کلیم عاجز کی نثر اور شاعری دونوں کو یکساں طور پر شہرت ملی۔ایسے لوگوں کی بھی ایک بڑی تعدادہے جو کلیم عاجز کو نثر نگار کے طور پر زیادہ اہمیت دیتے ہیں،خصوصاََان کی خود نوشت سوانح ’’جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی‘‘کی نثر شاعری اور نثر کے فرق کو مٹاتی نظر آتی ہے۔ویسے مجموعی طور پر یہ بات ان کی پوری نثر کے لیے کہی جاسکتی ہے۔ان کی سوانح عمریوں، مکاتیب،سفر نامے، مضامین اور دیگر نثری کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ نثری سرمایہ دور جدید کے ایک بڑے ادبی سرمائے کے طور پر ہمارے سامنے آتا ہے۔ پچھلے چند مہینوں میں ان کی نثر کو پڑھ کر انیس کا مصرعہ یاد آگیا ، ’’ایک رنگ کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں‘‘ ۔انیس نے یہ مصرعہ اپنی شاعری کے تعلق سے کہا تھا۔کلیم عاجز نے عصر حاضر میںانیس کے اس مصرعے کو جس طرح ایک ادبی مسلک کے طور پر دیکھا اور برتا ہے اس کی کوئی اور مثال مشکل ہی سے ملے گی۔انیس کے اس مصرعہ کا اطلاق کلیم عاجز کی شاعری اور نثر دونوں پر ہوتا ہے۔کلیم عاجز اپنی خودنوشت سوانح ’’جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی‘‘ کے پیش لفظ ’’میں نے کیا لکھا ہے‘‘میں لکھتے ہیں:
’’شاعری جب کبھی کرنے بیٹھتاتو ناسخ یا داغ کا اسلوب ٹپک پڑتا، لیکن نثر لکھنے بیٹھتا تو کسی کے اسلوب کا عکس میری تحریر پر نہ اترتا۔ شاید سبب یہ تھا کہ شعردوسروں کی زبان میں کہتا تھا اور مضمون اپنی زبان میں لکھتا تھا۔ اس لیے کہ شعر کے لیے مضمون مجھے اپنا نہیں ملتا تھا۔ نثر کے لیے اپنی بات اپنا موضوع مل جاتا تھا تاآنکہ انقلاب آگیا اور شعر کے لیے بھی اپنا مضمون مل گیا یا اپنے مضمون کے خزانے کا دروازہ کھل گیا…‘‘
(میں نے کیا لکھا ہے۔ص-و)
کلیم عاجز کی شاعری پر جس قدر توجہ دی گئی اتنی توجہ نثر پر نہیں دی گئی۔ان کے شعری مجموعے’’وہ جو شاعری کا سبب ہوا‘‘ کے طویل دیباچے کا ذکر آتا رہا ہے مگر تحریری طورپر اس کے بارے میںکچھ نہیں لکھا گیا۔ حالانکہ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ایک بڑا شاعر بڑا نثر نگار بھی ہو، اور نثر کے تمام اصناف میں اپنی انفرادیت قائم رکھتا ہو۔ کلیم عاجز کے نثرکے اسلوب کی سب سے اہم خوبی سادگی اور برجستگی ہے۔کلیم عاجز کی کئی نثری کتابیں ہیں مگر اس وقت میرے مطالعے کا موضوع کلیم عاجز کی خودنوشت سوانح’’جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی‘‘ ہے۔کلیم عاجز کی دوسری آپ بیتی ’’ابھی سن لو مجھ سے‘‘ ہے۔ ’’جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی‘‘ کا مطالعہ دراصل اس متن کا مطالعہ ہے جو ایک غیر افسانوی صنف سے تعلق رکھنے کے باوجود فکشن معلوم ہوتی ہے۔ اس میں ایسے عناصرموجود ہیں جن کے سبب اس خودنوشت سوانح کو بطور فکشن دیکھا جاسکتا ہے۔
کلیم عاجز کو زبان پر قدرت حاصل ہے۔ انھوں نے 390 صفحات پر مشتمل اپنی اس خودنوشت سوانح میں جس زبان کا استعمال کیا ہے، اس سے زبان کی ایک خاص سطح سامنے آتی ہے۔ ’’جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی‘‘ کے ابتدا میں انھوں نے اپنا ایک شعر درج کیا ہے جس کے مطالعہ سے قارئین کو اس خودنوشت سوانح کے پس منظر تک رسائی میں مدد مل سکتی ہے۔ شعر دیکھئے:
جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی، جہاں نغمے ہی نغمے تھے
وہ گلشن اور وہ یارانِ غزل خواں یاد آتے ہیں
اس شعر کے مطالعہ سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ مصنف کو اپنے ماضی کی یاد کس قدر حیران وپریشان کررہی ہے۔ کئی مرتبہ ماضی کی یاد بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے جس سے راہ نجات پانا ناممکن سا ہوجاتاہے۔ کلیم عاجز نے اپنی خودنوشت’’جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی‘‘ میں واقعات کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے ۔مصنف کا شاعرانہ اور افسانوی رنگ قاری پر اپنی گرفت اس طرح بناتا ہے کہ ایک بار آپ نے اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو پھر آخر تک آپ اس کی گرفت سے آزاد نہیں ہوسکتے ۔
