حج نامہ’حاصلِ زیست‘ کا انفراد و اختصاص – نــسیــم اشــک
نــسیــم اشــک
ہولڈنگ نمبر : 10/9،گلی نمبر:3، جگتدل ،
24 ؍پرگنہ ،مغربی بنگال، موبائل: 9339966398
سفر نامہ ایک غیر افسانوی صنفِ ادب ہے۔دنیا کے سبھی زبانوں کے ادب میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔اردو ادب میں بھی اس کا ایک ذخیرہ موجود ہے۔یہ سفر نامہ نگار کے محسوسات ، تجربات و مشاہدات اور تمنائے اظہار کیفیات قلب ہے۔مختلف زبانوں کے ادب میں سفر نامے ملتے ہیں۔میرے نزدیک سفر نامے کی حیثیت دستاویزی ہوتی ہے۔آپ کے ذہن میں تاریخ کے وہ اسباق ضرور محفوظ ہوں گے، جن میں ہم نے سفر ناموں کے تعلق سے پڑھا تھا اور کئی تاریخی شخصیتوں کے سفر نامے کے متعلق جاننے کا موقع ملا تھا سفر نامے روداد زمانہ بھی ہوتے ہیں ان سفر ناموں میں کسی ملک،قوم کی معاشیات،تہذیب،رسم ورواج کے ساتھ ساتھ تاریخی حقائق اور جغرافیائی بناوٹ کا علم ہوتا ہے۔ سفر نامے چشم دید گواہ ہوتے ہیں ،جن پر تاریخیں لکھی جاتی ہیں۔
انسانی زندگی کا سفر روز ازل سے اس زمین پر جاری ہے۔ From Unknown to Known کی للک اور طرزِ حیات میں تبدیلی کی خواہش نے ہمیشہ اس کے حوصلے کو تقویت دی ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ مسلّم ہے کہ بغیر سفر انسان لاعلم رہتا ہے ۔ یہ سفر ہمیں زندگی کی ان حقیقتوں سے آشنا کراتا ہے ،جن سے ہم نا واقف ہوتے ہیں۔ادبی سفر نامے،تاریخی سفر نامے، سیاحتی سفر نامے،سیاسی سفر نامے ، علمی سفر نامے وغیرہ کے موضوعات سے سفر نامے کل بھی پڑھے جاتے تھے اور آج بھی دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ بعض دفعہ بطور حوالہ پیش بھی کئے جاتے ہیں۔ سفر انسان کی زندگی کا اہم جز ہے ۔ بغیر سفر انسانی زندگی میں وسعت پیدا نہیں ہوتی۔یہ سفر ایک انسان کے اندر جاننے کی للک تو پیدا کرتا ہی ہے ۔ اس کے فکر و نظر کے زاوئے بھی بدلنے میں معاون ہوتا ہے۔لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس قوم میں سفر کا رحجان نہیں ہوتا ، وہ بہت جلد اپنا اقتدار ،وقار اور اہمیت کھو دیتی ہے۔زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لئے قدم بڑھانا ہی پڑتا ہے ،ورنہ دنیا کی بدلتی تہذیبوں سے نا آشنائی انسان کی ذہنی و عملی وسعت پر ایسا قدغن لگاتی ہے کہ دوبارہ زمانے کی رفتار کو پکڑنے میں زمانے لگ جاتے ہیں۔ قول نبی بھی ہے کہ علم سیکھنے کے لئے چین بھی جانا پڑے تو جاؤ ۔ گویا یہاں صاف صاف اشارہ ہے کہ دینی و دنیاوی ترقی حاصل کرنے کے لئے سفر کرنا لازم ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ ایک ملک کی تہذیب و ثقافت، علم و فنون دوسرے ملکوں تک پہنچانے میں اسی سفر نے اہم رول ادا کیا ہے۔سفر ترقی کی روح ہے۔دوسرے دیار سے جب کوئی مسافر آتا ہے تو اپنے ساتھ صرف وہاں کی یادیں ہی نہیں لاتا، وہاں سے ہر وہ چیز لے آتا ہے جس کی ،اُس کی نظر میں اہمیت ہوتی ہے۔دور قدیم میں مسافران اپنے تجربات و مشاہدات لوگوں کو سناتے تھے اور لوگ ان کی باتوں کو گانٹھ باندھ لیتے تھے ۔چونکہ وہ زمانہ قرطاس و قلم کا نہیں تھا بلکہ زبانی طور پر ہی علوم کی رسائی ہوتی تھی ، مجھے لگتا ہے کہیں نہ کہیں یہ سفر نامے ہی کہانیوں اور افسانوں کے جنم داتا ہیں ۔جب کوئی غیر ملکی آتا تھا تو وہ وہاں کی روداد سناتا تھا ، جسے لوگ دل جمعی سے سنتے تھے ۔یقینا کہانی بیان کرنے والا کہانی کو کچھ اس طریقے سے پیش کرتا ہوگا ، جس سے سامع کی دل میں وہاں جانے کی شدید خواہش پیدا ہوتی ہوگی اور دوسری طرف سامع کہانی سننے کے دوران اپنے تصورات میں ان جگہوں کا سفر بھی کرتا ہوگا۔
انسان کی پوری زندگی ایک سفر ہے جس کی شروعات اس کی پہلی سانس سے ہو جاتی ہے۔ مقام حیرت ہے کہ اس سفر کے کسی بھی مسافر کو معلوم نہیں کہ یہ سفر کہاں سے شروع ہوا ہے اور کہاں ختم ہوگا،بس وہ کاروان زندگی میں شامل ہوکر چلتا رہتا ہے۔
سفر نامے کیوں لکھے جاتے ہیں؟ تو اس کے کئی اسباب ہیں : اوّل تو یہ کہ سفر نامہ نگار کی یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ اس نے جن مناظر کو دیکھا ،جس طرح سفر کا آغاز کیا ،سفر کے دوران پیش آنے والے خوشی و غم، پُر لطف اور پر درد تمام واقعات و محسوسات کو بیان کرے تاکہ وہ لوگ جنہوں نے ویسے مناظر نہیں دیکھے ہیں، وہاں جانے کی سعی کریں اور ان تمام احساسات سے لطف اندوز ہوں ، جن کا ذکر وہ محرر سے سنتے ہیں۔سفر نامہ ایک بیانیہ صنف ہے اور سفر نامہ نگار کے اندر بیانیہ قدرت کا ہونا اس کی شرط اوّل ہے۔گرچہ سفر نامہ لکھنے کا کوئی بندھا ٹکا اصول یا اسلوب نہیں ہے ۔ ادبی سفر نامے میں بیانیہ پن کا ہونا ضروری ہوتا ہے جبکہ یہ بات سبھی طرح کے سفر ناموں کے لکھنے پر اصرار نہیں کرتی۔کچھ سفر نامے جو یادداشت کے طور پر ڈائری کی شکل میں بھی لکھے گئے ہیں۔سفر نامے کے اقسام کئی ہیں جو مختلف مقاصد کے تحت رقم کئے گئے ہیں۔ سب کا اپنا اسلوب ہے ! ہاں مگر مقصد بہرحال ایک ہی ہے اور وہ اپنے محسوسات اور مشاہدات کو دوسرے لوگوں تک پہنچانا۔ایک مسافر کا سفر نامہ اور ایک سیاح کا سفر نامہ ایک نہیں ہوسکتا ،ایک مؤرخ کا سفر نامہ ،ایک سائنسداں داں کا سفر نامہ ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔ ایک مہاجر کا سفر نامہ اور ایک سیر و تفریح کی روداد ایک نہیں ہوسکتی ،لہٰذا سفر ناموں کے لکھنے کے دوران سب سے اہم رول اس سفر کے مقاصد ہوتے ہیں۔واقعات کے بیان کا حسن اس محرر کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ سفر ناموں کا حسن بیان اور دلچسپ اسلوب ادبی سفر ناموں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
سیاح اور مسافر کے سفر کے فرق کوڈاکٹر وزیر آغا یوں بیان کرتے ہیں:
’’سیاح کا امتیازی وصف ہی یہ ہے کہ وہ اپنے گھر ، نام اور پیشے سے قطعاً منقطع اور بے نیاز ہوکر کسی غیر مادی شے کی طرح سبک اور لطیف ہوجاتا ہے اور بندھنوں اور حد بندیوں کو تج کر ایک آوارہ جھونکے کی سی آزادہ روی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ مسافر کی حالت تو اس پتنگے کی سی ہے جو مکڑی کے جالے میں قید ہو اور جالے کے ایک سرے سے دوسرے تک اور ایک منزل سے دوسری منزل تک جالے کی ڈور سے بندھا ہو ، بڑھتا چلا جائے لیکن سیاح مکڑی کے جالے سے یکسر آزاد ہے۔ گھر کی دیواروں اور منزل کے دھاگوں سے بھی اسے کوئی سروکار نہیں۔ سیاح تو اپنا راستہ خود بناتا ہے اور مسافر حرکت کرتے ہوئے بھی حرکت کی نفی کرتا ہے۔‘‘
(اوراق،جنوری -فروری ،۱۹۷۸،ص: ۲۷)
سفر نامے کے تعلق سے ڈاکٹر انور سدید یوں رقم طراز ہیں:
’’سفر نامہ ایک ایسی صنف ادب ہے ،جس میں مشاہدے کی قوت سب سے زیادہ روبہ عمل آتی ہے۔‘‘
سفر نامے (Travelogue)کی نوعیت چاہے جس قسم کی ہو ، اس کے افادی پہلوؤں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ سفر نامے محض تجربات و مشاہدات کا بیان ہی نہیں ہوتے بلکہ یہ اپنے اندر انسانی ارتقاء کی داستان بھی رکھتے ہیں۔شب و روز بدلتے زندگی کا معیار بھی متعین کرتے ہیں ۔فکر و شعور کو وسعت کے ساتھ متحرک رہنے کا پیغام دیتے ہیں ، نیز نئی راہوں کے سفر پر اکساتے بھی ہیں،ان سب کے ساتھ ہماری معلومات میں اضافے کا باعث بھی ہوتے ہیں۔
سفر نامے کا آغاز تو زمانۂ قدیم سے ہے ۔ گرچہ وہ تحریری نہ ہو کر زبانی ہوا کرتے تھے۔ اردو میں سفر نامے کا آغاز اٹھارویں صدی کے شروع میں ہوا اور یوسف خان کمبل پوش کا سفر نامہ ۲۹۷؍ صفحات پر مشتمل ’عجائبات فرنگ‘ جو ’تاریخ یوسفی ‘کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کو پہلا سفر نامہ تسلیم کیا جاتا ہے۔اس کی اشاعت ۱۸۳۷ء میں ہوئی۔اس کے بعد چند اہم سفر ناموں میں فدا حسین کا سفر نامہ ’تاریخ افغانستان‘ (۱۸۵۲ء) ،مرزا ابو طالب کا ’سفر فرنگ‘ ،مولوی مسیح الدین علوی کا’سفر نامہ لندن‘،سرسید احمد کا’مسافران لندن‘، مرزا نثار علی بیگ کا ’سفر یورپ‘ ،علامہ شبلی نعمانی کا’سفر نامۂ روم و مصر و شام‘ اور بھی دیگر بہت سے اہم سفر ناموں کی اشاعت ہوئیں۔اس سفر نامے کا سفر صدیوں کا سفر کرتا ہوا آج تک رواں دواں ہے۔سفر نامے کے اس سفر سے الگ ہٹ کر ہم سفر حج کے تعلق سے بحث کریں گے۔
عربی اور فارسی میں سفر حج کے سفر ناموں نے اردو سفر نامۂ حج کو راہ دی۔
حاجی محمد منصب علی خان کا سفرنامہ’ماہ مغرب‘ ۱۸۱۷ء کو پہلا اردو سفر نام? حج تسلیم کیا جاتا ہے۔گرچہ پہلا سفر نامۂ حج حکیم ناصر خسرو بلخی نے۱۰۵۲ء میں رقم کی۔ اردو میں حج نامہ کی تعداد بہت کثیر نہیں تو بہت کم بھی نہیں ہے ۔چونکہ حج نامہ کے موضوعات تقریباً ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ،لہٰذا موضوعات کی مماثلت نے اس صنف کو وہ مقام نہیں دلا پائی جس کی یہ حقدار ہے اور سنجیدگی سے اس کی طرف غور بھی نہیں کیا گیا۔بیسویں صدی میں حج نامے کے منظر نامے پر اگر نظر ڈالئے تو اسلوب میں نمایاں فرق دیکھنے کو ملتا ہے۔حج نامے کے موضوعات میں نیا پن کیا ہوسکتا ہے مگر جن اسفار کا ذکر ہم بیسویں صدی میں کرتے ہیں ، ان کی طرز نگارش یقینا بدلے ہیں۔سفر کی صعوبتیں اب نہیں رہیں،اب سائنس کی لاتعداد ایجادات نے سفر کو آسان اور پر لطف بنا دیا ہے۔گھر سے دوری اپنوں سے دوری کا احساس سمٹ گیا ہے ۔ اب قلبی کیفیات کی شدت جو اپنوں کے تعلق سے ہوتے تھے، وہ نہیں رہیں۔تکنالوجی نے سات سمندر پار بیٹھے شخص کو گھر کے ڈرائنگ روم میں لا بٹھا یا ہے ،پھر بھی ان مناظر کو اور سفر میں درپیش آنے والے تمام تر واقعات ،حج کے رسومات اور ان کی ادائیگی دائرہ تحریر میں لائے جاتے رہے ہیں اور لائے جاتے رہیں گے اور ان سفر ناموں سے ادب کا ذخیرہ بڑھتا رہے گا۔
سفر نامہ نگاری کی یہ سعی اس وقت اور معنی خیز بن جاتی ہے ،جب یہ کسی ایسی جگہ کا بیان ہو، جس کا تعلق مذہبی مقام سے ہو۔عام طور سے تمام سفر سے با لا تر سفر حج ہوتا ہے اور بلا جھجھک یہ تسلیم کل ہے۔ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ حج و عمرہ سعادت پاتے ہیں ۔یہ کسی صاحب ایمان کی سب سے بڑی آرزو کا بر ہونا ہے اور ایک صاحب ایمان کی پوری زندگی کا حاصل کیونکہ دنیاوی معاملات میں ہم جو بھی حاصل کرتے ہیں اسے دنیا کا حاصل تو کہہ سکتے ہیں، زندگی کا حاصلِ قطعہ نہیں،ہاں ! مگر خانۂ خدا کی زیارت ، زیارت کے دوران گزارے ایک ایک پل کو، ان گلیوں کو کہ جن پر رسول اکرمؐ کے مبارک قدم پڑے ،ان مناظر کو کہ جن کو دیکھنے کی تمنا لئے ایک غیر ملک سے کوئی عاشق چلا ہو اور جب اس کی آنکھ کھلی تو سامنے خانۂ کعبہ ہو، اب اس لمحے کو محسوس کریں،دیکھیں ،آپ کے سامنے ۔۔۔۔۔جی آپ کے سامنے۔۔۔تمام وسعتوں کے خالق کا گھر اوروہ بھی بالکل سامنے ،بس دیکھئے۔اس دید کے بعد وہ تمام فرائض حج کا انجام دینا اور دنیا کی مکر و فریب سے دور گزارے شب وروز کو حاصل زیست کہہ سکتے ہیں اور اس کے زندگی کا حاصل ہونے میں کوئی پش و پیش نہیں۔
حج کے سفر نامے لکھنے کا مقصد نئے لوگوں کی رہنمائی بھی ہوتی ہے۔ بطور گائیڈ اس کا مطالعہ بہت سوالوں کے جواب کے ساتھ بہت ساری معلومات بھی فراہم کرتا ہے، نیز قاری کے دل میں سفر حج کی تمنا پیدا کرتا ہے۔اردو ادب میں حج کے سفر نامے وافر مقدار میں موجود ہیں اور آئے دن ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔سفر نامہ غیر افسانوی صنف ہے ، لہٰذا چشم دید واقعات اور فطری واقعات کا ذکر کہ جن کا تعلق صرف حقیقت سے ہو ، صفحۂ قرطاس پر ابھارے جاتے ہیں۔ان جذبات و کیفیات کا اظہار کبھی اتنا سپاٹ اور کھردرا ہوتا ہے کہ بیان کی لذت سے قاری کا لطف اٹھانا ممکن نہیں ہوتا۔ایسے بھی سفر نامے آپ کی بالغ نظروں سے گزرے ہوں گے ،جن کو دیکھ کر ڈائری رائیٹنگ کا احساس ہوتا ہے۔مطالعے کے دوران ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم گائیڈ لائنس پڑھ رہے ہیں اور کوئی ہمیں Do’s & Don’ts سمجھا رہا ہے۔قاری پھر قاری نہیں رہتا، اس کے پڑھنے کی دلچسپی جاتی رہتی ہے اور وہ کلاس روم میں بیٹھا ایک طالب علم ہوجاتا ہے جو غیر ارادی طور پر ان باتوں کو ذہن کے گوشوں میں اتارنے کی فضول کوشش کرتا ہے۔ایسی صورت حا ل میں سفر نامے کا لکھنا تو ہو جاتا ہے پر اس کی مقصدیت اور بطور صنف ،اس کی شناخت کھو جاتی ہے۔ہدایات و اشارات کا معلمانہ اظہار کو سفر نامہ کہنے میں کراہیت محسوس ہوتی ہے۔
حاجیمحمد علی حسین شائق جو بنیادی طور پر ایک افسانہ نگار ہیں ،گذشتہ سال انہوں نے حج کی سعادت حاصل کی اور چونکہ وہ نثری ادب کے شہسوار ہیں ۔ انہوں نے اپنے تجربات و مشاہدات کو پیش کرنے کا ارادہ کیا ۔یہ ارادہ انہوں نے حج سے واپسی کے بعد کیا ، اس لئے اس سفر نامے کی خصوصیات میں ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ انہوں نے تمام واقعات سے مغلوب ہوکر اس سفر کو قلمبند کرنے کا تہیہ کیا۔شائق کا یہ سفر نامہ اپنی انفرادیت رکھتا ہے اور ان معنوں میں رکھتا ہے کہ ڈاکٹر شائق نے ایک غیر افسانوی صنف کو افسانوی صنف کی ہیئت اور اسلوب عنایت کی ہے۔تخلیق کار نئی چیزیں تخلیق کرنے کی کاوش کرتا رہتا ہے، لہٰذا انہوں نے عام روش سے ہٹ کر اس سفر نامے کو افسانوی سفر نامہ کی طرح پیش کیا ہے۔ ایسا کرنا ان کے منفرد تخلیقی ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے اس سفر نامے کو افسانوی پیرائے میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس بات کا اندازہ ہمیں ان کے سفر نامے کے عنوان ’حاصلِ زیست‘ سے ہی ہوتا ہے۔ اپنے سفر نامے کے شروعاتی حصے میں ان کا ایمانی جذبہ کارفرما دِکھتا ہے۔ لوگوں کا ملنا اور ان سے اپنے اپنے لئے دعائیں کرنے کی گزارش کرنے سے لے کر آدھی رات کی خاموشی میں لبیک کی صدائیں بلند ہونا ،پھر بڑے بیٹے کا ویڈیو کالنگ پر بات کرنا ۔۔۔۔یہ تمام باتیں اس سفر کی شروعات ہیں ، جو سفرنامہ نگار نے اپنے کمال فن سے افسانوی روپ دیا ہے۔ جدّہ اور عرفات کے بیانات میں قلبی کیفیات کا تانا بانا اور ساتھ میں منظر نگاری کا سماں باندھنا، سفر نامے کو منفرد بناتا ہے۔کعبہ شریف کے سامنے مچلتی خواہشوں کو چھوٹے سے دل میں قید کرنے کی سعی اور شکر کے جذبات ، سفر نامے کی قرأت کے دوران قاری کو وہی احساس دلاتا ہے، جیسا کہ سفر نامہ نگار کو ہوا تھا۔چند سطریں ملاحظہ کیجیے:
’’ دل بے چین ہو رہا تھا کہ جلدی سے کعبہ شریف کا دیدار ہو۔ اب تک کی زندگی میں نماز میںمنہ کعبہ شریف کی طرف کہہ کر نماز پڑھتا رہا تھا ،آج کعبہ کے روبرو ہونے جا رہا تھا۔ ذہن و دماغ کی عجیب سی کیفیت تھی۔ خوشی کے مارے آنسو آنکھوں کے کنارے اپنا ڈیرا جما چکے تھے۔ بدن میں عجیب طرح کی سنسناہٹ پیدا ہو رہی تھی۔ دل ہی دل میں خدا کا لاکھ نہیں کروڑوں شکر ادا کررہا تھا کہ وہ مجھ جیسے گنہگار بندے کو کتنا پسند کرتا ہے۔ فوراً دل میں خیال آیا کہ اللہ نے قرآن پاک میں خود فرمایا ہے کہ ’’تم میری رحمت سے مایوس نہ ہو۔‘‘ قدم تیزی کے ساتھ بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ ایک جگہ پہنچ کر دونوں اللہ کے بندے رک گئے اورکہا کہ :’’یہاں سے آپ لوگ جائیں ۔ ‘‘میں سوچ میں پڑ گیاکہ معاملہ کیا ہے؟ کہا: ’’آپ لوگ بھی چلئے۔‘‘
انہوں نے کہا : ’’اس جگہ سے آگے ہم لوگ بھی نہیں جا سکتے۔ اس کے آگے صرف وہی لوگ جا سکتے ہیں جو احرام میں ہوں گے۔‘‘ پھر میں آگے بڑھا، پیر سے چپل نکال کر تھیلے میں رکھا اور آگے بڑھا۔ ابھی مشکل سے ۲۵؍ سے ۳۰؍ قدم ہی بڑھا ہوگا اور سوچ رہا تھا کہ سیڑھی آئے گی ،پھر نیچے اتریں گے ۔نظریں نیچی رہیں گی ،پھر پہلی نظر کعبہ پر پڑے گی لیکن جیسے ہی آگے بڑھا نظریںاٹھیں اور کعبہ شریف سامنے تھا۔ بدن کانپنے لگا۔ رونگنے کھڑے ہوگئے ۔ جلدی جلدی وظائف پڑھنے لگا۔‘‘
سفر کے دوران ارتقاء کی منزلوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مصنف نے اپنی بیانیہ قدرت کا برملا اظہار کیا ہے۔سفری روداد کو پیش کرنے میں بیانہ قوت درکار ہوتی ہے اور اس کی کمی ہونے کی وجہ سے قاری عدم دلچسپی کا شکار ہوجاتا ہے۔موصوف نے اس نکتے کو ذہن میں رکھتے ہوئے واقعات کے بیان میں تسلسل اور حسن بیان سے کام لیا ہے۔مصنف کا خدا کے گھر سے واپسی پر بار بار پلٹ کر دیکھنا ،آنکھیں نم کردیتا ہے۔مصنف جن یادوں کو اپنے دل میں بسائے ہیں دراصل یہی وہ شئے ہے ، جو دل میں بسانے کی اشیاء ہیں۔ ہر صاحب ایمان کے لئے یہ کتاب کسی تحفے سے کم نہیں۔
ڈاکٹر شائق کی اس سفر نامے کی اشاعت سے مزید لوگوں کو حج بیت اللہ پر جانے کے شعلۂ اشتیاق کو ضرور ہوا ملے گی۔ سفر نامۂ حج کے مو ضوعات تقریباً ایک سے ہی ہوتے ہیں مگر مصنف نے جس طرح اپنی عقیدت و ایمان کے جذبے کی روشنی میں خانۂ خدا اور روضۂ رسوؐل کی زیارت کا منظر قلمبند کرنے کی منفرد کوشش کی ہے۔ وہ اس میں کامیاب ہوئے ہیں اور اس سفر نامے کی انفرادیت بھی یہی ہے۔شائق کا سفر نامۂ حج کا منفرد اور آسان لب ولہجہ اس سفر نامے کو حسن زینت بخشتا ہے۔ مصنف نے سفر نامے کو مختلف عناوین میں تقسیم کرکے قاری کو مطالعے میں آسانی اور موضوعات کی فہمی میں سہولت پیدا کر دی ہے۔مقدس مقاموں کے بیانات کے دوران کچھ تاریخی معلومات بھی فراہم کی ہیں، جیسے جنگ احد کے تعلق سے،عرفات کے حوالے سے ،جدہ کے حوالے سے۔حضرت عمر کی شہادت کے متعلق ہندہ کی شرمناک اور قابل مذمت حرکت وغیرہ ۔۔۔۔گرچہ مصنف نے صرف حج کے دوران پیش آنے والے واقعات کو ہی قلمبند نہیں کیا بلکہ جہاں ضرورت محسوس کی ہے ، وہاں اس واقعے اور ان جگہوں سے جڑی حقائق کو بھی حیطۂ تحریر میں لایا ہے تاکہ ان مقدس مقامات سے واقفیت ہو سکے۔اس ضمن میں چند اقتباسات درج کررہا ہوں، جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں:
’’مسجد قبلتین:آدھ گھنٹہ غزوۂ خندق میں رکنے کے بعد بس آگے بڑھی اور مسجد قبلتین کے پاس رکی۔ مسجد قبلتین بھی بہت ہی شاندار مسجد تھی اسی مسجد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز اد اکرتے ہوئے قبلہ بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف اللہ کے حکم سے بدل دیا۔ اس مسجد میں بھی دو رکعت نفل نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔‘‘
———
’’غزوۂ خندق کے پاس:بس آگے بڑھتی جا رہی تھی ۔ ایک مقام پر رکی، گائیڈ نے بتایا کہ یہاں خندق کی جنگ لڑی گئی تھی۔ یہ وہی غزوۂ خندق ہے جو اسلام کی تیسری بڑی جنگ تھی۔ کفار حق سے معاملہ کے لیے سلمان فارسی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیاکہ اگر خندق کھوددیاجائے تو دشمن اس جانب سے حملہ نہیں کر پائیں گے۔
حضورؐ نے ان کے مشورے کومانا اور لگ بھگ ۵۰۰ صحابہ کرام نے مل کر دس فٹ گہرا اور چوڑا خندق کھودا۔ اس دوران بہت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں غذا کی قلت تھی۔ صحابۂ کرام نے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر خندق کھودا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھ رکھے تھے۔وہاں مسجد عمر، مسجد علی اور مسجد سلمان فارسی ہے ،جو پہاڑ پر کچھ اونچائی پر ہے۔ یہ مسجدیں کیا ہیں، یہ عمر، علی اور سلمان فارسی کے اس جگہ مکانات تھے۔‘‘
———
کتاب مفید ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس سفر نامے کے بعد دیدار کعبہ کے اشتیاق کا شعلہ دلوں میں ضرور بھڑکے گا اور شائق صاحب کا منشا بھی یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ حج کے فرائض انجام دے سکیں۔اسلوب کی روانی اور افسانے کی فضا بندی کے عناصر اس کتاب کو انفرادیت عطا کرتی ہے۔کتاب کے آخر میں چند یادگار تصویروں کا ایک مختصر البم ہے جو بتاتا ہے کہ حج کی سعادت پانا کیا چیز ہے۔ایک مسلمان کے لئے حج کیا ہے ، یہ تو وہی بتا سکتا ہے کہ جس نے کبھی اپنی کم مایہ آنکھوں سے رحمت کے نور برستے دیکھے ہوں۔یہ وہ آرزو ہے کہ جس کے بعد کوئی آرزو باقی نہیں رہتی۔زندگی کا مفہوم بارگاہ ایزدی میں کھڑے ہوکر سمجھ میں آتا ہے۔ساری بلندیاں جہاں سجدہ ریز ہوتی ہیں، وہ یہی خدا کا گھر ہے جس کا فیصلہ یہ ہے کہ ہر انسان برابر ہے کوئی بڑا یا چھوٹا نہیں اور سب سے بڑی ذات صرف اور صرف اس کی ہے۔مجھے تلوک چند محروم کی ایک رباعی یاد آرہی ہے:
دروازے پہ تیرے اک جہاں جھکتا ہے
اونچے اونچوں کا سر یہاں جھکتا ہے
کیوں کر نہ جھکے زمیں میں وقعت کیا ہے
با عجز و نیاز آسماں جھکتا ہے
پیش نظر سفر نامۂ حج کے افسانوی اسلوب نے اس سفر نامے کو منفرد بنا دیا ہے۔اس بات کا قوی یقین ہے کہ ڈاکٹر شائق کا یہ سفر نامۂ حج اردو ادب کے سفر ناموں میں اپنا مقام بنا لے گا ۔ ایسا اس لئے کہ اس سفر نامے میں قوتِ بیان کے کمالِ حسن کے ساتھ عقیدت و محبت کا والہانہ اظہار اور اس اظہار میں وارفتگی، اس سفر نامے کے اختصاص و انفراد ہیں۔ذرّوں کو کہکشاں بنانے والے اس نقاش ازل سے دعا گو ہوں کہ وہ اس سفر نامے کے مقدر میں بھی تابندگی لکھ دے۔ آمین!
٭٭٭٭٭
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
ماشاء االلہ سر۔۔۔۔بہت خوصورت لکھے ہیں آپ