۱۵۵۷ء میں چھاپے خانے کی ایجاد کے بعد پوپ چہارم نے ممنوعہ کتب کا اشاریہ (Index Prohibitorum) مرتّب کرایا تھا،جس پر مسلسل نظر ثانی کی جاتی رہی۔ یہ سلسلہ بیسویں صدی کے نصف میں بھی جاری رہا۔
اس اشاریے میں وہ تمام کتابیں درج کی جاتی رہیں جنھیں ’مضر، کافرانہ، فحش اور مخربِ اخلاق ‘ گردانا جاتا تھا اور جنھیں پوپ کی اجازت کے بغیر پڑھا نہیں جا سکتا تھا۔ عیسوی سماج میں کن خیالات کو قبول کیا جائے گا، اور کس قسم کے علم کے پھیلآؤ کی اجازت ہو گی، اس کا فیصلہ پوپ کرتا تھا۔ریاست بھی چرچ کا ساتھ دیتی تھی۔
ہنری ہشتم نے کتابوں پر اختیار و نگرانی کے لیے ’کورٹ آف اسٹار چیمبر ‘قائم کیا۔سترھویں صدی میں Law of Libel نافذ ہوا۔اگرچہ Libel کا لفظی مطلب چھوٹی کتاب تھا، تاہم اس قانون کے تحت وہ سب کتابیں قابلِ ضبطی تھیں جو توہین آمیز، مفسدانہ، گستاخانہ یا فحش ہوتی تھیں۔
اِس طور دی فیملی انسٹرکٹر کے لکھے جانے سے پہلے چرچ اور ریاست کتابوں کے ذریعے خیالات کی آزادانہ نشر و اشاعت کو سخت تعزیری قوانین کے تابع کر چکی تھیں۔یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔ ۱۸۵۷ء میں ’فحش اشاعت ایکٹ ‘جاری ہو چکا تھا۔ اس قانون کے تحت فحش کتابیں لکھنے والوں ہی کو نہیں شائع کرنے اور بیچنے والوں کو بھی گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ ۱۸۶۸ء میں لارڈ چیف جسٹس کاک برن نے فحاشی کی تعریف بھی وضع کر دی تھی،جس کے مطابق ’’فحاشی کی آزمائش یہ ہے کہ جو تحریر اپنے پڑھنے والوں کے ذہن کو بگاڑ یا بد عنوان بنانے کا میلان رکھتی ہے، وہ فحش ہے۔‘‘
فحاشی کی اس تعریف پر ایلس کریگ کا تبصرہ ہمیں دی فیملی انسٹرکٹر اور توبۃ النصوح کے تصوّرِ اخلاق کو سمجھنے میں بہت مدد دیتا ہے۔
صریحاً،اگر اس تعریف کا اطلاق تسلسل سے کیا جاتا تو اس نے ادب کو نرسری کی سطح پر گھٹا دیا ہوتا۔آمرانہ انداز میں اس کے اطلاق سے یہ افراد کے لیے نا انصافی کا خوف ناک سرچشمہ اور سائنس، ادب اور معاشرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی۔
اُردو فکشن میں یہ سب توبۃ النصوح کے ذریعے ’فلٹر‘ ہو کر داخل ہوا۔اس سے پہلے اُردو فکشن اور شاعری میں مذہب و ادب کو ایک دوسرے کا مقابل سمجھنے کی روش موجود نہیں تھی، اس لیے ادب کے خلافِ مذہب ہونے کی بحث موجود تھی، نہ فحاشی ایک اہم ادبی مسئلے کے طور پر موجود تھی۔
شعرا شیخ، زاہد، بے روح مذہبی رسمیات کا مضحکہ اُڑاتے تھے، مگر انھیں شاید ہی مذہب پر حملہ تصوّر کیا گیا ہو۔البتہ شاعری کے بعض حصوں کے سوقیانہ، رکیک اور مبتذل ہونے کا تصوّر ضرور موجود تھا،مگر یہ بھی ایک اخلاقی تصوّر سے زیادہ ایک جمالیاتی مسئلہ تھا۔
نہ صرف اس مسئلے کی تشخیص، تشکیل اور ترجمانی ادبا نے کی، بلکہ اسے اظہار کا غیر فصیح، بازاری انداز قرار دیا، نیز اس مسئلے کو ہمیشہ ادب کی مرکزی روایت سے ایک خاص دوری پر،اور اس سے الگ تصوّر کیا گیا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ مضحکات، جن کی ذیل میں سوقیانہ و رکیک ادب کو رکھا گیا،کبھی مشاعرے اور داستان سرائی کی محافل میں نہیں سنائے گئے۔
اصل یہ ہے کہ کلیم کے ذخیرۂ کتب پر کفر و فحاشی کا الزام،فحاشی کے اس کلامیے (ڈسکورس) ہی کی توثیق ہے جو اُس زمانے میں جاری تھا۔ جس سال توبۃ النصوح شائع ہوا، اسی برس پنڈت کرشن لا ل (جو انجمنِ پنجاب کے رکن تھے )نے فحاشی پر ایک لیکچر تیار کیا،جس کا خلاصہ پنجابی اخبار میں ۲۱ ؍اگست ۱۸۷۴ء میں شائع ہوا۔گارساں دتاسی نے اسے اپنے ۱۸۷۴ء کے مقالے میں اقتباس کیا ہے۔ پنڈت صاحب کے لیکچر کا یہ حصّہ فحاشی کے تصوّر کی تفہیم میں مدد دیتا ہے۔
’’آدمی ہی کی طرح یا تو کوئی فحش مضمون بالکل عریاں ہو سکتا ہے،یا نیم برہنہ،یا نامکمل طور پر پوشیدہ یا شائستہ۔ اس لحاظ سے اسلوب ِبیان کی چار الگ الگ قسمیں ہیں۔(۱)وہ جس میں کوئی مذموم مضمون انتہائی بد تہذیبی سے عریانی کے ساتھ بیان کیا جائے، (۲)وہ جس میں صنائع و بدایع سے اس کا ستر کیا جائے، (۳) وہ جو آزادی میں حُسن کا پہلو باقی رکھے، (۴)وہ جس میں بات بڑی احتیاط اور سنوار کے ساتھ کہی جائے‘‘۔
پنڈت صاحب نے اس اصول کی روشنی میں سنسکرت، عربی، فارسی، ہندی، اُردو، انگریزی ادب میں فحش کتب کا جائزہ لیا ہے۔ان کے نزدیک فارسی اور اُردو میں فحشِ مستور،جس پر دہرا پردہ پڑا ہو، اس کی مثالیں موجود ہیں۔
فارسی انشا میں کوئی تالیف ایسی نہیں جس میں اس طرح کا فحش نہ ہو۔اس ضمن میں بہارِ دانش خاص طور پر بدنام ہے۔ گلستاں تک جس کو اخلاق و نصیحت کی کتاب تسلیم کیا جاتا ہے، اس عیب سے خالی نہیں… ریختی میں پوری بے حیائی کے ساتھ فحش بیانی ہوتی ہے… رہی دوسرے درجے کی فحش بیانی جس پر اکہرا پردہ پڑا ہو، سودا، انشا، رنگین، نظیر وغیرہ کے ہاں اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں،لیکن اگر انگریزوں کی عینک سے دیکھا جائے تو ساری ہندوستانی تخیلی کتابوں پر فحش نگاری کا الزام عائد ہو سکتا ہے۔
کم و بیش یہی وہ کتابیں ہیں جو کلیم کے کتب خانے کی زینت تھیں۔ اس سے ایک بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ڈپٹی نذیر احمد نے فارسی، اُردو کے سارے تخیلی ادب کو انگریزوں کی عینک سے دیکھا اور فحش قرار دیا۔انھوں نے یہ کھکھیڑ اٹھائی ہی نہیں کہ فحاشی ایک استعماری کلامیہ ہے، اس کی تہ میں عیسوی ثنویت کے ساتھ ساتھ مشرق و یورپ کی وہ ثنویت بھی کارفرما ہے، جس کے مطابق مشرق ہر اعتبار سے یورپ کے برعکس ہے؛ مشرق توہم پرست، یورپ عقلیت پسند ہے، مشرق پس ماندہ و درماندہ، اور یورپ ترقی یافتہ ہے، مشرق کا تخیل فحاشی کا دلدادہ اور یورپی ذہن تہذیب و شائستگی کا علم بردار ہے۔
یہ ثنویت جب ہندوستانیوں کے ذہن میں ایک ’امر واقعہ ‘کے طور پر جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو استعمار کار کو یہ اختیار خود بخود مل جاتا ہے کہ وہ ہندوستانیوں کو تہذیب و شائستگی سکھانے کے لیے نئی کتب تیار کروا سکے، ان کے ’گناہ گار تخیل‘ کو پہلے توبہ و ندامت پر مائل کرے اور پھر ان کی اصلاح کر سکے۔
(اردو ادب کی تشکیل جدید کے نئے ،زیر اشاعت ایڈیشن سے اقتباس )
ناصرعباس نیّر
۲۶ اکتوبر ۲۰۲۳ء
(یہ مضمون پروفیسر ناصر عباس نیر کے فیس بُک پیج سے لیا گیا ہے۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں۔)
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page