تخلیقی ذہانت خداداد ہوتی ہے اور اس کے آثار شروع میں ہی ظاہر ہونے لگتے ہیں۔یہ خلاقی ذہن کثیر الجہات بھی ہوتا ہے اور کبھی کبھی مخصوص صنف کے لئے، پھر اگر ہم اردو ادب کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں ایسے قلم کار ملیں گے جنہوں نے ادب کو نثری اور شعری دونوں سرمائے سے مالا مال کیا ہے۔ اردو ادب میں شعری اور نثری خدمات انجام دینے والوں کی ایک طویل فہرست ہے کچھ ‘خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئی” کے مصداق کھو گئے یا کھو دئے گئے مگر ان قلم کاروں میں ایک قلم کار ایسا بھی تھا جس نے اپنا نقش ایسا چھوڑا کہ آج تک تابندہ ہے۔جاسوسی ناولوں کا اپنا ایک دور رہا ہے اس کا اسیر ایک وسیع حلقہ برسوں تک رہا اور آج بھی جب کہ ان ناولوں کا دور نہ رہا، اس کے قدردان جن کے جاسوسی ناولوں کو پڑھنا پسند کرتے ہیں ان کا نام اسرار احمد جنہیں اردو ادب میں ابن صفی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ابتدائی دور میں انہوں نے کہانیاں لکھیں اور شاعری بھی کی ،شاعری انہوں نے اسرار ناروی کے نام سے کی،ابن صفی کے قلمی ناموں میں طغرل فرغانہ اور سنکی سولجر بھی شامل ہیں۔
ناول نگاری کو مقبولیت دلانے میں ابن صفی کا کارنامہ اہم ہے اور کسی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ان کے ناولوں کا اسلوب اور ان کا انداز بیان یکتا تھا۔ لیکن اس مضمون میں ہمیں ابن صفی کی شاعری کے حوالے سے گفتگو درکار ہے۔
۔کوئی تعمیر یا تخلیق وجود میں آنے سے قبل اس معمار اور تخلیق کار کے ذہن میں تیار ہو چکا ہوتا ہے بس وہ اس تخیل کو ایک شکل دیتا ہے۔میں تخلیق کو احساس کا ترجمان مانتا ہوں شاعری اس سے مبرا نہیں۔شاعری تو بے شک احساس دل کا لطیف تر اظہار ہے اور اس احساس کے اظہار میں جب ہماری نظر اس بڑے جاسوسی ناول نگار کی طرف پڑتی ہے تو وہ ایک بہترین ناول نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین شاعر بھی دکھائی دیتے ہیں
پوری کائنات میں خالق نے زمین کو بہت مرتبہ بخشا ہے۔یہ زمین نہ ہوتی تو آسمان ، سورج،چاند ستارے،دریا پہاڑ،دشت وغیرہ کی کوئی ضرورت ہی نہ ہوتی اس کائنات کے سجنے کی وجہ تخلیق ارض ہے۔شاعر زمین کی اس اہمیت کو یوں بتاتے ہیں۔
چاند کا حسن بھی زمین سے ہے
چاند پر چاندنی نہیں ہوتی
ابن صفی جس طرح اپنی کہانیوں میں تجسس پیدا کرتے ہیں اس کے برعکس اپنے اشعار میں سادگی سلاست سے کام لیتے ہیں۔عام طور سے ہم اس روش کی پاسداری کرتے ہیں کہ دخیل و ثقیل الفاظ کا استعمال اور پیچیدگی شعر کا حسن بڑھاتا ہے تو اس نظرئے سے کلی طور پر اتفاق نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ اردو کے نامور شعراء کے آسان اشعار ہی مشہور و مقبول ہوئے ہیں۔اس بات کی حمایت میں مومن کا وہ شعر پیش کرنا چاہوں گا جس کو سننے کے بعد غالب اپنا دیوان دینے کو تیار تھے۔
