غالب نے اردومیں بہت کم قصیدے کہے ہیں۔ان کے اپنے مرتب کردہ دیوان میں صرف چار قصیدے ہیں۔ دو منقبتی اور دو درباری۔اگرغالب کے کلام کے ان قصائد کو بھی شامل کرلیا جائے جن کو انھوںنے منسوخ کردیا تھا تو یہ تعداد دوگنی ہوجاتی ہے۔جیساکہ جمیل جالبی نے ان کے قصائد کی تعداد نو بتائی ہے۔(1) لیکن ان قصائد کو غالب کے قصائد کے ذخیرے میں شامل اس لیے نہیں کیاجاسکتا کہ غالب خود ان کو منسوخ قرار دے چکے ہیں۔ اس لیے لامحالہ غالب کے قصائد کی کل تعداد صرف چار کے اندر ہی محدود ہوجاتی ہے۔
یقینا یہ تعداد بظاہر اتنی زیادہ نظرنہیں آتی کہ ان کی بنیادپر غالب کو بڑایا اہم قصیدہ گو شاعر کہاجاسکے جب کہ اردومیں ایسے قصیدہ گو شعرا کی لمبی فہرست ہے جنھوںنے درجنوں قصیدے لکھے، لیکن گنے چنے ان قصیدوںمیں جو انداز غالب نے اختیارکیا ہے اور جس جدت سے کام لیاہے، اس کے سبب ان کانام اردوقصیدے کے اہم قصیدہ نگاروں میں لیا جاسکتاہے۔بعض نے سودا، ذوق اور مومن کے ساتھ غالب کو بھی قصیدے کا اہم شاعر مانا ہے۔ جیساکہ ڈاکٹر ضیا احمد بدایونی لکھتے ہیں:
’’ درحقیقت یہ چاروں باکمال(سودا،ذوق، غالب، مومن) قصیدے کے ایوان کے چار ستون ہیں اور ان میں سے کسی کو بھی نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔‘‘(2)
غالب کی شاعری کی نمایاں خصوصیت جدت طرازی ہے اوران کی یہ خصوصیت قصیدے میں بھی نظرآتی ہے، اس لیے ناقدین باوجود معدودے چند قصائد کے غالب کی قصیدہ گوئی کونظرانداز نہیں کرسکے۔ دراصل غالب اپنا الگ راستہ نکالنے یا بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔وہ صرف دوسروں کے بنائے ہوئے راستوں کے راہی نہیں بنے رہنا چاہتے تھے ۔ بقول پروفیسر نورالحسن نقوی:
’’غالب کسی کے نقشِ قدم پر چلنا گوارا نہیں کرتے ۔ انھوںنے اپنا راستہ آپ نکالا اور سب سے الگ نکالا۔ایک فارسی شعرمیں انھوں نے کہا ہے کہ دوسروں کے پیچھے چلنے سے آدمی اپنی منزل کھودیتاہے۔اس لیے جس راستے سے کارواں گزرا ہے میں اس راستے پر چلنا پسند نہیں کرتا۔‘‘(3)
جدت طرازی غالب کی شاعری کی جان ہے۔اگر اس صفت کو ان کے کلام سے خارج کردیا جائے تو غالب اتنے منفرد نظر نہ آئیں گے جتنے آج نظرآتے ہیں ۔ آل احمد سرور نے صحیح کہا ہے کہ ’’غالب کے قصر شاعری کی بنیاد جدت طرازی پرہے۔‘‘ان کی یہ جدت طرازی کسی ایک صنف کے ساتھ مخصوص نہیں ۔بقول ڈاکٹر سلیم اختر:
’’غالب کی جدت پسندی کا اظہار، ترکیب تراشی اور الفاظ سازی سے لے کر قصائد تک ہر موقع پر ہوتا ہے اورغالباً غالب نے اقبال کی استثنائی مثال سے قطع نظر، اردو کو سب سے زیادہ دلکش اور مقبول تراکیب عطاکی ہیں۔صدہا افسانوں، نظموں اور مجموعوں کے نام اس کی تائید کرتے ہیں۔‘‘(4)
صنف ِقصیدہ جس شان وشکوہ ،رفعت تخیل اور علوئے مضامین کی متقاضی ہے، غالب کی قصیدہ گوئی اس سے ہم آہنگ ہے۔اگر غالب کے اردو اور فارسی دونوں زبانوں کے قصائد کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ غالب کا مزاج بھی قصیدے سے ہم آہنگ تھا اور ان کواس سے دلچسپی بھی تھی۔غالب نے فارسی میں ۷۰ سے زیادہ قصیدے کہے ہیں،وہ بھی انہماک کے ساتھ۔اگر غالب کو قصیدے سے دلچسپی نہ ہوتی یا ان کا مزاج اس سے میل نہ کھاتا تووہ فارسی میں اتنے زیادہ قصیدے نہ کہتے۔ عجیب بات ہے کہ اکثر ناقدین نے غالب کی طبیعت کو قصیدے کے برعکس قرار دیا ہے۔ کلیم الدین احمد کہتے ہیں کہ’’ قصیدے کے لیے ان کی طبیعت مناسب نہ تھی۔‘‘ (5) جو لوگ غالب کے مزاج و مذاق کو قصیدے سے ہم آہنگ نہیں مانتے وہ عام طورپردلیل میں غالب کا یہ شعر پیش کرتے ہیں ؎
سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے
کلیم الدین احمدلکھتے ہیں کہ ’’جس شخص کا یہ قول ہو وہ قصیدے کا مردِ میدان نہیں ہوسکتا۔‘‘(6) اسی انداز کے خیالات اور لوگوں نے بھی ظاہر کیے ہیں لیکن یہ صرف غالب کے الفاظ ہیں ، نظریہ وعمل نہیں۔اگر نظریہ وعمل ہوتا تو بادشاہوں ونوابوں کی مدح میں درجنوں قصیدے ، قطعات نہ کہتے۔صرف بہادر شاہ ظفر کی تعریف میں غالب نے تیئس قصیدے کہے ہیں جن میں سے پندرہ مطبوعہ کلیات میں ہیں اور پانچ قصیدے وہ ہیں جن کے عنوان بدل دیے ہیں اور تین وہ جو زمانۂ انقلاب میں بہادر شاہ کی مدح میں کہے تھے۔(7) غالب نے بادشاہوں کی تعریف میں صرف قصیدے ہی نہیں بلکہ مثنوی ، قطعات اور رباعیاں بھی کہی ہیں۔ بڑی تعداد میں ایسے شواہد وثبوت موجود ہیں جن سے پتہ چلتاہے کہ غالب نے وظائف ومالی تعاون کے لیے نوابوں و رئیسوں کی خوشامد کی ۔ایک قصیدے کے صلہ کے لیے کہا کہ ’’اس قصیدے سے مجھ کو عرضِ دستگاہِ سخن منظور نہیں، گدائی منظورہے۔‘‘ ایک صاحب کو لکھا ’’فقیر ہوں جب تک جیوں گا دعا دوں گا‘‘۔ نواب رام پور کو یہ مراسلہ لکھاکہ :
’’۔۔۔مفتی صدرالدین مرحوم کی زوجہ کو پان سو روپے مفتی جی کی تجہیز وتکفین کے واسطے رام پور سے بھیجے ہیں، فقیر کو بھی یہ توقع ٹھہری کہ میرا مردہ بے گوروکفن نہ رہے گا۔‘‘8)
جو شخص اس طرح گر کر دستِ سوال دراز کرے،وظائف کے حصول کے لیے دربدر مارا دھارا پھرے اور خوشامدی بن جائے ، اس کو کیوں کر خود دار تسلیم کیاجاسکتاہے۔غالب کو شاہانہ ورئیسانہ زندگی گزارنے کی خواہش تھی تو انھوںنے اس کے لیے اپنی خودداری کو کیسے گروی رکھ دیا ۔ دراصل غالب کے قول وعمل میں تضاد نظرآتاہے۔
غالب کو قصیدہ گوئی سے لگائو تھا ۔اس کی کئی دلیلیں ہیں۔ایک تو ان کے فارسی قصائد ہیں جن پر انھوں نے بھرپور توانائی خرچ کی ہے اور فخربھی کیاہے۔دوسرے یہ کہ اردومیں ان کے چاروں عمدہ قصیدے ہیں ، خاص طورسے بہادرشاہ ظفر کی مدح میں جو قصائد ہیں ، وہ بلندپایہ کے ہیں اور ان کی عظمت سے کسی کو انکار نہیں۔ظاہرہے کہ بنامہارتِ فن کے کیسے اتنے عمدہ قصیدے کہے جاسکتے ہیں۔ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ غالب خود قصیدہ گوئی کو اہمیت دیتے تھے،اسی لیے انھوںنے اپنا جو دیوان مرتب کیا، اس میں غزل اور رباعی سے پہلے قصیدے کو رکھا۔
یہاں یہ سوال دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ باوجود قصیدے سے طبیعت کی ہم آہنگی کے اور قصیدہ گوئی کی بھرپور صلاحیت کے غالب نے اردومیں زیادہ قصیدے کیوں نہ کہے؟ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ایک یہ کہ غالب نے فارسی قصیدہ گوئی میں اپنے آپ کو زیادہ منہمک رکھا ، اس لیے وہ اردوقصیدے کہنے کی طرف بھرپورتوجہ نہ دے سکے۔ دوسرے یہ کہ وہ فارسی قصیدہ گو شعرا کو اردوقصیدہ نگاروں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت کا حامل سمجھتے تھے، اس لیے وہ ان کے درمیان مقام حاصل کرنے کے خواہاں تھے۔ اس کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اردوقصیدے میں سوداؔ جس زور شور سے شاعری کرچکے تھے، اس سے آگے بڑھنا آسان نہ تھا۔ ایسے ہی ذوق جو بہادر شاہ ظفر کے استاد تھے، اردومیں بہترین قصیدے کہہ رہے تھے ۔ممکن ہے کہ غالب کی نظر نے یہ دیکھ لیاہو کہ وہ اردومیں ذوقؔ سے اچھے قصیدے نہیں کہہ سکتے، دوسری طرف ذوق اور غالب کے مابین مقابلہ آرائی کا سلسلہ بھی چھڑا ہوا تھا۔ اگر غالب بھی اردومیں قصیدے کہتے تولازماً اس زمانے میں ذوق کا ان کے ساتھ موازنہ کیاجاتاجس میں غالب کا پچھڑناناممکن نہیں تو ممکن ضرور تھا۔ گویاکہ غالب نے حکمت عملی کے تحت اس میدان سے اپنے آپ کو الگ رکھا تھا۔وہ صرف فارسی کے میدان میں قصیدے کے گھوڑے دوڑاتے رہے ۔ غالب نے جواردو قصیدے بہادر شاہ ظفر کی تعریف میں کہے ، وہ ذوق کے انتقال کے بعد کہے۔
یہ حیرت کی بات ہے کہ قصائد کی کم تعدادکے سبب بہت سوںنے غالب کی قصیدہ گوئی کو لائقِ اعتنا نہیں سمجھا اور ان کی شاعری کو قصیدے کے حوالے سے اس طرح نہیں دیکھاجس طرح دیکھاجاناچاہئے۔شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
’’گذشتہ ستراسّی برس میںغالب پر ہماری توجہ ان کی غزلوں کے ہی حوالے سے مرکوز رہی ہے۔اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ کلاس روم کے باہر کم لوگ ایسے ہوں گے جنھوںنے غالب کے قصائد، قطعات اور مثنویات کو اس توجہ سے پڑھا ہو جس توجہ سے ان کی غزلیں پڑھی گئی ہیں۔‘‘(9)
