محمدشاہدحفیظ۔میلسی
6573954-0301
شعیب بن عزیزکہتے ہیں :
"انواسی "جیساناول مغرب میں لکھاجاتاتواس کے درجنوں ایڈیشن چھپتے،مصنف کو ایوارڈ دیے جاتے،ناول پرفلمیں بنتیں۔”
محمدحفیظ خان ارد اورسرائیکی کے نامورادیب ہیں ان کی ہمہ جہتی کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ وہ اردو اور سرائیکی کے شاعر، افسانہ نگار،ناول نگار،ڈرامہ نگار،کالم نگار،مترجم،نقاد اورمؤرخ ہیں۔محمدحفیظ خان جنوبی پنجاب کے ضلع بہاول پورمیں پیدا ہوئے۔ انھوں نے بہاء الدین زکریایونیورسٹی ملتان سے ایم۔اے (تاریخٰ)کرنے کے بعدایل۔ایل۔بی کی ڈگری بھی حاصل کی اورپوسٹل سروس میں کام کرنے کے بعدسول جج کی حیثیت سے عدلیہ میں شامل ہوگئے۔انھوں نے 1975ء میں ریڈیوبہاول پورکے آغازسے ہی لکھناشروع کردیا۔وہ بنیادی طورپرافسانہ،ناول نگاراور شاعرہیں لیکن ریڈیو کے لئے انھوں نے سرائیکی ڈرامے بھی لکھے۔ان کی بنیادی پہچان ایک سرائیکی ادیب کی ہے لیکن انھوں نے اردو میں بھی ناول لکھے۔ان کی اب تک تقریبا32کتب شائع ہوچکی ہی جن میں ان کے چھے ناول شامل ہیں۔انھوں نے اپناپہلاناول سرائیکی میں "ادھ ادھورے لوگ "لکھاجسے بعدمیں خودہی اردو میں بھی منتقل کیا۔ان کا دوسراسرائیکی ناول”مرماجیون دی”پر منظرعام پرآچکا ہے۔اردومیں اب تک ان کے پانچ ناول،ادھ ادھورے لوگ ، انواسی،کرک ناتھ، منتارا اورحال ہی میں بک کارنرجہلم سے حیدرگوٹھ کابخشن شائع ہوکرشائقینِ فکشن میں اپنی توجہ حاصل کر چکاہے۔
محمدحفیظ خان ایک بہت بڑے ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ پرکشش شخصیت کے مالک بھی ہیں ۔2020ء میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم۔اے سرائیکی کیاتوحفیظ خان صاحب کے نام سے شناسائی ہوئی اور نومبر 2022ء میں اکادمی ادبیات اسلام آبادکے زیراہتمام پہلی ادبِ اطفال کانفرنس میں ان سے ملاقات کاموقع بھی مل گیا۔دورانِ گفتگوانھیں نہایت خوش اخلاق اور ملنسار انسان پایا۔
محمدحفیظ خان بلاشبہ موجود ہ دورکے ناول اورافسانہ نگاروں میں ایک اہم نام ہیں۔”انواسی” ان کادوسرا ناول ہے جس کاپہلا ایڈیشن جون 2019ء اوردوسراایڈیشن دسمبر2019ء میں شائع ہوا۔اس مختصرعرصے میں ناول کادوسراایڈیشن چھپنا اور ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوناناول کی ادبی حیثیت اور اس کی پذیرائی کامنھ بولتاثبوت ہے۔یہ ناول جنوبی پنجاب کےسرائیکی خطوں لودھراں اوربہاول پورکے درمیان بہنے والے دریائے ستلج کی بستی آدم واہن کی 45 حصوں میں منقسم تاریخ کے گمشدہ اوراق کی کہانی ہے جس میں 1872ء سے 1875ء کے وسط کازمان و مکان پیش کیا گیا ہے۔ناول کاانتساب بھی انتہائی منفرد ہے۔
"کینہ،بغض،حسداورخوئے انتقام کے نامــــکہ جن کے دم سے "محفلیں "روبہ ہنگام ہیں۔”
"انواسی”میں انیسویں صدی کے آخری نصف کی کہانی بیان کی گئی ہے ۔ انگریزاپناریلوے کانظام لے کر برصغیرپہنچے اور کراچی سے لاہورتک ریلوے ٹریک بچھاتے ہوئے جب بہاول پورکے نزدیک دریائے ستلج پرایمپریس برج بنانے لگے تواس کہانی کا آغازہوا۔ناول کی کہانی دریائے ستلج پربنائے گئے ایمپریس پل کے اردگردگھومتی ہے جس کے تعمیرکے دوران یہ مسئلہ پیش آیاکہ بستی آدم واہن کا قدیمی قبرستان پل کی تعمیر والی جگہ پرآجاتاہے ۔انگریزپل تعمیرکر نے کے لئےقبرستان ختم کرنا چاہتے تھے لیکن بستی کے جیالے اس فیصلے کے خلاف آہنی دیواربن کرکھڑ ے ہوگئے کیوں کہ وہ اپنے پرکھوں کی قبریں کسی طور نہیں کھونا چاہتے۔ناول نگارنے اس تنازعات بھری جنگ کواتنی خوبصورتی سے پینٹ کیا ہے گویاکیمرے سے عکاسی کی ہے۔
ناول کاآغازہی نہایت اچھوتااورچونکادینے والا ہے جوابتداہی میں قاری کواپنی گرفت میں لے لیتاہے اوروہ اختتام تک ناول پڑھنے پرمجبورہوجاتا ہے۔
"12جنوری1872ء ۔لودھراں اوربہاول پورکے درمیان بہنے والے دریائے ستلج کے شمالی جانب بستی آدم واہن میں ا س روز ایک حشرسابپاتھاکہ جس میں خوف،دہشت اور غصہ ایک ساتھ یہاں کے مکینوں کے ذہن میں انڈیل دیے گئے تھے۔غصے سے بھرے ہوئے جوان بستی کے باہرجمع تھے جب کہ بوڑھے اپنی شکن آلودپیشانیوں کے ساتھ بستی کے وسطی چوک میں بڑے بڑے ماچے بچھا کر بیٹھے ہوئے تھے۔عورتیں کام کاج چھوڑکرگھروں سے باہرجھانکتی ہوئیں اوربچے اس ساری صورتِ حال کاادراک کئے بغیر کبھی خاموش مگرفکرمندبوڑھوں کے گردجمع ہوجاتے اورکبھی منھ اٹھا اٹھاکر بستی کے باہرموجودغصے سے کھولتے ہوئے نوجوانوں کی جوشیلی باتیں سننے پہنچ جاتے ۔ان کاجی توچاہتاتھا کہ وہ نوجوانوں کے ساتھ ہی بستی کے باہررہیں مگران کی خوف زدہ ماؤں کی دہشت زدہ آوازیں انھیں پھرسے اندرکھینچ لاتیں۔”
"انواسی "ایک ایساناول ہے جسے محمدحفیظ خان نے پانچ سے چھے ماہ کی انتہائی کم مدت میں تحریرکیاہے جس میں انھوں نے فرضی کرداروں کی معاونت سے1872ء اورمابعدکاحقیقی منظرنامہ مقامی کینوس پرپیش کرنے کی سعی کی ہے۔ان کرداروں کی مددسے جن واقعات کی طرف نشاندہی کی گئی ہے ہماری تاریخ میں ایسے واقعات دفن ہوچکے ہوں گے لیکن ناول نگارنے نہ صرف ان پوشیدہ اوراہم واقعات کو ازسرِنوزندہ کیا ہے بلکہ انھیں اس قدرخوبصورتی سے کہانی کے روپ میں موتیوں سے پرویا ہے کہ یہ ایک حقیقی کہانی معلوم ہوتی ہے۔
افتخارعارف لکھتے ہیں:
"حفیظ خان کے ناول”انواسی”کااردوفکشن میں اپنے دیگرفنی محاسن کے علاوہ ایک امتیازیہ بھی ہے کہ اردومیں سرائیکی وسیب کے پس منظرمیں لکھاجانے والاپہلاناول ہے جوایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتاہے۔یہ ایک تغیرپذیرتہذیبی اورتاریخی معاشرے کے نشیب وفرازکے بیانیے سے عبارت ہے۔اردوادب کی تاریخ میں گزشتہ پچیس برسوں میں جتنے اچھے ناول سامنے آئے ہیں شاید پورے ار دو ادب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ناول کےا س عہدمیں "انواسی”ایک روشن باب کی طرح سامنے آیاہے۔”
رفاقت حیات”پاکستان میں اردوناول”(1947ء تاحال)میں لکھتے ہیں کہ:
"انواسی "میں انگریزحکومت کادوسرے علاقوں پرقابض ہوکروہاں کےباشندوں کواپنا غلام بنانا ، ان کے وسائل پرقبضہ کرکے بے دریغ استعمال کرنا،مقامی باشندوں کے ساتھ ناانصافی کرنااوران سے جبری مشقت کروانااوران کے استحصال جیسے مسائل کوبیان کیا گیا ہے۔اوردوسری طرف مقامی اشرافیہ میں مولوی جاراللہ جیسے کردارکوبھی موضوع بنایاگیاہے جس میں سامراج اپنے مقاصدکے حصول کے لئے اشرافیہ کےتعاون سے اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔”
"انواسی”سنگری کی کہانی ہے جوڈیڑھ دوسال پہلے کے ہندوستان میں مردوں کے طاقتورمعاشرے میں زندہ رہنے کی جنگ لڑتی ہےاپنی عزت وجان بچانے کی خاطربہت سی سختیاں جھیلتی ہے۔یہ کہانی ہے دریائے ستلج کی ریتلی تہوں میں گم ہوئے نوآبادتی جبر اوراستحصال کی جس میں انگریزوں ریلوے لائن بچھانے کے لئے آدم واہن بستی کی باقیات ملیامیٹ کرنے کافیصلہ کیا توبستی کے باسی اس فیصلے کے آگے ڈٹ گئے ۔یہیں سے برطانوی استعمار کے ہاتھوں مقامیت بربادہوئی تواس خطے میں موجود سنگری جیسے کردارمعصوم عورت سے "انواسی”ہوگئے۔
مرکزی کردار بارے میں محمدحامدسراج بتاتے ہیں کہ:
"انواسی کون ہے؟انواسی ایک عورت ہے جو وقت کے ہاتھوں کچلے جانے کے باوجوداپنی بقاکی جنگ اپنے کسے ہوئے کمان بدن،منتقم دل ودماغ اورروح کی سفاکانہ چالوں سے لڑتی رہی۔یہ ایک غیرمعمولی ناول ہے جوہرعہدمیں اپناقاری تلاش کر لے گا۔سنگری نام ہے مرکزی کردارکااوریہی انواسی ہے۔”
ناول کا مرکزی کردارسنگری ہے اورسنگری ہی انواسی ہے۔انواسی کامطلب جنسی طورپرکھنگالی ہوئی عورت ہے ۔ مصنف نے سنگری کو انواسی کانام کیوں دیااس کامکمل جواب توناول پڑھ کرہی پتاچلتاہے کیوں کہ سنگری سیدے کی بچپن کی منگیتر ہے۔ سیدا سنگری کی عصمت دری کے بعداس کو طلاق دے کرچلاجاتاہے اس کےبعد انواسی ایک مزاحمتی کردارکے طور پر سامنے آتی ہےاور اس ڈرسے کہ کہیں معاشرہ اسے بدچلن قراردے کرسنگسارنہ کردے مولوی جاراللہ کی چوتھی بیوی بنتی ہے ۔اس شادی کو وہ ایک سمجھوتے کے طورپرلیتی ہے اورہراس مردکامقابلہ کرتی ہے جواس کی عزت سے کھیلنے کی کوشش کرتا ہے۔
ناو ل کی دوسری اہم کہانی انڈس ویلی اسٹیٹ کے ریلوے چیف ریذیڈنٹ انجینئرجان برنٹن کی ہے جس کے پاس ایمپریس پل کی تعمیر کا کنٹریکٹ ہے ۔جان برنٹن اپنے پیشے کے ساتھ مخلص انسان ہے جو اپنے فرائض کوہرچیزسے زیادہ اہمیت دیتاہے مگراپنی بیوی کےساتھ خوشگوارتعلقات نہ ہونے کی وجہ سے اس کی گھریلوزندگی متاثرہوتی ہے۔جان برنٹن کاسوتیلابیٹااعلیٰ افسران سے ساز باز کر کےاس کے خلاف سازشوں کے جال بننے لگتاہے۔اس پرجونیئر سٹاف میں سے ایک خوبصورت عورت ایما کاجال پھینکا جاتا ہے جس کے ساتھ موج مستیوں کی دلدل میں وہ پھنس جاتاہے۔اس طرح کئی نوعیت کے دیگر الزامات ڈال کراسے نوکری سے نکال دیاجاتا ہے ۔ ناول کے دیگر اہم کرداروں میں مولوی جاراللہ،اس کابیٹامولوی بخشو،منگر، سنگری کی ماں ملوکاں،جاراللہ کابھائی،ولیم سینٹ جان گیلوے اور دیگرمعاون کردارموجودہیں۔
سنگری اور دریائے ستلج دونوں کی انواسیت اورویرانی کاآغازاس وقت ہوتاہے جب انگریزوں نے مقامی آبادی سے چندغداروں کو اپنے ساتھ ملالیا اوردریاکے کنارے آبادقدیم قبرستان برابرکرکے ریلوے لائن گزاردی تووہاں کے فقیروں ، بزرگوں اوردرویشوں نے آسمان کی جانب شہادت کی انگلی اٹھاکریوں بددعادی:
"بربادہواے ستلج کہ جس پرلوہاڈالنے کے لئے شہداکامدفن اجاڑاگیا۔بربادہواے ستلج کہ تیرے سبب بے گناہوں کاخون تیری گزرگاہ میں بہا۔بربادہواے ستلج اس طرح کہ توخلقت کے واسطے عذاب ثابت ہو۔رفتہ رفتہ تیری رگوں میں موت اترے ، توبھی بے آب ونشان ہو،تجھ میں کبھی ماس مچھی نہ پیداہو،تم پرکبھی پرندے نہ اتریں اورتوہمیشہ زندگی کے لمس کوبھی ترسے۔”
"انواسی "کے اس اہم سوال پر ڈاکٹرعصمت درانی لکھتی ہیں کہ:
"انواسی”،سیدا،سنگری،منگر،ایمااورجان برنٹن جیسے خوب صورت فرضی کرداروں کے ذریعے حقیقی تاریخی تناظرمیں لکھے اس ناول کوروانی بیان،عمدہ اسلوب اوردل چسپ کہانی کے باعث میں نے حسب عادت ایک نشست میں ہی پڑھا۔اس دل انگیز تحریر کے متعلق اگرچہ بہت کچھ لکھا جا سکتاہے اورلکھاجاتارہے گالیکن میری محدودفکراس ریاست،اس کے عوام اوراس کے دریاکی ویرانی دیکھ کرمصنف کے کئے ہوئے اسی سوال پرآکررک گئی ہے کہ کیاواقعی اس دریا،اس کی گزر گاہ اوراس علاقے کوہمیشہ سے مظالم اوربددعاؤں کاسامناہے؟”
ناول کے کردارو ں بارے ڈاکٹربی بی امینہ رقم طرازہیں:
"جہاں تک کرداروں کاسوال ہے تومحمدحفیظ کان کاایک مردلکھاری ہونے کے باوصف سنگری کی صورت میں ایک مرکزی نسوانی کردارکوناول کے باقی تمام کرداروں پرحاوی وغالب دکھانا،اگرچہ ایک نیایااچھوتاتونہیں لیکن ایک جرات مندانہ فعل ہونے کے ساتھ ساتھ اس لیے بھی لائق توجہ ہے کہ یہ کرداراپنے مکالموں اورطورطریقوں کے ذریعے عورت کی نفسیات کے جن مختلف پہلوؤں کوبیان کرتاچلاجاتاہے،ان سےناول کے واقعات وحالات کی بہترتفہیم میں مددملتی ہے۔”
ناول کے آخرمیں سیلابی ریلاایمپریس پل اوربستی کو بہالے جاتاہے۔ریت کے ٹیلے پرپانچ دن سے بھوکے اورژالہ باری سے دھنے ہوئے لوگوں کی وحشت اورخودغرضی عروج پرہوتی ہے۔بدبواورتعفن میں ہمدردی کے پھول مرجھاجاتے ہیں ۔محمدحفیظ خان کا اسلوب مقامی زبان کے استعاروں ،تشبیہات اورکنایوں بھرپورہے جس سے سرائیکی وسیب کی خوشبوآتی ہے۔مجموعی طورپریہ ناول برطانوی راج کے عروج کے خدوخال اوربنیادوں کوواضح کرتاہے اورہمارے طبقے کی دقیانوسی ذہنیت اورعورت کی ذلت آمیزی کو بھی سامنے لاتاہے۔
"انواسی”ایسااہم اورتاریخی ناول ہے جس میں برصغیرکی تاریخ کے ایک انتہائی اہم لیکن نظروں سے اوجھل باب کی روداد ہے جسے پڑھنے کے بعدکئی سالوں تک آپ کو اس کی گونج سنائی دیتی رہے گی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
محمدشاہدحفیظ۔میلسی
6573954-0301
ایڈریس: نزدپوسٹ آفس سائفن روڈمیلسی(ضلع وہاڑی)
Shahidhafeez47@gmail.com
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |