبت تو ہے مگر اس کی محبت ایسی بھی نہیں کی وہ اسے چھوڑ بھی نہیںسکتا۔ اس روداد میں نفی اور اثبات کی ملی جلی کیفیت نظر آتی ہے۔ عاشق و معشوق کی زندگی میں وہم و گماں اور غم و اندوہ کے مراحل سے کون انکار کر سکتا ہے۔ عاشق کو اندیشہ ہے کہ اس کی محبت میں جو لطف و امنگ اور حوصلے کا دریا موجزن ہے جو اس کی محبوبہ سے گہرے تعلق کاغمازہے، اسے یقین ہے کہ اس کی جوانی جو جواں سال محبوبہ کے قرب کی آرزو مند ہے،عدم التفات کے سبب تعلقات میں نااتفاقی اور غم و اندوہ کے گہرے اندھرے میں اشک فشانی اور اس وسیع کائنات میں انتظار اس کا مقدر بن گیا ہے۔ شاید اسی صورتِ حال کا ارادہ شیخ ظہور الدین حاتم نے کیا ہوگا۔کہتے ہیں:
ہم تری راہ میں جوں نقش قدم بیٹھے ہیں
تو تغافل کیے اے یار چلا جاتا ہے
نظم کے پہلے بند میں عاشق نے محبوبہ کے بارے میں روایتی تصورات کا اظہار کیا ہے۔ دوسرے بند میں صورتِ حال قدرِ مختلف نظر آتی ہے،مثلاً دوسرے بند کا پہلا مصرعہ :
مرے لبوں پر سلگ رہا ہے طویل زلفوں کا ایک بوسہ
پہلے بند کے بہ نسبت دوسرے بند میں سلگتے ہوئے لبوں کا ذکر نہ صرف جنسی کشش کا بلکہ یادوں کی بازیافت اور ایک کرب کے کا احساس دلا رہا ہے۔ خصوصاً تبسم کی یاد سے وابستہ زہر کا گھونٹ، بھر پور جنسی جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کے باوجود بھی عاشق تنہا زندگی کی تاریک راہوں پر کس قدر اعتماد سے چلنے کی بات کر رہا ہے۔ تاہم اس بند کے آخری مصر عے سے اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ، ع:
تجھے گماں ہے کہ میں ابھی تک ،تری تمنا میں جی رہا ہوں
اگر بند کے اس آخری مصرعے پر غور کیا جائے تو اس میں سوال اور جواب دونوں پوشیدہ نظر آتے ہیں۔ جس کا مفہوم نفی اور اثبات دونوں ہی صورتوں میں لیا جا سکتا ہے ،کیونکہ عاشق محبت کی عدم موجودگی میں زندگی کا تصور ہی نہیں کر سکتا۔
رومانوی واردات کے شاعرانہ اظہار کی نسبت سے اخترالایمان کی نظم ’ڈاسنہ اسٹیشن کامسافر ‘ بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ایک طویل نظم ہے جس میں jump-cut تکنیک کابخوبی استعمال کیا گیا ہے۔ اس نظم میں ۱۹۳۸ میں رونما ہونے والے واقعہ کو چالس برس بعد نظم کے پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔اس نظم میں جس نسوانی کردار ’قیصر‘ کا ذکر ہے وہ شاعر/ عاشق کے عرصئہ حواس پر اس طرح لرزاں ہے کہ سرشاری کے عالم میں عاشق نے’ قیصر ‘کو اپنی باہوں میں بھینچ کر اس کے لبِ لعلیں سے لالی چرالی تھیں۔ مثلاً یہ بند:
اس کا ہاتھ ہاتھوں میں
لے کے جب میں کہتا تھا
اب چھڑاؤ تو جانوں
رسمِ بے وفائی کو
آج معتبر مانوں
اس کو لے کے باہوں میں
جھک کے اس کے چہرے پر
بھینچ کر کہا تھا یہ
بولو کیسے نکلو گی
میری دسترس سے تم
میرے اس قفس سے تم
اس واقعہ کا ذکر اخترالایمان نے اپنی خودنوشت میںبڑے ہی پر اثر انداز میں کیا ہے۔لکھتے ہیں:
’’اگلے روز شام کی گاڑی سے میں قیصر کے ساتھ روانہ ہوگیا۔ ایک رات کا سفر تھا میں نے اپنے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ نہ اس سے پوچھا۔ میں تو بے سوچے سمجھے اس آگ میں کود پڑا تھا۔ جلنا لازمی تھا۔
قیصر کا مکان کوٹھی نما تھا۔سسرال کے لوگ متمول معلوم ہوتے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رات کو قیصر باہر آئی۔ ہم ڈیوڑھی میں کھڑے باتیں کر رہے تھے۔باتیں کیا۔ وہ کہہ رہی تھی میں سن رہا تھا۔‘‘۳؎
منقولہ بالا اقتباس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اخترالایمان، قیصر کو لے کر ’ڈاسنہ‘ گئے تھے۔ اور یہی سبق نظم کے مطالعہ سے بھی حاصل ہوتا ہے اور انھوں نے جس کوٹھی نما سسرال کا ذکر کیا ہے وہ اسے ’آسمان محل‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ مصرعہ ملاحظہ ہو:
آسماں محل تھا اک، سیدوں کی بستی میں
نظم کا آغاز دو کردارں کے مابین مکالماتی انداز سے ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نظم اخترالایمان کی بازیابی کا محرک جذبہ ہے جو عاشق کے جنونِ عشق اور باطنی اضطراب کی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔ نظم تخیل کی لہروں میں آ گے بڑھتی ہے۔ مثلاً:
اس دیار میں شاید
قیصر اب نہیں رہتی
وہ بڑی بڑی آنکھیں
اب نہ دیکھ پاؤ ں گا
ملک کا یہ بٹوارا
لے گیا کہاں اس کو
دیوڑھی کا سنا ٹا
اور ہماری سرگوشی
جیسا کی عرض کیا جا چکا ہے کہ روسو نے رومانیت کے متعلق کہا تھا ’’انسان آزاد ہوتے ہوئے بھی پا بہ زنجیر ہے‘‘ گویا قید و بند سے آزادی میں بھی ایک رومان نہاں ہوتا ہے۔ نظم میں جس نسوانی کردار کا ذکر کیا گیا وہ ایک شادی شدہ لڑکی ہے۔ اور یہ جانتے ہوئے بھی عاشق اس آگ میں کود پڑا اب اسے اس آگ کی لو میں اکیلے جلنا ہے۔ مذکورہ بالا بند میں ’ملک کا یہ بٹوارا لے گیا کہاں اس کو‘ یہاں جس دلچسپ واقعہ کو لفظوں کا جاما پہنا کرشاعر نے پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہ ان کا ذاتی المیہ معلوم ہوتا ہے۔یوں تو پوری نظم ان کی یادداشت کا ایک المیہ ہے جس کا ذکر نظم کے آخر میں اس انداز سے کرتے ہیں جو ایک طرح سے نظم کا لبِ لباب بھی ہے۔ مثلاً:
آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا
گُم کیا ہو ا پایا
ویسے تو اخترالایمان نے کبھی بڑا شاعر ہونے کا دعوہ نہیں کیا۔ مشفق خواجہ ’خامہ بگوش‘ کے نام سے ایک طنزیہ کالم لکھا کرتے تھے جس کے تحت ایک مرتبہ انھوں نے اس عنوان سے بھی ایک کالم لکھا کہ ’اگر غالب اخترالایمان کے مشورہ پر عمل کرتا تو بڑا شاعر ہوتا۔‘آگے لکھتے ہیں:
’’جب میں نے اس کالم کے بارے میں اخترالایمان سے پوچھا تو انھوں نے غالب کے اس شعر کا حوالہ دیا:
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
اور کہا کہ اتنا بڑا اور اتنا اچھا شعر ہے غالب کا۔لیکن اگر غالب اس موضوع کو لے کے ایک نظم کہتے تو اندازہ لگائیے کہ وہ کتنی بڑی ہوتی۔‘‘ ۴؎
اس طرح جب مشفق خواجہ نے غالب کے درج ذیل شعر کے متعلق کہا تھا تو اخترالایمان اس کے جواب میں یہ کہہ سکتے تھے کہ میں نے غالب کے اس شعر کو لے کر ایک بڑی نظم تخلیق کی ہے۔
غنچہ پھر لگا کھلنے آج ہم نے اپنا دل
خون کیا ہوا دیکھا گم کیا ہوا پایا
گویا زیر تجزیہ نظم کے آخری تین مصرعہ غالب کے اسی شعر سے مستعار معلوم ہوتے ہیں ۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ نظم ’ڈاسنہ اسٹیشن کا مسافر‘ ایک طرح سے غالب کی اس شعر کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔
اسی سلسلے کی تیسری نظم ’ترغیب اور اس کے بعد‘ ہے جو جنسیات کے موضوع کا ایک شاعرانہ اظہار ہے۔ یہ نظم دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک ترغیب سے پہلے اور دوسرا ترغیب کے بعد۔ ترغیب سے پہلے کا تصوراتی شعری منظر نامہ ملاحظہ ہو:
پھر میں کام میں لگ جاؤں گاآ فرصت ہے پیار کریں
ناگن سی بل کھاتی اُٹھ اور میری گود میں آن مچل
پہلے شعر سے ہی ایسا ظاہر ہے کہ جیسے نظم میں جنسی تلذزہی سرمایہ محبت ہے۔ چونکہ آج کے ترقی یافتہ دور میں لوگوں کے پاس وقت کی فراوانی نہیں رہی ۔زندگی کاروباری نوعیت کی ہو کر رہ گئی ہے۔اسی لیے گھر جا کر کچھ پل محبت کے لیے وقف کرنا خود سے مفاہمت کرنے جیسا ہو گیا ہے۔ دوسرے مصرعہ میں جنسی علامت ’ناگن‘ اور اس کی مناسبت سے ’بل کھانا‘ اور ’گود میں مچلنا‘ وغیرہ خالص جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کا وظیفہ کہا جا سکتا ہے۔ یعنی محبت احساس کی لذتوں تک محدود نہ ہو کر جسمانی ضروریات کی تکمیل تک آ گئی ہے۔ مثلاً زیرِ نظر بند:
چھوڑ یہ لاج کا گھونگھٹ کب تک رہے گا ان آنکھوں کا ساتھ
چڑھتی رات ہے ڈھلتا سورج کھڑی کھڑی مت پاؤں مل
پھر یہ جادو سو جائے گا سمے جو بیتا گہری نیند
جو کچھ ہے انمول ہے اب تک ایک اک لمحہ ایک اک پل
بن چھوئی مٹی کی خوشبو اس کا سوندھا سوندھا پن
سب کچھ چھن جائے گا اک دن اب بھی وقت ہے دیکھ سنبھل
نرم رگوں میں میٹھی میٹھی ٹیس جو یہ اٹھتی ہے آج
بڑھتی موج کا ریلا ہے اک ٹیس نہ یہ اٹھے گی کل
مست رسیلی آنکھوں سے یہ چھلکی چھلکی سی اک شئے
جس نے آج اپنایا اس کو سمجھو اس کے کام سپھل
میں تیرے شعلوں سے کھیلوں تو بھی میری آگ سے کھیل
میں بھی تیری نیند چراؤں تو بھی میری نیندیں چھل
مذکورہ بالابند میں استعارات کی کارفرمائی نمایاں ہے۔ یہ کارفرمائی دو دلوں کی ملاقات کے منظر سے عبارت ہے۔یوں تو پوری نظم اسی جنسی جذبات سے معمور ہے۔ استعارے یعنی چڑھتی رات، پاؤں مسلنا، جادو کا سونا، خوشبو کا سوندھا پن، میٹھی میٹھی ٹیس، مست رسیلی آنکھیں، شعلے اور آگ سے کھیلنا، نیند چرانا وغیرہ۔
مختصر یہ کہ اخترالایمان کی رومانی نظموں میں جو پہلو سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ جنسیات ہے۔ ’’جس کے سبب ان کی رومانی نظمیں جنسیات کی آسودگی کا گہوارہ بن گئیں‘‘۔تاہم ا خترالایمان کی رومانی نظموں کا شمار جدید دور کی رومانی شاعری میں اپنے اندازِ بیان، ڈرامائی کیفیت، فنی اور فکری عناصر کی وجہ سے شاہکار نہیں تو کامیاب نظموں میں ضرور ہوتا ہے۔
حوالے:
۱۔اردو ادب میں رومانی تحریک ،ڈاکٹر محمد حسن ,شعبۂ اردو مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ،۱۹۵۵ ،ص ۱۱
۲۔بحوالہ اردو ادب کے ارتقا میں ادبی تحریکوں اور رجحانوںکا حصہ،منظر اعظمی،اتر پردیش اردو اکادمی ،لکھنؤ ۱۹۶۶ ،ص۳۲۱، ۳۲۲
۳۔اس آباد خرابے میں،اختر الایمان ،دہلی اردو اکادمی ،دہلی، ۲۰۱۰ ،ص۵۹۔۶۰
۴۔باقیات اخترالایمان، مرتبہ، بیدار بخت، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی،۲۰۱۴ص۱۴،۱۵
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |