ڈاکٹر وصیہ عرفانہ
سمستی پور،بہار
’’بیگم سمرو‘‘ جناب رضا علی عابدی کی تازہ ترین تصنیف ہے۔جناب رضا علی عابدی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک اور متنوع ذوق کے حامل انسان ہیں۔بی بی سی اردو سروس،سیربین اور شاہین کلب سے انہیں پہلی شناخت حاصل ہوئی ۔رفتہ رفتہ اپنی ادبی صلاحیتوںاور خداداد ذہانت کی وجہ سے ان کی شناخت مستحکم ہوتی گئی۔اردو زبان و ادب سے ان کی والہانہ محبت،ان کا دلکش اندازِ بیان،درست تلفظ کی ادائیگی اوردلنشیں آواز نے انہیں نمایاں پہچان عطا کی۔بحیثیت صحافی اور براڈکاسٹر انہوں نے ہندوپاک کی مشہور و معروف سڑک جی ٹی روڈ پر پشاور سے کلکتہ تک کاسفر کیا اور راستے کی تفصیلات،مختلف تاریخی مقامات کے پس منظر و پیش منظر، شہروں اور دیہاتوں کی زندگی اور وہاں کے باشندوں کے بارے میں مخصوص دلنشیں پیرائے میں گفتگو کی جو بی بی سی اردو سروس سے نشر ہوتی رہی۔بعد ازاں،سفر کی یہ داستان ’’جرنیلی سڑک‘‘ کے نام سے 1986ء میںشائع ہوئی جس کی مقبولیت ہنوز قائم ہے۔جرنیلی سڑک کے بعد ان کی تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رہاجو اب تک قائم ہے۔ سیاحت ان کا شوق بھی تھا اور منصبی فرائض کا حصہ بھی۔لہٰذا مختلف اور متنوع موضوعات پر ان کی تحریریں شائع ہوکر خواص وعام میں مقبول ہوتی رہیں۔ان کے سفر ناموں میں ’’شیر دریا‘‘ ، ’’ریل کہانی‘‘ اور ’’جہازی بھائی‘‘ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔مختلف علاقوں کے سفر کے دوران قدیم کتابوں،رسالوں اور مخطوطوں کی تحقیق کا بیڑا اٹھایا تو ’’کتب خانہ‘‘، ’’تیس سال بعد‘‘(پہلا سفر اورہمارے کتب خانے دونوں کتابیں یکجا)اور ’’کتابیں اپنے آباء کی‘‘ جیسی منفرد اور نادر کتابیں وجود میں آئیں۔اپنی یاد داشت تحریر کرنے کے ذیل میں ’’ریڈیو کے دن ‘‘ اور ’’اخبار کی راتیں‘‘ جیسی اہم کتابیں اردو کے اثاثے میں شامل کیں۔اپنی آواز،جان صاحب، ملکہ وکٹوریہ اور منشی عبد الکریم،پرانے ٹھگ وغیرہ تصنیف کرکے قصہ کہانیوں اور افسانوں سے بھی اپنے لگاؤ کا ثبوت فراہم کیا۔ پرانی موسیقی اور نغموں سے ان کی بے پناہ دلچسپی نے ’’نغمہ گر‘‘ تصنیف کرالی۔ اردو سے عشق کی حد تک محبت اور لگاؤ ہے۔’’اردو کا سفر‘‘ کے عنوان سے اردو کے آغاز پر روشنی ڈالی اور ’’اردو کا حال‘‘ بھی تحریر کیا۔بچوں کے لئے درجنوں کتابیں تصنیف کیں تاکہ ان میں بچپن سے ہی اردو کی محبت کی کونپل نمو پائے۔ اردو زبان اور اردو کتابوں سے ان کی محبت واضح ہے جس کے ثبوت بارہا ملتے رہتے ہیںجن پر روشنی ڈالنا ایک تفصیل طلب مرحلہ ہے۔برطانیہ میں رہ کر انہوں نے اردو زبان و ادب کی آبیاری کے لئے بیش بہا خدمات انجام دی ہیں ۔ ان کا مطالعہ و مشاہدہ نہایت وسیع و عمیق ہے اور قدرت نے بہترین حافظہ ودیعت کیا ہے۔بغیر رکے،بغیر تھکے کام کرتے رہنا ان کی طبیعت کا خاصہ ہے۔اٹھاسی سال کی عمر میں بھی ان کی تصنیف وتالیف کا سلسلہ جاری ہے اور حال میں ہی ان کی تازہ ترین تاریخی تصنیف ’’بیگم سمرو‘‘ شائع ہوئی ہے۔
بیگم سمرو کا اصل نام فرزانہ تھا۔میرٹھ شہر کے قصبہ کتانہ کے زمیندار لطف علی خان نے فرزانہ کی والدہ سے عقدِثانی کیا تھا۔ پہلی بیوی سے ایک بیٹا تھاجس نے والد کی وفات کے بعد ان کی دوسری بیوی اور بیٹی فرزانہ کا جینا دوبھر کردیا۔ بالآخر فرزانہ کی والدہ نے بیٹی کو ساتھ لے کر گھر چھوڑ دیا۔دنیا سے زیادہ واقفیت نہیں تھی۔دلی کے بازارِ حسن سے آئی تھیں،اسی طرف کا قصد کیا۔دہلی کے کشمیری دروازے تک پہنچ کر بخارکی شدت اور ناتوانی کے باعث بے ہوش ہوکر گر پڑیں۔بازارِ حسن کی ایک طوائف پالکی میں سوار وہاں سے گزر رہی تھی۔اس نے فوراً انہیں پناہ دینے کی ٹھانی اور اس طرح پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔جہاں دیدہ خاتون نے بھانپ لیا تھا کہ کچھ عرصے کی تربیت کے بعد بوٹے سے قد کی یہ لڑکی ان کے کوٹھے کے لئے کارآمد ثابت ہونے والی ہے۔
فرزانہ بے پناہ حسین تھی اور ذہین بھی۔کچھ عرصے کی تربیت کے بعد ہی محفلیں آراستہ ہونے لگیں۔ایک گورے جرنیل جنرل رائین ہارٹ جنہیں دنیا سمرو صاحب کے نام سے جانتی ہے،کا دل فرزانہ پرآگیااور انہوں نے منہ مانگی قیمت خانم جان کو ادا کرکے فرزانہ کو اپنے حرم میں داخل کرلیا۔یہاں سے فرزانہ المعروف بیگم سمرو کی زندگی میں موڑ در موڑ آتے رہے۔تیرہ سال بعد جب سمرو صاحب کا انتقال ہوگیا تو بیگم سمرو نے اپنی دوراندیشی،ہمت و حوصلے،بہادری اور دانشمندی کے بل پر سمرو صاحب کی جانشینی کا دعویٰ کردیا اور گنگا جمنا کے درمیانی علاقے پر اپنا حق جتانے لگیں جو سمرو صاحب نے مغلیہ حکومت سے بطور انعام پایا تھا۔مغلیہ سلطنت حالانکہ زوال آمادہ تھی لیکن مغلوں کی دادو دہش کا سلسلہ ہنوز دراز تھا۔مغل بادشاہ شاہ عالم نے بیگم سمرو کی جانشینی کا دعویٰ تسلیم کرتے ہوئے اسے زیب النساء کا خطاب عطا فرمایا۔بیگم سمرو نے اپنی دوراندیشی سے مغلیہ سلطنت اور ایسٹ انڈیا کمپنی دونوں سے تعلقات بحال کر رکھے تھے ۔چنانچہ اتحادی ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی بیگم سمرو کو ’ہر ہائی نس بیگم سمرو آف سردھنا ‘ قرار دیا۔ بوٹے سے قد کی یہ لڑکی ہندوستان کی تاریخ میں ایک اہم اور قدآور شخصیت بن کر اُبھری۔رضا علی صاحب نے بیگم سمرو کی دوراندیشی اور مقدر کی کرامات کو اس کتاب میں بیان کیا ہے۔یہ کتاب نہ صرف بیگم سمرو کی داستانِ حیات اور کارناموں پر مشتمل ہے بلکہ ہندوستان کی پچاسی سالہ تاریخ کو بھی نہایت دلسوزی سے بیان کر رہی ہے۔
بیگم سمرو کا زمانہ اٹھارویں صدی کے نصف آخر اور انیسویں صدی کے نصف اول پر محیط ہے۔ہندوستان کی تاریخ میں یہ دور تغیر وتبدیلی کا ہی نہیں بلکہ مغلیہ سلطنت کی تنزلی اور غیر ملکیوں کے تسلط کا بھی ہے۔اس عہد نے ظلم و بربریت،جبرو استبداد، بے رحمی اور شقی القلبی،خود غرضی اور بے حسی کی متعدد واقعات دیکھا ہے۔رضا علی عابدی نے نہایت اختصار لیکن جامعیت کے ساتھ ان واقعات پر روشنی ڈالی ہے۔اس طرح یہ کتاب محض بیگم سمرو کی داستانِ حیات نہ رہ کر اس عہد کی خونچکاں تاریخ کا آئینہ بن گئی ہے۔
بابر سے اورنگ زیب تک مغلیہ سلطنت کا انتظام و انصرام اوراس کی شان و شوکت بے مثال رہی۔اپنی شجاعت اور دانش مندی سے مغلوں نے ایک طویل عرصے تک ہندوستان پر حکومت کی ۔فن تعمیر اور علوم و فنون کی آبیاری کرکے اس ملک کوترقی کے راستے پر ڈال دیا۔اورنگ زیب کے بعد مغلیہ نسل عیش و عشرت کی دلدادہ بن کر رہ گئی۔نتیجتاً بزدلی،خودغرضی، بے حسی،حرص وطمع،نا اہلی ان کی طبیعت کا خاصہ ہوگئی۔سلطنت کے انتظام سے زیادہ عیش کوشی انہیں مرغوب تھی۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف علاقوں اور ریاستوں کے حکمران بھی یا تو نظم و نسق سے لاپرواہ ہوگئے یا اپنی سرحدوں کو وسیع کرنے کے لئے دوسرے علاقوں میں دراندازی کرنے لگے۔انگریزوں کی نظر ہندوستان جیسی سونے کی چڑیا پر گڑی ہوئی تھی۔اسی دوران بیرونی حملہ آور نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا اور لوٹ کھسوٹ مچانے کے بعد تختِ طاؤس لے کر واپس ہوا۔کچھ عرصے بعد احمد شاہ ابدالی نے پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کی کمر توڑدی۔ان تابڑ توڑ حملوں اور جنگوں نے ہندوستان کی حکومت کو ازحد کمزور کردیا۔ستم یہ ہوا کہ شاہزادوںکی نااہلی نے خانہ جنگی کومزید ہوا دی۔جناب رضا علی عابدی لکھتے ہیں:
’’ سچ تو یہ ہے کہ اورنگ زیب (1707ء) کے ساتھ ہی یہ شیرازہ بکھرنے لگا۔کہاں چھ شہنشاہوں نے ہندوستان کے تخت پر دو صدیاں گزاریں،کہاں اگلی آدھی صدی میں اس تخت پر کم سے کم دس شہزادے کٹھ پتلی بن کر بیٹھے اور حکمرانی مذاق بن کر رہ گئی۔‘‘
صبح کسی کی حکومت،شام میں کسی اور کی۔تاج و تخت کے لالچ اور امراء کی سازشوں کی نذر ہوکر شاہزادے مرتے جاتے اورہمایوں کے مقبرے میں دفنا دئیے جاتے۔فرمانوں پر مہر لگنے کی حد تک ان کی حکمرانی قائم تھی۔ دہلی پر لارڈ لیک (1803 ء) کے قبضے کے بعدیہ اختیار بھی جاتا رہا۔انگریزوں نے دہلی کے الگ الگ خطوں پر الگ الگ بادشاہ مقرر کر رکھا تھا۔ وہیں سے یہ مقولہ زبان زد عام ہوا۔۔۔۔۔۔حکمرانی شاہ عالم ،از دلی تا پالم۔اس دور کے حالات کے جائزے کے بعد جناب رضا علی عابدی اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بیگم سمرو نے بادشاہ کو بادشاہ مانا اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی ان کی حاکمیت تسلیم کی لیکن مغل حکمرانی کو سب سے زیادہ نقصان امراء کی آپسی کھینچاتانی سے ہوا۔یہی سچ ہے کہ مغل شہزادوں کی نااہلی اور عیش پرستی نے امراء اور وزراء کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کردیا۔اس دوران سکھ،مرہٹے،راجپوت اور پٹھان زیادہ سے زیادہ علاقے پر قبضہ کرنے کی ہوس میں آپس میں ہی جنگ کر رہے تھے اور وسائل کی افراط اورجنگی سوجھ بوجھ کی وجہ سے ہندوستان پر بالآخربرطانوی بالادستی قائم ہوگئی(1803-1805)۔
ہندوستانیوں پر فرنگی سپاہیوں کا رعب تھا کہ وہ تربیت یافتہ ہیں اور جدیدہتھیاروں سے لیس ہیں اور یوروپ میں یہ ہوا پھیل گئی کہ ہندوستان میں راجے مہاراجے بے پناہ دولت کے مالک ہیں اور انہیں تربیت یافتہ فوجی درکار ہیں۔مختلف علاقوں سے فوجی ہندوستان کا رخ کرنے لگے۔فرانس کی بحریہ فوج کاایک سپاہی والٹر رائین ہارٹ جو بعد میں سمرو صاحب کے نام سے معروف ہوا، ہندوستان آنے والے سمندری جہاز کے ذریعے پانڈیچری پہنچ گیا۔اس کا اٹھنا بیٹھنا ہندوستانیوں کے ساتھ زیادہ رہتا تھاچنانچہ اس نے ہندوستانی وضع قطع اختیار کرلی اور اردو فارسی بولنے لگا۔سیلانی طبیعت کی وجہ سے فرانسیسی فوج کوچھوڑکر بنگال کے نواب میر قاسم کی فوج میں شامل ہوگیا۔ بنگال کے نواب اور انگریزوں کی مقابلہ آرائی اور جیت ہار کے درمیان سمرو صاحب اپنی نجی فوج تیار کرلی اور جاٹ حکمراں جواہر سنگھ کی ملازمت میں آگیا۔جواہر سنگھ کی موت کے بعد دلی کے امیر الامراء نجف خان نے جاٹوں پر حملہ کردیا ۔لڑائی میں جاٹوں کی شکست ہوئی لیکن سمرو صاحب کی فوجی قابلیت اور قائدانہ صلاحیتوں کا معترف ہوکر نجف خان نے اسے اپنے ساتھ ملانا چاہا ۔سمرو نے نجف خان کے خطوط بادشاہ کے حوالے کردئیے اور معافی کا طلب گار ہوا۔بادشاہِ وقت شاہ عالم نے اپنے نائب وزیر عبد الاحد کی ہدایت پر سمرو کی پذیرائی کی۔سمرو کو حکم دیا گیا کہ سکھوں کی سرکوبی کردے تو پانی پت اور سونی پت کے علاقوں کی سند دی جائے گی اور سکھوں سے جتنا علاقہ چھین سکے،وہ سب اسی کا ہوگا۔سمرو دوراندیش ہی نہیں خود آگاہ بھی تھا۔اسے اپنی اور اپنے فوج کی اہمیت، اپنی چالاکی پر اعتماد اور مغل شہزادوں کی نااہلی کا پورا اندازہ تھا۔ اس نے مزید جاگیر حاصل کرنے کے لئے بادشاہِ وقت سے درخواست کی اور کسی نہ کسی طرح شاہی جاگیر حاصل کرلی ۔یہ گنگا جمنا کا درمیانی سرسبز و شاداب علاقہ تھا ، علیگڑھ سے مظفر نگر سے آگے تک، جس کی سالانہ آمدنی چھ لاکھ تھی۔ سمرو نے اسی علاقے میںسردھنا نام کے گاؤں میں اپنا گھر بنانے کا فیصلہ کیالیکن اپنے عالیشان گھر میں رہنے کا اسے زیادہ موقع نہ مل سکا۔کچھ عرصے بعد ہی نمونیا میں مبتلا ہوکر چار مئی 1778 ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگیااور اس کی وارث بیگم سمرو قرار پائیں۔ایسا لگتا ہے کہ سمرو کی ساری تگ و دو اورجدوجہد بیگم سمرو کی تقدیر بدلنے کے لئے ہی تھی۔ بیگم سمرو کو حسن کے ساتھ ذہانت بھی ودیعت ہوئی تھی۔جنرل سمرو اس کا بے حد گرویدہ تھا۔سمرو کے ساتھ رہ کر بیگم سمرو بھی سیاسی داؤپیچ ،مصلحت کوشی،دوراندیشی جیسے اوصاف سے متصف ہوچکی تھیں۔اپنے شوہر کے ساتھ کتنے ہی معرکے کا مشاہدہ کیا تھا۔اسی زمین سے نمو پائی تھی،سو اس زمین کی اہمیت و قیمت سے واقف تھیں۔ شاہی جاگیر میں سردھنا کے علاقے کی تجویز انہی کی تھی۔سمرو کی موت کے بعد فوج کی کمان بھی نہایت منظم طریقے پرسنبھال لی اورباشاہ شاہ عالم نے انہیں فوج کا کمانڈر مقرر کردیا۔
یہاں سے بیگم سمرو کی زندگی کا نیا باب شروع ہوا۔سب سے پہلے انہوں نے اپنے سوتیلے بیٹے کے ساتھ مسیحی مذہب اختیار کیا۔پھر اس کے بعد اپنی فوج کو مزید منظم اور مستحکم بنانے کا آغاز کیا۔اسی سلسلے کے تحت آئرلینڈ کا مشہور لڑاکا جارج ٹامس ان کی فوج میں شامل ہوا۔بیگم بلا کی مردم شناس تھیں اور گوہر نایاب کی قدردان بھی۔جارج ٹامس کی شجاعت اور لیاقت نے بیگم سمرو کی فوج کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا۔بیگم سمرو نے اسے فوج کے اعلیٰ کمانڈر کا منصب تفویض کیا۔ایک طرح سے وہ بیگم کا مشیر خاص بن گیا جس کی کمان داری میں بیگم نے متعدد معرکے سر کئے۔
یہ زمانہ ہندوستان کی سیاست میں غضب کی افراتفری کا تھا۔بادشاہ کی حیثیت صفر ہوگئی تھی۔مرہٹے، راجپوت، سندھیا راج،روہیلے سب کی اپنی ڈفلی اپنا راگ تھا۔کوئی ہار کر جیت رہا تھا تو کوئی جیت کر بھی بے اختیار ہی تھا۔اسی افرا تفری کے دوران روہیلہ باغی غلام قادر نے لاشوں کے انبار لگانے کے بعد شاہی قیام گاہ پر قبضہ جمالیا۔بیگم سمرو وفاداری بشرط استواری کی قائل تھیں۔وہ اپنی فوج کو ساتھ لے کر بادشاہ کی مدد کو آپہنچی۔غلام قادر بیگم کے اثرورسوخ اور ان کی فوج کی طاقت سے واقف تھا، فوراً بیگم کے پاس پہنچ کر مصالحت کے داؤپیچ آزمانے لگا۔بیگم نے بھی مصلحت کوشی کے ساتھ اسے اس کی فوج سمیت دریا پار پہنچاکر واپسی کے راستے مسدود کردئیے۔مغلیہ سلطنت کی تاریخ میں بیگم سمرو کا یہ رول یادگار ثابت ہوا۔روہیلوں کا ساتھ دیتیں تو بے شمار دولت ہاتھ لگتی لیکن بادشاہ کے ساتھ ان کی وفاداری غیر مشروط تھی۔بیگم کی وفاداری اور جانبازی اسی ایک واقعے تک محدود نہیں رہی بلکہ بادشاہ کے لئے وہ مختلف مواقع پر اپنی منظم فوج کے ساتھ سینہ سپر رہیں۔