بچوں کا سنسار:ایک جائزہ – امام الدین امامؔ
اردومیں نظم نگاری کی شروعات دکن سے ہوئی ہے۔ اردوکے پہلے نظم نگار’’خواجہ بندہ نواز گیسودراز‘‘کوتسلیم کیاجاتاہے۔ان کی نظم ’’چکی نامہ‘‘اردوکی پہلی نظم ہے۔ اس کے بعد نظم نگاری نے دکن میں اپنا ایک خاص روپ دھار لیااور اس کو قلی قطب شاہ کے دور میں کافی فروغ حاصل ہوا اور خود اردوکے پہلے صاحب دیوان شاعر قلی ؔقطب شاہ نے کئی عناوین پر نظمیں تحریر کیں۔انہوں نے پھلوں،سبزیوں،ترکاریوں،پھولوں،تہواروں وغیرہ کو خاص اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔اس کے بعداردونظم میں ایک بڑانام نظیرؔاکبر آبادی کاہے۔نظیرؔ نے اردوشاعری اور خاص طور سے اردونظم میں بہت ہی اہم کردار ادا کیااور اس کوالگ رنگ عطاکی۔نظیرؔکے بعدباضابطہ نظم کے میدان میں کچھ عرصے تک کوئی خاص کارنامہ نظرنہیںآتا،پھر اس کے بعد نظم گوئی کا باضابطہ آغاز’’ انجمن پنجاب‘‘سے ہوتا ہے۔ اس میں مولانا محمد حسین آزاد اور کرنل ہالرائیڈ نے نظم کو خوب فروغ دیا۔اس انجمن کے بینر تلے جو مشاعرے ہوتے تھے اس میں مصرع طرح کے بدلے میں ایک خاص موضوع دیاجاتاتھا۔ شعراء اسی موضوع پر اپنی نظمیں پیش کرتے تھے۔یہاں سے اردومیں نظم نگاری کاباضابطہ طور پرآغاز کہاجاسکتاہے۔اس کے بعد اردوکی نظمیہ شاعری کا ایک بڑاذخیرہ ملتا ہے۔
اردومیں عام موضوعات پر بھی نظم لکھی گئی اور خاص عناوین پر بھی شاعروں نے اپنی نظمیں لکھیں۔ادب عالیہ اور ادب اطفال دونوں کا اپنا اپنا الگ مقام ہے ،ادب عالیہ کے مقابلے میں ادب اطفال تخلیق کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ اس میں بچوں کے ذہن،ان کی عمر،ان کی زبان ،ان کی سمجھ،ان کی نفسیات،ان کے شعوراور ان کے لئے مفید باتوں کوتحریری شکل میں پیش کرنا ہوتا ہے۔کیونکہ قوم و ملت کے یہ نو نہال شروع میں جو باتیں دیکھیں گے،سنیں گے اور پڑھیں گے ان کی ذہنی آبیاری ایسی ہی ہوگی جو ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے کافی ہوں گی۔اس لئے بچوں کے ادیب کو بہت ہی سوچ سمجھ کر اپنی نگارشات تخلیق کرنی پڑتی ہے۔
یوں تو بچوں کے لئے کہانیاں ،نظمیں اردومیں بہت پہلے سے لکھی جارہی ہیں۔ اسماعیلؔ میرٹھی کو بچوں کا شاعر کے نام سے جاناجاتاہے۔علامہ اقبالؔنے بھی اپنے پہلے مجموعہ’’بانگِ درا‘‘میں بچوں کے لئے کئی نظمیں لکھی ہیں۔ ان دونوں حضرات نے انگریزی نظموں کا بھی ترجمہ پیش کیاہے۔عہدحاضرمیں کئی سارے ادیب ادب اطفال میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔جن میں عبدالرحیم نشترکا نام بھی اہمیت کاحامل ہے۔ان کی شاعری کا دائرہ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔انہوں نے ادب اطفال کے ساتھ ساتھ ادب عالیہ میں اپنی تخلیقی صلاحیت کو منوایا ہے۔میرے سامنے ابھی ان کی کتاب’’بچوں کا سنسار‘‘موجود ہے۔جو کہ بچوں کی نظموں کا مجموعہ ہے۔اس سے پہلے بھی موصوف نے بچوں کی ادب پرکئی کتابیں تصنیف کی ہیں جومنظرعام پرآکر داد وتحسین حاصل کر چکی ہیں۔
