صابرہ خانم ۔۔۔۔۔۔۔۔ممبئی
اتفاق یہ ہے کہ ’’ کوئی ایک لمحہ رقم نہیں ‘‘ کے شاعر سے میری ابھی تک ملاقات نہیں۔ لیکن جب سے مجھے ان کاشعری مجموعہ کا پی ڈی ایف پڑھنے کو ملا، اپنائیت کاایک خوشگوار احساس ضرور ہوا ۔گویا دلشاد نظمی سے میراتعلق ان کے اشعارسے ابھرتی فکری سطحوں کی نسبت سے ہے ۔تعلق کی یہ سطح ،شخصی تعلق ذراہٹ کر،کچھ دائمی سی ہواکرتی ہے کیوں کہ لفظوں کی اوٹ سے جھانکتے فکر ی رویے وقت اور شخصیات کے انتخاب کے تابع نہیں ہواکرتے۔ذات اور کائنات کی مسافتوں کے نکات ہمیشہ سے اہل فکر طبقات کے موضوعات رہے ہیں۔
دلشاد نظمی کی شاعری اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ذات سے باہرجھانکنے اور پھراِسی ذات میں پناہ لے کر زندگی کی تلخیوں سے چھٹکاراحاصل کرنے کا رویہ کئی شاعروں کے ہاں خوب صورت اشعار کی صورت میں نظرآتاہے ۔ بیدل ؔحیدری کا معروف شعراس کی ایک عمدہ مثال ہے۔
گرمی لگی توخود سے الگ ہوکے سوگئے
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا
(بیدلؔ حیدری)
نظمی ایک ایساشاعرہے جس نے نہ صرف اپنی ذات کی قیدسے باہرنکلنے کی ایک سنجیدہ کوشش کی ہے بلکہ رہائی کے بعدخودکو افقی سطح پرپھیلانے کی بجائے ایک مشکل عمودی مسافت کا انتخاب کیاہے۔ یہ ایک مشکل کام ہے اور اس کے اسرارورموز سے آشنائی ہی میں زندگیاں بیت جاتی ہیں۔اس مسافت میں منزل تک پہنچنے کے بجائے منزل کاتعین اہم ہواکرتاہے۔ دلشاد نظمی جسم کی قید سے محض فرارنہیں چاہتا۔اس کے ہاں مستقل تبدیلی کی خواہش شدت سے دکھائی دیتی ہے
اپنے دشمن کو دعا دیجئے کہ وہ زندہ رہے
عمر بھر آپ کے اخلاق سے شرمندہ رہے
،
صرف دشمن کو تباہی کا سبب جانتے ہیں
آپ اپنوں میں منافق نہیں پہچانتے ہیں
مانتے ہی نہیں احکامِ خداوندی کو
اور کہتے ہیں کہ اللہ کو ہم مانتے ہیں
سمجھ رہے ہیں مکمل شعور آ گیا ہے
نئے پرندوں میں کتنا غرور آ گیا ہے
میرے قصے کے لیے کردار طے کرنے لگے
ایسے ویسے لوگ اب معیار طے کرنے لگے
جو ابھی بخشی ہوئی بیساکھیوں پر ہیں کھڑے
وہ اپاہج اب مری رفتار طے کرنے لگے
جسم کی قیدسے روح کی رہائی کایہ عمل ایک لمبی ریاضت کا متقاضی ہواکرتاہے۔بظاہریہ پھول سے خوشبو کے الگ ہونے کے عمل سے مشابہ ہے لیکن جسم اورروح کے مابین جڑے رشتوں اور جذبوں کے تانے بانے انسانی نفسیات کے ساتھ عجیب سے کھیل کھیلتے رہتے ہیں۔ اور رہائی کے اس عمل کو پیچیدہ تربنادیتے ہیں۔ایک الجھی ڈور کی مانند،جسے سلجھاتے ہوئے اِس مسافت کے اکثر مسافر اپنی منزل کھودیتے ہیں اورکچھ راستے ہی میں اپنی کامیابی کااعلان کردیتے ہیں۔ کیونکہ انہیں منزل کی حقیقت کا ادراک نہیں ہوتا "۔کوئی ایک لمحہ رقم نہیں ‘‘ کا شاعر اس معاملے میں کسی الجھن کا شکارنظرنہیں آتا۔وہ منزل کی پیچیدگی سے آگاہ ہے اورمسافت کے دوران اپنی وقتی تھکاوٹ کوتسلیم کرنے میں کسی قسم کی قباحت محسوس نہیں کرتا ۔اسے علم ہے کہ منزل مسلسل جدوجہدکے بعد ملتی ہے۔اورراستے کے چھوٹے موٹے پڑاو نشانِ منزل ہوا کرتے ہیں۔
رستہ بھی دیکھتا ہے مرے پاؤں کی طرف
لے جانا چاہتی ہے تھکن چھاؤں کی طرف
اس شہرِ بے پناہ کی گلیوں میں کھو گئی
جاتی تھی ایک کچی سڑک گاؤں کی طرف
وقت کی تھاپ تقاضوں کی تھرک لے غم کی
جسم سے سانس کا رشتہ ہے گھنگھرو جیسا
عجب سا حبس ہے دلشاد ہر سو بے نوائی کا
لپٹ کر پتیوں سے کیوں ہوا خاموش بیٹھی ہے
ہے کتنا سخت فوراََ ماں ۔بہو ۔بیوی میں ڈھل جانا
تھکی ماند ی بے چاری عورتیں دفتر سے آتی ہیں
میں گونگوں کے اشاروں پر بہت ہنستا تھا کچھ دِن سے
کئ بے ربط آوازیں مرے اندر سے آتی ہیں
بہت کچھ سیکھتا ہے آدمی باہر کی دنیا سے
مگر کچھ عادتیں دلشاد نظمی گھر سے آتی ہیں
’’ کوئی ایک لمحہ رقم نہیں ‘‘ کے شاعرکی اپنی ذات سے رہاہونے کی خواہش کی تکمیل میں ایک مشکل یہ بھی ہے کہ اس کے ہاں حقیقت سے فراری رویے کا عنصرکسی بھی طرح موجود نظرنہیں آتا۔اس کے ہاں قیس سی جنونیت ہے اور نہ ہی ایک صوفی کی سی بے قراری۔اس نے اپنی منزل کا تعین اپنے فکری معیارکی بنیادپرکررکھاہے۔ذات سے باہرکے معاشرتی مسائل اورطے شدہ مشکلات سے آگاہی کے باوجود اس نے اس سفر کاانتخاب کیاہے۔اسے اپنے قدکاٹھ کااندازہ بھی ہے اور اپنی عزتِ نفس کااحساس بھی ۔اس معاشرے میں عمودی مسافت پرنکلتے ہوئے اپنا دامن بچا لینا کسی معجزے سے کم نہیں ہوتا۔
دھکیل دیتا ہے بھیڑ کی اس پناہ سے کوئی ہاتھ باہر
مری اکائی جب ان گنت ۔بےشمار ہو جا نا چاہتی ہے۔
سوال ننھا فرشتہ کرتا ہے جب کبھی تو تلی زباں سے۔
پڑهی لکھی شخصیت اچانک گنوا ر ہو جا نا چاہتی ہے
ہماراشاعر جس معاشرے میں سانس لیتا ہے وہاں کی ناہموایوں کو شدت سے محسوس بھی کرتا ہے لیکن ردِعمل کے طورپر اس کے ہاں چیخ ہے اور نہ شور کی کیفیت ۔بس ایک سلجھاسااحتجاج۔اس احتجاج کے لیے اس نے کچھ مخصوص علائم کاانتخاب کیا ہے۔’ ’صحرا‘‘ ،’ ’ برف‘‘ اور’’ پتھر‘‘ اس کی پسندیدہ علامتیں ہیں ۔ ’’ پتھر‘‘ کی علامت اس کے ہاں معاشرتی بے حسی،احساس کی موت اورشخصی بے چارگی کا شدت سے احساس دلاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے معلوم ہے اس دیوتا کی عظمتیں ساری
