رمضان المبارک کا عظیم مہینہ خالقِ کائنات کی جانب سے اپنے بندوں پر ایک انعام ہے۔ یہ مہینہ، صبر و شکر، تقویٰ، گم گساری، کسرِ نفسی، ایثار و قربانی، اور مجاہدے کا مہینہ ہے۔ اس مہینے کا مقصد ربِ کائنات کے سامنے خود کو پیش کر دینا، اپنے اعمالِ بد سے تائب ہو کر اور اعمالِ خیر انجام دے کر خالقِ ارض و سما کی خوشنودی کا حصول ہے۔ اسی بنا پر صانعِ عالم نے اس صفحۂ ہستی پر بسنے والے تمام مسلمانوں پر رمضان المبارک کے روزے فرض فرمائے ہیں؛ چنانچہ ارشادِ ربانی ہے: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے؛ تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ (البقرۃ: ۱۸۳)
اس ماہِ مبارک میں عبادات اور اس کے اجر و ثواب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہر نفل کا اجر فرض کے برابر اور ہر فرض کا ثواب ستر فرض کے مساوی نامۂ اعمال میں درج کیا جاتا ہے۔ یہ مہینہ عبادت و ریاضت کا مہینہ ہے۔ یہ ماہ فرائض و سنن کے ساتھ نفل، اور بہ طورِ خاص تراویح کے اہتمام کا ہے۔ عبادات اس ماہ کی خصوصیات میں سے ہیں۔ یہ ماہ رب ذو الجلال کے سامنے الحاح و زاری کا ہے۔ یہ ماہ تلاوتِ قرآن کے خوب اہتمام کا ہے؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک کی ہر رات کو حضرت جبریلؑ کے ساتھ قرآن کا ایک دور فرماتے تھے؛ لیکن آپ ﷺ نے اپنے آخری رمضان میں گذشتہ سالوں کے بر خلاف حضرت جبریلؑ کے ساتھ دو قرآن کا دور مکمل کیا۔ اسی سنت پر عمل کرنے کی نیت سے تراویح میں ایک قرآن کا سننا سنت ہے۔
ایک مسلمان کے لیے یہ مہینہ اس لیے بھی خاص ہے کہ اس مہینے میں ایک حقیقی مسلمان بننا آسان ہو جاتا ہے؛ کیونکہ پورے سال جس طرح زندگی بے راہ روی میں گزری، گناہ و معصیت میں شب و روز بیتے، انسان بے شمار ناجائز امور پر مُصر رہا، بد اعمالیوں کو اپنا لبادہ بنا لیا اور ان تمام بد کاریوں کا دوش شیطان کے سر مڑھ کر خود کو بے قصور سمجھتا رہا اور توبہ و استغفار سے انحراف کرتا رہا، رمضان المبارک نے عبادت و ریاضت کا موقع فراہم کرکے اور شیاطین کو قید کرکے بد اعمالیوں پر قدغن لگانے کے اسباب فراہم کرکے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دیا۔
رمضان المبارک میں خدا عز و جل نے شیاطین کو اس لیے قید کر دیا کہ وہ اس کے بندوں کو ان تمام امور میں ملوث نہ کر دے کہ جن گناہ و عصیان کے سمندر میں وہ تمام سال غرق رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عموما فردِ بشر رمضان المبارک میں ان گناہوں میں مبتلا نہیں ہوتے کہ جن میں وہ غیرِ رمضان میں مبتلا ہو جاتے ہیں؛ لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ ان کے اعمال میں رمضان اور غیرِ رمضان میں کوئی فرق نہیں آتا۔ ان کا معاملہ وہی ہوتا ہے کہ: ع
وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
یعنی وہ رمضان المبارک میں بھی ان گناہوں، خباثتوں میں ملوث نظر آتے ہیں کہ جن میں وہ سالہا سال نظر آتے ہیں۔
یہ یاد رکھیں! رمضان المبارک ہمارا جائزہ بھی لیتا ہے کہ کون رب کا بندہ ہے اور کون خواہشاتِ نفسانی کا غلام ہے؛ اس ماہ میں انسان جو کچھ غلط کام، فواحش اور معاصی کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے وہ اس کی اصل حقیقت ہے؛ کیوں کہ اس ماہ میں شیطان قید کر لیا جاتا ہے۔
سب سے بد بخت و بد نصیب وہ شخص ہے کہ جو اس مبارک مہینے کو پائے اور اپنی بخشش نہ کرا سکے، نہ اس کے اعمالِ خیر میں اضافہ ہو اور نہ اس کے گناہوں کا بوجھ کم ہو؛ بلکہ جس طرح اس ماہ میں داخل ہو، اسی طرح گناہوں میں آلودہ رمضان سے نکل جائے۔ احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص کے بارے میں وعید آئی ہے۔ ایسے شخص کے لیے اس کے اعمال و افعال ہلاکت کا سامان ہیں؛ چنانچہ حدیث میں ہے:
حضرت کعب بن عجرہؓ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: منبر کے پاس جمع ہو جاؤ، ہم لوگ جمع ہو گئے، جب رسول اللہ ﷺ منبر کی ایک سیڑھی پر چڑھے تو کہا: آمین۔ جب دوسری سیڑھی پر چڑھے تو کہا: آمین۔ اور جب تیسری سیڑھی پر چڑھے پھر کہا: آمین۔ جب آپ ﷺ منبر شریف سے نیچے اترے تو ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! ہم نے آج آپ سے ایسی بات سنی ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں سنی، (اس کی کیا وجہ ہے؟) حضور ﷺ نے فرمایا: بیشک جبریل امینؑ میرے پاس آئے تھے اور انہوں نے کہا: اللہ کرے کہ (جنت سے) دور رہے ایسا شخص جو رمضان کا مہینہ پائے اور اپنی مغفرت نہ کروا سکے، میں نے کہا: آمین۔ جب میں دوسری سیڑھی پر چڑھا تو جبریلؑ نے کہا: اللہ کرے کہ (وہ شخص جنت سے) دور رہے جس کے پاس آپ کا نام لیا جائے اور وہ آپ پر درود نہ پڑھے، میں نے کہا: آمین ۔ جب میں تیسری سیڑھی پر چڑھا تو جبریلؑ نے کہا: اللہ کرے کہ وہ شخص (جنت سے) دور رہے جس نے اپنے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کے عالم میں پایا اور وہ ان کو جنت میں داخل نہ کروا سکیں۔ ( یعنی یہ شخص ان کی خدمت کر کے جنت کا مستحق نہ ہوا) میں نے کہا: آمین۔ (مستدرکِ حاکم: ۷۲۵۶)
جس شخص کے لیے فرشتوں کے سردار حضرت جبریل امین ہلاکت کی دعا کریں اور سید الکونین جنابِ رسول اللہ ﷺ آمین کہیں، تو ایسے شخص کی بد بختی میں کیسا تردد؟
وقت رہتے رمضان المبارک کے حقوق کی ادائیگی اور اعمالِ خیر میں اضافہ اور بد اعمالیوں سے توبہ کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page