حروف کلیوں کے چٹکنے کی صدا : دربھنگہ ٹائمز ( گوشۂ خالد جاوید) – خورشید حیات
” دربھنگہ ٹائمز ” اردو کا واحد رسالہ ہے ، جس نے پروفیسر خالد جاوید کے ناول ” نعمت خانہ ” کو ، جے سی بی ایوارڈ سے نوازے جانے کی خوشی میں ، خصوصی شمارہ شائع کیا ہے۔ ڈاکٹر منصور خوشتر کا جنون قابل رشک اور قابل تقلید ہے۔آٹھ حروف کے ” نعمت خانہ ” پر نئی صدی میں ، نئے مکالمے کا آغاز ، اردو کے ساتھ ، دیگر زبانوں میں بھی ہو چکا ہے کہ مکالمے سے ہی ادب _ زندگی میں رفتار ہے۔ پروفیسر خالد جاوید نے ” نعمت خانہ ” کے حرف حرف میں ، ایسی روح پھونکی ہے ، جسے محبان اردو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ ہم سب کے لئے یہ بہت فخر کی بات ہے۔گرو سے کہو کہ ہم اپنی مادری زبان میں لکھتے ، پڑھتے اور بولتے ہیں۔پروفیسر خالد جاوید کے ادبی کارنامے ہمہ جہت ہیں۔ ان کا شمار چند ایک نمایاں دانشوروں / فکشن رائٹرس میں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا تخلیقی ذہن ہمیشہ بہت زرخیز رہا ہے۔ آج پوری دنیا میں ” نعمت خانہ / FOOD OF PARADISE THE کو ایک نیا اعتبار ملا ہے۔ ڈاکٹر منصور خوشتر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے صرف سات دن کی سرد دھوپ میں ” گوشۂ خالد جاوید ” نکالا۔ منصور بہت خاموشی سے اس طرح کے کرامات کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ سترہ برسوں میں شائع ہونے والے ، اس رسالہ کے خاص نمبر کی گونج ،آج بھی ادبی حلقوں میں سنائی دیتی ہے۔
چونکہ یہ اردو کا پہلا ناول ہے ، جسے ، جے سی بی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ اس لئے اردو اور اردو آبادی کے حوالے سے اختصار کے ساتھ گفتگو ضروری سمجھتا ہوں۔
زندگی کے ہر موسم میں ، اردو زبان و ادب کے عشاق ہوئے ہیں۔ جن کے ویڑن اور جنون نے اردو آبادی کو بیدار کرنے کی خاطر ، دامے درمے ، سخنے خود کو وقف کر دیا ہے۔ دربھنگہ شہر میں ، اپنی تہذیب / زبان کے سچے عاشق بھی ہمیشہ سے رہے ہیں ، جو بغیر کسی سرکاری اشتہار اور امداد کے رسالہ شائع بھی کرتے ہیں اور مفت میں ، لاکھوں روپے کی تنخواہ / گرانٹ پانے والے اساتذہ / اردو اکیڈمیوں کو بانٹتے بھی رہتے ہیں۔ بھیڑ کا شور بہت ہے مگر ورق دل پر اشکوں کی تحریر کچھ اور قصہ بیان کرتی ہیں۔ ہر اردو والا اردو کا خادم ہے۔ اردو کی بے لوث خدمت کر رہا ہے۔ لیکن کتب و رسائل کا قاری کہاں ہے ؟ اردو کتابوں کے بک سیلر سے مل لیجیے ، اردو آبادی کی تمام کمزوریوں کا اندازہ ہو جائے گا۔ لائبریریوں کا چلن ختم ہوتا جا رہا ہے۔ آپ سوچیں گے کہ زیادہ بات تو مجھے دربھنگہ ٹائمز کے تازہ شمارہ پر کرنی چاہئے تھی ، ارے بھیا میرے سچ تو یہی ہے کہ قلم ، قلمکار اور ململی ساڑی میں لپٹی اردو زبان کے تعلق سے ایک ایسی گفتگو کی ضرورت ہے۔ جہاں قول و فعل میں تضاد نہیں ہو۔ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو ماضی میں ، ترقی پسند ادب سے جڑے ، زیادہ تر معتبر چہروں کے بچے ، اردو نہیں جانتے تھے۔ اپنی سنہری تہذیب / زبان سے محبت کرنے کا دور کب شروع ہوگا ؟امید کی ایک کرن مجھے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو میں دیکھنے کو ملی ۔ پروفیسر کوثر مظہری کی زبان سے آزاد ہونے والے لفظوں میں اثر تھا کہ طلباء / طالبات نے رسالہ خریدا۔منصور پیارے ، تیزی سے بدلتے ہوئے موسم میں ، دریا کی طرح بہنے کا ہنر آپ کو خوب آتا ہے۔ رب ، آپ کے حوصلے کو ہمیشہ جوان رکھے۔ آمین۔اردو زبان ، معاشرتی نظام اور ہماری بے حسی کا ذکر ، نہ چاہتے ہوئے بھی صرف اس لئے ہوا کہ پروفیسر خالد جاوید کے ناول نعمت خانہ کو ملنے والا یہ ممتاز ادبی ایوارڈ ( 25 لاکھ روپے ) ، اردو زبان کی عظمت کابین الاقوامی اعتراف ہے۔ پروفیسر باراں فاروقی نے اس کا انگریزی ترجمہ ، ناول کی روح کو متاثر کئے بغیر ، بہت عمدگی سے کیا ہے ، شاید یہی وجہ رہی ہو کہ غیر اردو داں طبقہ میں خالد جاوید کے شیدائی بہت ہو گئے ہیں ۔ پوری اردو دنیا انہیں سلام پیش کرتی ہے۔
خالد جاوید کے ادبی کارنامے ہمہ جہت ہیں۔ ان کا شمار ایک نمایاں دانشور اور فکشن رائٹر میں ہوتا ہے۔ اردو فکشن کے اس قلندر/ ملنگ کے ناول نے ، شہد کی طرح میٹھی اس زبان سے عملی طور پر محبت کرنے والے چہروں کے نام ، نئی رفتار لکھ دی ہے۔اس سے قبل کہ درختوں سے لپٹی ہوئی ہوائیں ، مرثیے سنانے لگیں ، ہر رت میں ، ” بڑے دالان” سے لگے ، متوسط طبقہ کے ” کچن ” میں نعمت خانہ سنبھال کر رکھیو کہ جنگ سے ہی زندگی آگے بڑھتی ہے۔ جنگ / جہاد صرف اپنے نفس سے۔
دربھنگہ ٹائمز ( اکتوبر تا دسمبر 2022 ) کا یہ شمارہ 400 صفحات پر محیط ، اپنے خوبصورت گیٹ اپ اور عمدہ طباعت سے مزین آپ سب کو خرید کر پڑھنا چاہیے۔ (یہ بھی پڑھیں نعمت خانہ: ایک وجودی ناول – ڈاکٹر معید الرحمن )
اس کے مشمولات دیکھ کر خوشی ہوئی ، یہ محنت واقعی آپ کے ذوق جنون اور آپ کے والدین کی دعاؤں کا ثمر ہے۔
کہنے کی بات میں آپ نے سچ ہی لکھا:: ” دربھنگہ ٹائمز ، وہاں پہنچ رہا ہے ، جہاں جہاں اردو آباد ہے۔ یہ رسالہ ملک کے ساتھ ، جرمنی ، امریکہ ، قطر ، بحرین ، آسٹریلیا ، اور دیگر ممالک میں پسند کیا جا رہا ہے "۔ آگے آپ فرماتے ہیں: ” دربھنگہ ٹائمز کی پوری ٹیم کی طرف سے یہ مٹھی بھر کوشش ہے ایک منکسر المزاج ، خلیق ، ملنسار اور اپنے اسلوب کے موجد / ناول نگار پروفیسر خالد جاوید کے لئے۔ مجھے امید ہے کم وقت میں میری مٹھی میں جمع ہوء یہ تحریریں آپ سب کو متاثر کرنے میں کامیاب رہیں گی۔ ”
گوشۂ خالد جاویدمیں ، پروفیسر کوثر مظہری ، خورشید اکرم ، ڈاکٹر مجیر احمد آزاد ، ڈاکٹر محمد نہال افروز ، محمد عاصم بدر کی تحریریں / مضامین / مقالے کے ساتھ ، خورشید حیات کے انٹرویو اور نعمت خانہ کا ایک باب ” شور ” شامل ہے۔ جو ، جے سی بی انعام کی اہمیت اور ناول / ناول نگار کے فن کا بھرپور احاطہ کرتا ہے۔ یہی تو سچ ہے کہ فکشن کی جمالیات ، شاعری کی مروجہ جمالیات سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی ہے۔
سہل پسندی سے کام نہیں لیتے ہوئے ، بہت ایمانداری سے سبھوں نے لکھا ہے۔ اچھا ناول خود کو خود سے آزاد کر ، ادب پسند قاری/ ناقد سے لکھوا لیتا ہے۔ ادب کا سنجیدہ حلقہ خالد جاوید کا مداح رہا ہے۔ ایک ناول نگار ، مؤرخ کی طرح بھی ہوتا ہے۔ کسی بھی عہد کی تاریخ ، سیاسی ، سماجی ، معاشرتی اور ” رشتوں کے طلسماتی حسن ” کو قریب سے دیکھنا ہو تو ناول کا مطالعہ ضروری ہے۔ کلاسیکی تراکیب ، لفظیات کا بانکپن ، عہد قدیم و جدید کی حرارت کچھ اس طرح ، خالد جاوید کے یہاں نمایاں ہوء ہیں کہ مجھ جیسا کم پڑھا لکھا ، تنا، آدمی ، اپنے باورچی خانہ میں محبت ، امن اور روحانی سکون کو ڈھونڈ رہا ہے۔
کئی لفظ تو اب گمشدہ پرندے کی طرح ہو گئے ہیں۔
خالد جاوید لائق تحسین و توصیف ہیں کہ انہوں نے ہندوستانی اذہان کو ، فکر کا ایک نیا ” نعمت خانہ” عطا کیا ہے۔ مختصر میں ، یہی کہنا چاہوں گا ، مثالی مشترکہ خاندن کے ” آنگن ” میں کھڑی انجم باجی سے کہ ، یہاں تو سب کچھ ہے جی ! ہندوستانی تہذیب ، ثقافت اور وہ سارے راگ _ رس _ رنگ جو ہندوستانی ہیں۔ خالد جاوید کے فن اور شخصیت کے تخلیقی رنگ کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
دیگر مندرجات میں ، پروفیسر عتیق اللہ ، غضنفر ، عشرت ظہیر ، اطہر مسعود خان ، قدوس جاوید ، نور الحسنین ، سید احمد قادری ، جاوید حسن ، سلیم انصاری ، اور کتھا کہانی میں غضنفر ، نعیم بیگ ، نور شاہ ، شہناز فاطمی ، کو پڑھ چکا اور روح متاثر ہوئے۔
کتابوں کی باتیں ، میں نئی کتابوں پر ریحان غنی ، ڈاکٹر مجیر احمد آزاد ، ڈاکٹر احسان عالم ، ڈاکٹر وصیہ عرفانہ ، ڈاکٹر منصور خوشتر کے تبصرے تحلیل کے مراحل سے گزر کر لکھے گئے ہیں۔ سبھی تبصرہ نگار کو مبارکباد۔نئی کہانی نئے دستخط اور نئی غزل نئے دستخط کا سلسلہ جاری رکھیں۔ پورے انہماک سے آپ کے رسالہ کو ابھی پڑھ رہا ہوں۔ اس میں پڑھنے لائق بہت کچھ ہے۔ باتیں میری ابھی بھی ادھوری ہیں ، آج کے آدمی کی طرح۔ ( یہ بھی پڑھیں نعمت خانہ: بھوک کی موہوم حقیقی دنیا – ڈاکٹر انوار الحق )
اردو آبادی سے ، صرف ایک گزارش ہے کہ اردو کے کتب و رسائل خرید کر پڑھئے۔ اب تو جگنو اور تتلی بھی نہیں کہ آپ اس کے پیچھے بھاگیں گے۔ صرف اپنی تہذیب اور زبان کے محافظ بن جائیں۔ ادب و صحافت کے عصری منظرنامہ میں ڈاکٹر منصور خوشتر اور ان کی پوری ٹیم نے روشن نقوش مرتب کئے ہیں۔ مبارکباد ۔
٭٭٭
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page