سیّد کاشف رضا,
مترجم,
چنڈی گڑھ ہائی کورٹ
ترجمہ ایک ایسا فن ہے جس پر بات کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا ترجمہ کا عمل۔ جو لوگ ترجمہ کرتے ہیں وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں۔ میری نظر میں ترجمہ کرنا پوری طرح سے ایک تخلیقی عمل ہے۔ مگر یہ بات بھی درست ہے کہ فنون لطیفہ کی کسی بھی صنف میں طبع آزمائی کا عمل نسبتا آسان ہوتا ہے۔ یعنی ترجمہ کرنا تخلیق کرنے کے عمل سے دوگنا (بلکہ کئی گنا ) مشکل کام ہے۔ ترجمہ کے عمل میں تخلیقیت کا عمل دخل تو ہے ہی مگر یہ کام مترجم کو ایسی چابکدستی سے کرنا ہو تا ہے جس سے متن کی روح مجروح ہو نہ ترجمہ کا جوہر۔
‘ٹرانسلیشن اسٹڈیز’ کے کئی ناقدین کا یہ خیال ہے کہ ترجمہ وہی بہتر ہے جسے پڑھتے ہوئے آپ کو یہ احساس ہو جائے کہ یہ اصل متن نہیں بلکہ کسی طبع زاد کا ترجمہ ہے۔ یہ بات آج تک میرے پلے نہیں پڑی۔ اس بات کے کئی جواز ہو سکتے ہیں۔ مگر میرا خیال ہے وہ جواز برائے جواز کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتے۔
ترجمہ کی نوعیت کے بارے میں ایک عرصے سے بحث و مباحثہ کا سلسلہ جاری ہے۔ بہت ساری باتیں ایسی ہیں، جو پہلے قابل تسلیم تھیں، مگر اب انہیں قابل قبول نہیں گردانا جاتا۔ بس ایک مثال کا ذکر کئے دیتا ہوں۔ ابتدا میں ایک مترجم کو اپنی تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ یا یہ کہیےکہ مترجم کا اپنی تخلیقیت کا مظاہرہ اصل متن سے چھیڑ چھاڑ گردانا جاتا تھا۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ یہ امر اب قابل قبول ہے کہ ایک مترجم، مترجم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک رائٹر بھی ہے۔ لہذا ترجمے میں اسکی تخلیقی صلاحیت کا عمل دخل نا گزیر ہے۔ یہ دلیل اس ضمن میں دی جاتی ہے کہ اصل متن اور ترجمہ شدہ متن کے مابین جو رشتہ ہے وہ مساوی ہے۔ اصل متن اور ترجمہ کا موازنہ اعلی اور کمتر کی حیثیت سے نہیں کیا جانا چاہیے۔
بہر حال تمام مباحث اور نظریاتی اختلافات کے باوجود، یہ حقیقت ہمیشہ مسلم رہے گی کہ اچھا ترجمہ وہی ہے جو رواں اور سلیس ہے۔ جو قاری پر گراں نہ گزرے۔
ڈاکٹر ریحان ایک منجھے ہوے مترجم ہیں۔ انکا موجودہ ترجمہ نہ صرف رواں اور سلیس ہے، بلکہ حیرت انگیز طور پر تخلیقی بھی ہے۔ ترجمہ میں انکا تخلیقی رنگ خوب خوب عیاں ہے۔ انکی شستہ زبان منموہک بھی ہے اور دلکش بھی۔ مجھے یہ بتاتے ہوے خوشی ہو رہی ہے کہ ڈاکٹر ریحان نے یہ ترجمہ براہ راست فرانسیسی زبان سے کیا ہے۔ ‘اندروں کا سفر’ فرانس کی مصنفہ افضل سعدیہ فروہ کی ‘ایک تخلیقی و فلسفیانہ تحریر’ ہے، جیسا کہ ڈاکٹر زاہد ندیم نے کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ فروہ کی اس تصنیف کو ادب کےکس زمرہ میں رکھا جائے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ مگر یہ بات مسلم ہے کہ فروہ کی یہ تخلیقی اور فلسفیانہ تحریر (خود شعوری اور خود آگہی کے موضوع پر مبنی) غیر معمولی ہے۔ گرچہ یہ موضوع نیا نہیں ہے، مگر یہ بات بھی درست ہے کہ اس مو ضوع پر بہت کم لوگوں نے خامہ فرسائی کی ہے۔ خاص طور پر اردو زبان میں ایسی تحریر شاذو نادر ہی نظر آتی ہے۔ احساسات و جذبات میں ڈوب کر لکھی ہوی یہ تحریر نہ صرف بے باک ہے بلکہ بیانیہ کی رنگا رنگی نے اسے دلچسب اور ولولہ انگیز بنا دیا ہے۔ مترجم کے تخلیقی رنگ نے تحریر کو جو نئی زندگی عطا کی ہے، اس کی تعریف جتنی کی جائے کم ہے۔
اس بڑے اور بہت اہم کام کو انجام دینے کے لیے ڈاکٹر ریحان کو بہت بہت مبارکباد ۔ مجھے قوی امید ہے کہ ریحان بھائی عنقریب ہمیں فرانسیسی ادب کی ایک اور تحریر سے روشناس کرائیں گے۔ غالب امکان ہے کہ ڈاکٹر ریحان موجودہ دور میں فرانسیسی زبان سے براہ راست اردو زبان میں ترجمہ کرنے والے واحد شخص ہیں۔ اس لحاظ سے وہ ہمارے لیےانمول ہیں۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page

