افسانہ۔۔۔
ندی کے اس پار۔۔۔ نارنجی سورج کے پائوںسطح آب سے آلگے تھے اورسنہری دھوپ کی ایک جھلملاتی سڑک، اِس طرف گھاٹ کی سیڑھیوں تک چلی آئی تھی۔کبھی کبھی کسی ناوْ یا کشتی کے گذرنے سے یہ مندمل ہوتی اور دوبارہ آپ سے آپ تعمیر ہو جاتی۔ان سنہری کرنوں میں نہائے۔۔۔وہ دونوں۔۔۔سیڑھیوں پر بیٹھے تھے۔۔۔ آڑے ترچھے۔۔۔ ایک دوسرے کی طرف رخ کئے اوران کے درمیان تھی شطرنج کی بساط اور اس پر سجے ہوئے مہرے۔۔۔۔
’’ بول بھگوان، کیا سوچا تونے ؟‘‘
بھگوان داس بڑے خلجان میںتھے۔ان کا وزیر بری طرح پھنس چکا تھااور اب یہ بازی بہت زیادہ دیر کی مہمان نہیں تھی۔انہیں اس بات کی فکر نہیں تھی کہ ان کی مات ہوگی بلکہ وہ اس لئے پریشان تھے کہ یہ آج کے آخری لمحات تھے۔ ذرا ہی دیر میں سورج ڈوبنے لگے گا۔۔۔اور وہ اپنے اپنے خدا کے حضور حاضری کے لئے روانہ ہو جائیں گے۔
ــ’’ اب کیا سوچنا یار۔جب تک چلتی ہے ،چلتی رہے۔‘‘
’’ اچھا، میں اپنی چال واپس لیتا ہوں، تو بھی ایک نئی چال چل۔‘‘
واپسی کا یہ لین دین، ان کے بیچ روز ہی ہوتا تھا۔بھگوان داس نے مسکرا کر ہاشم علی کی طرف دیکھا۔ چال ایک ایک قدم پیچھے گئی او ر بازی نے ایک تازہ سانس لی۔
’’ یار ہاشم، مجھے پوجا بٹیا کے بیاہ کی بڑی چنتا ہے۔ اب اس کی ڈولی اٹھ جاتی۔بہو ماننے کو تیار نہیں ۔ کہتی ہے ،وہ ابھی اور پڑھے گی۔بڑی پریکشا دے گی۔سب سے بڑی پریکشا تو جیون کی پریکشاہوتی ہے۔‘‘
’’ پوجا سے ہی پوچھ لیتے۔ ‘‘
’’ عجیب لگتا ہے۔۔۔ کیسے پوچھوں۔۔۔ اس کی دادی ہوتی تو بات ہی کچھ اور تھی۔‘‘
’’ درست کہاپنڈت۔۔۔وہ منحوس کال ہی ایسا تھا۔۔۔بھابھی۔۔۔تمھارا بیٹا۔۔۔‘‘
بھگوان داس کی آنکھوں میں اداسی اتر آئی اور چہرے پر چمکتا ہوادھوپ کا سونا میلا ہوگیا۔
’’ سچ کہوں۔۔۔اب جیون پر سے بھروسہ اٹھ گیا ہے۔ کیسے کیسے کڑیل جوان۔۔۔کیسے کیسے ہٹہ کٹہ لوگ دیکھتے دیکھتے اٹھ گئے۔اس شمشان میں چتاوْں پر چتائیں جلیں۔جلے ادھ جلے شو گنگا جی میں بہتے ملے۔‘‘
’’ سچ کہتے ہو پنڈت، ہمارے ہاں بھی ایسا ہی حال تھا۔ قبرستانوں میںجنازوں کی قطار لگی تھی۔ جگہ کی کمی۔لوگ زمین پکڑ پکڑ کر بیٹھ گئے تھے کہ یہ جگہ ہماری ہے۔ ‘‘
’’ ہم نے پوجا پاٹھ کئے۔ بھجن کیرتن کئے۔تم نے گلی گلی اذانیں دیں مگر اوپر والا ایسا روٹھا کہ بس۔الٹا ان مندروں مسجدوں کے دروازے بھی بند ہو گئے۔ ‘‘
بوجھل بوجھل ساعتوں کے تلے بازی ختم ہو چکی تھی۔ سورج غروب ہو رہا تھااور اپنے بھاری۔۔۔نیند سے بوجھل پپوٹوں کی اوٹ سے انہیں شطرنج کی بساط سمیٹتے دیکھے جا رہا تھا۔ تبھی بھگوان داس گویا ہوئے۔
’’ کل تیوہار ہے۔ پرسوں شوبھا یاترا۔ اب دو دنوں بعد ملتے ہیں، ‘‘
ہاشم علی شطرنج کی بساط اور مہروں کا ڈبہ سنبھالے گھر کی طرف چل دئے۔
اور وہ جو گھر آئے تو گھر کے ہی ہو رہے۔ ۔۔ مگر بے چین۔۔۔ بے قرار۔۔۔۔
ہوا یوں کہ جانے کہاں سے ایک سانڈ۔۔۔ شوبھا یاترا میں درانہ گھس آیا۔ بھگدڑ مچ گئی۔کئی لوگ زخمی ہوئے۔شاید کسی کی جان بھی گئی۔اس سانڈکے پیچھے پیچھے ایک افواہ آئی۔وہ سانڈ تو کسی طرف نکل گیا لیکن حالات نے ایک بے قابو سانڈ کا روپ اختیار کر لیا۔مخصوص جگہوں پر توڑپھوڑ، آتش زنی اور خون خرابے کا بازار گرم ہو گیا۔حالات اتنا بگڑے کہ انتظامیہ کو کرفیو نافذ کرنا پڑا۔
یہ دن ۔۔۔ہاشم علی پر بہت بھاری گزرے۔ انہیں ایک پل چین نہیں۔عجیب بے قراری۔کبھی بستر پرآلیٹتے، کبھی گھر کی بالکنی میں آکھڑے ہوتے اور نیچے گلی میںادھر ادھر اور ۔۔۔ دور۔۔۔گلی کے سامنے سے گزرتی ہوئی سڑک کو دیکھتے رہتے۔
دود نوں بعد کرفیو ہٹ گیاتو ان کے چہرے پر بشاشت کے آثار نمودار ہوئے۔انہوںنے بالکنی پر کھڑے کھڑے پورے حالات کا جائزہ لیا۔دوپہر بیتی۔ عصر کی نماز ادا کی اور باہر نکلنے کی تیاری کرنے لگے۔ ادھر سے گزرتے ہوئے بیٹے نے دیکھا تو ماں کے پاس پلٹ آیا۔
’’ اماں، کچھ گڑبڑہے۔ابا باہرنکلنے کو تیار ہیں۔ ‘‘
اس دوران وہ ایک بار پھر بالکنی میں آگئے تھے۔
’’ ایسا؟ ‘‘ ماں ساڑی کا پلو سنبھالتی ہوئی ادھرہی چلی آئیں’’ کیوںجی، کہاں کی تیاری ہے؟‘‘
’’ وہ بھگوان داس۔۔۔ اتنے دنوں سے اس کی کوئی خبرنہیں۔۔۔سوچا گھاٹ کی طرف ہو لوں۔۔۔۔۔‘‘
’’ ابا،ابھی ادھر جانا بیحد خطرناک ہے۔ آپ فون سے ان سے بات کرلیتے۔‘‘
ماں تڑ سے بولیں’’بیٹا، تم بولو گے، تب یہ فون کریں گے۔اب تک کتنی ہی بار کر چکے ہوں گے۔ ‘‘
’’ ہاں‘‘ وہ کچھ خفت آمیز لہجے میں بولے’’ ہاں، کوشش تو کئی بار کی، مگر لگا ہی نہیں۔ یہی تو فکر کی بات ہے۔‘‘
’’ اور ابا، ہمیں آپ کی فکر ہے۔اس طرف جانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ابھی حالات میں سدھار نہیں آیا ہے۔ ‘‘
’’ کرفیو تو ہٹ چکا ہے۔۔۔اور وہ دیکھو۔۔۔سامنے تیل مل کا ذیلی پھاٹک بھی کھل گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے سڑک پر لوگوں کی آمد ورفت شروع ہو گئی ہے۔ ‘‘
’’ کرفیو ہٹ گیا ہے مگر ایک سو چوالیس تو ابھی لگا ہے۔‘‘
’’ کون سا مجھے ڈگڈگی بجا کر مجمع اکٹھا کرنا ہے۔ ۔۔اور دیکھوبھگوان داس ضرور میرا نتظار کرتا ہوگا۔۔۔پھرمجھے لگتا ہے۔۔۔کہ جب میں وہاں نہیں جاتا ہوںتوجیسے سورج بھی میرے انتظار میں رکا رہتا ہے۔ ‘‘
ماں پھر تڑ سے بولیں ’’ ہاں، تبھی کہوں کہ آخر رمضان میں دن اتنا لمبا کیسے ہو جاتا ہے۔‘‘
بہو ،جو دروازے کے پیچھے آدھی چھپی۔۔۔باتیں سن رہی تھی۔۔۔اپنی ہنسی چھپانے کی خاطر پوری کی پوری چھپ گئی۔
ہاشم علی کچھ جھینپ سے گئے اور بولے ’’ دیکھو مجھے وہاں کوئی خطرہ نہیں۔مجھے سب پہچانتے ہیں۔ میں تو بچپن سے ادھر آتا جاتا رہا ہوں۔‘‘
’’ ابا، اب زمانہ بدل گیا ہے۔ویسے جیسی آپ کی مرضی۔مگر ذرا سنبھل کر جائیے گا۔‘‘
ان کے چہرے پر اطمینان کی د مک د وڑ گئی۔ انہوں نے بساط اورمہروں کا ڈبہ اٹھایا اور سیڑھیوں کی طرف چل دئے۔
سڑک پوری طرح ویران تھی۔اکا دکا راہگیربھی مشکل سے دکھ رہے تھے۔سڑک کے دونوں اطراف، سبزی کی دکانوں سے باہر پھینکے گئے پتوں اور سڑی گلی سبزیوں پر لاوارث جانور منہ مار رہے تھے۔
ہاشم علی بے فکری اور شوق سے بھرے۔۔۔تیز تیز قدم بڑھاتے جا رہے تھے۔ ان کی منزل اب ان سے بہت زیادہ دور نہیںتھی کہ پیچھے سے آتی ایک موٹر سائیکل انہیں ٹکر مارتی ہوئی گذر گئی۔ وہ لڑکھڑائے۔۔۔سنبھلے۔۔۔پھر لڑکھڑائے اور اوندھے منہ گر پڑے۔ گرتے گرتے انہوں نے دیکھا۔۔۔موٹرسائیکل پر تین نفس سوار تھے اور دو کے ہاتھ ہوا میں لہرا رہے تھے۔ وہ بدقت تمام اٹھے۔ چند لمحے یوں ہی بیٹھے رہے۔ان کی ہتھیلیوں میں خراشیں آئی تھیں۔بایاں گھٹنا چھل گیا تھااور پائجامے کا پائینچا وہاں سے ادھڑ گیا تھا۔ انہوں نے آس پاس نظر دوڑائی۔ ذرا د وری پر بساط پڑی تھی اور مہرے دور دور بکھرے ہوئے تھے۔ انہوں نے اٹھ کر،مہروں کو چن چن کر۔۔۔گن گن کرڈبے میں رکھا۔چند ثانئے کچھ سوچتے رہے، مگر ان کے قدم واپسی کے لئے تیار نہیں ہوئے۔
پولس چوکی کا چوراہا پار کر۔۔۔ وہ آگے بڑھے۔سو قدم کی دوری پر۔۔۔بائیں جانب کو حضرت دریا شہید بابا کا آستانہ تھا۔ انہوں نے دیکھا۔۔۔چہاردیواری جگہ جگہ سے ٹوٹی تھی۔اینٹیں بکھری پڑیں تھی۔سبز گیٹ کا ایک پلہ ٹوٹ کر وہیں زمین پر پڑاتھا اور دوسرا آدھا ٹوٹاجھول رہا تھا۔ وہ ٹھٹک گئے۔چند لمحے کھڑے کچھ سوچتے رہے پھر حضرت شہید بابا کو سلام عرض کیا اور سڑک سے دائیں جانب اتر کر میدان کی سمت ہو لئے۔ وہ میدان کے وسط میں پہنچ کررک گئے اور انہوںنے بائیں جانب دیکھا۔۔۔جہاںشہید باباکا آستانہ تھااور ٹھیک اتنے ہی فاصلے پر ۔۔۔دائیں جانب۔۔۔ ناتھ بابا کا مندر اور گھاٹ۔اسی میدان میں کھیل کر وہ بڑے ہوئے تھے۔ انہیں خوب یاد
ہے ۔۔۔کھیلنے کے بعد ۔۔۔کبھی وہ بھگوان داس کے ساتھ گنگا میں ڈبکیاں لگاتے۔کبھی بھگوان داس ان کے ساتھ۔۔۔حضرت بابا کے احاطے میں لگے ہینڈ پمپ پر منہ ہاتھ دھوتا اور جی بھر پانی پیتا۔
ان کی ہتھیلیوں میں جلن اور گھٹنے میں ٹیس اٹھ رہی تھی۔
۔۔۔تو کیا، سچ مچ زمانہ بہت بدل گیا ہے۔کیا یہ ممکن ہے کہ ان تینوںمیں کوئی میرا شاگرد ہو۔یا پھر شاید سارے ہی۔
وہ آگے بڑھے۔ ۔۔مٹی کی ہلکی سی پہاڑی نما چڑھائی پر چڑھے۔اس کے آگے۔۔۔ندی سے نکلنے والی نہر کے اوپربنی لکڑی کی پرانی اور مخدوش سی پلیا سے ہوتے ہوئے مندر کی جانب مڑ گئے۔
بھگوان داس مندر کے صحن میں کھڑے کسی سے محو گفتگو تھے۔ ہاشم علی کو آتا دیکھ تیزی سے ان کی جانب لپکے۔
’’ ارے تو کیوں آگیا۔ ۔۔اور تجھے یہ چوٹ کیسے آئی ؟‘‘
’’ یہ سب چھوڑ۔۔۔ پہلے یہ بتا۔۔۔تیرا فون کیوں نہیں لگتا ہے؟ ‘‘
’’ میرا موبائیل اس روز بھگدڑ میں کہیں کھو گیا۔ پھر سب کچھ بند۔آج ایک دکان کھلی۔۔۔گیاتو وہاں بھیڑ۔میں واپس آگیا۔‘‘
’’ میں بہت گھبرایا ہوا تھا۔‘‘
’’ اور میں بھی۔۔۔اچھا سن۔۔۔اب واپس چلا جا۔پھر جب سب ٹھیک ہو جاتا ہے،تب ملتے ہیں۔ ‘‘
ان کی آنکھوں میں کچھ تھا،جسے دونوں ہی چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہاشم علی نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی شطرنج کی بساط اور مہروںکے ڈبے کو بے حد خاموشی سے پنڈت بھگوان داس کے ہاتھوں میںتھما دیا۔ چند لمحے ان کی آنکھوں میں دیکھتے رہے۔ پھر واپسی کے لئے قدم بڑھا دئے۔
واپسی کا سفر تکلیف دہ تھا۔کئی دیکھے ان دیکھے ز خموںسے ٹیس ابھر رہی تھی۔گھر والوں سے انہوں نے اندر کے زخم چھپا لئے مگر ظاہری چوٹ کو نہیں چھپا پائے۔ لوگ بولتے رہے ،وہ سنتے رہے اور فرسٹ ایڈ باکس نکال کر خراشوں کی صفائی کرتے رہے۔
’’ ابا ، آپ نے دیکھا نا۔۔۔‘‘
وہ خاموش رہے۔
’’ ابا، آپ کل بھی جائیں گے۔‘‘
’’ نہیں بھائی !!‘‘
اس کے آگے سارے سوالوں کے جواب میں خاموشی چھائی رہی۔
یہ خاموشی اگلے روز عصر کی نماز تک برقرار رہی مگر اس کے بعد پرندے کے من کی بیقراری بڑھنے لگی ۔وہ پنجرے میں چکرانے لگا۔۔۔ اور اس طرح ایک بار پھر وہ گھر کی بالکنی میںآکھڑا ہوا۔ دیکھنے والوں نے اس کی حالت دیکھی اور اس کے پیچھے ہو لئے۔ بیٹا۔۔۔پھر ماں۔۔۔بہو بھی یقیناََ کہیں اوٹ میں ہوگی۔
’’ ابا۔۔۔ کچھ سوچ رہے ہیں! ‘‘
’’ سوچتا ہوں۔۔۔پولس چوکی تک ہو آئوں۔ ‘‘
’’ ابا، آپ کی سوچ اب بھی نہیں بدلی۔آپ سمجھتے ہیں کہ مہرے صرف شطرنج کی بساط تک محدود ہیں۔ اب بہت کچھ بدل چکا ہے۔ ایک اندیکھی سی دیوار اٹھ چکی ہے۔ ‘‘
’’ کیا بدلا۔۔۔کہاں بدلا۔۔۔ اورکیسی دیوار۔۔۔ابھی جو یہ وبا آئی، توکس کا خون کس میں۔۔۔کس کا پلازمہ کس میں۔مل جل کر پھر سب ایک ۔ پھر میں کہ رہا ہوں کہ پولس چوکی سے واپس آجائوں گا۔‘‘
وہ جانتے تھے کہ یہ راست گوآج صریح جھوٹ بول رہا ہے۔
ماں بیٹے سے مخاطب ہوئیں۔ان کے لہجے میں طنز تھا ’’ جانے دو بیٹا، میرے لئے آدھی پنشن بھی بہت ہے۔‘‘
ادھر ادھ چھپی بہو نے پھر اپنے آپ کو پورا چھپا لیا۔
ہاشم علی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئے۔ نیچے اتر کر انہوں نے اوپر دیکھا۔۔۔دونوں بندشیں کھڑی تھیں۔گلی سے سڑک پر داہنے مڑتے مڑتے انہوں نے ایک بار پھر دیکھا۔اب وہاں تین ہیولے موجود تھے۔ موڑ سے تقریباََ آدھا کلو میٹر کی دوری پر واقع پولس چوکی انہوں نے پار کرلی۔اس کے آگے چوراہا پار کیا اور شہید بابا کے آستانے تک آگئے۔چہار دیواری کی مرمت ہو رہی تھی۔ٹوٹے ہوئے پلے ہٹا لئے گئے تھے ۔ انہوں نے بابا کو سلام عرض کیا اور سڑک سے داہنی جانب اتر کر۔۔۔میدان کا رخ کر لیا۔میدان گذرا۔اونچے نیچے رستے آئے۔پرانی اور مخدوش پلیا پر سے گزرنا ہوا۔۔۔ اور داہنی جانب مندر کا بیرونی صحن۔۔۔۔۔
مندر اور گھاٹ پر آنے جانے والے انہیں دیکھتے۔۔۔ سفید کرتا پائجامہ۔۔۔مشت بھر داڑھی۔۔۔سر پر ٹوپی۔۔۔
دیکھتے ۔۔۔ایک لمحہ کو ٹھٹکتے ۔۔۔کچھ کے ہونٹوں میں جنبشیں ہوتیں۔کچھ کی آنکھیں مسکراتیں۔۔۔ اور وہ آگے بڑھ جاتے۔
انہوں نے جوتے اتارے اور صحن سے ہوتے ہوئے گھاٹ کی جانب چل دئے۔
بھگوان داس اپنی جگہ پر موجود تھے۔۔۔ مگر کہیںخیالوں میں گم ۔ان کی نظریں سامنے خلاء میں مرکوز تھیں۔
اس راستے پر کہ جہاں سے ہوکرسنہری کرنوں والی سڑک ان تک آتی تھی۔۔۔ایک طویل القامت کشتی کسی عفریت کی مانندآکھڑی ہوئی تھی۔ موافق ہوا کے زور سے ، اس پر لگا بڑا سا جھنڈا پوراکھل کر لہرا رہا تھا او رجس نے چمپئی سورج کوپوری طرح ڈھانپ لیا تھا۔
وہ بھگوان داس کے سامنے جا کر بیٹھ گئے۔
’’ علی! ‘‘ بھگوان داس جیسے کسی گہری نیند سے چونکے ۔۔۔’’ میں جانتا تھا۔۔۔ میں جانتا تھا !‘‘
وہ ایک دوسرے کا ہاتھ بڑی شدت سے تھامے ہوئے تھے۔ دبائو کے سبب ہاشم علی کی ہتھیلیوں کی خراش میںسوزش ہو رہی تھی مگر اس میں بھی ایک مٹھاس تھی۔ ایک عجیب سے جذبے نے ان کے چہروں پر تمازت بکھیر دی تھی۔
اسی دوران، پوجا کے لئے آئی پوجا۔۔۔اپنے بابا کو ڈھونڈتی ہوئی گھاٹ تک چلی آئی۔ اس نے دونوں کو دیکھا۔۔۔ ایک لحظہ کو رکی پھر مسکراتی ہوئی واپس لوٹ گئی۔
اسی پل۔۔۔ایک مدت سے سینہ تانے کھڑے عفریت کو مانو کسی نے ایک زوردار دھکا دیا۔اس میں حرکت ہوئی ۔۔۔وہ آہستہ آہستہ سرکنے لگا۔ کرنیں جھانکنے لگیں اور ایک بار پھر وہ مجسم کندن ہو گئے۔
( تمام شد)
Aslam Salazaar
c/o Md Aslam Jehangir
New Millat Colony, Sector- 1,
Opp: Sabazpura More,
PO: Khagaul, Patna 801105
email: aslamsalazaar@gmail.com
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page