(یوم اقبال کے موقعے سے)
تحریر: *علی شاہد ؔ دلکش ،
کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج ،
واٹس ایپ: 8820239345
علامہ اقبال ایک عہد ساز نیز عہد شناس شاعر کا نام ہے جو عظمتِ آدم کے علمبردار تھے۔ یہ ایک عظیم مفکر اور فلسفی بھی تھے۔ ان کے یہاں قومی یک جہتی اور وطنیت کے جذبے سے سرشاری بلا کی ملتی ہے۔ ترانۂ ہندی اس کی ایک بین اور جاوید دلیل ہے ۔ کسی شاعر کا ایک مصرعہ یا ایک شعر مقبولِ عام ہونے پر اس کی شاعری قابلِ ذکر اور یادگار ہو جاتی ہے ۔ جب کہ ڈاکٹر اقبال کی کئی نظمیں اور کئی اشعار بشمول اردو حلقے، غیر اردو حلقوں میں بھی ہنوز زبان زد ہیں۔ مثال کے طور ذیل کے مقبول ترین اشعار دیکھیں:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمار
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
’’ترانہ ہندی‘‘ علامہ اقبال کی وطن پرستانہ شاعری کا اعلی ترین نمونہ ہے۔ اس نظم سے مادرِ وطن سے ان کی شدید محبت کا بہت ہی پرتاثیر اظہار ہوتا ہے۔ ان متنوع پہلوؤں میں ان کی شاعری کا ایک تابناک پہلو ان کی حب الوطنی ہے۔ علامہ اقبال ایک سچّے اور پکّے محبّ وطن شاعر تھے۔ وہ مذہبی رواداری کے پُرزور حامی اور ہندوستانی فلاسفروں اور سنتوں کے مدح خواں تھے۔ پیش نظر نظم کے اشعار میں علامہ اقبال نے مذہبی ہم آہنگی اور قومی اتحاد کا نغمہ یوں گایا ہے:
چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سُنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
وحدت کی لے سنی تھی دنیا نے جس مکاں سے
میرِ عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
شیخ محمد اقبال نے جہاں انسانی محبت و اخوت کا پیغام دیا وہیں اپنی شاعری کے ذریعے وطنیت ، قومی یکجھتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے پیغام رسانی کا بھی قابل داد کاز کیا ہے۔ اپنی شاعری کے شروعاتی دور میں چند بہت ہی متاثرکن اور جذبہ حب الوطنی سے بھرپور نظمیں لکھیں۔ ایسی نظموں میں ’’ہمالہ‘‘ ، ’’ترانہ ہندی‘‘ ، ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ ، اور ’’نیا شوالہ‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ نظم ’’ہمالہ‘‘ میں شاعر علامہ اقبال نے ہندوستان کی قدیم تہذیب، اس کے دلفریب مناظر اور اس کی عظمت رفتہ کا گن گایا ہے۔ وطن سے عشق و محبّت کا عکس زیر نظر شعروں میں کیا خوب ظاہر ہوتا ہے:
غربت میں ہوں اگر ہم رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہیں ہمیں بھی دل ہو جہاں ہمارا
اے ہمالہ ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے
ڈاکٹر اقبال نے جرمنی کے میونخ یونیوسٹی سے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ ان فلسفے کا اظہار بانگِ درا اور بال جبریل میں خوب ہے۔ اسلامی شریعت اور طریقت کے علاوہ انسانی قد حقوق جو کسی بخشی ہوئی جنت کی بجائے اپنے خون جگر سے خود اپنی جنت بنانے کے عمل کو زیادہ امکان پرور اور زیادہ حیات آفریں سمجھے تھے۔ وہ خود شناسی کی ترغیب دے کر اپنی تقدیر بدلنے کی بات کرتے ہیں۔ تب ہی تو انھوں نے یوں کہا :
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحر کیا
ڈاکٹر اقبال کی شعری جہات میں مقصد کو اوّلیت حاصل ہے۔ وہ اپنی شاعری سے اقوامِ مشرق پر چھائی کاہلی اور جمود کو توڑنا چاہتے تھے اور اس غرض وہ عشق ، عقل ، مذہب ، زندگی اور فن کو ایک مخصوص نقطۂ نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کی شاعری میں دل کے ساتھ دماغ کی کارفرمائی نمایاں ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا کلام محض فلسفیانہ اور حکیمانہ ہے اور اس میں شعریت کی کوئی کمی ہے۔ ان کے مفکرانہ کلام میں بھی سوز اور جذبہ کا گہرا گداز شامل ہے۔ اس ضمن میں بھی علامہ کے چند اشعار سے یوں محظوظ ہوں:
خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے ، منزل نہیں ہے
علامہ اقبال نے اپنے کلام میں اردو کے کلاسیکی سرمایہ سے نہ صرف استفادہ کیا بلکہ اردو شاعری کو نئی نئی اصطلاحات ، تشبیہوں اور رموز و علائم کا اک خوبصورت ذخیرہ بھی عطا کیا۔ انھوں نے زبان کو حسب ضرورت برتا ہے۔ ان کی شاعری میں اتباعِ روایت کے ساتھ ساتھ اس سے انحراف بھی ہے۔ بقول رشید احمد صدیقی:
” اقبال کی نظموں کا شباب ان کی غزلوں کی شراب میں ڈوبا ہوا ہے۔"
اقبال کے یہاں فکر اور جذبہ کی ایسی آمیزش ہے کہ ان کے فلسفیانہ افکار ان کی داخلی کیفیات و واردات کا آئینہ بن گئے ہیں۔ اسی لئے ان کے فلسفہ میں کشش اور جاذبیت ہے۔ انھوں نے اردو شاعری سے حزن و قنوطیت کے عناصر ختم کر کے اس میں رجائیت، جوش اور نشاط آفرینی پیدا کی۔ علامہ نے اپنے عہد کی نسلوں ، معاصرین ادب کے ساتھ ساتھ اپنے بعد آنے والی نسلوں کو ایسی زبان دی جو ہر طرح کے جذبات اور خیالات کو خوبصورتی کے ساتھ ادا کر سکے۔ ان کے بعد شروع ہونے والی ادبی تحریکیں کسی نہ کسی عنوان سے ان کے سحر کے حصار میں رہیں۔ اردو کے تین عظیم شاعروں میں میرؔ کی شاعری اپنے قاری کو ان کا معتقد بناتی ہے، غالبؔ کی شاعری مرعوب و مسحور کرتی ہے اور اقبالؔ کی شاعری قاری کو ان کا گرویدہ اور شیدائی بناتی ہے۔ چلیں اس رو سے چند اشعار سے محظوظ ہوں:
اس کو اپنا ہے جنوں اور مجھ کو سواد اپنا
دل کسی اور کا دیوانہ میں دیوانہء دل
یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا
راشٹر پِتا مہاتما گاندھی نے ایک خط میں علامہ اقبال کے ’’ترانہ ہندی‘‘ کی تعریف اس طرح کی تھی:
’’جب ان (اقبال) کی مشہور نظم ’ہندوستاں ہمارا‘ پڑھی تو میرا دل بھر آیا اور بڑودا جیل میں تو سینکڑوں بار میں نے اس نظم کو گایا ہوگا۔ اس نظم کے الفاظ مجھے بہت ہی میٹھے لگے اور یہ خط لکھتا ہوں تب بھی وہ نظم میرے کانوں میں گونج رہی ہے‘‘۔
واضح ہو کہ ایک اور موقع پر مہاتما گاندھی نے ’’ترانہ ہندی‘‘ کی زبان کو ہندوستان کی قومی زبان کا نمونہ قرار دیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’کون ایسا ہندوستانی دل ہے جو اقبالؔ کا ’ہندوستاں ہمارا‘ سن کر دھڑکنے نہیں لگتا اور اگر کوئی ایسا دل ہے تو میں اسے اس کی بدنصیبی سمجھوں گا۔ اقبالؔ کے اس ترانے کی زبان ہندی یا ہندوستانی ہے؟ یا اردو ہے؟ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ہندوستان کی قومی زبان نہیں ہے‘‘۔
متذکرہ باتوں کے منظر اور پس منظر کا خیال کرتے ہوئے یہ بات واضح ہو کہ ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ علامہ اقبال کی ایسی نظم ہے جس میں حب الوطنی کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ اس میں علامہ اقبال نے ملک کی وحدت اور یکجہتی کا گیت گایا ہے۔ اس سلسلے میں بھی چند اشعار ملاحظہ کریں:
وحدت کی لے سنی تھی دنیا نے جس مکاں سے
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
سارے جہاں کو جس نے علم و ہنر دیا تھا
مٹی کو جس کی حق نے زر کا اثر دیا تھا
ترکوں کا جس نے دامن ہیروں سے بھر دیا تھا
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
اس نظم میں علامہ اقبال نے اپنے وطن ہندوستان کے اوصاف اور اس کی عظمت کو بڑے دلآویز انداز میں نمایاں کیا ہے۔ حب الوطنی کے حوالے سے ’’نیا شوالہ‘‘ علامہ اقبال کی انتہائی معروف اور موثر نظم ہے جس میں حب وطن کے جذبہ کا اظہار بہت ہی پُر تاثیر انداز میں ہوا ہے۔ اس نظم میں علامہ اقبال ہندوؤں اور مسلمانوں ، دونوں کی آپسی رنجش اور مذہبی اختلافات کو تج کر ، باہمی اتحاد و اتفاق اور یگانگت کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔
آ غیریت کے پردے اک بار پھر اٹھا دیں
بچھڑوں کو پھر ملا دیں نقش دوئی مٹا دیں
سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی
آ اِک نیا شوالہ اس دیس میں بنا دیں
آج تعصب پسند اور تنگ نظریات کے حامی علامہ اقبال کو اپنی فرقہ پرست عینک و چشمک دیکھتے ہوئے ان پر فرقہ پرست یا غیر روادار کی بدنامی مسلط کرنے پر تلے ہیں۔ اس غرض سے آئے دن نت نئی سازشیں رچ رہے ہیں۔ اقبال کی قابل ذکر حب الوطنی اور قوم پرستی کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے سیاسی مفاد اور اپنی نظریاتی بقا و فروغ کے لیے اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے نصاب سے انھیں اور ان کی تخلیقات کو خارج کرنے کی منظم سازشیں کر رہے ہیں۔ کیا راشٹر پِتا کی روح کو یہ دیکھ کر سکون ملتا ہو گا؟ کیا ان کی روح تڑپتی نہ ہو گی؟ کیا عزیز بھارت ماتا کی مامتا اندر ہی اندر کڑھتی نہیں ہو گی؟ کیا ہمالہ غصے سے پگھلتا نہ ہو گا؟ ان ہی سوالات کے ساتھ راقم المضمون اپنے ہی اشعار پر قلم کی حرکت کو روک رہا ہے:
نظم میں اقبال کے اشعار دیکھ
عشق کے پیغام کا اظہار دیکھ
سنئے شاہد ؔ رام ، نانک ہے وفا میں
دیکھئے اقبال کے بانگ درا میں
*علی شاہد ؔ دلکش*
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page