اقبال حسن آزاد معاصر ادب کا ایک اہم نام ہے۔وہ ادب کی مختلف اصناف پر قدرت رکھتے ہیں۔ شاعری بھی کرتے ہیں۔افسانے بھی لکھتے ہیں۔تنقید میں بھی درک رکھتے ہیں اور’’ ثالث‘‘ کے مدیر بھی ہیں۔بے باکی،صاف گوئی اور جرات مندی ان کی شخصیت کے نمایاں اوصاف ہیں۔ان کی افسانہ نگاری مختلف موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ان کا مشاہدہ عمیق اور مطالعہ کافی وسیع ہے۔ وہ ایک سچے اچھے اور فراخ دل انسان ہیں۔ان کی کہانیوں کے موضوعات میں پھیلاؤ پایا جاتا ہے۔وہ سادہ اور عام فہم زبان استعمال کرتے ہیں۔ریڈ یبلیٹی بھی ان کی کہانیوں کا نمایاں وصف ہے۔اب تک ان کے تین افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں…تو چلیے اس بیباک اور صاف گو شخص سے بات کرکے دیکھتے ہیں۔
(۱)رمیشا قمر: کسی فن کار اور اس کے فن کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس سے یہ جانا جائے کہ اس نے کب اور کیوں لکھنا شروع کیا تو آج کی گفتگو بھی اسی سوال سے شروع کرتی ہوں کہ آپ نے ادب لکھنا کب اور کیوں شروع کیا؟
اقبال حسن آزاد:شکریہ رمیشا قمر جی!بات دراصل یہ ہے کہ میرے خاندان میں کتب و رسائل پڑھنے کا شوق سدا سے رہا ہے۔ ہمارے گھر میں ایک چھوٹی سی لائبریری بھی تھی۔ میرے نانا مرحوم سید محمود حسن خاں ایک خوش فکر شاعر تھے اور ان کا ایک قلمی دیوان بھی موجود تھا لیکن زمانے کے دست برد سے ضایع ہو گیا۔میرے چچا زاد بھائی سید حسیب الرحمن کہانیاں لکھا کرتے تھے اور بڑے بھائی سید خالد حسن کہانیاں لکھنے کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کیا کرتے تھے لیکن ان لوگوں کی کاوشیں بہت کم رسائل کی زینت بن پائیں۔والد مرحوم سید محمد صالح نے مجھے تین برس کی عمر سے اردو اور انگریزی پڑھانا شروع کر دیا تھا۔قرآن شریف بھی انہوں نے ہی پڑھایا۔ ہندی میں نے اسکول میں سیکھی۔تو ہوا یوں کہ ہمارے گھر میں ایک بوا رہتی تھیں۔ رات کے کھانے کے بعد ہم سب بھائی بہن ان کے گرد بیٹھ جاتے تھے اور وہ ہمیں جن اور پریوں کی کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ یہ کہانیاں مجھے ایک اجنبی اور انجانی دنیا میں پہنچا دیتیں۔ پھر میری بڑی بہنیں اپنے وقت کی مشہور و مقبول خاتون ناول نگاروں کے ناول پڑھا کرتیں اور آپس میں بیٹھ کر اس ناول پر اظہار خیال کیا کرتیں۔یہ ساری باتیں میرے کانوں میں پڑتیں۔اس زمانے میں اسکولوں میں پریم چند کے ہندی افسانوں کا مجموعہ’’پانچ پھول‘‘ پڑھایا جاتا تھا جس میں پانچ مختصر کہانیاں شامل تھیں…’’کپتان صاحب‘‘،’’استعفیٰ‘‘،’’جہاد‘‘،’’ منتر ‘‘اور ’’فاتحہ‘‘۔اس وقت تک میں چھٹی کلاس میں پڑھا کرتا تھا اور یہ کتاب آٹھویں جماعت میں چلتی تھی۔ میں نے وہ پوری کتاب پڑھ ڈالی۔ ان کہانیوں کو پڑھ کر میرے ذہن میں بھی کہانیوں کا خاکہ بننے لگا اور جب میں آٹھویں کلاس میں پہنچا تو میں نے ایک کہانی’’دو دوست‘‘ لکھی۔ان دنوں میرے شہر بہار شریف سے رضوان رضوی صاحب ’’بچوں کا ڈائجسٹ‘‘ نکالا کرتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ بچوں کا ایک اسکول بھی چلاتے تھے۔ میں کہانی لکھ کر سیدھے ان کے اسکول پہنچااور کہانی ان کے حوالے کر دی۔ اگلے شمارے میں وہ کہانی چھپ گئی۔ والد صاحب میری اس کاوش سے بہت خوش ہوئے اور انہوں نے بچوں کے کئی رسائل میرے نام جاری کر دئے۔اور اس طرح کہانیاں لکھنے اور چھپنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ 1968سے لے کر 1973 تک کی بات ہے۔ اس زمانے میں میں نے کچھ نظمیں بھی لکھیں جو ’’نور‘‘ رامپور‘‘ ٹافی‘‘ مالیگاوں اور ’’کھلونا‘‘ نئی دہلی میں شایع ہوئیں۔افسوس کہ اس وقت کی ساری چیزیں ضائع ہو گئیں۔
(۲)رمیشا قمر : آپ کے ادبی سفر کے متعلق جان کر خوشی ہوئی۔۔یہ بتائیںآپ تو اچھے خاصے افسانے لکھ رہے تھے۔خوب شاعری بھی کر رہے تھے یہ اچانک ادبی پرچہ نکالنے خیال کیوں آیا اور کب آیا ؟
اقبال حسن آزاد:صغریٰ اسکول بہار شریف میں میرا ایک دوست ہوا کرتا تھا۔ اس کا نام غیاث تھا۔ اس کے محلے میں ایک چھوٹی سی لائبریری تھی۔ میں اس لائبریری کا ممبر بن گیا اور وہاں سے کتب و رسائل لا کر پڑھنے لگا۔ میرے شوق و ذوق کو دیکھ کر وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ تم ایک دن مدیر بنو گے۔یہ بات میرے ذہن میں بیٹھ گئی۔ پھر جن دنوں میں پٹنہ میں ایم ۔اے کر رہا تھا اس وقت مشہور صحافی اور افسانہ نگار رضوان احمد ریسرچ اسکالر تھے۔وہ ایک رسالہ اور ایک اخبار نکالا کرتے تھے۔انہوں نے مجھے اپنے ساتھ کام کرنے کا آفر دیا۔ ان کے علاوہ علامہ اسرار جامعی تھے ۔وہ بھی ایک اخبار کے مدیر تھے۔ مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کا بھی اتفاق ہوا۔اور پھر جب میں مونگیر آیا اور یہاں کی ادبی انجمن ’’اردو فورم‘‘ کا ممبر بنا تو اس کے مجلے کی ادارت میرے ذمے سونپ دی گئی۔ اور یہ اللہ کا احسان ہے کہ میری سعی لوگوں کو پسند آئی۔اس سے میرا حوصلہ بڑھا اور میرے بچپن کی خواہش نے ایک بار پھر سر اُبھارا۔یہ 2013کی بات ہے جب میں اپنے بیٹے ’’ثالث‘‘ کے ساتھ انگریزی رسائل کے تعلق سے ڈسکس کر رہا تھا تو میں نے اس سے کہا کہ اچھا تم ایک انگریزی رسالہ نکالو اور میں اردو کا رسالہ نکالتا ہوں۔ اس نے رسالے کا نام’’اقبال‘‘ تجویز کیا لیکن میں نے ’’ثالث‘‘نام رکھا۔ پہلے شمارے کا سرورق اسی نے بنایا۔بلکہ شمارہ نمبر ایک سے لے کر شمارہ نمبر بارہ تک کا سرورق اسی نے بنایا۔ شمارہ نمبر تیرہ سے اس کا سرورق بنانے کی ذمہ داری برادرم نعیم یاد(پاکستان ) نے اپنے سر لے لی ہے۔ اب وہی اس کا سر ورق بناتے ہیں اور خوب بناتے ہیں۔ بہر کیف!اس وقت تک میں فیس بک پر ایکٹیو ہو چکاتھا۔ میں نے پہلے شمارے کا سرورق کی تصویر فیس بک پر لگا دیا۔ پہلے میرا ارداہ 64صفحات کا رسالہ نکالنے کا تھا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے کونے کونے سے اس قدر مواد آگیا کہ اس کی ضخامت 224صفحات تک پھیل گئی اور اس طرح اکتوبر2013میں اس کا اولین شمارہ منظر عام پر آیا۔ اس وقت میرے بیٹے ثالث کی عمر اٹھارہ برس کی تھی۔ اب وہ انگریزی کا ایک آن لائن رسالہSALISMANIAنکال رہا ہے اور ماشاء اللہ کافی کامیاب ہے۔
(۳)رمیشا قمر: ’ثالث‘ کے ارتقائی سفر کو اختصاریہ طور پربیان کردیا ۔خوب! اردو کے اہم رسالوں میں ’ثالث‘ کا شمار ہوتا ہے تو یہ بتائیں آپ کا ثالث دوسرے رسائل و جرائد سے کیوں کر مختلف ہے ؟ اس میں ایسا کیا ہے جو دوسروں میں نہیں ہے ؟
اقبال حسن آزاد:آپ کے اس سوال کا جواب ذرا مشکل ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اس سلسلے میں ’’ثالث‘‘ کے قارئین ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ لیکن میںاتنا ضرور کہوں گا کہ یو جی سی کیئر لسٹیڈ رسالہ ہونے کے باوجود میں نے آج تک کسی ریسرچ اسکالر سے مضامین شایع کرنے کے عوض ایک پیسہ بھی نہیں لیا۔کیونکہ جب آپ کسی سے پیسے لیں گے تو پھر اس کی چیزیں بھی شایع کرنی پڑیں گی اور اس طرح رسالے کا معیار متاثر ہوگا۔میں اپنے رسالے میں صرف وہی نگارشات شایع کرتا ہوں جو مجھے پسند آتی ہیں۔اس سلسلے میں کسی کی پیروی یا سفارش کو خاطر میں نہیں لاتا۔اپنے اس اصول کی وجہ سے میں بہتوں کو ناراض کر بیٹھا ہوں لیکن مجھے اس کی کوئی پروا نہیں۔ایک بات اور …میں اپنے قلمی معاونین کو رسالے کی کی اعزازی کاپی بھیجنا اپنا فرض سمجھتا ہوں خواہ وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہوں(نوٹ: کووڈ کے بعد غیر ممالک میں رسالے کی ترسیل موقوف ہو گئی ہے لیکن غیر ملکی احباب میرا رسالہ ویب سائٹ پر پڑھ لیتے ہیں۔)
(۴)رمیشا قمر : بہت خوب!بلاشبہ ثالث کا شمار ملک کے موقر ومعیاری رسائل میں ہوتا ہے اس کے پیچھے آپ کی مستقل مزاجی اور محنت ولگن ہے آپ تن من اور دھن سے اس کام کو کررہے ہیں جو قابل ستائش ہے ۔بہت کم رسائل ایسے ہیں جن کے شماروںپر تبصرے چھپتے ہیں اور وہ بھی ایک دو نہیں بلکہ کئی کئی تبصرے۔بعض تو تجزیاتی نوعیت کے بھی ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے تبصرہ نگاری پر کوئی انعامی مقابلہ ہو رہا ہو ، اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے ؟