غالب نے قصیدے کے اجزاتشبیب، گریز ،مدح اور دعا کو بحسن وخوبی برتاہے، البتہ تشبیب اور گریزمیں غالب کا فن زیادہ بلندی پر نظرآتاہے۔ان کے پہلے قصیدے کی تشبیب بہاریہ ہے جس میں دوسرے شعرا کی طرح انھوںنے بہار کا منظر کھینچا ہے۔مثلاً ؎
ساز یک ذرّہ، نہیں فیضِ چمن سے بیکار
سایۂ لالۂ بیداغ ، سویدا بیکار
مستیِ بادِ صبا سے ہے بہ عرضِ سبزہ
ریزۂ شیشۂ میٔ ، جوہرِ تیغِ کہسار
دوسرے قصیدے کی تشبیب تصوف کا رنگ لیے ہے۔اس میں فلسفۂ وحدت الوجود کا اثبات کیا گیا ہے اور دنیا کی بے ثباتی کو پیشِ نظررکھتے ہوئے اس میں دلچسپی نہ لینے کی تلقین کی گئی ہے۔ چند اشعار دیکھیے ؎
دہر ، جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے،اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
ہر زہ ہے نغمۂ زیر و بمِ ہستیّ و عدم
لغو ہے آئینۂ فرقِ جنون و تمکیں
یہ دونوں منقبتی قصیدے حضرت علیؓ کی شان میں کہے گئے ہیں۔تیسرے قصیدے کی تشبیب مکالماتی انداز کی ہے۔ یہ تشبیب ایک اچھوتا انداز لیے ہوئے ہے،اس میں دلکشی بھی ہے اور تاثیر بھی۔ قصیدے کا آغاز اس طرح ہوتا ہے ؎
ہاں مہِ نو! سنیں ہم اس کا نام
جس کو تو جھک کے کر رہا ہے سلام
دو دن آیا ہے نظر تو دَمِ صبح
یہ ہی انداز اور یہی اندام
بارے دو دن کہاں رہا غائب
بندہ عاجز ہے ، گردشِ ایّام
سوال وجواب کا یہ انداز بڑاڈرامائی اور فطری ہے ۔اس پر مستزاد یہ کہ زبان آسان و سادہ ہے اور لہجہ بول چال کا ہے جس نے اشعار میں نیچرلٹی پیداکردی ہے۔چوتھے قصیدے کی تشبیب بھی بڑی دلآویز اور پُرکشش ہے ۔ اس میں خوبصورت الفاظ اورعمدہ تشبیہات کے ساتھ دلکش فضا باندھی گئی ہے۔روانی اور تسلسل کو بھی قائم رکھا گیا ہے ۔ اشعار دیکھیے ؎
صبحِ دم دروازۂ خاور کھلا
مہرِ عالمتاب کا منظر کھلا
خسروِ انجم کے آیا صرف میں
شب کو تھا گنجینۂ گوہر کھلا
سطحِ گردوں پر پڑا تھا رات کو
موتیوں کا ہر طرف زیور کھلا
غالب کے یہاں گریزمیں بھی بھرپور نزاکت اورجدت ملتی ہے۔گریز کا تقاضہ یہ ہے کہ تشبیب کے اختتامیہ پر ایسی راہ ہموار کی جائے جہاں سے ممدوح کی مدح کا راستہ صاف ہوجائے اور سامع یاقاری کو احساس بھی نہ ہوکہ کب شاعر مدح کی طرف آگیا۔ غالب نے اس نزاکت کو دھیان میں رکھتے ہوئے ’ہاں مہ ِ نوسنیں ہم اس کا نام‘ اور ’’دہرجز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں‘‘ میں گریز کے اشعار کہے ہیں۔اول الذکر میں مکالماتی انداز میں ہلال سے اپنی بات کہتے ہوئے استفسار کرتے ہیں ؎
کہہ چکا میں تو سب کچھ اب تو کہہ
اے پری چہرہ ، پیکِ تیز خرام
کون ہے جس کے در پہ ناصیہ سا