راجپوتانہ کے نجف قلی خاں کی سرکشی کابھی انہوں نے ایسی ہی جرآت کے ساتھ خاتمہ کیا اور پھر اس کی شکست فاش اور اعترافِ ندامت کے بعد بادشاہ سے معافی نامہ بھی بیگم کی کوششوں سے ہی حاصل ہوا۔وہ حاکمیت کے گہرے گُر سے واقف تھیں کہ سرکشی کوفوراً کچل دینا چاہئے لیکن سرکش سرنگوں ہوجائے تو اپنی افرادی قوت کو بحال کرلینا چاہئے۔البتہ سرکش اگر فتنہ پرداز ہو تو اس کی سرکوبی میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔نجف قلی خاں نے سرکشی کی تھی جبکہ غلام قادرفتنہ پرداز تھا۔دلی میں بیگم کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاکر اس نے پھر شاہی محل پر حملہ کردیا۔نو ہفتے تک دلی کی سرزمین نے خوف و دہشت اور ظلم و بربریت کا ننگا ناچ دیکھا۔تاریخ کی کتابیں اس عہد کی خونیں داستان سے بھری پڑی ہیں۔
بیگم سمرو فوج کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے بھی کوشاں رہتی تھیں۔ان کے اس رویے نے انہیں عوام کے درمیان مقبولیت عطا کی۔وہ اپنی جاگیر کا پورا بندوبست اپنی نگرانی میں رکھتیں جس کی وجہ سے جاگیر کی زرخیز ی میں کافی اضافہ ہوا۔ تاریخ کے زوال پذیر دور میں ایک اکیلی عورت کی ایسی مضبوط اور توانا شخصیت عدیم المثال ہے۔ لیکن مضبوط سے مضبوط عمارت میں ایک ہلکی سی دراڑ عمارت کو رفتہ رفتہ کمزور کردیتی ہے۔عہد شباب میں ہی شوہر کی وفات ہوگئی۔فوجی کمان سنبھالنے اور سیاسی داؤپیچ میں الجھے رہنے کی وجہ سے اپنے فطری تقاضوں پر توجہ نہیں کی۔جارج ٹامس کی بہادری اور ہمنوائی کی وجہ سے اس سے انسیت رہی لیکن اس سے آگے معاملہ نہیں بڑھا۔ایک فرانسیسی کمانڈر لاوسوؔ ان کی زندگی میں داخل ہوا۔یہ نوجوان خوبرو اور تعلیم یافتہ تھا۔بیگم اس کی طرف ملتفت ہوگئیں۔جارج ٹامس اور لاوسو میں ٹھن گئی اور جارج نے بیگم کا ساتھ چھوڑدیا۔1793 ء میں بیگم نے لاوسو سے خاموشی سے شادی کرلی لیکن یہ شادی ان کے لئے بدنصیبی اور زوال کی علامت ثابت ہوئی۔فوج بد دل ہوگئی،عوام نے اس عمل کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور سوتیلے بیٹے نے حاکمیت سنبھال لی۔بیگم اور لاوسو کو رات کے اندھیرے میں بھاگنا پڑا۔ان کی اپنی فوج ان کے تعاقب میں تھی۔دراصل ان کی فوج کو اپنے اصل کمانڈر سمرو صاحب سے بیگم کی بے وفائی نے کبیدہ خاطر کیا تھا۔گرفتاری سے پہلے لاوسو نے خودکشی کرلی اور بیگم زخمی حالت میں گرفتار ہوگئیں۔سردھنا واپس لاکر انہیں سات دنوں تک توپ سے باندھ کر رکھا گیا۔ولایتی افسروں کی مداخلت سے انہیں رہائی تو مل گئی لیکن وہ بے یارومددگار ہوکر رہ گئیں۔ایسے وقت میں ان کا پرانا مددگار جاج ٹامس ان کی مدد کو پہنچا۔جاج کی جاں نثاری کی وجہ سے سال پورا ہوتے ہوتے دوبارہ اپنے اقتدار پر مسند نشیں ہوگئیں۔ بیگم سمرو اپنی دوراندیشی کی وجہ سے انگریزوں سے بناکر رکھ رہی تھیں۔اس مصیبت کے وقت میں انگریزوں کی پشت پناہی انہیں حاصل رہی۔ وہ مزید ممنون ِکرم ہوگئیں۔ہندوستان میں راجے مہاراجے آپس میں نبرد آزما تھے اور انگریز اس کا فائدہ اٹھانے میں مصروف۔ بیگم سمرو جانتی تھیں کہ انگریزوں کا ساتھ دینے میں نفع ہے۔لہٰذا وہ انگریزوں سے روابط مستحکم کرنے کی غرض سے اپنی حفاظت کی ضمانت پر اپنی فوج انگریزوں کے حوالے کرنے پر آمادہ تھیں۔چنانچہ انگریز اور مرہٹوں کی جنگ میں انگریزوں کی ہدایت کے مطابق بیگم کی فوج غیر جانبدار رہی۔ انگریزوں کی فتح کے بعد بیگم نے حکومت برطانیہ سے اپنی وابستگی کا اعلان کردیا۔انگریزوں کی نظر بیگم کی جاگیر پر تھی کیونکہ یہ علاقہ نہایت زرخیز تھا ۔انگریزوں اور بیگم سمرو کے درمیان اس موضوع پر بار بار خط و کتابت ہوئی۔اپنے علاقے کی مانند بیگم کا ذہن بھی بہت زرخیز تھااور سیاسی پینترے میں وہ ماہر تھیں۔ان کی دلیری کے آگے انگریز کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور سردھنا کا پرگنہ بیگم کے پاس ہی رہا۔دونوں کے مابین یہ معاہدہ ہوا کہ بیگم کی جائداد زندگی بھر ان کی ہی ملکیت رہے گی اور وہ اور ان کی فوج ایسٹ انڈیا کمپنی کی خدمات کے لئے ہمیشہ تیار رہیںگے۔ اس معاہدے کے بعد بیگم کی سیاسی زندگی انجام کو پہنچی اور ان کے اختیارات اپنی جاگیر تک محدود ہوکر رہ گئے۔اب بیگم نے ساری توجہ اپنے علاقے کو ترقی دینے پر مرکوز کردی۔مسیحی مذہب کی ترویج کے ذیل میں انہوں نے سردھنا میںشاندار رومن کیتھولک چرچ اور میرٹھ شہر میں پروٹسٹنٹ مسلک کے لئے کلیسا بنوایا۔اپنے املاک کے تعلق سے وصیت رجسٹرڈ کرائی جس کے مطابق بیگم کے ذاتی املاک کا وارث ان کا گود لیا بیٹا ڈیوڈ قرار پایا۔بعد ازاں ریاست کی ساری ذمہ داریاں بیٹے کو سونپ کر خود کو مذہبی امور اور کارِخیر میں مشغول کرلیا۔پاپائے روم،آرچ بشپ کنٹربری ،سردھنا ، میرٹھ کے چرچ اور دیگر رفاہی اداروں کو لاکھوں روپے ارسال کئے تاکہ ضرورت مندوں کی امداد کی جائے۔مسیحی مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب کے لئے بھی وہ کشادہ دلی سے خیرات کرتیں۔انہیں اپنی زندگی کے تمام ہونے کے آثار دکھائی دینے لگے تھے۔معمولی بخار سے وہ بیمار پڑیں اور ستائیس جنوری6 183ء میں انہوں نے اس جہاں سے رختِ سفر باندھ لیا۔ جس شان سے انہوں نے زندگی گزاری،اسی شان سے ان کا جنازہ اٹھا جس میں فوج،افسران، رشتہ دار،عوام،ہاتھی گھوڑے سب شامل تھے۔انہیںگارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔
بیگم سمرو ایک لمبی چوڑی جاگیر کی مالک تھیں جسے انہوں نے اپنی سوجھ بوجھ اور خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر بے حد مالدار بنادیا۔ وہی کتانہ جہاں سے وہ اپنی ماں کے ساتھ بے سروسامان نکلی،وہ پرگنہ بھی ان کی ملکیت میں شامل تھا۔ مظفر نگر سے علی گڑھ تک پھیلی ہوئی اس ملکیت کی تیس برس تک وہ تنہا مالک رہیں۔ایک مضبوط فوجی پلٹن ان کے زیردست تھا جس پر سالانہ چار لاکھ روپے خرچ ہوتے تھے۔انہوں نے عوامی فلاح و بہبود کے بے شمار کام انجام دئیے،مغلیہ سلطنت کے معاملات میں دخیل رہیںاوراس عہد کی تاریخ میں اہم حیثیت کی حامل قرار پائیں۔
فرزانہ عرف زیب النساء المعروف بیگم سمرو کی حیات کایہ مختصر خاکہ ہے جس کے پس منظر میں ہندوستان کی پچاسی سالہ تاریخ رقم ہوئی ہے۔ اصل چیز جو اس کتاب کو گرانقدر اور وقیع بناتی ہے،وہ ہے جناب رضا علی عابدی کی طرزِ تحریر۔ اختصار اور جامعیت کا ہنر ایک مشکل ہنر ہے جس پر ہر شخص دسترس نہیں رکھتا۔ جناب رضا علی عابدی اس فن میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ اضافی جملے یا الفاظ تحریر کرنے سے احتیاط برتتے ہیں۔سادگی و سلاست کے ساتھ بہتے ہوئے دریا کی روانی کی طرح ان کے قلم سے جملے تحریر ہوتے جاتے ہیں۔بھاری بھرکم جملوں اور عبارتوں سے اپنی تحریر کو بوجھل نہیں کرتے بلکہ سادگی میں پُرکاری کو ملحوظ رکھنے کا ڈھنگ ان کی تحریروں کو پُراثر بناتا ہے۔بیگم سمرو کی حیات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ متعلقہ عہد کے نشیب و فراز اور عروج و زوال پر ان کی گہری نظر ہے۔سیاست و معاشرت کی ہر کروٹ کا انہوں نے باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔یہ کتاب نہ صرف تاریخی حقائق کو بیان کرتی ہے بلکہ ستھرے ادبی ذوق کی تسکین کا سامان بھی فراہم کرتی ہے۔کتاب کے آخر میں اٹھارہ تصویریں بھی شامل کی گئی ہیں جن میں بیگم سمرو کی تصویریں،ان کے محل کے کھنڈرات جن میں اب مدرسے ہیں،ان کی یورپی طرز کی عمارت جو اب کالج میں تبدیل ہوچکی ہے،سردھنا کے چرچ وغیرہ شامل ہیں۔اس کتاب کو سنگ میل پبلی کیشنز ،لاہور نے شائع کیا ہے۔سرورق پر بیگم سمرو کی تصویرہے اور بیک کور پر جناب رضا علی عابدی نے’’وہ کون تھی؟‘‘ کے عنوان کے ساتھ چند سطروںمیں بیگم سمروکی حقیقت کونچوڑ کر پیش کردیا ہے نیز بدلتے ہوئے وقت کی کروٹوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔کتابت و طباعت عمدہ ہے لیکن پروف ریڈنگ کی معدودے چند غلطیاں رہ گئی ہیں جنہیں قاری اپنے شعور وادراک سے تصحیح کرسکتے ہیں۔جناب رضا علی عابدی کی اس تصنیف کو بلا شبہ ایک تاریخی اثاثہ اور اردو ادب میں ایک اہم اضافہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page