اقبال حسن آزاد: اس کا جواب تو قارئین اور مبصرین ہی دے سکتے ہیں۔میں تو صرف اتنا کہوں گا کہ یہ سب اللہ تبارک تعالیٰ کا کرم ہے۔
(۵)رمیشا قمر :بے شک ! آپ کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو بے باکی بھی ہے۔آپ اپنی تحریروں میں تو بے باکی دکھاتے ہی ہیں ،فیس بک پر بھی اس کا جی بھر کر مظاہرہ کرتے ہیں۔آپ کسی کو بھی بنا کسی خوف اور جھجھک کے طنز کا نشانہ بنا لیتے ہیں!کیا آپ کو ڈر نہیں لگتا اور نہیں لگتا تو کہیں نہیں لگتا ؟
اقبال حسن آزاد:میں بچپن سے ہی بہت نڈر اور بیباک تھا اور اس بیباکی کے لیے اکثر بزرگوں سے ڈانٹ بھی کھائی ہے اور مار بھی۔
(۶)رمیشا قمر:اقبال حسن آزاد صاحب آپ کا قلم ماشاء اللہ خوب رواں ہے۔ اتنا تیز رفتار کہ آپ کا یہ رخش خامہ کبھی کبھی جوش میں ادھر ادھر دو لتی بھی مار لیتا ہے ،آپ کو کیا اس کااحساس ہوتا ہے ؟ اگر ہوتا ہے تو آپ اپنے قلم کے اس گھوڑے کو قابو میں کیوں نہیں رکھتے ؟
اقبال حسن آزاد:میرا رخش خامہ جان بوجھ کر دو لتی مارتا ہے لیکن صرف انہی لوگوں کو جواردو کے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔
(۷)رمیشا قمر :فیس بک پر آپ کی سرگرمیاں کچھ زیادہ ہی گرم دکھائی دیتی ہیں۔اور اپنی ان سرگرمیوں میں بیگم کو بھی شریک کر لیتے ہیں۔آپ واحد ایسے ادیب ہیں جو اپنے شریک سفر کو شریک حیات کی طرح سامنے لاتے ہیں ورنہ تو زیادہ تر ادیب ایسے ہیں جو اپنی بیگمات کو پردے کے پیچھے رکھتے ہیں۔آپ کے اس رویے میں بیگم کے حسن کا دخل ہے یا آپ کے حسن سلوک اور وسعت قلبی کا؟
اقبال حسن آزاد:پہلی بات تو یہ کہ ہر تصویر کے دو رخ اور ہر سکے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ فیس بک کو کچھ لوگ وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ میں اس سے تعمیری کام لیتا ہوں۔فیس بک کی وجہ سے ہی میرے رسالے کا اجراء ہوا۔ اب رہی بیگم کو شریک کرنے کی بات… تو معاملہ یہ ہے کہ میں عورتوں کو مرد کے شانہ بہ شانہ دیکھنا چاہتا ہوں۔یہ نہیں کہ شوہر آگے آگے سر اُٹھا کر چل رہا ہے اور بیوی اس کے پیچھے سر جھکائے چل رہی ہے۔اور پھر یہ بھی ہے کہ تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے۔ وہ میری شریک سفر بھی ہیں اور شریک زندگی بھی۔وہ ایک بہترین خاتون خانہ ہیں… وہ میری مشیر بھی ہیں اور وزیر بھی۔ایک بہترین نرس ،ڈاکٹر، مینیجر،ایک لاجواب کُک،انجینیئر،آرکیٹیک اور بھی بہت کچھ ہیں۔ وہ قدم قدم پر میرا ساتھ دیتی ہیں جس کی وجہ سے میرا حوصلہ ہمیشہ جوان رہتا ہے۔ وہ حسین بھی ہیں اور ذہین بھی۔
(۸)رمیشا قمر: بہت خوب! واقعی آپ کی محبت قابل رشک ہے اس کے کئی تصویری نمونے دیکھتی رہتی ہوں مگر آج آپ کے احساسات جان کر بہت خوشی ہوئی اللہ پاک آپ کو یو ں ہی ساتھ ساتھ رکھے۔اقبال صاحب آپ نثر اور نظم دونوں میں اظہار خیال کرتے ہیں۔خو د کوکہاں زیادہ کمفرٹیبل محسوس کرتے ہیں ؟
اقبال حسن آزاد:نثر لکھنا بہت مشکل ہے۔ ایک پلاٹ پر کبھی کبھی ہفتوں ،مہینوں بلکہ برسوں سر کھپانا پڑتا ہے تب جاکر ایک افسانہ وجود میں آتا ہے۔جبکہ شاعری کا معاملہ یہ ہے کہ اگر ایک مصرع موزوں ہو گیا تو دیکھتے ہی دیکھتے پانچ سات اشعار کی غزل تیار ہو جاتی ہے اور اگر کسی نظم کا خاکہ ذہن میں اُبھرا تو منٹوں میں وہ نظم تیار ہو جاتی ہے لیکن میں اپنی شناخت بحیثیت افسانہ نگار بنانا چاہتا ہوں بحیثیت شاعر نہیں۔ایک شعر عرض کیا ہے:
گرچہ افسانہ گری اقبال ؔکو محبوب ہے
شاعری سے پھر بھی کچھ کچھ واسطہ رہنے دیا
(۹)رمیشا قمر: یعنی افسانہ نویسی میں آپ کی دلچسپی زیادہ ہے تویہ بتائیں کہ اس کے اسباب کیا ہیںاور شاعری میں کم ہے تو اس کی وجوہات بھی بتائیں؟
اقبال حسن آزاد:افسانہ نگاری کے متعلق تو میں اوپر بتا چکا ہوں۔ رہی شاعری کی بات تو اوپر اردو فورم ،مونگیر کا ذکر آیا ہے۔ اس کے فاؤنڈر کنوینر پروفیسر مہدی علی صاحب تھے جو گرچہ انگریزی کے پروفیسر تھے لیکن اردو کے بہترین کلاسیکی شاعر تھا۔ میں جب اس فورم کا ممبر بنا تو اول اول وہاں اپنے افسانے سناتا تھا۔ مہدی علی صاحب نے ایک بار مجھ سے کہا کہ آپ غزلیں بھی کہا کیجئے کیونکہ آپ کا مزاج موزوں ہے۔ یوں تو میں گاہے گاہے شاعری بھی کر لیا کرتا تھا لیکن ان کے کہنے پر میںنے باضابطہ غزلیں کہنی شروع کر دیں اور انہی سے اصلاح بھی لینے لگا۔ ان کے انتقال کے بعد بھی میں نے یہ سلسلہ جاری رکھا ہے اور اردو فورم کی ماہانہ نشست میںاپنی غزلیں پیش کرتا ہوں۔
(۱۰)رمیشا قمر:بہت خوب!ہر تخلیق کار اپنی تخلیق کا پہلا نقاد ہوتا ہے تو اقبال حسن آزاد صاحب آپ سے یہ جاننا چاہونگی کہ اب تک آپ نے جتنے افسانے لکھے ہیں ان میں بہترین افسانہ کونسا ہے اور کیوں؟
اقبال حسن آزاد: یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی کسی ماں سے پوچھے کہ اس کا سب سے اچھا بچہ کون ہے۔
(۱۱)رمیشا قمر: اکثر فن کاروں کا جواب یہی ہوتا ہے کہ کس بچے کو اچھا کہیں ماں کے لیے تو سب یکساں ہوتے ہیں ۔۔ ادب اور زندگی کا تعلق لازم وملزوم ہے تو آپ کے افسانے تفہیم حیات میں کتنی مدد کرتے ہیں ؟
اقبال حسن آزاد:میں تو اپنے تئیں افسانے لکھتا ہوں لیکن قارئین اور ناقدین کا خیال ہے کہ میرے افسانوں میں اخلاقی پہلو نمایاں ہوتا ہے۔اگر میرے افسانے پڑھ کر قارئین زندگی کے مختلف پہلوؤں کی تفہیم سے آشنا ہوتے ہیں تو یہ ایک اچھی بات ہے۔
(۱۲)رمیشاقمر:جی بالکل !سعادت حسن منٹو ،کرشن چند،راجندرسنگھ بیدی،عصمت چغتائی وغیرہ اردو افسانے کے لیجنڈ کے طور پر جانے اور مانے جاتے ہیں یا یہ کہا جائے کہ وہ سب اپنے دور کی پہچان تھے تو غلط نہ ہوگا۔اگر اردو فکشن کے موجودہ عہد کا جائزہ لیں تو اس دور کی پہچان آپ کے خیال میں کن لوگوں کو کہاجاسکتا ہے اور کیوں ؟
اقبال حسن آزاد:آپ کا یہ سوال ذرا سخت ہے۔اردو میں نئے پرانے بہت سارے افسانہ نگار سر گرم عمل ہیں۔ ان میںنسے چند ایک راہیٔ ملک عدم بھی ہو گئے۔اب تو یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ ان میں سے کتنے ادبی طور پر زندہ رہیں گے اور کتنے زمانے کی دھول میں اُڑ جائیں گے۔
(۱۳)رمیشا قمر:اقبال حسن آزاد صاحب میں سمجھتی ہوںآپ کا کام ہی آپ کی پہچان ہوتا ہے بس ہمیں مستقل مزاجی، ایمانداری سے اپنے کام پر فوکس کرنا چاہیے بنا کسی ستائش و صلے کی تمنا کے۔۔۔اقبال صاحب آپ کے کمینٹس بتاتے ہیں کہ آپ صحت زبان پر بہت زور دیتے ہیں۔ درست زبان لکھنے کی ضرورت پر اتنا زور کیوں جبکہ آج زیادہ تر لوگ اس جانب بالکل دھیان نہیں دیتے ؟
اقبال حسن آزاد: یہ تو ہر صاحب علم جانتا ہے کہ اردو ایک مشترکہ زبان ہے۔ اس میں عربی اور فارسی کے علاوہ ہندی،سنسکرت،انگریزی اور ترکی کے الفاظ بھی شامل ہیں۔ اب یہ ہے کہ ہر لفظ کی ایک اصل ہوتی ہے اور پھر اس لفظ سے جتنے الفاظ بنیں گے ان کی سپلنگ اس کی اصل سے ہی ماخوذ ہو گی۔ مثلاً ایک لفظ ہے’’ مضبوط‘‘ یہ عربی کا لفظ ہے اور’’ ضبط‘‘ سے نکلا ہے ۔آج کل کچھ لوگ ’’مظبوط‘‘ لکھنے لگے ہیں جو سراسر غلط ہے۔ اسی طرح ایک لفظ ہے’’صحیح‘‘ اور ایک لفظ ہے ’’سہی‘‘ ’’صحیح ‘‘ عربی کا لفظ ہے یعنی صحت کے ساتھ اور’’سہی‘‘ ہندی کا لفظ ہے۔تو معاملہ یہ ہے کی صحیح بھی صحیح ہے اور سہی بھی صحیح ہے لیکن صحیح کی جگہ سہی لکھنا صحیح نہیں ہے۔ کسی لفظ کی سپلنگ بدل جانے سے معنی کچھ کے کچھ ہو جاتے ہیں۔اب ایک لفظ ہے ،سَمَندر اور ایک لفظ ہے سمُندر۔سَمَندر فارسی کا لفظ ہے اور اس کے معنی ایک جانور کے ہیں جس کی بابت یہ مشہور ہے کہ وہ آگ میں پیدا ہوتا ہے اور وہیں رہتا ہے اور آگ سے باہر نکالتے ہی مر جاتا ہے۔جبکہ سمُندر سنسکرت کے لفظ سمُند سے بنا ہے جس کے معنی ساگر کے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص سمُندر (ساگر) کی جگہ سَمَندر(آگ کا جانور) بولتا ہے تو مفہوم خبط ہو جائے گا۔ اردو پہلے ہی کئی طرح سے برباد کی جاتی رہی ہے،اگر زبان کی صحت کی طرف توجہ نہ کی گئی تو یہ پوری طرح سے برباد ہو جائے گی۔
(۱۴)رمیشا قمر: بہت خوب !ایک استاد کی نظر ہی الفاظ کی قرات ،املا اور اس کو برتنے جیسے تمام پہلووں پر ہوتی ہے ۔آپ درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور آج بھی تدریسی امور پر نظر رکھتے ہیں۔کیا موجودہ اردو نصابات سے آپ مطمئن ہیں اگر نہیں تو کیوں ؟
اقبال حسن آزاد: اردو کا نصاب نہایت پرانا اور دور از کار ہے۔ یہاں بھاگلپور اور مونگیر یونیورسیٹی میں ایسی ایسی کتابیں شامل نصاب ہیں جن کی زبان نہایت گنجلک اور دشوار ہے۔ طالبعلموں کی بات تو چھوڑئے آجکل کے اساتذہ بھی ان کتابوں کو ٹھیک طرح سے پڑھ نہیں پاتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ نصاب بنانے والے،اپنی،اپنے استاد،اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کی کتابیںنصاب میں ’’گھُسا ‘‘ دیتے ہیں اور اس کتاب کے ایڈیشن شایع ہونے لگتے ہیں۔ مثال کے طور عزیز احمد کا ایک ناول ہے ’’خدنگ جستہ‘‘۔ جب عزیز احمد نے یہ ناول لکھا تو کوئی پبلشر اسے چھاپنے کو تیار نہ تھا۔ اب ایک شعبہ کے صدر نے عزیز احمد پر ریسرچ کیا۔ ان کی زیر نگرانی ریسرچ کرنے والے ایک اسکالر نے صدر کو خوش کرنے کے لیے اس کتاب پر ایک مقدمہ لکھ کر اسے شایع کروا دیا اور صدر نے اسے شامل نصاب کروا دیا۔ اب نہ صدر زندہ ہیں نہ ریسرچ اسکالر لیکن یہ کتاب ایک بار کورس میں شامل ہو گئی تو ہو گئی۔ایک اور صدر صاحب نے اپنے پی ایچ ڈی کا مقالہ داخل نصاب کر دیا۔ یہ کتابیں عصر حاضر میںبیکار ہو گئی ہیں۔انہیں نکال دینا چاہیے۔ اب عبد الحلیم شرر کا ناول’’ فردوس بریں‘‘ ہے۔ اس ناول کی تاریخی اہمیت ہو سکتی ہے لیکن اس ناول کی زبان بھی آج کے زمانے سے میل نہیں کھاتی ہے۔ ’’خدنگ جستہ‘‘ اور ’’فردوس بریں‘‘ کو فی الفور نصاب سے نکال دینا چاہیے۔بی ۔اے فرسٹ ایئر میں پہلے پریم چند کا افسانوی مجموعہ’’آخری تحفہ‘‘ شامل تھا۔ پتا نہیں کیوں اسے ہٹا کران کے دوسری افسانوی مجموعہ’’واردات‘‘کو داخل نصاب کر دیا گیا۔ میرے خیال میں اول الذکر مجموعے میں زیادہ بہتر افسانے ہیں۔ فرسٹ ایئر میں تنقید پڑھائی جاتی ہے اور تھرڈ ایئر میں بھی۔ میرے خیال سے فرسٹ ایئر سے تنقید کو ہٹا کر ایک ڈراما رکھنا چاہیے۔ساتویں پرچے میں منٹو کے افسانے اور خدنگ جستہ ہیں۔ یہ دونوں نثری تصانیف ہیں۔ ان کے ساتھ مومن اور شاد ہیں۔ جبکہ مومن فرسٹ ایئر میں بھی ہیں۔یہ عجیب و غریب نصاب ہے۔
پچھلے چند برسوں سے پورے بہار میں ایم۔ اے کا یکساں نصاب لاگو کر دیا گیا ہے۔فرسٹ سیمسٹر کے تیسرے پرچے میں اکٹھے تیرہ افسانے دے دیئے گئے ہیں۔ان میں کئی معروف افسانہ نگاروں کے غیر معروف افسانے شامل ہیں۔ بہت ساری کتابیں آؤٹ آف پرنٹ ہیں۔سیمسٹر ٹو کے دوسرے پیپر میں مختلف شاعروں کی بارہ نظمیں شامل کر دی گئی ہیں۔جن اساتذہ کو پڑھنے پڑھانے سے کوئی مطلب نہیں ان کے لیے تو کوئی پرابلم نہیں ہے۔لیکن سنجیدہ اساتذہ اور طالبعلموں کے لیے مشکل ہو جاتی ہے۔
(۱۵)رمیشا قمر: اقبال حسن صاحب درست کہا آپ نے نصاب بہتر سے بہترین ہونا چاہیے کیونکہ اس نصاب کی بنیاد پر ہمیں آنے والی نسلوں کی تعمیر وترقی کی بنیادیں استوار کرنی ہوتی ہیں ۔نصاب کے ساتھ ساتھ اردو رسم الخط بھی ہمارے لیے نہایت اہم موضوع ہے اوراردو رسم الخط بدلنے کی پہلے بھی مہم چلائی گئی اور آج بھی کچھ لوگ سرگرم نظر آ رہے ہیں ،آپ بھی کیا اس مہم کے ساتھ ہیں میرا مطلب ہے کہ آپ بھی اس رویے کی تائید کرتے ہیں یا آپ کی نظر میں یہ ایک اردو دشمنی رویہ ہے جس کے پیچھے یہ سوچ کام کر رہی ہے کہ اس کے تشخص کو مکر شاعرانہ کے ذریعے مٹا دیا جائے ؟
اقبال حسن آزاد: رسم الخط ہے تو زبان ہے۔ رسم الخط ختم تو زبان ختم۔
(۱۶)رمیشا قمر: رسم الخط ختم زبان ختم درست کہا ۔ڈاکٹر صاحب نہ ہمیں رسم الخط ختم کرنا ہے اور نہ ہی زبان تویہ بتائیں کہ آپ کی نظر میں اردو زبان کا مستقبل کیسا ہے ؟
اقبال حسن آزاد:جہاں تک ’’زبان‘‘ کا تعلق ہے اردو کا مستقبل تابناک ہے کیونکہ اس کا صوتی آہنگ دیگر زبانوں سے زیادہ بہتر اور وسیع ہے۔ یہ بر صغیر کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ بلکہ نئی بستیوں میں اس کا تیزی کے ساتھ فروغ ہو رہا ہے۔سوشل میڈیا کے آنے کے بعد اس کی ترقی کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ کسی چیز میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ چند خامیاں بھی ہوتی ہیں تو سوشل میڈیا میں بھی چند ایسی باتیں وجود میں آگئی ہیں جس سے یہ زبان کمزور ہو رہی ہے۔ پہلی وجہ تو رومن اردو ہے جس کا چلن آجکل بہت بڑھ گیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اردو کے مشہور شاعروں مثلاً غالب،اقبال ،فیض اور فراق کے نام سے خود ساختہ اشعار پیش کیے جا رہے ہیں جو نہایت گھٹیا اور مبتذل ہوتے ہیں۔ ایک کوی سمیلن میں مونگیر کے ضلع حاکم نے جب غالب سے منسوب ایک عامیانہ شعر سنایا تو میرا سر شرم سے جھک گیا۔ وہ شعر آپ بھی سنیے:
میں زندگی بھر یہی بھول کرتا رہا غالب
گرد چہرے پہ تھی اور میں آئینہ صاف کرتا رہا۔
(۱۷)رمیشا قمر:صحیح کہا !اردو صرف زبان ہی کانام نہیں بلکہ تہذیب کا نام ہے یہ پیار اور محبت کی زبان ہے ۔سائنس وتکنالوجی کا یہ دور کتابوں سے دوری اور موبائل سے نزدیکی کا دور ہے بلکہ یہ کہا جارہا ہے کہ یہ کتابوں کی آخری صدی ہے کیا ایسا واقعی ہے اگر ہے تو اس سے معاشرے کو کتنا اور کس طرح کا نقصان پہنچنے والا ہے ؟
اقبال حسن آزاد:میں نہیں سمجھتا کہ کتابوں کی اہمیت کبھی ختم ہو گی۔ جو تشفی کاغذ پر چھپے ہوئے حروف کو پڑھنے سے ملتی ہے وہ موبائل پر حاصل نہیں ہو سکتی۔اور پھر موبائل کا سارا کاروبار ہوا پر ہے۔ اگر کسی وجہ سے انٹرنیٹ فیل ہو گیا یا فون خراب ہو گیا تو سارا ڈیٹا ہوا ہوائی ہو جا ئے گا۔ جبکہ چھپی ہوئی کتاب تا دیربلکہ صدیوں محفوظ رہتی ہے۔
(۱۸)رمیشا قمر:بے شک یہ صدی سائنس وتکنالوجی کی صدی ہے اس کے باوجود کتابوں کی اہمیت ہے اور ہمیشہ رہے گی ۔کتابوں کے ساتھ ساتھ کئی اور چیزیں جو اہمیت کی حامل ہیں ان میں ایک مشاعرہ بھی ہے ۔ادب میں مشاعرے کی کیا اہمیت ہے ؟کیا آج منعقد ہونے والے مشاعروں سے آپ مطمئن ہیں ؟
اقبال حسن آزاد: مشاعروں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔مشاعرے ہماری تہذیب کی نشانی ہیں۔ مشاعروں میں نشست و برخاست کے آداب سیکھے اور سکھائے جاتے ہیں۔اس سے زبان کو بھی فروغ حاصل ہوتا ہے۔غیر اردو داں حضرات اسی بہانے بہت سارے اردو الفاظ اور ان کے برتاؤ سے واقف ہو جاتے ہیں لیکن آجکل مشاعروں میں جس قسم کی ڈراما بازی ہوتی ہے وہ مشاعرے اور اردو دونوں کے لیے سم قاتل ہے۔
(۱۹)رمیشا قمر: آپ تو فیس بک سے مضبوطی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ فیس بک اور دیگر سوشل سائٹس سے اردو کو فایدہ پہنچ رہا ہے یا نقصان ہم آپ کا معروضی جواب جاننا چاہتے ہیں؟
اقبال حسن آزاد: میں سمجھتا ہوں کہ اس سے اردو کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔اردو پڑھنے والوں کا حلقہ وسیع ہو رہا ہے اور اردو شعر و ادب کے سلسلے میں سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔
(۲۰)رمیشا قمر: آپ نے تو ایک افسانوی بزم کا بھی اہتمام کیا تھا ،وہ تجربہ کیسا رہا؟
اقبال حسن آزاد:فیس بک پر پچھلے کئی برسوں سے مختلف فورم افسانوی نشستوں کا اہتمام کرتے آ رہے ہیں۔ میں بھی اکثر و بیشتر ان نشستوں میں شامل ہوتا رہتا ہوں۔ اس قسم کی نشستوں سے کئی قسم کے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔اول تو یہ کہ دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے افسانہ نگار ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں۔دوم یہ کہ بہت ساری نئی صلاحیتیں اُبھر کر سامنے آتی ہیں اور سوم یہ کہ ان افسانوں پر بھرپور اور پُر مغز مباحث ہوتے ہیں جن سے ہمارے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔
کرونا کال میں میں رانچی میں تھا جہاں میری بڑی بیٹی ڈاکٹر فریحہ سبین راجندر انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس(RIMS) میں ایم۔ ایس کر رہی تھی۔لگ بھگ چار مہینوں تک میں وہاں ایک فلیٹ میں مقید رہا۔ وقت گزاری کے لیے میں نے ’’ثالث افسانوی نشست‘‘ منعقد کی جس کے نتائج نہایت شاندار رہے۔اس نشست میں 86افسانے شامل کئے گئے تھے جن میں ہندوستان کی حد تک سب کے سب غیر مطبوعہ تھے۔ ’’ ثالث‘‘ کے اگلے شمارے میں اس ایونٹ میں پیش کیے گئے کئی افسانے شامل ہوں گے۔اس ایونٹ کی خاص بات یہ تھی کہ سبھی افسانوں کے بینر نعیم یاد نے بنائے تھے۔لہٰذا اس ایونٹ کی کامیابی میں ان کا بھی برابر کا حصہ ہے۔
(۲۱)رمیشا قمر: سوشل میڈیا پر ہونے والے ایونٹ کو’ ثالث ‘میں جگہ دینا قابل تحسین قدم ہے پیشگی مبارکباد۔افسانوں پر تو اکثر آپ کی رائے نظر سے گزرتی ہے یہ بتائیں کیا آپ معاصر ناول نگاری سے مطمئن ہیں ؟ آپ کے خیال میں ادھر تیس پینتیس سالوں میں کون کون سے قابل ذکر ناول لکھے گئے ؟
اقبال حسن آزاد: اب میں ناول کم کم ہی پڑھتا ہوں۔میںپہلے ناول بہت شوق سے پڑھتا تھا۔ لیکن اکیسویں صدی میں جو ناول پیش کیے گئے ان میں سے چند ایک کو پڑھ کر ہی میں بیزار ہو گیا۔ اب جب کبھی ناول پڑھنے کا خیال آتا ہے تو انھی پرانے ناولوں کو پڑھتا ہوں۔
(۲۲)رمیشا قمر: اقبال حسن صاحب یہ جواب سن کر مجھے حیرت ہورہی ہے کہ اکیسویں صدی میں لکھے گئے ناولوں کو پڑھ کر آپ بیزار ہوگئے جب کہ پچھلے دنوں آپ نے اسی عصر کے کئی ناول نگاروںپر مضامین لکھے ہیں اور ان کی خوب تعریفیں بھی کی ہیں…زیادہ تر معاصر ناول نگاروں کا تعلق سر زمین بہار سے ہے۔ یعنی فکشن کی فصل گوتم کی زمین کے پروردہ تخلیق کاروںکے بطن سے اُگی ہے۔کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے ؟
اقبال حسن آزاد: آپ کے اس سوال کے دو حصے ہیں ۔پہلے حصے کا جواب یہ ہے کہ بیشک اکیسویں صدی میں دو چار اچھے ناول بھی لکھے گئے ہیں مثلاً غضنفر،محسن خاںاور حمیرا عالیہ کے ناول۔لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ میرا ابھی بھی یہ ماننا ہے کہ اکیسویں صدی میں لکھے گئے زیادہ تر ناول بیزار کن ہیں۔ اور آپ کے اس سوال کے دوسرے حصے کا جواب یہ ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں یوپی ،دہلی اور مہاراشٹر سے بھی کئی ناول نکلے ہیں۔ہاں بہار میں کچھ زیادہ ہی ناول لکھے گئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ عبد الصمد کے ناول ’’دو گز زمین‘‘ کو جب1990میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا تو جیسے فکشن رائٹرز میں ایک ہوڑ سی مچ گئی۔ خود عبد الصمد نے اس کے بعد یکے با دیگرے سات ناول لکھ ڈالے۔ مشرف عالم عالم ذوقی نے بھی کثیر تعداد میں ناول لکھے۔غضنفر بھی اس میدان میں آگئے اور ساتھ ہی پیغام آفاقی بھی۔اور بھی کئی لوگوں نے ناول لکھے لیکن ان میں سے کسی کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ نہیں ملا۔ البتہ 1996میں الیاس احمد گدی کو ان کے ناول’’فائر ایریا ‘‘کو اور 2021میں حسین الحق کے ناول ’’اماوس میں خواب‘‘ کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔
(۲۳)رمیشا قمر: آزاد صاحب !آپ کی باتوں سے یہ لگ رہا ہے کہ ان ناول نگاروں نے ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے ناول لکھے ہیں جب کہ ایک تخلیق کار ہو نے کے ناطے آپ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ کوئی بھی جینوین فنکار کسی انعام واعزاز کے حصول کے لیے تخلیق نہیں کرتا۔یہ بات بھی آپ کی درست نہیں کہ عبدالصمد کو ایوارڈ ملنے کے بعد کچھ ناول نگار ناول کے میدان میں آئے جب کہ جہاں تک مجھے علم ہے عبدالصمد کے ناول ’دوگز زمین ‘پر ساہیتیہ اکادمی ایوارڈ ملنے سے پہلے پیغام آفاقی کا ناول ’ مکان‘ اور غضنفر کا ناول ’ پانی‘ لکھے جاچکے تھے اور مشہور نقاد وشاعر بلراج کومل نے اردو کے تین نئے ناول کے عنوان سے ایک مضمون بھی لکھا تھا جن میں’ دوگز زمین‘ کے ساتھ’ مکان‘ اور’ پانی‘ بھی شامل تھے ۔اس کے بعد مشرف عالم ذوقی اور حسین الحق بھی اس میدان میں آئے ۔خیر۔ایسا لگتا ہے کہ آپ کل وقتی ادیب ہیں۔ ادب میں اس حد تک مشغول ہونے کا کوئی سبب؟
اقبال حسن آزاد: آپ کے اس سوال کے بھی دو حصے ہیں۔پہلے حصے کا جواب یہ ہے کہ ناول تو پہلے بھی لکھے جاتے رہے ہیں لیکن اتنی بڑی تعداد میں نہیں۔میرا اب بھی یہی ماننا ہے کہ عبد الصمد کو ایوارڈ ملنے کے بعد ہی اردو میں ناول لکھنے کی ہوڑ شروع ہوئی عبدالصمد کا پہلا ناول ’’دو گز زمین‘‘ 1988میں شایع ہوا جس پر 1990میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا۔اور الیاس احمد گدی کو ان کے ناول’’فائر ایریا ‘‘ پر 1996میں ساہتیہ اکادمی سے سرفراز کیا گیا۔
آپ کے سوال کے دوسرے حصے کا جواب یہ ہے کہ سوال ایک تو یہ میرا فطری شوق ہے اور پھر اردو شعر و ادب کا طالبعلم ہونے کی وجہ سے اسے مہمیز ملی۔اس سے مجھے کبھی بھی کسی قسم کی مالی معاونت نہیں حاصل نہیں ہوئی۔ اور بہت کم اردو واے ہوں گے جنہیں ان کی تحریروں کا معاوضہ ملتا ہے۔ مجھے مشاعروں اور سیمیناروں میں بھی نہیں بلایا جاتا ہے۔ رسالہ بھی اپنی جیب خاص سے نکالتا ہوں۔ اس میں کمرشیل اشتہارات بھی نہیں ہوتے۔ بس ایک شوق ہے جو جنون کی حد تک بڑھ گیا ہے۔ شاید مجھ جیسے لوگوں کے لیے ہی کہا گیا ہے کہ’’گھر پھونک تماشا دیکھ‘‘۔
(۲۴)رمیشا قمر :ماشاء اللہ!واقعی ثالث کے لیے آپ کا جذبہ قابل تعریف ہے ۔ اردو ادب کی نئی نسل کی تحریفوں سے کیا آپ مطمئن ہیں ؟ آگر ہاں تو کیوں اور اگر نہیں تو کیوں ؟
اقبال حسن آزاد: تحریفوں سے اگر معنی آفرینی میں اضافہ ہوتا ہے تو بہتر وگرنہ نہیں۔
(۲۵)رمیشاقمر: کسی بھی ادیب یا فن کار کے لیے انعامات واعزازات کتنی اہمیت رکھتے ہیں؟
اقبال حسن آزاد: اعزازات اور انعام کی اپنی اہمیت ہے۔ اس سے ایب کا حوصلہ بلند ہوتا ہے بشرطیکہ یہ انعامات اور اعزازات اپنی صلاحیت پر حاصل کیے جائیں۔پیسے اور پیروی کے زور پر نہیں۔
(۲۶)رمیشاقمر: بجا فرمایا ۔۔۔ ادب میں اقرباپروری کا رجحان پہلے سے رہا ہے مگران دنوں یہ کہاجارہا ہے کہ کسی بھی انعام واعزاز کا فیصلہ آپ کے تعلقات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے یہ بات کس حد تک صحیح ہے؟
اقبال حسن آزاد: جی ہاں ،یہ بات بہت حد تک صحیح ہے۔
(۲۷)رمیشا قمر:میں نے انٹرویوز کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہی انٹرویوز کا سلسلہ ’’بات کرکے دیکھتے ہیں‘‘شروع کیا ہے تو یہ آپ سے بھی جاننا چاہونگی کہ کسی بھی ادب میں انٹرویو کی کیا اہمیت ہے؟
اقبال حسن آزاد:بہت اچھا سلسلہ ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ قارئین کے ساتھ خود انٹرویو دینے والے کو اپنے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملتاہے۔
(۲۸)رمیشا قمر:بہت شکریہ!آخری سوال آپ کی میری اور ہم سب کی پیار ی اردو زبان کے حوالے سے ہے۔آج اردو تعلیم افسوس ناک حد تک زوال کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے اس کی ترویج وبقاء کے لیے کیا موثر اقدامات کرنے چاہیں؟
اقبال حسن آزاد: بیشک اسکولوں،کالجوں اور یونیورسیٹیوں میں اردو پڑھنے والوں کی تعداد تشویش ناک حد تک گھٹ گئی ہے۔اس کی بہت ساری وجوہات ہیں… سیاسی، سماجی ،معاشی اور تہذیبی۔اس کے لیے ضروری ہے کہ جو ادارے اورتنظٰیمیں اردو کے نام پر قائم کی گئی ہیں ان کے ارباب حل و عقد ایمانداری کے ساتھ اپنا فرض نبھائیں اور اردو کے فروغ میں جہاں تک ممکن ہو عملی اقدامات اُٹھائیں۔ اردو اخبارات بھی اس سلسلے میں کوشش کریں۔ کسی عمارت کو ڈھانا آسان ہے لیکن اس کی از سر نو تعمیر مشکل ہے۔ میں اردو داں حضرات سے یہ درخواست کروں گا کہ خود اردو پڑھیں۔اپنے بچوں کو اردو پڑھایں۔ صحیح اردو بولنے اور لکھنے کی کوشش کریں۔ غلطیوں پر شرمندہ نہ ہوں۔انہیں سدھارنے کی کوشش کریں۔اگر جیب اور دل میں حوصلہ ہو تو اردو کتب و رسائل خرید کر پڑھیں۔
رمیشاقمر: اقبال حسن آزاد صاحب! آپ کا بے حد شکریہ کہ آپ نے میرے لیے وقت نکالا اورمیرے سوالوںکا خندہ پیشانی سے جواب دیا۔
اقبال حسن آزاد: آپ کا بھی شکریہ!
رمیشا قمر: شکریہ پھر ملیں گے
٭٭٭
Dr.Ramisha Qamer
H.no 189 near mahindra showroom
Sedam road Kalaburagi 585105(KS)
Mob No:7259673569
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page