Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      مئی 16, 2023

      کتاب کی بات

      مئی 1, 2023

      کتاب کی بات

      مارچ 27, 2023

      کتاب کی بات

      مارچ 25, 2023

      کتاب کی بات

      مارچ 25, 2023

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      اردو ادب میں تحقیق کا بدلتا منظرنامہ –…

      مئی 28, 2023

      تحقیق و تنقید

      تنقید کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے؟ –…

      مئی 26, 2023

      تحقیق و تنقید

      زبان ثقافت اور ادبی پہلو – مہرین جہانگیر

      مئی 1, 2023

      تحقیق و تنقید

      ساختیات پس ساختیات بنام مشرقی شعریات – ڈاکٹرمعید…

      جولائی 15, 2022

      تحقیق و تنقید

      اسلوبیاتِ میر:گوپی چند نارنگ – پروفیسر سرورالہدیٰ

      جون 16, 2022

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      روزے کی طبی وسماجی جہتیں – مفتی محمد…

      اپریل 15, 2023

      اسلامیات

      تقسیم زکوٰۃ :چند گذارشات – مفتی محمد ثناء الہدیٰ…

      اپریل 11, 2023

      اسلامیات

      زکوۃ کے ٹکڑے اور ہم – عیان ریحان

      اپریل 11, 2023

      اسلامیات

      اسلامی ادب کی خصوصیات -طفیل احمد مصباحی 

      اپریل 6, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل All
      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادب کا مستقبل

      نئی صبح – شیبا کوثر 

      جنوری 1, 2023

      ادب کا مستقبل

      غزل – دلشاد دل سکندر پوری

      دسمبر 26, 2022

      ادب کا مستقبل

      تحریک آزادی میں اردو ادب کا کردار :…

      اگست 16, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث اور نوشاد منظر- ڈاکٹر عمیر منظر

      ستمبر 10, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      خطرہ میں ڈال کر کہتے ہیں کہ خطرہ…

      مئی 13, 2022

      تراجم

      1934کے نیوریمبرگ میں ایک جوان ہوتی ہوئی لڑکی…

      مارچ 28, 2023

      تراجم

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      تراجم

       یو م آزادی/ راجندر یادو – مترجم: سید کاشف 

      اگست 15, 2022

      تراجم

      مسئلہ،تُم ہو !/( چارلس بکؤسکی ) – نُودان…

      جولائی 25, 2022

      تعلیم

      چیٹ جی پی ٹی (Chat GPT) اور تعلیم…

      اپریل 5, 2023

      تعلیم

      قومی یوم تعلیم اورمولانا ابوالکلام آزاد (جدید تعلیم…

      نومبر 11, 2022

      تعلیم

      فن لینڈ کا تعلیمی نظام (تعلیمی لحاظ سے…

      اگست 29, 2022

      تعلیم

      تغیر پذیر ہندوستانی سماج اور مسلمانوں کے تعلیمی…

      اگست 15, 2022

      خبر نامہ

      ہندوستان میں فارسی زبان وادب کا مستقبل تابناک…

      مئی 28, 2023

      خبر نامہ

      طلبا کو سرگرم رکھنے کے لیے مقابلے بہت…

      مئی 27, 2023

      خبر نامہ

      ادبی تنظیم گفتگو نے پریاگ راج میں ادب…

      مئی 27, 2023

      خبر نامہ

      ذکی طارق بارہ بنکوی کو ادبی اور صحافتی…

      مئی 22, 2023

      خصوصی مضامین

      سال بیلو Saul Bellow – پروفیسر سرور الہدیٰ

      مئی 13, 2023

      خصوصی مضامین

      اردو کے اداروں کا قومی سطح پر بہ…

      مئی 8, 2023

      خصوصی مضامین

      منارہ علم و ادب شعبہ اردو علی گڑھ…

      مئی 5, 2023

      خصوصی مضامین

      تاریخ ، یادداشت اور تخلیق(کلیم عاجز کی شاعری…

      اپریل 29, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      اپریل فول – اسلم آزاد شمسی 

      مارچ 31, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      جہیز ایک لعنت اور ائمہ مساجد کی ذمہ…

      جنوری 14, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      بھارت جوڑو یاترا کے ایک سو دن مکمّل:…

      دسمبر 18, 2022

      سماجی اور سیاسی مضامین

      بدگمانی سے بچیں اور یوں نہ کسی کو…

      دسمبر 2, 2022

      فکر و عمل

      اور سایہ دار درخت کٹ گیا – منہاج الدین…

      فروری 22, 2022

      فکر و عمل

      ابّو جان (شیخ الحدیث مولانا محمد الیاس بارہ…

      فروری 22, 2022

      فکر و عمل

       مولانا عتیق الرحمن سنبھلی – مفتی محمد ثناء الہدیٰ…

      فروری 15, 2022

      فکر و عمل

      ابوذر غفاری ؓ- الطاف جمیل آفاقی

      جنوری 19, 2022

      متفرقات

      ہندوستان میں فارسی زبان وادب کا مستقبل تابناک…

      مئی 28, 2023

      متفرقات

      طلبا کو سرگرم رکھنے کے لیے مقابلے بہت…

      مئی 27, 2023

      متفرقات

      ادبی تنظیم گفتگو نے پریاگ راج میں ادب…

      مئی 27, 2023

      متفرقات

      ذکی طارق بارہ بنکوی کو ادبی اور صحافتی…

      مئی 22, 2023

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
اردو ادب میں نعت گوئی – ڈاکٹر داؤد...
آخر شب کے ہم سفر میں منعکس مشترکہ...
تحقیقی خاکہ نگاری – نثار علی بھٹی
تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین
غالبؔ کی قصیدہ گوئی: ایک تنقیدی مطالعہ –...
آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری (سلور کنگ...
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      مئی 16, 2023

      کتاب کی بات

      مئی 1, 2023

      کتاب کی بات

      مارچ 27, 2023

      کتاب کی بات

      مارچ 25, 2023

      کتاب کی بات

      مارچ 25, 2023

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      اردو ادب میں تحقیق کا بدلتا منظرنامہ –…

      مئی 28, 2023

      تحقیق و تنقید

      تنقید کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے؟ –…

      مئی 26, 2023

      تحقیق و تنقید

      زبان ثقافت اور ادبی پہلو – مہرین جہانگیر

      مئی 1, 2023

      تحقیق و تنقید

      ساختیات پس ساختیات بنام مشرقی شعریات – ڈاکٹرمعید…

      جولائی 15, 2022

      تحقیق و تنقید

      اسلوبیاتِ میر:گوپی چند نارنگ – پروفیسر سرورالہدیٰ

      جون 16, 2022

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      روزے کی طبی وسماجی جہتیں – مفتی محمد…

      اپریل 15, 2023

      اسلامیات

      تقسیم زکوٰۃ :چند گذارشات – مفتی محمد ثناء الہدیٰ…

      اپریل 11, 2023

      اسلامیات

      زکوۃ کے ٹکڑے اور ہم – عیان ریحان

      اپریل 11, 2023

      اسلامیات

      اسلامی ادب کی خصوصیات -طفیل احمد مصباحی 

      اپریل 6, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل All
      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادب کا مستقبل

      نئی صبح – شیبا کوثر 

      جنوری 1, 2023

      ادب کا مستقبل

      غزل – دلشاد دل سکندر پوری

      دسمبر 26, 2022

      ادب کا مستقبل

      تحریک آزادی میں اردو ادب کا کردار :…

      اگست 16, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث اور نوشاد منظر- ڈاکٹر عمیر منظر

      ستمبر 10, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      خطرہ میں ڈال کر کہتے ہیں کہ خطرہ…

      مئی 13, 2022

      تراجم

      1934کے نیوریمبرگ میں ایک جوان ہوتی ہوئی لڑکی…

      مارچ 28, 2023

      تراجم

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      تراجم

       یو م آزادی/ راجندر یادو – مترجم: سید کاشف 

      اگست 15, 2022

      تراجم

      مسئلہ،تُم ہو !/( چارلس بکؤسکی ) – نُودان…

      جولائی 25, 2022

      تعلیم

      چیٹ جی پی ٹی (Chat GPT) اور تعلیم…

      اپریل 5, 2023

      تعلیم

      قومی یوم تعلیم اورمولانا ابوالکلام آزاد (جدید تعلیم…

      نومبر 11, 2022

      تعلیم

      فن لینڈ کا تعلیمی نظام (تعلیمی لحاظ سے…

      اگست 29, 2022

      تعلیم

      تغیر پذیر ہندوستانی سماج اور مسلمانوں کے تعلیمی…

      اگست 15, 2022

      خبر نامہ

      ہندوستان میں فارسی زبان وادب کا مستقبل تابناک…

      مئی 28, 2023

      خبر نامہ

      طلبا کو سرگرم رکھنے کے لیے مقابلے بہت…

      مئی 27, 2023

      خبر نامہ

      ادبی تنظیم گفتگو نے پریاگ راج میں ادب…

      مئی 27, 2023

      خبر نامہ

      ذکی طارق بارہ بنکوی کو ادبی اور صحافتی…

      مئی 22, 2023

      خصوصی مضامین

      سال بیلو Saul Bellow – پروفیسر سرور الہدیٰ

      مئی 13, 2023

      خصوصی مضامین

      اردو کے اداروں کا قومی سطح پر بہ…

      مئی 8, 2023

      خصوصی مضامین

      منارہ علم و ادب شعبہ اردو علی گڑھ…

      مئی 5, 2023

      خصوصی مضامین

      تاریخ ، یادداشت اور تخلیق(کلیم عاجز کی شاعری…

      اپریل 29, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      اپریل فول – اسلم آزاد شمسی 

      مارچ 31, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      جہیز ایک لعنت اور ائمہ مساجد کی ذمہ…

      جنوری 14, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      بھارت جوڑو یاترا کے ایک سو دن مکمّل:…

      دسمبر 18, 2022

      سماجی اور سیاسی مضامین

      بدگمانی سے بچیں اور یوں نہ کسی کو…

      دسمبر 2, 2022

      فکر و عمل

      اور سایہ دار درخت کٹ گیا – منہاج الدین…

      فروری 22, 2022

      فکر و عمل

      ابّو جان (شیخ الحدیث مولانا محمد الیاس بارہ…

      فروری 22, 2022

      فکر و عمل

       مولانا عتیق الرحمن سنبھلی – مفتی محمد ثناء الہدیٰ…

      فروری 15, 2022

      فکر و عمل

      ابوذر غفاری ؓ- الطاف جمیل آفاقی

      جنوری 19, 2022

      متفرقات

      ہندوستان میں فارسی زبان وادب کا مستقبل تابناک…

      مئی 28, 2023

      متفرقات

      طلبا کو سرگرم رکھنے کے لیے مقابلے بہت…

      مئی 27, 2023

      متفرقات

      ادبی تنظیم گفتگو نے پریاگ راج میں ادب…

      مئی 27, 2023

      متفرقات

      ذکی طارق بارہ بنکوی کو ادبی اور صحافتی…

      مئی 22, 2023

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
کتاب کی بات

by adbimiras مئی 16, 2023
by adbimiras مئی 16, 2023 1 comment

 

حج نامہ’حاصلِ زیست‘ کا انفراد و اختصاص  – نــسیــم اشــک

 

 

نــسیــم اشــک

ہولڈنگ نمبر : 10/9،گلی نمبر:3، جگتدل ،

24 ؍پرگنہ ،مغربی بنگال، موبائل: 9339966398

 

 

سفر نامہ ایک غیر افسانوی صنفِ ادب ہے۔دنیا کے سبھی زبانوں کے ادب میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔اردو ادب میں بھی اس کا ایک ذخیرہ موجود ہے۔یہ سفر نامہ نگار کے محسوسات ، تجربات و مشاہدات اور تمنائے اظہار کیفیات قلب ہے۔مختلف زبانوں کے ادب میں سفر نامے ملتے ہیں۔میرے نزدیک سفر نامے کی حیثیت دستاویزی ہوتی ہے۔آپ کے ذہن میں تاریخ کے وہ اسباق ضرور محفوظ ہوں گے، جن میں ہم نے سفر ناموں کے تعلق سے پڑھا تھا اور کئی تاریخی شخصیتوں کے سفر نامے کے متعلق جاننے کا موقع ملا تھا سفر نامے روداد زمانہ بھی ہوتے ہیں ان سفر ناموں میں کسی ملک،قوم کی معاشیات،تہذیب،رسم ورواج کے ساتھ ساتھ تاریخی حقائق اور جغرافیائی بناوٹ کا علم ہوتا ہے۔ سفر نامے چشم دید گواہ ہوتے ہیں ،جن پر تاریخیں لکھی جاتی ہیں۔

انسانی زندگی کا سفر روز ازل سے اس زمین پر جاری ہے۔ From Unknown to Known کی للک اور طرزِ حیات میں تبدیلی کی خواہش نے ہمیشہ اس کے حوصلے کو تقویت دی ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ مسلّم ہے کہ بغیر سفر انسان لاعلم رہتا ہے ۔ یہ سفر ہمیں زندگی کی ان حقیقتوں سے آشنا کراتا ہے ،جن سے ہم نا واقف ہوتے ہیں۔ادبی سفر نامے،تاریخی سفر نامے، سیاحتی سفر نامے،سیاسی سفر نامے ، علمی سفر نامے وغیرہ کے موضوعات سے سفر نامے کل بھی پڑھے جاتے تھے اور آج بھی دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ بعض دفعہ بطور حوالہ پیش بھی کئے جاتے ہیں۔ سفر انسان کی زندگی کا اہم جز ہے ۔ بغیر سفر انسانی زندگی میں وسعت پیدا نہیں ہوتی۔یہ سفر ایک انسان کے اندر جاننے کی للک تو پیدا کرتا ہی ہے ۔ اس کے فکر و نظر کے زاوئے بھی بدلنے میں معاون ہوتا ہے۔لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس قوم میں سفر کا رحجان نہیں ہوتا ، وہ بہت جلد اپنا اقتدار ،وقار اور اہمیت کھو دیتی ہے۔زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لئے قدم بڑھانا ہی پڑتا ہے ،ورنہ دنیا کی بدلتی تہذیبوں سے نا آشنائی انسان کی ذہنی و عملی وسعت پر ایسا قدغن لگاتی ہے کہ دوبارہ زمانے کی رفتار کو پکڑنے میں زمانے لگ جاتے ہیں۔ قول نبی بھی ہے کہ علم سیکھنے کے لئے چین بھی جانا پڑے تو جاؤ ۔ گویا یہاں صاف صاف اشارہ ہے کہ دینی و دنیاوی ترقی حاصل کرنے کے لئے سفر کرنا لازم ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ ایک ملک کی تہذیب و ثقافت، علم و فنون دوسرے ملکوں تک پہنچانے میں اسی سفر نے اہم رول ادا کیا ہے۔سفر ترقی کی روح ہے۔دوسرے دیار سے جب کوئی مسافر آتا ہے تو اپنے ساتھ صرف وہاں کی یادیں ہی نہیں لاتا، وہاں سے ہر وہ چیز لے آتا ہے جس کی ،اُس کی نظر میں اہمیت ہوتی ہے۔دور قدیم میں مسافران اپنے تجربات و مشاہدات لوگوں کو سناتے تھے اور لوگ ان کی باتوں کو گانٹھ باندھ لیتے تھے ۔چونکہ وہ زمانہ قرطاس و قلم کا نہیں تھا بلکہ زبانی طور پر ہی علوم کی رسائی ہوتی تھی ، مجھے لگتا ہے کہیں نہ کہیں یہ سفر نامے ہی کہانیوں اور افسانوں کے جنم داتا ہیں ۔جب کوئی غیر ملکی آتا تھا تو وہ وہاں کی روداد سناتا تھا ، جسے لوگ دل جمعی سے سنتے تھے ۔یقینا کہانی بیان کرنے والا کہانی کو کچھ اس طریقے سے پیش کرتا ہوگا ، جس سے سامع کی دل میں وہاں جانے کی شدید خواہش پیدا ہوتی ہوگی اور دوسری طرف سامع کہانی سننے کے دوران اپنے تصورات میں ان جگہوں کا سفر بھی کرتا ہوگا۔

انسان کی پوری زندگی ایک سفر ہے جس کی شروعات اس کی پہلی سانس سے ہو جاتی ہے۔ مقام حیرت ہے کہ اس سفر کے کسی بھی مسافر کو معلوم نہیں کہ یہ سفر کہاں سے شروع ہوا ہے اور کہاں ختم ہوگا،بس وہ کاروان زندگی میں شامل ہوکر چلتا رہتا ہے۔

سفر نامے کیوں لکھے جاتے ہیں؟ تو اس کے کئی اسباب ہیں : اوّل تو یہ کہ سفر نامہ نگار کی یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ اس نے جن مناظر کو دیکھا ،جس طرح سفر کا آغاز کیا ،سفر کے دوران پیش آنے والے خوشی و غم، پُر لطف اور پر درد تمام واقعات و محسوسات کو بیان کرے تاکہ وہ لوگ جنہوں نے ویسے مناظر نہیں دیکھے ہیں، وہاں جانے کی سعی کریں اور ان تمام احساسات سے لطف اندوز ہوں ، جن کا ذکر وہ محرر سے سنتے ہیں۔سفر نامہ ایک بیانیہ صنف ہے اور سفر نامہ نگار کے اندر بیانیہ قدرت کا ہونا اس کی شرط اوّل ہے۔گرچہ سفر نامہ لکھنے کا کوئی بندھا ٹکا اصول یا اسلوب نہیں ہے ۔ ادبی سفر نامے میں بیانیہ پن کا ہونا ضروری ہوتا ہے جبکہ یہ بات سبھی طرح کے سفر ناموں کے لکھنے پر اصرار نہیں کرتی۔کچھ سفر نامے جو یادداشت کے طور پر ڈائری کی شکل میں بھی لکھے گئے ہیں۔سفر نامے کے اقسام کئی ہیں جو مختلف مقاصد کے تحت رقم کئے گئے ہیں۔ سب کا اپنا اسلوب ہے ! ہاں مگر مقصد بہرحال ایک ہی ہے اور وہ اپنے محسوسات اور مشاہدات کو دوسرے لوگوں تک پہنچانا۔ایک مسافر کا سفر نامہ اور ایک سیاح کا سفر نامہ ایک نہیں ہوسکتا ،ایک مؤرخ کا سفر نامہ ،ایک سائنسداں داں کا سفر نامہ ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔ ایک مہاجر کا سفر نامہ اور ایک سیر و تفریح کی روداد ایک نہیں ہوسکتی ،لہٰذا سفر ناموں کے لکھنے کے دوران سب سے اہم رول اس سفر کے مقاصد ہوتے ہیں۔واقعات کے بیان کا حسن اس محرر کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ سفر ناموں کا حسن بیان اور دلچسپ اسلوب ادبی سفر ناموں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

سیاح اور مسافر کے سفر کے فرق کوڈاکٹر وزیر آغا یوں بیان کرتے ہیں:

’’سیاح کا امتیازی وصف ہی یہ ہے کہ وہ اپنے گھر ، نام اور پیشے سے قطعاً منقطع اور بے نیاز ہوکر کسی غیر مادی شے کی طرح سبک اور لطیف ہوجاتا ہے اور بندھنوں اور حد بندیوں کو تج کر ایک آوارہ جھونکے کی سی آزادہ روی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ مسافر کی حالت تو اس پتنگے کی سی ہے جو مکڑی کے جالے میں قید ہو اور جالے کے ایک سرے سے دوسرے تک اور ایک منزل سے دوسری منزل تک جالے کی ڈور سے بندھا ہو ، بڑھتا چلا جائے لیکن سیاح مکڑی کے جالے سے یکسر آزاد ہے۔ گھر کی دیواروں اور منزل کے دھاگوں سے بھی اسے کوئی سروکار نہیں۔ سیاح تو اپنا راستہ خود بناتا ہے اور مسافر حرکت کرتے ہوئے بھی حرکت کی نفی کرتا ہے۔‘‘

(اوراق،جنوری -فروری ،۱۹۷۸،ص: ۲۷)

سفر نامے کے تعلق سے ڈاکٹر انور سدید یوں رقم طراز ہیں:

’’سفر نامہ ایک ایسی صنف ادب ہے ،جس میں مشاہدے کی قوت سب سے زیادہ روبہ عمل آتی ہے۔‘‘

سفر نامے (Travelogue)کی نوعیت چاہے جس قسم کی ہو ، اس کے افادی پہلوؤں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ سفر نامے محض تجربات و مشاہدات کا بیان ہی نہیں ہوتے بلکہ یہ اپنے اندر انسانی ارتقاء کی داستان بھی رکھتے ہیں۔شب و روز بدلتے زندگی کا معیار بھی متعین کرتے ہیں ۔فکر و شعور کو وسعت کے ساتھ متحرک رہنے کا پیغام دیتے ہیں ، نیز نئی راہوں کے سفر پر اکساتے بھی ہیں،ان سب کے ساتھ ہماری معلومات میں اضافے کا باعث بھی ہوتے ہیں۔

سفر نامے کا آغاز تو زمانۂ قدیم سے ہے ۔ گرچہ وہ تحریری نہ ہو کر زبانی ہوا کرتے تھے۔ اردو میں سفر نامے کا آغاز اٹھارویں صدی کے شروع میں ہوا اور یوسف خان کمبل پوش کا سفر نامہ ۲۹۷؍ صفحات پر مشتمل ’عجائبات فرنگ‘ جو ’تاریخ یوسفی ‘کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کو پہلا سفر نامہ تسلیم کیا جاتا ہے۔اس کی اشاعت ۱۸۳۷ء میں ہوئی۔اس کے بعد چند اہم سفر ناموں میں فدا حسین کا سفر نامہ ’تاریخ افغانستان‘ (۱۸۵۲ء) ،مرزا ابو طالب کا ’سفر فرنگ‘ ،مولوی مسیح الدین علوی کا’سفر نامہ لندن‘،سرسید احمد کا’مسافران لندن‘، مرزا نثار علی بیگ کا ’سفر یورپ‘ ،علامہ شبلی نعمانی کا’سفر نامۂ روم و مصر و شام‘ اور بھی دیگر بہت سے اہم سفر ناموں کی اشاعت ہوئیں۔اس سفر نامے کا سفر صدیوں کا سفر کرتا ہوا آج تک رواں دواں ہے۔سفر نامے کے اس سفر سے الگ ہٹ کر ہم سفر حج کے تعلق سے بحث کریں گے۔

عربی اور فارسی میں سفر حج کے سفر ناموں نے اردو سفر نامۂ حج کو راہ دی۔

حاجی محمد منصب علی خان کا سفرنامہ’ماہ مغرب‘ ۱۸۱۷ء کو پہلا اردو سفر نام? حج تسلیم کیا جاتا ہے۔گرچہ پہلا سفر نامۂ حج حکیم ناصر خسرو بلخی نے۱۰۵۲ء میں رقم کی۔ اردو میں حج نامہ کی تعداد بہت کثیر نہیں تو بہت کم بھی نہیں ہے ۔چونکہ حج نامہ کے موضوعات تقریباً ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ،لہٰذا موضوعات کی مماثلت نے اس صنف کو وہ مقام نہیں دلا پائی جس کی یہ حقدار ہے اور سنجیدگی سے اس کی طرف غور بھی نہیں کیا گیا۔بیسویں صدی میں حج نامے کے منظر نامے پر اگر نظر ڈالئے تو اسلوب میں نمایاں فرق دیکھنے کو ملتا ہے۔حج نامے کے موضوعات میں نیا پن کیا ہوسکتا ہے مگر جن اسفار کا ذکر ہم بیسویں صدی میں کرتے ہیں ، ان کی طرز نگارش یقینا بدلے ہیں۔سفر کی صعوبتیں اب نہیں رہیں،اب سائنس کی لاتعداد ایجادات نے سفر کو آسان اور پر لطف بنا دیا ہے۔گھر سے دوری اپنوں سے دوری کا احساس سمٹ گیا ہے ۔ اب قلبی کیفیات کی شدت جو اپنوں کے تعلق سے ہوتے تھے، وہ نہیں رہیں۔تکنالوجی نے سات سمندر پار بیٹھے شخص کو گھر کے ڈرائنگ روم میں لا بٹھا یا ہے ،پھر بھی ان مناظر کو اور سفر میں درپیش آنے والے تمام تر واقعات ،حج کے رسومات اور ان کی ادائیگی دائرہ تحریر میں لائے جاتے رہے ہیں اور لائے جاتے رہیں گے اور ان سفر ناموں سے ادب کا ذخیرہ بڑھتا رہے گا۔

سفر نامہ نگاری کی یہ سعی اس وقت اور معنی خیز بن جاتی ہے ،جب یہ کسی ایسی جگہ کا بیان ہو، جس کا تعلق مذہبی مقام سے ہو۔عام طور سے تمام سفر سے با لا تر سفر حج ہوتا ہے اور بلا جھجھک یہ تسلیم کل ہے۔ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ حج و عمرہ سعادت پاتے ہیں ۔یہ کسی صاحب ایمان کی سب سے بڑی آرزو کا بر ہونا ہے اور ایک صاحب ایمان کی پوری زندگی کا حاصل کیونکہ دنیاوی معاملات میں ہم جو بھی حاصل کرتے ہیں اسے دنیا کا حاصل تو کہہ سکتے ہیں، زندگی کا حاصلِ قطعہ نہیں،ہاں ! مگر خانۂ خدا کی زیارت ، زیارت کے دوران گزارے ایک ایک پل کو، ان گلیوں کو کہ جن پر رسول اکرمؐ کے مبارک قدم پڑے ،ان مناظر کو کہ جن کو دیکھنے کی تمنا لئے ایک غیر ملک سے کوئی عاشق چلا ہو اور جب اس کی آنکھ کھلی تو سامنے خانۂ کعبہ ہو، اب اس لمحے کو محسوس کریں،دیکھیں ،آپ کے سامنے ۔۔۔۔۔جی آپ کے سامنے۔۔۔تمام وسعتوں کے خالق کا گھر اوروہ بھی بالکل سامنے ،بس دیکھئے۔اس دید کے بعد وہ تمام فرائض حج کا انجام دینا اور دنیا کی مکر و فریب سے دور گزارے شب وروز کو حاصل زیست کہہ سکتے ہیں اور اس کے زندگی کا حاصل ہونے میں کوئی پش و پیش نہیں۔

حج کے سفر نامے لکھنے کا مقصد نئے لوگوں کی رہنمائی بھی ہوتی ہے۔ بطور گائیڈ اس کا مطالعہ بہت سوالوں کے جواب کے ساتھ بہت ساری معلومات بھی فراہم کرتا ہے، نیز قاری کے دل میں سفر حج کی تمنا پیدا کرتا ہے۔اردو ادب میں حج کے سفر نامے وافر مقدار میں موجود ہیں اور آئے دن ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔سفر نامہ غیر افسانوی صنف ہے ، لہٰذا چشم دید واقعات اور فطری واقعات کا ذکر کہ جن کا تعلق صرف حقیقت سے ہو ، صفحۂ قرطاس پر ابھارے جاتے ہیں۔ان جذبات و کیفیات کا اظہار کبھی اتنا سپاٹ اور کھردرا ہوتا ہے کہ بیان کی لذت سے قاری کا لطف اٹھانا ممکن نہیں ہوتا۔ایسے بھی سفر نامے آپ کی بالغ نظروں سے گزرے ہوں گے ،جن کو دیکھ کر ڈائری رائیٹنگ کا احساس ہوتا ہے۔مطالعے کے دوران ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم گائیڈ لائنس پڑھ رہے ہیں اور کوئی ہمیں Do’s & Don’ts سمجھا رہا ہے۔قاری پھر قاری نہیں رہتا، اس کے پڑھنے کی دلچسپی جاتی رہتی ہے اور وہ کلاس روم میں بیٹھا ایک طالب علم ہوجاتا ہے جو غیر ارادی طور پر ان باتوں کو ذہن کے گوشوں میں اتارنے کی فضول کوشش کرتا ہے۔ایسی صورت حا ل میں سفر نامے کا لکھنا تو ہو جاتا ہے پر اس کی مقصدیت اور بطور صنف ،اس کی شناخت کھو جاتی ہے۔ہدایات و اشارات کا معلمانہ اظہار کو سفر نامہ کہنے میں کراہیت محسوس ہوتی ہے۔

حاجیمحمد علی حسین شائق جو بنیادی طور پر ایک افسانہ نگار ہیں ،گذشتہ سال انہوں نے حج کی سعادت حاصل کی اور چونکہ وہ نثری ادب کے شہسوار ہیں ۔ انہوں نے اپنے تجربات و مشاہدات کو پیش کرنے کا ارادہ کیا ۔یہ ارادہ انہوں نے حج سے واپسی کے بعد کیا ، اس لئے اس سفر نامے کی خصوصیات میں ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ انہوں نے تمام واقعات سے مغلوب ہوکر اس سفر کو قلمبند کرنے کا تہیہ کیا۔شائق کا یہ سفر نامہ اپنی انفرادیت رکھتا ہے اور ان معنوں میں رکھتا ہے کہ ڈاکٹر شائق نے ایک غیر افسانوی صنف کو افسانوی صنف کی ہیئت اور اسلوب عنایت کی ہے۔تخلیق کار نئی چیزیں تخلیق کرنے کی کاوش کرتا رہتا ہے، لہٰذا انہوں نے عام روش سے ہٹ کر اس سفر نامے کو افسانوی سفر نامہ کی طرح پیش کیا ہے۔ ایسا کرنا ان کے منفرد تخلیقی ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے اس سفر نامے کو افسانوی پیرائے میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس بات کا اندازہ ہمیں ان کے سفر نامے کے عنوان ’حاصلِ زیست‘ سے ہی ہوتا ہے۔ اپنے سفر نامے کے شروعاتی حصے میں ان کا ایمانی جذبہ کارفرما دِکھتا ہے۔ لوگوں کا ملنا اور ان سے اپنے اپنے لئے دعائیں کرنے کی گزارش کرنے سے لے کر آدھی رات کی خاموشی میں لبیک کی صدائیں بلند ہونا ،پھر بڑے بیٹے کا ویڈیو کالنگ پر بات کرنا ۔۔۔۔یہ تمام باتیں اس سفر کی شروعات ہیں ، جو سفرنامہ نگار نے اپنے کمال فن سے افسانوی روپ دیا ہے۔ جدّہ اور عرفات کے بیانات میں قلبی کیفیات کا تانا بانا اور ساتھ میں منظر نگاری کا سماں باندھنا، سفر نامے کو منفرد بناتا ہے۔کعبہ شریف کے سامنے مچلتی خواہشوں کو چھوٹے سے دل میں قید کرنے کی سعی اور شکر کے جذبات ، سفر نامے کی قرأت کے دوران قاری کو وہی احساس دلاتا ہے، جیسا کہ سفر نامہ نگار کو ہوا تھا۔چند سطریں ملاحظہ کیجیے:

’’ دل بے چین ہو رہا تھا کہ جلدی سے کعبہ شریف کا دیدار ہو۔ اب تک کی زندگی میں نماز میںمنہ کعبہ شریف کی طرف کہہ کر نماز پڑھتا رہا تھا ،آج کعبہ کے روبرو ہونے جا رہا تھا۔ ذہن و دماغ کی عجیب سی کیفیت تھی۔ خوشی کے مارے آنسو آنکھوں کے کنارے اپنا ڈیرا جما چکے تھے۔ بدن میں عجیب طرح کی سنسناہٹ پیدا ہو رہی تھی۔ دل ہی دل میں خدا کا لاکھ نہیں کروڑوں شکر ادا کررہا تھا کہ وہ مجھ جیسے گنہگار بندے کو کتنا پسند کرتا ہے۔ فوراً دل میں خیال آیا کہ اللہ نے قرآن پاک میں خود فرمایا ہے کہ ’’تم میری رحمت سے مایوس نہ ہو۔‘‘ قدم تیزی کے ساتھ بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ ایک جگہ پہنچ کر دونوں اللہ کے بندے رک گئے اورکہا کہ :’’یہاں سے آپ لوگ جائیں ۔ ‘‘میں سوچ میں پڑ گیاکہ معاملہ کیا ہے؟ کہا: ’’آپ لوگ بھی چلئے۔‘‘

انہوں نے کہا : ’’اس جگہ سے آگے ہم لوگ بھی نہیں جا سکتے۔ اس کے آگے صرف وہی لوگ جا سکتے ہیں جو احرام میں ہوں گے۔‘‘ پھر میں آگے بڑھا، پیر سے چپل نکال کر تھیلے میں رکھا اور آگے بڑھا۔ ابھی مشکل سے ۲۵؍ سے ۳۰؍ قدم ہی بڑھا ہوگا اور سوچ رہا تھا کہ سیڑھی آئے گی ،پھر نیچے اتریں گے ۔نظریں نیچی رہیں گی ،پھر پہلی نظر کعبہ پر پڑے گی لیکن جیسے ہی آگے بڑھا نظریںاٹھیں اور کعبہ شریف سامنے تھا۔ بدن کانپنے لگا۔ رونگنے کھڑے ہوگئے ۔ جلدی جلدی وظائف پڑھنے لگا۔‘‘

سفر کے دوران ارتقاء کی منزلوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مصنف نے اپنی بیانیہ قدرت کا برملا اظہار کیا ہے۔سفری روداد کو پیش کرنے میں بیانہ قوت درکار ہوتی ہے اور اس کی کمی ہونے کی وجہ سے قاری عدم دلچسپی کا شکار ہوجاتا ہے۔موصوف نے اس نکتے کو ذہن میں رکھتے ہوئے واقعات کے بیان میں تسلسل اور حسن بیان سے کام لیا ہے۔مصنف کا خدا کے گھر سے واپسی پر بار بار پلٹ کر دیکھنا ،آنکھیں نم کردیتا ہے۔مصنف جن یادوں کو اپنے دل میں بسائے ہیں دراصل یہی وہ شئے ہے ، جو دل میں بسانے کی اشیاء ہیں۔ ہر صاحب ایمان کے لئے یہ کتاب کسی تحفے سے کم نہیں۔

ڈاکٹر شائق کی اس سفر نامے کی اشاعت سے مزید لوگوں کو حج بیت اللہ پر جانے کے شعلۂ اشتیاق کو ضرور ہوا ملے گی۔ سفر نامۂ حج کے مو ضوعات تقریباً ایک سے ہی ہوتے ہیں مگر مصنف نے جس طرح اپنی عقیدت و ایمان کے جذبے کی روشنی میں خانۂ خدا اور روضۂ رسوؐل کی زیارت کا منظر قلمبند کرنے کی منفرد کوشش کی ہے۔ وہ اس میں کامیاب ہوئے ہیں اور اس سفر نامے کی انفرادیت بھی یہی ہے۔شائق کا سفر نامۂ حج کا منفرد اور آسان لب ولہجہ اس سفر نامے کو حسن زینت بخشتا ہے۔ مصنف نے سفر نامے کو مختلف عناوین میں تقسیم کرکے قاری کو مطالعے میں آسانی اور موضوعات کی فہمی میں سہولت پیدا کر دی ہے۔مقدس مقاموں کے بیانات کے دوران کچھ تاریخی معلومات بھی فراہم کی ہیں، جیسے جنگ احد کے تعلق سے،عرفات کے حوالے سے ،جدہ کے حوالے سے۔حضرت عمر کی شہادت کے متعلق ہندہ کی شرمناک اور قابل مذمت حرکت وغیرہ ۔۔۔۔گرچہ مصنف نے صرف حج کے دوران پیش آنے والے واقعات کو ہی قلمبند نہیں کیا بلکہ جہاں ضرورت محسوس کی ہے ، وہاں اس واقعے اور ان جگہوں سے جڑی حقائق کو بھی حیطۂ تحریر میں لایا ہے تاکہ ان مقدس مقامات سے واقفیت ہو سکے۔اس ضمن میں چند اقتباسات درج کررہا ہوں، جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں:

’’مسجد قبلتین:آدھ گھنٹہ غزوۂ خندق میں رکنے کے بعد بس آگے بڑھی اور مسجد قبلتین کے پاس رکی۔ مسجد قبلتین بھی بہت ہی شاندار مسجد تھی اسی مسجد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز اد اکرتے ہوئے قبلہ بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف اللہ کے حکم سے بدل دیا۔ اس مسجد میں بھی دو رکعت نفل نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔‘‘

———

’’غزوۂ خندق کے پاس:بس آگے بڑھتی جا رہی تھی ۔ ایک مقام پر رکی، گائیڈ نے بتایا کہ یہاں خندق کی جنگ لڑی گئی تھی۔ یہ وہی غزوۂ خندق ہے جو اسلام کی تیسری بڑی جنگ تھی۔ کفار حق سے معاملہ کے لیے سلمان فارسی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیاکہ اگر خندق کھوددیاجائے تو دشمن اس جانب سے حملہ نہیں کر پائیں گے۔

حضورؐ نے ان کے مشورے کومانا اور لگ بھگ ۵۰۰ صحابہ کرام نے مل کر دس فٹ گہرا اور چوڑا خندق کھودا۔ اس دوران بہت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں غذا کی قلت تھی۔ صحابۂ کرام نے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر خندق کھودا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھ رکھے تھے۔وہاں مسجد عمر، مسجد علی اور مسجد سلمان فارسی ہے ،جو پہاڑ پر کچھ اونچائی پر ہے۔ یہ مسجدیں کیا ہیں، یہ عمر، علی اور سلمان فارسی کے اس جگہ مکانات تھے۔‘‘

———

کتاب مفید ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس سفر نامے کے بعد دیدار کعبہ کے اشتیاق کا شعلہ دلوں میں ضرور بھڑکے گا اور شائق صاحب کا منشا بھی یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ حج کے فرائض انجام دے سکیں۔اسلوب کی روانی اور افسانے کی فضا بندی کے عناصر اس کتاب کو انفرادیت عطا کرتی ہے۔کتاب کے آخر میں چند یادگار تصویروں کا ایک مختصر البم ہے جو بتاتا ہے کہ حج کی سعادت پانا کیا چیز ہے۔ایک مسلمان کے لئے حج کیا ہے ، یہ تو وہی بتا سکتا ہے کہ جس نے کبھی اپنی کم مایہ آنکھوں سے رحمت کے نور برستے دیکھے ہوں۔یہ وہ آرزو ہے کہ جس کے بعد کوئی آرزو باقی نہیں رہتی۔زندگی کا مفہوم بارگاہ ایزدی میں کھڑے ہوکر سمجھ میں آتا ہے۔ساری بلندیاں جہاں سجدہ ریز ہوتی ہیں، وہ یہی خدا کا گھر ہے جس کا فیصلہ یہ ہے کہ ہر انسان برابر ہے کوئی بڑا یا چھوٹا نہیں اور سب سے بڑی ذات صرف اور صرف اس کی ہے۔مجھے تلوک چند محروم کی ایک رباعی یاد آرہی ہے:

دروازے پہ تیرے اک جہاں جھکتا ہے

اونچے اونچوں کا سر یہاں جھکتا ہے

کیوں کر نہ جھکے زمیں میں وقعت کیا ہے

با عجز و نیاز آسماں جھکتا ہے

پیش نظر سفر نامۂ حج کے افسانوی اسلوب نے اس سفر نامے کو منفرد بنا دیا ہے۔اس بات کا قوی یقین ہے کہ ڈاکٹر شائق کا یہ سفر نامۂ حج اردو ادب کے سفر ناموں میں اپنا مقام بنا لے گا ۔ ایسا اس لئے کہ اس سفر نامے میں قوتِ بیان کے کمالِ حسن کے ساتھ عقیدت و محبت کا والہانہ اظہار اور اس اظہار میں وارفتگی، اس سفر نامے کے اختصاص و انفراد ہیں۔ذرّوں کو کہکشاں بنانے والے اس نقاش ازل سے دعا گو ہوں کہ وہ اس سفر نامے کے مقدر میں بھی تابندگی لکھ دے۔ آمین!

٭٭٭٭٭

 

 

(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں    https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos

 

 

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

 

 

ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com  پر بھیجنے کی زحمت کریں۔

 

Home Page

adabi meerasadabi miraasadabi mirasادبی میراث
1 comment
2
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
شادؔ عظیم آبادی کا ایک غیر منقوط فارسی نعتیہ قصیدہ –  طفیل احمد مصباحی 
اگلی پوسٹ
ادب نما فورم- نئی دہلی کا آن لائن عالمی طرحی مشاعرہ

یہ بھی پڑھیں

مئی 1, 2023

مارچ 27, 2023

مارچ 25, 2023

مارچ 25, 2023

فروری 24, 2023

فروری 21, 2023

فروری 8, 2023

جنوری 29, 2023

جنوری 18, 2023

جنوری 11, 2023

1 comment

محمد غلام حسین مئی 19, 2023 - 12:05 شام

ماشاء االلہ سر۔۔۔۔بہت خوصورت لکھے ہیں آپ

Reply

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (176)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (100)
  • تخلیقی ادب (541)
    • افسانچہ (28)
    • افسانہ (176)
    • انشائیہ (16)
    • خاکہ (33)
    • رباعی (1)
    • غزل (131)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (24)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (119)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (939)
    • ڈرامہ (12)
    • شاعری (470)
      • تجزیے (11)
      • شاعری کے مختلف رنگ (202)
      • غزل شناسی (168)
      • مثنوی کی تفہیم (7)
      • مرثیہ تنقید (8)
      • نظم فہمی (78)
    • صحافت (42)
    • طب (12)
    • فکشن (378)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (205)
      • فکشن تنقید (12)
      • فکشن کے رنگ (23)
      • ناول شناسی (135)
    • قصیدہ کی تفہیم (14)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (34)
  • کتاب کی بات (406)
  • گوشہ خواتین و اطفال (92)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (1,741)
    • ادب کا مستقبل (109)
    • ادبی میراث کے بارے میں (8)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (23)
    • تراجم (27)
    • تعلیم (27)
    • خبر نامہ (675)
    • خصوصی مضامین (81)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (202)
    • فکر و عمل (112)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (260)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں