اساطیر میں کلچر ہیرو کی اہمیت قریب قریب وہی ہے جو ٹوٹم قبیلے میں ٹوٹم کی ہوتی ہے۔ ٹوٹم قبیلہ ٹوٹم کو اپنا جدامجد سمجھتا ہے، جوایک رکھوالے کی طرح ٹوٹم قبیلے کے سب افراد کی جان اورمال کی حفاظت کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ٹوٹم قبیلہ اپنے ٹوٹم سے قوت حاصل کرکے زمانے کے نشیب و فراز کا مقابلہ کرتا ہے۔
یوں دیکھا جائے تو ٹوٹم پورے قبیلے یا متعدد قبیلوں میں ایک جوڑنے والی طاقت ہے۔ ٹوٹم ہی کی طرح کلچر ہیرو بھی اپنے مخصوص معاشرتی دائرے سے متعلق ہوتا ہے مگرٹوٹم کے برعکس وہ اپنے معاشرے کی بہبود وبقا کے لیے آب حیات یا امردسیہ کی تلاش میں سرگرداں بھی رہتا ہے۔ علاوہ ازیں ٹوٹم تو ایک تجریدی قوت ہے جو ماضی کے دھندلکوں میں کبھی موجود تھی لیکن جواب ایک محافظ لیکن مخفی روح کی طرح، اپنے علامتی مظہر کے وسیلے سے پورے قبیلہ کی حفاظت کرتی ہے لیکن کلچر ہیروگوشت پوست کا لباس زیب تن کیے، اپنے معاشرتی دائرے کے اندر موجود بھی ہوتا ہے اور اس کی حفاظت کرنے کے علاوہ اس کے لیے لازوال قوت کے خزینوں کی تلاش بھی کرتا ہے۔ گویا کلچر ہیرو میں انسانی اوصاف موجود ہوتے ہیں مگر وہ انسانی اوصاف کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ سوسن لینگر لکھتی ہے،
’’وہ (کلچر ہیرو) نصف دیوتا اور نصف دیوکش ہے۔ مؤخرالذکر کی طرح وہ اکثروبیشتر سب سے چھوٹا بیٹا ہوتا ہے لیکن اپنے احمق بھائیوں میں سب سے چالاک۔ وہ اونچے درجے کے خاندان میں پیدا ہوتا ہے لیکن یاتواسے اغواکرلیا جاتا ہے یا باہر پھینک دیا جاتا ہے، جہاں اسے کوئی بچا لیتا ہے یا وہ بچپن میں ہی کسی طلسم میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ طلسماتی کہانی کے کردار کے برعکس اس کے جملہ اعمال قیدوبند سے رہائی پانے پر ہی شروع ہوتے ہیں اور پھر وہ بنی نوع انسان کوفیض پہنچانے لگتا ہے۔ وہ انسانوں کو آگ، علاقہ اور کھیل عطا کرتا ہے۔ انہیں زراعت، جہازسازی اور شاید زبان تک سکھاتا ہے۔ وہ ارض کوبناتا، سورج کی تلاش کرتا ہے (کبھی غار، کبھی بیضہ اور کبھی دیار غیر میں) پھر اسے آسمان میں لٹکا دیتا ہے اور بارش اور ہوا کو اپنے تابع کرلیتا ہے۔‘‘ 1
طلسماتی کہانی کے ہیرو کے برعکس کلچر ہیرو انفرادیت کا نہیں بلکہ اجتماعیت کا علم بردار ہے۔ یہ کوئی ایسی افسانوی تخلیق نہیں جوایک کہانی میں تو ابھرے مگراس کے بعد کسی اورکہانی میں اس کا ہم شکل تک نظر نہ آئے۔ کلچر ہیرو تو نام اورجگہ کی تبدیلیوں کے باوجود بنیادی طورپر ایک سے اوصاف کا حامل رہتا ہے۔ ینگ کا خیال ہے کہ ہم عام انسانوں کے بطون میں ’’فوق البشر کی تلاش کرتے ہیں یعنی ایک ایسی ہستی جو نصف انسان اور نصف دیوتا ہے اور جوان کے خیالات، صورتوں یا قوتوں کی علامت ہے جو روح کو اپنی گرفت میں لے کر تبدیل کردیتی ہیں۔ نفسیات کے نقطہ نظر سے یہ قوتیں اجتماعی لاشعور کے آرکی ٹائپل کے عناصر ہیں اورانسان کا ایک ایسا قدیم ورثہ ہیں جواس پر اسی طرح نچھاور ہوتا ہے جیسے آفتاب کی روشنی یا ہوا! چنانچہ اس ورثے سے پیار کرکے انسان اس شے کو پیار کرتا ہے جو سب انسانوں میں ایک قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے۔ یوں انسان اس پراسرار قوت سے ہم رشتہ ہوجاتا ہے جو کل کا ایک حصہ ہونے کے احساس سے جنم لیتی ہے۔‘‘ 2
اس اعتبار سے دیکھئے تو ٹوٹم کی طرح کلچر ہیرو کا جنم بھی منطقی سوچ کا نہیں بلکہ وہبی سوچ کا کرشمہ نظرآئے گا کیونکہ اس کا تعلق روزمرہ کی عام زندگی کے پس پشت، وقت کے اندربہت دور تک اتری ہوئی اس انسانی زندگی سے ہے جو انسان کے ذہن سے تومحوہوچکی ہے لیکن آرکی ٹائیپل تصورات کی صورت میں تاحال اسی طرح موجود ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ کلچر ہیرو ایک طرف تواجتماعی لاشعور میں انسان کی غواصی کا ثمر ہے یعنی جب پورا معاشرہ ایک تخلیقی رو میں بہہ کر نسل کے گودام سے تازہ قوت حاصل کرنے کے لیے پلٹتا ہے تولامحالہ اس قوت کی حامل شخصیت (یعنی کلچر ہیرو) سے متعارف ہوتا ہے اور دوسری طرف خودکلچر ہیرو جب بنی نوع انسان کو فیض پہنچانے کے لیے مہم جوئی میں مبتلا ہوتا ہے تواسے بھی ایک بے نام و نشان، تاریک، مصائب اورحوادث سے اٹے ہوئے جہان میں اترنا پڑتا ہے تاکہ وہاں سے وہ آب حیات لاسکے جوانسانوں کے سواداعظم کے لیے ایک بیش بہا نعمت ہے۔ چنانچہ کلچر ہیرو اکثر وبیشتر ایک ہی بنیادی پیٹرن کے مطابق سرگرم عمل ہوتے ہیں اوران کے پیش نظر مقاصد بھی ایک سے ہوتے ہیں۔ مثلاً سمیریا کے ہیرو جلجامیش کو لیجئے۔ جب جلجا میش کا رفیق کا رانکیدومر گیا توجلجا میش کویہ فکر دامن گیر ہوا کہ کہیں اس کا انجام بھی ویسا نہ ہو۔ دراصل موت کا یہ سانحہ بظاہر انکیدو ؔ سے متعلق تھا۔ دراصل اس کا تعلق موت کے اس کربناک تجربہ سے تھا جس سے ہر انسان کو زود یا بدیر گزرنا پڑتا ہے۔
تہذیب کی ترقی کے ساتھ ساتھ قدیم انسان کو اپنی صلاحیتوں کا عرفان تو حاصل ہوگیا تھا اوراسے اپنے اشرف المخلوقات ہونے پر پورا یقین بھی تھا لیکن ساتھ ہی وہ اس کربناک صورت حال سے بہت دکھی تھا کہ آدمی آخرکار خاک میں مل کر خاک ہوجاتا ہے۔ چنانچہ موت کو شکست دے کر زندہ جاوید ہوجانے کی خواہش تمام انسانوں کی مشترکہ خواہش تھی، جس کی سیرابی کے لیے ہر فوق البشر کو تگ ودو کرنا پڑتی تھی۔ یہی کچھ جلجامیش نے بھی کیا۔ اسے علم تھا کہ اس کا بزرگ اتنا پشٹم ہی وہ واحدانسان ہے جو لافانی ہوچکا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس کہانی میں اتناپشٹم کو بھی ٹوٹم قبیلے کے جدامجد کا منصب حاصل تھا اور وہ بھی ٹوٹم ہی کی طرح زندہ جاوید تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے اس بزرگ کوتلاش کرنے کا ارادہ کیا اور ایک طویل سفر پر روانہ ہوگیا۔ بظاہر تو یہ سفر باہر کی طرف تھا لیکن نفسیاتی طورپر دیکھا جائے تو اس کا رخ اندرکی طرف تھا۔ لہٰذا اپنے اس سفر کے دوران میں جلجا میشؔ جن رکاوٹوں سے خارج کی دنیا میں نبردآزما ہوا، وہ دراصل اس کے اندر کی رکاوٹیں تھیں۔
اپنے سفر کے ابتدائی مراحل میں وہ کوہ ماشو تک جا پہنچتا ہے اورپھر آفتاب کی شاہراہ کے ساتھ ساتھ چلنے لگتا ہے۔ بارہ کوس تک وہ گھپ اندھیرے میں سفرکرنے کے بعد بالآخر شمس (سورج دیوتا) کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ شمس اسے اس کے ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتا ہے، جلجامیشؔ تم کہاں مارے مارے پھر رہے ہو۔ جس زندگی (ابدی زندگی) کی تمہیں تلاش ہے وہ تمہیں کبھی نہیں ملے گی۔ لیکن جلجامیش پاسبان عقل کوخاطر میں لانے والا نہیں، چنانچہ وہ اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے بالآخر موت کے پانیوں والے سمندر تک جاپہنچتا ہے۔ وہاں اس کی ملاقات غرشاؔنابی سے ہوتی ہے جو کسی زمانے میں اتنا پشٹم کی کشتی کا ملاح تھا (دیکھئے کہ جلجامیش اسی راستے پر سفرکر رہا تھا، جس پر اتناپشٹم نے سفر کیا تھا۔)
جلجامیش غرشانابی سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اسے پارلے جائے۔ غرشانابی درخواست کوشرف قبولیت بخشتے ہوئے جنگل سے ایک سوبیس پتوار بنالاتا ہے۔ سمندرکے اس سفر کے دوران اسے یہ سارے پتوار استعمال کرنے ہیں کیونکہ جوپتوار ایک بار اس سمندرکے پانی سے چھوجائے، وہ اس قدر زہریلا ہوجاتا ہے کہ اسے دوبارہ استعمال کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ وجہ یہ کہ اس سمندر کا پانی بجائے خودموت ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ جلجامیش تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے آخرکار اتناپشٹم کے حضور جا پہنچتا ہے اوراس سے بقائے دوام کا راز معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر اتناپشٹم نہایت ملائمت سے اسے بتاتا ہے کہ دیوتاؤں نے لافانی ہونے کا حق صرف اپنے لیے مخصوص کر رکھا ہے اور بنی نوع انسان کی قسمت میں موت لکھ دی ہے۔ اتناپشٹم اسے بتاتا ہے کہ آدمی کو تونیند سے مفر نہیں، پھر وہ موت کی نیند سے کیونکر محفوظ رہ سکتا ہے۔
اتناپشٹم کی صاف اور کھری باتیں سن کر جلجامیش پوری طرح مایوس ہوجاتا ہے اور بادل نخواستہ واپس جانے کی تیاری کرنے لگتا ہے۔ اب اتنا پشٹم اسے ایک پودے کے بارے میں بتاتا ہے جس میں یہ خاصیت ہے کہ وہ بوڑھے کوجوانی عطا کردیتا ہے مگراس کے لیے جلجامیش کو سمندر کی تہہ میں اترنا ہوگا (گویا اپنی ہی ذات کی گہرائی میں جانا ہوگا) جلجامیش ایسے ہی کرتا ہے اورسمندر ہی کی تہہ سے نسخہ شباب حاصل کرلیتا ہے مگراس کی بدقسمتی دیکھئے کہ واپسی کے سفر میں وہ ایک تالاب کے کنارے نہانے کے لیے رکتا ہے اور ایک ناگ پودے کواٹھاکر لے جاتا ہے (گویا پودا دوبارہ سمندر کی تہہ میں پہنچ جاتا ہے۔) کہانی کے انجام میں جلجامیش سمندر کے کنارے بیٹھا آہ وبکا میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔ 3
یہ کہانی یقیناً المیہ کے زمرے میں شامل ہے مگر کیا انسانی زندگی بجائے خود ایک المیہ نہیں؟ کیونکہ اپنی ساری تہذیبی ترقی، سائنسی فتوحات اور بے مثال صلاحیتوں کے باوصف انسان کوآخرکار خاک ہوجانا ہے۔ دراصل جلجامیش کی اہمیت دوجہتوں سے ہے۔ ایک اس لیے کہ اس نے لافانی ہونے کی خواہش کی اوریوں سب انسانوں کی ایک بنیادی خواہش کا ترجمان بن گیا۔ دوسرے اس نے حیات ابدی کے حصول کے لیے بڑے بڑے مصائب کا سامنا کیا اوریوں ایک ایسی مثال پیش کردی جو ہر انسان کے سامنے سدا رہے گی کہ وہ اگرچاہے تو دیوتاؤں یا مافوق الفطرت ہستیوں کی طرح بڑے معجزانہ طریق سے پہاڑوں اور سمندروں، دیووں اور بدروحوں، ناگوں اور دوسرے ہیبت ناک جانوروں پر غالب آسکتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں لافانی ہونے کی خواہش اور ٹکر لینے کی آرزو اس ’ہستی‘ کی نشان دہی کرتی ہے جوسب انسانوں میں ایک مخفی قوت کے طورپر موجود ہے۔ اگریہ قوت موجود نہ ہوتی توانسان دوسرے جانوروں کے مقابلے میں کمزور ہونے کے باعث کبھی اس مقام تک نہ پہنچ سکتا جواسے آج حاصل ہے۔
جلجامیشؔ ہی کی طرح حیاوتھؔ بھی ایک فوق البشر ہے۔ وہ بیک وقت فانی انسان بھی ہے اور مافوق الفطرت ہستی بھی۔ اپنی اس حیثیت میں کہ وہ پہاڑوں کو پھلانگ جاتا ہے اور بوڑھے سمندر سے ریت کا ایک ذرہ نکال کر اس سے پوری ارض کوتشکیل دیتا اورپھر اسے سمندر پر تیراتا ہے۔ نیز مغربی ہوا اس کے باپ کے روپ میں اورچاند کی بیٹی اس کی ماں کے روپ میں سامنے آتی ہے۔ وہ یقیناً ایک دیوتا کے روپ میں نظرآتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بات بھی ہے کہ اسے موسم سرما میں بھوک کے کچوکے محسوس ہوتے ہیں اور شہد کی مکھی اسے کاٹ کھاتی ہے اور جانوروں پر اس کا جادو ناکام ہوجاتا ہے۔ وہ شرارتیں کرتا، عملی مذاق سے لطف اندوز ہوتا اور دوسروں سے حسد کرتا ہے اور یہ تمام باتیں اسے دیوتا کے مقام بلند سے سے نیچے اتار کر آدمی کی سطح پر لے آتی ہیں۔ 4 چنانچہ اساطیر کے بعض ماہرین نے اسے کلچر ہیرو کہہ کر پکارا ہے۔
یہی حال پولینشیا کے کلچر ہیرو مایوآمائیMAUIO کا ہے، جس میں بیک وقت ایک مسخرے، شریر لڑکے اور دیوتا کی صفات یکجا نظرآتی ہیں۔ ہندودیومالا میں کرشن کی حیثیت بھی کلچر ہیرو کی ہے کہ وہ ایک طرف تو جمناتٹ پر گوپیوں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتا ہے، ان کا مکھن چراکر کھاجاتا ہے اور ان سے عملی مذاق کرتا ہے اور دوسری طرف مہابھارت میں بھگوت گیتا کے ذریعے بلند اور ارفع خیالات کا اظہار بھی کرتا ہے۔ نیز اس کی شکتی کسی صورت بھی کسی دیوتا کی شکتی سے کم نہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ طلسماتی یا دوسری کہانیوں میں توہیرو کو عام زندگی کے مصائب اور کرداروں سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔ (طلسماتی کہانیوں میں ابھرنے والے جنوں کے سینگ اگرکاٹ دیے جائیں اور پریوں کے پرکتر لیے جائیں تو نیچے سے انسان ہی برآمد ہوں گے) لیکن کلچر ہیرو عناصر فطرت مثلاً ہوا، پانی، زلزلہ، سیلاب وغیرہ سے بھی متصادم ہوتا ہے اور ساری فطرت کو زیرپا لانے کی کوشش کرتا ہے، اپنے لیے نہیں بنی نوع انسان کے لیے۔ کیمپ بل نے لکھا ہے کہ ’’ہیروعام دنیا سے ایک غیرارضی تحیر کی دنیا میں چلا جاتا ہے جہاں وہ بڑی خوفناک قوتوں پر غالب آتا ہے۔ تب وہ اس پراسرار مہم سے ایک ایسی شکتی حاصل کرکے لوٹتا ہے جوبنی نوع انسان کے لیے خیر اور برکت کا پیغام ہے۔ مثلاً جے سن کی کہانی کو لیجئے۔ اس کہانی میں جے سن ایک کلچر ہیرو کے طورپر ابھرا ہے اور ان گنت مصائب سے گزرنے کے بعد بنی نوع انسان کے لیے سنہری اون حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ مگردراصل اس کی تمام تر مہمات کا رخ اندرہی کی طرف ہے، جہاں وہ نسل کے قدیم ترین تجربات سے قوت حاصل کرتا ہے۔ یوں دیکھئے توکلچر ہیروکا منصب بنی نوع انسان کواس کے ماضی سے منسلک کرنا بھی قرار پاسکتا ہے۔
اس سلسلے میں مزید دو مثالیں کلچر ہیرو کے منصب اور طریق کار کوواضح کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ ایک مثال ہیراکلیسؔ کی ہے اور دوسری اوڈلیسسؔ کی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ان سب کہانیوں میں انسان ہی کومرکزی حیثیت ملی ہے۔ حتیٰ کہ خود دیوتا بھی جب آسمان سے زمین پر اترتے ہیں تو اکثر وبیشتر انسان ہی کے لباس میں سرگرم عمل دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً ہیراکلیس کا قصہ لیجئے جوزیوس کا بیٹا تھا۔ ایک روایتی کلچر ہیرو کی طرح ہیراکلیس کوپیدا ہوتے ہی ہیراؔ کے حسد کا سامنا کرنا پڑا۔ ہیراؔ نے اسے مارنے کے لیے دو ناگ بھیجے لیکن ہیراؔکلیس نے اسے کچل دیا۔ پھر ہیراکلیسؔ جوان ہوا۔ اس نے گناہ کی دیوی کو دھتکارا اورنیکی کی دوشیزہ کو اپنایا اور اپنی ساری زندگی عظیم کاموں کے لیے وقف کردی۔ گویا ہیراکلیس نے عیش وآرام پر انسان کی فلاح وبہبود کے مقدس کاموں کوترجیح دی۔
کہانی کے مطابق ہیراکلیسؔ نے اس دیوانگی کے تحت جوہیراؔ نے اس پر نازل کی تھی، اپنے بچوں کو مار دیا مگر پھر جب وہ ہوش میں آیا تو اس کے ضمیر نے اسے کچوکے لگائے اور اس نے اپنے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے خود اذیتی کے بارہ مراحل سے خودکوگزارا مگرخود اذیتی کے یہ مراحل دراصل اس کے اپنے معاشرے کی فلاح وبہود کے لیے ناگزیر بھی تھے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہیراکلیس دراصل اپنی ذات کو معاشرے کے لیے وقف کررہا تھا۔ اس سلسلے میں ہیراکلیسؔ نے شیر، ناگ، سور، وحشی پرندوں، کریٹ کے بیل، خونخوار گھوڑیوں اورخونی کتے کو جس جواں مردی سے تہہ تیغ کیا، یہ ایک خاصی طویل داستان ہے مگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ایک عام زرعی معاشرے کوجن زمینی آفات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان میں جنگلی جانور سرفہرست ہیں۔
چنانچہ ہیراکلیسؔ ایک رکھوالے کی طرح اپنے زرعی معاشرے کوآفات ارضی سے بچانے پرمامور نظرآتا ہے۔ البتہ اس کی ایک مشقت ایسی بھی ہے جواسے رکھوالے کے منصب سے اوپر اٹھاکر ایک مہم جوکے مقام پر لے آتی ہے اوریہی دراصل ایک کلچرہیرو کا سب سے بڑا منصب بھی ہے۔ چنانچہ جب وہ سنہری سیبوں کے حصول کے لیے روانہ ہوتا ہے تواس کی مہم سنہری اون کے لیے جے سنؔ کی مہم ہی کا ہم پلہ قرار پاتی ہے۔ اس مہم کے دوران میں ہیراکلیسؔ کو بہت سے مصائب سے گزرنا پڑا۔ ایک جگہ ایسی بھی آئی جہاں پرومیتھیس چٹان کے ساتھ جکڑا ہوا کھڑا تھا۔ ہیراکلیسؔ نے پرومیتھیس کو آزاد کیا اور زیوسؔ سے درخواست کی کہ وہ اس پر رحم فرمائے۔
پرومیتھیس نے خوش ہوکر ہیراکلیس ؔ سے کہا کہ وہ اس کے بھائی اٹلس کی تلاش کرے کیونکہ اٹلس ہی کو سنہری سیبوں کا علم ہے اوراب اٹلس کا حال دیکھئے۔ اسے ایک عجیب وغریب فرض سونپا گیا تھا۔ یعنی وہ اپنے شانوں پر آکاش کو اٹھائے کھڑا تھا۔ جب ہیراکلیسؔ اس کے پاس پہنچا تواٹلس نے اس سے کہا، ’’بھائی! میں تمہیں سنہری سیب خود لائے دیتا ہوں لیکن تم ذرا اس آکاش کو کچھ دیر کے لیے اپنے شانوں پر اٹھالو۔‘‘ ہیراکلیسؔ نے تعمیل ارشاد میں آکاش کواپنے شانوں پر رکھ لیا۔ بعدازاں اٹلس سنہری سیب لے آیا مگر وہ خوش تھا کہ اسے کچھ عرصے کے لیے آکاش کے بوجھ سے تو نجات ملی تھی۔
لہٰذا اب اس نے چاہا کہ ہیراکلیسؔ کچھ دیر اوراس بوجھ کو اٹھائے رکھے مگر ہیراکلیسؔ بھی بڑا کائیاں تھا۔ اس نے اٹلس سے کہا، ’’بھائی جان! میں تمہارے لیے یہ بوجھ اٹھانے کوتیار ہوں مگر چونکہ اس مشقت کا عادی نہیں ہوں۔ اس لیے تم ذرا اس کوتھامو تاکہ میں اپنا شانہ سہلالوں۔ اس کے بعد میں دوبارہ اسے اٹھالوں گا۔‘‘ راؤس 5 نے بڑے مزے سے یہ کہانی بیان کرتے ہوئے ایک تبسم زیرلب کے ساتھ لکھا ہے کہ جب اٹلسؔ نے دوبارہ یہ بوجھ اٹھالیا توہیراکلیسؔ نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ سیب اٹھائے اور چلتا بنا۔ یہ تومعلوم نہیں کہ اس کے جواب میں اٹلسؔ نے اسے کن مغلظات سے مخاطب کیا مگرآسمان ابھی تک گرا نہیں۔ اس لیے قیاس یہ کہتا ہے کہ اٹلس اپنا فرض بدرجہ احسن پورا کر رہا ہے۔ اس کہانی میں بھی ہیراکلیسؔ نے روایتی کلچر کی طرح بنی نوع انسان کے فائدے کے لیے مہم جوئی کا منصب سنبھالا ہے مگردلچسپ بات یہ ہے کہ اب انسان اوردیوتا کا فاصلہ کچھ اور بھی کم ہوگیا ہے اورانسان اور دیوتا ایک ہی سطح پر نظر آنے لگے ہیں۔ یہ گویا مذہب الارواح کی لخت لخت دنیا سے ایک وسیع اورجڑی ہوئی دنیا کی طرف انسان کی وہ جست ہے جو مزاجاً وہبی نوعیت کی ہے کہ جوڑنا اور مربوط کرنا اس کا مقدس ترین مقصد ہے۔
دوسری کہانی اوڈیسسؔ کی ہے۔ اوڈیسسؔ نے اپنی خوبصورت بیوی پینی لوپ کوالوداع کہا اور ایک طویل سفر پرروانہ ہوگیا۔ بظاہر اس سفر کا کوئی مقصد نہ تھا۔ مگرچونکہ یہ انسان کی مہم جوئی کا اعلامیہ تھا، اس لیے اس کا مقصد بھی یوں متعین ہوگا کہ انسان اگر رک جائے تو اس کے افکار کو زنگ سا لگ جاتا ہے اورزمین اسے دوبارہ اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی ہے۔ لہٰذا وہ سفراختیار کرتا ہے تاکہ اس کی صلاحیتیں کند نہ ہوجائیں۔ ویسے بھی ہر انسان کے اندر ایک لوٹس ایٹر موجود ہے جو زودیابدیر اس پر غالب آنے کی کوشش کرتا ہے۔ لہٰذا اس بات کی ضرورت پڑتی ہے کہ انسان خود کو ’سوجانے‘ کے اس عمل سے بچائے رکھے۔
مجھے کئی بار یہ خیال آیا کہ اوڈیسس کی ساری مہم دراصل ’نیند‘ ہی کے خلاف تھی۔ مثلاً طوفان نے اوڈیسس اوراس کے ساتھیوں کوایک پراسرار جزیرے میں لاپھینکا، جہاں بعداز دوپہر ایک سلا دینے والی کیفیت سدا مسلط رہتی۔ وہاں کے لوگوں نے انہیں لوٹس لاکردیا اور اس لوٹس کا یہ وصف تھا کہ جوکوئی اسے کھالیتا، اس کے دل میں حرکت کرنے کی خواہش ہی ختم ہوجاتی اور وہ چاہتا کہ بس لوٹس ہی کھاتا چلا جائے اور شیریں سی غنودگی میں ڈوبا رہے۔ اوڈیسس نے اس خطرے کو بھانپ لیا اوراپنے ساتھیوں کو جزیرے سے نکال لے گیا۔ اسی طرح سفر کے دوران میں اوڈیسس اوراس کے ساتھی ایک ایسے جزیرے پرجااترے جہاں ایک جادوگرنی کا راج تھا۔ اس جادوگرنی نے جزیرے کے سارے جانوروں سے ان کی تندی اور خونخواری چھین لی۔ انہیں TAME کردیا تھا۔ یہ بھی گویاجانوروں کو لوٹس کھلاکر انہیں غنودگی کے سپرد کردینے کا ایک عمل تھا۔ اس جادوگرنی نے اوڈیسس کے ساتھیوں کو دعوت کھلائی اور وہ دعوت کھاتے ہی سوروں کے گلے میں تبدیل ہوگئے (یعنی ان کی ذہنی چمک دمک اور مہم جوئی کا میلان ختم ہوا۔) مگر اس موقع پر بھی اوڈیسس نے انہیں بچا لیا اور وہ دوبارہ انسان کی جون میں آگئے۔
اس طرح جب اوڈیسس اوراس کے ساتھی سائرن کے جزیرے کے قریب پہنچے تو ان پر ان جادوگرنیوں کی آواز غالب آنے لگی جو پرندوں کی طرح تھیں۔ ان کا گانا اتنا شیریں اور سحرانگیز تھا کہ اسے سنتے ہی مسافروں کی قوت ارادی مفلوج ہوجاتی تھی اور وہ جزیرے میں اتر کر گانے والی جادوگرنیوں کے گرد ایک دائرہ سا بناکر بیٹھ جاتے تھے اور بیٹھے ہی رہتے تھے۔ حتیٰ کہ ان کے جسم کمھلاکر پھرسوکھ کر چرمر ہوجاتے تھے۔ اوڈیسس کواس بات کا علم تھا۔ لہٰذا جزیرے کے قریب آتے ہی اس نے اپنے ساتھیوں کے کانوں کو موم سے بند کروا دیا تاکہ انہیں ’نغمہ‘ سنائی ہی نہ دے۔ یوں وہ انہیں اس بار بھی بچا لے گیا۔
غور کیجئے کہ اوڈیسس کی کہانی میں لوٹس، دعوت یا نغمہ ایک ہی شے کے مختلف نام ہیں۔ وہ شے جس کا کام نیند نازل کرنا ہے، تاکہ انسان کی ساری شخصیت ہی مفلوج ہوکر رہ جائے۔ اسی لیے میں نے اس بات کا اظہار کیا کہ اوڈیسس کی مہم دراصل ’’نیند‘‘ کے خلاف ہے جو افرادہی نہیں، قوموں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ یوں دیکھئے تو اوڈیسس کی حیثیت ایک کلچر ہیرو کی ہے کہ اس نے انسان کوبے عملی کی حالت میں مبتلا ہوجانے سے بار بار روکا اور اپنے پیچھے آنے والوں کے لیے ایک خوبصورت مثال چھوڑ گیا۔
انسانی معاشرہ میں کلچر ہیرو کی روایت ایک ایسے دور میں پروان چڑھی جب خودانسان بھی ایک طویل آوارہ خرامی میں مبتلا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برف چوتھی بار قطب شمالی کی طرف مراجعت کرچکی تھی اوراس کے نتیجے میں ایک طرف تویورپ میں گھنے جنگل نمودار ہوگئے تھے اور یوں بارانی طوفانوں نے اب یورپ کواپنا تختہ مشق بنا لیا تھا اور دوسری طرف افریشییا کے سرسبز وشاداب میدان بارش کے یکایک کم ہوجانے کے باعث بڑے بڑے صحراؤں میں تبدیل ہوگئے تھے۔ لاکھوں برس سے افریشیا ایک سرسبز و شاداب خطہ زمین تھا جوانسان کے لیے ایک جنت ارضی کی حیثیت رکھتا تھا۔ مگرپھر یکایک موسم خشک ہونے لگا اور تمازت آفتاب میں زمین جھلسنے لگی۔ اس قدر کہ اب انسان کو ایک گھونٹ پانی یا مٹھی بھر اناج کے لیے بعض اوقات سیکڑوں کوس کا سفر کرنا پڑتا تھا۔
چنانچہ اس کے ہاں آوارہ خرامی کا ایک طویل دور آیا اور وہ اپنے ریوڑوں کی معیت میں گھاس کے قطعوں یا آب شیریں کے چشموں کی تلاش میں مارا مارا پھرنے لگا۔ اس آوارہ خرامی کے دوران میں جب جسم و جان کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے بعض انتہائی نازک مراحل آتے توانسان کومہم جوئی میں بھی مبتلا ہونا پڑتا، تاکہ قبیلے کوموت کے جبڑوں سے بچایا جاسکے۔ خیال یہ ہے کہ کلچر ہیرو کی نمودانسان کی اس مہم جوئی کی افسانوی تصویر تھی مگرکلچر ہیرو کی اہمیت محض افسانوی یا تصویری نہیں کیونکہ بظاہر کلچر ہیرو باہر کی دنیا میں سرگرم عمل ہوتاہے اور آلام ومصائب پر غالب آکر اپنے قبیلے کے لیے امردسیا، آب حیات، سنہری اون یا سنہری سیب حاصل کرتا ہے لیکن دراصل اپنی ذات کے اندر غواصی کرتا ہے اور بہت سی نفسیاتی اورجبلی رکاوٹوں کو عبور کرکے نسل کے اس گودام تک رسائی پانے میں کامیاب ہوتا ہے جس میں پوری نسل کی مخفی قوت اسی طرح محفوظ پڑی ہے جیسے بیج کے سخت چھلکے کے اندراس کا مغز۔
پھر جس طرح بیج کے مغز کے اندر روئیدگی کا سارا جوہر موجود ہے بالکل اسی طرح فردکے بطون میں وہ لازوال قوت موجود ہے جس کے متحرک ہونے پر خود فرد اور اس کی وساطت سے پورے معاشرہ کی قلب ماہیت ہوجاتی ہے اور وہ ازسرنو تازہ دم ہوکر مصروف عمل ہوجاتا ہے۔ گویا کلچر ہیروخارجی سطح پر تو اپنے زمانے کی مہم جوئی کے میلان کی علامت تھا مگر داخلی سطح پر ایک حیات نوکا محرک تھا۔ تاہم اس کا یہ عمل انسانوں کو منتشر ہونے پر نہیں بلکہ منسلک اور مربوط ہونے پر آمادہ کرتا تھا اوراس لیے بحیثیت مجموعی وہبی سوچ کے تابع تھا۔
(۲)
اساطیر میں کلچر ہیرو کی اہمیت کو پوری طرح اجاگرکرنے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ اسطور سازی کے میلان کا بھی تجزیہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسطور انسان کے رجحان نقل کی پیداوار ہے؟ اس سوال کا جواب فوری طورپر ہاں یا نہیں میں نہیں دیا جاسکتا۔ البتہ اس سلسلہ میں بعض شواہد بے حد دلچسپ اور خیال انگیز ہیں۔ مثلاً یہ دیکھئے کہ ایک طویل موسمی جزرومد کے بعد قدیم انسانی معاشرے کا جو ڈھانچہ آخرآخر میں نمودار ہوا، اس کے بالکل متوازی اوراسی زمانے میں اسطور کا ایک پورا نظام بھی متشکل ہوگیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ اسطوری نظام خودرو تھا یا اس کی تشکیل میں انسان کے اس رجحان نقل نے حصہ لیا تھا جو فن میں سعیِ تخلیق مکرر کی صورت میں سامنے آتا ہے؟
قیاس غالب ہے کہ جس طرح بچہ جو کچھ صبح سے شام تک دیکھتا ہے اسی کو اپنے کھیل کا موضوع بناتا ہے بالکل اسی طرح انسان نے اپنی معاشرتی زندگی کے جس نظام کو مادی آنکھ سے دیکھا، اسے اپنے تخیل کی آنکھ سے ایک نیا روپ عطا کردیا۔ مادی آنکھ گوشت پوست اور چونے گارے کی حقیقی زندگی کو دیکھتی ہے مگر تخیل کی آنکھ اسے ایک لطیف سی دھند میں چھپا دیتی ہے یا خواب میں لپیٹ دیتی ہے۔ یوں کہ اس کی کرختگی اور سپاٹ پن، ایک عجیب سی پراسرار لو سے دمکنے لگتا ہے۔ قدیم انسان کے ہاں مادی زندگی کے جملہ مراحل اساطیر کے اندر اسی طرح منعکس نظر آتے ہیں جیسے گھریلو زندگی کے مختلف ابعاد بچوں کے کھیل میں نمودار ہوجاتے ہیں۔ اس فرق کے ساتھ بچوں کے کھیل یا خواب کا شیرازہ بے سمت اور کٹا پھٹا ہوتا ہے اور فنی ترتیب سے آشنا نہیں ہوتا لیکن اس طور اوراس کے بعد فن کے مظاہر میں مادی زندگی کی عکاسی ایک فنی ضابطے کے تابع ہوکر تخلیق پر منتج ہوجاتی ہے۔ یعنی اس میں پراسراریت اورخواب کی سی کیفیت تو بچوں کے کھیل یا بالغوں کے جاگرت کے سپنوں سے مشابہ ہے لیکن تخلیقی عمل اسے ایک فنی صورت بھی تفویض کرتا ہے۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا معاشرتی زندگی اوراس کے ہر جزرومد نے اسطور کے ایک متوازی نظام کو وجود میں آنے کی تحریک ہمیشہ دی ہے۔ مثلاً جب انسان جنگل کا باسی تھا تو اس کے تخیل کی پرواز جنوں بھوتوں کی تخلیق ہی کی حد تک تھی یعنی ان مافوق الفطرت ہستیوں کی تخلیق جن کی زد بہت محدود تھی۔ وہ زیادہ سے زیادہ کسی ایک درخت، غار، چٹان، پہاڑ یا درختوں کے جھنڈ سے متعلق ہوتیں۔ شاید اس لیے کہ جنگل کی زندگی کے اس دور میں خودانسان بھی جسم و جان کے رشتے کو برقراررکھنے کے لیے چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹا ہوا تھا اور کسی درخت کے چھتنار، جھنڈ یا غار ہی میں سر چھپانے پر مجبور تھا۔ پھر جب اس نے موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے جنگل کو الوداع کہی تو اسے ایک طویل سفر پر نکل آنا پڑا اور مہم جوئی اس کی عادت ثانیہ بن گئی۔
مہمات ہمیشہ کسی ایک رہبر یا سرغنہ کی قیادت میں کامیاب ہوتی ہیں۔ لہٰذا ایک انتہائی توانا، عقل مند، تجربہ کار اور باوقار سرغنے کا تصور ابھرا جو اساطیر میں کلچر ہیرو کے روپ میں نظرآتا ہے۔ اس طویل آوارہ خرامی کے زمانے میں انسان نے بہت کچھ سیکھا۔ مثلاً کھیتی باڑی کیسے کرنی چاہئے اور آگ پر کیسے قابو پانا چاہئے اور پھر اینٹیں اور کوزے کیسے بنتے ہیں اور دھاتوں کو پگھلاکر اوزار کیوں کر تیار ہوتے ہیں اورپھر یہ کہ گھر کیسے بنتا ہے اور گھوڑوں، گدھوں، اونٹوں، بھیڑوں اور بکریوں کو کس طرح مطیع کیا جاتا ہے۔ اسطور کے مطابق انسان کویہ سب کچھ پرومیتھسسؔ نے عطا کیا۔ مادی زندگی میں ضرورت ان سب ایجادات اور دریافتوں کی ماں تھی کیونکہ انسان کو اپنی طویل آوارہ خرامی کے دوران میں جگہ جگہ مناسب ماحول دیکھ کر رکنا پڑتا تھا، یعنی جہاں کوئی بڑا دریا، نخلستان یا سرسبز وشاداب قطعہ دکھائی دے جاتا توانسان رک کر اس سے فیض پانے کی کوشش کرتا۔ پھر آہستہ آہستہ اس نے آوارہ گردی کے بجائے ایک جگہ رک کر کھیتی باڑی شروع کی اور بڑے بڑے دریاؤں کے کنارے پر زرعی معاشرے وجود میں آگئے۔
اسطورسازی کے میلان نے اس نئی صورت حال سے فوراً گہرے اثرات قبول کرتے ہوئے اسطور کو یوں منقلب کیا کہ اب اس میں نہ صرف دیوتاؤں کے گھرانے ابھرآئے، نہ صرف زمین اور آسمان میں دوطرفہ آمدورفت کا آغاز ہوا بلکہ آخر آخر میں توانسان اور دیوتا ایک ہی برادری میں شامل دکھائی دینے لگے۔ اساطیر پر اعتبار کیجئے تو ماننا پڑے گا کہ دیوتاؤں کی تخلیق پہلے ہوئی اور انسان کی بعد میں اور اسی لیے اساطیر میں دیوتاؤں کے کارناموں کے بعدہی کلچر ہیروکے کارناموں کا ذکر ملتا ہے۔ مگراصل زندگی میں کلچر ہیرو پہلے وجود میں آئے اور دیوتاؤں کی تخلیق بعد میں ہوئی۔ یعنی جب کلچر ہیروکو بے پناہ مصائب اور تکلیف دہ مہمات کا سامنا کرنا پڑا تواس نے اپنی وہبی سوچ کے تحت ذات کی قوتوں سے بار بار مدد طلب کی۔ جنگل کی زندگی میں تواسے یہ قوتیں ماناؔ کے روپ میں دکھائی دی تھیں مگرنئی زندگی کی پیچیدگیوں کے پیش نظر ذات کی یہ قوتیں دیوتاؤں کے ایک طاقتور گھرانے کی صورت میں ابھر آئیں۔
لہٰذا زیرنظر مطالعہ میں انسان کی ماد ی زندگی کے ارتقا کے پیش نظر کلچر ہیرو کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور دیوتاؤں کا بعد میں۔ درآں حالیکہ اساطیر میں صورت حال اس کے بالکل برعکس تھی۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اسطور سازی کا عمل بجائے خود انسان کے زرخیز تخیل کی پیدوار تھا اوراس میں مادی زندگی کی کہانی منقلب ہوکر ایک اور منظر دکھا رہی تھی۔
ابتداءً اسطور سے مراد وہ کہانی تھی جس کا رسم (RITUAL)کی ادائیگی کے دوران میں ورد کیا جاتا تھا اور جو گویا کسی دیوتا کے کارناموں کو بیان کرتی تھی مگر چونکہ یورپ والوں نے دیوتاؤں کی ان کہانیوں کو ماننے سے بار بار انکار کیا جو محیرالعقول واقعات سے لبریز تھیں۔ لہٰذا اسطور کے بارے میں یہ خیال عام ہوگیا کہ اس سے مراد ’’انہونی کہانی‘‘ ہے۔ ایک ایسی کہانی جس کا مقصد سادہ لوح لوگوں کو دھوکا دینا ہے۔ 6 مگر انیسویں اور اس کے بعد بیسویں صدی میں اسطور پر جوکام ہوا ہے اس سے اسطور کوآسانی سے مسترد کردینے کا رویہ ایک بڑی حد تک ماند پڑ گیا ہے بلکہ اسطور کوعقل وخرد کے منافی ایک جناتی سوچ قرار دینے کا میلان بھی اب ختم ہونے کو ہے۔ تاہم اسے ختم ہونے میں تقریباً ایک سوبرس لگے ہیں مثلاً ۱۸۸۵ میں میکس ملر (MAX MULLER)کا ایک مضمون شائع ہوا۔ 7 جس میں اس نے اسطور کو ایک لسانی مغالطے کا نتیجہ قرار دیا۔ یہ وہ دن تھے جب لاطینی اور سنسکرت کو ایک ہی زبان کی دوشاخیں قرار دینے کا نظریہ عام ہوگیا تھا اوراہل نظرپرامید تھے کہ ان دونوں زبانوں کے تقابلی مطالعہ سے دیوتاؤں کی تخلیق کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔
چنانچہ میکس مولر نے اساطیر کے تقابلی مطالعہ سے لسانی مغالطے کا نظریہ اخذ کیا اور کہا کہ جس طرح زبانوں میں ایک ہی شے کے کئی نام ہوتے ہیں (SYNONYMS) اسی طرح کئی چیزوں کے لیے ایک نام بھی ملتا ہے اور کہا کہ جب ہم کسی شے کو متعدد ناموں سے پکارتے ہیں توظاہر ہے کہ ان ناموں میں سے بعض چند دوسری چیزوں سے بھی منسوب ہوں گے۔ یوں دو بالکل مختلف قسم کی چیزیں ایک دوسری میں خلط ملط ہوکر لسانی مغالطے کوجنم دینے لگیں گی۔ مثلاً سورج آسمان پر چمکنے والی شے بھی ہے اور کسی شخص کا نام بھی، توایسی صورت میں سورج کو ایک شخصیت تفویض ہوجائے گی اور اس سے وہ تمام معرکے منسوب ہوجائیں گے جو دراصل سورج نامی شخص سے منسوب تھے۔ اپنے زمانے میں میکس مولر اور اس کے ہم نواؤں کے اس نظریے کا بڑا چرچا رہا مگر اب اہل نظر نے اسے مسترد کردیا ہے۔
اسطور کے ضمن میں دوسرا نظریہ ٹائلر کا تھا جسے بعدازاں فریزرؔ کی تحقیقات نے تقویت بخشی۔ ٹائلر نے کہا کہ مذہب الارواح کے دور کے انسان کی سوچ اور آج کے انسان کے سوچنے کے انداز میں صرف مدارج کا فرق ہے۔ قدیم انسان ایک فلاسفر ہی کی طرح سوچتا تھا اور اساطیر دراصل زندگی اور موت کے مسائل ہی کا حل پیش کرتی تھیں۔ اسی طرح فریزرؔ نے یہ موقف اختیار کیا کہ انسانی سوچ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ شروع سے آخر تک انسانی سوچ ایک باقاعدہ سلسلے کے طورپر ابھری ہے۔ غور کیجئے کہ توٹائلر اور فریزرؔ کا یہ موقف ڈارونؔ اور سپنسرؔ کے نظریہ ارتقا ہی سے متاثر نظرآتا ہے اور انسانی زندگی میں ایک منقطی تسلسل کی موجودگی کومانتا ہے۔ حالانکہ خودانسانی زندگی سیدھی لکیر پر کبھی روا ں دواں نہیں رہی بلکہ ایسی لکیروں پر گامزن رہی ہے جو ایک دوسری کو کاٹتی چلی گئی ہیں۔ خود مسلسل ارتقا کا نظریہ بھی اب شکوک و شبہات کی زد میں ہے اور بیسویں صدی میں علم الانسان کے ماہرین نے بار بار اس بات کا اظہار کیا ہے کہ انسانی زندگی مسلسل ارتقا کے نہیں بلکہ مختلف جستوں JUMPSکے تابع ہے۔ ایسی صورت میں اساطیر کو منطقی سوچ کا تسلسل قرار دینا کسی طور بھی مستحسن نہیں۔
تیسرا نظریہ لیوی برھل کا ہے جس نے یہ موقف اختیار کیا کہ قدیم انسانی ذہن اور جدید ذہن میں بعدالقطبین ہے۔ قدیم انسان منطق اور دلیل کے ان قواعد سے قطعاً ناآشنا تھا جس سے آج کا انسان واقف ہے۔ لہٰذا ٹائلر اور فریزر کا یہ موقف کہ قدیم انسان کی سوچ آج کے انسان کی سوچ ہی کی ابتدائی شکل ہے، ایک مفروضے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ لیوی برھلؔ کے نزدیک قدیم انسان کا ذہن قبل از منطق (PRE-LOGICAL)ذہن ہے جو مزاجاً وارداتی ہے، تجزیاتی نہیں۔ مگر کیسیررؔ نے لیوی برھلؔ کے نظریے پر سخت اعتراض کیا اورکہا کہ اگر یہ نظریہ مان لیا جائے توپھر اسطور کو سمجھنا ہی ناممکن ہوجائے ئ کیونکہ بقول لیوی برھلؔ اس میں جو ذہن کارفرما ہے وہ انسانی ذہن سے بالکل مختلف ہے۔ 8
اس سلسلے میں آخری نظریہ خودکیسیریرؔ کا ہے۔ کیسیریرؔ نے لکھا ہے کہ ’’فن ہمیں وجدان کی یکتائی عطا کرتا ہے۔ سائنس ہمیں تعلقات کی یکتائی بخشتا ہے اورمذہب اوراسطور محسوسات کی یکتائی مہیا کرتے ہیں۔‘‘ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اس نے اس امر کا اظہار کیا کہ اسطور محض ’’ننگے احساس‘‘ کا نام نہیں۔ یہ تواحساس کا اظہار ہے۔ نیز یہ کہ احساس اور اظہار احساس میں بعدالقطبین ہے۔ احساس کے اظہار کا مطلب تویہ ہے کہ اب احساس کو تصور میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ کیسیریر نے اسطور کومنطقی سوچ کے پورے سلسلے میں ایک الگ حیثیت بخشی ہے اورآخرآخر میں تواس نے اسطور کو بابلؔ کی سمندری بلاتیامت کا ہم پلہ قرار دیا ہے جسے مروک نے مارکر اس کے جسم سے کائنات کی تخلیق کی تھی۔
مراد یہ کہ کائنات کی تخلیق اس وقت تک ممکن نہیں تھی جب تک کہ تیامت کو قتل نہ کردیا جاتا۔ بقول کیسیریر اسطور کی بہیمانہ قوت کو برتر قوتوں نے دبائے رکھا ہے مگراسطوری یا وہبی سوچ کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ جب تک برتر قوتیں (یعنی ذہنی اخلاقی قوتیں) غالب رہتی ہیں تو اسطوری سوچ بھی پایہ زنجیر نظرآتی ہے مگر جب کسی وجہ سے یہ قوتیں کمزور پڑ جاتی ہیں تواسطوری سوچ برانگیختہ ہوکر دوبارہ سطح پر آجاتی ہے اورانسان کی پوری ثقافتی اورسماجی زندگی کے لیے ایک خطرہ بن جاتی ہے۔
واضح رہے کہ کیسیریر نے اسطوری سوچ کے ضمن میں یہ رویہ ہٹلر کی جارحیت کے پیش نظراختیار کیا تھا۔ دراصل اسطوری سوچ کے خدوخال میں ہٹلر کی ایک ہزار سالہ جرمن اسٹیٹ کی متھ کو پوری انسانیت کے لیے مہلک قرار دے رہا تھا۔ ورنہ غورکریں تو اسطوری سوچ ایک مخفی قوت تو ضرور ہے مگراسے برتر قوتیں دبا نہیں دیتیں بلکہ وہ تواسطوری سوچ سے غذا حاصل کرتی ہیں۔ جب کسی زمانے میں اسطوری سوچ سے فیض پانے کا سلسلہ رک جاتا ہے تو انسان کی ساری سماجی، ثقافتی اور تخلیقی زندگی مرجھاکر رہ جاتی ہے۔ حد یہ کہ خودسوچ کا منطقی رخ بھی کمزور پڑجاتا ہے اورآگہی کی متحرک اور سیماب پا قوت، عادت اور رسم کی کھائیوں میں ڈھل کر انجماد کی نذرہونے لگتی ہے۔ پھر ردعمل کے طورپر اسطوری سوچ یکلخت بیدارہوتی ہے اور طوفان نوح کی طرح اشیاء پر سے زنگ اتار دیتی ہے۔
گویا اسطوری سوچ تو ایک روح رواں ہے۔ برگساں کی ELAN VITAL ہے۔ اس کے بغیرمنطقی سوچ کے پھیلاؤ کا سلسلہ کسی صورت بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا اسطوری سوچ اور منطقی سوچ ایک دوسرے کو کاٹتی نہیں (جیسا کہ کیسیریر ؔ سوچتا ہے) اور نہ اسطوریؔ سوچ کا تخریبی رخ محض شکست وریخت کو وجود میں لانے کا ذریعہ ہے (جیسا کہ کیسیریرنے اسے تیامت کا لقب عطا کرکے باورکرانے کی کوشش کی ہے) بلکہ اسطوری سوچ ہر بار منطقی سوچ کو کروٹ دیتی ہے اور یوں آگہی کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔ تاہم چونکہ سوچ کے یہ دونوں رخ انسان ہی کے ذریعے ظہورپذیر ہوتے ہیں۔ لہٰذا انسان کی حالت عجیب ہے کہ اسے کبھی تو اسطوری قوت کی تلاش میں اپنی ذات کے بطون میں اترنے کی ضرورت پڑتی ہے اور کبھی منطقی سوچ کی ہم راہی میں افق کی بے کنار دوریوں تک آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ یہی اس آگہی کا آشوب ہے اور یہی کلچر ہیرو کا نوشتہ تقدیر بھی ہے۔
حاشیے
(1) SHSANE CHAPTER
(2) JUNG-SYMBOLS OF TRANSFORMATION P178
(3) S.N.HORNE- MODEL
(4) SUNRISE K LHITER –P157
(5) W.H.O. ROUSE: GODS, HEROES AND MEN –P55
(6) LEWIS SENCE THE OUTLINE OF MYTHOLOGY
(7) MAX MULLER – COMORATIVE MYTHOLOGY
(8) CASSIRER- MYTH OF THE STATE
مأخذ:
نئے تناظر (Pg. 33)
- مصنف:وزیر آغا
-
- ناشر: اردو رائٹرس گلڈ، آلہ آباد
- سن اشاعت: 1979
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page