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
اس شعر میں کون سا لفظ ہے جس کو سمجھنے کےلئے لغت کی ضرورت پیش آئے گی اور کون سی مشکل صنعت یا شاعرانہ صلاحیت کا اظہار ہوا ہے جس پر غالب جیسا شاعر فدا تھے۔کچھ تو بات تھی اور وہ بات میری نظر سے اس شعر کا حسن خیال ہے۔اردو شاعری میں کلاسیکی شعراء سے عصر حاضر کے شعراء تک ان شعراء کو ہی مقبولیت عام حاصل ہوئی جنہوں نے اپنے خیال کی ترسیل کے لئے آسان اور عام فہم الفاظ کا استعمال کیا اور کلام میں کوئی الجھاؤ نہیں رکھا۔اس تناظر میں جب ابن صفی کی شاعری کو دیکھتے ہیں تو ہمیں وہی اوصاف دکھائی دیتے ہیں جو شاعری عوام و خواص دونوں حلقوں میں یکساں مقبول ہوتی ہے۔قدیم شاعری کی ایک جھلک سے محظوظ ہوں۔
اس بے وفا پہ بس نہیں چلتا تو کیا ہوا
اڑتی رہیں گی اپنے گریباں کی دھجیاں
ابن صفی کی غزلوں میں روایتی مضامین کے ساتھ عصری مسائل کی عکاسی بھی ملتی ہے۔ ہر دن بدلتی دنیا میں انسانی ترقی تو ہوئی ہے مگر انسانیت مرتی جارہی ہے۔کہیں مذہب،ذات،زبان کے جھگڑے ہیں کہیں برتری اور حکومت کی جنگ اور ان تمام کاموں میں لوگ ملوث ہیں۔آج سب سےسچا وہی ہے جو سب سے زیادہ جھوٹ بولے اور وہ بھی سچ کے سینے پر چڑھ کر بولے۔سب سے مہربان وہی ہے جو لاکھوں کو کنگال بنا سکے۔جو بھی ہاتھ اٹھتے ہیں زخم دیتے ہیں پھر ان بے رحم ہاتھوں سے زخم کی امید لا حاصل ہے۔
مسیح کون بنے سارے ہاتھ آلودہ
لہولہان ہے دھرتی کہاں سے مرہم آئے
دل سا کھلونا ہاتھ آیا ہے
کھیلو توڑو جی بہلاؤ
ابن صفی نے مزاحیہ مضامین بھی لکھا ہے اور عمدہ مزاح لکھا ہے۔آب حیات کی طرز پر اب وفات( پیروڈی ) لکھنے والے ابن صفی ابتدائی دور میں شاعری سے ہی وابستہ تھے۔عباس حسینی کے ماہنامہ نکہت میں ابن صفی شعبہ شاعری کے نگران تھے۔یہ 1948 کی بات ہے، لہذا شاعری کی فنی خوبیوں سے بخوبی آشنا تھے ان کی شاعری میں گہرے رمز اور مفہوم کی تہہ داری تو نہیں ملتی مگر دنیا کی، دنیا کے کاروبار کی اور دنیا والوں کی حقیقی تصاویر ملتی ہیں۔حساس طبیعت کی غمازی ملتی ہیں۔
اک مرض کے ہزار ہیں نباض
پھر بھی تشخیص ہی نہیں ہوتی
ابن صفی نے اپنی زندگی میں ایک ایسا بھی وقت گزارا تھا جب سب کچھ ختم ہونے کی دہلیز پر تھا جب وہ Schizophrenia کے مرض میں مبتلا رہے مگر مشیت ایزدی کچھ اور تھی اور مرض سے نکلنے کے بعد اردو ادب کا یہ قلم کار مزید توانائی سے کام کرنا شروع کیا۔ابن صفی نے زندگی کے اتار چڑھاؤ کو بہت قریب سے محسوس کیا۔دنیا کی بدلتی ریت اور ان بدلتی ریتوں میں انسان کی خصلتوں اور محبتوں کا انہوں نے گہرا اثر قبول کیا۔
بالآخر تھک ہار کے یارو ہم نے بھی تسلیم کیا
اپنی ذات سے عشق ہے سچا باقی سب افسانے ہیں
اردو شاعری کی خصوصیات میں موضوع عشق و محبوب کا تذکرہ لازم و ملزوم ہے۔شاعروں نے اپنے محبوب کو کیا کیا نہ استعارے و تشبیہات دئے ، یقین جانئے کہ اردو ادب میں جتنی بھی تحاریک نے حقیقت پسندی،مادیت،مقصدیت اور وجودیت کو اہمیت دی ہو مگر عشق و معشوق کا تذکرہ ہر دور میں ہوتا رہا ہے لہذا بقول خدائے سخن میر تقی میر ” ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے………اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے” ابن صفی کے ہاں بھی اس خیال کی پاسداری ملتی ہے۔
جو نہ گزرے پری وشوں میں کبھی
کام کی زندگی نہیں ہوتی
ان کی بانہوں کے حلقے میں عشق بنا ہے پیر طریق
اب ایسے میں بتاؤ یارو کس جا کفر کدھر ایمان
بجھ گیا دل تو خرابی ہوئی ہے
پھر کسی شعلہ جبیں سے ملئے
پچھلی شب چاند میرے ساغر میں
پے بہ پے بار بار اترا ہے
موصوف کے اشعار میں پرواز تخیل ,وسعت فکر و نظر ، صفائی بیان،فکر تازہ،لطف زبان اور الفاظ کا عمدہ انتخاب ملتا ہے۔الفاظ کی کثرت نہیں ملتی اس لئے مفہوم گم نہیں ہوتے۔نئے اور اچھوتے مضامین کو شعری پیکر دینا بلا شبہ شعر گوئی کا حسن ہے تو ساتھ ہی روایاتی موضوعات کو نئے طرز اور انوکھے ڈھنگ سے برتنا بھی شعری محاسن کا ایک عنصر ہے۔ابن صفی کے اشعار میں روایاتی موضوعات کی منفرد پیشکش متاثر کرتی ہے۔
کیوں حرم میں یہ خیال آتا ہے
اب کسی دشمن دیں سے ملئے
اسی کی چارہ گری میں گزر گئی اسرارؔ
تمام عمر کو کافی تھا اک شباب کا زخم
میں سنگسار جو ہوتا تو پھر بھی خوش رہتا
کھٹک رہا ہے مگر دل میں اک گلاب کا زخم
ابن صفی کی شاعری میں عصری تقاضے بھی ملتے ہیں۔جس بانکپن سے انسانی تہذیب نے کروٹ لی ہے اس کے بعد ادب نے بھی اپنا پہلو بدل لیا۔ادب میں جہاں نشاطیہ عناصر ،شگفتگی اور شادمانی تھیں وہیں عصری حقائق ،انتشار اور بے سروسامانی،اعتبار کا فقدان، خوشگوار دن کی ڈھلتی شام نے لے لی۔کوئی بھی حساس اور ذی شعور ان کربوں سے کنارہ نہیں لے سکتا۔موصوف کے بیاض میں اس قبیل کے اشعار بھی ہیں جن میں موصوف نے بدلتے زمانے کا احساس ظاہر کیا ہے۔
بس ایک ہم ہی لیے جائیں درس عجز و نیاز
کبھی تو اکڑی ہوئی گردنوں میں بھی خم آئے
تنہائی سی تنہائی ہے کیسے کہیں کیسے سمجھائیں
چشم و لب و رخسار کی تہ میں روحوں کے ویرانے ہیں
ہم خود ہی کرتے رہتے ہیں فتنوں کی پرورش
آتی نہیں ہے کوئی بلا ہم پہ ناگہاں
اپنے یومِ ولادت کے دن ہی اپنے مالک حقیقی سے جا ملنے والے اس شاعر کو شہرت تو ایک جاسوسی ناول نگار کے طور پر ملی مگر ان کی شاعری بھی قابل قدر اور لائق مطالعہ ہے۔ابن صفی کا شعری سرمایہ اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہے۔میں اس شاعر کے ایک شعر کے ساتھ اپنی بات کو تھوڑا وقفہ دیتا ہوں۔
لکھنے کو لکھ رہے ہیں غضب کی کہانیاں
لکھی نہ جا سکی مگر اپنی ہی داستاں
نسیم اشک
ہولڈنگ نمبر : 10/9،گلی نمبر:3، جگتدل ،24 ؍پرگنہ ،
مغربی بنگال
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
1 comment
واہ زبردست ۔۔۔بہت عمدہ ۔۔۔کیا بات ہے۔۔۔۔۔اللہ مزید لکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین