جدیدیت کے زیر اثر جن شعری رویوں کو فروغ دیا گیا بلا شبہ وہ شکست و ریخت کے ساتھ نئی قدروں کی تلاش کے جذبے پر مبنی تھا۔ ایک انفرادی احساس کی ترجمانی اور عصری حقائق کو تخلیقی طور پر برتنے کی کوشش کی گئی ،جس کے جلو میں مختلف فکری دھارے شامل تھے۔ اس میں مغربی افکار و نظریات کے ساتھ دیومالائی عقائد و افکار، انسانی نفسیات نیز علامتی اظہار کو بطور خاص بروئے کار لایا گیا۔فلسفۂ وجودیت کو جدیدیت کی اساس سمجھا جاتا ہے ۔یہ فکری میلانات اورجدیدتخلیقی رویے قدیم شعری روایت سے مختلف ہونے کے باوجود پیش رو شاعری انداز و اسلوب میں شامل ہوکر جدید ہوگئے۔ پروفیسر شمیم حنفی کے بقول:نئی شاعری میں پیش رو شاعری کے کئی رنگوں کا طلسم کار فرما نظر آتا ہے اور ان مسائل و معاملات کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے جو نئی شاعری کے آغاز سے پہلے بھی شعرا کے فکر و نظرکا مرکز بن چکے تھے۔‘‘
تخلیقی سطح پر فن کاروں نے کسی ایک جذبے یا محض حسن و عشق کی ترجمانی نہیں کی بلکہ تخیل سے تعقل کی طرف رخ بھی کیا۔بیگانگی، دربدری، تشکیک، مراجعت، تنہائی اور بغاوت کو تخلیقی پیکر عطا کیا۔اس طور پر جدیدیت کا شعری منظرنامہ مختلف النوع تجربات اور احساسات کا حامل کہا جاسکتا ہے۔گزشتہ نصف صدی کے شعری تجربوں سے اس کی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔
جدید شاعری کے ناقدین کا بالعموم یہی شکوہ ہے کہ نئی شاعری کا اس کے قاری سے کوئی ربط نہیں ہے۔ اس میں نہ کوئی پیغام ہے نہ جذبہ اور تاثر۔ حالانکہ یہ جدید رویہ قدیم ادب کی ہی پیداوار ہے، اس سے الگ کوئی نئی چیز نہیں۔ اس لیے کہ کسی بھی عہد کا ادب اس وقت کے لوگوں کے لیے پریشان کن ہی ہوتا ہے۔ بقول شمس الرحمن فاروقی:
’’ہر عہد کا نیا شاعر اپنے ہم عصروں کی نگاہ میں ناقابل فہم، الجھا ہوا، مشکل اور مبہم ہوتا ہے جب کہ اس کے فوراً بعد آنے والی نسل اسے بہ خوبی سمجھ لیتی ہے اور اس کے کلام پر سردھنتی ہے۔‘‘
جدیدیت کے شعری تجربوں کے زیر اثر شاعری میں ابہام اور دوہری علامتوں کا بکثرت استعمال کیا گیا، جس پر رد عمل کی صورت میں ایسا محسوس ہوا کہ اس شاعری کاماضی یا کلاسیکی ادب سے کوئی رشتہ نہیں۔حالانکہ شاعری کی فکری اور فنی بنیادوں پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ نئی شاعری نے فن پر زیادہ زور دیااور اسی غیر مشروط ذہن نے خلاقانہ طبیعت کو اظہار کے نئے ابعاد سے ہم کنار کیا۔ جدید غزل گویوں نے زندگی کے ادراک اور نئے حقائق کی بازیافت کے لیے فن اور ہیئت کو نئے تجربوں سے آشنا کیا۔ لفظیات اور علامتوں کے نت نئے استعمال ہی اس کا وسیلہ ہیں، جو ہر عہد کا خاصہ رہے ہیں۔ زبان کے نئے تجربے شعری فضا کی وسعت اور معنویت کے امکانات سے عبارت کہے جاسکتے ہیں ۔اکہری معنویت کو نثر کا امتیاز کہا جاتاہے اس کے لیے شعر کی ضرورت نہیں ۔اس صورت میں شاعری بالخصوص غزل کی رمزیت اور ایمائیت خاک ہوجائے گی ۔اسی لیے معنویت کی تلاش کو نئی غزل کا امتیاز کہنا بجا قرار پائے گا۔
جدید غزل کے بے شمار شعری تجربوں کے تناظر میں یہ چند شعرا کو سمجھنے اور ان کی شاعری کی نمایاں پہلوؤں کا کسی قدر مطالعہ کیا گیا ہے۔ اس مطالعہ میں معنوی انسلاکات اور فنی خوبیوں کو زیادہ پیش نظر رکھا گیا ہے تاکہ عصر حاضر کی غزل کا تجربہ اپنے فنی ابعاد کے ساتھ ہمارے سامنے آسکے ۔
پروفیسر شہپر رسول کی غزلوں میں تخلیقی اسرار کے عمدہ نمونے موجود ہیں ۔شعر کی بعض صورتیں تو ایسی ہیں کہ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس میں کچھ کہا ہی نہیں گیا ہے مگرغور کرنے پر معنی کی ایک دنیا آباد دکھائی دیتی ہے ۔واضح رہے کہ یہ سب کچھ تخلیقی سطح پر برتنا عام طور پر آسان نہیں ہوتا ؎
سادگی سحر ہے لیکن شہپر
اتنا آسان کہاں ہے سب کچھ
جدید شعرا کی ایک نمایاں صفت یہ ہے کہ ان کے یہاں شاعر/متکلم پر کسی طرح کے سیاسی یا سماجی نظریے کی کوئی پابندی اثر انداز نہیں ہوتی ۔وہ جو کچھ محسوس کرتا ہے اسے آزادانہ طور پر بیان کردیتا ہے ۔اس تناظر میں شہپر رسول کا ایک مطلع ملاحظہ فرمائیں ؎
ایک دن نہ رونے کا فیصلہ کیا میں نے
اورپھر بدل ڈالا اپنا فیصلہ میں نے
فیصلہ کرنے والا اور اسے بدلنے والا کوئی اورنہیں بلکہ خود متکلم ہے ۔فیصلے کی تبدیلی یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ ہم پر کسی کا زور یا جبر نہیں،بلکہ اپنے فیصلے کے ہم خود مالک ہیں ۔اپنے خیال اورافکار میں شاعر/ متکلم آزاد ہے ۔ان اشعار میں متکلم کا آزادانہ رویہ ہے، جو کسی کے زیراثر نہیں ہے ۔ وہ جو کچھ بھی کہہ رہا ہے وہ اس کا اپنا محسوس کیا ہوا تجربہ ہے ۔درج بالاشعر پر اگر غور کریں تو یہ بالکل سادہ اور آسان شعرہے ۔ شعر میں رونے کے فیصلہ سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ شعر محدود ہوگیا ہے مگریہ مبہم ہے کہ رونے کا سبب کیا تھا اور اسی ابہام نے شعر کے معنوی امکانات کو روشن تر کردیا ہے ۔اسی طرح ان کا ایک اورشعر ہے ؎
دور تک دھند دھواں ہے سب کچھ
وہ جو سب کچھ تھا کہاں ہے سب کچھ
اس شعر میں دھند اوردھواں کے لیے سب کچھ استعمال کیا گیا ہے ،جو آن کی آن میں غائب بھی ہوجاتے ہیں ۔اس لیے دھند اور دھواں کی کیفیت رہتی ہے مگر کب ختم ہوجائے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اسی لیے دوسرے مصرعے میں کہا گیا کہ’ وہ جو سب کچھ تھاکہاں ہے سب کچھ ‘یعنی ختم ہوگیا۔ لیکن اگر اس پر مزید غور کیا جائے تو شعر کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ جو کچھ دھند اور دھوئیں کی کیفیت سے پہلے یہاں تھا ،وہ اب یہاں نہیں ہے تو اور ہو سکتا ہے کہیں اور منتقل ہو گیاہو،تو آخر وہ جگہ کہاں ہے۔پھر یہ سوال بھی کہ یہ سب کچھ کیا ہے؟ہمارے داخلی وجود کی چیزیں ہیں یا دنیا کی وہ باتیں ہیں جو اب قصۂ پارینہ بن کر غائب ہوگئی ہیں۔اس طرح دیکھئے تو بظاہر یہ سادہ سا شعر اپنے اندر کتنی تہ داری رکھتا ہے۔
’’شعری فنی اظہار میں معنوی گہرائی اور تخلیقی اسرارکا ہونا اس کی بہتری کی دلیل ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتو شعر محض سپاٹ بیان بن کر رہ جائے ‘‘۔معنوی گہرائی اور تخلیقی اسرار کی بہت سی مثالیں شہپر رسول کے یہاں دیکھی جاسکتی ہیں ۔بطور مثال یہ شعر دیکھیں ؎
بددعا اس نے مجھے دی تھی دعا دی میں نے
اس نے دیوار اٹھائی تھی گرا دی میں نے
خواب کے مثلث میں میں تھا وہ تھا دنیا تھی
خواب کیا مثلث کیا زاویہ نہیں ملتا
جدید غزل گو شعرا کے یہاں ایک خوبی ابہام کی ہے ۔بنیادی طور پر یہ ایک شعری حسن ہے ۔غزل کے فن سے واقفیت رکھنے والے اس سے اچھی طرح واقف ہیں ۔یعنی بات کو بہت واضح اور کھول کر نہ کہا جائے بلکہ بات کو چھپا کر کہا جائے ۔اس میں کچھ تہ داری اور گہرائی ہو ،تاکہ معنی کے امکانات پیدا ہوں۔
میری نظر کا مدعا اس کے سوا کچھ بھی نہیں
اس نے کہا کیا بات ہے میں نے کہا کچھ بھی نہیں
چپ گزر جاتا ہوں حیران بھی ہوجاتاہوں
اور کسی دن تو پریشان بھی ہوجاتا ہوں
پہلے شعر کو غیر معمولی اورنہایت عمدہ شعر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔اس کی تشریح بھی آسان نہیں ہے اس لیے کہ اس میں معنوی ابعادبہت زیادہ ہیں ۔ اسے متصوفانہ افکار وخیالات سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں ۔یعنی جو میرا مطلوب ومقصود ہے ،اس مطلوب و مقصود سے میرا کوئی مطلوب ومقصود نہیں ہے ۔جب کوئی کسی کو چاہتا ہے تو اس سے مطلب براری مقصود ہوتی ہے یا حاجت روائی نہیں ہے۔’’کیا بات ہے ‘‘کا فقرہ برائے استفسار ہے جبکہ ’’کچھ بھی نہیں ‘‘خلوص اور بے لوث جذبے کی غمازی کرتا ہے ۔دوسرا شعر بھی سادگی میں پیچیدگی لیے ہوئے ہے ۔بہت واضح اور سادہ ہوتے ہوئے بھی شعر کی کئی طرح سے تشریح ممکن ہے ۔
بیان کی ایک جہت وہ بھی ہے جہاں فن کار اپنی بات کہنے کے لیے ایک نیا پہلو تلاش کرتا ہے یعنی کہنے کا ایک اور زاویہ ۔ فن کار کچھ اہم شعری مضامین اس طرح بیان کرتا ہے کہ اس میں نشتریت اور طنز کا پہلو غالب ہوتا ہے ۔شہپر رسول کے یہاں اس نوع کے اشعار کی کمی نہیں ہے اور یہ اشعار خاصے بلیغ اور معنویت کے حامل ہیں ۔پروفیسر شہپر رسول کے یہاںاس نوع کے اشعار دو طرح کے ہیں ۔پہلی قسم ان اشعار کی ہے جس میں خالص ادبی معاملات و مسائل کے تناظر میں طنز کیا گیا ہے ۔اس کا سبب یہ ہے کہ شہپر رسول کی پوری ادبی زندگی ان کی اپنی آزادنہ روی کی غماز ہے ۔انھوں نے شہرت و ناموری کے لیے ان عام راہوں کو اختیار نہیں کیا۔ابتدائی چند اشعار کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے ۔یہاں تنقید یا طنز کی کوئی ایک صورت نہیں ہے ۔
حصول شہرت ادب ہی میں کرنا ہے تم کو
تو سمینار کرانا مشاعرے کرنا
کتنی نئی زبان ہو کیسا نیا سخن
اس عہد کو تو دیکھ لوں غالب کو کیا کروں
جدید کیسے ہیں مابعد کے جدید ہیں کیا
کہاں کے بیج یہ کن مٹیوں میں بوتے ہیں
ادھر تخلیق کے جادو پہ ہے بنیاد شہرت کی
ادھر تنقید کے طوطے میں اپنی جان رکھتے ہیں
طنز کی دوسری جہت زندگی کے عام رویے ہیں ۔یہاں بھی شعری مضامین کو نبھانے کی خاص کوشش کی گئی ہے ۔ان اشعار میں متکلم کی یہ کوشش بھی قابل قدر ہے کہ اس کے بیان میں سلیقہ مندی اوراس احساس کی پاسداری بھی ہے جس سے کہ عزت و احترام کا پہلو ہاتھ سے نہ جانے پائے ۔
ہمارے دوست ہیں وہ بھی اسی باعث انھیں ہم سے
پریشانی نہیں رہتی پریشانی سی رہتی ہے
عقل کہاں بس قد والوں کا چرچا ہے
پودوں کو اشجار سمجھ لیتے ہو کیا
عقل سب شعر بنانے میں کھپا دیتے ہیں
بات کرتے ہیں سخن نامہ آیندہ کی
ان اشعار سے شہپر رسول کی تخلیقی ہنر مندی کا خاطر خواہ اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔
شہپر رسول بسا اوقات لفظیات کی سطح پر بھی تازگی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اسی لیے ان کے کلام میں روایتی الفاظ کم سے کم نظر آتے ہیں ۔ان کی جگہ شہپر رسول ان الفاظ سے مضمون پیدا کرتے ہیں جو ہماری بول چال کی زبان کے بہت مروج الفاظ ہوتے ہیں۔خیال رہے کہ ایسے الفاظ سے کامیاب اشعار نکال پانا اکثر بہت مشکل ہوتا ہے۔لیکن شہپر رسول نے یہ کام بہت سلیقے اور خوبی کے ساتھ کیا ہے۔اس بات کو اس طرح بھی سمجھا سکتا ہے کہ جب شاعر روایتی الفاظ پر شعر کی بنیاد رکھتا ہے تو اکثر وہ الفاظ خود مضمون کی طرف رہنمائی کرتے ہیں،خواہ وہ مضمون روایتی کیوں نہ ہو۔لیکن جب شاعر ان الفاظ سے خود کو ذرا فاصلے پر رکھتا ہے تو اس وقت اس کا کام اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔وہ نئے الفاظ سے مضمون کے نئے منطقوں کی سیر کرنے کی طرف مائل ہوتا ہے۔یہاں اگر شاعر قادرالکلام اور ماہر فن ہے تو وہ اس سیر میں نئی زمینوں کی تلاش میں کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔مجھے شہپر رسول کے یہاں ایسے اشعار خاصی تعداد میں دکھائی دیتے ہیں جن میں وہی پہلو نظر آتا ہے جس کی طرف یہاں اشارے کئے گئے۔اس سلسلے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
پھر آج میرے درد نے مجھ کو منا لیا
کوئی کسی عزیز سے کب تک خفا رہے
آج کل آج کل میں ڈھلتے رہے
آج آیا نہ کوئی کل آیا
شرارت کی جو ’’ر‘‘ہے اس پہ لازم ہے نظر رکھنا
کہ شر کی راکھ نے پھر سے شرر کا خواب دیکھا ہے
ہر اچھا کیا ہر عالم میں اچھا ہے
اچھے کو شہ کار سمجھ لیتے ہوکیا
آخر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شہپر رسول جدید غزل کی دنیا کا ایسا نام ہے جن کی شعری کائنات کے بہت سے رنگ ہیں۔ان رنگوں میں تابانی اور تازگی کے بہت سے سامان پوشیدہ ہیں۔انھیں دیکھنے کے لیے ہمیں جدید غزل کو اس کی اپنی خصوصیات کے ساتھ رکھ کر سمجھنے کی ضرورت ہے، اور ان خصوصیات کی بھرپور نمائندگی کرنے والے شاعر کانام شہپر رسول ہے۔
احمد محفوظ کی شاعری کا غالب اسلوب انشائیہ قرار پائے گا ۔ ان کی شاعری میں استفہام برائے استفہام اور برائے اثبات دونوں طرح کی مثالیں موجود ہیں۔بطور مثال چند شعر ملاحظہ فرمائیں
یقینا آپ کو دھوکا ہوا ہے
و گرنہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے
ابھی کیا جان کی بازی لگائیں
ابھی نقصان ہی کتنا ہوا ہے
کہاں ہوتے جو ہم موجود ہوتے
نہ ہونا ہی تو ہے ہونا ہمارا
در خواب کیوں بند رکھتی ہے رات
ابھی تک کسی پر کھلا کچھ نہیں
کیا دل میں بسائوں تیری صورت
آئینہ میں عکس ہے نہیں ہے
ترے سوا بھی ہزار منظر ہیں دیکھنے کو
تجھے نہ دیکھوں تو کیوں ترا انتظار دیکھوں
ان اشعار میں استفہام کی جو مختلف صورتیں جلوہ گر ہیں ایک طرح سے وہ ظاہر اور باطن دونوں سے مکالمہ کرتی ہیں ۔ بعض صورتوں میں سوال کے جواب کے لیے ذہن بہت دور تک تعاقب کرتا ہے مگر کوئی صورت نہ بننے پر سوال کی ہی صورت لوٹ آتا ہے ۔
پہلے شعر میں ’دھوکا‘ کے ذریعہ زبردست ابہام پیداکیاگیا ہے لیکن استفہام کو اثبات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ تخلیقی نیرمندی کی اس صورت میں صرف جذبے اور احساس ہی کی کار فرمائی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ شعر کی صورت گری کی بھی تمام کوشش کی گئی ہے ۔تیسرے شعر کو زبان و بیان اور اس کے ساتھ خیال کا نہایت عمدہ نمونہ کہا جاسکتا ہے ۔ شعر کی ایک اور خوبی یعنی سہل ممنع کا حامل ہونا بھی ہے ۔ مرزا غالب کا شعر سب کے ذہنوں میں ہوگا
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
غالب سے مقابلہ تو نہیں لیکن یہ کہیے بغیر چاہ نہیں کہ جدید شاعری نے اس مضمون کو اس سے کم لفظوں میں ادا کرکے فنی اور تخلیقی دونوں ہنر مندی کا ثبوت دیا ہے ۔دراصل سوالات کا سارا سلسلہ اس ذہنی رو سے عبارت ہے جو ہمارے زمانے نے ہم کودیا ہے کیونکہ اس پورے عہد کا مزاج ایک غیر یقینی صورت حال یا فضا سے وابستہ ہے ۔ نئی شاعری یا جدیدیت کے زیر اثر کی جانے والی شاعری میں جس کی بہت زیادہ کار فرمائی ملتی ہے اور اس کے بہت عمدہ نمونے ہم احمد محفوظ کی شاعری میں دیکھ سکتے ہیں ۔ بے یقینی کی یہی فضا ہمیں تنہا بھی کرتی ہے اور خود اپنے تجربے پر ہی یقین کرنے کو اکساتی ہے ۔ یعنی صرف تفکرات پر ہی اکتفا کیا جائے بلکہ آج کا انسان اسے تجربہ کرکے بھی دیکھنا چاہتا ہے ۔ احمد محفوظ کا شعر ہے
بس بہت ہوچکا یہ وہم و خیال
تہہ میں کیا ہے اتر کے دیکھتے ہیں
عذاب کوچۂ جاں میں یونہی نہیں اترا
غلط تعین سمت سفر میں کچھ تو ہے
غلط سمت سفر کے تعین کے باوجود اسے ایک تجربہ تو حاصل ہورہا ہے اسی طرح پہلے شعر میں تہہ میں کیا ہے اسے اتر کے دیکھنے کا جواز یہی اپنا تجربہ ہے ۔ یعنی صورت حال اس قدر غیر یقینی ہوچلی ہے کہ فرد کو صرف اپنے تجربے پربھروسہ ہے ۔ ظاہر ہے یہ ساری چیزیں اس پورے عہد اور مزاج کا حصہ ہیں جس میں فن کار سانس لے رہا ہے ۔
احمد محفوظ کی شاعری کی ایک خوبی صورت حال کو بیان کرنے کے ہنر سے عبارت ہے ۔ اسے ہم تجریدی بھی کہہ سکتے ہیں ۔ میری مراد یہاں اس طرح کی شاعری سے ہے جس میں تخلیقی تجربہ سیدھے اور سپاٹ صورت کے بجائے حد درجہ پیچیدہ اور غیر واضح صورت میں سامنے آتا ہے ۔ایسے شعروں میں جو تجربہ بیان ہوتا ہے اسے فوری طور پر گرفت میں لینا مشکل ہوتا ہے ۔اس آرٹ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں دیگر فنی رموز بھی پنہاں ہیں ۔عدم وضاحت کو ہی شعری اصطلاح میں ابہام کہتے ہیں ۔
ہمیں بھی خاک ہونا ہے وہاں تک
جہاں تک آسماں پھیلا ہوا ہے
دیدنی ہے یہ توجہ بھی بانداز ستم
عمر بھر شیشۂ خالی سے پلاتا ہے مجھے
کیا کرتے کہیں اور ٹھکانہ ہی نہیں تھا
ورنہ ہمیں اس کوچے میں آنا ہی نہیں تھا
رات آنکھوں میں مری گرد سیہ ڈال کے وہ
فرش بے خوابی وحشت پہ سلاتا ہے مجھے
ابھی اک عذاب سے ہے سفر اک عذاب تک
ابھی رنگِ شام زوال میں نہیں آئوں گا
پہلے شعر میں محاورہ(خاک ہونا) کے ساتھ ساتھ بے بسی اور بے چارگی کی کیفیت نمایاں ہے ۔
دوسرے شعر میں شیشۂ خالی کی ترکیب میں معنی کا ایک خاص پہلو بھی ہے ۔واضح رہے کہ شراب پینے کے جو ظرف ہیں ان میں شیشہ اسے کہتے ہیں جس میں شراب کی مقدار کم ہوتی ہے ۔ یہ سائز کے اعتبار سے گلابی سے ذرا بڑا ہوتا ہے ۔ان ظروف کی ترتیب اس طرح بیان کی جاتی ہے پتلہ،مینا،شیشہ،گلابی اور قلم ۔تیسرے شعر میں کوچہ کا لفظ خاص اہمیت کا حامل ہے ۔یہ لفظ اشارہ کررہا ہے کسی خاص جگہ کے لیے ۔اگر اسے عشقیہ مضمون کا شعر مانا جائے تو یہ معشوق کا کوچہ قرار پائے گا اور اگر اسے دنیا کے بارے میں مانیں تو یہ پورا کوچہ یہی دنیا ہے ۔کوچہ کا استعمال بہت ہی مبہم ہے ۔اسی وجہ سے یہ ایسا استعارہ بن جاتا ہے کہ مختلف تناظر میں اس کے الگ الگ معنی ہوجاتے ہیں ۔اور اسی وجہ سے اس کے معنوی امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔واضح رہے کہ اس کوچے کے بجائے اگر ترے کوچے کہا جاتا تو معنی محدود ہوجاتے ۔اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس شعر میں خاص اشارہ تو ہے مگرعدم وضاحت کا پہلو غالب ہے ۔
احمد محفوظ کی شاعری کا اگر بنظر طائر مطالعہ کیا جائے تو فنی ہنرمندی کی بعض استادانہ جہتیں نظر آتی ہیں۔ شعرکا مضمون اور اس کی ادائیگی کے لیے لفظوں کا مناسب استعمال بہت بڑی خوبی ہے یعنی وہ جدید طرز اظہار کے ایسے تخلیق کار ہیں جس کے یہاں زبان و بیان کے کلاسیکی انداز ملتے ہیں ۔ ان کی تخلیقی سرگرمی کی ایک جہت شعری مرکبات کے تجربے کی صورت میں سامنے آتی ہے کہا جاتا ہے کہ شعری مرکبات شاعر کی قوت تخلیق کا پتہ دیتے ہیں ۔ اس لحاظ سییہ چند اشعار ملاحظہ کریں اور محسوس کریں کہ ان کی شاعری تخلیقی ہنر مندی کے کتنے الگ الگ جواز رکھتی ہے ۔
عزیز کیوں نہ جاں سے ہو شکست آئینہ ہمیں
وہاں تو ایک عکس تھا یہاں ہزار ہوگئے
یہاں جو دل پہ داغ تھا وہی تو اک چراغ تھا
وہ رات ایسا گل ہوا کہ سوگوار ہوگئے
لگ گئے رنگ ہنرمیں ایک ہی تصویر میں
پھر کوئی صورت نہ نکلی نقش ثانی کے لیے
یہ کیا خوں ہے کہ بہہ رہا ہے نہ جم رہا ہے
یہ رنگ دیکھوں کہ دل جگر کا فشار دیکھوں
کہاں کی کوئی فرصت فضول باتوں کی
تمام رات وہاں ذکر بس تمہارا تھا
سر بہ سر پیکر اظہار میں لاتا ہے مجھے
اور پھر خود ہی تہہِ خاک چھپاتا ہے مجھے
ان اشعار میں جو مضامین بین کئے گئے ہیں وہ تو قابل غور ہیں ہی یعنی پہلا شعر ہمیں علامہ اقبال کے شعر کی یاد دلاتا ہے
تو بچا بچا کے نہ رکھ ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکست ہو تو عزیز ہے نگاہ آئینہ ساز میں
علامہ اقبال کے یہاں شکستگی آئینہ ساز کو عزیز تھی مگر یہاں آئینہ کے عزیز ہونے کا جواز اسی آئینے سے پیدا کیا گیا ہے کہ ٹوٹنے کے بعد یہ عکس ہزار ہوجاتا ہے ۔دوسرے شعر کی پوری فضا پیکر تراشی کی عمدہ مثال ہے ۔یہاں لفظی مناسبت بھی قابل غور ہے ۔دل کا داغ یعنی زخم کو چراغ صورت کہا جاتا ہے اسی زخم سے یاد تازہ رہتی ہے اور جب زخم بھر جاتا ہے تویاد ختم ہوجاتی ہے اور یہی چیز سوگواری کی کیفیت پیدا کرتی ہے ۔اسی مضمون کا ایک شعر احمد مشتاق کا ہے جو بجاطور پر مشہور ہے ۔
روشنی رہتی تھی دل میں زخم جب تک تازہ تھا
اب جہاں دیوار ہے پہلے یہاں دروازہ تھا
تیسرا شعر پڑھتے وقت میر کا شعر یاد آتا ہے ۔لطف یہ ہے کہ میر تقی میر اور احمد محفوظ دونوں کے شعروں میں مضمون کے ساتھ ساتھ بیان کا لطف خوب ہے ۔میر کا شعر ہے
میں نہ کہتا تھا کہ نقش اس کانہیں نقاش سہل
چاند سارا لگ گیا تب نیم رخ صورت ہوئی
چاند کی رعایت سے میر نے نیم رخ استعمال کیا ہے ۔احمد محفوظ کے شعر میں رنگ ،تصویر ،صورت اور نقش ثانی کا فنکارانہ استعمال ہوا ہے ۔احمد محفوظ /فنکارکی بے بسی بھی خوب ہے کہ سارا زور/ہنرایک ہی تصور میں لگ گیا اور پھر اپنے ہی فن کے نقش ثانی کی کوئی دوسری صورت پیدا نہ ہوسکی ۔فنکار نے ایک ہی تصویر میں اپنا فن تمام کردیا اس جیسی تصویر دوسری نہیں بنا سکا۔اس کے فن کا کمال کہا جاسکتا ہے کہ جہاں پھر وہ دوبارہ نہیں پہنچ سکا ۔اس میں فنکار کی تعریف بھی ہے کہ اس نے ایسے فن کا مظاہرہ کیا کہ دوسرے کیا وہ خود اس جیسے شاہکار کو دوبارہ بنانے سے عاجز ہے ۔اوپر جس تجریدی آرٹ کی بات کہی گئی ہے یہ شعر اس سے براہ راست تعلق تو نہیں رکھتا مگر احمد محفوظ کے شعری کمالات میں پیچیدگی کو خاص دخل ہے اس کی متعدد صورتیں اس شعر میں بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہیں ۔حالانکہ یہ بظاہربہت سادہ دکھائی دیتا ہے ۔اگلے شعر میں خون کے بہنے اور جمنے اور پھر دل و جگر کا فشار دراصل اسی لفظی مناسبات اور رعایت کا استعمال ہے جو احمد محفوظ کی شاعری میں جگہ جگہ دامن دل کو کھینچتا ہے ۔
احمد محفوظ کی شاعری میں الفاظ،اس کے مناسبات اور دیگر فنی رعایتیں قدم قدم پر دامن دل کو کھینچتی ہیں ۔لیکن وہ ان سب کے باوجود ایک خاص دائرے اور سطح تک ہی اپنی ہنر مندی کو باقی رکھتے ہیں۔ معیار ان کے نزدیک اہم ہے تعداد نہیں ۔دنیا کے آلام و شدائد اور کلفتوں کے درمیان سود وزیاں کے مقابلے میں پس دیوار محرومی کے خوگر ہیں جو ایک طرح سے قناعت کی دلیل ہے ۔
لیے پھرتے ہیں اب سود و زیاں کا بوجھ کاندھے پر
پس دیوار محرومی ہمیں آرام کیسا تھا
ہمارے زمانے کے ایک اور اہم شاعر ارشدعبدالحمید ہیں ۔ان کی غزلیں انداز و اسلوب کے خاص اہتمام کی حامل ہیں۔ ان کے یہاں الفاظ و تراکیب کی ندرت فوری توجہ کا سبب بنتی ہے۔ آتش کے اس خیال کی عملی توجیہ ان کے کلام سے پیش جاسکتی ہیکہ شاعری در اصل مرصع سازی کا کام ہے۔برتے ہوئے الفاظ اور شعری تراکیب کے سبب ان کے اشعارنئی معنویت کے حامل ہوجاتے ہیں۔ جدید شاعروں کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ ان کے یہاں لفظوں کی شکست وریخت زیادہ ہے مگر یہاں معاملہ بالکل مختلف ہے کیوں کہ بیان کی خوش سلیقگی اور انداز کی ندرت ہمیں قدم قدم پر اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ ارشدعبدالحمیدکے قاری پر یہ بات ابتدا میں ہی واضح ہوجاتی ہے کہ فن کا ر آسانی سے نہیں کھلے گا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے جدت کے توازن کے اہتمام سے اپنی شاعری کو سجایا اور سنوارا ہے ۔الفاظ و تراکیب کا خوب صورت استعمال بسا اوقات کلاسیکی شاعری کی یاد دلاتا ہے ۔ ان کے کلام کا مطالعہ جدید عہد میں ان شعرا کی بھی یاد دلاتا ہے جن کے یہاں ایک خاص نوع کی تخلیقی ہنر مندی کا وصف نمایاں ہے۔ ان میں بانی اور عرفان صدیقی کا نام خصوصیت کے ساتھ لیا جاسکتاہے۔
ارشدعبدالحمیدکی شاعری میں خواب کا استعمال بہت ہے۔ بالعموم یہ لفظ اپنے لغوی معنی کے بجائے بعض نئے انسلاکات کے سبب معنی کا ایک دیگر جہان خلق کرتا ہے ۔اسی وجہ سے ان کے یہاں یہ لفظ ہر جگہ ایک نئی معنویت کا سراغ دیتا ہے۔ ان کا شعر ہے۔
دل و نگاہ کو بے تاب دیکھنے کے لیے
جہاں میں آئے ہیں ہم خواب دیکھنے کے لیے
یہاں خواب کا ایک وسیع تناظر ہے۔ دل ونگاہ کی بے تابی خواب کے لیے ہے۔اور اس خواب کو خواہش کے استعارہ سے تعبیر کیا جاسکتاہے۔ دھیان رہے کہ شعر کے تناظر میں خواب ایک نوع کی جدوجہد اور سرگرمی ہے اوریہی سرگرمی دل و نگاہ کو بے تاب دیکھنا چاہتی ہے۔یہ غزل عرفان صدیقی کی ز مین میں ہے جس کا مطلع خواب کے قافیے کی ایک اور جہت روشن کرتا ہے ۔
اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے
ارشد عبدالحمید کا ایک اور شعر ہے ؎
رونقیں کتنی نظر آتی ہیں چاروں جانب
آکے رک جاتا ہے کیوں جادۂ ارماں سرِ خواب
خواب اردو شاعری کا ایک محبوب لفظ ہے اوراس حوالے سے شعرا نے ایک سے ایک مضمون بھی باندھا ہے ۔ البتہ جیسا کہ گذشتہ سطور میں یہ بات لکھی جاچکی ہے کہ ارشد عبدالحمیدکے یہاں بیان کی خوش سلیقگی شعر کے معنوی حسن کا ایک نیاپیرایہ بناتی ہے۔خواب سے حقیقت کا رشتہ یا حقیقت سے خواب کا رشتہ کوئی نئی بات نہیں البتہ اسے برتنے کا اندازہی ایک نئی دنیا سے پردہ اٹھاتا ہے ۔
یہ رخت خواب نہ ہوتا تو مر گئے ہوتے
یہی ہے چھائوں ہماری یہی سرائے سفر
اس سلسلہ کے دو شعر ملاحظہ فرمائیں ؎
خواب کے سینے سے لگ کر سو رہو سب ٹھیک ہے
صبح ہوجائے تو شکر رب کرو سب ٹھیک ہے
اس نے ہر خواب کی تعبیر بنائی ہوئی ہے
کہیں کوشش کہیں تقدیر بنائی ہوئی ہے
خواب کے سینے سے لگ کر سو رہنا یا خواب کی تعبیر کے لیے کوشش اور تقدیر بنانا نئے ذہن اور رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ قاضی جمال حسین نے لکھا ہے کہ لفظ خواب ارشد کی شاعری میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ان کے بقول
خوابوں کے اس جزیرے میں شاعر کو تسکین جاں حاصل ہوتی ہے۔ اور نئے نئے مضامین بھی ہاتھ آتے ہیں ۔ خواب وخیال کی یہی دنیا ارشدکی شاعری کا مرکزی حوالہ ہے۔
غزل کی عشقیہ روایت کے بغیر کسی شاعر کا ذکر ادھورا تصور کیا جائے گا ۔ارشد عبدالحمید کے یہاں عشقیہ مضامین کی ندرت بھی قابل توجہ ہے ۔
عشق سے لوگ گذرجاتے ہیں ہنستے ہنستے
اسی آزار کو ہم جان بکف کھینچتے ہیں
نہ مروت نہ رعایت نہ سہولت کی جائے
عشق اک کام ہے اس کام میں محنت کی جائے
تصورات کی جادوگری ہے کتنی دیر
تمہاری دید کی آسودگی ہے کتنی دیر
پھر اس کے بعد حقیقت کی راہ پڑتی ہے
وصال تک تو حسیں راستہ خیال کا ہے
عشق کی جو فطری تعریف کی گئی ہے متکلم کے الفاظ اس کی ترجمانی نہیں کررہے ہیں جیسا کہ غالب کا مشہور شعر ہے
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
بیان اور اسلوب کی ندرت کے حوالے سے چند اشعار کسی تبصرے کے بغیر نقل کیے جارہے ہیں
سکہ صبر ہی کاسے سے برآمد ہوجائے
ہم فقیروں سے کرامات تو ہونے کی نہیں
کیسے پیاسے ہیں کہ اثبات پہ جاں وارتے ہیں
کیسا پانی ہے کہ انکار سے باندھا ہوا ہے
اک نہ اک موج محبت میں بہر حال رہے
پی نہ سکتے ہوں تو پانی کی زیارت کی جائے
اب تو اے دفتر جاں مجھ کو بھی فارغ کردے
شام آتی ہے تو مزدور کمر کھولتے ہیں
ارشد عبدالحمید کا شعری سرمایہ بہت زیادہ نہیں ہے لیکن جو کچھ ہے اس میں انھوں نے معیار کا خیال رکھا ہے ۔اس سے کسی کو انکار نہیں کہ شاعری ان کے یہاں ایک خاص سرگرمی سے عبارت ہے جس میں کسی رعایت کے وہ کبھی قائل نہیں رہے ہیں ۔ان کا مشہور شعر ہے
ہمیں تو شمع کے دونوں سرے جلانے ہیں
غزل بھی کہنی ہے شب کو بسر بھی کرنا ہے
شاعری کا یہ مطالعہ چند اہم اور بنیادی نکات تک محدود کیا گیا ہے ۔تاکہ ان شعرا کے اہم شعری رویوں کا خاطر خواہ اندازہ کیا جاسکے ۔اس مطالعہ سے زبان وبیان کی پاس داری اورسرگرم تخلیقی ہنر مندی کا رویہ سامنے آتا ہے ۔ان شعرا پر یہ بات خاص طور پر صادق آتی ہے کہ انھوں نے اپنی شعری سرگرمیوں کو بہت سنبھال کراور فنی التزام کے ساتھ پیش کیا ہے ۔گردو وپیش کے حالات و واقعات اور سیاسی صورت حال پر بھی اگر کہیں کچھ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اس میں بھی شعری حسن کو پیش نظر رکھا ہے ۔اور اسی حوالے سے انھیں پڑھنے اور ان کے فن کی پذیرائی کرنے والوں کا ایک حلقہ ہے ۔
ڈاکٹر عمیر منظر
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی ۔لکھنؤ کیمپس
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page