مذہب اسلام ایک ایسا دین اور ایسا نظام حیات ہے کہ جس میں تمام نسل انسانی کے لیے اصول و ضوابط موجود اور زندگی گزارنے کے تمام طریقے پائے جاتے ہیں۔
مذہب اسلام کا کوئی حکم فطرت انسانی کے خلاف نہیں ہے؛ اگرچہ وہ نقص فہم کی بنا پر ہماری عقلوں میں نہ آئے، اور ہماری عقلیں اسے تسلیم نہ کریں؛ مگر اس کے تمام احکام میں نسل انسانی کے لیے خیر و بھلائی مضمر ہے۔
اسلام کے بے شمار احکام میں حجاب بھی ہے؛ چنانچہ ارشاد ربانی ہے: یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُل لِّاَزوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ المُؤمِنِینَ یُدنینَ عَلَیهِنَّ مِن جَلَابِیبہن۔ ( الاحزاب: ۵۹)
جہاں مومنات کو پردے کا حکم ہے وہیں دوسری جانب مومنین کو بھی حکم ہے کہ: قل للمومنین يغضوا من ابصارہم و يحفظوا فروجھم۔
(اے نبی! آپ مومنین (مردوں) کو حکم دیجیے کہ اپنی نظروں کو نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔)
پردہ ایک رسم نہیں؛ بلکہ بے شمار برائیوں اور لا تعداد مفاسد کے لیے سم قاتل ہے۔ اسی پردے کی بنا پر انسان نظر بد سے بچا رہتا ہے۔ خواتین کو شہوت پسندوں اور بد نظروں سے خطرات کم سے کم لاحق ہوتے ہیں۔
وہی نظر بد جو کہ زنا کی پہلی سیڑھی اور تمام مفاسد کی جڑ ہے؛ مگر حجاب اور پردے کے خلاف یہودی تنظیمیں اور نصرانی مشنریاں شور بپا کیے رہتی ہیں کہ پردے کی وجہ سے عورتیں ترقیات سے پیچھے رہ گئی ہیں، پردہ ایک ظالمانہ رسم ہے، یہ عورتوں کی آزادی چھیننے کے مترادف ہے۔ پردہ ایک جاہلانہ دستور ہے؛ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اُن کے یہ سارے پروپیگنڈے اپنی معیشت اور فیشن انڈسٹری کو نقصان سے بچانے کے لیے ہیں؛ اگر واقعی نقاب اور حجاب عورتوں کی ترقی اور آزادی کے منافی ہے تو تمام چرچ اور تمام پادریوں کو گرجا گھروں میں رہنے والی راہباؤں اور نن کے حجاب کو ختم کرکے ایک نئی تحریک شروع کرنی چاہیے۔
مغربی قوم کی یہ ساری تحریکیں مسلم خواتین کے حقوق کے تحفظ کے واسطے نہیں؛ بلکہ اپنی کروڑوں اور اربوں ڈالر کی فیشن انڈسٹری کی بقا اور تحفظ کے لیے ہیں۔
موجودہ وقت میں مسلم خواتین کے ایک فریق نے اسی مغربی تہذیب اور غیر اسلامی ثقافت سے متاثر ہو کر حجاب کو فقط ایک رسم سمجھ لیا اور اس کے اصل مقصد اور عفت کے تحفظ کو یکسر بھول بیٹھیں۔ اسی لیے اکثر و بیشتر ایسے برقعے اور عبایا نظروں سے گزرتے ہیں کہ جن سے ستر پوشی کے بجائے جسم کے خد و خال نمایاں ہوتیں ہیں، ایسے حجاب و نقاب کیوں کر بد نظروں سے صنف نازک کی محافظت کریں گے؛ جب کہ وہ خود ہی داعی الی الفساد ہیں۔
اس کے مد مقابل دوسرا فریق ہے، جو اس بات کا قائل اور اس نظریے کا حامی ہے، کہ: اصل پردہ تو نظروں کا ہے۔
اب اصل سوال یہ ہے کہ کیا ان کے دل ازواج مطہرات سے زیادہ پاک، ان کے کردار صحابیات رسول سے زیادہ اعلی، ان کا تقوی بنات رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھا ہوا ہے؟ یقینا نہیں۔
ایسی پاک صفات اور برگزیدہ بندیوں کے لیے ارشاد خداوندی ہے کہ: یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُل لِّاَزوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ المُؤمِنِینَ یُدنینَ عَلَیهِنَّ مِن جَلَابِیبہن۔ (الاحزاب: ۵۹)
(اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیجیے کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے او پر ڈالے رکھیں۔)
یہ حکم کائنات کی سب سے مقدس جماعت کے ہے، کہ جن کے اعمال و کردار، اخلاق و عادات، عبادات و معاملات سے خوش ہو کر باری تعالیٰ فرماتا ہے کہ: رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ۔ یعنی خدا اُن سے راضی ہو گیا، اور وہ خدا سے راضی ہیں۔
ایسی پاکیزہ جماعت کے لیے پردے کا حکم ہو رہا ہے۔
اگر پردہ واقعی نظروں کا ہوتا تو ایسی پاک باز جماعت کے لیے حکم حجاب نہ آتا۔ پردے کو فقط نظروں کے لیے خاص کر دینا، یہ سب شیطانی چالیں اور غیر اسلامی نظریات کی دین ہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page