ہیں مہ و مہر و زہرہ و بہرام
پھر خود ہی اس کی طرف سے خاموشی کو دیکھتے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ اگر تو اس شخص کا نام نہیں جانتا ہے جس کے درپہ مہرومہ غیرہ جھکے رہتے ہیں تو میں بتاتاہوں ۔
تو نہیں جانتا تو مجھ سے سن
نامِ شاہنشہِ بلند مقام
بس یہیں سے ممدوح کی مدح کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے۔ثانی الذکر قصیدے یعنی ’’صبح دم دروازۂ خاور کھلا‘‘ میں گریز بالکل فطری معلوم ہوتی ہے ۔آسانی کے ساتھ بات سے بات پیدا کردی گئی ہے کہ شاعربڑے جوش کے ساتھ تصوف کے مسائل بیان کرتاجارہاہے کہ اچانک اسے خیال آتا ہے کہ وہ مسائلِ تصوف کے بکھیڑوں میں کہاں الجھ گیا اور کیسے کیسے اوہام وخیالات میں گرفتار ہوگیا ، فوراً لاحول پڑھتاہے اور علی کا نام لیتا ہے ۔ پھر وہیں سے علیؓ کی شان میں منقبتی اشعار کا سلسلہ باندھ دیتا ہے۔
نقشِ لاحول، لکھ، اے خامۂ ہذیاں تحریر
یا علی عرض کر، اے فطرتِ وسواس قریں
’مدح‘ قصیدے کا اہم ترین جز ہے۔ اس لیے شعرا عام طورپر مدح میں اپنازور دکھاتے ہیں۔ غالب بھی اس جز پر خاطر خواہ توجہ دیتے ہیں اور اپنے ممدوح کی شان میں عمدہ اشعار کہتے ہیں جن میں الفاظ وتراکیب بھی معیاری ہوتی ہیں اور بلند تخیل اور معنی آفرینی کی کارفرمائی بھی ہوتی ہے۔ غالب کے یہاں مدح کا انداز ومعیار دیکھنے کے لیے ان کے قصائد کے مدحیہ اشعار کو دیکھنا ضروری ہے ۔ اپنے ایک قصیدے میں وہ بہادر شاہ ظفر کی تعریف اس طرح کرتے ہیں ؎
جس کا ہر فعل صورتِ اعجاز
جس کا ہر قول معنیٔ الہام
جاں نثاروں میں تیرے قیصرِ روم
جرعہ خواروں میں تیرے مرشدِ جام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہِ روشن دل ، بہادر شہہ کہ ، ہے
رازِ ہستی اُس پہ سر تا سر کھلا
و ہ کہ جس کی صورتِ تکوین میں
مقصدِ نُہ چرخ و ہفت اختر کھلا
وہ کہ جس کے ناخنِ تاویل سے
عقدۂ احکامِ پیغمبر کھلا
ان مدحیہ اشعار میں شکوہِ الفاظ بھی ہے اور رفعتِ تخیل بھی ۔اسی کے ساتھ مبالغہ بھی ۔شاعر نے اپنے جس ممدوح کے ہر لفظ کو معنیٔ الہام اور ہرفعل کو صورتِ اعجاز قرار دیاہے ، اس کی حقیقی زندگی میں ایسا کچھ بھی نہیں بلکہ برعکس صورتِ حال نظرآتی ہے۔ بہادر شاہ ظفر کوعظیم اسلامی شخصیت کی شکل میں پیش کرنا یا کسی صوفی وقطب جیسا بتانا کچھ زیادہ ہی مبالغہ نہیں تو اور کیاہے؟ قیصرِ روم کوبہادر شاہ جیسے مجبور وغریب شخص کا جاں نثار بتانا بلندیٔ تخیل اور محض مبالغہ ہے ۔ دوسرے قصیدے میں بھی شاعرنے مدح کا یہی انداز اختیارکیا ہے کہ ممدوح کی شخصیت کو تکوینی نظام سے جوڑ دیا ہے اورمجبورِ محض و بے فوج وسپاہ بادشاہ کے لشکر سے چرخ کو کانپتے ہوئے دکھایاہے۔ گویاکہ جس طرح دیگر شعرا نے ممدوحین کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملائے ہیں ،اسی طرح غالب نے بھی ملائے ہیں لیکن وہ اس میں سودا، ذوق اور دیگر بہت سے شعرا سے آگے نہیں جاسکے ہیں۔بعض لوگ مدح سرائی کو غالب کے مزاج کے خلاف کہیں یا خود غالب اسے بھاٹوں کی طرح بکنا قرار دیں۔ لیکن اس سے اس لیے اتفاق نہیں کیاجاسکتا کہ مذکورہ اشعار خود اس کی تردید کرتے ہیں۔ہاں یہ ضرور کہا جاسکتاہے کہ غالب نے اردوقصائد کے مدحیہ اشعار میں زیادہ سر نہیں کھپایاہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اسے غیر ضروری یا ضیاعِ وقت خیال کرتے ہوں۔ کیوں کہ بہرحال اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ غالب اپنے وقت کے بڑے فلسفی ، مفکراور وقت کے نباض تھے ۔انھوں نے ایسے ایسے اشعار کہے ہیں جو آج بھی مضامین و کتب کے عنوان بنتے ہیں ۔
بہرکیف! غالب ایک اہم اور منفرد قصیدہ نگار ہیں جس کا اعتراف اچھے اچھوں نے کیاہے۔تنویر احمد لکھتے ہیں:
’’ مرزا نے قصیدے کی روایتی حدود میں رہتے ہوئے اس کی تخیلی اورتمثیلی فضا میں ایک نیا رنگ پیدا کیاہے۔ خاقانی، ظہیر فاریابی، عرفی، نظیری، ظہوری ، ہلالی خوانساری، طالب آملی سبھی ان کے پیش روہیں۔ مرزا نے ان سے استفادہ کیا ہے ،اپنے پیش روؤں کی زمینوںمیں قصیدے کہے ہیں۔‘‘(10)
یہ خیال غالب کی اردو وفارسی دونوں زبانوں کی قصیدہ نگاری کے بارے میں ہے۔ غالب کی قصیدہ نگاری کے مقام کا تعین کرنے کے لیے ان کی فارسی قصیدہ گوئی کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔ کیوں کہ ان کے کہے ہوئے فارسی قصیدوں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ غالب کو قصیدے پر کس حد تک درک حاصل تھا ۔ ظاہرہے کہ فارسی قصائد کی کچھ نہ کچھ چھاپ اردو قصیدوں پر بھی ضرورپڑی ہوگی۔فارسی قصیدہ نگاری پر غالب کو بھی فخر تھا جیسا کہ خود غالب کو اس بات کا شکوہ رہا کہ ان کے فارسی قصیدے کوئی نہیں دیکھتا جن کی نگارش پر انھوں نے اپنا خونِ جگر صرف کیا۔بعض ناقدین غالب کی فارسی قصیدہ گوئی سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، اس لیے انھوں نے اس کی بڑی تعریف کی ہے اور اردو قصیدہ گوئی کو لائق تحسین خیال نہ کیا۔جیساکہ نیاز فتحپوری لکھتے ہیں:
’’غالب نے اردومیں کوئی ایسا قصیدہ نہیں لکھا ، جس کا ذکر سودا اور ذوق کے قصائد کے ساتھ کیاجاسکے۔اس نے اپنا سارازورِ قلم فارسی قصیدہ نگاری میں صرف کردیا اور بہت کامیاب ہوا۔‘‘(11)
بلاشک وشبہ غالب اردوقصیدے میں سودا اور ذوق کے برابر نہیں ہیں لیکن یہ بھی حقائق سے پرے بات ہے کہ ان کے کسی بھی قصیدے کوسودا یا ذوق کے کسی بھی قصیدے کے سامنے پیش نہ کیا جاسکے۔’ہاں مہہِ نو سنیں ہم اس کا نام‘ کے بارے میں ناقدین نے اچھے خیالات کا اظہار کیا ہے اور واقعی اس کے اندر وہ تمام چیزیں موجود ہیں جو اچھے قصیدے میں ہونی چاہئیں ۔ تشبیب، گریز، مدح ، دعا، زبان وبیان، بلندیٔ تخیل ، مبالغہ وغیرہ۔راقم کی نظر میں غالب کے اس قصیدے کا شماراردو کے اچھے اوربہترین قصائد کے ساتھ ضرورکیا جاسکتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں ہرچرن چاؤلہ بحیثیت افسانہ نگار – ڈاکٹر تسنیم فاطم )
غالب کے سبھی قصائد کے مطلعے دلکش ہیں، جو غزلیں غالب نے قصیدوں میں شامل کی ہیں وہ بھی قصیدے کے معیار کے مطابق ہیں۔ ’’صبح دم دروازہ ٔ خاور کھلا‘‘میں جو غزل غالب نے لکھی ہے ، اس کا جواب نہیں ۔چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
ہم پکاریں اور کھلے ، یوں کون جائے؟
یار کا دروازہ پائیں گر کھلا
نامے کے ساتھ آگیا پیغامِ مرگ
رہ گیا خط میری چھاتی پر کھلا
دیکھیو غالب سے گر اُلجھا کوئی
ہے ولی پوشیدہ ، اور کافر کھلا
غالب کے قصائد میں موضوعات ومضامین کا تنوع بھی ملتا ہے ۔وہ بعض ایسے اشعار کہہ جاتے ہیں جوعوام وخواص سب کو اپیل کرتے ہیں اور صدا بہار ہوجاتے ہیں۔ جیساکہ اسی قصیدے کا یہ شعر دیکھیے ؎
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھُلا
غالب کی قصیدہ گوئی کی جو خصوصیات ہیں ان میں جدت پسندی، نکتہ آفرینی، مبالغہ آرائی، الفاظ کی بندش، صنائع وبدائع کا فطری و غیرارادی استعمال خاص طور پرقابلِ تذکرہ ہے۔ غالب کی کمزوری یہ رہی کہ انھوںنے اردو قصیدہ گوئی پر خاص توجہ نہیں دی ۔اگر وہ اس جانب متوجہ ہوتے توکچھ بعید نہ تھا کہ وہ قصیدے کے بہت بڑے شاعر ہوتے اور قصیدہ نگاری کے حوالے سے سودا اورذوق کے ساتھ ان کا نام ضرور لیاجاتا ۔
حواشی:
1۔ تاریخ ادب اردو ،جلد چہارم،حصہ اول ،جمیل جالبی،ص ۱۱۴
2۔ اردوقصیدہ نگاری ،مضمون’’ایوان قصیدہ کے ارکان اربعہ‘‘،از ڈاکٹر ضیا احمد بدایونی ، ص ۲۱۸
3۔ تاریخ ادب اردو، از:نورالحسن نقوی، ص ۱۲۲
4۔ اردوادب کی مختصرترین تاریخ، ص ۲۳۲
5۔ اردو شاعری پر ایک نظر، حصہ اول ص ۱۴۲
6۔ ایضاً۔ایضاً۔ص ۱۴۸
7۔ غالب اور شاہانِ تیموریہ، از: خلیق انجم، ص ۶۳
8۔ ’’غالب ۔قصیدہ نگار‘‘، از: نورالحسن نقوی، اردوقصیدہ نگاری، مرتب: ام ہانی اشرف ، ص ۱۷۷
9۔ انتخاب اردو کلیات غالب، مع دیپاچہ شمس الرحمن فاروقی، ص ۱
10۔ غالب کی فارسی شاعری ، تعارف وتنقید، از : تنویر احمد،ص ۲۶
11۔ نگارپاکستان ، مومن نمبر،نیاز فتحپوری، ص ۲۵۷
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |