شاعرمشرق علامہ محمداقبال ایک عظیم شاعر،مفکر،ادیب اوراسکالرتھے۔اقبال نے اُردواورفارسی دونوں زبانوں میں بہترین شاعری کی۔اُردو،فارسی اورانگریزی زبان میں خطوط بھی اقبال کاعظیم سرمایہ ہیں۔انگریزی زبان میں خطبات،مضامین اورمتفرق تحریریں بھی ادب میں بڑا اضافہ ہیں۔اُردومیں بھی مضامین،متفرق تحریریں اورمعاشیات پرمبنی کتاب”علم الاقتصاد“بہترین کتاب ہے۔جرمن شاعرگوئٹے کے دیوان مغربی کاجواب فارسی زبان میں ”پیامِ مشرق“کے نام سے دے کراقبال نے مغرب کوبہترین جواب دیا۔اقبال ایک عظیم انسان اوربہترین مصنف تھے۔ہرمصنف اپنی تخلیق کاپہلانقادخودہوتاہے اسی طرح اقبال بھی اپنے پہلے خود نقاد تھے۔اس کے ساتھ ساتھ زبانی تنقید اور تبصرے بھی اقبال پرتنقیدکی ابتدا تھے ۔
اقبال پرباقاعدہ تنقیدکاآغازاقبال کے پہلے اُردوشعری مجموعہ”بانگِ درا“کے دیباچے سے ہوتاہے۔یہ دیباچہ شیخ عبدالقادرمدیرِ”مخزن“نے لکھا۔جس میں اقبال کی شخصیت اورکلام پربہترین تنقیدی آراملتی ہیں۔اس کے بعداقبال پرپہلی کتاب اقبال کی حیات میں مولوی محمددین فوق نے”اقبال“کے عنوان سے لکھی،یہ پہلی باقاعدہ کتاب ہے ۔اس میں حیات،شخصیت اورکلامِ اقبال پرتاثراتی رائے ملتی ہے۔اس کتاب نے ابتدافراہم کی اوربعدمیں اقبال پرکتابوں اورمضامین کانہ رکنے والاسلسلہ شروع ہواجوآج تک جاری وساری ہے اورہزاروں کی تعدادمیں کتب،ایم۔اے،بی۔ایس،ایم۔فل،ڈاکٹریٹ اورپوسٹ ڈاکٹریٹ کے مقالات اورمضامین منظرعام پرآچکے ہیں ۔کئی ادارے جن میں اقبال اکادمی،بزمِ اقبال،علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کاشعبہ اقبالیات اوردیگرجامعات کے شعبہ اُردوواقبالیات اقبال پرکام کررہے ہیں۔
اقبالیاتی تنقیدکواگرمختلف رجحانات میں رکھ کردیکھاجائے توچندرجحانات نمایاں اوربہت سے کم نمایاں نظرآتے ہیں ۔ایک مضمون میں سرسری طورپراُن رجحانات کاذکرکیاجائے گا۔تفصیل سے ذکرکرنامشکل ہی نہیں ناممکنات میں سے ہے ۔کیوں کہ اقبالیاتی تنقیدبہت وسیع ہے جوایک مقالے میں بھی نہیں سماسکتی۔اوراگرفرداَََفرداَہرمتن کاجائزہ لیاجائے توکئی سال درکارہوں گے۔یہاں صرف معروف رجحانات کاسرسری تذکرہ کیاجائے گا۔
اقبال پرابتدائی تنقیدان کی سوانح ،شخصیت اور تاثراتی تنقیدپرمبنی تھی۔جس کاپہلے ذکرکیاجاچکاہے۔مگربعدمیں بھی بھاری رجحان ہی دیکھنے کوملتاہے۔جس میں اقبال کی سوانح ایک بڑاموضوع رہاہے۔اقبال صرف شاعراورادیب نہ تھے بلکہ وہ ایک وکیل،ایک استاد،ایک فلاسفر،ایک مفکر،ایک سیاست دان اوروسیع الجہات شخصیت تھے اس لیے اُن کی سوانح اورشخصیت کے کئی پہلوہیں ۔لہذا تنقید و تحقیق میں سوانح اورشخصیت بڑے رجحانات میں سے ایک ہیں۔اقبال کی سوانح اورشخصیت پردرجنوں کتب،مقالات اورمضامین مل جائیں گے مگرتحقیق سے عاری،اقبال کی سوانح پردستیاب کتب میں اقبال اکادمی کی”حیاتِ اقبال“اوراقبال اکادمی کے مجلہ ”اقبال ریویو“ مستنددستاویزات ہیں۔
سوانح وشخصیت کے بعداقبالیاتی تنقیدکابڑارجحان فکرِاقبال کی طرف ہے ۔فکراقبال پرسینکڑوں کی تعدادمیں کتب،مقالات اور مضامین مل جائیں گے۔ہرکوئی جواقبال سے دل چسپی رکھتاہے اورجسے لکھنے لکھانے کاشوق ہے فکراقبال کوموضوع بنائے گاکیوں کہ یہ موضوع قدرِآسان نظرآتاہےاوراس موضوع پربغیرمغزماری کے بہت کچھ لکھاجاسکتاہے۔اس موضوع پرصرف ادب سے تعلق رکھنے والوں نے ہی نہیں لکھابلکہ مذہب،سیاست،سماجی اقداراورمحب وطن قلم کاروں نے بھی اقبال کواس حوالے سے اپناموضوع بنایاہے۔پھراس حوالے سے صرف اقبال شناسی کے رجحانات ہی پروان نہیں چڑھے بلکہ اقبال شکنی کے حوالے سے بھی یہ موضوع خاص اہمیت کاحامل ہے۔اس موضوع پربہترین کتب میں ڈاکٹرافتخاراحمدصدیقی کی”عروجِ اقبال“ ،ڈاکٹریوسف حسین خان کی”روحِ اقبال“،ڈاکٹرفرمان فتح پوری کی”اقبال سب کے لیے“،جابرعلی سیدکی ”اقبال کافکری ارتقاء“،ڈاکٹرسلیم اخترکی” فکراقبال کاتعارف“اورخلیفہ عبدالحکیم کی ”فکرِاقبال“شامل ہیں۔
فکراقبال کے بعداقبالیاتی تنقیدکااہم رجحان تصوراتِ اقبال کی طرف ہے ۔اقبال نے جومختلف تصورات پیش کیے جن میں فلسفہ خودی،مردِمومن،شاہین اورتصورِعشق وخردنمایاں ہیں ۔ان تصورات پربہت زیادہ کام ہواسینکڑوں کی تعدادمیں کتب،مقالات اورمضامین کے علاوہ پروگرام کے مکالمات،لیکچراورتبصرے موجودہیں۔جن میں اقبال کے تصورات کوکلی اورجزوی طورپرزیربحث لایاگیاہے۔اس میں بھی دوطرح کے رویے ملتے ہیں جن میں اقبال شناسی اوراقبال شکنی شامل ہیں ۔بعض ناقدین نے اقبال کے تصورات کواقبال کے تصورات ماناتوبعض نے الزامات کی بوچھاڑکردی کہ یہ نظریات اقبال کے نہیں بلکہ ماخوزوترجمہ ہیں ۔جن میں مردِمومن کاتصوراورتصورِخودی زیادہ نمایاں ہیں ۔مگراس موضوع پربھی سنجیدہ کتب ومقالات کی تعدادبہت کم ہے زیادہ ترسنی سنائی اورتحقیق سے عاری نظرآتی ہیں ۔اس حوالے سے بہترین اورمستندکتب میں ڈاکٹروزیرآغاکی ”تصوراتِ عشق وخرداقبال کی نظر میں“،ڈاکٹرفرمان فتح پوری کی ”اقبال سب کے لیے“،ڈاکٹرصغریٰ کی ”اقبال ۔۔۔ایک مردمومن“،اورڈاکٹرحسن اخترملک کی ”اطرافِ اقبال “شامل ہیں۔
اقبال بہترین شاعر،اداکاراورفن کارتھے لہذااقبالیاتی تنقیدکاایک نمایاں رجحان اقبال بطورشاعراوراقبال کافن بھی رہاہے۔اقبال کی فکرسے زیادہ اُن کافن مضبوط اورتواناہے مگرجتناکام فکرپرہوافن پرنہیں۔کیوں کہ فکرپرکام کرناآسان ہے۔فن پرکام کرنے کے لیے شعری رموزِ اوقاف، شعری اصطلاحات،وزن،بحوراورعروض سے آشنائی کے بغیرقلم اٹھاناسورج کوچراغ نہیں دیاسلائی دکھانے کے مترادف ہے۔لہذا اقبال کے فن پرکام بہت کم ہواہے جس پرمزیدگنجائش باقی ہے۔مگرپھربھی ایک اہم رجحان ضروررہاہے اورکافی لوگوں نے اس موضوع پرکام کیاہے جن میں سے بہت سے لوگوں نے اچھاکام کیاہے۔اقبال کے فن کوبعض احباب نے کلیت میں دیکھاتوبعض نے کسی ایک حوالے سے جائزہ لیا۔اقبال کی تلمیحات،اصطلاحات،تکنیک اوردیگرچیزوں پرتفصیلی کام بھی ہوئے۔اقبال کے فن پرمستندکتب میں جابر علی سیدکی” اقبال کافنی ارتقاء“،ڈاکٹرعبدالمغنی کی ”اقبال کانظام ِ فن“،سلیم احمدکی” اقبال ایک شاعر“،غلام صابرکی ”اقبال شاعرِ فرداَ“،آلِ احمدسرورکی ،”اقبال کانظریہ شاعری“،ڈاکٹرگوپی چندنارنگ کی مرتبہ کتاب ”اقبال کافن “،ڈاکٹرتبسم کاشمیری کی” شعریاتِ اقبال“اورڈاکٹررفیع الدین ہاشمی کی” اقبال بحیثیتِ شاعر“شامل ہیں۔
اُردوادب میں شعرا و ادبا کے تقابلی مطالعات کی ایک قدیم روایت چلی آرہی ہے۔جب کسی کوکوئی موضوع نظرنہیں آتا تو دو شعرا یا دو ادبا کو لیا اور تقابل کرڈالا،لہذااقبالیاتی تنقیدکاایک رجحان تقابلی مطالعہ بھی ہے جس میں اقبال کامختلف شعراجن میں نمایاں مرزااسداللہ خاں غالب اورفیض احمدفیض ہیں کے ساتھ تقابلی مطالعات نظرآتے ہیں ۔اس حوالے سے بہترین کتب میں ڈاکٹراے۔بی اشرف کی ”غالب اوراقبال“ اورڈاکٹریوسف حسین خان کی ”غالب اوراقبال کی متحرک جمالیات“ شامل ہیں۔
اقبالیاتی تنقیدکاایک اہم رجحان اقبال کی نظموں کے مطالعات بھی ہے۔جس میں اقبال کی مختلف نظموں کے فکری وفنی محاسن ومعائب کے ساتھ ساتھ مختلف نظموں کے آپس میں تقابل بھی کیے گئے ہیں۔اس طرح کے زیادہ ترمطالعات مضامین ،تبصروں ،لیکچر اور مکالمات کی صورت میں ہیں مگراکادکاکتابیں بھی اس طرح کے مطالعات پرنظرآتی ہیں ۔اس طرح کے مطالعات پرمبنی کتب میں ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی کی ”اقبال کی طویل نظمیں“اوراسلوب احمدانصاری کی” اقبال کی تیرہ نظمیں“ شامل ہیں۔
اقبالیاتی تنقیدکاایک اہم اوروسیع رجحان اقبال شناسی ہے۔اقبال شناسی میں مزیدتین طرح کے رجحان ملتے ہیں ۔اول انفرادی سطح کی اقبال شناسی،دوم علاقائی سطح پراقبال شناسی اورسوم ادارہ جاتی اقبال شناسی۔اول سطح کی اقبال شناسی میں انفرادی طورپراقبال پرہونے والے مطالعات شامل ہیں ۔اوران کوالگ الگ زیربحث لایاگیاہے۔جیسے ڈاکٹررفیع الدین بطوراقبال شناس،ڈاکٹرہارون الرشیدبطوراقبال شناس اورڈاکٹرآصف اعوان بطوراقبال شناس وغیرہ۔دوم سطح پرعلاقائی طورپراقبال شناسی کوموضوعِ بحث بنایاگیاہے۔مثلاََلیہ میں اقبال شناسی،کشمیرمیں اقبال شناسی،دہلی میں اقبال شناسی اورسرگودھا میں اقبال شناسی وغیرہ ۔اس حوالے سے کئی کتب بھی منظرِ عام پرآچکی ہیں ۔جن میں مزمل حسین کی” علامہ اقبال اورلیہ“،صبہالکھنئوی کی ”اقبال اور بھوپال“ اور ڈاکٹر سلیم اخترکی” ایران میں اقبال شناسی “شامل ہیں ۔سوم سطح کے رجحان میں اداروں کی سطح پرہونے والے کام زیربحث آئے ہیں ۔جن میں رسالہ جات،ادبی تنظیمیں ،ادبی ادارے اورجامعات شامل ہیں ۔اس حوالے سے بھی کافی کتابیں منظرعام پرآئی ہیں ۔جن میں ڈاکٹرحسن اخترملک کی ”مقالاتِ مجلسِ اقبال“،محمدحنیف شاہد کی ”اقبال اورانجمن حمایتِ اسلام“،ڈاکٹرجماعت علی خاں کی ”اقبال شناسی اورراوی“،اورڈاکٹرزاہدمنیرعامرکی ”اقبال شناسی اورنویدِ صبح “شامل ہیں۔
اقبال شکنی بھی اقبالیاتی تنقیدکاایک اہم اورتواناموضوع اوررجحان رہاہے۔اقبال ہم جہت شخصیت کے مالک تھے اس لیے اُن پرکئی طرح کے مذہبی،سیاسی اورمعاشرتی الزامات واعتراضات عائدہوتے رہے ہیں ۔اُن اعتراضات کے جوابات بھی دئیے جاتے رہے ہیں لہذایہ ایک دل چسپ موضوع رہاہے۔بعض ناقدین نے تواقبال کوسرے سے اڑادیاہے اوربعض نے مختلف جزوی حوالوں سے اقبال پروارکیے ہیں ۔مگریہ رجحان کافی غالب اورتوانانظرآتاہے ۔اقبال شکنی کے حوالے سے بہت زیادہ تعدادمیں مضامین،مقالات اورکتب دستیاب ہیں جن میں علی عباس جلال پوری کی ”اقبال کاعلم الکلام“،ڈاکٹرایوب صابرکی ”اقبال دشمنی۔ایک مطالعہ “اورڈاکٹرفتح محمدملک کی ”اقبال فراموشی “شامل ہیں۔
اقبال کی شاعری میں مذہبی رنگ بہت زیادہ ہے اس لیے اقبالیاتی تنقیدکااہم اورتوانارجحان اقبال کی مذہبی شاعری اورتصورات پربھی صرف ہوا۔بلکہ اگریوں کہاجائے کہ اقبالیاتی تنقیدکازیادہ سرمایہ مذہبی حوالے سے ہے توبھی کچھ غلط نہ ہوگا۔شروع میں مذہبی حوالے سے تنقیدکانشانہ بنائے جانے والے اقبال آج ہرفرقہ کے محبوب شاعرمانے جاتے ہیں ۔ہرمکتبہ فکرکے لوگ اقبال کواپناسمجھتے ہیں۔اس لیے مذہبی حوالے سے اقبال پربہت زیادہ کام ہواہے۔سینکڑوں کی تعدادمیں مضامین،لیکچر،مکالمات،مقالات اورکتب موجودہیں ۔چندمستندکتب میں ڈاکٹرابوللیث صدیقی کی ”اقبال اورمسلکِ تصوف“،پروفیسرمحمدعثمان کی” فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو“، اعجازالحق قدوسی کی ”اقبال کے مقبول صوفیا“،ڈاکٹرمحمدطاہرفاروقی کی “اقبال اور محبتِ رسول“ ،آلِ احمدسرورکی ”اقبال اورتصوف“ اورڈاکٹرابوسعیدنورالدین کی” اسلامی تصوف اوراقبال “شامل ہیں۔
اقبالیاتی تنقیدکاایک رجحان سیاسی اورتحریک پاکستان کے حوالے سے بھی ہے۔اقبال نے پاکستان کاتصورپیش کیا۔اوران کی شاعری میں ایسی فضااورماحول موجودہے جوسیاسی اورتحریک پاکستان کے لیے تواناموادمہیاکرتاہے اس لیے اس حوالے سے بھی کافی بحث جاری رہی اورہے۔اس حوالے سے بھی اقبالیاتی تنقیدکاکافی ذخیرہ موجودہے۔جن میں ڈاکٹرمعین الدین عقیل “کی افکارِ سیاسی کی تشکیل ِ جدید:سیداحمدخاں اور اقبال“،ڈاکٹرانواراحمدکی “تحریک پاکستان میں علامہ اقبال کاکردار“اورڈاکٹرمعین الدین عقیل کی” اقبال اورجدیددنیائے اسلام “شامل ہیں۔
علامہ اقبال کی شاعری آسان اورعام فہم نہیں بلکہ مشکل اورقدرِدیرسے سمجھ آتی ہے۔ہرکسی کواقبال سمجھ نہیں آتااس لیے اقبال کی تشریح،تفہیم،شرح اورتفسیربھی اقبالیاتی تنقیدکاایک اہم میدان اوررجحان رہاہے۔اقبال کے کلام کی کئی شرحیں لکھی جاچکی ہیں۔اُن کے الگ الگ مجموعہ ہائے کلام کی بھی شرحیں دستیاب ہیں بلکہ ایک ایک نظم اورغزل کی شرح بھی دستیاب ہے۔اس حوالے سے کافی ذخیرہ موجودہے۔چنداہم کتب میں ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی کی ”تصانیفِ اقبال کاتحقیقی وتوضیحی مطالعہ“، ڈاکٹرخواجہ محمدزکریاکی ”تفہیم ِ بالِ جبرئیل“،ڈاکٹرتحسین فراقی کی ”اقبال چندنئے مباحث “،یوسف سلیم چشتی کی” شرح اسرارِ خودی“اورمحمدعثمان کی ”اقبال کافلسفہ خودی “شامل ہیں۔
اقبال نے اُردو کے علاوہ فارسی اورانگریزی میں بھی بہت کچھ تحریرکیااس لیے ان تحریروں کواُردوکے علاوہ دنیاکی کئی بڑی زبانوں میں ترجمہ کرکے عام کیاگیا۔لہذااقبالیاتی تنقیدکاایک اہم موضوع ترجمہ نگاری بھی ہے۔جس میں اُن کی ”اسرارخودی “کے تراجم ، خطوط کے تراجم اورخطبات کے تراجم شامل ہیں ۔اورپھران تراجم پھرتحقیقی وتنقیدی موادبھی اسی ذیل میں شامل ہے۔
اقبال کے کلام سے نعرے بازی کاکام بہت زیادہ لیاگیا۔اس حوالے سے سیاسی،مذہبی،سماجی ومعاشرتی طورپرنعرے بازی اورجذباتی تقاریر و بیانات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔اس حوالے سے تحریرشدہ اقبالیاتی ادب وسیع ذخیرہ کاحامل ہے اوراقبالیاتی تنقیدکااہم اورتوانارجحان رہاہے۔
اقبال کے خطوط بھی اقبالیاتی تنقیدمیں اہم مقام کے حامل ہیں ۔ان خطوط سے اقبال کی سوانح اورشخصیت کے کئی اہم پہلوسامنے آتے ہیں ۔اس کے علاوہ کلام کی تشریح اوراقبال کے تصورات ونظریات کوسمجھنے میں بھی معاون ثابت ہوئے ہیں۔اس حوالے سے دواہم کام ہوئے ہیں جن میں انڈیاسے ڈاکٹرصالحہ صدیقی نے اقبال پر”ڈرامہ اقبال“ لکھا جوکہ اقبالیاتی تنقیدمیں ایک اہم پیش رفت ہے۔اورشعبہ اُردوجامعہ سرگودھاکے سابق صدرِشعبہ ڈاکٹرخالدندیم نے اقبال کے خطوط سے ”اقبال کی آپ بیتی “مرتب کی جوکہ اقبالیاتی تنقیدمیں اہم اضافے کے ساتھ ساتھ اقبال کوسمجھنے اورسوانح اقبال کوسمجھنے میں بڑی مستندکتاب ہے۔
اقبالیاتی تنقیدکے جدیدرجحانات میں کلامِ اقبال کے ساختیاتی مطالعات،پسِ ساختیاتی مطالعات،نوآبادیاتی مطالعات،مابعدنوآبادیاتی مطالعات،جدیدمطالعات،مابعدجدیدمطالعات،تہذیبی وثقافتی مطالعات،بین المتونیت پرمبنی مطالعات اوراقبال کی نظموں میں نامیاتی وحدت پرمبنی مطالعات شامل ہیں ۔
اقبالیاتی تنقیدکے رجحانات کوایک مختصرسے مضمون میں سمو دینا سمندرکوکوزے میں بندکرنے کے مترادف ہے ۔یہاں صرف چیدہ چیدہ اورسرسری رجحانات کاجائزہ پیش کیاگیاہے۔
عمیریاسرشاہین
پی۔ایچ۔ڈی اسکالر
شعبہ اُردویونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا
0303.7090395
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page