ملک محسن رضا، ایم فل اردو،حافظ آباد، پنجاب پاکستان
شناختی کارڈ نمبر:3430137596243
موبائل نمبر:03454830129
ای میل: mohsinphullarwan@gmail.com
اکیسویں صدی تک آتے آتے اردو افسانے نے کئی سفر طے کیے۔ اس کا واسطہ حقیقت نگاری سے بھی پڑا اور رومانویت سے بھی۔اس نے علامت و تجرید سے بھی آنکھیں چار کیں اور ترقی پسندی سے بھی متاثر ہوا۔ اردو ادب میں ما بعد جدید افسانے کا ظہور 1970ء کے آس پاس ہوا جب قاری اور ناقد نے ترقی پسندا فسانے اور جدید افسانے سے بیزاری کا اظہار کیا۔ اس دور میں غیاث احمد گدی، انور قمر، انور خاں اور سلام بن رزاق نے ما بعد جدید افسانے لکھے۔ اکیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں ما بعد جدید افسانہ تواتر سے لکھا گیا۔ قاری کی واپسی مابعد جدید افسانے کا اعجاز ہے۔ما بعد جدید افسانہ، جدید افسانے کی طرح نہ سماجی مسائل سے آنکھیں چراتا ہے نہ ترقی پسند افسانے ہی کی طرح فردیت سے انکاری ہے۔ یہ وژن، ادارک، واردات، اسلوب، ہیئت، سماجی و وجودی مسائل کو بہ یک وقت بروئے کار لاتا ہے۔ شوکت حیات ما بعد جدید افسانے کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ما بعد جدید افسانہ وہ تخلیقی صنف ہے جس میں بہ یک وقت فکر، استدلال، لا شعور، تحت الشعور، شعور، ڈلبریشن، واردات، تکنیک، ہیئت، اسلوب، ادراک، وژن رچے بسے اور گھلے ملے ہوتے ہیں۔ غالباً اسی لیے تمام تخلیقی اصناف میں اس صنف کا آج کی زندگی اور لازوال زندگی کے تناظر میں بیش قیمت رول اور اہمیت تسلیم کرنا پڑتی ہے۔ شاید زندگی اور انسانی سائیکی کی تصویر گری کے لیے اس سے بہتر کوئی اور تخلیقی صنف نہیں ہو سکتی۔ ۔۔۔۔ آج کے افسانے کو ریڈیکل افسانہ، ما بعد جدید افسانہ، اکیسویں صدی کا افسانہ خواہ کوئی بھی نام دیا جائے۔ اس کا اولاً افسانہ ہونا اور زندگی اور قاری سے جڑا ہونا ہی اس کی معراج ہے”“۔(1)
اکیسویں صدی کا افسانہ، جدید افسانے کی طرح آفاقی مسائل کی تلاش میں در بہ در نہیں ہو رہا بلکہ اس کے خون میں تہذیب و ثقافت اور اپنی مٹی کی حرارت بھی زیر گردش ہے۔ یہ برصغیر کی عظیم الشان کلاسیکی روایات سے سرمو انحراف نہیں کرتا۔ ترقی پسند افسانے کا سارا زور مقصدیت، انقلابیت اور پروپیگنڈے پر تھا۔ قدیم متون، دروں بینی، فردیت اور وجودیت سے اس نے دانستہ چشم پوشی اختیار کی۔ اس انتہا پسندی کی بدولت ترقی پسند افسانہ خطابت، اشتہاریت اور انقلابی پروپیگنڈے کا ملغوبہ بن کر رہ گیا۔ دوسری طرف جدید افسانہ آفاقیت کی تلاش میں مقامیت سے صرف نظر کرتا تھا۔ اسے سماجی تفاعل اور خارجیت سے احتراز تھا۔ ترقی پسند افسانہ ہو یا جدید، دونوں میں اتھارٹی مسلم تھی۔ ما بعد جدید افسانے نے اتھارٹی کو رد کیا ۔ تکنیکی اور اسلوبی جمود توڑا۔ فکر و خیال پر لگی جکڑ بندیوں سے نجات دلائی۔آج کے افسانے نے جہاں فرد کے وجودی مسائل کو موضوع بنایا، وہاں ترقی پسند مواد پر بھی کوئی قدغن نہیں لگائی۔ بس مواد فارمولا ٹائپ نہ ہو۔ اشتہاریت اور خطابت نہ ہو۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ افسانہ میں بیانیہ کی واپسی ہوئی ہے اور قاری بھی افسانے کی طرف مائل ہوا ہے۔ افسانہ میں تہذیبی، اساطیری و تمثیلی پہلو، سماجی تفاعل اور محبت کی کہانی کی واپسی ہوئی ہے۔ مولا بخش اپنے مضمون ”معاصر اردو افسانہ۔۔۔ مابعد جدید رجحانات“میں لکھتے ہیں:
”ما بعد جدید افسانہ تکنیکی جمود کو توڑتا ہے اور کسی اسلوب،خاص موضوع پر زور نہیں دیتا۔ نہ فرد اہم نہ محض فارمولہ، نہ سماجی شعور کا شور، نہ محض Private Symbols کی کھتونی ، نہ Social Symbols کی تکرار، وہ تو بیانہ میں ہی رمز پیدا کرنے کے حق میں نظر آتاہے۔ تمثیل کا استعمال اب شخصیانے والے عمل کا نام نہیں ہے۔ بہ قول نارنگ Extended Metaphorکا انداز ہے جیسا کہ سید محمد اشرف نے اپنے افسانوں میں ایک نیا پنچ تنتر لکھنے کی سعی کی ہے۔۔۔۔۔۔ جدید افسانہ جو محض داخلی تھا، اب اس میں تہذیبی پہلو کو داخل کرنا، سماجی علوم اور فکشن کے تصادم سے افسانے کی ہیئت میں زبردستی تبدیلی لانا، خود کو افسانے میں ہیرو بنانے کے رویے سے گریز کرنا اور محبت کی کہانی کی واپسی وغیرہ ما بعد جدید افسانہ کی اہم پہچان ہیں“۔(2)
ما بعد جدید افسانے میں موجودگی سے زیادہ غیاب کا التزام رکھا جاتا ہے۔ افسانہ نگار متن میں ایسے خالی منطقے چھوڑ دیتا ہے جہاں قاری من مرضی کے بیل بوٹے اُگا سکتا ہے۔ قرات کے عمل سے قاری ان خالی جگہوں میں مرضی کے رنگ بھر کے مسرت و شادمانی محسوس کرتا ہے۔ گویا ما بعد جدید افسانے کو تکثیر معانی کا حامل بنایا جاتا ہے۔ مثلاً نیّر مسعود کے افسانہ ”مارگیر“ سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
”یہ جنگل سے میرا پہلا سابقہ تھا۔ مجھے وہاں کی فضا مرطوب محسوس ہوئی جو آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ زیادہ مرطوب ہوتی جا رہی تھی۔ میں پرانے درختوں اور مرجھائی ہوئی بیلوں کے درمیان بڑھ رہا تھا ۔کہیں کہیں درختوں کی ٹیڑھی میڑھی قطاروں کے بیچ میں گلیارے بن گئے تھے۔ ان گلیاروں میں مٹی کے اندر سے ابھری ہوئی موٹی پتلی بے شمار جڑوں کے جال بچھے ہوئے تھے اور یہ اندازہ کرنا مشکل تھا کہ ان جڑوں کے درخت کہاں ہیں۔ البتہ کہیں کہیں کوئی سوکھا درخت آجاتا اور میرے پیروں کے نیچے بچھے ہوئے جال میں سے کوئی جڑ چٹخ کر ٹوٹ جاتی اور میں سمجھ لیتا کہ یہ جڑ اسی درخت کی تھی“۔(3)
بیسویں صدی کا تخلیق کار جب افسانہ میں منظر نگاری کرتا تھا تو اُس منظر کے سارے اجزا اس طور بیان کرتا تھا کہ ایک ایک چیز کا نام تک لکھ دیتا تھا۔ منظر نگاری اور بیانیہ میں کوئی چیز، واقعہ یا مظہر فطرت غیر واضح نہیں ہوتا تھا۔ اس سے قاری کو ان دیکھی اشیاء، مظاہر اور مناظر سے جان کاری تو خوب ہوتی تھی لیکن فن پارہ محض فن کار کا ذاتی تجربہ بن کر رہ جاتا تھا۔ فن پارہ خاص فضا، مقام اور زمان و مکاں میں مقید ہو کر رہ جاتا تھا ۔ما بعد جدید یت نے افسانہ نگار کو متن میں قاری کو شامل کرنے کی راہ سجھائی۔درج بالا اقتباس میں مصنف کا جنگل میں پہلی مرتبہ جاتا ہوا ہے۔ افسانہ نگار نے جنگل کا مقام اور محلِ وقوع نہیں بتایا۔ درختوں کے نام بھی نہیں بتائے گئے۔ فقط یہ بتایا ہے کہ آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ فضا زیادہ مرطوب ہوتی جا رہی تھی۔ گلیارے کا لفظ دے کر قاری کو پھول کا تصور تو دیا ہے لیکن یہ صراحت موجود نہیں کہ پھول کس قسم کے ہیں؟اب قاری اس متن کو پڑھ کر اپنے تخیل کی مدد سے جنگل اور اس کی فضا کا نقشہ کھینچ سکتا ہے۔ مصنف اور متن نے قاری کو ایسا کرنے کی خود آزادی فراہم کی ہے۔نیّر مسعود ہی کے افسانے”نصرت “ سے ایک اقتباس مزید ملاحظہ فرمائیں:
”جس دن وہ ہمارے یہاں آنے والی تھی اس دن مکان کا بیرونی کمرہ خوب صاف کیا گیا اور اس میں کئی نشستیں بڑھا دی گئیں۔ کمرے کی مزید آرائش کے لیے اس میں کئی نوادر کا اضافہ کا گیا جن میں سے بعض سیکڑوں سال پرانے تھے۔ اس انتظام میں بزرگوں نے مجھ سے بھی کام لیا“۔(4)
یہاں افسانہ نگار”مکان کا بیرونی کمرہ“ تو بتاتا ہے لیکن کمرے کا مخصوص نام جیسا کہ ڈرائینگ روم نہیں تحریر کرتا تاکہ قاری خود اپنی سوجھ بوجھ اور فہم و فراست سے مطالب و مفاہیم اخذ کرے۔ ڈرائنگ روم سے مراد خاص کمرہ ہے جس کی تزئین و آرائش بیٹھک سے مختلف ہے۔ ڈرائنگ روم شہری زندگی سے منسلک ہے تو بیٹھک دیہاتی زندگی سے وابستہ ہے۔اور ڈرائنگ روم یا بیٹھک کے علاوہ کوئی اور کمرہ بھی تو ہو سکتا ہے ۔ کمرے کی وسعت مذکور نہیں لیکن اتنا بیان ملتا ہے کہ کمرے میں کئی نشستیں بڑھا دی گئیں۔ نوادر کے ضمن میں یہ صراحت نہیں کی گئی کہ کون کون سی نوادر ہیں؟ البتہ متن میں یہ بتایا گیا ہے کہ سیکڑوں سال پرانی ہیں۔ متن میں غیاب کے وسیلے سے معانی و مفاہیم کی یہی موجودگی در اصل افسانے یا فن پارے کو کثرت معانی کا حامل بناتی ہے۔ ما بعد جدید افسانے کا یہ طریقِ کار افسانے کی شعریات میں نیا اضافہ ہے۔ طارق چھتاری، ما بعد جدید افسانے میں قاری کی شمولیت کے تعلق سے لکھتے ہیں:
”ما بعد جدید افسانے میں موجودگی سے زیادہ غیاب کی اہمیت ہے کیوں کہ غیاب ہی وہ خلا ہے جسے پر کرتے وقت قاری فتح کا احساس کرتا ہے اور کہانی میں پوری طرح involveہوجاتا ہے۔ یہ افسانہ نگار کی فن کاری پر منحصر ہے کہ وہ افسانے کی تخلیق اس نہج پر کرے کہ قاری ہر منزل پر اپنا فرض ادا کرنے کے لیے موجود رہے“۔(5)
بیانیے اور اسلوب کا یہی بدلا ہوا انداز اکیسویں صدی کے افسانے کی پہچان ہے۔ پریم چند کا ”کفن“کرشن چندر کا ”آدھے گھنٹے کا خدا“،قرۃ العین حیدر کا ”نظارہ درمیاں ہے“، قاضی عبد الستار کا ”پیتل کا گھنٹا“، غیاث احمد گدی کا ”ایک خون آشام صبح“، اقبال مجید کا ”دو بھیگے ہو ئے لوگ“، انور قمر کا” ذبیحہ“، نیّر مسعود کا ”عطر کافور“، شموئل احمد کا ”سنگھار دان“، خالد جاوید کا ”برے موسم میں“، گلیری کا ”اس نے کہا تھا“، منٹو کا”ہتک“، ”ٹوبہ ٹیک سنگھ“،”دھواں“، ”بو“، بیدی کا ”لاجونتی“، عصمت چغتائی کا ”چوتھی کا جوڑا“ وغیرہ ایسے افسانے ہیں جن کو ترقی پسند افسانہ، جدید افسانہ یا ما بعد جدید افسانہ کی اصطلاحات میں مقید نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ کسی مخصوص نظریے یا رجحان کی حد بندی سے ماورا ہیں اور آفاقیت کے حامل ہیں۔ یہاں پر یہ بات نشان خاطر رہے کہ فن اور تخلیقت کا بھید کسی اصول یا ضابطے میں نہیں سما سکتا۔ حقیقت نگاری ہو یا رومان نگاری، جدیدیت طرازی ہو یا ترقی پسندی، مثالی افسانہ کسی تحریک یا رجحان کی دین نہیں ہوتا بلکہ افسانہ نگار اپنی تخلیق اُپچ سے شاہ کار تخلیق کرتا ہے۔
مابعد جدید افسانہ، جدید افسانے کی طرح آفاقیت کی تلاش میں مقامیت سے صرفِ نظر نہیں کرتا۔ آج کے افسانے میں مقامی، تہذیبی و ثقافتی رنگوں کا نہایت حسین امتزاج ملتا ہے۔ نیّر مسعود کے افسانے اس کی بہترین مثال ہیں۔ مشرف عالم ذوقی کے ہاں بہ یک وقت مقامی اور عالمی کلچر دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے افسانوں میں ”گاؤں“ موجود ہے۔” ہم تمہیں بھول چکے ہیں منگرو“،” بچھونا“، ”ایک پرانی وستک کی گچیا“ ،” رجو بھک منگا“، ”لیپروسی کیمپ کے بوڑھی “وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔
ما بعد جدید افسانے میں حاشیے پر موجود موضوعات،اقدار اور کرداروں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ کچلے ہوئے طبقات کی آواز نمایاں ہے۔ دلتوں کے حوالے سے لکھا جا رہا ہے۔مولا بخش، مابعد جدید افسانے کے تعلق سے لکھتے ہیں:
”ما بعد جدید افسانے میں حقیقت ، فن تاسی اور یاد سے بہ یک وقت کام لیا جاتا ہے۔ ما بعد جدید افسانے میں تانیثی اقدار کی نئی بازیافت ہوئی ہےیعنی آج کی ناری نے پورے ادب اور ادبی تصورات کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے، یہی نہیں، دبے کچلے لوگوں کو بھی ابھارا گیا ہے۔ حاشیہ مرکز اور مرکز حاشیہ میں بدل رہا ہے۔ سوامی ویکانند نے کہا تھا، اکیسویں صدی دلتوں کی صدی ہوگی۔ آج امریتا سین کو یوں ہی نوبل انعام نہیں مل گیا۔ انھوں نے زمانے کے تقاضے کے مطابق اپنی اقتصادیات میں اسی طبقے کے لیے فکر مندی دکھائی ہے۔ دلتوں کے ادب کے ذریعے ہندوستان کے ما بعد جدید سماج کا اظہار ہوتا ہے اور ما بعد جدید تہذیب کی باز تشکیل ہو رہی ہے“۔(6)
جابر حسین کو دلتوں پر ہو رہے مظالم کو آشکار کرنے میں اولیت حاصل ہے۔ ”سن اے کاتب“ کی تمام کہانیوں میں دلتوں پر ہو رہے مظالم کے خلاف اٹھتی بغاوت کو اجاگر کرنے کی سعی ملتی ہے۔ انجم عثمانی کا ”شہر گریاں کا مکیں“، ”چھوٹی اینٹ کا مکان“، ”فریب گزیدہ“ اور ”ٹھہرے لوگ“ گاؤں کی تہذیب کی طرف مراجعت کی داستان ہیں۔ کردار شہر بس جانے کے بعد بھی اپنے گاؤں اور کلچر کے لیے ایسا جذبہ رکھتے ہیں جس کی مثال نہیں ملتی۔ محسن خاں نے ”لازوال“میں مشرقی یوپی کے گاؤں کو بہت حسین پیرائے میں بیان کیا ہے۔ انجم عثمانی، الیاس احمد گدی، عبد الصمد، محمد حمید شاہد، ناصر عباس نیّر، عرفان جاوید کے افسانوں میں مشرقیت اور جڑوں کی تلاش کا عمل کار فرما ہے۔
اساطیر، افسانوی، ادب کی جڑیں ہیں۔ اساطیری کردار اور کہانی کو بہ طور علامت استعمال کرنے کا رُجحان دنیا کے ہر ادب میں ملتا ہے۔ اسطور میں کہانی لکھنا قارئین کے Visual Effectکو متن میں شامل کرنا ہے۔ گوپی چند نارنگ کے مطابق اساطیر افسانے اور کہانی کے لیے استعاراتی تفاعل کا کام کرتی ہیں۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نئے افسانے اور استعاراتی تفاعل کے تعلق سے لکھتے ہیں:
”یہ بات نظر انداز کر دینے کی نہیں کہ بہ حیثیت ایک صنف کے کہانی کا اپنا ایک جوہر ہے۔ اس کہانی کا Kernelکہتے ہیں یا تّتو، یہ جوہر تو لازماً افسانے میں ہونا ہی چاہیے۔ اس جوہر کی حفاظت میں ہمارے اساطیر، کتھاؤں اور حکایتوں نے صدیاں کھپا دیں۔ اس جوہر کا کلیتاً مسترد کرنا در اصل خود اپنے رد کو دعوت دینا ہوگا۔ شاید اسی جوہر کے جمالیاتی فشار کے لاشعوری تقاضوں کی بنا پر ہمارا نیا افسانہ اتنا علامتی نہیں جتنا تمثیلی ہے، اور تمثیلی ہوتے ہوئے استعاراتی تفاعل کی معنیاتی تہ داری سے بے نیاز نہیں۔چناں چہ افسانہ خواہ علامتی تمثیلی ہو یا حقیقت نگاری کا ہو، اگر وہ کہانی کے صنفی جوہر سے تہی دامن نہیں اور اظہار کے گہرے معنیاتی تفاعل سے ذہن و شعور کی نئی سطحوں کو پیش کرتا ہے، نیز آج کے نئے مسائل سے بھی بے تعلق نہیں، تو وہ یقیناً افسانہ ہے اور ایسے افسانے میں بغاوت کا شعلہ کبھی بجھ نہیں سکتا“۔(7)
چناں چہ کہانی مابعد جدید افسانے کا اہم جوہر ہے۔علامتی یا جدید افسانے کی کہانی قاری پر کھلتی نہیں تھی۔اس لیے کہا گیا کہ علامتی افسانہ کہانی سے عاری ہے۔کہانی کی واپسی کے تعلق سے ڈاکٹر خالد سہیل کا ایک شعر:
بڑھاپے میں دبے پاؤں جوانی لوٹ آئی ہے
کہ جیسے اب فسانے میں کہانی لوٹ آئی ہے
انتظار حسین اور قرۃ العین حیدر نے تاریخ اور دیو مالا، حکایت، داستان اور تمثیل کی مدد سے زندگی ، کائنات اور اس کے مسائل کو سمجھنے سمجھانے کی سعی کی ہے۔ دوسرے افسانہ نگاروں طارق چھتاری، سید محمد اشرف، اقبال مجید، منشا یاد، نیّر مسعود، سریندر پرکاش وغیرہ نے بھی جزوی طور پر ان عناصر کو اپنے افسانوں میں بروئے کار لایا ہے۔ آج کا افسانہ چرب زبانی اور لفظوں کے گورکھ دھندے کا نام نہیں بلکہ یہ زندگی اور اس کے مسائل کو ساتھ لے کر چلنے سے عبارت ہے۔ محمد حمید شاہد، آج کے افسانے کے تعلق سے لکھتے ہیں:
”آج کا افسانہ کسی نظریے اور فلسفے کی تصریح کا بوجھ اپنے کندھوں پر نہیں اٹھاتا کہ یہ تو زندگی کی گہری معنویت کا امین ہے۔ یوں نہیں ہے کہ آج کا افسانہ دانش سے تہی ہے بلکہ یوں ہے کہ یہ عقل اور عقل کی جبریت کی بجائے تمثیلی حکمت کو مانتا ہے۔ یہ باہر کی دنیا کی علت و معلول کو رد کیے بغیر اس کے مقابل کہانی کے اندر علت اور معلول کے نظام کو رکھ کر قاری پر انسانی توفیقات کے نئے امکانات رکھ دیتا ہے۔ انھی امکانات سے آج کے اردو افسانے کا منظر نامہ بن رہا ہے“۔(8)
ما بعد جدید افسانوں کا ایک دلچسپ انداز ،بین المتونیت (Inter Textuality)ہے۔ متن سے متن بنانے کا عمل باز تشکیل کا عمل ہے۔ متن کی تعمیر میں مختلف متون کی شرکت و شمولیت مشرقی ادب کا خاصہ رہی ہے۔ جدید افسانے پر اسطور ہی کا چوکھا رنگ چڑھا تھا۔ جب کہ ترقی پسند افسانہ اساطیر سے صرفِ نظر کرتا تھا۔ ما بعد جدید افسانہ ترقی پسند مواد اور جدید یت کے موضوعات دونوں کو اپنے دامن دل میں جگہ دیتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ خطابت، پروپیگنڈا، تجریدیت، بے نام کرداروں ، فرسودہ اور پامال موضوعات سے اپنا دامن چھڑا چکا ہے۔ پریم چند، راجندر سنگھ بیدی وغیرہ جیسے بڑے افسانہ نگاروں کے متن پر نیا متن بنانے کا عمل بھی ما بعد جدید افسانہ نگار کا اعجاز ہے۔ سریندر پرکاش کے افسانوں”بجوکا“، ”پیاسا سمندر“،”بازگوئی“، ”گاڑی بھر رسد“ کے علاوہ جابر حسین کا افسانہ”لال ٹوپی والا نایک“ اور عابد سہیل کا ”عید گاہ“ وغیرہ بین المتونیت کی اہم مثالیں ہیں۔
ما بعد جدید فسانہ اجتہاد سے عبارت ہے۔ بغاوت کا نام ہے۔ بازیافت کا عمل ہے۔ یہ فن کو اس کی معراج تک پہنچانے سے عبارت ہے۔ اپنے مضمون”ما بعد جدید افسانہ“ میں شوکت حیات اکیسویں صدی کے افسانے کے تعلق سے لکھتے ہیں:
”ما بعد جدید افسانے نے کرداروں کو ان کے چہرے واپس کیے ہیں۔ ان کے ہاتھوں اور پیروں میں پڑی ہوئی بیڑیوں کو توڑا ہے۔ انھیں زندگی کی آزاد فضا میں از خود نقل و حرکت کا موقع فراہم کیا ہے۔ ان کے چہروں کے طبقاتی اور ثقافتی بہ یک وقت تشخص کے دونوں نشانات کو فوکس کیا ہے۔ ما بعد جدید افسانے کے دائرے سے کہیں کچھ چھوٹتا نہیں اور جو کچھ چھوٹتا ہے وہ ازکارِ رفتہ اور تخلیقی طور پر غیر کار آمد ہوتا ہے۔ آج کے افسانے کو ریڈیکل افسانہ ، ما بعد جدید افسانہ، اکیسویں صدی کا افسانہ خواہ کوئی بھی نام دیا جائے اس کا اولاً افسانہ ہونا اور زندگی اور قاری سے جڑا ہو ہونا ہی اس کی معراج ٹھہرتا ہے“۔(9)
حوالہ جات:
1۔ حیات، شوکت(جنوری 2008ء تا جولائی 2009ء) ، ما بعد جدید افسانہ، مشمولہ مکالمہ، کتابی سلسلہ 17،مرتب: مبین مرزا، کراچی، اکادمی بازیافت، ص281
2۔ بخش، مولا(جنوری 2008ء تا جولائی 2009ء)، معاصر اردو افسانہ ۔۔۔ ما بعد جدید رجحانات، مشمولہ مکالمہ 17، مرتب: مبین مرزا، کراچی، اکادمی بازیافت، ص267
3۔ مسعود، نیّر(2015ء)، مجموعہ نیّر مسعود، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ص 361
4۔ ایضاً، ص 346
5۔ چھتاری، طارق(جنوری 2008ء تا جولائی 2009ء)، مابعد جدید افسانہ ۔۔۔ اردو کے تناظر میں، مشمولہ مکالمہ، کتابی سلسلہ 17، مرتب: مبین مرزا، کراچی، اکادمی بازیافت، ص 260
6۔ بخش، مولا(جنوری 2008ء تا جولائی 2009ء)، معاصر اردو افسانہ ۔۔۔ ما بعد جدید رجحانات، مشمولہ مکالمہ، کتابی سلسلہ 17، مرتب: مبین مرزا، کراچی، اکادمی بازیافت، ص 268
7۔ نارنگ، گوپی چند(جولائی 2006 ء تا دسمبر 2007ء)، نیا افسانہ ۔۔۔۔۔ علامت، تمثیل اور کہانی کا جوہر، مشمولہ مکالمہ، کتابی سلسلہ 16، مرتب: مبین مرزا، کراچی، اکادمی بازیافت، ص 167
8۔ شاہد، محمد حمید (2016ء)، اردو فکشن: نئے مباحث، فیصل آباد، مثال پبلشرز ، ص65
9۔ حیات، شوکت(جنوری 2008 تا جولائی 2009ء)، مابعد جدید افسانہ ، مشمولہ مکالمہ، کتابی سلسلہ 17، مرتب: مبین مرزا، کراچی، اکادمی بازیافت، ص 281
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page