منصور ساحل
اردو لیکچرر شعبہ اُردو
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چارسدہ
تخیل اور عقلیت پسندی میں ہم مزاجیت کو برقرار رکھنا دشوار ہے لیکن "طلسم زار” میں یہ رویہ شروع سے آخر تک ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے۔ مجموعے کی کالی رنگت ایک ان کہی و ان دیکھی بے معنویت و مبہم شناختیت کو تحریک دے کر ایک طلسماتی دنیا کی سیر کراتی ہے ۔شاعری چوں کہ (میری رائے میں) بے چین و منتشر ارواح کے مبہم سفر کا نام ہے اور تجزبات و مشاہدات کی زبان میں گویائی کرتی ہے اس لیے شاعر کا اپنے سماج و عہد سے متاثر ہونا فطری ہے ۔اور اس بنیاد پر ہم شاعری کو اپنے سماج و معاشرے کا مکمل بیانیہ کہہ سکتے ہیں ۔
آصف شاہؔ کا کلامیہ اظہار خصوصاً غزل پر مشتمل ہے لیکن طلسم زار میں ان کا نظمیہ حوالہ بھی مضبوط نظر آتا ہے۔انہوں نے اپنی شاعری کی اساس نئے اور منفرد تجربات پر رکھی اور اپنے لیے ایک نئی سمت کا انتخاب کیا ۔اس اساس کی ہمسایگی اپنے سماج کے تاریخی و تہذیبی شعور کے ساتھ اس طرح قریب ہے کہ سماج اور کلام کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔اسی وجہ سے آصف شاہ ؔ کی شاعری انسانی زندگی کے داخلی و خارجی مسائل و حقائق، اردگرد کی بے چینی ،انتشار،خوف و ہراس کے مشاہدات کی مکمل تصویر ہے ۔اکیسویں صدی کا سماجی منظرنامہ مذہبی انتہا پسندی ،انسان کی عدم موجودگی ،فرد کا شناختی بحران ،نامعلوم طاقت و مادیت کی سرپرستی اور دہشت گردی جیسےرویوں سے لبریر ہے ۔ جن کی وجہ سے اس سماج کا فرد تشکیک پسندی اور شنا ختی کرب کا شکار ہوکر امید و رجائیت کی نادستیابی کے سبب ذاتی طور پر شناخت کے مسئلے سے دوچار ہوجاتا ہے ۔یہ شناخت بہت سی صورتوں(تاریخی ،تہذیبی،قومی،مذہبی ،علاقائی) میں سامنے آتی ہے لیکن ان میں سب سے الگ انسانی شناخت کی صورت ہے ۔آصف شاہؔ کی شاعری اس شناخت کا اظہاریہ ہے وہ خود اس حوالے سے کہتے ہیں ۔
"میری شاعری کا ایک نمایاں پہلو انسان اور اس کے تہذیبی و اخلاقی شناخت کے زوال سے متعلق ہے”(1)
یہ جو ہم پھر تے ہیں بازاروں میں تنہا تنہا
اپنی آنکھوں میں ہیں صحراؤں کو بھر لاتے ہوئے
جی کے بھی جی نہ سکیں مر کے بھی دینا ہے حساب
دونوں عالم میں ہیں سہمے ہوئے گھبرائے ہوئے (2)
آصف شاہ ؔ کی نظر میں بنیادی سوال یہ ہے کہ انسان کیا ہے ؟انسان کی سماجی حیثیت کیا ہے؟ اس حوالے دیباچہ کا وضاحتی بیان ملاحظہ کیجیے ” زندگی کیا ہے ؟ موت کیاہے؟ رنج و غم ،خوشی و مسرت ،کائنات،انسان اور خدا”۔۔۔۔۔؟(3)
آج کے سماج میں یہ سوال اپنے متنوع پہلووں (سائنسی متقاضیات،جدیدطرز احساس،مادیت وغیرہ) کے ساتھ شدت اختیار کرچکاہے اور موجود فرد کے نفسیاتی کرب و داخلی بے چینی کا عکاس بنا ہوا ہے۔آصف شاہؔ انسان کی بے رائیگانی جو وجودی و ذہنی دونوں طرح اس کے ساتھ سفر کررہی ہے کو سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ہمیں جینے کا فن سکھایا گیا
زندگی کا مذاق اُڑایا گیا
خوش نہ رہنے دیا کبھی ہم کو
زندگی بھر ہمیں رلایا گیا ( 4)
سفر کے بعد بھی جاری ہے اک سفر مجھ میں
میں رُک گیا ہوں مگر میرے پانوں چل رہے ہیں (5)35
آصف شاہ کی شاعری اکیسویں صدی کے رویوں سے ہم آہنگ ہے خاص طور پر وہ رویے جو بے معنویت کا لبادہ اُڑے ہوئے انسان کے سامنے ایک خاص تصور لیے ہوئے آتے ہیں یہ تصور انسان کے داخل سے بھی اپنا رشتہ جوڑتا ہے اور خارج سے بھی۔ یہ رشتہ فرد کا تصور ِ مرگ (جو ذاتی کشمکش کا نتیجہ ہوتا ہے) اور انسانی وجود پر اس کے اثرات سے اور بھی مضبوط ہوتا ہے۔
سائے منڈلائیں میرے دائیں بائیں
سر پہ اک آسمان چھایا ہے
مجھ میں آسیب رقص کرتے ہیں
خوف نے دائرہ بنایا ہے(6)
ہر پل ہر پل بے چینی سی بے چینی
اندر کے حالات تباہی لاتے ہیں
ہم اپنے لاشے ڈھو ڈھو کر آصف شاہ
خود پر مٹی ڈالتے ہیں دفناتے ہیں (7)
شاعری عموماً دائروی تکنیک کی حامل ہوتی ہے تنہائی اور دائرویت یہ دونوں رویےمل کر شاعری کی نمو میں حصہ لیتے ہیں ۔آصف شاہؔ کی شاعری کا منبع بھی تنہائی ہے جو داخلی و باطنی اور انفرادی و اجتماعی تمام سطحوں پر تشددپرستی ،خوف و ڈر ،بولنے پر پابندی ، ظلم و جبراور انسانی استحصال کے نتیجے میں تخلیقی عمل کا حصہ بنتی ہے ۔اکثر یہ تنہائی کم مائیگی کی صورت اختیار کرتی ہے تو کبھی خامشی کی شکل میں سامنے آتی ہے۔تو "کبھی شبِ مہتاب تنہائی کھڑی ہوتی ہے”
جب کسی کا بھی ہو نہیں پایا
اپنی کم مائیگی کا ہوگیا میں (8)
اک تحیر ہے عالم تنہا
ایک تنہائی آس پاس مری(9)
کھو گیاہوں میں اپنے کمرے میں
ڈھونڈتا ہے جہاں سارا مجھے
آگے تنہائی پیچھے گہری کھائی
تو نے کس موڑ پر پکارا مجھے (10)
سماجی بیگانگیت کی یہ سطح فرد کے سامنے ہے کہ جہاں انسان دوسرے انسان کا بہترین ساتھی ہے وہاں اُسی انسان کے ہاتھوں دوسرا انسان تکلیف و پریشانی میں ہے ۔ہر طرف انصاف کا فقدان ،جبری استحصال ،دوغلہ پن و فریب اور منافقت کے سائے منڈلاتے ہیں ۔درمیاں میں دوریاں راج کررہی ہیں تو ایسے حالات میں انسان کو اپنی وجودی شناخت کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔نظمیں "کچھ نیا”برف”مجھے مرنا نہیں آیا” میں یہ صورتحال دیکھی جاسکتی ہے۔
گماں آباد بستی کی طرح
میں اپنے ہونے اور نہ ہونے کی حقیقت میں گھرا تھا
جب چیختی ،چلاتی اور مرتی ہوئی انسانیت کی
دھجیاں اُڑنے لگی تھیں (11)
آصف شاہؔ کی شاعری اپنے عہد کے طرز احساس اور سماجی رویوں کا عطر ہے۔آصف شاہ ؔ اپنے سماج میں انسان کی حیثیت کی منظوم تشریح نہیں کرتے بلکہ چند شعری تصویروں اور لکیروں میں اس کی اہمیت و بنیاد کی طرف اشارے کرتے ہیں۔آصف شاہ کی شاعری ایک طرف اگر انسان کی سماجی شناخت سے علاقہ رکھتی ہے تو دوسری جانب ان کی شاعری میں معصوم،حسین و رنگین محبتوں کی دنیائیں بھی آباد ہیں۔
حوالہ جات
1۔آصف شاہ،انٹرویو،راقم(منصور ساحل)،ستمبر2023،بوقت نو بجے
2۔ آصف شاہؔ،طلسم زار،روالپنڈی: رُمیل ھاؤس آف پبلی کیشنز،2019،ص25
3۔ ایضاً،ص 17
4۔ایضاً،34
5۔ ایضاً،35
6۔ ایضاً،38
7۔ ایضاً،56
8۔ایضاً،66
9۔ایضاً،71
10۔ایضاً،77
Asif Shah
11۔ ایضاً،131
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page