’’غبار ِ حیرانی “ – عبداللہ ندیم
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے مل کر آپ کو اپنی بے بضاعتی اور کم علمی زیادہ کھلنے لگتی ہے ۔پروفیسر احمد محفوظ صاحب کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے ۔تین ملاقاتوں میں ہی ہمارا قد اتنا گھٹ گیا ہے کہ ہمیں تو خوف لاحق ہو گیا کہ کہیں ہمارا حال بھی “گلیورٹریولز” (Gulliver Travels ) کے لیلپوٹین(Lilliputian) جیسا نہ ہو جائے ۔علم اور انکسار کا ایسا حسین امتزاج کم کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔میر کی تفہیم ِ نو کا جو سلسلہ فاروقی صاحب نے شروع کیا تھا ،احمد محفوظ کی کتاب “بیانِ میر” اسکی توسیع کہی جاسکتی ہے ۔فاروقی صاحب کو اپنے اندر جذب کرنے کے باوجود ،احمد محفوظ اپنی انفرادیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں ۔
ابھی حال ہی میں انکا شعری مجموعہ “غبارِ حیرانی “ منظر ِ عام پر آیا ہے ،جس کو پڑھ کر یک گونہ اطمینان ہواکہ ہماری کلاسیکی شاعری کی روایت کا فیض ابھی بھی جاری ہے ۔اس روایت سے اغماض ہزار خرابیوں کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ اردو کی شعری روایت عربی اور فارسی سے اس طرح گندھی ہوئی کہ ان کو الگ نہیں کیا جا سکتا ہے ۔قیس ،لیلی ،محمل ،ناقہ ،ساربان ،کجاوہ ،یہ سب ہمارے یہاں کہاں سے آئے ہیں ؟اور یہ ہمیں اجنبی کیوں نہیں لگتے ہیں ؟غزل کا پورا ڈھانچہ فارسی سے مستعار ہے ۔احمد محفوظ فارسی کے عالم تو ہیں ہی ،عربی شاعری کی روایت سے بھی بخوبی واقف ہیں ،اس لئے ہمیں ان کے اشعار میں ایک کلاسیکی رچاؤ دکھائی دیتا ہے ۔کچھ اور کہنے سے پہلے شاعری کے تعکق سے انکا مطمحِ نظر جان لیتے ہیں ۔وہ اپنے پیش لفظ میں لکھتے ہیں ۔
“میرے نزدیک شعر کی فنی حیثیت ہر لحاظ سے اولیت رکھتی ہےاور اس میں زبان کا استعمال مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔اسی سے شعر میں الفاظ کی بندش ،باہمی مناسبات اور تخلیقی جہتوں کی کارفرمائی کا اظہار ہوتا ہے ۔اس کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ فنی لحاظ سے دلکش ہونا شعر کی اولین شرط ہے “۔
ہوسکتا ہے کہ ہمیں انکے یہاں دقیق فلسفیانہ خیالات کم ملیں لیکن فنی لحاظ انکا ہر شعر روشن اور چمک دار ہے ۔شعر سازی کے عمل میں وہ خوبصورت تراکیب اور اور الفاظ کے حسن ِ انتخاب سے ایسا سماں باندھتے ہیں کہ قاری سر دھنتا رہے ۔انکا شعری سفر کم از کم تین دہائیوں کو محیط ہے لیکن مجموعے میں صرف ستر غزلیں ہیں جو انکے کڑے انتخاب کا بین ثبوت ہیں ۔بقول عمیر منظر “محفوظ صاحب نے غزلیں کہنے سے پہلے ہی انکی ایڈیٹنگ شروع کر دی تھی “
اس مرحلے پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تین عالموں کی آراء نقل کردی جائیں جو انکے شعری رجحان کو سمجھنے میں اور مددگار ثابت ہو سکتی ہیں ۔شہرام سرمدی لکھتے ہیں ۔
“احمد محفوظ کے یہاں شعر سازی کے عمل میں ان کا ذہن و مطالعہ نمایاں ہے۔ وہ لفظ اور اس کی معنوی تہوں میں ضرب لگاتے ہیں اور ایک جراح کی طرح معاملہ کرتے ہیں۔ ذہن کو انگیخت کرتے ہیں”-
شفق سو پوری احمد محفوظ کی شاعری کے تعلق سے یوں رقم طراز ہیں ۔
“ احمد محفوظ کے شعری لہجے کی حلاوت روایتی عناصر سے مرکب ہے۔ اور کیوں نہ ہو کہ کلاسیکی شعریات ان کے تخلیقی وجود میں جزو لاینفک کی طرح رچ بس گئی ہے لیکن اس ترکیب اور رچاو سے جو معاصر حسیت کا معنی خیز بیانیہ قائم ہوتا ہے وہ احمد محفوظ کی شاعری کے قاری کو ان احساسات، جذبات اور تجربات کا حصہ بننے کی ترغیب دیتا ہے ۔ یہ وہ تخلیقی عمل ہے جو احمد محفوظ کے قاری کے فکری آہنگ کو معاصر حسیت کی تلاطم خیزی سے مربوط کرکے ایک درد انگیز سمفنی پر منتج ہوتا ہے۔ احمد محفوظ کی شاعری جن کیفیات، جذبات احساسات اور تجربات سے عبارت ہے وہ ایسے تخلیقی مناظر کی روداد ہے جو مختلف رنگوں کی صورت میں باری باری ظہور پذیر ہوکر ایک فنکار کو خواب، نیم خوابی اور بیداری کے لمحات میں انگیز کرتے ہیں۔ یہ شاعری ایسے سیاح کا سفر نامہ نہیں جو سروسامان میں منزلوں کا نقشہ بھی رکھتا ہے بلکہ میں اسے اس مہم جو کی داستان سے تعبیر کروں گا جو اکیلے کسی ملک کو دریافت کرنے کے لئے نکلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس داستان کا بیانیہ کشف و انکشاف کے رنگ بدلتا ہے”۔
عمیر منظر احمد محفوظ کی شاعری کی خصوصیت کچھ یوں بیان کرتے ہیں
“
احمد محفوظ کی شاعری کا اگر بنظر طائر مطالعہ کیا جائے تو فنی ہنرمندی کی بعض استادانہ جہتیں نظر آتی ہیں۔ شعرکا مضمون اور اس کی ادائیگی کے لیے لفظوں کا مناسب استعمال بہت بڑی خوبی ہے یعنی وہ جدید طرز اظہار کے ایسے تخلیق کار ہیں جن کے یہاں زبان و بیان کے کلاسیکی انداز ملتے ہیں “
ویسے تو انکا سارا کلام ہی انتخاب ہے لیکن جو اشعار بطورِ خاص مجھے پسند آئے انمیں سے بعض یہاں نقل کئے دیتا ہوں
رات آنکھوں میں مری گردِ سیہ ڈال کے وہ
فرشِ بے خوابیِ وحشت پہ سلاتا ہے مجھے
پھینکتے سنگِ صدا دریائے ویرانی میں ہم
پھر ابھرتے دائرہ در دائرہ پانی میں ہم
اک ہوا آخر اڑا ہی لے گئی گردِ وجود
سوچیے کیا خاک تھے اس کی نگہبانی میں ہم
یہ ساری بے منظری سوادِ سکوت سے ہے
صدا وہ چمکے تو دھند کے آر پار دیکھوں
یہاں جو دل میں داغ تھا وہی تو اک چراغ تھا
وہ رات ایسا گل ہوا کہ شرمسار ہوگئے
ابھی کیا جان کی بازی لگائیں
ابھی نقصان ہی کتنا ہوا ہے
رفو گری کو یہ موسم ہے سازگار بہت
ہمیں جنوں کو ابھی جامہ در نہیں کرنا
باغِ امکاں کوئی پردہ ہے کہ جس کے اوجھل
ایک ہی گل ہے یہاں جس کی مہک ساری ہے
رہ رہ کے جو تصویر چمکتی ہے فضا میں
ہم اس کے ہیں شیدائی وہ شیدائی ہماری
روز کھلتے ہیں سرِ شاخ ِ تماشا کئی پھول
صبح دم اس گلِ خوبی کے نکھر جانے سے
قیامت تلک اب چھپے ہی رہو
یہ سب تھا تو کاہے کو پردہ کیا
وہی مجھ سے کہتا ہے نالش کرو
وہی جس نے اس دل پہ قبضہ کیا
شاید کی رہائی ہو گل ہی کی ضمانت پر
ہم موجِ تبسم کی زنجیر کے قیدی ہیں
خوش ہوئے اتنے کہ ہم سے پہلے
مقدمِ یار کو آنسو نکلے
اس طرح کے چند اشعار بھی اگر کوئی کہہ لے تو اسکی شاعری کامیاب کہی جاسکتی ہے ۔احمد محفوظ کا تو پورا مجموعہ اس نوعیت کے خوبصورت اشعار سے بھرا ہوا ہے ۔ہم انھیں اسکی اشاعت کے لیے مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔یہ ہماری شعری روایت میں ایک گرانقدر اضافہ ہے ۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page