ہسپانوی ادب کا سب سے بڑا شاہکار آج بھی سر وانٹس کے ناول ’’ڈان کوئکزوٹ ‘‘ (Don Quixote) کو ہی مانا جاتا ہے اور اگر یہ سمجھا جاتا ہے کہ شیکسپیئر کے ڈراموں سے قطعِ نظر، ڈان کوئکزوٹ عالمی ادب کے لیے، نشاۃ الثانیہ کا سب سے خوب صورت اور حیرت انگیز تحفہ ہے تو یہ غلط نہیں۔ (یہ بات معروف نقاد جان ڈرنک وائر نے ایک جگہ کَہ رکھی ہے۔) لیکن اس شاہکار سے تقریباً پچاس برس قبل ۵۴۔۱۵۵۳ء کے لگ بھگ ہسپانوی ادب نے ایک اور کارنامہ ’’Lazarillo de Tormes‘‘ کے عنوان سے دنیائے ادب کے سامنے پیش کیا، جو دنیا کا پہلا پکارسک ناول کہلایا۔ اس ناول کو پورے یورپ میں بے مثال مقبولیت ملی اور بعد میں اس طرز پر ہسپانوی زبان میں ہی نہیں دیگر زبانوں کے ادب میں بھی ناول لکھے جانے لگے۔
’’لاثارو دے تورمیس‘‘ (Lazarillo de Tormes) کے مصنف کے بارے میں آج تک یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکا۔ ہمارے ہاں محمد سلیم الرحمٰن نے، جنہوں نے اس ناول کا ترجمہ ’’چلتا پرزہ‘‘ کے عنوان سے کیا، اُن قیاس آرائیوں کو بالکل وقعت نہیں دی جو اس ناول کے مصنف کے بارے میں محققین نے پیش کی ہیں لہٰذا انہوں نے اس ناول کو کسی بھی مصنف سے وابستہ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔J.A.Cuddonنے بھی(Dictionary of Literary Terms and Literary Theory) میں اس ناول کے مصنف کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ مگر وہاب اشرفی نے اپنی تصنیف ’’تاریخِ ادبیاتِ عالم‘‘ کی تیسری جلد میںاس ذیل میں روشنی ڈالی ہے اور اسے سولہویں صدی کے ایک اہم شاعر، مؤرخ اور رومان نگار ڈی گو ڈی مینڈوزا (Diego De Mendoza) کا ناول بتایا ہے۔ گو انہوں نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ مصنف کے بارے میں محققین اور ناقدین میں دو آرا پائی جاتی ہیں؛ کچھ اس ناول کو مینڈوزا سے منسوب کرتے ہیں اور کچھ نہیں۔
پکارسک ناول اصل میں ایک آوارہ گرد کی آوارہ گردی پر مبنی ایسی داستان ہوتی ہے جس میں معاشرے کی Anti-Curturalصورتِ حال کی آئینہ داری کی جاتی ہے۔ اس میں پلاٹ شروع سے آخر تک کسی منطقی یا ارتقائی صورت میں پروان چڑھنے کا پابند نہیں ہوتا بلکہEpisodicalفارم اختیار کی جاتی ہے یعنی مختلف قصے جو اپنے آپ میں مکمل ہوتے ہیں، مختلف ابواب کی شکل میں ناول کا حصہ بنتے ہیں۔ یہ قصے اور حصے ناول کے بنیادی کردار یعنی آوارہ گرد کی وجہ سے آپس میں منسلک ہوتے ہیں۔ لہٰذا پکارسک ناول کی طوالت کا انحصار مصنف کے لکھنے کی ہمت اور مشاہدۂ زندگی پر ہوتا ہے۔ زندگی کے بارے میں اس کا مشاہدہ جس قدر وسیع ہوتا ہے، وہ مختلف کرداروں کے ذریعے زندگی کی مختلف اور ابتر شکلیں دکھاتا جاتا ہے۔ اور جہاں لکھنے کی ہمت جواب دے جاتی ہے یا یہ سمجھا جاتا ہے کہ اب مزید کچھ لکھنے اور دکھانے لائق نہیں رہا تو ناول سمیٹ دیا جاتا ہے۔
گو پکارسک ناول میں بنیادی کردار ایک ہی ہوتا ہے مگر مجموعی طور پر اس میں کرداروں کا جمِ غفیر ہوتا ہے لیکن یہ کردار ناول کا مستقل حصہ نہیں ہوتے۔ آتے ہیں، ایک قصہ پورا کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ بالعموم تمام کرداروں کا تعلق نچلے متوسط طبقوں سے ہوتا ہے، خاص طور پر بنیادی ’’آوارہ گرد‘‘ کا کردار نچلے طبقے سے ہی لیا جاتا ہے اور وہ اخلاقی طور پر بھی بگڑا ہوا کردار ہوتا ہے جو معاشرے میں بقا کی جنگ لڑنے کے لیے فریب، دھوکا، مکاری اور عیاری سے کام لیتا نظر آتا ہے لیکن اس کا یہ اخلاقی بگاڑ کسی بڑے اخلاقی جرم کا باعث نہیں بنتا اور دوسرا یہ کہ اس اخلاقی بگاڑ کے باوجود قاری کی ہم دردی اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ غور کیا جائے تو ایسے ناول میں اس بنیادی کردار کااہم کام دوسرے کرداروں کو ناول میں اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ ایسے ناول عام طور پر واحد متکلم کا بیانیہ ہوتے ہیں اس لیے عموماً آپ بیتی کے بے ساختہ اظہار اور تکنیک میں لکھے جاتے ہیں۔ پیرائیہ طنز کا حامل ہوتا ہے جس سے سوسائٹی کے اخلاقی زوال کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
محمد سلیم الرحمٰن نے اس بنیاد پر کہ ’’پکارسک‘‘ ہسپانوی لفظ ’’پکارو‘‘ (Picaro) سے مشتق ہے جس کے معنی الفتا یا لچّا لفنگا ہے، یہ کہا ہے کہ پکارسک ناول کا اردو ترجمہ الفتانہ ناول یا لفنگانہ ناول ہونا چاہیے لیکن میرے خیال سے اگر ہم اس کا اردو ترجمہ نہ ہی کریں تو بہتر ہے، اسے پکارسک ناول ہی کہا جائے تو زیادہ با معنی اور مناسب ہے۔
’’لاثارو دے تورمیس‘‘ حیرت انگیز طور پر مختصر ناول ہے مگر اس کے باوجود اس میں سولہویں صدی کے ہسپانوی سماج کی بہت سی Anti-Cultural صورتوں کو طنزیہ پیرائے میں بیان کر دیا گیا ہے۔ لاثارو دے تورمیس اس ناول کا بنیادی کردار ہے جس کی زندگی کا قصہ اس ناول کا محور ہے۔ پیدا ہوتے ہی وہ غربت، بھوک اور غیر اخلاقی صورتِ حال کا شکار ہو جاتا ہے۔ باپ چوری کے الزام میں سزا بھگتا ہے اور آخر کار مر جاتا ہے، ماں کو مجبوراً ایک غلام حبشی کے ساتھ ناجائز تعلقات استوار کرنا پڑتے ہیں مگر وہ بھی چوری کے الزام میں دھر لیا جاتا ہے اور ماں، بچوں کو لے کر اپنا ٹھکانا چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور پھر لاثارو کو یہ کَہ کر ایک اندھے شخص کے حوالے کر دیتی ہے کہ ’’جانتی ہوں کہ اب تم سے کبھی ملنا نہ ہوگا— میں نے مقدور بھر تمہاری بہترین پرورش کی ہے اور تمہیں اچھا آقا فراہم کر دیا ہے اب تم جانو اور تمہارا کام جانے۔‘‘ اور پھر واقعی یا لاثارو جانتا ہے یا اس کا کام کہ زندگی کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے۔
اندھا آقا وہ پہلا فرد ہوتا ہے جو لاثارو کو سب سے پہلے شدت سے یہ احساس دلاتا اور سکھلاتا ہے کہ زندگی آخر ہے کیا۔ اور لاثارو بھی یہ جاننے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔ وہ اندھا آقا لوگوں سے مال بٹورنے کا ماہر اور بہت مکار شخص ہوتا ہے۔ لیکن جتنا وہ مال بٹورتا ہے، طبیعت کا اتنا ہی کنجوس ہوتا ہے۔ اتنا کنجوس کہ لاثارو کو بھوک کی وجہ سے جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ لہٰذا لاثارو کو بھی زندہ رہنے کے لیے مکاری اور چالاکی سے کام لینا پڑتا ہے۔ وہ اندھے کو دھوکا دے کر خوراک حاصل کرنے پر مجبور ہوتا ہے لیکن اندھا جب اس کی مکاری جان لیتا ہے اور لاثارو کو اس کی بھیانک سزا دیتا ہے تو لا ثارو بھی اس سے خوب انتقام لیتا ہے اور اسے زندگی اور موت کی کشمکش میں چھوڑ کر فرار ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے بعد وہ جس پادری کے ہاتھ لگتا ہے تو اسے احساس ہو تا ہے کہ اندھاتو پادری کے مقا بلے میں سکندر اعظم جتنا فیاض تھا۔یعنی اس سے بھی زیادہ خسیس انسان اب اس کا آقا ہو جاتا ہے لیکن یہاں بھی لا ثارو اپنی چالا کی اور عیاری سے زندگی کی بقا کی جنگ لڑتا ہے اور ایک دن اپنی اسی مکاری کا رازفاش ہو جانے کی صورت میں وہاں سے نکال دیا جاتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو ان دو کر دا روں میں مصنف کچھ زیادہ امتیاز پیدا نہیں کر سکا، سوائے اس کے کہ ایک اندھا ہے اور دوسرا اندھا نہیں۔ ورنہ صورتِ حال ایک سی رہتی ہے اور کرداروں کی شباہت بھی مختلف نظر نہیں آتی۔ پھر یہ کہ یہ دونوں کردار حقیقت سے کچھ زیادہ قریب بھی دکھائی نہیں دیتے۔ یا یوں کَہ لیں کہ مصنف انہیں زیادہ حقیقی نہیں بنا سکا۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ مصنف زیبِ داستاں کے لیے بھی بہت کچھ بڑھا رہا ہے۔ زیادہ حقیقی، دلچسپ اور بھرپور کردار اس سے آگے ملتے ہیں۔ آنے والے دو کردار اس لیے بھی اہم ہیں کہ ان کے وسیلے سے ہسپانوی زندگی اور عوامی صورتِ حال زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے۔پہلے دو کرداروں (اندھا اور پادری) کے ساتھ لاثارو کا چوہے بلّی کا کھیل ہی زیادہ اہم ہے لیکن اگلے دو کرداروں (غریب صاحب اور بخشائش گر پادری) سے سماجی، اخلاقی، معاشی اور عوام کی نفسیاتی منظر کشی کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔
’’غریب صاحب‘‘ ایسا کردار ہے جو فاقوں رہتا ہے مگر خوش وضعی کا لبادہ اوڑھ کر، ہشاش بشاش رہ کر معاشرے میں شریف اور معزز ہونے کا ڈھونگ کرتا ہے۔ وہ جس طرح اپنی وضع داری کا بھرم رکھ کر بہانے بہانے سے لاثارو کی لائی ہوئی خوراک سے اپنے پیٹ کی آگ بجھاتا ہے، وہ دیکھنے لائق ہی نہیں، قابلِ ترس بھی ہے۔ لاثارو وہاں بھیک مانگ مانگ کر کھانا لاتا ہے اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے ’’غریب صاحب‘‘ کو بھی کھلاتا ہے۔ اسے اس ’’صاحب‘‘ پر ترس بھی آتا ہے اور اس سے لگاؤ بھی محسوس ہوتا ہے۔ یہ ساری صورتِ حال لاثارو کی ہی زبانی سنیے۔ اس سے لاثارو کی شخصیت کے مثبت پہلو بھی اجاگر ہوتے ہیں۔ لاثارو کہتا ہے:
’’پچھلے دو جلّاد آقاؤں سے جان بچا کر بھاگا تھا کہ جتن کر کے کوئی صورت بہتری کی نکالوں گا اور آخر پہنچا بھی تو کہاں۔ ایسے آدمی کے پاس جو آپ تو مجھے کھلاتا پلاتا نہیں تھا بلکہ الٹا خود بھی کھانا اور اسے بھی کھلانا میرے سر لگے تھے۔ جو بھی سہی، مجھے ان سے خاصا لگاؤ ہو گیا، کیوں کہ میں نے دیکھا کہ وہ تو بالکل پھانک ہیں اور کچھ اور کرنے دھرنے جوگے بھی نہیں۔ سچ پوچھیے تو مجھے ان پر تھوڑا سا ترس آتا۔ بار ہا ایسا ہوا کہ میں آپ بھوکا رہا کہ وہ پیٹ بھر کے کھالیں— اگرچہ وہ مفلوک تھے لیکن مجھے دوسروں کی بہ نسبت ان کی خدمت کرنے میں زیادہ مزا آتا تھا— امید ہے کہ خدا مجھ پر بھی اتنا ہی ترس کھائے گا، جتنا ترس مجھے ان پر آیا، دکھوں کے جس عذاب سے وہ گزر رہے تھے، وہ میرا جانا پہچانا تھا۔ مجھے بار ہا اسی عذاب سے واسطہ پڑ چکا تھا۔‘‘
اس اقتباس سے لاثارو کی اپنی ذہنیت اور فطرت بھی عیاں ہوتی ہے کہ وہ اپنی اصل میں فریبی یا مکار نہیں بلکہ فریبی اور مکار لوگوں میں زندگی کی بقا کے لیے فریب اور عیاری اختیار کرتا ہے، اور یہ ہی وجہ ہے کہ ’’غریب صاحب‘‘ کے ہاں اس کا کردار تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہاں وہ خدا ترس، بے غرض اور انسانیت کا درد رکھنے والا فرد نظر آتا ہے۔
’’غریب صاحب‘‘ کا کردار تو خیر کمال کا تراشا گیا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ یہاں دیگر غریب عوامی کردار، تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی مگر معاشرتی غربت کا اظہار کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ قصہ مختصر کہ جب اس ’’غریب صاحب‘‘ سے مالکِ مکان کرایہ مانگنے آ جاتا ہے تو وہ وہاں سے فرار ہو جاتا ہے۔ اس طرح تیسرا آقا لاثارو کو چھوڑ کر خود بھاگ جاتا ہے۔ اس کے بعد لاثارو جس شخص کے ہتھے چڑھتا ہے وہ بھی ایک شاہکار کردار ہے۔
یہ ایک پاپائی بخشائش نامے بیچنے والا بخشائش گر ہوتا ہے جس کے بارے میں لاثارو کہتا ہے کہ ’’زندگی میں اس سے زیادہ پُر فن یا بے حیا شخص کوئی نظر نہ آیا— میں ابھی لڑکا ہی تھا لیکن اس کی عیاری سے بہت متاثر ہوا اور دل سے کہا: نہ جانے اس جیسے اور کتنے ہیں جو بھولے بھالے لوگوں کو ٹھگتے ہیں۔‘‘ یہاں اس کردار میں مکاری کی انتہا دکھائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ مذہب کے نام پر کیسے کیسے فراڈ عوام کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ انہیں کیسے بے وقوف بنایا اور لوٹا جاتا ہے۔ یہاں ، لاثارو کا کردار محض بیان کنندہ کا بن کر رہ جاتا ہے۔ وہ اس ساری مکاری اور عیاری کی پوری پوری حقیقت کھول کر رکھ دیتا ہے۔ خاص طور پر لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے بخشائش گر جو ایک طویل ڈراما رچاتا ہے، اس کا اور اس کے نتیجے میں لوگوں کی سادہ لوحی کا نقشہ اس باب کا خاص حصہ ہے۔ لاثارو کو یہاں بھوک کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔ پہلی بار وہ خوراک کے حوالے سے آسودہ حال دکھائی دیتا ہے مگر یہاں وہ زمانے میں عیاری کی بھیانک ترین شکل سے بھی پہلی بار آشنا ہوتا ہے اور یہیں وہ یہ سبق سیکھتا ہے کہ معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے معاشرے کی برائیوں سے نبھاہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اسی سبق کا اظہار آخری باب میں اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنی بیوی کی بد کرداری پر پردہ ڈال کر امن اور خوشی کی زندگی گزارتا نظر آتا ہے۔ یہ بیوی ایک پادری کی خادمہ ہوتی ہے اور درپردہ اس پادری کی رکھیل جسے پادری، لاثارو کے ساتھ بیاہ دیتا ہے اور لاثارو اس لیے اس شادی پر راضی ہو جاتا ہے کہ بقول اس کے:
’’حضور! میں نے بھی دیکھا کہ ایسے قابلِ احترام اشراف سے، جو آپ جیسے عالی جاہ کے خادم اور دوست بھی ہیں، وابستہ ہو جانے میں سراسر فائدہ اور بہتری ہے۔ اس لیے میں لڑکی سے شادی کرنے پر راضی ہوگیا۔‘‘
اب لاثارو کو سرکاری ملازمت بھی مل جاتی ہے اور بیوی بھی اور لاثارو وہ تمام گُر بھی سیکھ چکتا ہے جو زمانے میں زندہ رہنے کے لیے بہت ضروری ہیں۔ لہٰذا اب وہ امن اور چین کی زندگی گزارتا ہے۔ اور یہیں ناول اختتام پذیر ہوتا ہے۔
اگرچہ ہم کَہ سکتے ہیں کہ ناول میں معاشرے کا برائیوں پر مبنی چہرہ ہی دکھایا گیا ہے مگر پکارسک ناول کی شعریات کا بنیادی اصول یہی ہوتا ہے کہ معاشرے کے اخلاقی زوال کا نقشہ کھینچا جائے اور پھر اسے بالعموم طنز کے پیرائیہ میں بھی بیان کیا جائے لیکن کہیں کہیں سماجی خوبیاں یا کرداری اوصاف اپنی جھلک دکھا جاتے ہیں اور ہمیں یہاں بھی لاثارو کے ہاں ایسے اوصاف کی جھلک نظر آتی ہے لیکن یہ نمایاں اس لیے نہیں ہو پاتے کہ پکارسک ناول کا مسئلہ کرداری اوصاف ظاہر کرنا نہیں ہوتا۔ یہاں خاص طور پر پادریوں کے کردار پر زیادہ طنز کیا گیا ہے اور ان ہی کو معاشرے کے ناسور کے طور پر زیادہ ابھارا گیا ہے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ بقول محمد سلیم الرحمٰن ’’۱۵۵۹ء میں ہسپانوی کلیسا کی احتسابی عدالت نے ناول پر پابندی عائد کر دی۔‘‘ لیکن اہلِ کلیسا کی یہ کوششیں نا کام رہیں اور یہ ناول پورے یورپ میں مشہور و مقبول ہو گیا۔ اور آج تک یہ ناول اپنی مخصوص تکنیک اور دلچسپی رکھنے کی وجہ سے دنیا کی بیش تر زبانوں میں ترجمہ ہو کر پڑھا جاتا ہے۔
٭٭٭
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
3 comments
عمدہ تبصرہ
موضوع کے اعتبار سے بہت دلچسپ اور معلوماتی مضمون ہے جو ناول کے تعارف و تجزیہ کے ذریعے قارئین کے لیے عالمی ادب میں دلچسپی کا باعث ہے…
پکارسک کی خوب صورت انداز میں وضاحت اور دنیا کے پہلے پکارسک ناول کا تعارف و تجزیہ جس خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ اس پہ خالد صاحب کو داد