اس مجموعے کی ابتداء میں حمدباری تعالیٰ بہ عنوان’’حمد اللہ جلِّ جلالہُ‘‘موجودہے۔جوایک بہت ہی پیاری حمد ہے یہ ان کی دین سے محبت کاثبوت دیتی ہے اور روایت کی پاسداری بھی عبدالرحیم نشترنے کی ہے۔ہمارے یہاں ہمارا یہ ماننا ہے کہ کسی بھی کام کوکرنے سے قبل اپنے خالق ،اپنے رب کو یاد کرناچاہئے اس حمد کے ذریعے شاعر موصوف نے وہی کارنامہ انجام دیا ہے،یہ بڑی اہم بات ہے۔اس کے بعد’’اللہ کے کارنامے‘‘اور’’اے مولا!‘‘کے عناوین سے دواورنظمیں شامل ہیں۔اس کے بعد حضور پاک ﷺ کی شان میں بھی اشعار کہے ہیں۔ان اشعارمیں ان کی دینی مزاج اور ان کے عقیدے کااندازہ بھی لگایاجاسکتاہے۔حضور پاک ﷺ کی شان میں نعت یا خدا کی شان میں حمد ہوںیہ تمام اشعاربچوں کے لئے لکھے گئے ہیں اوراسی اندازمیں کہ بچے اس تعلق سے بنیادی باتیں جان سکیں اور اپنے دین و مذہب کی سمجھ ان کو بچپن سے ہو۔
’’بچوں کا سنسار‘‘مختلف عناوین پر لکھئے گئے بچوں کی نظموں کا ایک انوکھاسنگم کہاجاسکتاہے۔ان نظموں کو پڑھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر نے بچوں کی نفسیات کو بہت ہی قریب سے پرکھاہے ،اسی وجہ سے ان کی نظمیں عین بچوں کی نفسیات اور ان کی ذہن اور ان کے شعورکی عمدہ ترجمان کہی جا سکتی ہیں۔
اس مجموعے کی پہلی نظم بہ عنوان ’’زندگی کی جسے آرزو‘‘ہے۔ اس نظم میں دنیاکی بے ثباتی اور زندگی کی ناپائیداری کی طرف اشارہ کیاگیاہے اور آخرمیں شاعر نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اگر پرسکون زندگی کی تلاش میں ہوتو بس اللہ کویاد کرو، اس کے فرامین پر عمل کرو اور اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلو ،پھر کامیابی انسان کا مقدر بنے گی۔اس نظم کا آخری شعرپیش کرتاہوں ملاحظہ کیجئے ؎
زندگی کی جسے آرزو ہو
خالقِ دو جہاں کو پکارے
اس کے بعد حضرت بلالؓ کی شان میں اور ان کی اذان کے تعلق سے ایک نظم تحریر کی گئی ہے۔جس میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو اپنے اسلاف کی کہانیاں اور صحابہ کرام کے واقعات سے واقف کرایاگیاہے۔اصل میں اس نظم میں نبی کریم ﷺ کے اس دنیاسے گزرجانے کے بعد کے ایک واقعہ کا ذکر ہوا ہے۔ جس میں حضرت بلال اذان دیتے ہیں۔شعر دیکھئے ؎
ہر اِک کو یاد آگئی پیارے رسول کی
ہر آدمی ملول تھا چھوٹا ہو یا بڑا
اس کے بعد ایک بہترین نظم ’’کامیابی کاشرط‘‘ہے۔اس نظم میں شاعر نے بچوں سے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ رب تعالیٰ پریقین کامل رکھواور محنت کرتے رہو ۔کامیابی کے لئے یقین محکم،عمل پیہم کی ضرورت ہے۔ایسا نہیں کہ صرف خداپریقین کئے رہنے سے کام ہوجائے گا،یقین کے ساتھ ساتھ عمل(محنت)کی بھی ضرورت ہے جیساکہ قرآن پاک کا بیان ہے کہ ’’زمین پر پھیل جاؤ اور اللہ کی فضل تلاش کرو‘‘اس لئے یقین و عمل دونوں لازم و ملزوں ہیں۔اس میں سے ایک کا بھی دامن چھوٹنا نہیں چاہئے۔
اس کے بعد ایک نظم’’بچہ ‘‘ہے یہ بہت پیاری نظم ہے۔ جس میں بچوں کواخوت و محبت اور بھائی چارے کا درس دیاگیا ہے۔ کیونکہ بچے جوسنیں گے اور دیکھیں گے وہی کچھ سیکھیں گے اس لئے شروع سے ہی ان کو محبت اور بھائی چارا،بھلائی کاسبق اس نظم میں دیاگیاہے۔نمونۂ اشعاردیکھئے ؎
تیرا میرا رنگ نہ دیکھے
تیری میری ذات نہ پوچھے
پھول کی خوشبو جگ مہکائے
بندوں کی اوقات نہ پوچھے
اس مجموعے میں شامل ایک نظم جس کا عنوان ہے’’ننھے بچھے کھیل رہے ہیں‘‘اس نظم میں بچوں کی پیاری صورت ،ان کے مکھڑے کی تعریف وغیرہ کی گئی ہے۔آخری بند بچوں کی نفسیات کی اچھی مثال کہی جا سکتی ہے۔جیساکہ ہم دیکھتے ہیں بچوں کے درمیان کب لڑائی ہوتی ہے،کب صلح ہوتی ہے۔اس کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کھیل کھیل میں لڑلیتے ہیں،پھر کچھ ہی دیرمیںدل سے تمام رنجش اوراختلاف کومٹاکر دوستی بھی کرلیتے ہیں۔اس معصومیت کو عبدالرحیم نشتر نے بڑی خوبصورتی سے شعری پیکر میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی ہے ؎
دنیا خوابوں کی جنت ہے
حور فرشتے کھیل رہے ہیں
دیکھو ! جنگ نہ ہونے پائے
ننھے بچے کھیل رہے ہیں
اس مجموعے میں شامل ایک نظم’’بھوک ہڑتال‘‘ سے یہ اشعاردیکھئے ؎
امی ہاتھ میں تھالی لے کر
پیچھے پیچھے پھرتی جائے
مُنا ٹس سے مس بھی کیا ہو
بس اپنی سی کرتا جائے
ان اشعار پر نظرڈالئے ا س کے بعد کوئی دماغی ورزش کرنے کی ضرورت نہیں ہے بالکل عام فہم انداز میں بچوں کی نفسیات کو کیسے پیش کیا گیا ہے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ہم اپنے گھروں کا جائزہ لیں اپنے گھر کے چھوٹے اورمعصوم بچوں کو ان کی حرکات و سکنات کو اپنی نظروں کے ساتھ رکھے،بالکل ہو بہو بچوں کی حرکت کو فنکارانہ اندازمیں عبدالرحیم نشتر نے یہاں پیش کر دی ہے۔
اسی نظم کے ٹھیک بعد جونظم شروع ہوتی ہے اس کا عنوان ہے ’’ہنگامہ‘‘اس نظم میں بھی بچوں کی نفسیات ،ان کی شرارتیں ،ان کی معصومیت کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے۔اس نظم میں بچوں کی اپنے گھر کے بڑے بزرگوں سے ان کی انسیت اور والہانہ محبت کو بیان کیاگیا۔ان کے سامانوں اور ان کی ضروری چیزوں کو بھی اپنی معصومیت سے الٹ پھیر کر دینا اور بعض دفعہ اس سے نقصان کا بھی خدشہ بنارہتا ہے۔اس کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔شعر دیکھئے ؎
دادی کی عینک پر حملہ
دادا کے ٹیبل پر وار
یہ وہ ننھا جادو گر ہے
کر دیتا ہے ایک کے چار
بچہ ہے یا ہنگامہ ہے
اس مجموعے کی ایک نظم ’’ننھا مصور‘‘بھی قاری کو بے ساختہ اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔اس نظم کی شروعات میں بچوں کی ابتدائی تعلیم کی بھی جھلک ملتی ہے کہ کس انداز میں ان کو بچپنے میں پڑھایاجاتاہے۔کیسے حروف کو ان کے ذہن میں بیٹھانے کے لئے ان کی کتابوں میں طرح طرح کی مصوری کی جاتی ہے۔ ہرحروف سے شروع ہونے والی اشیاء کھلونے اور پھل کی شکل میں بنانے جاتے ہیں تاکہ ان کے ذہن میں ان حروف کوبہ آسانی بٹھایاجاسکے۔اس نظم کی شروعات میں اس کوبہت خوبصورتی سے پیش کیاگیاہے۔یوں تو اس نظم کی شروعات عام سی ہے بالکل جو ہم اپنے گھروں میں سنتے رہتے ہیں ،مگر عبدالرحیم نشترنے اس کو ایک خاص مقصد کے تحت اس نظم میں شامل کیا ہے،جس کی طرف میں نے سطور بالا میں اشارہ کیا ہے۔وہ اشعار دیکھئے ؎
اے ، بی ، سی ، ڈی ، ای ، ایف ، جی
سب حرفوں کو جان گیا ہے
اے فار ایپل بی فار بیٹ
شکلوں کو پہچان گیا ہے
اب یہاں یہ دیکھئے کہ سب حروف کو بچے جان گئے ہیں آسانی سے کیونکہ اے سے ایپل اور بی سے بیٹ ہے۔ کیونکہ وہ شروع سے اپنے گھروں میں سیب اور بلے کو دیکھتے ہیں تو شروع سے ہی یہ باتیں ذہن میں آتی رہتی ہیں کہ اس قسم کے حرف سے ایپل ہوتاہے اوراس کی شکل ایسی ہوتی ہے۔یہ اشعارایک اچھے معلم ہونے کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔مجھے نہیں معلوم کہ عبدالرحیم نشترصاحب کیاتھے اور ان کا پیشہ کیاتھا۔مگر ان کے اندر ایک اچھے استادکی تمام خصوصیات ان اشعارکی روشنی میں اگر کہوں تو موجود ہیں۔
’’بچوں کا سنسار‘‘میں شامل تمام نظموں کا احاطہ کرنا اس چھوٹی سی تحریرمیں ممکن نہیں اس لئے مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق اس مجموعے کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔مجموعی طور پر یہ کہاجاسکتا ہے کہ اس مجموعے میں شامل تمام نظموں بچوں کی سمجھ، ان کے شعور، ان کی نفسیات کو ذہن میں رکھ کر لکھی گئی ہیں اس لئے اس مجموعے کو ایک بہترین ادب اطفال کا نمونہ کہاجاسکتاہے۔خوف طوالت کی وجہ سے انہیں باتوں پر اپنی بات ختم کرتاہوں۔ کیونکہ ؎
کم فرصتی جہاں کے مجمع کی کچھ نہ پوچھو
احوال کیا کہوں میں اس مجلس رواں کا
Imamuddin Imam
Mob.- +91 62061 43783
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page