چراغاں سرِ خواب – عبداللہ ندیم
مرشد (مشتاق احمد یوسفی ) نے ٹونک کی وجہِ شہرت خربوزے اور وہاں کے “چکّوبازوں “ کو بتایا ہے۔ہم اس فہرست میں ایک اضافہ کرنے کی جسارت کر رہے ہیں ،ارشد عبد الحمید ۔وہ ہمارے بزرگ ترین شعراء میں سے ہیں ۔واضح رہے کہ “بزرگ” یہاں “مرگ از شیطان بزرگ” والا ہے ۔ستر کی دہائی میں جب ایران اور امریکہ کے درمیان کشاکش تھی ،تہران کی دیواروں پر جا بجا یہ نعرہ دکھائی دیتا تھا ۔اردو کے سادہ لوح اخبار آج بھی امریکہ کو “شیطان ِ بزرگ “ لکھتے ہیں ۔ہم ارشد صاحب کواردو والا
“بزرگ “ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ تصویر میں تو وہ ہم سے بھی جوان دکھائی دیتے ہیں ۔ویسے اس شادابی کا راز انھوں نے کچھ یوں کھولا ہے
ہم جو سر سبز ہیں ارشد تو ہمارے دل نے
خود کو اک شاخِ نمودار سے باندھا ہوا ہے
چراغاں سر خواب انکا دوسرا مجموعہ ہے ،اس سے پہلے 2004 میں “صدائے آبجو” کے نام سے پہلا مجموعہ آیا تھا ۔تین عشروں سے زائد اس شعری سفر کا ماحصل صرف دو مجموعے ؟ اس پر چنداں تعجب نہیں کرنا چاہیے کہ شاید یہ اہلِ ٹونک کا وطیرہ ہے ۔یوسفی نے لکھا ہے کہ وہ نئے مضامین لکھنے کے بعد انھیں “پال “ میں لگا دیتے تھے کہ سال ڈیڑھ سال بعد انھیں نکال کر دیکھیں گے کہ ان میں کچھ دم ہے یا نرے سوختنی ہیں ۔
شہریار صاحب تو کہہ گئے ہیں کہ
گھر کی تعمیر تصور میں ہی ہوسکتی ہے
اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے
چراغاں سر خواب کی قرآت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ارشد عبدالحمید صاحب نے بھی خوابوں کی ایک الگ دنیا سجائی ہے ۔قاضی جمال حسین صاحب جنھوں نے مجموعے پر ایک بڑا وقیع مضمون لکھا ہے ،یوں رقم طراز ہیں
“ارشد نے خوابوں کی ایک الگ دنیا بسائی ہے جو مادی اور محسوسات کی دنیا سےبہت دور اوراس کے اصولوں سے آزاد ہے۔یہ ارشد کی مخصوص اور پسندیدہ جولاں گاہ ہے ۔یہیں خوابوں کی تعبیر ممکن ہےاور یہیں ذہن ودل کی آسودگی کا سامان فراہم ہے “
ایک صارفیت زدہ معاشرے میں ،جہاں تمام اعلیٰ اقدار رو بہ زوال ہیں ،خواب ایک حساس انسان کی جائے پناہ ہیں ۔یہ نہ تو ایک فینٹسی ہیں اور نہ ایک فراری ذہنیت کی غماز بلکہ یہ وہ زرہ بکتر ہے جو ایک حوصلہ مند انسان اس کشاکش دوراں سے مبازرت کے لیے روز پہنتا ہے
نور امکان کا ہو جیسے نمایاں سرِ خواب
صرف احساس ہے یا ہے یہ چراغاں سرِ خواب
جب سے جاری ہوئی ہے جوئے امید وتسلیم
بستے جاتے ہیں سمرقند وبدخشاں سرِ خواب
تنگیاں جس میں حقیقت کی سماتی ہی نہ تھیں
دیکھتا ہوں کہ کشادہ ہے وہ داماں سرِ خواب
خواب کے سینے سے لگ کر سو رہو سب ٹھیک ہے
صبح ہو جائے تو شکرِ رب کرو سب ٹھیک ہے
یہ ٹھیک ہے کہ کبھی ان کے خوابوں کو “رعشہ “ ہوجاتا ہے اور “ناقۂ عزم “ کے پاؤں “ریگ” میں دھنس جاتے ہیں لیکن وہ پھر سنبھالا لیتے ہیں اور “رخت خواب “باندھ کر سفر پر گامزن ہوجاتے ہیں کہ انکا عقیدہ ہے کہ
دل ونگاہ کو بیتاب دیکھنے کے لیے
جہاں میں آئے ہیں ہم خواب دیکھنے کے لیے
غزل ایک پائمال صنفِ سخن ہے اور مضمونِ تازہ کی راہ بند نہ ہونے اور تاقیامت بابِ سخن کھلا ہونے کے باوجود ،اس میں کوئی نئی بات کہہ پانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ۔اوپرسے میر صاحب یہ ظلم کر گئے ہیں کہ تقریبا ہر انسانی جذبے کو انھوں نے قلم بند کر دیاہے ،لیکن اگر شاعر ذکی الحس ہو اور اس کی قوتِ مشاہدہ اس درجے کی ہو کہ وہ انفس وآفاق سے ماورا دیکھ سکے ،تو وہ ایک متوازی کائنات تخلیق کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔آسکر وائلڈ اسی بات کو کچھ یوں کہتا ہے
“The proper aim of art is to lie,or tell of beautiful,untrue things “
ایک فنکار جب ٹرانسینڈینس Transcendence کی اس سطح پر پہنچ جاتا ہے تو ایسے معنوی اور لفظی پیکر خلق کرتا ہے جو عام انسانی ذہن کے پرے ہوتے ہیں ۔وہ استعاروں کی مدد سے ایسی امیجز بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہےجو ایک جہان نو کا التباس پیداکردیتے ہیں ۔چراغاں سر خواب میں بھی ہمیں اس نوع کے اشعار مل جاتے ہیں
خوف کے کون سے گنبد سے ہوئے ہیں آزاد
یہ پرندے کہ نہ منقار نہ پر کھولتے ہیں
پرندوں کا منقار اور پر نہ کھولنا ایک عام مشاہدے کی بات ہو سکتی ہے اور اس سے بھی خوف کی ایک امیج بنتی ہے لیکن اس شعر کو مصرعہ اولی نے بنایا ہے جہاں پرندوں کی آزادی کو خوف کے گنبد سے مشروط کردیا گیا ہے ۔آزادی اور خوف باہم متضاد ہیں اور آزادی میں خوف نہیں بلکہ رجائیت ہوتی ہے اور اس طرح سے یہ خوف کی اعلی ترین شکل ہے کہ ان پرندوں کو نہ جانے کس خوف کے گنبد سے آزادی ملی ہے کہ یہ سہمے سہمے سر جھکائے بیٹھے ہیں ،نہ یہ اڑان کے لیے پر کھول رہے ہیں اورنہ آوازیں نکال کر اپنی آزادی کا جشن منا رہے ہیں
غم کے آتش دان سے امید کے خورشید تک
یخ زدہ سب ہیں لہو برفاب کو کچھ مت کہو
لہو برفاب ترکیب تو لاجواب ہے ہی لیکن لہو کی برفابی کی جو شکل ابھر کر رہی ہے ،وہ بالکل منجمد کر دینے والی ہے ۔جب نہ تو غم کے آتشدان میں کوئی آگ بچی ہے اور حالت یہ ہے کہ یہ بالکل سرد پڑا ہوا ہے اور نہ خورشید امید میں کوئی حرارت موجود ہے اوروہ اپنی بنیادی صفت سے محروم ہو چکا ہے تو پھر لہو کے برف ہوجانے پر چنداں تعجب نہیں کرنا چاہیے ۔
یہ ہم جو دشت تحیر کے شعر کہتے تھے
ہماری غزلوں پہ سایہ کسی غزال کا تھا
اس شعر میں کلیدی لفظ سایہ ہے کہ دشت میں غزال کا ہونا ایک عام سی بات ہے ۔سایہ سے ذہن کسی پری یا آسمانی مخلوق کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور ایک ماورائی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے
میں خیرہ آنکھیں لیے چھانتا تھا خاک مثال
وہ نور دشت ِ تصور میں اس جمال کا تھا
ایک بار آنکھیں خیرہ ہو جانے بعد کسی چیز کا دیکھنا محال ہوجاتا ہے لیکن اس شعر میں جو امیجری ہے وہ آنکھیں خیرہ کرکے ہی دیکھی جاسکتی ہے
فراق صاحب نے بڑے فخر ومباہات اور تعلی سے کہاتھا کہ آنے والی نسلیں ان کے عصروں کو رشک سے دیکھیں کہ انھوں نے فراق دیکھا ہے ،ہم اس لحاظ سے بڑے خوش قسمت ہیں کہ ہم ارشد عبدالحمید کے عہد میں سانسیں لے رہے ہیں ۔جگر صاحب نے ایک بڑی عارفانہ بات کہی ہے کہ
“شاعر کے شعر وادب میں اس کی زندگی کا پایا جانا لازمی ہے ،اس کے علاوہ شاعر کی ذہنیت اور اس کی استعداد کو بھی پاکیزہ اور بلند ہونا چاہیے اس لیے کہ اگر شاعر نے اپنی انفرادیت کا حق ادا کیا ہے تو اس کے کلام میں اسی ذہنیت اوراستعداد کا پرتو ہوگا”
ان جملوں کی اگر تجسیم دیکھنی تو ارشد عبدالحمید صاحب کو دیکھ لیں
انکے محبین اور معتقدین کے لیے ایک خوش خبری ہے ۔ایک چڑیا ہمارے کان میں کہہ گئی ہے کہ جلد ہی انکا تیسرا مجموعہ زیور ِ طبع سے آراستہ ہو کر آرہا ہے اور یہ صرف نظموں پر مشتمل ہے ۔مجموعے کے لیے پیشگی مبارکباد اور نیک خواہشات
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page