حقانی القاسمی، نئی دہلی
داخلی جذبات اور محسوسات کے اظہار کی کئی راہیں ہیں۔ایک راہ کا رشتہ شاعری سے جڑ جاتا ہے۔ جذبہ و خیال جب نغمہ و آہنگ میں ڈھل جائیں تو شاعری کی صورت بن جاتی ہے۔ ایک طرح سے شاعری جذبات کا نغماتی اظہارہی ہے۔
خوشبو پروین کے وجود میں ایک طرح کی نغمگی اور موسیقیت ہے جو ان کے تخلیقی وجود میں بھی تحلیل ہوگئی ہے۔ ان کی ذات میںجو خوشبو ہے وہ ان کی شاعری میں بھی شامل ہے۔اس لیے ان کی شاعری میں خوشبو کے استعارات اور تلازمات زیادہ ملتے ہیں۔ ان کی بیشتر شاعری میںعشق اورمحبت کی سرشاری ہے اور وہ سارے رنگ بھی جو محبت سے منسوب ہیں۔ عشق کے سارے شیڈس اور محسوساتی کیفیات ان کے شعری کینوس کا حصہ ہیں۔ وہی بے کلی ، وہی بیقراری، وہی اضطراب ، وہی التہاب،وہی ہجر، وہی وصال۔ اس شاعری میں محبت کی مسیحائی بھی ہے اور ہجر کی ناشکیبائی بھی:
پیا تھا جام ترے وصل کا کبھی مل کر
یہ زہر ہجر ہے تنہا اسے پیا میں نے
مل گئی مجھ کو نئی زندگی شاید اس دن
ہائے اس شخص پر جس روز سے مرنا آیا
میں منتظر ہوں نگاہوں کی عرضیاں دے کر
وہ اپنے دل پر مجھے کب بحال کرتا ہے
آئے گا لوٹ کر یہیں واپس وہ مرے پاس
کتنا ہے پُر یقین ابھی تک گُماں مرا
ان کی شاعری میں ایک خواب چہرہ ہے اور اسی چہرہ سے جڑی کچھ حکایتیں، کچھ شکایتیں، کچھ رنجشیں، کچھ رقابتیں، کچھ شوخیاں اور کچھ شرارتیں ہیں۔اسی خواب چہرہ کی وجہ سے اذیتیں ہیں اور عذاب بھی۔
ڈھونڈتی ہوں میں خوشبو کھلی آنکھ سے
خواب میں ایک چہرہ دکھا ہے مجھے
وہی ہے حرف وہی لفظ اور سخن میرا
اسی کا عشق غزل کا پیرہن میرا
اس کی ذات میں بس جائے گی خوشبو ساری
اپنی زلفوں کو جب میں زنجیر کروں گی
ہر لمحہ میری آنکھوں کے آگے تیرا چہرہ
دل میرا تیرے عشق کی تفسیر میں گم ہے
تمہارے نام کی سر پہ ہے اوڑھنی میری
یہ میری بانہوں کا حلقہ بنا ہے ہار تیرا
تمہارے نام کی خوشبو ہے میری سانسوں میں
قبول ہوگئی میری وہی دعا ہو تم
اس کی نظروں سے نظریں ہٹتی ہی نہیں
ڈوب گئی ہوں اف اب کیسی گہرائی میں
میں اس کی آنکھوں میں عشق کا باب پڑھ رہی ہوں
وہ صفحۂ دل پہ خود ہی تحریر ہورہا ہے
میں بتاتی تجھے کیا شئے ہے مرا شوق وصال
یہ غنیمت ہے کہ اس وقت تو تصویر میں ہے
خوشبو کی شاعری میںعشق کا نصاب بھی ہے ۔ موسم گلاب بھی ہے۔ وصل اورہجر کے تلازمات اور اس سے جڑی ہوئی رعنائیاں ،رنگینیاں، تنہائیاں، آنسو، دکھ سکھ سب اس شاعری میں موجود ہیں۔ وصال رُت اور ہجر موسم کے یہ رنگ دیکھئے:
اف وصل کے اس خواب نے آسودہ کیا ہے
اف کتنی سکوں بخش سی لذت ہے تھکن میں
میں ہوں اپنے حدود سے غافل
ہائے تنہائی میری تنہائی
شہر نا پرساں میں فرصت ہے کسے میرے لیے
بس غزل تنہائی میں خود گنگنا کر رہ گئی
ہجر کی شب اور آگ لگی ہے تن من میں
اور ایسے میں ہونی تھی برسات ابھی
گھنے بادل تو ہیں لیکن نہ آثار بارش کے
عجب ہے ہجر کا موسم میں تشنہ ہوگئی ہوں نا
بس اک لمس توانائی بخش دیتا ہے
ترے لبوں سے ملے جب کبھی دہن مرا
اس شاعری میں کہیں کہیں الہڑ دوشیزہ کے عشق رنگ جذبات ہیں تو کہیں کہیں جذباتی اور شعوری پختگی بھی ہے۔ زندگی جس شکل سے گزرتی رہی ان شکلوں کو خوشبو نے شعری صورت عطا کردی ہے۔ اس میں جہاں وفا اور ایثار کی پیکر، محبت میں سرشار ایک لڑکی نظر آتی ہے وہیں ایک ایسی لڑکی کا روپ بھی سامنے آتا ہے جو طوفانِ بلا خیز سے لڑ بھی سکتی ہے، سماج سے بغاوت بھی کرسکتی ہے، نسائی جبر و استحصال کے خلاف احتجاج اور مزاحمت بھی کرسکتی ہے۔ کیونکہ آج کی لڑکی ایک ہی ذہنی کیفیت یا قفس میں قید نہیں رہ سکتی۔ اس لیے خوشبو پروین کی شاعری میں صرف اقرار نہیں ہے، انکار بھی ہے ۔ہمیںیہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بارہ ماسہ کی برہن کبھی کبھی کالی کا باغی روپ دھارن کر لیتی ہے اور اس کے کومل جذبات، حدتِ جذبات میں بدل جاتے ہیں۔ اس کا شبنمی وجود شعلہ میں تبدیل ہوجاتاہے۔ یہ اشعار دیکھئے جس میں ایک رومان پرور خواب چہرہ کو اپنی آنکھوں میں بسائے رکھنے والی لڑکی کے جذبات کس طرح رنگ اور روپ بدلتے ہیں:
میں دھمکیوں بھرا پنجہ مروڑ سکتی ہوں
مجھے بھی حق ہے کہ میں تجھ کو چھوڑ سکتی ہوں
کسی کی بدتمیزی پہ طمانچہ جڑ بھی سکتی ہے
جو لڑکی دکھ بیاں کرتی ہے اک دن لڑ بھی سکتی ہے
’میں اگر فون اٹھاؤں تو تمہیں شک کیسا‘
شرٹ پر تیرے بھی تو سرخ نشاں ہوتاہے
جینا تنگ ہوا تو شہر دل سے ہجرت کرسکتی ہوں
جتنا پیار کیا ہے اس سے بڑھ کر نفرت کرسکتی ہوں
آپ سمجھتے ہیں کہ مری پہچان قائم ہو آپ کے دم سے
میں اپنی پہچان سے حاصل اپنی عزت کرسکتی ہوں
یہ ہے تمہاری خام خیالی تنہا چل نہیں پاؤں گی اب
میں اتنی کمزور نہیں اب تھوڑی ہمت کرسکتی ہوں
صنف نازک سمجھ کے اس کو بالکل عام سی مت سمجھو
سب کچھ کر گزرے گی ضدی لڑکی گر کچھ ٹھانتی ہے
تمہیں طلاق مجھے خلع کی اجازت ہے
میں اپنی مرضی سے ہر عہد توڑ سکتی ہوں
کوئی کمزور اب سمجھا کرے نہ صنف نازک کو
بقا کی جنگ بزدل لڑکی ایک دن لڑ بھی سکتی ہے
کمزور سی لڑکی نہ سمجھ لے مجھے دنیا
میں وقت پہ اٹھے ہوئے بازو کی طرح ہوں
ان سارے شعروں کا رشتہ Femancipation سے ہے اور اس میں Dependency Syndrome کے خلاف ایک آواز بھی ہے۔یہ انحصاریت خواتین کی خودمختاری کی نفی ہے۔ اسی لئے خوشبو نے اس طرح کے شعر کہے ہیں جس میں ایک لڑکی کا عزم وحوصلہ نظر آتا ہے اور یہ احساس دلانے کی کوشش بھی کہ وقت کے ساتھ لڑکی اپنا کردار بھی بدل سکتی ہے۔ اب وہ خاموش تماشائی نہیں رہ سکتی کہ اس کا کوئی بھی خیال یا جذبہ گھونگھٹ میں قید نہیں ہے۔
خوشبو پروین کی شاعری نسائی لفظیات کا جل گجرا، جھمکا، افشاں، پایل اور جھنکار سے ہی تشکیل نہیں پاتی بلکہ نسائیت سے ماوراء بھی بہت سے احساسات، مشاہدات ہیں جن میں عصریت ہے اور صارفیت بھی۔ دراصل ہم جس معاشرے میں سانس لیتے ہیں وہ مکمل طور پر صارفیت زدہ ہوچکا ہے۔ ایک مشینی اور میکانکی معاشرہ نے ساری قدریں بدل دی ہیں اور خود انسان بھی ایک ایسی شئے میں تبدیل ہوچکا ہے جسے خریدا اور بیچا جاسکتا ہے۔ سعود عثمانی کا ایک بڑا اچھا شعر ہے:
ہر شخص وہاں بِکنے کو تیار لگے تھا
وہ شہر سے بڑھ کر کوئی بازار لگے تھا
کہتے ہیں کہ اب تو محبت بھی تجارت بن گئی ہے اور تمام رشتے بھی منفعت اور مفادات سے جڑ گئے ہیں۔ اب گھر بھی ایک بازار ہے۔ ہماری ذات میں بھی بازاریت شامل ہوگئی ہے اسی لیے خاندانی رشتے بھی منہدم اور معدوم ہوتے جارہے ہیں۔خوشبو نے اپنی شاعری میں اسی صارفِی طرزِ احساس کو آج کے سماجی رویوں اور رشتوں سے جوڑ کر دیکھا ہے:
خود کی نمائش کا یہ شوق تمہیں اک دن لے ڈوبے گا
ویسے تمہاری مرضی اسے گھر رکھو یا بازار کرو
بس تم کو بازار کی رونق راس آتی ہے
میں گھر کو بازار بنا دوں کیا کہتے ہو
خرید لائے ہیں بازار کی ہر اک رونق
کسی مکان کے اندر مکاں نہیں ہے ابھی
قدم قدم پر ہوجائے گا پھر میرا انکار شروع
گھر سے نکلی تو آنکھوں کا ہوتا ہے بازار شروع
آخر دم تک مرد نے رشتہ کاروباری رکھا
نقد جہیز لیا تھا لیکن مہر ادھاری رکھا
مٹھاس کھو نہ دیں رشتے کہیں تجارت میں
زیادہ ہونے میں بھی خسارہ ہے
خوشبو پروین کی پوری شاعری ان کے داخلی جذبات اور احساسات کی اوڈیسی ہے۔ اس میں خیال کی گھنیری چھاؤں بھی ہے، احساس کی سلگتی دھوپ بھی، اوراظہار کی تمکنت و تمازت بھی۔اس میں جذباتی تضادات اور کیفیات کی تصویریں ہیں اور زندگی کی تلخ اور شیریں حقیقتیںبھی ۔ خوشبو کی شاعری میں کئی کردار ہیں عاشق، معشوق، رقیب اور انہی میں ایک اوربہت خوبصورت کردار ہے۔ وہ ہے ماں :
مہک سے جس کی معطر ہے زندگی میری
وہ میری ماں ہے مری ماں ہے مری ماں خوشبو
ہر کسی نے کیا ہے ہاتھ ملا کر رخصت
صرف اک ماں نے دعا دی تھی سفر سے پہلے
یہ ساتھ آخری سانسوں تلک رہے گا مرا
جہاں رہوں گی وہاں ہوگی میری ماں خوشبو
اس شاعری میں ذات کا کرب بھی ہے اور زمانہ کا درد بھی۔ غم جاں بھی ہے ، شورش دوراں بھی۔ اس میں خوشبو کے حسی اور مشاہداتی تجربات بھی ہیں اور عصری حسیت بھی۔ خوشبو نے حوادث زمانہ اور احوال عصر کو بھی اپنے احساس و اظہار کے کینوس میں شامل رکھا ہے۔ انھوں نے جو اپنی ذات اور کائنات کے درون میںجو محسوس کیا ہے ا سے شاعری کا پیرہن عطا کیا ہے ۔
سزائیں کاٹ رہے بے گناہ لوگ یہاں
جنھوں نے جرم کیا ان کی ہے سزا مشکل
گھر میں روٹی بھی پکنی ہے شام تلک مزدورن کے
دن کا پسینہ پوچھ رہی ہے سردی میں پیشانی سے
اب کہیں نہیں ملتا ہم کو عدل فاروقی
قتل کو یہاں منصف حادثہ دکھاتا ہے
رشتوں کے درمیان تو جیسے کرایہ دار ہوں
اﷲ اس کو گھر کرے رہتی ہوں جس مکان میں
خوشبو پروین کی شاعری خوبصورت احساسات اور جذبات کا ایک نگار خانہ ہے۔ اُنھوں نے وجدانی محویت کے عالم میں نہ جانے کیسے کیسے شعر کہہ دیئے ہیں۔ اُن کے اظہار میں کہیں کہیں جدت و ندرت بھی ہے۔ خیال کی یہی رعنائیاں خوشبو کو ایک نئی شناخت عطا کر سکتی ہیں۔ دیکھیے کتنی خوبصورتی کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے:
کچھ بھی نہ کہہ سکی میں لگی ہونٹ کاٹنے
اُس کی قمیض پر تھا لبوں کا نشان سا
حاجت ہی نہیں داد کی محراب بدن کو
انگڑائی ابھی لذت زنجیر میں گُم ہے
اب اور کسی لمس نہ چھڑکاؤ کی حاجت
واللہ معطر ہوں میں خود اپنے بدن میں
اس نے لکھا تصویر پہ میری بادل سے نکلا آدھا چاند
آدھا چہرہ کھلا ہوا ہے آدھے پر ہیں گیسو آئے
خوشبو ہے طاری ہجر کی سکرات مجھ پہ کیا کروں
پالوں جو اس کی اک جھلک آئے گی جان، جان میں
رانجھا بنا پھرتا ہے کوئی ہیر میں گُم ہے
ہر شخص یہاں خواب کی تعبیر میں گُم ہے
قارئین اس شعری مجموعہ کی سیر کریں گے تو ایک ایسی شاعرہ سے ملاقات ہوگی جس کے پاس تجربات اور مشاہدات کا انمول خزانہ ہے اور جس نے حیات و کائنات کے وہ سارے رنگ دیکھ لیے ہیں جس کو دیکھنے کے لیے ایک عمر چاہیے۔
Haqqani Al Qasmi
Cell : 9891726444
Email:haqqanialqasmi@gmail.com
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page