وہ پتھر تھا،کسی دست_ہنر تک آ گیا ہوگا
سورج کی کرنوں سے اغوا ہونے والا کھار ا پانی
آبادی میں گھوم رہا اب گدلایا بنجارہ پانی
میں نہ کہتا تھا کہ ضبط کی خوش فہمی کچھ ٹھیک نہیں ہے
دیکھ ذرا سا بند کھلا اور پھیل گیا آوارہ پانی
آگ کی لپیٹیں ناچ رہی ہیں دجلہ والوں کی بستی میں
پیاس کے ما رہے چیخ رہا ہے روز فرات کا سارا پانی
حمد و ثنا رب العزت کی نا ممکن دلشاد ہے گرچہ
سارے پیڑ قلم بن جائیں اور سیاہی سارا پانی
ہم نے سحری کی تھے باقر خانی سے
ہمسائے نے روزہ کھولا پانی سے
آؤ ورنہ برف بدن ہو جاؤ گے
چادر پھٹ جائے گی کھینچا تانی سے
ایک اچھافنکار اپنے فن کاخوداچھا نقاد بھی ہوتاہے اوراس کے اندرکا تنقیدی رویہ ہی اس کے فن کے اصل معیارکا تعین بھی کرتاہے۔لیکن یہ خوبی ہرکسی کے حصہ میں ممکن نہیں ہوتی۔ ’’ کوئی ایک لمحہ رقم نہیں ‘‘ کاشاعراس امر سے نہ صرف آگاہ ہے بلکہ اس نے اپنے لیے( اور شاید سب کے لیے )فنی معیار کاایک خاص پیمانہ بھی مقررکررکھاہے۔
غرض نہیں مجھے سیلاب کی روانی سے
ندی چٹان کو کاٹے گی میٹھے پانی سے
نبھا نہ پاؤ گے کردار اپنے حصے کا
مجھے نکال کے دیکھو ذرا کہانی سے
ہجرتیں اپنے کاندھوں پہ ڈالے ہوئے
ہم بھی نکلے ہیں گھر سے نکالے ہوئے
خدا نے ان کی قضا کنکروں پہ لکھ دی تھی
بہت غرور دکھایا تھا فیل بانوں نے
ابھی سے قرض درانتی پکڑ کے بیٹھ گیا
ابھی تو فصل بھی کاٹی نہیں کسانوں نے
اب کہ پاکیزہ انوکھا کوئی پیارا سا ملے
غم تری آنکھ کے ٹپکے ہوئے آنسو جیسا
چار سو پھیل گیا تو کسی خوشبو جیسا
میں کہ الجھا رہا شب بھر ترے گیسو جیسا
کسی کا عکس نظر کے کھلے قفس میں تھا
خیال دوسرے منظر کی دسترس میں تھا
اک اجنبی سے تعارف کا لمس کیا کہیے
بہت خلوص خجالت بھری ہو س میں تھا،
دلشاد نظمی کی نظموں کے موضوعات اس کی غزلوں سے بالکل مختلف دکھائی دیتے ہیں۔اُس کی غزل مشاہداتی دور سے بہت آگے نکل کر ذات سے کائنات تک کی ایک طویل مسافت کی داستان ہے جب کہ اس کی نظم میں محبت میں ناکامی اورپھرمحرومی کاعکس نمایاں ہے۔یہ نظمیں شاعر کی ذات کےگردگھومتے ،جلتے بجھتے ،ایسے روشن دائروں کی مانند ہیں جن کی لَو میں ایک دل گرفتہ عاشق کا اصلی روپ دیکھا جا سکتا ہے۔ فنی اور فکری ،ہردوسطح پریہ نظمیں قاری کواپنی گرفت میں لیتی ہے اور پھر اسے ایک خاص ماحول سے مانوس کراتی ہیں۔ان نظموں میں شاعرکی زندگی کے شب وروزبکھرے پڑے ہیں ۔ہرنظم ایک مکمل تصویر کی صورت دکھائی دیتی ہے ۔ ہر کسی کی اپنی زبان ، اپنا انداز اور اپنی کتھاہے ۔محبت،ان نظموں کی روح ہے۔شاعر کی طرف سے اعترافِ محبت اور پھراس میں ناکامی پر ایک دکھ کے احساس کاشُستہ انداز میں اظہار، ان نظموں کی اصل خوب صورتی ہے۔
(1)
منٹو کے تعاقب میں *
مجھے منٹو سے ملنا ہے
وہی منٹو جو اپنی مختصر باتوں سے افسانے بناتا ہے
جو ہر موضوع سے انصاف کرتا ہے
جو ہر بہروپءیے کے چہرے پر
آئے پسینے سے
سماجی آئینے کو صاف کرتا ہے
خلالی انگلیاں جب داڑھیوں پر سرسراتی ہیں
کبھی تسبیح کے دانے گھماتی ہیں
وہ ساری اسکرپٹ از بر ہے منٹو کو
مرا منٹو کبھی ہلتے لبوں کو دیکھ کر دھوکا نہیں کھاتا
ہر اک ٹوپی. ہر اک دستار.
پیشانی کے قشقے پر
نظر ڈالے
فریب و مکر، شہوت کے مناظر،
ڈھونڈ لیتا ہے.
فحش کہتی یہ دنیا
اسے آوارہ لفظوں کا سخنور بھی سمجھتی ہے.
مرا منٹو فقط جراح ہے
شرفاء کا غرباء کا
وہ بس انصاف کرتا ہے
ہر اک ناسور سے یکساں
چھری الفاظ کی لے کر
جواں لہجے کے چاپڑ سے
ہر اک فاسد عقیدے،
رسم اور سفلی خیالوں کی
فقط کھالیں ادھیڑے
جسم کو پہچان دیتا ہے
وہ تب کہتا ہے دنیا سے
بہت کچھ ہوکے بھی انسان
بس
اتنے کا مالک ہے.
یہ شرفاء جو مہذب بن کے پھرتے ہیں
فقط منٹو سے ڈرتے ہیں
کہ اس کے ہارڈ ڈسک پر ہر کسی کے کارنامے سیو رہتے ہیں
مرے منٹو کے نظریں تو…. کسی بھی
ہاءی پکسل کیمرے سے بھی ہیں طاقتور
سماجی ایکسرے کے فن میں ماہر ہے مرا منٹو.
کسے ہے ایڈز. کس کے زریعہ آیا ہے. سبب کیا ہے
بہت اچھی طرح سے جانتا ہے سب
میرا منٹو.
معلم ہے. معالج ہے
مفکر ہے. مدبر ہے مصور ہے. سبھی کچھ ہے.
بہت منھ پھٹ بھی ہے
کیونکہ
مرض کی کرکے جب تشخیص
پرچی کاٹتا ہے تو
ہمیشہ سستے لوگوں کو
علاج اس کا بہت مہنگا ہی لگتا ہے
میرے منٹو کا گندہ کہنے والے خود ہی گندے ہیں
مرے منٹو کو حاصل یہ سعادت ہے.
*وہ ٹھنڈے گوشت*
کی *بُو*کو بہت اچھی طرح پہچان لیتا ہے
* بلاءوز * میں یا *برقعے* میں کوئی بھی ہو
ہو *سرکنڈوں کے پیچھے *یا
*دھواں * بارش* کی زد میں ہو
وہ ہر* موذیل*کو پہچان لیتا ہے
کوئی کہہ کر تو دیکھے
*کھول دو* پھر دیکھنا منٹو
انہیں دو لفظوں کے بل پر
مکمل شجرہ اس کا کھول دیگا
ایک جھٹکے میں
میرے منٹو کو ہیں دونوں طرف کی گالیاں از بر
اگلواتا ہے وہ کردار کے منھ سے.
سیاسی گندھ کو لفظوں کی کھُرپی سے کھرچتا ہے.
پروفائل ہے اس کے ذہن میں محفوظ عورت کی
ہر اک اچھی بری عورت کو
اپنے زاویوں سے وہ پرکھتا ہے
اگرچہ ان دنوں ہے اک زمانے سے کہیں غائب
میں اس کو ڈھونڈنے نکلا ہوں عرصے سے.
مجھے لکھوانے ہیں افسانے چند اک خاص لوگوں پر
سیاست داں.. پروفیسرز. بیرو کریٹس. ملّا پر.
مذہب پر.. حکومت پر. منافق پر.
ہیں موضوعات سارے منتظر
منٹو تو مل جائے.؟
(2)
کینوس*
سنو
اس کینوس کا ایک گوشہ
اب بھی خالی ہے.
یہ جو میں نے اتارا ہے
حسیں پیکر. … فقط پیکر نہیں ہے یہ. …
ہے اس میں دھڑکنیں…اور گرم سانسیں…..آہیں…..سسکاری. ..
کچھ اک ہیں ان کہے سے شبد
مبہم سے.
خود اپنے آپ سے کچھ کی گئی
خاموش باتیں ہیں .
ہیں ٹوٹے خواب کے منظر
جھکی پلکوں کے نیچے
سرخ ڈوروں پر.
یہ جو خاموش لب ہیں
پیاسے پیاسے سے
گلابی رنگ کے اندر
سے ابھری ہیں … زباں پھیری ہوئی
کچھ پپڑیاں .
کیا کہنے والی ہیں ؟
کتابی چہرے پہ بکھری .سیہ زلفیں
تمہارے حسن کو دو آتشہ کر کے
بہت مغرور لگتی ہیں .
ابھی رخساروں پہ کچھ سرخ سی
حدت…سلامت ہے…
یہاں گردن پہ کچھ نیلی رگیں شاید
تمہاری دھڑکنوں کی ترجماں بن کر
بڑی شدت سے ابھری ہیں .
ذرا سا خم ہے چہرہ اور.تمہاری
دھڑکنوں کے زیر و بم کو گن رہی شاید
تمہاری جھیل سی آنکھیں .
گھنیری پلکوں پہ بیٹھے ہوئے
کچھ ہجر کے جگنو…
ادھورے شبنمی لمحے….
بہت روئی ہو تم تصویر میں
آنے سے پہلے نا؟؟؟
یہ میرے قرب کے لمحے
ہر اک آنسو.سبھی آہیں. ..سبھی سسکاریاں..
ضم کرنے والے ہیں ..
ابھی خود میں…….
ذرا سا وقت دو جاناں ….سکوں بھرنے میں تھوڑا وقت لگتا ہے..
برش بھی منہمک ہے رنگ بھرنے میں .
مگر پہلو بدلنے سے
برش کے زاوئیے تبدیل ہوتے ہیں
بس اب اک آخری ٹچ مجھ کو دینا
یہ جو کونے پہ .نیچے
خالی گوشہ ہے.
میں اپنا نام لکھ دوں کیا.
یا پھر خالی ہی رہنے دوں…
بتاو نا؟
(3)
بھوگ*
آٹھ برس کی چنچل کملا
تتلی جیسی .
اس دن بھی تتلی کے پیچھے بھاگ رہی تھی.
اور تتلی کہ
اس کے ہاتھ نہیں آتی تھی..
تتلی کی لالچ میں نہ جانے
اونچی سیڑھیاں کب چڑھ بیٹھی.
ماں درگا مندر کے آنگن میں وہ تتلی
جا بیٹھی تھی.
ہاتھ بڑھا کر پکڑا تھا کہ
بڑے زور کی گرج نے اس کو
اندر تک دہلا کے رکھ دیا
دسشٹ. ..ہریجن .نیچ کمینی..تو مندر میں .؟؟؟
سہم گئی اک لمحے میں معصوم سی کملا. ..
گھونسے لاتوں کی زد میں معصوم سی بچی …چیخ رہی تھی .
سمجھ نہ پائی ایسا کیوں ہے؟
کچھ ہی چھنوں کے بعد اچانک
کام دیو کو بھوگ لگانے کی اچھائیں جاگ اٹھی تھیں..
پنڈے نے اپنے چیلوں کی نگرانی میں بھوگ لگایا.
اور پرشاد انہیں بھی بانٹا.
جاتے جاتے کہہ گیا .
بچہ…جھوٹا پتتل .. مندر کی پچھلی کھائی میں الٹا دینا….گدھ جناور موج کریں گے.
گھر کے باہر اک کونے میں
گھڑے کا سارا پانی اپنے سر پہ الٹ کر
ہری اوم کا جاپ کیا
اور
دبی زبان سے کہتا گیا دھت
بھرسٹ کر دیا دھرم ہمارا ..نیچ کمینی ..پاپی ہریجن ..کلموہی نے…..
(4)
کوکی لڑکی
ننگی۔۔۔۔ ہے بس ۔۔۔۔۔ روتی ۔۔۔بلکتی۔۔۔۔
آدی وا سی لڑکی چھو کر
تم نے کیا محسوس کیا تھا۔۔۔۔۔
مجھے بتاؤ ۔۔۔۔سچ سچ کہنا
مت شرماؤ
ڈر اور شرم سے کانپ رہی تھی
دوڑتے دوڑتے ہانپ رہی تھی
"کوکی "لڑکی
تم نے گھیرا ڈال دیا تھا
ننگے تن کے چاروں جانب
کہاں چھوا تھا؟
بولو بو لو ۔۔۔ شرماؤ مت
جہاں سے تم نے دودھ پیا تھا اپنی ماں کا
یا پھر اس سے تھوڑا نیچے
جس کے اندر خود تم بھی نو ما س رہے ہو
اُس سے اور ذرا سا نیچے؟
بیج جہاں روپا تھا تمہارے باپ نے اک دن
مل کے تمہاری ماں کے تن سے
لیکن مجھ کو یہ بھی بتاؤ
جہاں تہاں چھونے سے پہلے
اپنے گھر کی عورتیں یاد نہیں آئیں تھیں ؟
بولو بولو ۔۔۔۔۔ شرماؤ مت
ان کا ننگا تن آنکھوں میں لہرایا
یا
بھول گۓ تھے
ہوس بھری اُس بھیڑ میں رہ کر
شرم نہیں آئی چھونے سے؟
جنگل میں رہنے والے ہر ایک پرانی
یہ ” کوکرم” نہیں کرتے ہیں
آدمی ہو کر
جو کچھ بھی تم
کر گزرے ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں جذبوں سے پروئی ان تصویروں کے حوالہ جات دیے جانے کا ہرگزیہ مطلب نہیں کہ ہمارے شاعر کے ہاں نظموں کی بنیاداُس کے صرف ذاتی محبت کے تجربات ہیں(اوراگرایسابھی ہوتاتویہ نظمیں اردوادب کااثاثہ ہی ہوتیں)۔’’ کوئی ایک لمحہ رقم نہیں ‘‘ کے شاعر دلشاد نظمی کی نظموں کے موضوعات آفاقی نوعیت کے ہیں۔’’،منٹو کے تعاقب میں، ‘‘ کوکی لڑکی، ’’بھوگ‘‘، ’’کینوس ‘‘ ،السلام نگر ’اور ’’کتا پکڑنے والی گاڑی ‘‘ جیسی نظموں کاخالق یقینا اس عہد کاایک بڑاشاعرہے۔۔ نظمی نظم اور غزل کے آہنگ موضوعات اور فکری گہرائیوں سے آشنا ہیں دلشاد۔نظمی غزل اور نظم کی دنیا کا تازہ کار اور حوصلہ مند شاعر ہے۔ جو اپنے قاری کے سامنے انسان اور سماج کا کردار اور شعور کے دریچے کھولتا ہے.
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page