بہار میں ۱۹۸۰ میں اردو کو دوسری سرکاری زبان تسلیم کیا گیا تھا۔ اس لحاظ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس ریاست میں اردو کی تعلیم کو سنگین اور بنیادی مسائل سے آزاد ہونا چاہئے تھا۔ مشہور ہے کہ بہار میں اردو کی تدریسی صورت حال قابل اطمینان ہے، لیکن جائزہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں اردو کی تدریس دشوار کن مسائل سے دوچار ہے اور پیش بینی کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ اس کے نتائج نہایت برے ثابت ہوں گے۔ البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس صورت حال پر قابو پانا کسی حد تک ممکن ہے۔ ان مسائل کے پیدا ہونے میں حکومت کی پالیسی کے ساتھ خود اُردو والوں کی عدم دلچسپی کا بھی حصہ ہے۔
کالج میں اردو کی تدریسی صورت حال کے جائزہ سے قبل ابتدائی اور ثانوی تعلیم میں اردو کی صورت حال کی جھلک دکھانا ضروری ہے کیوں کہ اگر اعلیٰ تعلیم کے نتائج اطمینان بخش نہیں ہیں تو اس کے ڈانڈے ابتدائی و ثانوی سے بھی ملتے ہیں۔ ابتدائی سطح کی کمزوری کا منصوبہ بند طریقے سے سدباب نہیں ہونے کی وجہ سے یہ اعلیٰ تعلیم تک اثر انداز ہے۔
بہار میں سرکاری وغیر سرکاری ادارے کام کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہاں خصوصاً مڈل سطح کے سرکاری ادارے انتہائی حد تک پسماندگی کے شکار ہیں۔ بنیادی ڈھانچہ کی کمی کے علاوہ مجموعی ماحول اور اساتذہ کی بے پرواہی اور تساہلی اس کے بنیادی اسباب ہیں۔ نتیجتاً لوگ پرائیوٹ انگریزی اسکولوں میں بچوں کو تعلیم دلانے پر مجبور ہیں جہاں اردو زبان کی تدریس کا یا تو انتظام ہی نہیں ہوتا یا معقول صورت حال نہیں ہے۔ اردو داں والدین اس کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ وہاں اردو کی تدریس کا انتظام ہوسکے۔
سرکاری اداروں کے زوال آمادہ معیار کی وجہ سے ان اداروں میں عموماً معاشی طور پر پسماندہ لوگوں کے بچے تعلیم پاتے ہیں۔ معاشی پسماندگی کی وجہ سے ان کی سماجی حیثیت بھی ایسی نہیں ہوتی کہ وہ اساتذہ کی کوتاہیوں پر انگشت نمائی کرسکیں۔ دانشوران ان موضوعات کو لائق اعتنا ہی نہیں سمجھتے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ پرائمری اور مڈل اسکولوں میں اردو اساتذہ کی بے حد کمی ہے۔ کہیں ایک دو ہیں۔ کہیں ہیں ہی نہیں، کہیں کہیں دوسرے مضمون کے اردو داں اساتذہ سے کام چلایا جاتا ہے۔ اردو یونٹوں پر غیر اردو داں اساتذہ بحال کردئیے جاتے ہیں۔ اعلیٰ ثانوی اداروں میں بھی اردو اساتذہ کی بڑی کمی ہے۔ اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ پرائمری سے مڈل سطح تک قومی خواندگی مہم کی وجہ سے کتابیں تو دستیاب ہوجاتی ہیں، مگر اس کے بعد کے مرحلہ میں اردو کے علاوہ دوسرے مضامین کی کتابیں اردو میں دستیاب نہیں ہوتیں۔ مجبوراً خواہش کے باوجود بچے ہر مضمون ہندی یا انگریزی میں پڑھتے ہیں۔ یہ بات بھی افسوسناک ہے کہ پرائمری سے مڈل سطح تک جو کتابیں دستیاب ہیں ان کامعیار انگریزی تو کجا ہندی کے مقابلہ کا بھی نہیں ہے۔ ان حالات سے بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اسکول کے مرحلہ میں ہی اردو تدریس کا معیار اطمینان بخش نہیںہے۔ اگر اس پر قابو نہیں پایا گیا تو مستقبل میں دوسرے صوبوں کی طرح بہار میں بھی اردو اپنا وقار کھودے گی۔ کالج کی سطح پر اردو کی تدریس کو دو زمروں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ پہلا زمرہ اردو ذریعہ تعلیم کا ہے۔ بہار کی کسی یونیورسٹی میںاردو ذریعہ تعلیم نہیں ہے۔ مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی ۱۹۹۸ میں قائم ہونے کے باوجود ۲۰۰۸ میں پہلے تعلیمی سال کا آغاز ہوا۔ یہاں عربی ، فارسی اور اردو میں عالم و فاضل کورسز چلائے جارہے ہیں۔ یونیورسٹی میں مختلف ووکیشنل کورسز بھی دستیاب ہیں جو مختلف Knowledge Resource Centers کے ذریعہ چلائے جاتے ہیں۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے تحت صوبۂ بہار کے دو ریجنل سنٹرس (پٹنہ اور دربھنگہ) میں فاصلاتی نظام تعلیم کے تحت مختلف علوم کی تدریس اردو زبان کے ذریعہ ہورہی ہے۔ اس کے لئے یونیورسٹی ’’خود اکتسابی مواد (SLM)‘‘ دستیاب کراتی ہے۔فاصلاتی طریقہ تعلیم میں درس و تدریس کی یہ کتابیں طلبا کے لئے بہت مفید اور معاون ہوتی ہیں۔ مختلف علوم و فنون پر اردو کے ذریعہ مواد فراہم کرکے ایک طرف طلبائ کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے تو دوسری طرف اردو کے حق میں بحیثیت زبان بڑا کام ہورہا ہے۔دربھنگہ میں یونیورسٹی کا کیمپس بھی ہے جہاں روایتی طرزِ تعلیم کے تحت بی ایڈ ،پالی ٹیکنک ، آئی ٹی آئی اور ماڈل اسکول میں مختلف کورسز کی تعلیم اردو میں دی جارہی ہے۔ این آئی او ایس یعنی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ کے مختلف مراکز میں انگریزی اور ہندی کے علاوہ اردو میں بھی دسویں اور بارہویں جماعت کی سند فاصلاتی تعلیم کے ذریعہ دی جارہی ہے۔ دربھنگہ میں اس کا سب ریجنل سینٹر قائم ہے جو پٹنہ ریجنل سینٹر کے تحت کام کرتا ہے۔ ۲۰۱۷ میں این آئی او ایس کو ملک گیر سطح پر غیر تربیت یافتہ اساتذہ کی تربیت کے لیے D. El. Ed. کورس کا آغاز کیا گیا ہے جس میں بہار کے اساتذہ بھی شامل ہیں۔ اس کورس میں شریک اساتذہ کو اردو میں بھی جوابی پرچے لکھنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ یہ ایک مستحسن قدم ہے ۔
دوسرا زمرہ اردو بحیثیت مضمون کا ہے۔ بہار کی تمام یونیورسٹیوں میں اردو کی تعلیم کا انتظام ضرور ہے اور شعبہ بھی قائم ہے لیکن ان تمام یونیورسٹیوں کے ۱۷۵؍ ملحقہ کالجوں میں اردو کی تعلیم کا بہتر نظم نہیں ہے۔ اردو اساتذہ کی کمی ہے۔ بہت سی جگہوں پر اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ ڈگری سطح تک طلبہ آبھی جاتے ہیں۔ ایم اے کی سطح پر طلبہ کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ اردو شعبے داخلے کے انتظار میں حسرت بھری نگاہوں سے راہ تک رہے ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کالجوں میں اردو کی تعلیم کے لئے جو طلبہ داخل ہوتے ہیں وہ تشفی بخش لیاقت نہیں رکھتے۔ ایسے طلبہ کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جنہیں دوسرے مضامین میں داخلہ نہیں مل پاتا اور وہ اردو پڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایسے طلبہ دلچسپی سے کام نہیں لیتے۔ کچھ طلبہ دلچسپی دکھاتے ہیں تو غزل کی ردیف میں اپنی کائنات رنگین کرتے اور سستی شہرت کے طالب ہوتے ہیں۔عصر حاضر میں تعلیم کا رشتہ روزگار سے حد درجہ وابستہ ہے۔ روزگار کے فقدان کا احساس اردو سے عدم دلچسپی کی اہم وجہ ہے۔ ضرورت ہے کہ پی جی سطح کے نصاب میں صحافت، ترجمہ نگاری ، کمپیوٹر اور اشتہار سازی وغیرہ کو بھی شامل کیا جائے تاکہ طلبہ میں خود اعتمادی پیدا ہو اور وہ عصری ضرورتوں سے نبردآزما ہوسکیں۔
اعلیٰ تعلیم کا شعبہ خواہ کسی زبان میں ہو اس لئے قائم کیا جاتا ہے کہ اس میں ایسی تدریس ہوسکے جس سے طلبا و طالبات نہ صرف اپنا مستقبل سنوار سکیں بلکہ زبان و ادب کو کچھ دے بھی سکیں۔ مشہور ادکار و مکالمہ نگار قادر خان نے ایک انٹرویو میں یہ تشویش ظاہر کی تھی کہ وہ زمانہ بہت جلد آئے گا جو اردو کی ادبی دنیا سے لے کر فلمی دنیا تک ایسا خلا پیدا کردے گا کہ آپ کو مکالمہ نگار چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے۔ کوئی اسکرپٹ رائٹر تلاش کریں گے تو دستیاب نہیں ہوگا اور اتنا ہی نہیں جو مکالمے آج بھی زبان زدِ عام ہیں، ’مغلِ اعظم ‘ اور ’شعلے‘ جیسی فلموں کے مکالمے ہوں یا سیریل’مہابھارت‘ میں ڈاکٹر راہی معصوم رضا کے مکالمے ،جو عوام کی زبان پراپنا اثر چھوڑتے ہوں ان کی تدریس کا کہیں انتظام نہیں ہے۔ اب وہ علم سینہ بہ سینہ بھی نہیں آرہا ہے اور بقول وکیل اختر:
جہالت کا عالم جو راہوں میں تھا
کم و بیش وہ درس گاہوں میں تھا
اس لئے اردو کی تعلیم کا ایسا انتظام اردو طلبا و طالبات کے لئے کرنا ضروری ہے کہ یہ تمام عملی تقاضے جو آج کے سسٹم سے جڑے ہوئے ہیں ان کو پورا کیا جاسکے۔ ملک بھر میںآپ گھوم کر دیکھ سکتے ہیں کہ ان تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اگر کتابیں ڈھونڈی جائیں اور دستیاب ہو بھی جائیں تو وہ تشنہ ہوں گی۔ یہاں میں یہ بتادینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ کتابوں کی تیاری میں نصابی کمیٹی پرانے فارمولوں کی جگہ جدید مقاصد کو جگہ دے۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کی نصاب سازی سہل انداز میں ہو اور مبنی بر عمل ہو نیز ایسی کتابیں ترتیب دی جائیں جن سے مذکورہ بالا مقاصد پورے ہوسکیں۔دوست نوازی ، احباب نوازی اور رشتہ داری کو راہ نہ دی جائے۔
کتابوں میں شاعری کے جو مروجہ اصول و ضوابط ہیں یا صرف و نحو ہے اسے اور سہل اور عملی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل جو شاعری کی طرف راغب ہونا چاہتی ہے اُسے سہل زبان میں عروض و بلاغت سے واقفیت ہوسکے۔ غیراردو داں بھی جو عروض و بلاغت سیکھنا چاہتے ہیں ان کے لئے بھی سہل اور آسان اصول سامنے آسکیں تب ہی اس کی افادیت اور زبان کو زندہ رکھنے کی تمام تر مہم کامیاب ہوسکتی ہے۔ اس ضمن میں نوجوان شاعر ، ادیب، صحافی اور استاد ڈاکٹر کامران غنی صبا نے وہاٹس ایپ کے ایک گروپ ’’درس و تدریس ‘‘ میں فلمی نغموں کی مدد سے نومشق شعرا کو آسان طریقے سے عروضی اصطلاحات اور تقطیع سکھانے کی کوشش کی تھی۔ اس سلسلے میں انھوں نے ’’میں کہیں کوی نہ بن جاؤں ‘‘ کے عنوان سے تین قسطیں گروپ میں ڈالی تھیں ۔ یہ ایک قابلِ ستائش قدم ہے۔ اس کی توسیع ضروری ہے۔
اخیر میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ مجموعی طور پر بہار کی درس گاہوں میں اردو تعلیم کے مسائل کی بنیادی وجہ خود اُردو والوں کی اپنی زبان سے محبت و رغبت کا فقدان ہے۔ جب تک ہم اپنے گھروں میں اردو کے چلن کو عام نہیں کرتے اس وقت تک اردو کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ حکومت وقت اور تعلیمی اداروں پر منظم دبائو ڈالنے کے لئے اردو والے پہلے خود متحد ہوں اس کی کمی ہرجگہ نظر آتی ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ مسلّم ہے کہ اردو کے خلاف سیاست ہوتی رہتی ہے لیکن اسے بھی ہمارے انتشار سے ہی تقویت ملتی ہے۔ مادری زبان کا مسئلہ صرف زبانی ہمدردی سے حل نہیں ہوسکتا ۔ اس کے لئے ایثار و قربانی سے سرشار ہوتے ہوئے مضبوط اور مستحکم اقدامات کی ضرورت ہے۔ بقول علامہ اقبال :
گیسوئے اردو ابھی منت پذیرِ شانہ ہے
شمع یہ سودائیِ دل سوزیِ پروانہ ہے
………
مدیر اعزازی ، اردو جریدہ ’’تمثیل نو‘‘ گنگوارہ ، دربھنگہ-۸۴۶۰۰۷(بہار)
٭ ریجنل ڈائریکٹر (مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ) ، کولکاتا ریجنل سینٹر
’محسن میریج ہال‘ ، ۱؍اے / ۱، چھاتو بابو لین ، کولکاتا-۷۰۰۰۱۴ ؛ موبائل : 08902496545
/ 9431085816
ای میل : imamazam96@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |