شہری اور دیہی زندگی کا تصادم عام طور پر دو مختلف طرز زندگی کے پروردہ افراد کے درمیان کلچرل، سماجی، اقتصادی، اور زندگی کے دیگر پہلوؤں کا نتیجہ ہوتا ہے۔یہ تصادم مختلف وجوہات پر مبنی ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ایک ڈرامائی مکالمہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں:
ایک شخص عدالت کے کٹگھڑے میں کھڑا ہے، اس پر الزام عائد ہے کہ وہ گاؤں کےسڑک کی چوری کرتا ہے جسے کرتے ہوئے اس گاؤں کے سرپنچ نے اسےرنگ ہاتھوں پکڑا ہے۔ جب اس سے پوچھا جاتا ہے کہ اس نے یہ چوری کیوں کی تو اس کا جواب سن کر حیرت بھی ہوتی ہے اور انسان اس کی باتوں پر غور کرنے کے لئے مجبور بھی ہو جاتا ہے۔ وہ جج کے سامنے اعتراف کرتا ہےکہ ہاں میں نے سڑک کی چوری کی ہے۔چوری کا جواز بھی حیران کرنے والا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ جج صاحب ہم نے سر پنچ جی سےاچھے اسکول اور اچھے اسپتال مانگے تھے مگر انہوں نے اچھی سڑک دے دیں کہ جاؤ شہر جا کر اپنا علاج کراؤاوراپنے بچوں کو وہیں جا کر پڑھاؤ ، جج صاحب سڑک گاؤں میں آئی تھی سہولت لانے کے لئے پر یہ سڑک گاؤں کی خوشیاں ہی لے کر چلی گئی ۔آج گاؤں کے آنگن میں بوڑھے بزرگ چارپائی پر بیٹھے بچوں کی راہ تک رہے ہیں جنہیں یہ سڑک گاؤں سے شہر لے کر چلی گئی۔ جج صاحب سڑک گاؤں آئی تو اکیلے نہیں آئی تمام بلڈر اور زمین مافیہ کو ساتھ لیکر آئی ۔یہ مافیہ بھولے بھالے کسانوں سے سستے داموں میں زمین لیکر پچیس منزلہ بلڈنگیں بنا دی اور شہریوں کو کہا کہ یہاں آ کر رہیے اور گاؤں کی صاف اور کھلی فضا کا مزہ لیجئے۔ وہ شہری بھی اکیلے نہیں آئے وہ اپنے ساتھ اے۔ سی، موٹر، اور نہ جانے کیا کیا چیزیں لیکر آئے ۔جج صاحب پانی کا لیبل اتنا نیچے جا چکا ہے کہ ہینڈ پنپ سوکھے پڑے ہیں، کھیتوں میں ہل نہیں چل رہے ہیں،زمینیں بنجر ہو چکی ہیں۔گاؤں اب گاؤں کہاں رہا، ساری جوان پیڑھی تو اب زمین بیچ کر شہر جا رہی ہے۔
جج اس کی ان باتوں کو سن کر کہتا ہے کہ کسی بھی ملک کے لئے سڑک ترقی کی نشانی ہوتی ہے۔ ان سب حالات کے لئےتم سڑک کو مورد الزا م ٹھہرا رہے ہو؟ جواباً وہ پھر کہتا ہے جج صاحب ترقی کا بھی ایک تناسب اور میزان ہوتا ہے ترقی سمت اور رفتار متعین کرتی ہے ،شکل و صورت نہیں بدلتی ،آ ج کوئی بھی اپنے بچے کو اچھا انسان بنانے کے لئے اسکول نہیں بھیج رہا ہے بلکہ بڑا آدمی بنانے کے لئے پڑھا رہا ہے۔ کامیاب ہونے کی یہ پہچان ہو گئی ہے کہ کس نے کتنا پیسہ کمایا ہے۔ گاؤں کے لوگ تو بھولے تھے کم میں بھی صبرکر لیتے تھے۔ اس سڑک نے ان کی اخلاقیات کو بھی بدل دیا ہے۔ جج صاحب گنہگار میں نہیں ہوں یہ سڑک ہے ۔ اگر یہی حال رہا تو اسی سڑک کے راستے سارے شہر ہمارے گاؤں پر قبضہ کر لیں گےاور لگ بھگ کر ہی چکے ہیں ۔پھر نیم کی ٹھنڈھی چھاؤں کھیتوں میں چلتے ہل ہم صرف کتابوں میں پڑھیں گے۔ ہندوستان ایک زراعت اساس ملک (کرشی پردھان ملک)تھا صرف ایسی باتیں کہی جائیں گی اپنی زمین کو ماں کہنے والے لوگ مرغے کے دربے جیسے مکان میں رہ ر ہےہیں بدیشی کھانا بدیشی پہناوا بدیشی چال چلن ہم صرف نام کے ہندوستانی رہ گئے ہیں ۔غریبوں کی زندگی جانوروں سے بد تر ہو جائے گی کیوں کہ شہروں میں بدیسی جانور مہنگی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں اور ہمارے پالتو جانور گلیوں میں کوڑے اور پالی تھین کھا رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم غریبوں کی زندگی بدتر ہو جائے ہمارے گاؤں سے سڑک ہٹا دیجئے۔ ہمیں نہیں چاہیے سڑک۔ اس دلیل کو سن کر جج نے یہ فیصلہ دیا کہ ملزم کی دماغی حالت اچھی نہیں ہے اس لئے اسے نفسیاتی اسپتال میں داخل کیا جائے ۔
ناول نگاروں نے ابتدا سے ہی دیہی اور شہری طرز زندگی کے معاملات کو اپنے ناولوں میں برتا ہے۔ مگر یہ موضوع کسی نا ول میں بالواسطہ اور کہیں بلا واسطہ طور پر آیا ہے۔ اکیسویں صدی کے ناولوں میں شہری اور دیہی زندگی کے مسائل اولین دور کے مسائل سے بالکل جدا اور الگ تو نہیں ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ مسائل بدل جاتے ہیں اور ان کی نوعیت بھی ۔ شروع کے ناولوں کے مقابلے میں اب جو ناول لکھے جا رہے ہیں ان کے مسائل بھی الگ قسم کے ہیں ۔ اکیسویں صدی کے ناولوں میں جو مسائل موضوع کا حصہ بنتے ہیں وہ زیادہ تر انفرادی ہیں چاہے وہ شہر میں رہنے والے شخص کے ہوں یا گاؤں کے رہنے والے کسی آدمی کے ۔ یہاں یہ ذکر بھی کر ہی دوں کہ کسی مسئلے کا ذاتی یا شخصی ہونا بھی در اصل نئے دور کی پیداوار ہے۔ اب کسی ایک انسان کا مسئلہ اس کا اپنا مسئلہ ہوتا ہے۔پہلے مسئلہ کسی کا بھی ہوتا تھا اسے اجتماعی مسئلہ تصور کیا جاتا تھا اور لوگ مل کر حل تلاش کرتے تھے۔ اب بھائی بھائی کے مسئلے کو اپنے سے الگ مانتا ہے۔ اب ایک بھائی کتنی آسانی سے اپنے بھائی سے یہ کہہ دیتا ہے کہ بھائی یہ تمہارا مسئلہ ہےتم خود دیکھ لو۔ دوسرے رشتے کا تو خیر کوئی ذکر ہی نہیں۔
دیہی اور شہری طرز زندگی کا تصادم باضابطہ طور پر ناول میں نظر نہیں آئے گا۔ ناول میں شہر کے مسائل اور گاؤں کی پریشانیوں کا ذکر ہوتا ہے۔ ناول نگار اس فرق کو دکھانے کے لیے ناول میں گاؤں کے کسی کردار کو رکھ دیتا ہے، جو عام طور پر کسان ، غریب، انپڑھ یا گھریلو قسم ہوتا ہے۔ شہر کے ماحول کی عکاسی کرنے کے لیے کسی ایسے کردار کو ناول میں جگہ دیتا ہے جس کی پرورش اور تعلیم شہر میں ہوتی ہے ۔ دونوں کے اپنے اپنے مسائل ہیں، معاش کو لیکر یا کوئی اور مسئلہ۔ گاؤں کا یا گاؤں میں رہنے والے انسان کاایک مسئلہ ،ہم نے اوپر کے مکالمہ دیکھ ہی لیا۔ شہر میں چونکہ شرح خواندگی زیادہ ہے اس لیے یہاں مسائل بھی دوسرے طرح کےہوتے ہیں۔ حسین الحق کے ناول اماوس میں خواب کا ایک اقتباس دیکھیں:
"اس رات اسماعیل کو بہت دیر تک نیند نہیں آئی۔ پہلی مرتبہ اس کو اپنے پیشےسے اکتاہٹ محسوس ہوئی۔ یہ کیسی نوکری ہے جس میں غنڈہ بد معاش جاہل لفنگا سب گھس جاتا ہے۔ اگر اسی طرح لکچرر پروفیسر بنا جا سکتا ہے تو اتنی محنت ، اپنے سجکٹ کے بارے میں حاصل کی جانے والی مہارت، برسہا برس سے دن کا چین اور رات کا آرام حرام کر کے سارا شوق مارکر کوڑی کوڑی بچا کر، اپنے سبجکٹ میں آنے والی نئی نئی کتابیں خریدنے کی اور گئی رات تک جاگ جاگ کرپڑھنے کی کیا ضرورت تھی؟ سب محنت کرنے والے گدھے ہوئے ، ارون بھائیہ جیسے لوگ ہی عقلمند ہوئے نا، ہلدی لگی نہ پھٹکری رنگ آیا چوکھا۔“ (ص 139)
چونکہ ناول ایسی صنف ہے جس میں موضوعات کا تنوع پایا جاتا ہے اور یہ ناول نگار کے مشاہدات کا مظہر بھی ہوتا ہے۔ اس ناول میں ناول نگار نے تعلیمی اداروں میں پیدا ہو نے والی صورت حال کوپیش کیا ہے۔ جامعات اور بڑی بڑی دانش گاہوں اور اداروں میں کس طرح رشوت خوری اور اقربا پروری ہوتی ہے۔ صلاحیت کے بجائے طاقت، غنڈہ گردی، پیسہ اور سیاست کا چلن عام ہے۔ تقرری میں رشوت دینے والے کو کامیابی مل جاتی ہے۔ اس کرپشن کی وجہ سے کالجوں سے علم غائب ہو رہا ہے اور یہ معاصر دور کا ایک بڑا المیہ ہے۔ اس کے خطرناک اثرات دھیرے دھیرے نظر آنے لگے ہیں۔
ہمیں یہ معلوم ہے کہ دیہی علاقوں میں اقتصاد کی بنیاد زراعت پر ہوتی ہے اور یہی زراعت کا پیشہ دیہی زندگی کی خصوصیت ہے۔جبکہ شہری علاقوں کی پہچان تجارت اور صنعتی کام سے ہوتی ہے ۔ اس سبب سے شہری اور دیہی علاقوں میں اقتصادی فاصلے کا وجود ہوتا ہے جو تصادم کی بنیاد بنتا ہے۔ شہری اور دیہی علاقوں میں ایک دوسرے سےمختلف ثقافتی زندگی ہوتی ہے۔ دیہی علاقوں میں قدیم روایات اور ثقافت کی قدر ہوتی ہے، جبکہ شہری علاقوں میں جدید طرز زندگی کو فوقیت دی جاتی ہے۔ شہروں میں بڑی آسانی سے باہر کی چیزیں درآمد کی جاتی ہیں، ان میں ظروف کے ساتھ باہر کے طور طریقے بھی درآمد ہوجاتے ہیں اور آسانی سے کھپ جاتے ہیں۔ جب کہ گاؤں میں ہر چیز کو رواج دینا آج بھی مشکل ہے۔ کیونکہ وہ اپنی مٹی سے جڑے ہیں۔ یہ فرق عقل و فہم کےتصادم کی بنیاد بنتا ہے۔ قدیم رسم و روایت کو پیش کرتا ہوا صغیر رحمانی کے ناول تخم خون کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں:
” ٹینگربرآمدے میں پہنچ کر کھڑا ہو گیا اور پنڈت جی کے منہ سے پھوٹ رہے اشلوک کو غور سے سننے لگا۔ اس پر نظر پڑنے پر پنڈت جی چپ ہوئے تو اس نے پوچھا۔مالک اس کا متلب کا ہوا ؟ مطلب ؟ یعنی ارتھ ؟ اس کا ارتھ یہ ہوا کہ ” جنم لیتے ہی براہمن پرتھوی پر شریسٹھ ہے کیوں کہ وہ دھرم کی رکشا کر سکتا ہے۔ پرتھوی پر جو کچھ بھی ہے، وہ سب کچھ براہمن کا ہے۔ برہما کے مکھ سے اتپن ہونے کی وجہ سے وہ پرتھوی پر کے سارے دھن کا ادھیکاری ہے اور دوسرے سارے لوگ براہمن کی دیا کی وجہ سے سبھی چیزوں کا بھوگ کرتے ہیں۔ اگر براہمن نندت کرموں میں لگا ہوا ہو تو بھی ہر طرح سے پوجنے کے قابل ہے کیوں کہ براہمن سب سے اتم دیوتا ہے۔
اور مالک ، ہمارے لیے کا لکھا ہے؟ تمھارے لیے ؟ ہاں تمہارے لیے بھی لکھا ہے نا ویسر بدھ برہمخ شود را دیویو پادانم چریت نہ ہی تسیاستی کنچت سوم مرتر ہار یہ دھنو ہی سی یہ کتاب نہیں، سفورھان سے لیکر پنڈت جی کے چہرے کی چمک بڑھ گئی تھی ۔ ”
اس کا متلب کا ہوا مالک؟” اس کا ارتھ ہوا کہ براہمن کے لیے اچت ہے کہ وہ شودر کا دھن بنا کسی بھئے یا سنکوچ کے لے لے کیوں کہ شودر کا اپنا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کا دھن اس کے مالک کے دوارا حرن کرنے کے قابل ہے… ای کیسی کتاب ہے مالک۔ (تخم خوں میں 111-110)
شہری علاقوں میں تعلیمی مواقع زیادہ ہوتے ہیں ۔ اور تعلیم یافتہ ہونے کا معیار بھی بالکل جدا ہے۔ دیہی علاقوں میں تعلیم کی کمی ہوتی ہے اور وہاں کے لوگوں کو تعلیم کے رسمی مواد تک رسائی بھی مشکل سےہوتی ہے۔اس سبب سے شہری اور دیہی علاقوں میں تعلیم کے معاملات یکسر جدا ہیں ہے۔ تہذیبی اور اخلاقی اعتبار سے بھی دونوں جدا ہوتے ہیں اس فرق سے اشخاص کی زندگیوں میں تصادم پیدا ہوتے ہے۔ مشرف عالم ذوقی کے ناول مرگ انبوہ کا ایک اقتباس دیکھیں جو شہری زندگی میں رہنے والی نئی پیڑھی کی زندگی کی عکاسی کرتا ہے:
"ممنوعہ اور غیر ممنوعہ کی بحث سے یہ نسل نہیں الجھتی ۔یہاں values بدل گئے ہیں۔ جینے کا نظریہ بدل چکا ہے۔ پرانے زمانے کا بہت کچھ ہمارے لیے ڈسٹ بن میں ڈالنے جیسا ہے۔ یہ تبدیلیوں کا وقت ہے۔ گیت سنگیت بدل گئے ۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے اس عہد میں جان ابراہم سے لے کر بریٹنی اسپیر تک ہمارے بیڈ روم میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس لیے ہماری تہذیب کی کتاب میں سب کچھ Rock ہے اس لیے Cool ہیں ہم ۔ ” (ص: 24)
فلسفہ عام طور پر فکری اور انسانی طرز زندگی کے بارے میں پیچیدہ سوالات اور تصورات کا مطالبہ کرتا ہے ۔ شہری اور دیہی زندگی دو مختلف معیارات پر مبنی ہوتی ہے۔ دیہی زندگی کو عام طور پر قدیم معاشیات کے ساتھ منسلک کیا جاتاہے جبکہ شہری زندگی مشین اور ٹکنالوجی کی دنیا کا حصہ ہوتی ہے۔فلسفے کی نگاہ سے، یہ تصور کرنا کہ کونسا طرز زندگی انسان کی طبیعت کے مطابق ہےتصادم کی بنیاد بنتا ہے۔انسانی اتحاد اور انفرادیت شہری زندگی اور خودی کی ترویج کرتی ہے جبکہ دیہی زندگی مشترکہ زندگی کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔ یہ سوال کرنا کہ انسان کی حیاتی ضروریات اور معاشرتی تعلقات کس طرح کے ہونے چاہئے، مسائل پیدا کرتاہے۔دیہی زندگی قدرتی جگہوں کا احترام کرتی ہے اور اخلاقی اصول پر زور دیتی ہے جبکہ شہری زندگی قانونی تصورات کے تحت چلتی ہے۔ان دونوں کی طرف سے اخلاقی اور انسانی حقوق کے تصورات میں ایک تصادم پیدا ہوتا ہے۔
ان تصادم کےحل کی لئےعام طور پر تفکر، توازن، اور تفہیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ انفرادی اوراجتماعی سطح پر زندگی کے تصورات کو قبول کرنا اہم ہوتا ہے تاکہ تصادم کو کم کیا جا سکے اور لوگ اپنی زندگیوں کو بہتر بنا سکیں۔اکیسویں صدی کے ناول نگاروں نے ان مسائل کو اپنے ناولوں میں پیش کرنے اور اس کے ذریعہ سے حل کرنے کی کوشش بھی کی ہے محولہ بالا سطور میں جتنے ناول کے اقتباسات پیش کئے گئے ہیں ان میں دیہی اور شہری زندگی کے تصادم کو پیش کیا گیا ہے چونکہ ناول کا فن thematicنہیں ہوتا ہےبلکہ اس میں مختلف موضوعات کا تنوع پایا جاتا ہے۔ اس لئے یہ کہنا میرے لئے مشکل ہے کے پیش کردہ موضوع کسی ایک ناول میں پوری طرح سے سمٹ آیا ہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page