دلاور فگارؔ اور رضا نقوی واہیؔ کے علاوہ اردو کے طنزیہ ومزاحیہ ادب میں سر فراز شاہدؔ، حاجی لقؔ لق، بیدلؔ جونپوری، ماچسؔ لکھنوی، ضمیر ؔ جعفری، یوسفؔ پاپا، مجیدؔ لاہوری، جوہرؔ سیوانی، احمقؔ پھپھوندوی، راجہ مہدیؔ علی خاں، طالبؔ خوندمیری، نظرؔ برنی،ساغرؔ خیامی، مرزاؔ کھونچ، افتخارؔ وصی اور ظفر کمالیؔ جیسے شعراء کے کار ناموں کو بھی کسی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اُنہی شعراء میں ایک اہم ترین نام اسرارؔ جامعی کا بھی ہے۔ لیکن بعض حلقوں میں اسرار جاؔمعی کو یا تو قصداً نظر انداز کیا گیا یا خود ان کی حددرجہ بے باکی، بے نیازی اور بے ترتیبی نے انھیں خاطر خواہ ابھرنے نہیں دیا۔ فضل حق آزادؔ عظیم آبادی کے گھرانے میں پلے بڑھے اور ڈاکٹر ذاکر حسین و پروفیسر محمد مجیب جیسے اساتذہ سے پڑھے لکھے اس فن کار نے عمر بھر نا کامیوں سے کام لیا۔ ایسے دور میں جبکہ بہترے ادباء، شعراء کسی بھی سیاست اور مصلحت کی زد میں آنے سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ پاتے، اسرار جاؔمعی نے بقول شکیل الرحمن ’’ون میں آرمی‘‘ کی طرح زندگی کے ہر مورچے پر پامردی کے ساتھ لڑائی لڑی۔ ان کی بے باکی، جرأت مندی اور صاف گوئی نے شعراء، ادباء کو ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے سیاست دانوں اور منصب داروں کو بھی نہیں بخشا۔
اسرار جامعی گزشتہ 50 برسوں سے طنزیہ و مزاحیہ ادب کی خدمت کررہے اور ملک و بیرون ملک میں اپنی منفرد اور ممتاز شناخت کے سبب پہچانے جاتے رہے۔ انھیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ملک کے کئی وزرائے اعظم اور صدورِ جمہوریہ نے براہ راست ان کی عزت افزائی کی اور انھیں اعزازات سے نوازا۔ ان کی شاعرانہ خصوصیات سے متاثر ہو کر تقریباً تمام مشاہیر قلم کاروں نے ان کے متعلق اپنے نیک اور مثبت خیالات کا اظہار کیا۔ معروف محقق قاضی عبدالودود نے اسرار صاحب کے یہاں معیاری، طنز و مزاح اور وسیع کینواس کی خصوصیت کا اعتراف کیا۔ کلیم الدین احمد جیسے سخت گیر ناقد نے لکھا کہ اسرار جامعی بات سے بات پیدا کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ ماہر غالبیات مالک رام نے کہاکہ وہ جب اساتذہ کے اشعار کو نیا رنگ دیتے ہیں تو لطف آجاتا ہے۔ ڈاکٹر خلیق انجم نے ان پر قدرے تفصیل سے لکھا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ وہ اپنے عہد کی سیاسی اور سماجی زندگی کے تضادات کو بہت چابکدستی سے اپنا موضوع بناتے ہیں۔ محمد حسن کے مطابق طنز و مزاح نہایت نازک صنف ہے اور اسرار جامعی نے اسے پوری نزاکت اور لطافت کے ساتھ برتا ہے۔ احمد جمال پاشا نے ان کی شخصیت اور فن پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ نکتہ اجاگر کیا ہے کہ ان کے طنز و تحریف سے ظریفانہ ادب کے گہرے مطالعے، طنزیہ قوتِ اظہار، بے ساختگی، جولانیِ طبع اور شگوفہ کاری نیز قدرتِ کلام کا اندازہ ہوتا ہے۔ جو بے ساختگی اور برجستگی اسرار جامعیؔ کے یہاں ملتی ہے اس کی دوسری مثال ہمیں موجودہ ہندو پاک کے دوسرے شعراء کے یہاں مشکل سے ملتی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے:
’’اسرار جامعیؔ کے کلام میں تازگی اور برجستگی ہے… وہ شکل سے سیدھے اور اندر سے بڑے خطرناک ہیں۔ شاعروں اور استادوں کے وہ خاص دشمن ہیں‘‘۔
اسرار صاحب کل وقتی شاعر تھے۔ وہ سہل الحصول تھے اس لیے ہر جگہ آسانی سے دستیاب تھے۔ ان کی باچھیں ہروقت چری رہتی تھیں۔ سیمناروں اور ادبی جلسوں میں وہ سب سے آگے پہلی صف میں بیٹھتے تھے اور جس وقت کوئی ادیب یا دانش ور اپنی شعلہ بیانی سے محفل کو گرما رہا ہوتاتھا، وہی وقت ہوتا تھا اسرار جامعیؔ کے تخلیقی تموج کا۔ وہ ادیبوں یا دانش وروں کے مائک چھوڑنے سے پہلے ان کا سارا کچا چٹھا چھوٹے چھوٹے پرزوں کی شکل میں سامعین کے درمیان تقسیم کرچکے ہوتے تھے۔ بعض دفعہ جلد بازی اور جوش میں وہ نئی نویلی لڑکیوں کو بھی پرزے تھمادیتے تھے۔ نتیجتاً وہ انھیں غضب اورتحیر بھری نگاہوں سے دیکھنے لگتی تھیں لیکن ان کا معصوم چہرہ اور بے ضرر سراپا انھیں صاف بچا لیتا تھا۔ اسرار صاحب عام حالات میں بہت سدھے سادے لیکن تخلیقی طور پر بہت ہی سفاک اور جارح تھے۔ ان کے طنز کی کاٹ سے شاید ہی کوئی بچ پاتا تھا۔ خاص طور سے وہ اردو کے پروفیسروں کو نشانے پر رکھتے تھے۔ ان کی ظرافت کا منبع اقبالؔ اور دوسرے مشاہیر شعراء کے اشعار میں جزوی تحریف ہے۔
عام طور سے طنز و مزاح کے شعراء (بہ استثنائے چند) اپنے آپ کو سنبھال نہیں پاتے۔ وہ سستے اور سطحی مزاح پیدا کرنے کے جوش میں یاوہ گوئی پر اتر آتے ہیں جس سے ان کی شاعری محض ہنسی ٹھٹھول بن کر رہ جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے یہاں طنز یہ مزاحیہ شاعری کا معیار اس قدر نہیں جیسا کہ ہونا چاہئے۔ جبکہ نثر میں مزاح نگاروں نے اپنے معیار کو بہت حدتک متوازن رکھاہے۔ پطرس بخاری، انجم مانپوری، رشید احمد صدیقی، مشتاق احمد یوسفی، کرنل محمد خان، یوسف ناظم، احمد جمال پاشا، شوکت تھانوی، مجتبیٰ حسین، نصرت ظہیر، فیاض احمد فیضیؔ اور پرویزداللہ مہدی جیسے ظرافت نگاروں کی نثری نگارشات بطور ثبوت موجود ہیں۔ اسرار جامعیؔ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ دوسرے بہت سے مزاح نگاروں کی طرح متبذل اور سوقیانہ موضوعات کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ وہ اپنا مواد اپنے گردو پیش سے لیتے ہیں اور اس قدر صاف شفاف اسلوب میں پیش کرتے ہیں کہ ان میں مزاح اور مشاہدہ کا فطری امتزاج بہ آسانی محسوس کیاجاسکتا ہے۔ ان کا دائرہ سخن وسیع اور وقیع ہے۔ وہ اپنے موقف کے اظہار کے دوران کسی کی پرواہ نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ دوران شعر گوئی درآئے تکنیکی تسامحات کو بھی وہ خاطر میں نہیں لاتے ۔ ان کے لپیٹے میں وہ ساری چیزیں آجاتی ہیں جنہیں وہ صرف نظر بھر کر دیکھ لیتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ جو لوگ ان کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان رہتے ہیں موقع ملتے ہی اسرار صاحب ان پر بھی ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اسرار جامعیؔ کے یہاں ایسی ایسی نظمیں اور قطعات ہیں کہ اگر وہ جمہوری ملک میں نہیں ہوتے تو کب کے حبس دوام کے اسیر ہوچکے ہوتے۔
پیش ہیں یہاں کچھ ادبی اور سیاسی شخصیات سے ان کی چھیڑ خانی کے نمونے:
پٹنہ کی ایک محفل میں جب قاضی عبدالودود نے کلیم الدین احمد سے کچھ پوچھا توانھوں نے کوئی نوٹس نہیں لیااور چپّی سادھے رہے۔ اسرار صاحب بھی وہاں موجود تھے انھیں یہ بات ناگوار گزری۔ انھوں نے دھڑ سے یہ قطعہ ایک پرزے پر لکھ کر قاضی صاحب کو بڑھا دیا جسے انھوں نے حاضرین کو سنادیا ؎
مغرب سے مستعار لی تنقید اس لیے
اپنے عظیم باپ سے بڑھ کر عظیم ہیں
پوچھو کوئی سوال تو دیتے نہیں جواب
اسرارؔ صرف نام کے حضرت کلیم ہیں
شمس الرحمن فاروقی جب پٹنہ میں محکمہ ڈاک کے چیف تھے ان دنوں بھی ڈاک کا نظام ابتر تھا۔ اسرارؔ صاحب کو امید تھی کہ وہ تنقید کی طرح اس میدان میں بھی دھاک جمالیں گے۔ لیکن انھیں بہت مایوسی ہوئی آخر کار زچ آکر انھوں نے لکھا ؎
ہمارے ڈاکخانے بھی انوکھے ڈاکخانے ہیں
جو تار آیا وہ لیٹ آیا جو خط آیا غلط آیا
الٰہ آباد سے ایک دوست نے آنے کو لکھا تھا
وہ آیا بھی گیا بھی ، اور مہینوں بعد خط آیا
پھر انھوں نے فاروقی صاحب کا مستقل پتا یوں تحریر کیا ؎
کیا نہیں معلوم حضرت آپ کو ان کا پتا
جامعیؔ نے لکھ دیا ہے جو کہ سب کو یاد ہے
شمس شب خونی نقیب بے بدل کا ایڈریس
تین تیرہ رانی منڈی اور الٰہ آباد ہے
جب فارقی کی خبر لے لی تو بھلا ان کے ہم پلّہ ناقد پروفیسر گوپی چندنارنگ کو وہ بھلا کیوں چھوڑدیتے۔ نارنگ صاحب کو اپنی قیمتی آراء سے نواز تے ہوئے انھوں نے لکھا ؎
دورنگی چھوڑ دے اک رنگ ہوجا
سراسر موم یا تو سنگ ہوجا
تمنا ہے زباں دانتوں سے کاٹوں
تو سُن اسرار کی ’’بے رنگ ‘‘ ہو جا
بہار میں جب چارہ گھوٹالہ کا واویلا کھڑا ہوا تو اسرار جامعیؔ نے کمال جرأت سے کام لیا اور سرعام گیا کے آل انڈیا مشاعرے میں یہ قطعہ سنادیا ؎
غیرت اگر ہے ڈوب مریں ساکن بہار
انسان جس کو کہتے تھے وہ جانور بنا
اس مرکھ منتری کو بھلا کیا کہیں گے آپ
جو رابڑی کو چھوڑ کر چارہ چبا گیا
اور پھر بھائی چارے کا بدلا ہوا مطلب یوں بیان کیا ؎
کیا پتے کی بات کہدی جامعیؔ اسرار نے
کیوں ادا کرنا پڑا ہے کفارہ ہمیں
بھائی چارے کا یہ مطلب اب نہ ہونا چاہئے
ہم تو ان کو بھائی سمجھیں اور وہ چارہ ہمیں
معروف تنقید نگار وہاب اشرفی نے ایک تقریب میں کہہ دیا کہ میں نے اپنے وزن سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں۔ پھر کیا تھا مل گیا اسرار صاحب کو اچھا مواد ؎
سیمنار میں جب کہا اشرفی نے
سنئے سامعین جو میں کہتا ہوں سچ ہے
کتابیں لکھیں ہیں میں نے اتنی ادب کی
کہ ہے وزن جس کا زیادہ ہے مجھ سے
سنا جامعیؔ نے تو بولے کہ بے شک
ہوئے آپ اپنی کتابوں سے ہلکے
اسرار جامعیؔ کی نظر ادیبوں، شاعروں کی حرکات و سکنات پر گہری رہتی ہے۔ رفعت سرؔوش مرحوم کے متعلق ان کا فیصلہ ملاحظہ کریں ؎
ادیبوں کے شاعر ہیں رغبت فروش
جو لکھتے رہے سدا جیتے مرتے
ادب میں مقام اک یقینی بناتے
اگر یہ ڈرامہ نگاری نہ کرتے
اسرار صاحب جن دنوں کپل سبل کے خلاف دلّی میں پارلیامنٹ کا الیکشن لڑرہے تھے۔ ان کا انتخابی نشان چمچہ تھا۔ اس انتخابی دورے کے دوران ان کی مڈبھیڑ معروف مزاح نگار مجتبیٰ حسین صاحب سے ہوگئی ۔ انھوں نے مجتبیٰ صاحب کو اس طرح سے گھیرا ؎
تم چٹکلے سناکے بنے ہو مزاح نگار
طنز و مزاح کیا ہے تمہیں کچھ پتا نہیں
چمچہ مرا نشان ہے الیکشن ہے اس لیے
چمچہ گری کاحق تجھے اے مجتبیٰ نہیں
ایک دفعہ پروفیسر قمر رئیس سے کسی بات پر خفا ہوئے تو آگئے ان کے نام کی وجہ تسمیہ پر ؎
ہے ’’قمر رئیس‘‘ سے نسبت قمر غفار کی
اس سے پوچھا تو کہا یہ بات ہے اسرار کی
یہ قمر رئیس ہیں بیگم کسی رئیس کی
ہیں قمر غفار جیسے اہلیہ غفار کی
دلی کے ایک معروف شاعر کی رندی اور سرمستی کو اشاروں اشاروں یوں میں ظاہر کردیا ؎
گرا ایک انسان نالے میں جب
غلاظت سے لت پت تھا مجبور تھا
بڑھا اور آگے تو آیا نظر
وہ شاعر تھا کوئی جو مخمور تھا
پروفیسر ابوالکلام قاسمی علی گڑھ میں صدر شعبۂ اردو ہوئے۔ اسرار صاحب کو جیسے ہی خبر ملی وہ اُن پر پینی نگاہ رکھنے لگے۔ آخر جب ان سے برداشت نہیں ہوا تو برجستہ یہ قطعہ کہہ دیا ؎
اے کلام قاسمی افسوس صد افسوس ہے
سن لیں اس کو غور سے اسرار جو کچھ کہہ گئے
آپ تو اردو تھے پہلے ٹپ سے لے کر ٹاپ تک
اب ہوئے ’کنڈینس‘ اتنے صرف ہیڈ ہی رہ گئے
ڈاکٹر خلیق انجم سابق جنرل سکریٹری انجمن ترقی اردو ہند کا شجرہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ؎
اسرار سے یہ پوچھا کیا ہیں خلیق انجم
بولے کہ وہ تو بے شک ایک شخص معتبر ہیں
تم مولوی عبد الحق کو تو جانتے ہی ہوگے
اردو کے وہ تھے باوا اردو کے یہ پسر ہیں
خلیق انجم صاحب کی بات آئے اور ’’اردو گھر‘‘ کا ذکر رہ جائے۔ یہ ناممکن ہے۔ ملاحظہ کیجئے ؎
اردو جسے کہتے ہیں اک ایسی زباں ہے
جس کا نہ کوئی خاص وطن ہے نہ مکاں ہے
جو گھر بھی نظر آئے کہیں نام سے اس کے
بزنس کا وہ اڈہ ہے سیاست کی دکاں ہے
کمارؔ پاشی کے نام کی گہرائی میں جاتے ہوئے انھوں نے یہ موتی بر آمد کیا ؎
ہیں مرد یا کہ عورت حضرت کمار پاشی
کیوں ہو نہ جائے اس کی تحقیق اور تلاشی
اس گفتگو کو سن کر اسرار ہنس کے بولے
تذکیر لفظ پاشا تانیث اس کی پاشی
نصرت ظہیر کے نام کی تشریح اس طرح ہوئی ؎
نصرت ظہیر کیا ہیں یہ تو ذرا بتاؤ
طنز و مزاح جن کا ارفع ہے اور اعلا
آیا جواب نصرت بیگم ظہیر کی ہیں
ممکن نہیں ہے اس سے بہتر کوئی حوالا
دہلی سے پہلے اسرار جامعیؔ عظیم آباد فتح کر چکے تھے جس سے یہاں کے سارے شعراء ادباء سکتہ میں تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ معروف ظرافت نگار رضا نقوی واہیؔ نے ان کی شان میں کچھ ایسے اشعار پڑھ دیئے کہ ادبی حلقوں میں کہرام مچ گیا۔ ملاحظہ کریں ؎
فخر عظیم آباد ہیں اسرار جامعیؔ
اس دور نو کے شادؔ ہیں اسرار جامعیؔ
ٹوٹا جمودِ شہر ہوئے جب سے یہ طلوع
مفتاح انجماد ہیں اسرار جامعیؔ
احمد جمال پاشا کے مطابق واہیؔ صاحب کے یہ مدحیہ اشعار سن کر اسرار صاحب کے مخالفین جل بھن کر کباب ہوگئے۔ کسی حاسد نے ان پر یہ گولا پھینکا ؎
سمجھو نہ یہ سراب ہیں اسرار جامعیؔ
ویرانے کے گلاب ہیں اسرار جامعیؔ
جس میں نہ نون مرچ نہ کوئی ہے ذائقہ
آلو کے بس کباب ہیں اسرار جامعیؔ
یہ سن کر معروف شاعر ظہیرؔ صدیقی فوراً کمک پر پہنچے ؎
واہیؔ نے ان کو شادؔ کہا بھی تو کیا کہا
میں کہہ رہاہوں میرؔ ہیں اسرار جامعیؔ
اس پر کوئی اعجاز حسین بھڑک اُٹھے اور آگئے جامے سے باہر ؎
معدے کا انتشار ہیں اسرار جامعیؔؔ
بدہضمی کی ڈکار ہیں اسرار جامعیؔ
گھوڑا کسی کا اور بصد ناز و تمکنت
کس شان سے سوار ہیں اسرار جامعیؔ
اپنے خلاف اشعار سن کر اسرار صاحب آگئے جلال میں۔ انھوں نے اپنے درجنوں مخالفین کو چھوڑ کر ان شعراء ادباء کو ہدف بنایا جو پردے کے پیچھے سے مخالفین کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ اور اتفاق سے وہ خانہ داماد بھی تھے۔ ان میں سے ایک کو دَھر دبوچا ؎
میری نظروں میں سسرال کی دولت کی بہارؔؔ
میری پیشانی پہ ہے خسر کے جوتے کا وقار
چاٹتا رہتا ہوں لالچ کا خوشامد کا اچار
میرے معدے میں پھنسی مرغ مسلم کی ڈکار
اتفاق سے اس حملے کی زد میں براہ راست قاضی عبدالودود اور پروفیسر حالیؔ آگئے۔ قاضی صاحب تو خیر معاملہ فہم آدمی تھے خاموش ہی رہے۔ لیکن حالیؔ صاحب نے انھیں چیلنچ کردیا۔
’’اسرا صاحب!آپ نے ہمارے خلاف نظم لکھی ہے آپ پر کیس (Case) کریں گے‘‘۔
اسرار صاحب نے برجستہ جواب دیا: ’’ہم فیس ( Face) کریں گے‘‘۔
پروفیسر حالیؔ نے دھمکی دی:
’’ہم آپ کو سڑکوں پر پٹوا دیں گے‘‘
اسرار صاحب جھپٹتے ہوے بولے:
’’ہم آپ کو لڑکوں سے پٹوادیں گے‘‘
لڑکوں سے پٹنا شاید ہی کوئی شریف شاعر گواراکرے۔ اس لیے حالیؔ صاحب بہ آسانی پسپا ہوگئے، یہ ان کی شرافت کی عمدہ مثال تھی۔
پٹنہ کے ایک مشاعرے کی نظامت مظہر امام کررہے تھے۔ انھوں نے اسرارؔ صاحب کو دعوتِ سخن دیے بغیر مشاعرے کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ اس پر سامعین کے نوجوان ٹولے کی طرف سے زبر دست ہُو ہلا ہوا۔ بالآخر اسرارؔ صاحب کو دعوت سخن دی گئی۔ وہ آتے ہی مظہر امام پر برس پڑے ؎
محمود شاعری کے ہزاروں ایاز ہیں
سب کے امام شاعر قدِ دراز ہیں
قد کی مناسبت کا ہے مظہر ہر ایک فعل
دشتِ سخنوری کے ہیں وہ شتر بے نکیل
نکلا جلوس جیسے ہی اہل جدید کا
دیکھا انھوں نے چاند محرم میں عید کا
سینگیں کٹا کے گھس گئے بچھڑوں کے غول میں
پیوند تازہ لگ گیا شہرت کے خول میں
اور پھر ان کا حلیہ بھی یوں بیان فرمایا دیا ؎
مظہر ہے ذات جن کی انھیں کی یہ بات ہے
قد ہے قلم تو آپ کا چہرہ دوات ہے
ایک مشاعرے میں قیومؔ خضر اور حفیظؔ بنارسی ان سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگے تو انھوں نے ایک ہی وار میں دونوں کو چِت کردیا ؎
دینا ئے ہیں جو خضرؔتو کھُجلی حفیظؔ ہیں
مرہم برائے داد ہیں اسرارؔ جامعی
غرض کہ اسرار جامعیؔ نے اپنے 50سالہ شعری سفر کے دوران کئی معرکے سرکئے۔ ’’چٹنی‘‘ اور ’’پوسٹ مارٹم‘‘ جیسے مقبول زمانہ رسائل کی ادارت کی۔ پہلی دفعہ اپنے گھر میں شاعری کی کوچنگ کی بنیاد ڈالی۔ پٹنہ میں اقبال اکیڈمی قائم کر کے نہ جانے کتنے ڈاکٹروں، انجینئروں اور افسروں کی معاونت کی۔ شاعر اعظم، دلّی درشن، رام درشن، بھارت درشن اور طنز پارے جیسی کتابوں/ کتابچوں کی تصنیف کی۔ ملک و بیرون ملک کے اہم شہروں میں بہار کے مزاحیہ ادب کی نمائندگی کی۔ کئی اداروں، تنظیموں کی طرف سے اعزازات و انعامات حاصل کئے۔
اسرار جامعیؔ ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کی یادوں کا ایک سلسلہ ہے جو ہمارے ذہن میں محفوظ ہے انھوں نے دلی میں بہت سعوبتیں جھیلیں لیکن اخیر وقت تک اردو کے طنزیہ و مزاحیہ ادب کی خدمت کرتے رہے۔ اورایک ایسا نقش چھوڑ کر چلے گئے جسے شاید ہی کوئی اپنی نظروں سے اوجھل کرسکے۔
نوٹ: یہ مضمون اسرارجاؔمعی کے ذریعے مہیا کردہ قطعات اور ان کے پس منظر پر مبنی ہے
٭٭٭
بتیا، بہار
7011548240
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |