نفیس اکبر بھٹو
( اسکالر بی ایس اردو، نمل یونیورسٹی اسلام آباد)
ادب کا براہ راست تعلق سماج سےہےکیونکہ ادب سماج کا ہی آئینہ دار ہوتاہے۔ایک ادیب اپنے دور کا نباض اور معاشرے کا ترجمان ہوتا ہے۔سماج کے دکھ،مصائب،تکالیف،مسرت،راحت سب حالات ایک ادیب کو براہ راست متاثر کرتے ہیں اور اس کو لکھنے کی طرف مائل کرتے ہیں ۔گویا ادب خواہ کوئی بھی ہو وہ اپنے معاشرے،رسم ورواج اور اقداروروایات کے ساتھ لکھا جا رہا ہوتا ہے۔ادیب کی اپنی اندرونی وداخلی کیفیات بھی اس پر اثرانداز ہوتی ہیں لیکن یہ داخلی کیفیات بھی ان خارجی حالات کی بدولت معرض وجود میں آتی ہیں جن میں ادیب زندگی گزارتا ہے۔گویا انسان،سماج اور زندگی ہی ادب کی تخلیق و تشکیل کا سرچشمہ ہیں ۔راجہ شکیل انجم لکھتے ہیں۔
"جب آدمی کو تخلیق کیا گیا تو ادب اور زندگی ساتھ ساتھ تھے۔گویا ادب زندگی ہےاور زندگی ہی ادب۔۔۔کیونکہ ہر تخلیق زندگی کی علامت ہے اورزندگی ہی درحقیقت تخلیق ہے”(1)
ادب سماج کی بہتری میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے ۔شعراء و ادباء اپنے عہد کے معاشی،معاشرتی و سماجی مسائل کو ادب میں جگہ فراہم کرتے ہیں اور عوام کو آگہی اور شعور بخشتے ہیں ۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی اور ۱۹۴۷ ء میں تقسیم برصغیرنے ہندوستان کے حالات پر گہرا اثر ڈالا اور برصغیر کی فضائے امن کو بری طرح پامال کیا ۔شعراء کی حساس طبیعتوں نےجلد ہی اس سانحے کو شاعری کے سانچے میں ڈالنا شروع کر دیا ۔یہ موضوع شعرا کی توجہ کا مرکز رہا ہے ہر شاعر کے ہاں اس موضوع پر کچھ نہ کچھ ضرور مل جاتا ہے۔ خاص طور پر ترقی پسند شعرا جیسے فیؔض’ قاسمیؔ’ مجروحؔ’ کیفی اعظمیؔ’ علی سردار جعفری ؔاور ساحر ؔلدھیانوی کے ہاں تواتر اور تسلسل سے یہ موضوع موجود ہے ۔ان کے علاوہ بعد کے شعراءمیں پروین ؔشاکر’ افتخاؔر عارف’ عاؔرف عبدالمتین’ صوفی ؔتبسم’ احسان ؔاکبر وغیرہ کے ہاں کثرت سے اس کا ذکر ہے۔ان تمام شعراء نے کثرت سے امن کے موضوع پر آواز اٹھائی،جنگ کی مذمت کی اور اقوام عالم کو امن کی ترغیب و تلقین کی ۔
امن کے پیغام کو دنیا کی سماعتوں میں انڈیلنے والے شعراء میں ایک قابل قدر نام ساحر ؔلدھیانوی کا ہے ۔ساحرؔ لدھیانوی بیسویں صدی کے ایک اہم اور مشہور شاعرہیں ۔ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعراء میں سے بھی ان کی شخصیت مقبول و معروف شخصیت ہے۔ساحر لدھیانوی جن کا اصل نام عبد الحئی تھا۔انھوں نے 8مارچ 1921ء کو سرزمین پنجاب کے ایک گاؤں لدھیانہ میں آنکھ کھولی ۔ان کے والد اپنے اسی شہر کے علاقے لوڈھوال کے جاگیردار تھےلیکن وہ اولاد نرینہ سے محروم تھے۔اولاد نرینہ کی خواہش اور وارث کی تمنا میں انھوں نے یکے بعد دیگرے کئی شادیاں کیں ۔ساحر ؔکی والدہ سردار بیگم ان کی گیارہویں بیوی تھی ۔سردار بیگم پسماندہ کشمیری طبقے سے تعلق رکھتی تھی جس کی بناء پر ساحر ؔکے والد ان کے ساتھ تعلق کووہ قانونی حق فراہم نہیں کر رہے تھے جس کی وہ متقاضی تھی۔ان کے خاندان کے بارے میں پروفیسر سلیمان اطہر جاوید تحریر کرتے ہیں۔
"ساحر ؔکے اجداد کا تعلق گوجر قوم سے تھا۔ان کے دادا فتح محمد ایک زمیندار تھےاور علاقے کے رئیس جانے جاتے تھے۔ان کے بیٹے اور ساحر ؔکے والد چودھری محمد فضل بھی نہت بڑے زمیندار تھے۔سیکھےوال اور اس کے نواح میں ان کی خاصی زمینداری تھی۔وہ شہر کے معزز اور معتبر لوگوں میں گنے جاتے تھے۔چودھری فضل محمد کے اندر وہ تمام اچھائیاں اور برائیاں تھیں جو کسی زمیندار طبقے کے افراد میں پائی جاتی ہیں ۔انہیں کوئی اولاد نرینہ نہیں تھی اور غالباً یہ بھی ایک وجہ تھی جس کے لیے انھوں نے دس شادیاں کیں ۔۔انہوں نے گیارہویں شادی سردار بیگم سے کی،جو کشمیر النسل تھیں "(2)
اس کے ساتھ ہی وہ اپنی عیش پرستی کے اخراجات کو پورا کرنے کےلیےجائیداد بھی فروخت کرنے لگے۔ ان کی والدہ نے ساحر ؔکے والد کو روکنے کی بہت کوشش کی لیکن تنازعات بڑھتے گئے اور معاملہ عدالت تک جا پہنچااور عدالت نے ساحؔر کو ماں کی تحویل میں دے دیا۔بچپن کے ان غیر موزوں واقعات نے ساحر ؔکے دماغ پر گہرا اثر ڈالاجو بعد میں ایک جزو لازم کی طرح ان کی شاعری کا حصہ رہا۔ساحرؔ نے زمانہ طالب علمی سے ہی شاعری کا آغاز کر دیاتھا۔انھیں نظم کی بدولت اردو میں شہرت اورعظمت ووقار ملا۔ان کی نظموں کے بیشتر موضوعات ترقی پسند شعراء کے موضوعات تھےلیکن ساحرؔ کا نکتہ امتیاز یہ تھا کہ وہ ان تمام مسائل سے ذاتی زندگی میں متاثر رہ چکے تھے۔ان کی نظمیں معاشرتی ناانصافی،آزادی،مساوات،انصاف،انسانیت،امن اور جنگ کی مذمت کےلیے ایک توانا آواز سمجھی جاتی رہی۔ساحؔر کے کلام میں ان کے دور کے سیاسی و سماجی حالات بخوبی نظر آتے رہے ۔ساحرؔ کی پیدائش دو عالمی جنگوں کے مابین ہوئی انھوں نے تیرہ سال کی عمر میں دوسری عالمی جنگ دیکھی اس کے علاوہ ہندوستان میں انگریزوں کی آمد کے بعد ہندوستانیوں پر ہونے والے مظالم تا حیات ان کی آنکھوں سے روپوش نہ ہوئے۔انھوں نے بارہا امن کی صدا لگائی جو ان کا خیال تھا مگر خام خیال ہی رہا،ایک خواب تھا جو بے تعبیرہی رہا اور آخر کار امن کی صدا لگانے والا یہ شاعر 25 اکتوبر 1980 ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ۔
امن کیا ہے؟امن ایک ایسی حالت ہے جس میں تشدد،عدم برداشت،اور جنگ سے آزاد ایک معاشرہ ہو جس میں ہر انسان کو زندگی کی بنیادی سہولیات میسر ہوں اور وہ زندگی گزارنے کےلیے محتاج نہ ہوں،عدل و انصاف کا ایک باقاعدہ نظام ہو،تکریم انسانیت و وحدت بنی آدم کا پاس رکھا جائے۔قاتل،وحشی اور سفاک درندوں کو انسانیت کا دشمن تسلیم کیا جائےاور دنیا اس بات کو اپنا نصب العین تسلیم کرے کی مذہب،ذات پات،رنگ و نسل سےبالاتر ہوکر انسانیت کا پرچار کیا جائےاور قرآن کی اس تعلیم کے مطابق لوگوں کے اندر یہ فکر بیدار کی جائے کی انسانیت کے ذریعے امن قائم کرنے کی سعی کی جائے۔
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالٰی ہے جس کا مفہوم ہے:”کہ جو ناحق کسی ایک انسان کو قتل کرتا ہے وہ گویا پوری انسانیت کو قتل کر دیتا ہےاور جو کسی ایک انسان کو بچاتا ہے وہ پوری انسانیت کو بچالیتا ہے۔”(المائدہ :32)
ساحرؔ نے امن کا ایک مکمل تصور اپنی شاعری میں دیا۔ان کی منتخب نظموں "پرچھائیاں،اے شریف انسانو،آج،خون پھر خون ہے”کے تناظر میں ان کی امن کی پکار کا جائزہ لیتے ہیں ۔جب انگریز برصغیر میں وارد ہوئےتو اس وقت کے حالات وواقعات کا ذکر ایسے آتا ہے کہ اس وقت ہندوستان کی اپنی ایک تہذیب تھی۔جس میں امن وامان کسی حد تک موجود تھا لیکن انگریزوں نے آ کر اس تہذیب کو پیروں تلے روندا۔انسانوں کا قتل عام کیا۔لوگوں کو جنگ کی دلدل میں دھکیلا۔انگریزوں نے ہندوستانی نوجوانوں کو اپنی فوج میں بھرتی کر کےایک آرمی بنا ئی ۔جس کو "برٹش انڈین آرمی "کا نام دیاگیا۔جگہ جگہ جنگ چھیڑی گئی اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں نوجوانوں کی جانیں اس میں ضائع ہوئیں ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق قریبا چوہتر ہزار ایک سو ستاسی ہندوستانی پہلی عالمی جنگ میں اور ڈیڑھ سے ڈھائی لاکھ کے درمیان ہندوستانی دوسری جنگ عظیم میں مارےگئے۔انگریزوں نے گوکہ ان کو تنخواہ دار ملازم بھرتی کیا تھالیکن ان عالمی جنگوں کا ہندوستان اور ہندوستانیوں کو کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔لیکن وہ دولت کی پیاس تھی جس نے انھیں ان پرخطرراستوں کے راہی بننے پر مجبور کیا۔اس کو ساحر ؔاس طرح لکھتے ہیں۔
؎”بستی کے سجیلے شوخ جواں بن بن کے سپاہی جانےلگے
"جس راہ سے کم ہی لوٹ سکے’اس راہ پہ راہی جانے لگے”(3)
ان جنگوں نے ہندوستانیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ماؤں سے ان کے بیٹے،بہنوں سے ان کے بھائی،عورتوں سے ان کے سہاگ چھین لیے۔اس سے اداسی کی ایک لہر ان میں پھیل گئی۔ان دنوں کسی کے بھی نام آنے والا ہر پیغام ایک فرد،ایک خاندان بلکہ ایک بستی پر قہر بن کے ٹوٹتا تھا۔پیام بر کے آنے کی خبر سنتے ہی بستی کا ہر فرد دلگرفتہ ہو جاتا کہ نہ جانے کس ماں کا جگر گوشہ اس کی گود خالی کر گیا،کس شہزادی کا بھائی اس کا ہمت و حوصلہ ختم کر گیا،کس کا شریک حیات زندگی کی رنگینیوں سے منہ موڑ گیا اور کتنوں کا کفیل ایک پرائی جنگ میں قربان ہو کراپنا کنبہ بے آسرا کر گیا ہے اسی کو ساحر ؔنے ان الفاظ میں لکھا ہے۔
تمہارے گھر میں قیامت کا شور برپاہے
محاذ جنگ سے ہرکارہ”تار”لایا ہے
کہ جس کا ذکر تمہیں زندگی سے پیاراتھا
وہ بھائی "نرغہ دشمن ” میں کام آیا ہے”(4)
کسی بھی ملک میں امن و امان کی حالت اس وقت جنم لیتی ہے جب وہاں کے معاشی حالات بہتر ہوں ۔ ملک کی بہترین صنعت و معیشت ہی ملکی ترقی و استحکام کی ضمانت دیتی ہے۔انگریزوں کی ہندوستان آمد سے قبل ہندوستان ایک خودمختار خطہ تھا۔اور اس کی صنعتی و معیشتی خوشحالی کا عالم یہ تھا کہ دنیا میں اسے سونے کی چڑیا کہااور سمجھا جاتا تھا ۔ہندوستان کی اسی خوشحالی کو حسین احمد مدنی اس طرح بیان کرتے ہیں۔
"قدیم زمانے سے ہی ہندوستان ایک صنعتی و تجارتی ملک تھا۔وہاں اعلی و ادنی صنعتوں کے کارخانے تھےجن سے ملکی ضروریات پوری کی جاتی تھی اور دنیا کا ہر ملک فائدہ حاصل کرتا تھا۔بیرونی ممالک سے ہر سال کروڑوں اشرفیوں کی صورت میں ہندوستانی تاجر ان مصنوعات کی لاگت کے طور پر وصول کرتے”(5)
گیارہویں صدی سے اٹھارویں صدی کے نصف اوّل تک ہندوستان نمایاں مقام رکھتا تھا۔بحری و جنگی جہازوں،سوت و کپڑا،لوہاسازی وغیرہ کی صنعتیں بڑے پیمانے پر ہندوستان میں موجود تھیں ۔صنعتی ومعیشتی لحاظ سے جو مقام آج چین کو حاصل ہے ہندوستان آج سے تین چارصدیاں قبل اس مقام پر فائز تھا۔باری علیگ ہندوستان کے تجارتی حالات کے بارے میں لکھتے ہوئے کہتے ہیں ۔
"ابھی برصغیر کو صرف ایک زرعی ملک کہتے ہیں لیکن اصل میں انیسویں صدی کے نصف اوّل تک ہندوستان ایک اہم تجارتی ملک تھا ۔دنیا کے آدھے سے زائد ممالک ہندوستان سے اپنی تجارتی ضروریات کو پورا کرتے تھے "(6)
لیکن برطانوی حکومت کی برصغیر میں آنے کے بعد حالات یکسر بدل گئے۔ہندوستان صنعتی،معیشتی،تجارتی میدانوں میں زوال پذیر ہونے لگا۔انگریزو ں نے 1600ءمیں ایسٹ انڈیا کمپنی بنا کر برصغیر میں مزدوراور ملازم کے تصور کو جنم دیا۔جس میں مزدوروں کو نہایت قلیل تنخواہوں پر رکھا جاتا جس سے بنیادی ضروریات کو پورا کرنا بھی مشکل ہو جاتا۔اس کے ساتھ ہی ذاتی کاروباروں پر محصولات اور ٹیکسوں نے عوام کو مشکلات میں ڈال دیا۔جس کی وجہ سے مقامی باشندوں کے کاروبار مندے میں جانے لگے۔غربت و افلاس عام ہونے لگی اور عوام فاقوں مرنے لگی۔جو خطہ زیادہ پیداوار فراہم کرتا تھا اور نسبتا سستا تھابرطانوی سامراج نےاسے بھوک وافلاس اور غربت کا گڑھ بنا دیا ۔یہ اقتصادی اور معاشی پریشانیاں سماجی بگاڑ اور جرائم کی وجوہات بنیں ۔اسی سماجی کشمکش اور بدحالی کو ساحر اس طرح بیان کرتے ہیں ۔
"انسان کی قیمت گرنے لگی،اجناس کے بھاو بڑھنے لگے
چوپال کی رونق گھٹنے لگی،بھرتی کے دفاتر بڑھنے لگے”(7)
ساحر ؔنے اپنی نظم "پرچھائیاں ” میں امن کی دشمن دوغلی عالمی سیاست و جمہوریت کا چہرہ بھی بے نقاب کیاکہ آج حکمرانوں اور طاقتور قوتوں کی حتی الامکان کوشش یہی ہے کہ ممالک پر جنگ مسلط کر کے ان کو بھوک وافلاس کی دلدل میں دھکیل دیا جائے۔ان ممالک کے نوجوان ملک کے دفاع میں مارے جائیں اوروہ وسائل جو ملکی ترقی میں کام آنے ہیں وہ ملکی دفاع میں استعمال ہو جائیں ۔ترقی پذیر ممالک تا حیات اپنی بقاء کی جنگ لڑتے رہیں اور کبھی بھی ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بشانہ نہ کھڑے ہو سکیں او ر ا ن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال نہ کر سکیں۔انہی جنگوں کے نتیجے میں ان ملکوں کی فصلیں ووسا ئل تباہ ہو جائیں ۔اجناس کی قیمتیں تیزی سے بڑھنے لگیں اور وسائل نہ ہونے کے باعث قحط کی صورتحال پیدا کر دی جائے۔عوام الناس فاقوں مرنے لگیں اور حکمرانوں سے ان کی بد اعمالیوں کا سوال پوچھنے کے لیے کوئی باقی نہ رہے۔ جنگ کی وجہ سے گردوپیش کی زندگی،سماجی بگاڑ اور افلاس میں ڈوب جاتی ہے۔جس میں مکھن سی ملائم راہیں،چوپال کی رونقیں سب کچھ غارت ہو جاتا ہےاور وفا شعار عورتوں کے پاکیزہ جسموں کی تجارت کے دھندے شروع ہو جاتے ہیں ۔دوسری جنگ عظیم کے وقت بنگال کے قحط میں یہی سب ہوا تھا ۔ساحؔر نے بارہا اپنی نظموں میں حکمرانوں کے ان رویوں کی طرف توجہ دلائی۔
"بہت دنوں ہے سے یہ مشغلہ سیاست کا
کہ جب جوان ہوں بچےتو قتل ہو جائیں
بہت دنوں سے ہے یہ خبط حکمرانوں کا
کہ دور دور کے ملکوں میں قحط بو جائیں”(8)
اس کے بعد 1947ءمیں تقسیم برصغیر کے نتیجے میں ہونے والے سانحے کا ذکر آتا ہے۔جس میں انسانیت کاقتل عام کیا گیا ۔وہ لوگ جو صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہے تھے نقشے پر تقسیم کی لکیر کھنچتے ہی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔آن کی آن میں فسادات کا آغازہو گیا۔ فسادات کے اِن ہنگامہ خیز واقعات کا ذکر ظفر سعید اس طرح کرتے ہیں ۔
"فسادات کی اس صورتحال میں تمام رشتے خراب ہو گئے،اخلاق کا نظام اٗلٹ پلٹ گیا۔ہنگاموں میں آمنے سامنے آنے والے لوگوں میں زیادہ تر ہمسائے اور باہم مل جل کر رہنے والے لوگ تھےجو ہر مشکل وقت میں دوسروں کے کام آتے تھے۔ایک لمحے میں سب ختم ہو گیا اور ساری رشتہ داریاں ملیامیٹ ہو گئیں ۔وہ روایات جو بزرگوں سے منتقل ہوئی تھی،پامال کر دی گئیں ۔صرف فرقوں اور مذہب کا جذبہ باقی رہا۔(9)
انسانیت کی توہین کا یہ ننگا ناچ تمام مذاہب کی طرف سے برابر کھیلا گیا ۔چاہے وہ ہندوہوں،مسلمان ہوں یا سکھ انہوں نے اپنے بدلے کی آگ کا پورا کرنے کا کوئی بھی موقع رائیگاں نہ جانے دیا۔ہر طرف موت و وحشت ایک خونخوار عفریت کی طرح منہ کھولے کھڑی تھی۔انسان درجہ انسانیت سے گر گیا اور اس کی سوئی ہوئی حیوانیت جاگ اٹھی۔ہر دور میں نفرتوں کے نتائج بھگتنے والی بنت حوا کی عزت و تقدس کو یہاں بھی پامال کیا گیا اور غیرت مند مردوں نے خواہ وہ کسی بھی مذہب کے ہوں عورت کو ہر طرح سے اپنی ہوس و وحشت کا نشانہ بنایا۔ہر طرف آہ و بکا اور شوروغوغا تھا ۔ہر انسان اپنی جان کی حفاظت کر رہا تھا گویا کہ ہندوستان میں قیامت صغرٰی برپا تھی ۔اس المیاتی دور میں ساحر ؔپھر سے اپنی امن کی صدا کو بلند کرتے ہیں امن و تہذیب کی بھیک مانگتےہیں کی حالات پر نظر کی جائے۔آگ اور خون کا یہ کھیل جو ہزاروں جانیں نگل چکا ہے اب اس کو بند کر دیا جائے۔لوگوں کے چہروں کی شادبیاں ان کو لوٹائی جائیں ۔عورتیں اور بچیاں اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے ہاتھ پھیلائے خیرات کی منتظر ہوں ان کے دست سوال پر نظر کرم کی جائے۔اور ہر طرف امن و محبت کے گیت گائے جائیں کے انسانیت کے کان اس گیت کو سننےکے لیے بےقرار بیٹھے ہیں
ساحؔر صرف ہندوستان میں امن کی بات نہیں کرتے بلکہ انھوں نے عالمی امن کی بات کی ۔ وہ بلا شبہ محب وطن تھےلیکن سب سے پہلے وہ ایک انسان تھے اور انسانیت کی بہتری کی سوچ رکھتے تھے۔”ساحر کے یہاں وطنیت اور حب وطن کا ایسا کوئی تصور نہیں جو انسان اور انسانیت سے ماورا ہو”(10)۔امن کی بات کرتےہوئے بھی انھوں نے صرف ہندوستان کی بات نہیں کی بلکہ جب بھی بات کی اقوام عالم کو ذہن میں رکھا ۔ان کے نزدیک تمام انسان برابر ہیں اورتمام انسانوں کا لہو برابر ہے۔جنگ خواہ کہیں بھی کسی بھی سمت میں ہے انسانیت کے لیے زہر قاتل ہے ۔خون خواہ اپنا ہے یا پرایا ہے بہرحال مقدس و قابل تکریم ہے۔انھوں نے جنگ کو تمام عالم کے لیے ضرررساں بتایا اور عالمی امن کےلیے آواز اٹھائی۔
"پرچھائیاں میں لٹا ہوا فنکارنئے محبت کرنے والوں کی نازک زندگیوں کو جنگ،قحط ااور افلاس سے بچانے کا عہد کرتا ہےاور ساری دنیا کو اس منحوس جنگ کے خلاف منظم کرنے کی تلقین کرتا ہے”(11)
ساحر ؔان خیالات کو اس طرح الفاظ میں ڈھالتے ہیں۔
"جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امنِ عالم کا خون ہے آخر”(12)
ساؔحر صرف جنگ کی ممانعت ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کو جنگ کے خطروں کی تفصیلات بھی مہیا کرتے ہیں کہ جنگ کس کس طرح کسی خطے کے امن کو اس کی سماجی ومعاشی حالات کو متاثر کرتی ہے ۔ساحؔر کی نظم "اے شریف انسانو”جو کے1965ءمیں دونوں ممالک بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جنگ کے حوالے سے تحریر کی گئی اور معاہدہ تاشقند کے ایک سال مکمل ہونے پر منظر عام پر آئی’وہ جنگ کے نقصانات سے مکمل آگہی دیتی ہے۔ساحؔر نے دو عالمی جنگوں کا مشاہدہ کیا اس کے بعد ہندوستان پاکستان کی جنگیں بھی دیکھی ۔وہ جنگوں کے دیرپا اثرات سے واقف تھے۔ان نے جنگوں کے جو نقصانات بتائے ان کا جائزہ لیتے ہیں ۔کے اگر جنگ میں بم گھروں پر گرتے ہیں یا سرحد پراس سے ملک و قوم کو یکساں تکلیف کا سامنا کرنا ہوتا ہے کیونکہ سرحدوں پر بھی ہمارے ہی لوگ جان کی بازی ہارتے ہیں ۔وہ انھی ماؤں کے سپوت ہوتے ہیں جو یہاں کی مقیم ہیں ۔وہ اِ سی ملک کے رہائشی ہیں جو ان کے آباءواجداد کی لاکھوں قربانیوں کا ثمر ہے۔اگر بم سرحد پر گرتے ہیں تو بھی ملک کو دفاع کی جنگ لڑنی ہو گی اور اگر گھروں پر گرتے ہیں تب بھی نقصان یکساں ہے دونوں طرح سے ملک کی ترقی و سالمیت کو نقصان پہنچتا ہے ۔
دوسرا اہم مسئلہ جو جنگ کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتا ہے وہ بھوک،افلاس و غربت کا مسئلہ ہے۔ جنگوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سےفصلیں ختم ہو جاتی ہیں،تجارت بند ہو جاتی ہے،اموال ضائع ہو جاتے ہیں۔وہ ملکی وسائل جو لوگوں کی خوشحالی اور ملکی ترقی کے لیے صرف ہونے تھے وہ دفاعی معاملات میں صرف ہو جاتے ہیں۔جس کے نتیجے میں غربت،قحط سالی اور افلاس عام ہو جاتا ہے۔جوان لوگ جنگ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور باقی ماندہ عورتیں،بوڑھے اور بچے بھوک کے ہاتھوں مفلوک الحال ہو جاتے ہیں ۔یوں ایک قوم پر جنگ مسلط کر کے اس کو ترقی کی دوڑ میں پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔
ساحؔر کے نزدیک تمام انسانوں کا دکھ برابر ہے ۔ان کے مطابق اگر دو ممالک کے مابین جنگ ہوتی ہےتو اس میں نقصان کسی ایک ملک کا نہیں ہوتا بلکہ انسانیت اس کا خمیازہ بھگتتی ہے۔ٹینکوں کی مدد سے جو بارود پھینکا جاتا ہے اس سے زمین کی کوکھ بانجھ ہوتی ہے وہاں عرصے تک دوبارہ فصلیں معمول کے مطابق نہیں اگتی۔امریکہ نے دوسری عالمی جنگ کے موقع پر جاپان کے جن شہروں میں ایٹمی بم برسائے وہاں زندگی آج تک معمول پر نہیں آئی ۔وہاں پیدا ہونے والے بچےا ب تک کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہوتے ہیں ۔اورپھر جب جنگ کا اختتام ہوتا ہے اور ملکوں کے مابین فتح و شکست کا فیصلہ ہو جاتا ہے ۔ایک طرف فتح کا جشن برپا ہوتا ہے اور دوسری جانب شکست کا صدمہ ہوتا ہے لیکن عام آدمی سوگ میں ہی ہوتا ہےکیونکہ اس نے قیمتی جانیں کھوئی ہوتی ہیں ۔ہزاروں جانیں قربان ہو چکی ہوتی ہیں خواہ وہ فاتح ملک کی ہوں یا شکست خوردہ ملک کی ہوں۔اِ س کو ساؔحر اس طرح بیان کرتے ہیں ۔
"ٹینک آگے بڑھیں ‘کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے”(13)
ساحر ؔنے اپنی متعدد نظموں میں انقلاب کی بات کی اور عوام الناس کو بغاوت پر ابھارا۔وہ عام طبقے کو اپنے حق کے لیے اٹھنے کی دعوت دیتے ہیں کہ آخر کب تک وہ یونہی ظلم کا شکار بنے رہیں گےاور یونہی جنگ میں اپنے پیاروں کو غیروں کی خوشی کے لیے قربان کرتے رہیں گے۔کب تک اپنی سونا اگلتی زمینوں کے بنجر ہونے کا تماشا دیکھیں گے۔اب تو وہ آواز اٹھائیں کہ
"چلو کہ چل کے سیاسی مقامروں سے کہہ دیں
کہ ہم کو جنگ وجدل کے چلن سے نفرت ہے”(14)
ساؔحر لوگوں میں اس چیز کا شعور پیدا کرتے ہیں کہ وہ اپنے حق کی خاطر کھڑے ہوں ۔جہاں طاقتور سامراج نے ان پر جنگ مسلط کروا کےان کے ملکوں میں قحط بو دیا ۔جہاں حکمرانوں میں یہ خبط ہے کہ وہ دوسرے ممالک پر قبضہ کر کےانھیں اپنے زیر تسلط کر لیں ۔اس تسلط کی کوشش میں ان کے اپنے ملک اور عوام افلاس کی چکی میں پس رہی ہے۔اب عوام کا یہ فرض ہے کہ وہ حکمرانوں کے خلاف اعلان جنگ کریں اور جنگجوؤں کو واشگاف الفاظ میں یہ پیغام دے دیں کہ عوام جنگ کی طرفدار نہیں ہے۔عوام النّاس کی خواہش یہ ہے کہ جو ملکی وسائل جنگ اور دفاع میں خرچ ہو رہے ہیں وہی ملک کے استحکام اور عوام کے بھلے کے لیے استعمال کریں ۔عام انسان دوسرے ممالک کی زمین چھیننے میں کسی قسم کی دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ اس میں استعمال ہونے والی دولت سے وہ اپنے ملک کی غذائی ضروریات کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔
"ہمیں کسی کی زمیں چھیننے کا شوق نہیں
ہمیں تو اپنی زمیں پر ہلوں کی حاجت ہے”(15)
لیکن اس کی وجہ ہرگز یہ نہیں کہ وہ معاشرے میں بدامنی اور انتشار چاہتے ہیں ۔وہ ایک پر امن معاشرے کے متمنی ہیں جہاں انسان انسان کا دوست،غمگسار اور مددگار ہو۔ان کی انقلابی نظمیں سن کر یہ تصور قائم کیا جاتا ہے کہ وہ جنگ وجدل کو پسند کرتے ہیں یا احتجاج ان کی روح کو تسکین بخشتا ہے لیکن حقیقت بالکل برعکس ہے۔سید محمد عقیل لکھتے ہیں ۔
"ساحر جہاں مزدوروں،کسانوں اورمعاشرے کے دبے کچلے افراد کو انقلاب و احتجاج پر آمادہ کرتے ہیں تو انکا یہ رویہ تخریبی نہیں تعمیری ہوتا ہے۔انھوں نے کبھی جنگ کی حمایت میں کچھ نہیں کہا۔”(16)
ساحر ؔنے کبھی جنگ کی طرف داری نہیں کی بلکہ جنگ کے بارے میں ان کا اپنا ایک فلسفہ ہے جس کو وہ اس طرح منظر عام پر لاتے ہیں۔
"جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لیے اے شریف انسانو !
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے”(17)
ساحؔر کے پیغام میں ایک انوکھی بات یہ سامنے آتی ہے کہ وہ امن کے متمنی ہیں اور امن کے قیام کے لیے جن جنگوں کا ہونا ضروری ہے وہ اس کےلیے ابھارتے ہیں ۔ان کے فلسفے کے مطابق جنگ صرف طاقت و قوت کے رعب ودبدبے کےلیے اور ملکوں میں غربت و افلاس کو عام کرنے کےلیے ہی نہیں لڑی جاتی بلکہ جنگ کے بہت سے اور میدان ہیں۔سب سے اہم جنگ ان کے نزدیک امن کے قیام کے لیے لڑنی ضروری ہے۔سید محمد عقیل ساحر کے تصور امن کے بارے میں لکھتے ہیں ۔
"وہ امن کے خواہاں ہیں جہاں نفرتوں کا قلع قمع کیا جائےلیکن اگر قیام امن کے لیے جنگ کرنی ہے تو وہ ایسی جنگوں سے احتراز بھی نہیں کرتے”(18)
امن کے قیام کےلیے ساحر ؔکے نزدیک کون سی جنگیں ایسی ہیں جن کا لڑنا انسانیت کےلیے مفید ثابت ہو سکتا ہے ؟اس سوال کا جواب ان کی شاعری میں واضح الفاظ میں سامنے آتا ہے کہ عام جنگ مسائل کا حل مہیا نہیں کرتی بلکہ وہ خود مسائل کو جنم دیتی ہے۔وہ جنگیں جن سے معاشرے میں پیدا ہو سکتی ہے،دنیا امن و محبت کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے وہ یہ ہیں۔
"جنگ’وحشت سے’بربریت سے
امن’تہذیب و ارتقاء کے لیے
جنگ’مرگ آفریں سیاست سے
امن ‘انسان کی قباء کےلیے”(19)
ساؔحر نے اپنی طویل نظم”پرچھائیاں ” کا سہارا لیتے ہوئےلوگوں کو ایک عام محبت کی کہانی کے پیرائے میں جنگ کے نقصانات سے آگاہ کیا اور امن کی ضرورت و اہمیت بھی واضح کر دی کہ جنگ نے اب تک کن کن صورتون میں انسان اور انسانیت کو تباہ کیا۔سیاست کے لبادے میں کس طرح عالمی طاقتون نے مختلف ممالک پر جنگ مسلط کی اور ان کی ترقی و سالمیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔اس نظم میں ساحرؔ نے برطانوی سامراج کی برصغیر آمد سےلے کر تیسری عالمی جنگ کے خطرے تک ہر چیز کو واشگاف الفاظ میں بیان کر دیا۔ساحؔر لدھیانوی اپنی نظم پرچھائیاں کے بارے میں خود لکھتے ہیں ۔
"پرچھائیاں میری پہلی طویل نظم ہے۔ابھی دنیا میں جو امن کی حفاظت کےلیےتحریک منظم ہے یہ نظم اس کے مقصد کے تحت لکھی گئی ہے۔میرا نظریہ یہ ہے کہ ہر آدمی کی کوشش و خواہش یہ ہونی چاہیے کہ اسے جو دنیا اپنے پرکھوں سے وراثت میں ملی ہے۔وہ آنے والی نسلوں کو اس سے بہتر اوردلکش دنیا دے کر جائے’میری یہ نظم اس کوشش کا ادبی و عملی روپ ہے "(20)
اور علی سؔردار جعفری اس نظم کے بارے میں اس کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ:
"ساؔحر لدھیانوی نے پرچھائیاں کی صورت میں اردو کو ایک طویل نظم دی ہےاور امن عالم کے لیے لکھے جانے والے ادب میں ایک اہم اضافہ کیا ہے”(21)
ساحؔر نے اپنی نظموں میں متعدد مقامات پر یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ اگر انھیں اور اس نسل کو اس دنیا میں امن و محبت نہیں مل سکی توہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم آنے والی نسلوں کو ایک پر امن دنیا تحفے میں دے سکیں ۔اگر ہم نے ذلت و خواری والی زندگی بسر کر لی ہے تو اب اس دنیا کو اور اس کے اس جاہلانہ نظام کو بدلنے کی ذمہ داری ہماری ہے۔جس سکون،امن و راحت کا خواب ہم نے برسوں دیکھا اب ہمیں اس کو تعبیر بخشنی ہے تا کہ آنے والی نسلیں اس ظلم و ناانصافی کی بھٹی میں نہ جلیں ۔ناز صدیقی اس بارے میں یوں لکھتی ہیں ۔
"ساؔحر نے بڑی فنکاری سےاس ذلیل زندگی اور اس کے نظام کو بدلنے کے لیے جہد و پیکار کا ولولہ انگیز پیا م دیا ہے "(22)
ساحر نے اس نظام کو بدلنے کا پیغام دیا اور نوجوان نسل کو یہ چیز باور کروائی کہ وہ اس کے لیے جدوجہد کریں کہ اگر اس نسل کی محبتیں جنگ و فسادات کی نظر ہو گئیں ہیں تو آنے والی نسلوں کو محبت بھری زندگیاں مل جائیں ۔اس عہد کی باپردہ محبوبائیں اگر سر عام ہراساں کی گئیں،ان کی عزت و عصمت کو پامال کی گیا ۔تو آنے والے عہد کی بنت حوا کو ایک محفوظ پناہ گاہ مل جائے ۔
"ہمیں تو کشمکش مرگِ بے اماں ہی ملی
انہیں تو جھومتی گاتی حیات مل جائے”(23)
اور سب سے آخر میں وہ دنیا کی توجہ تیسری عالمی جنگ کی طرف دلاتے ہیں کہ اب کی بار ہونے والی جنگ پہلے کی ہونے والی تمام جنگوں سے زیادہ خطرناک اور تباہی خیز ہوگی۔ اِس وقت دنیا کے تقریباً نو ممالک (امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چائنہ، پاکستان، بھارک، اسرائیل اور شمالی کوریا ) ایٹمی طاقت رکھتے ہیں۔ کسی قسم کے فسادات کی صورت میں اپنے دفاع کےلیے یہ ممالک ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کریں گے اور دنیا سیکنڈوں میں تباہ ہو جائے گی ۔اس وقت دنیا تیسری عالمی جنگ کے بالکل قریب ہےاور اِس جنگ میں سالوں نہیں لمحوں کی ضرورت ہے ۔آن کی آن میں ایٹمی دھماکے ہوں گے اور سب کچھ ملیا میٹ ہو جائے گا ۔ساحؔر ایسے وقت میں یہ صدا لگاتے ہیں کہ اب بھی اگر دنیا نے ہوش کے ناخن نہ لیےاور ہم سب یہ تماشا یونہی دیکھتے رہے تو سب کچھ ختم ہو جائے گا اور دنیا انگشت بدانداں دیکھتے رہ جائے گی۔اب کی بار یہ ایٹمی جنگ زمین کو نیست و نابود کر دے گی اور زمین سے محبت کے وجود کو ناپید کر دے گی۔تیسری جنگ عظیم کے بارے میں سردار علی ؔ جعفری لکھتے ہیں ۔
"تیسری جنگ کے خطرے کے سامنے جو ایٹمی ہتھیاروں سے لڑی جائے گی ‘سے نئی محبت کرنےوالی روحیں ہی نہیں بلکہ اپنی تنہائیاں اور اپنے تصورات کی پرچھائیاں بھی غیر محفوظ معلوم ہو تی ہیں "(24)
جس طرح علی جعفری نے تیسری جنگ عظیم کا نقشہ کھینچا اِسی طرح ساحؔر بھی پچھلی دونوں عالمی جنگوں اور تیسری عالمی جنگ کا تقابل کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ پچھلی جنگوں میں گھر جلے تھے،لوگوں کے عزیز و اقارب مر گئے تھےاور لوگ تنہا و اداس رہ گئے تھے لیکن اس بار ہونے والی جنگ میں تنہائیاں بھی باقی نہیں رہیں گی۔سب کچھ یک لخت ختم ہو جائے گا اور پہلی جنگوں کی طرح اس وقت میں کوئی آہ و فغاں کے لیے بھی نہیں بچے گا ۔سابقہ جنگوں میں پیکر جل کر راکھ ہوئے تھے اور ان کو یاد کرنے والا اور ان کا نام کرہ ارض پر لینے والا کوئی نہ کوئی موجود تھا لیکن اس بار ان کی یادیں بھی باقی نہیں رہیں گی اور کرہ ارض پر کوئی ذی روح باقی نہیں بچے گا ۔اس کو ساؔحر اس طرح بیان کرتے ہیں ۔
؎”گذشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اِس بار
عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں
گذشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اِس بار
عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں "(25)
اِس تحقیقی مقالے کا بنیادی موضوع ساؔحر کے کلام میں امن کے تصور کا مطالعہ تھا ۔امن جو اس عہد کا بنیادی سوال ہےجس کا جواب ساری انسانیت کو دینا ہے۔اس کا جواب ہر ملک،ہر قوم،ہر نسل،ہر طبقے،ہر مکتب خیال کے آدمی نے ایک ہی طرح دیا ہے کہ دنیا کو جنگ کی دلدل سے نکال کر صلح صفائی کی راہ پر لایا جائے،ہر انسان کو اس کی ضروریات زندگی فراہم کی جائیں اور دنیا کو امن و سکون کا گہوارہ بنایا جائے۔ساحرؔ نے بھی سادہ اور واضح الفاظ میں دوغلی سیاست اور جمہوریت کو بے نقاب کیا،طاقتور حکمرانوں کے اصلی چہرے دنیا کے سامنے رکھےکہ کس کس طرح سے سادہ لوح اور معصوم عوام کو بے وقوف بنا کر ان کو لوٹا گیا ۔انہوں نے برطانوی سامراج سے لے کر تقسیم برصغیر تک ہونے والے تمام سانحات کی اصلیت عوام کے سامنے رکھی کہ ان سب فسادات میں نقصان صرف عوام النّاس کا ہوا ہے وہی بے موت مارے گئے،وہی درندگی کی بھینٹ چڑھے،وہی غربت و افلاس کے ہاتھوں سسک سسک کر جانیں دیتے رہے۔ان نے اپنے شاعری کے ذریعے عوام میں شعور کی لہر جگائی کہ اب وہ وقت آ پہنچا ہے جب اپنے حق کے لیے آواز بلند کی جائے ۔اپنے لیے ایک پر امن اور محبت سے بھرپور دنیا کا جو ایک خواب برسوں سے ہماری آنکھوں نے بن رکھا ہے اس کی تعبیر کےلیے جدوجہد کی جائے ۔جنگوں کی پرزور مذمت کی جائےاور ہر طرف صرف امن کی صدا سنائی دے ۔اگر اب بھی کسی خضر کے انتظار میں یہ وقت گنوا دیا یا خاموش تماشائی کی طرح یہ ظلم و ستم دیکھتے رہے تو وہ وقت قریب ہے جب یہ دلکش دنیا ایٹمی جنگ کےہاتھوں موت کے منہ میں چلی جائے گی ۔سب کچھ ختم ہو جائے گا اور المیہ یہ ہوگا کہ ہمارے لیے سوگ کرنے کو بھی کوئی باقی نہیں بچے گا ۔ساحؔر نے اپنے تجربات و حوادث اور مشاہدات سے جو دیکھا اس کو بیان کیا ۔دنیا کو امن کا پیغام دیا اور خطرات سے آگاہی بھی دی ۔اگر ساؔحر کے فلسفے کے مطابق جہد و کوشش کی جائے تو ممکن ہے کہ دنیا کو تیسری عالمی جنگ سے خلاصی مل جائے اور امن وسکون کی ایک پر لطف فضا کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔
حوالہ جات
۱۔ راجہ شکیل انجم،ادب زندگی ہے،پورب اکادمی اسلام آباد، 2004ء،ص نمبر 35
۲۔ سلیمان اطہر جاوید،ہندوستانی ادب کے معمار’ساحر لدھیانوی،ساہتیہ اکادمی،نئی دہلی،2007ء،ص نمبر 7
۳۔ ساحر لدھیانوی،کلیات ساحر، خزینہ علم و ادب اردو بازار،لاہور،2009ء،ص نمبر 167
۴۔ ساحر لدھیانوی،کلیات ساحر،ص نمبر 168
۵۔ حسین احمد مدنی،نقش حیات،جلد اول،مکتبہ دینیہ اردو بازار،کراچی،1953ء،ص نمبر253
۶۔ باری علیگ،کمپنی کی حکومت،طیب پبلشرز،لاہور،2001ء،ص نمبر45
۷۔ ساحر لدھیانوی،کلیات ساحر، ص نمبر 167
۸۔ ایضاً،ص نمبر 172
۹۔ ظفر سعید،ڈاکٹر،تقسیم ہند اور اردو افسانہ،کراون آفسیٹ سبزی باغ،پٹنہ،2000ء،ص نمبر12
۱۰۔ قمر رئیس،ترقی پسند ادب کے معمار،سٹی بک پوائنٹ،کراچی،2013ء،ص نمبر 285
۱۱۔ علی سردار جعفری،دیباچہ مشمولہ کلیات ساحر، خزینہ علم و ادب اردو بازار،لاہور،2009ء،ص نمبر161
۱۲۔ ساحر لدھیانوی،کلیات ساحر،ص نمبر194
۱۳۔ ایضاً،ص نمبر 195
۱۴۔ ایضاً،ص نمبر 172
۱۵۔ ایضاً،ص نمبر 173
۱۶۔ سید محمد عقیل،ساحر لدھیانوی’شخصیت اور ادبی خدمات،مقالہ علی گڑھ یونیورسٹی،انڈیا،2017،ص نمبر 156
۱۷۔ ساحر لدھیانوی،کلیات ساحر،ص نمبر195
۱۸۔ سید محمد عقیل،ساحر لدھیانوی’شخصیت اور ادبی خدمات،مقالہ علی گڑھ یونیورسٹی،انڈیا،2017،ص نمبر 156
۱۹۔ ساحر لدھیانوی،کلیات ساحر،ص نمبر 197
۲۰۔ ایضاً،ص نمبر 152
۲۱۔ علی سردار جعفری،دیباچہ مشمولہ کلیات ساحر، خزینہ علم و ادب اردو بازار،لاہور،2009ء،ص نمبر162
۲۲۔ ناز صدیقی،ساحر’شخص اور شاعر،پنجابی پستک بھنڈار،دہلی،1978ء،ص نمبر 77
۲۳۔ ساحر لدھیانوی،کلیات ساحر، ص نمبر171
۲۴۔ علی سردار جعفری،دیباچہ مشمولہ کلیات ساحر، خزینہ علم و ادب اردو بازار،لاہور،2009ء،ص نمبر161
۲۵۔ ساحر لدھیانوی،کلیات ساحر، ص نمبر174
کتابیات
بنیادی ماخذ:
۱۔ ساحر لدھیانوی،کلیات ساحر،خزینہ علم و ادب اردو بازار،لاہور،اپریل 2009ء
ثانوی ماخذ:
۱۔ باری علیگ،کمپنی کی حکومت،طیب پبلشرز،لاہور،2001ء
۲ حسین احمد مدنی،نقش حیات،جلد اول،مکتبہ دینیہ اردو بازار،کراچی،1953ء
۳۔ راجہ شکیل انجم،ادب زندگی ہے،پورب اکادمی اسلام آباد، 2004ء
۴۔ سلیمان اطہر جاوید،ہندوستانی ادب کے معمار’ساحر لدھیانوی،ساہتیہ اکادمی،نئی دہلی،2007ء
۵۔ سید محمد عقیل،ساحر لدھیانوی’شخصیت اور ادبی خدمات،مقالہ علی گڑھ یونیورسٹی،انڈیا،2017
۶۔ ظفر سعید،ڈاکٹر،تقسیم ہند اور اردو افسانہ،کراون آفسیٹ سبزی باغ،پٹنہ،2000ء
۷۔ علی سردار جعفری،دیباچہ مشمولہ کلیات ساحر، خزینہ علم و ادب اردو بازار،لاہور،2009ء
۸۔ قمر رئیس،ترقی پسند ادب کے معمار،سٹی بک پوائنٹ،کراچی،2013ء
۹۔ ناز صدیقی،ساحر’شخص اور شاعر،پنجابی پستک بھنڈار،دہلی،1978ء
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page