فکشن دنیا و مافیہا کو درپیش واقعات کا فنکارانہ عکاس ہے۔فکشن یہ دنیا یہ عالم اور جو کچھ اس میں ہے،دنیا اور دنیا کے سارے متعلقات سامنے روبرو زیر بحث جو ماضی میں ہوچکے ہیں حال میں ہورے ہیں اور جو مسقبل میں ہوسکتا ہے کاری گری اور پیش وارانہ آیینہ دار اور مظہر ہے۔
ڈاکٹر مجاہد السلام دربھنگہ ضلع کے باڑھ سمیلا بستی میں 10 اگست 1962ء میں پیدا ہوۓ . شروعاتی تعلیم گاؤں میں ہی حاصل کی پھر مدرسہ جامعتہ الفلاح بلریا گنج، سے عالمیت/فضیلت (1982) مکمل کی۔ پھر اردو کے اس عاشق نے علم ادب کے گہوارے گل سر سرسید کا رُخ کیا۔ بی اے اور ایم اے کی تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی پھر ملک کی نامور درسگاہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (JNU) سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ جہاں تک ان کی ادبی سفر کا تعلق ہے تو اب تک ڈاکٹر مجاہد الاسلام کی کئ تحقیقی، تنقیدی و ترتیب کردہ کتب منظر عام پر آچکی ہیں۔ انکی پہلی تصنیف انکا افسانوی مجموعہ "بدن کی خوشبو” تھی جو 2012ء میں شائع ہوا۔ادب اور ابلاغ(تنقیدی مضامین)2015ء میں شائع ہوا، اس کتاب کے لیے انہیں یوپی اردو اکادمی انعام بھی ملا۔،فرہنگ کلیات سودا 2017 (تحقیق) یوپی اردو اکادمی ایوارڈ ملا۔،تحلیل و تجربہ(تنقیدی مضامین)2018ء ، تنقیدات و تشریحات (ترتیب)2019ء ، محاسن و معائب (تنقیدی مضامین)2020ء ۔تنقیدی اور تحقیقی مضامین باضابطہ طور پر اردو کے نامور رسائل میں اکثر وبیشتر شائع ہوتے رہتے ہیں، ان کے مضامین منفرد اور کئی اعتبار سے خاص موضوعات پر اور اچھوتے ہوتے ہیں۔آپکو افسانہ نگاری پر بلونت سنگھ ایوارڈ اور تحقیق کے لیے مالک رام ایوارڈ سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ مجاہد السلام علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شائع ہونے والی میگزین مسعود 1987ء میں ترتیب دے چکے ہیں۔ بطور صحافی بھی اردو کی خدمت انجام دی ہے۔آپ اس وقت مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی Manuu لکھنؤ کیمپس میں پروفیسر کے عہد پر فائز ہیں۔ درس تدریس میں مشغول رہتے ہیں مطالعے کو اپنا شعار سمجھتے ہیں،عاشق اردو ہیں۔اردو، ہندی،عربی،فارسی،انگلش جاننے والے کثیر اللسان ادیب ہیں۔ اب تک آپکے تین افسانوی مجموعے ’بدن کی خوشبو‘ 2012ء ، "فلائی اوور کے درمیان‘‘ 2014ء اور تیسرا مجموعہ "زیبرا کراسنگ کے درمیان”ہے ، جس کے حوالے سے میں نے اپنے خیالات رقم کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ افسانوی مجموعی 2023ء میں شائع ہوا۔ مجموعہ 32 افسانوں پر مشتمل ہے۔ انتساب "مادر علمی جے این یو میں گزارے ہوۓ ان خوبصورت لمحات کے نام جنہوں نے مجھے ایک حس لطیف بخشا اور کشادہ ظرفی، وسعت قلبی، فکر و نظر کی آزادی اور علمی مجاہدے کا ذوق عطا کیا” کے عنوان سے کیا ہے۔ انتساب کو مدنظر رکھے تو آپکو اس افسانوی مجموعے میں یونیورسٹی کالج کلچر اور پڑھا لکھا معاشرہ جوان اور Depressed اداس نوجوان نسل جنسیت جنسی بے راہ روی کھوۓ ہوۓ اور خود کو پانے کی جدوجھد دکھتی ہے آج ہمارا نوجوان معاشرہ کن کن تکلیفوں میں مبتلا ہے جسے وہ جگ ظاہر نہیں کر سکتا خود میں گھٹ رہا۔کالج یونیورسٹی اور اپنے معاشرے میں سامنے روبرو جو دیکھا اور محسوس کیا ہے ان موضوعات کو اٹھایا اور اپنے افسانوں میں بخوبی نبھایا ہے جیتی جاگتی تصویر کو ہمارے سامنے اکیرا ہے۔ آپ افسانوی دنیا میں جہاں مختلف موضوعات بکھرے ہوۓ ہیں۔ وہی ان موضوعات میں عورت اور مرد کا وہ رشتہ جس سے یہ دنیا اور خلق خدا آباد ہے۔اور جنسی بے راہ روی ہے جس پر سماج میں کھل کر بات کرنے میں ممانعت ہے۔انسان اسی رشتے میں چاہت اور تسکین حاصل کرنے کے لیے جرائم تک کر بیٹھتا۔ ہوس پرستی میں انسان کو انسان سے حیوان بھی بن بیٹھتا ہے۔ ڈاکٹر مجاہد السلام حرف چند میں رقمطراز ہیں۔”عورت اور مرد ہمارے سماج کی بنیادی وحدت ہیں،انکی تکثیر سے ہی سماج کا وجود عمل میں آیا ہے۔اس سماج اور معاشرے کی بنیادی اکائی کو جوڑنے والی جو چیز ہے وہ رشتئہ الفت ہے۔مردوزن جو ہمارے سماج کی اکائی ہیں۔اگر اس میں صرف حسن کا ہی پہلوں ڈھونڈنے کی کوشش کی جاۓ تو بہرحال مایوسی ہوگی اسلۓ کی خوبصورتی کی طرح بدصورتی بھی ایک حقیقت ہے۔جس طرح اجالے کے ساتھ اندھیرا، شام کے ساتھ سویرا ہے۔ اسی طرح نیکی کے ساتھ بدی ازلی حقیقت ہے۔”
اس افسانوی مجموعے کا پہلا افسانہ "کیپری” ہے۔ اس افسانےمیں کرتیکا کا اہم کردار ہے جو آئی اے ایس آفیسر کی بیٹی ہے۔والدین کے پاس بیٹی کے لیے وقت نہیں صرف ضرورتیں پوری کرنے کے لیے پیسے ہیں، بے شمار پیسے کرتیکا یونیورسٹی ہاسٹل میں رہ کر کامپٹیشن امتحان کی تیاری کررہی ہے۔ مرد عورت کے حس رشتے کو ہر مذہب اور سماج نے ایک حدود اور ضابطے طے کیے ہیں۔ رشتہ اذدواج ہے کچھ رسم اور ریتی رواجوں سے رشتے جوڑے جاتے ہیں۔اس کہانی کا موضوع بالکل ہی منفرد ہے ہم اکثر وبیشتر یہیں دیکھتے ہیں کالج یونیورسٹی یا اپنے آس پاس کی ایک لڑکا لڑکی کی محبت میں دیوانہ وار پھرتا ہے اور اسکے سارے شوق شنگار بھی خود پورے کرتا ہے تحائف پر تحائف اور بہترین ریستوران میں کھانا گھوماتا پھراتا ہے۔لڑکی چھوٹے سے بڑے شوق پورا کرتا کرتا ہے۔ پر اس افسانے میں کرتیکا بغیر شادی کے لیو ِان رلیشن میں رہنے لگتی شفاف محبت میں اپنے عاشق کے سارے خرچ بھی خود اٹھاتی ہے۔اچانک لڑکے کی ماں۔ کی طبیعت خراب ہونے پر وہ گاؤں چلا جاتا ہے کرتیکا گاؤں خط بھیجتی ہے۔
"خط آیا جس میں اور باتوں کے علاوہ لکھا تھا کہ میں نے تمہارے کپڑے خود اپنے ہاتھوں سے دھوئے اور پریس کیے ہیں سوائے اس ‘کیپری’ کے جس کو میں رات کو اپنے ساتھ لیکر سوتی ہوں اور جس میں تمہارے بدن کی خوشبو محسوس کرتی ہوں۔آخر کب تک میں تمہاری اس ‘کیپری’ کے سہارے اپنا وقت گزاروں؟ اب مجھے راتوں کو نیند بھی بہت کم آتی ہے پچھلی رات عالم تخیل میں تمہاری اس ‘کیپری’ کو اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں میں کچھ اس طرح سے بھینچا کہ میری دونوں ہتھیلیاں لہولہان ہوگئیں۔ تم جلدی آؤ۔وغیرہ وغیر۔”(کیپری، مشمولہ زیبرا کراسنگ کے درمیان،ص 16)
گاؤں سے واپس آنے پر کرتیکا اسے اپنے حاملہ ہونے کی خبر دیتی ہے اور شادی کرنے کو کہتی ہے پر وہ صاف بہانے بناکر شادی سے انکار کردیتا پھر مجبوراً کرتیکا کو ابارشن کرانا پڑتا ہے
۔”لیبرل روم میں جاتے وقت کرتیکا نے کچھ اس طرح بے بس نظروں سے میری طرف دیکھا میں تھرا کے رہ گیا۔ میں نے بڑی مشکل سے خود پر قابو پایا، میں اندر سے گھلا جارہا تھا۔ پھر کچھ ہی دیر میں کرتیکا باہر آگئ۔اسکے کپڑے مڑے تڑے تھے وہ نیم غنودگی کی حالت میں تھی۔دو نرس دونوں طرف سے اسے تھامے ہوئی تھی۔ پھر اسے پاس پڑے بیڈ پر لٹا دیا۔ اس کی عجیب وغریب حالت دیکھ کر مجھے اس پر بڑا ترس آرہا تھا معصومیت اس کے چہرے پر عیاں تھی۔”
(کیپری، مشمولہ زیبرا کراسنگ کے درمیان ، ص17)
پھر کرتیکا سے ملنا کم ہوگیا دھیرے دھیرے کرتیکا نے دوری اختیار کرلی پھر ڈھابے پر کرتیکا دکھی کورٹ میرج کی ہے وہ لڑکا بھی اسکے پیسوں سے کھارہا ہے۔ وہ ہی بل ادا کررہی تھی مانگ میں سیندور ہے پر چہرے پر خوشی نہیں فاتح خوشی تو اس لڑکے کے چہرے پر ہے جس سے کرتیکا نے کورٹ میرج کی تھی۔
*افسانہ "سچی محبت” کا اہم کردار پارو ایک کتیا جس کو بہت سے کتے چاہتے ہیں گلی میں لائن لگی ہوتی ہے اور جھگڑے ہوتے، پھر کرسٹوفر پارو پر فتح حاصل کرتا ہے۔ پاروں کے بچے ہوتے کچھ مرجاتے ہیں کچھ کو دوسرے محلے کے بچے پال لیتے ہیں’ دو پلو کو کرسٹوفر موقع دیکھ ایک ایک کر مار دیتا ہے اور پارو کا شریکِ غم بن کر اسکے ساتھ ہوتا ہے۔کرشٹوفر اپنی محبت میں اپنے خود کے بچوں کی شراکت برداشت نہیں کرتا اور پارو کو مکمل خود کے سپرد چاہتا ہے۔
*افسانہ "ورجنٹی”اہم کردار نندنی ہے جو اس سے محبت کرتی ہے۔ گاؤں جانے پر فون بند ہوا تو بند ہی ہوگیا کالج جاکر نئ بات پتا چلی نندنی حمل سے تھی اسقاط حمل کے لیے حکیم کی دوا کھالی وہ ساتھ ہی تھا۔وہ زہر پھیلنے سے مرگئ۔اس افسانے کا ایک اقتباس ملاحضہ ہو۔
"میرے اصل قاتل تم ہو۔۔۔۔حقیقت میں میں اسی وقت مرچکی تھی، جب میں تمہارے رابطے میں آکر اپنی ورجنٹی(virginity )کھوئ تھی……!!'”
انیتا کالج فیلو آج اسکے قریب آنا چاہتی ہے پر وہ چاہتا ہے کی کوئ اور لڑکا اسکی ورجنٹی ختم کریں کیوں کی وہ انیتا کی ورجنٹی خود ختم کر اسکا قاتل نہیں بننا چاہتا اسلۓ انیتا کے قریب جانے سے تھرا جاتا ہے اور نندنی کی حالت اسے یاد آجاتی اور وہ درپردہ خود کو نندنی کا قاتل تصور کرتا ہے۔
*افسانہ "پگڈنڈی” ماضی کی غلطیوں کو بھول کر آگے بڑھنا بھی چاہوں ماضی ہمارا پیچھا کرتا رہتا ہے آج وہ ماں بننا بھی چاہتی ہے پر ماں نہیں بن پاتی ماضی کی غلطیوں کے سبب۔ یہ افسانہ آدمی کے شکی مجازی کی بھی عکاسی کرتا مرد کا ماضی داغدار بھی ہو وقت کے ساتھ دامن صاف ہوجاتے پر وقت عورت کے ماضی کو بھولنے نہیں دیتا اگر ماضی زبان سے ذرا مزاق میں بھی نکل گیا تو زندگی تباہ کردیتا ہے۔ اقتباس ملاحضہ ہوں۔”میرے دماغ میں ماں کی وہ بات گردش کرنے لگی جو اس نے رخصتی کے موقع پر مجھ سے کہیں تھی "مرد بہت زیادہ وہمی اور شکی ہوتے ہیں انکے سامنے کوئی بھی ایسی ویسی بات نہیں کرنی چاہیے”(پگڈنڈی،زیبرا کراسنگ کے درمیان ، ص132)
"آج دلجیت نے بریزیر والی بات پر طلاق کی عرضی داخل کردی ہے اور دعویٰ کیا کہ جو لڑکی سہاگ رات میں خود ہی اپنے بریزیر کے ہک کھول سکتی ہے اسکے کریکٹر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے؟”(پگڈنڈی،زیبرا کراسنگ کے درمیان ، ص134) کورٹ میں بے عزت نا ہو اسلۓ خودکشی کی کوشش کی ہسپتال میں بھی Anxiety انزائیٹی اٹیک آتے رہتے ہیں۔وہ مرنا چاہتی اپنی ماضی کی غلطیوں کے لیے کیوں کی اس کا مداوا نہیں ہے۔
*افسانہ "وسواس گھات” انور اور روفیہ انور کالج کے درمیان روفیہ کو پڑھائ میں گاییڈ کرتا ہے محبت کرنے لگتا ہے محبت کا سلہ چاہتا ہے روفیہ دوری اختیار کرلیتی ہے وہ بھی دہلی چلا جاتا ہے ایک مرتبہ ملاقات ہوتی ہے اس سے بالکل انجان بنتی ہے پھر خط آتے ہیں اور پھر بھولی یادوں اور محبت کے تصور میں گھلنے لگتا ہے بعد میں پتا چلتا ہے روفیہ نے شادی کرلی ہے۔ اسکو بتایا بھی نہیں کتنی بڑی وسواس گھاتی ہے۔
*افسانہ "مایامال”وکی اہم کردار ہے جو جسم فروشی کی منڈی میں جاتا ہے جہاں ایک ایسی لڑکی سے ملتا ہے جو نا چاہتے ہوۓ بھی جسم فروشی کررہی ہے اسے اپنڈکس Apendix ہے۔اسکا آپریشن کرانا ہے اس منڈی میں گاؤں کے پنڈت تک آچکے ہیں وہ بہت افسردہ ہوتا ہے اور لڑکی شرمسار اپنے کام سے ۔ہر ویشیا ویشیا نہیں ہوتی کچھ مجبور بھی ہوتی یہ کہانی ہمیں یہیں بتاتی ہے
*افسانہ”ببل گم”اہم کردار زینت ہے جو گھر سے دہلی تعلیم جس کے ذریعے ایڈمیشن لیتی ہے اسی ارشد کی وہشی پن کا شکار ہوتی ہے۔
افسانہ”لمس کی لذت”نمرہ اور فریدی اہم کردار ہیں کس قدر لڑکیاں محبت میں سرشار ہوتی ہیں اور ایک مرتبہ ان کی عصمت پر بٹا لگ جاۓ تو رشتے نہیں ہوتے۔چاہنے والا محبوب بھی راستہ کاٹ جاتا ہے۔
افسانہ”آتش دان” اسلم سے اسکی فیس بک پر دوستی ہوئ تھی اسنے آخر اسے ملنے کے لیے راضی کرلیا اور روم پر پہنچتے ہی اسلم نے اسے دبوچ لیا۔
افسانہ”بدلہ احسان کا” اہم کردار گنیش ہے جو ایک لڑکی کو نوکری من موافق سیلری دے کر اسکی عصمت کا سودا کرنا چاہتا آخر وہ خود یہاں سے دور کرکے نئ جگہ نوکری حاصل کرلیتی ہے۔ اقتباس ملاحضہ ہو۔
"الفریڈ کمپنی میں آج میرا پانچواں یا چھٹا دن تھا۔ میں ڈیوٹی کے بعد گھر لوٹ رہی تھی۔۔۔گنیش میری مرضی کے برخلاف۔۔۔۔میرے منع کرنے کے باوجود بس کنڈیکٹر کو میرا کرایہ دینے کی کوشش کررہا تھا میں نے آؤ دیکھا نا تاؤ ڈرائیور کو بس روکنے کو کہا بس ابھی ٹھیک سے رکی بھی نہیں تھی۔۔۔۔میں ایک جھٹکے سے چلتی بس سے ہی نیچے کود گئ۔۔۔(بدلہ احسان کا،زیبراکراسنگ کے درمیان، ص227)
افسانہ "چنبیلی”اس میں عمروں میں فرق اور بے میل شادی پر بات ہوئ ہے جہاں لڑکی کے جزبات نا سنے جاتے نا کوئ سمجھنا چاہتا خود اسکی ماں بھی اور آخر لڑکیاں اپنے من کو مار کر ایڈجسٹ کرلیتی ہیں۔
*افسانہ”رکاوٹ” موبائل کے ایڈکشن پر بات ہوی ھے۔
*افسانہ "زیبرا کراسنگ کے درمیان” میں میٹرو ریل جو صرف سواری ہی نہیں آج کل نوجوان نسل کے لیے بے حیائ اور فحاشی کرنے کی روز نئ نئ کرتوتوں انجام دینے کا اڈہ ہے۔ ہم دیکھتے ہیں لوگوں سے ایسے لوگوں کو کوئ فرق نہیں پڑتا وہ اپنی دنیا میں مگن ہوتے۔ آج کے نوجوانوں اور معاشرے میں بے حیائ ہوس پرستی کس قدر عام ہے۔ کیا کہا جاۓ۔شلیندر اور سندھیا آج بس میں خود کو قابو نہیں کر پاتے ہیں پھر بھی خود کو کنٹرول کرتے ہیں۔اس افسانے کا اقتباس ملاحضہ ہو۔”بڑی مشکل سے دونوں ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہوۓ پریتم گریڑ کے بس اسٹینڈ پر اترے اور زیبرا کراسنگ پر قدم رکھتے ہی دونوں نے اپنے وجود پر کنٹرول کھودیا۔”
آجکل نئ نسل میں یہ سب فحش حرکات عام ہوگئ ہے۔ انہیں نا میٹرو کے لوگ دکھتے نا روڑ کے راہگیر نا پارک میں بزرگ اور بچے یہ افسانہ بڑھتی ہوئ جنسی بے راہ روی پر کھل کر باتیں کرتا ھے۔
*افسانہ "فاصلے”گاؤں اور شہر کے فاصلے میں کس طرح رشتوں میں بھی فاصلے آجاتے ہیں۔اس کہانی میں یہیں بیان ہوا ہے۔
افسانہ "کانوینٹی لڑکی” اہم کردار آکاش ہے اس افسانے میں پورن ایڈکشن پر روشنی ڈالی گئ اس لت میں جکڑے شخص کے حالات بخوبی بیان ہوۓ ہیں۔
*افسانہ "انتقام” اہم کردار رفعت اسکا شوہر راشد رفعت بالکل پسند نہیں کرتی راشد کو پھر مانوس ہوجاتی ہے بیٹی درخشاں ہوتی ہے بزنس ٹرپ پر سنگاپور جاتے ہیں درخشاں کی طبیعت الگ رویے سے ڈی این اے چیک آپ ہوتا ہے رفعت سے تو ڈی این اے میچ ہوجاتا ہے پر راشد سے نہیں وہ سوچتا ہے آخر رفعت نے کونسا انتقام لیا ہے۔ ایسے ہی بہت سے منفرد افسانے اس مجموعے میں شامل ہے۔جیسے۔مایا مال،خودکشی،چوہیا،کوڑھ مغز، دھچکا، ڈالی غلاب کی، انفریارٹی کمپلیکس، نہاری، مالک مکان۔ وغیرہ۔
المختصر یہ کی ڈاکٹر مجاہد السلام نے عصر حاضر میں رونما ہونے والے جنسی واقعات اور حادثات کو بہت کامیابی سے اپنے افسانوں میں بیان کیا ہے۔زبان و بیان کی سطح پر محاوروں کا استعمال مناسبت اور برمحل ہوا ہے اور کثرت سے ہوا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ مجاہد السلام کی زبان پر گرفت خاطر خواہ مضبوط ہے۔بامحاورہ زبان بھی انکی تحریروں کا نمایاں وصف ہے بیانیہ اثر انگیز ہے۔ایک مرتبہ کوئ افسانہ شروع کروں تو ختم کیے بغیر نہیں بیٹھ سکتے ۔کہیں کہیں کھلا پن ہے۔پر آج کا فکشن اب نئ راہ پر ہے فکشن نے جکڑ بندیوں سے خود کو آزاد کردیا ہے،ہر روز نۓ نۓ تجربے ہورہے ہیں۔ فکشن نے اپنی ۔ان کی کہانیوں میں مرد اور عورت کے تعلقات زیادہ نظر آتے ہیں،جو فطری بھی ہے۔انکے افسانے اس سماج کے کوڑ مغز معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ جس میں ہم سانس لے رہے ہیں۔ وہی گھٹتی زندگیاں نظر آتی۔ ڈاکٹر مجاہد السلام جنسی موضوعات پر اور اس میں پنپتے ظلم و ستم اور جنسی تشدد کو بڑی بے باکی سے بیان کرتے ہیں اور اپنے فکشن کی ایک الگ شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
فوزیہ سلطانہ۔گڈو
پھولپور۔ الہ آباد
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page