’جہاں خوشبو ہی خوشبوتھی‘‘کے مطالعہ سے اُس زمانے کے عظیم آباد اور کلکتہ کی تہذیبی اور علمی زندگی کی سامنے آجاتی ہے۔ کلیم عاجز نے کلکتہ اور عظیم آباد کے غیرمعروف اشخاص کو بھی اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ ہمارے لیے اہم بن جاتے ہیں۔ کتاب فروش اشفاق صاحب کی ادب اور انسان دوستی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’نہ دکان کی ہئیت بدلی ہے نہ اس کا رقبہ بدلا ہے، نہ اس کا سامان بدلا ہے نہ صندوقچی بدلی ہے۔ وہی پرانے تختے وہی پرانی گردآلود کتابیں، وہی سیاہ گھسی ہوئی صندوقچی، وہی اشفاق صاحب، وہی ان کا زانو اور زانو پر وہی کاغذ اور اشفاق صاحب کی ہلکی ہلکی تھرتھراتی ہوئی انگلیاں قلم پکڑے ہوئے ایک عمر کے تجربوں کو سیاہ وسفید پردوں کے پیچھے چھپائی رہتی ہیں۔ ایک بکھری ہوئی تہذیب ایک شکستہ سماج ایک منتشر نظام کی امر نوجوانی اشفاق صاحب کے بوڑھے ڈھانچے میں اب تک انگڑائیاں لے رہی ہے۔‘‘ (صفحہ نمبر۔۶)
اس اقتباس میں اشفاق صاحب کا کردار افسانوی کردار کی طرح ابھر کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ دکان میں موجود اشیاء کو جس سلیقے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، وہ قابل دید ہے۔ خودنوشت سوانح کا بیانیہ انداز مصنف کو مختلف اسلوب برتنے پر مجبور کرتا ہے، خودنوشت کی زبان غیر افسانوی کے ذیل میں آتی ہے۔مندرجہ بالا اقتباس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کلیم عاجزکس طرح ایک شخص کا خاکہ پیش کرتے ہوئے اسے افسانے کی زبان عطا کرتے جاتے ہیں۔ اس زبان میں ایک ایسی داخلی قوت ہے جو واقعاتی پیش کش کے باوجود زبان کی تخلیقی سطح کو ابھار دیتی ہے۔ کلیم عاجز نے اپنے منفرد لب ولہجے سے خودنوشت کو ایک الگ مقام پر پہنچا دیا۔ ایک جگہ’ حسن‘ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’یہ کیا حسن ہے کہ صرف پلکوں کی چلمن سے چھن کر نگاہ تک آسکتا ہے، دل تک پہنچتا ہی نہیں؟ یہ کیا حسن ہے کہ دل برف ہورہے ہیں، ذرا گرمی پہنچا ہی نہیں سکتا؟ یہ کیا حسن ہے کہ دل پر کوئی نشتر لگا ہی نہیں سکتا؟ یہ کیا حسن ہے کہ دل پر کوئی تیر چلتا ہی نہیں؟ یہ کیا حسن ہے کہ آنکھوں کے آگے بجلیاں کوند رہی ہیں اور دلوں میں اماوس کی رات کروٹیں لے رہی ہیں؟ یہ کیا حسن ہے کہ آنکھیں روشن ہیں اور دل اندھیرا ہے؟ لاکھوں من صابن روز بک رہے ہیں اور ہزاروں ٹن کریم، اسنو، لیونڈر، روغن اور پائوڈر بازاروں میں روزانہ لٹ رہے ہیں، سرخیاں بہہ رہی ہیں، خوشبوئیں برس رہی ہیں، نزاکتوں کی ریل پیل ہے…‘‘ (صفحہ8-)
کلیم عاجز نے طنزیہ لہجے میں موجودہ حسن کی نمائش اور انسان کے گرتے معیار کو پیش کیا ہے۔ کلیم عاجز نے’ حسن بے معنی‘ کو کچھ اس طرح پیش کیا ہے معلوم ہوتا ہے، تہذیب کی مٹتی نشانیاں انھیں پریشان کررہی ہیں۔ کلیم عاجز کا خیال ہے کہ وہ حسن کیا جو دلوں کو منور نہ کرے، اسے گرمی نہ دے، آنکھوں میں چمک تو پیدا کرے مگر دلوں کی تاریکی دور کرنے میں مددگار نہ ہو۔ کلیم عاجز ان اشیا کی نشاندہی بھی کرتے ہیں جو تہذیب وثقافت کا حصہ رہی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’…کہاں ہیں وہ گوری مٹی سے دھلے ہوئے بال اور ابٹن سے دھلے چہرے اور مار کے کلف ڈالے ہوئے کپڑے؟ کہاں ہے وہ مسالہ ڈالے ہوئے ناریل کے تیل والی خوشبو، مسی والے دانت اور پان والے ہونٹ اور نیم کے تنکے والی ناک اور کاجل والی آنکھیں اور مہدی والی ہتھیلیاں اور چاندی کے چھلوں والی انگلیاں؟ اور کہاں ہیں وہ ستلی کی بنی ہوئی چارپائیاں اور دھوبیا چھاپ والی توشکیں اور موٹے کے لحاف اور کہاں ہیں کھردری چوکیاں اور تار کی چٹائی اور کھجور اور بید کی ستیل پاٹیاں اور کہاں ہیں وہ سری اور نرکٹ کے قلم اور جلے ہوئے چاول اور دھوئیں کی پھلیوں سے بنی روشنائی۔‘‘(صفحہ9-8)
کلیم عاجز نے دو تہذیبوں کے تصادم اور فرق کو پیش کیا ہے۔کلف دار کپڑے اور ناریل کا تیل کی جگہ ڈرائی کلین اور مختلف برانڈ کے تیلوں نے لے لیا ہے، لڑکیوں کی ناک میں نیم کے تنکے کی جگہ سونے کی نتھنی آگئی ہے، آنکھوں میں کاجل کی جگہ لڑکیوں نے آئی شیڈ کا استعمال شروع کردیا ہے۔ چارپائی کا وجود لگ بھگ ختم ہوگیا ہے۔ نرکٹ کے قلم کی جگہ فائونٹین قلم نے لے لی ہے۔ کلیم عاجز کی نگاہ میں ماضی کی اقدار حال کے لیے بھی اسی طرح بامعنی اور اہم ہیں، اس لئے وہ حال کی اشیاکو کم نگاہ سے دیکھتے ہیں۔یہ اشیا ان کی نگاہ میں انسانی اقدار سے الگ نہیں ہیں۔اس سوانح کو ایک تہذیبی بیانیہ کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے،بعض مقامات پر اشیا کا ذکر سپاٹ انداز میںضرور ہوا ہے اور یہ سوانح کی نثرکا ایک وصف بھی مگر یہ کلیم عاجز کی تخلیقی ہنرمندی بہت خاموشی کے ساتھ اشیا کو تصورات میں تبدیل کردیتی ہے۔ان ہی موقعوں پر محسوس ہوتا ہے کہ کلیم عاجز کو فکشن کی زبان لکھنے کا نہ صرف سلیقہ ہے بلکہ وہ ایک فکشن رائٹر بھی ہیں،جن کی نگاہ افسانوی اور غیر افسانوی نثر کے تمام اسالیب پر ہے۔
کلیم عاجز نے اپنی خودنوشت سوانح میں جن واقعات کو پیش کیا ہے اس کے طرز انداز سے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وہ افسانہ لکھ رہے ہوں۔ اپنے رشتے کے نانا سید واعظ الحق مرحوم اور ان کی اہلیہ جنہیں وہ بڑی نانی کہتے تھے کا ذکر بہت خوبصورت انداز میں کیا ہے کہ قاری افسانوں کی دنیا میں کھو جاتا ہے۔ اپنے واعظ نانا اور ان کی اہلیہ کی شہادت کا واقعہ کلیم عاجز نے یوں بیان کیا ہے:
’’واعظ نانا بھی شہید ہوئے اور ان کی اہلیہ بھی اور ان کی دونوں بچیاں بھی… واعظ نانا الگ مردوں کے ساتھ… ان کی اہلیہ الگ عورتوں کے ساتھ… دونوں الگ الگ گرے لیکن جہاں نانا تلوار کھا کرگرے ہوں گے تو اُن کی آغوش میں نانی بھی ہوں گی اور جہاں نانی زخم کھاکر گری ہوں گی ان کے بغل میں واعظ نانا ہوں گے اور اس طرح دونوں ہم بغل عالم بالا کو اُڑے ہوں گے اور نانی نے پوچھا ہوگا ’’کہئے میاں صاحب درد کیسا ہے؟… اور نانا نے کہا ہوگا ’’تم گلے سے مل گئے سارا گلہ جاتا رہا۔‘‘ اور عالم بالا میں وہ حوریں جن کی چھنگلیاں اگر رات کو نمایاں ہو تو رات روشن ہو جائے اور سمندر میں ڈبودی جائے تو پورا سمندر کا کھارا پانی میٹھا ہو جائے… جب نانا کا استقبال کرنے کو آئی ہوں گی تو واعظ نانا نے کہا ہوگا۔ ’’چلو جی… پرے ہٹو… ہم اپنی حور اپنے ساتھ لائے ہیں۔‘‘ (صفحہ15-)
یہ مکالمہ کسی کہانی کا معلوم ہوتا ہے۔مختلف کرداروں کو ان مکالموں کے ذریعے پیش کرنا دراصل صاحب تحریر کا ان کرداروں کی ذات سے گہری محبت کا اظہار بھی ہے۔ نانا اور نانی کی شہادت پر ماتم منانے کے بجائے کلیم عاجز نے اسے زبان کے ذریعے ایک ایسی زندگی بخش دی ہے جس سے کردار زبان کا بدل معلوم ہوتے ہیں۔ کلیم عاجز نے اس پورے واقعہ کو افسانوی رنگ دے دیاہے۔ شوہر اور بیوی کے درمیان جو خوشگوار تعلقات ہوتے ہیں، اس کی روشنی میں مصنف کو امید ہے کہ مرنے کے بعد ان میں مزید نکھار آگیا ہوگا۔ نانا کے استقبال میں آئیں حوروں کا استقبال کرنا اور اس کے جواب میں نانا کا یوں کہنا کہ ’’پرے ہٹو… ہم اپنی حور اپنے ساتھ لائیں ہیں۔‘‘ پورے واقعہ کو اور بھی خوبصورت بنادیتا ہے۔
کلیم عاجز اپنے بچپن کے واقعات کو بہت یاد کرتے ہیں، کلکتہ قیام کے زمانے میں وہاں کالی اور فجے نام کے بدمعاش ہوا کرتے تھے۔ ظاہر ہے بدمعاشوں کا کام لوگوں کو نقصان پہنچانا، لوٹ اور ڈاکہ زنی کرنا ہے۔ کلیم عاجز ان کے متعلق لکھتے ہیں:
’’…پیشے اور مشغلے کے اعتبار سے یہ بدمعاشوں کا طبقہ پہلوانوں سے مختلف تھا مگر صنعتوں میں دونوں بہت قریب تھے۔ یہ کشتی گیری کا فن بھی جانتے تھے، باکسنگ بھی، چھرابازی کا ہنر بھی اور نشانہ بازی بھی۔ یہ گھوڑے کی طرح تیز رفتار اور بجلی کی طرح سبک ۔ یہ ہمت کے پہاڑ تھے جب نکل پڑتے تو گولیوں کی بوچھار میں گھس پڑتے۔ ان کے افسانے طلسماتی ہیں لیکن حقیقت سے ان کا گہرا ربط ہے۔ کچھ لوگ وقت کی پیداوار ہوتے ہیں۔ فطرت رنگا رنگ ہے، مختلف موسموں میں مختلف پھول اگائی ہے۔ بعض پھول ایسے بھی ہوتے ہیں جو جنگلوں میں کچھ دنوں پھوٹ پڑتے ہیں نظر نہیں آتے۔ (صفحہ۔42)
کلیم عاجز نے بدمعاشوں کی فطرت کو اس کی خوبی بتائی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے وہ ڈاکوئوں، راہزنوں کی بہادری ہیں مگر اشاروں میں وہ اس جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ کچھ پھول خاص موسموں میں کھلتے ہیں۔
ایک مرتبہ جب کلیم عاجز کو فلم دیکھنے کی وجہ سے والد نے سزادی تو ان کا دل بہت اداس ہوگیا اور بقول ان کے انھوں نے ہوڑہ پل سے خودکشی کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔کلیم عاجز نے اس پورے واقعہ کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، انھیں اس بات کا احساس بھی تھا کہ ان کی موت پر گھر والوں پر کیا گزرے گی۔ اماں، ابا اور بھائی بہن کس قدر پریشان ہوں گے۔ باوجود اس کے کلیم عاجز نے خودکشی کا فیصلہ کرلیا اور جب وہ ہوڑہ پل پر خودکشی کے خیال سے گئے تو انھیں اچانک یاد آیا کہ ان کے بازو پر والدہ کی بھیجی ہوئی ایک تعویذ بندھی ہے،اور ان کی ہدایت یاد آئی کہ جب برا وقت آئے تب اسے کھولنا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’…ایک خیال آیا کہ یہ اماں کے آنچل کا ہوگا… اسے بازو پر باندھے دریا میں کودوں گا، اماں کا آنچل زندگی میں بھی ساتھ رہا، دریا میں ڈوبتے ہوئے بھی ساتھ رہے گا۔ مرنے کے بعد بھی ساتھ رہے گا… پھر خیال آیا کہ اماں نے کہا تھا اسے کھولنا مت ہاں اگر کوئی سخت گھاٹی آئے اس وقت کھولنا… یہ تو آخری گھاٹی ہے، اب اس کے بعد کون سی سخت گھاٹی آسکتی ہے، کھول کر دیکھوں شاید کوئی دعا ہو جو اس وقت کے لیے سفر آسان کردے… یہ خیال آتے ہی بازو سے تعویذ کھولا اس کا موم جامہ نوچا، بخئے توڑے… ایک کاغذ نکلا… اس کی تہہ کھولی تو اس میں سو روپے کا ایک نوٹ تھا نہ کوئی دعا نہ کوئی تعویذ نہ کوئی خط … اڑا اڑا دھڑام… ایسا معلوم ہوا کہ یہ ہمالیہ پہاڑ جو میں تعمیر کرچکا تھا یک بیک برف کی طرف پگھل گیا۔ میں ہمالیہ پہاڑ سے یک بیک نیچے آرہا۔ پہلے بادلوں پر تھا، ستاروں کے قریب تھا۔ اب راجہ بازار کی تنگ گلیوں میں یا سرکلر روڈ پر آگیا۔ لڑکپن بھی عجیب چیز ہے، کتنی تیزی سے خوابوں کی جنت یا دوزخ میں پہنچا دیتا ہے اور پھر کتنی تیزی سے صاف ستھری اور معصوم حقیقت کی دنیا میں لے آتا ہے۔ یہ لڑکپن شیرینی کو تلخی میں بدل دیتا ہے اور بڑی سرعت سے تلخی کو شیرینی میں تبدیلی کردیتا ہے۔‘‘(صفحہ75-)
کلیم عاجز نے نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ خودکشی کے اپنے فیصلے کے وجوہات کو پیش کیا ہے۔ جب انسان زندگی سے تنگ آجاتا ہے اور اپنی پریشانیوں سے نجات کا اسے بس ایک راستہ ’موت‘ نظر آتا ہے۔اس طرح اس کے دل سے موت کا خوف بھی جاتا رہتا ہے۔ مگر کوئی شخص کسی مصیبت اور پریشانی میں گرفتار ہو اور خودکشی کا فیصلہ کررہا ہو اس وقت اگر اسے اپنی پریشانیوں کا حل مل جائے تو اس کی مسرت کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ کلیم عاجز نے تعویذ کو دعا سمجھ کر کھولا تھا مگر جب اس میں سوروپے کے نوٹ ملے تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ جس غربت اور تنگی سے تنگ آکر انھوں نے خودکشی کا فیصلہ لیا تھا، انہیںاس پریشانی کا حل مل چکا تھا۔ موت آنکھوں کے سامنے ہو تب بھی کسی کو ماں کی آنچل کی یاد ستانے لگے،تو تعجب کی بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کچھ جذبات ایسے ہوتے جن کو لفظوںمیں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
1926 یا 1927 میں کلکتہ میں ہندو مسلم فساد ہوگیا تھا اور عموماً فساد میں جس طرح مذہب کے نام پر نفرت کا بازار گرم ہوتا ہے اس سے ہر کوئی واقف ہیں۔ کلکتہ کے اس فساد کے موقع پر فسادیوں کے ایک گروپ نے کلیم عاجز کے نانا اور بڑے بھائی کو قتل کرنے کے ارادہ سے مکان کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ کلیم عاجز لکھتے ہیں کہ جب دنگائیوں نے ان کے مکان کو چاروں طرف سے گھیر لیا تو چند بھوجپوری ہندو دربان اور طوائفوں نے ان کی مدد کی۔ کلیم عاجز لکھتے ہیں:
’’انسانیت کی بنیادی صفت اپنے اظہار کے لیے کسی خاص سرزمین، کسی خاص طبقے، کسی خاص فرد کی محتاج نہیں رہتی۔یہ نور کہیں سے پھوٹ سکتا ہے۔ یہ چنگاری کسی خاکستر سے نمایاں ہوسکتی ہے۔ خدانے انسان کو بہترین مٹی سے بنایا ہے اور ہر انسان کو خدا نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے۔ کوئی انسان شیطان کے ہاتھ سے نہیں بنا اور خدائی ہاتھ کا لمس ہرخمیر میں ہے۔ یہ لمس کبھی کبھی رنگ لاسکتا ہے۔ رنڈیوں کے چہرے اس پاک لمس سے سرخ ہورہے تھے۔ یہ معصیت اور فسق وفجور کی پتلیاں اپنی تمام گندگیوں، آلودگیوں اور ناپاکیوں سمیت خدائی ہاتھ کے اس پاک لمس کی حرارت سے گرم ہو کر یوں نکلی تھیں گویا وہ آج بھٹی میں گر کر تپ کر کندن بننے جارہی ہیں۔‘‘ (صفحہ78-)
کلیم عاجز نے جس فساد کا ذکر کیا ہے وہ ایک تاریخی سچائی ہے مگر طوائفوں کے جس کارنامے کی طرف انھوں نے اشارہ کیا ہے اس کو پڑھ کر کہانی کا گمان ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا اقتباس کے مطابق انسانیت کے اس عظیم درس کا علم ہوتا ہے کہ ’’درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو‘‘کلیم عاجز نے بالکل درست لکھا ہے، اﷲنے تمام انسانوں کو بنایا اور خدا کی ہاتھ کا لمس ہرانسان میں موجود ہے یہی وجہ ہے کہ طوائفیں انسانی زندگی کی بقا کے لیے خود کو قربان کردینے کا جذبہ رکھتی ہیں۔کلیم عاجز نے اپنی خودنوشت میں کلکتہ کا ذکر بار بار کیا ہے۔ ہر بار ایک نیا انداز، نیا لب ولہجہ سامنے آتا ہے ۔ کلکتہ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’کلکتہ بڑا شہر ہے۔ پیچیدگیوں کا شہر، رومان کا شہر، پھول پھلوں کا شہر، عقل کو گم کردینے والا، ہوش کو زائل کردینے والا شہر، قدم قدم پر حیرت واستعجاب کا شہر، ممکن کو ناممکن، ناممکن کو ممکن، مشکل کو آسان، آسان کو مشکل کردینے والا شہر، ولیوں اور شیطانوںکا شہر، تیز روشنیوں اور گہری تاریکیوں کا شہر، نغموں کا شہر، آنسوئوں کا شہر، مسکراہٹوں کا شہر مختصر یہ کہ زندگی کے جتنے جلوے ہیں، جتنے کرشمے ہیں، جتنے گوناگوں پردے ہیں، قدم قدم پر اٹھتے اور گرتے نظر آتے ہیں۔ لوگوں کھوجاتے ہیں، محو ہو جاتے ہیں، گم ہو جاتے ہیں، بک جاتے ہیں، بدل جاتے ہیں، میں کچھ نہ ہوسکا۔ کلکتہ کو میں کیا بدل سکتا لیکن کلکتہ بھی مجھے بدل نہیں سکا۔شعروغزل کے مجموعوں، کتابوں اور رسالوں کے ماحول میں جو سیکھا تھیئٹر کے اسٹیج پر بہروپ بدلے ہوئے ایکٹروں کے ماحول میں بھی وہی سیکھا، سنیما کے پردوں پر بھی وہی سیکھا، نہ میرا میلان بدلا جاسکا نہ میری پسند بدلی جاسکی۔ میری طبیعت کا جھکائو جس طرف تھا جھکائو اسی طرف بڑھتا رہا۔ نگاہیں جہاں ٹھہرنا سیکھ چکی تھیں وہیں ٹھہرتی رہیں۔ ‘‘ (ص۔۸۲)
کلیم عاجز نے شہر کلکتہ کے بہت سے کرداروں کو بھی پیش کیا ہے۔ کلکتہ شہر ایک زمانے تک علمی وادبی مرکز رہا ہے، آج بھی یہ سلسلہ بڑی حد تک قائم ہے۔ کلیم عاجز نے اس شہر کو حیرت واستعجاب کا شہر کہا ہے اور اس کی وجہ انہوں نے وہاں کا ماحول بتایا ہے۔ کلیم عاجز نے ایک واقعہ بھی پیش کیا ہے جو ان کے ساتھ پیش آیا تھا۔ ایک مرتبہ وہ میٹریکولیشن کے امتحان کے بعد کلکتہ کی سڑکوں سے گزررہے تھے کہ اچانک ان کی نظر ایک شخص پر پڑی جو بظاہر بہت معمولی لباس زیب تن کیے فٹ پاتھ پر آہستہ آہستہ کچھ گنگنارہا تھا۔ شہروں میں عموماً ایسے بہت سے لوگ نظرآجاتے ہیں مگر کوئی اس کی طرف توجہ نہیں کرتا۔جہاں چاروں طرف رنگینیاںہوں، قدرتی مناظرکی خوبصورتی بکھری ہو، وہاں کوئی معمولی شکل وصورت اور پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس شخص کو بھلا کوئی کیوں دیکھے؟ خیرکلیم عاجز لکھتے ہیں کہ جب اس معمولی شکل وشباہت والے شخص پر ان کی نظر پڑی تو وہ رک گئے۔ اس شخص نے اپنی آنکھوں کو بند کررکھا تھا اور کچھ گنگنارہا تھا۔ کلیم عاجز لکھتے ہیں:
’’آواز بھدی، موٹی، بھاری، پھنسی پھنسی جیسی بلکہ کسی حد تک بظاہر بے سری بے رنگ بے آہنگ لیکن کچھ بات تھی کہ میں چند منٹ اسی بہانے سے کھڑا سنتا رہا اور وہ اسی بے خودی میں آنکھیں بند کیے بس اتنے ہی بول[جی کا حال مورا کوؤ نہ جانے،سیاں جانے کہ جانے مور جیرا] مختلف انداز میں مختلف اور متنوع اتار چڑھائو کے ساتھ گنگناتا رہا، آخر مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے قریب جاکر آواز دی۔ جناب! جناب!! اس نے چونک آنکھیں کھول دیں دیکھا تو آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔ اس نے بے التفاتی سے پوچھا کیوں میاں کیا بات ہے؟ میں نے پوچھا آپ کون ہیں؟ وہ کسی قدر مسکرائے… کیوں پوچھتے ہو؟… میں نے کہا ’’یونہی جی چاہتا ہے‘‘ اس کی مسکراہٹ اور تیز ہوئی اور ستوں پر ٹیکی ہوئی پیٹھ اس نے سیدھی کرلی اور بولا ’’میاں لڑکے یہ کلکتہ ہے یہاں روزانہ کتنے بکتے ہیں کتنے خریدے جاتے ہیں۔ سمجھ بوجھ کر قدم رکھا کرو۔ پہچان کر مخاطب ہوا کرو ورنہ کوئی جھولی میں ڈال کر تمہیں بھی بیچ ڈالے گا‘‘ میں نے کہا ’’میں آپ کی بات سمجھتا نہیں‘‘ اس نے کہا ’’یہی تو میں نے کہا ’’تم اتنا بھی نہیں سمجھ سکتے… میں پچاس سال سے کلکتہ میں ہوں میں کچھ بھی ہوسکتا ہوں…میں سیانا ہوں۔ نوسیریا ہوں (نوسیریا کلکتہ کے محاورے میں جعلساز کو کہتے ہیں) ٹھگ ہوں، جاسوس ہوں، کچھ بھی ہوسکتا ہوں‘‘ میں نے کہا ’’ میرا دل کہتا ہے کہ آپ یہ سب نہیں ہیں‘‘ اس کا مسکراتا ہوا چہرہ اتنا سنجیدہ ہوگیا کہ ایسا معلوم ہوا وہ پھر روپڑے گا۔ لیکن فوراً ہی پھر مسکراہٹ لوٹ آئی۔ لیکن سرخ آنکھیں نمناک ہوگئیں… میں نے کہا ’’آپ کیا گنگنارہے تھے۔ بولا میں تو گوّیا ہوں میاں گاتا ہی رہتا ہوں کبھی دوسروں کو سناتا ہوں کبھی خود کو سناتا ہوں…اس وقت نہ دوسروں کو سنارہا تھا نہ خود کو سنارہا تھا اس وقت اس کو سنارہا تھا جسے کبھی نہیں سنایا لیکن جو سب کی سنتا ہے، اب اسی کو سنانے میں مزہ آتا ہے۔‘‘ (ص۔۸۴)
کلیم عاجز کی نثر کو پڑھتے ہوئے یہ خیال بار بار آتا ہے، ان کی نظر میں فرد کی اہمیت بہت ہے، انھوں نے کئی ایسے کرداروں کے واقعات کو اپنی خودنوشت میں پیش کیا ہے جن کی سماجی، سیاسی اور معاشی حیثیت کچھ خاص نہیں تھی۔ کلیم عاجز ان(بظاہر معمولی) شخصیتوں کی تصویر کشی کرتے ہوئے صرف خوبیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے وہ کسی انسان کی نہیں فرشتے کی تصویر کشی کررہے ہوں۔ قیام کلکتہ کا ایک اور واقعہ کلیم عاجز نے بیان کیا ہے۔ یہ واقعہ مسرا جی کاہے۔کلیم عاجز لکھتے ہیں کہ ان کے پڑوس میں ایک پنڈت جی رہتے تھے، فٹ پاتھ پر کتابوں اور اخبارکی ایک چھوٹی سی دکان تھی۔ پنڈت جی نہایت کم گو مگر خوش گفتار وخوش مزاج تھے، لوگ ان کی دکان پر آتے، اخباریا کتاب لیتے اور پیسے دے کر چلے جاتے، پنڈت جی نے کبھی کسی سے یہ شکایت نہیں کی کہ پیسے کم ہیں۔ کلیم عاجز 1942 تک کلکتہ میں باضابطہ مقیم رہے اور پھر اپنے وطن لوٹ آئے۔ اس درمیان 1946 کا وہ فساد برپا ہوا جس نے اپنوں کو اپنوں سے جدا کردیا(اس فساد کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی)۔اس فساد کے پانچ چھ برسوں بعد جب کلیم عاجز کلکتہ آئے تو انھیں پنڈت جی سے ملنے کی خواہش ہوئی، مگر کلکتہ پوری طرح بدل چکا تھا، چھوٹی دکان اور کچے مکان کی جگہ بڑی دکانیں اور بڑی عمارتیں بن گئیں تھی مگر نہیں بدلی تو پنڈت جی کی زندگی اور ان کا رویہ۔ہاں ان کی شکل ضرور بدل گئی تھی۔ کلیم عاجز، پنڈت جی کے متعلق لکھتے ہیں:
’’…سر کے بال اور مونچھیں سفید ہورہی تھیں مگر تیور وہی تھے، بیٹھنے کا انداز گوتم بدھ جیسا… سینہ نکلا ہوا مگر پلکیں جھپکیں ہوئیں۔‘‘ (صفحہ124-123)
کلیم عاجز نے ۱۹۴۶ کے فساد کو ’’جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی‘‘ کے آخری حصے میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مذکورہ فساد ہندستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے ۔مذہب کے نام پر ہوئے اس فساد میں کم و بیش دس ہزار لوگ مارے گئے۔چاروں طرف لاشیں بکھری پڑی تھی۔ کلیم عاجز نے اس فساد میں اپنا سب کچھ کھو دیا ۔ہم اور آپ محض تصور بلکہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ ایک ہی وقت میں آپ سے محبت کرنے والے، آپ کو چاہنے والے بائیس افراد کا قتل کردیا جائے تو انسانن پر کیا گزرتی ہے ، اس کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ایسی حالت میں انسان جینے کی تمنا تک نہیں کرپاتا، اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت تودور کی بات ہے۔کلیم عاجز نے ۱۹۴۶ کے اس قیامت کو اس انداز میں میںبیان کیا ہے، معلوم ہوتا ہے پردے پر فلم چل رہی ہو۔کلیم عاجز لکھتے ہیں:
’’بکتر بند گاڑی چلتی رہی کبھی آہستہ کبھی تیز تھوڑی تھوڑی دور پر کسی کسی ندی کے پل کے نیچے محبت اور تمنائوں کی بنی ہوئی اس دنیا کی جس میں حضرت آدمؑ پہلا انسان چالیس سال تک حضرت حواؑ کی محبت اور فراق میں روتے رہے جس دنیا کی مٹی میں پہلی آبیاری محبت کے آنسوئوں سے ہوئی۔ اس سوزوساز و درد وداغ وجستجو و آرزو کی دنیا کی تاریخ کے منتشر اجزا منتشر پڑے تھے۔ تاریخ جو محبت اور ستم جفا اور وفا کی کشمکش کا نام ہے، تیغ وگلو کی لگاوٹ کا نام ہے، جنہیں ہم تاریخوں میں ناولوں میں افسانوں میں پڑھتے ہیں۔ انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھا تو انداز ہوا کہ وہ تاریخ جسے ہم امتحان کے دنو ںمیں شام کو پڑھتے ہیں اور چائے کی پیالیوں میں انھیں دہراتے ہیں۔ وہ سوزوساز کی داستان وہ محبت اور نفرت کی کہانی وہ کشمکش تیغ وگلو کا افسانہ وہ درد و داغ وجستجو و اردو کی تاریخ لکھی جاتی ہے۔ کن مشکلوں سے، کتنی تلواروں کے قلم اور کتنی گردنوں سے نکلی ہوئی سرخ روشنائی اُن داستانوں اور تاریخ کے ابواب لکھنے میں صرف ہوتی ہے۔ جیتے رہو اے تلوارو اور گردنوں اور زندہ رہے تمہاری محنت اور تمہاری ہمت اور تمہاری مشقت کہ تم جانکاہی سے لکھ جاتے ہو اور ہم تن آسانیوں سے انھیں پڑھ جاتے ہیں۔‘‘ (ص۔۲۵۵)
جب فساد شروع ہوا،اس وقت کلیم عاجز پٹنہ میں تھے ۔انہیں جب معلوم ہوا کہ فساد نے اپنا رخ ان کے آبائی وطن تلہاڑہ(ضلع نالندہ،بہار)کی جانب کرلیا ہے ان کی تشویش میں مزید اضافہ ہوا اور کسی طرح اس زمانے کے ایس پی سے اجازت لے کر ایک فوجی کے ساتھ نالندہ کے لیے نکل پڑے۔ راستے کا منظر بڑا خوف ناک تھا ،ہر طرف لاشیں ہی لاشیں پڑی تھی۔دنیا کاکوئی مذہب ایسا نہیں جو بے گناہوں کے قتل کی اجازت دیتا ہو اسی مذہب کے ماننے والے لوگ مذہب کے نام پر ایک دوسرے کا قتل کرتے ہیں،اور اس کو مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ کلیم عاجز کو حیرت ان لوگو ں پر ہے جو خود کو انٹلیکچول مانتے ہیں جو اسے تاریخ کا ایک حصہ مان کر بھول جاتے ہیں۔کوئی بھی ان فسادات کی تہہ تک نہیں جانا چاہتا،کوئی بھی اس بات پر غور نہیں کرتا کہ مرنے والا خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو ،وہ انسان ہے۔ہم لوگ ایسے حادثات کو تاریخ کا ایک حصہ سمجھ کر پڑھتے ہیں،ہمارا مقصد بس یہ جاننا ہوتا ہے کہ مرنے والوں میں کتنے ہندو اور کتنے مسلمان تھے۔ تلہاڑا جاتے ہوئے کلیم عاجز اور ان کے ساتھیوں کا سامنا نفرت کے سوداگروں سے ہوا،ان کی تعداد زیاد تھی لہذاصورت حال کو دیکھتے ہوئے ڈرائیور نے گاڑی کا رخ بدل لیا۔کلیم عاجز واپس نہیں جانا چاہتے تھے وہ چیختے رہے کہ مجھے واپس نہیں جانا ہے ،مجھے اپنے گھر والوں سے ملاقات کرنی ہے۔اس فساد میں بہت سے لوگ اپنوں سے بچھڑ گئے،ہر کوئی اپنے بچھڑوںکی تلاش میں دردر کی صعوبتیں چھیلنے کے لیے مجبور تھے۔کلیم عاجز کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’مجھے دوچہروں کی تلاش تھی۔ میں ہر چہرے کے پیچھے ان دوچہروں کو ڈھونڈھ رہا تھا۔ کچھ چہروں نے اپنی خبر کے لیے ایک دوچہرے بھیج دیئے تھے۔ وہ دوچہرے ایسے تھے جن کی خبر لے کر کوئی چہرہ نہ آیا۔ وہ چہرے خود ہی خبر تھے اور خود ہی مبتدا۔ میں نے ہر پھٹی ہوئی آنچل کے پیچھے اور ہر الجھے ہوئے گیسو کے اندر ان چہروں کو جھانکا۔ دیر تک جھانکا اور دیر تک آنکھیں مل مل کر دیکھنے کی کوشش کی۔ ہر آہ میں اور ہر کراہ میں ان کی آواز پہچاننے کی کوشش کی۔ کہیں کچھ جھلک ہی نظرآجائے، آنکھیں بھی ڈھونڈھ رہی تھیں اور کان بھی تلاش کررہے تھے۔ میں کیا دیتا میرے پا س کیا رہا تھا۔ لیکن اس بے سروسامانی اور مفلسی کے باوجود اگر ان چہروں کو اس وقت کوئی دکھادیتا یا اس وقت بھی دکھا دے ان آوازوں کو اس وقت سنا دیتا یا آج بھی سنادے تو میں یہ کہہ کر جان دے دینے کو تیار ہوں کہ تم نے مجھے تیس سال رلایا ہے، میں چاہتا ہوں کہ اب تم بھی رولو اور رو کر دیکھ لو کر مرجانا زیادہ مشکل ہے یا مرمرکر جینا زیادہ مشکل ہے۔‘‘ (ص۔۲۶۴)
وہ دو چہرے کون تھے؟کس کی انتظار میں مصنف کی آنکھیں پتھراگئیں تھیں۔ یہ دو چہرے جس کا ذکر کلیم عاجز نے کیا ہے وہ ان کی والدہ اور چھوٹی بہن تھیں۔ فساد میں یہ دونوں کہاں غایب ہوگئے کسی کو معلوم نہیں۔ماں اور بہن کی جدائی کیا ہوتی ہے اس کا اندازہ کلیم عاجز کی اس بات سے لگایا جاسکتاوہ لکھتے ہیں ’’تم نے مجھے تیس سال رلایا ہے، میں چاہتا ہوں کہ اب تم بھی رولو اور رو کر دیکھ لو کر مرجانا زیادہ مشکل ہے یا مرمرکر جینا زیادہ مشکل ہے۔‘‘ مگر مرنے والوں کو کون وا پس لا سکتا ہے۔
کلیم عاجز نے بہت محنت و مشقت کے بعد کسی طرح نالندہ جانے کی اجازت لے لی۔ کلیم عاجز نے ماضی کی یادوں اور حال کی صورت حال کو جس طرح قلم بند کیا ہے،کم سے کم اردو کی آپ بیتی اور سوانح میں اس کی مثال شاید نہ ملے۔اس اسلوب کو زندگی کا اسلوب کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔زبان اور طرز احساس جب تہذیب کا چہرہ یا اس کا بیانیہ بن جائے تو ایسی صورت میںانہیں الگ الگ کرکے دیکھنا مشکل ہوجاتا ہے ۔کلیم عاجز لکھتے ہیں:
’’…اے وہ چھوٹی سی جنت جسے میری دنیا میں آراستہ ہوئے ابھی دس ایک سال ہوتے ہیں’’1935ء جب شعور لذت، طلب اور شوق کی نگاہوں سے تجھے دیکھنا سیکھا اور یہ 1946ء کیا گیارہ سال کے اندر ہی اتنا بڑا انقلاب آگیا؟… اے میری جنت! کیا واقعی تو اتنا…بد ل گئی؟ لوگ تو یہی کہتے ہیں… لیکن مجھے یقین نہیں آتا…کیسے یقین کرلوں؟… میں نے تو دنیا بھر سے یقین واعتماد، بھروسے اور اعتبار قربت وقرابت، لذت و مسرت چن کر اور سمیٹ کر پھول بناکر ترے دامن میں ڈال دئے تھے اور ایسا لگا تھا کہ اب اسی دامن کے نیچے ان پھولوں کی خوشبو میں زندگی گذرے تیری اندھیری گلیاں جب مٹی کے چراغ اور لالٹین سے دھیمی دھیمی روشن ہوتیں تو دھرم تلہ، چاندنی چوک اور چورنگی کی جگ مگ جگ مگ کرتی ہوئی شاہراہیں سونی نظرآنے لگتیں اور شام کو جب جھینگروں اور پتنگوں کے راگ چھڑتے تو… ایڈن گارڈن کے بینڈ دل بھول جاتا اور جب دن بھر کے کام کاج سے تھک کر گھر کی کنوارنیں سوئیوں اور دھاگوں کی چل پھرت کے درمیان گنگناتیں تو پنکاج ملک اور کانن بالا کی سریلی آوازوں کی مٹھاس ماند ہو جاتی… اے میری جنت کیا اب ایسی نہ ملے گی؟ نہیں… نہیں… ایسانہ کہہ… آواز دے کہ یہ سب جھوٹے ہیں، دنیا جھوٹی ہے۔ یہ انقلاب جھوٹا ہے تو سچی ہے۔ تو ویسی ہی ہے… نرم شیریں، دلنواز دلنشیں! نگاہوں کا تارا دلوں کی رانی… ارمانوں کی جنت آرزوئوں کا سرچشمہ… کہہ دے کہہ دے کہ تو نہیں بدلی۔ یہ خواب کی باتیں ہیں۔ جاگ جا جاگ جا… جاگنے پر میں ایسی ہی ملوں گی جیسی تو مجھے چھوڑ کر گیا ہے دیکھ کر گیا ہے۔‘‘ (ص۔ ۲۶۸۔۲۶۹)
طوفان ہمیشہ اپنے ساتھ تباہی لے کر آتا ہے اور بربادی کے نشان چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔یہ فساد بھی اپنے پیچھے کئی ایسی نشانیاں چھوڑ گیا جن کو مٹا پانا مشکل ہے۔فساد نے اپنوں کو غیر بنادیا۔کلیم عاجز یقین نہیں کر پارہے کہ جس مٹی نے ہمیشہ محبت کا درس دیا وہاں یہ نفرت کی بیج کہاں اور کیسے اپج گئی کہ ساری دنیا اور اس کی ہر شئے بے گانی ہوگئی ؟کلیم عاجز نے اس بیگانگی اور بدلے ہوئے ماحول کی تصویر ان لفظوں میں کی ہے۔
’’ندی کی طرف سے آتی ہوئی تیز ہواؤں سے میرا دامن اُڑنے لگا۔شپاشپ ہوائیں جسم سے’’ٹکراتی ہوئی گذرنے لگیں۔ گذرنے کیا لگیں ایسا معلوم ہوا جیسے ہوائیں مجھے لپیٹ رہی ہیں، سنسنا رہی ہیں، کانوں میں داخل ہورہی ہیں، بول رہی ہیں، مدھم مگر صاف، سسکیوں جیسی آواز۔
ہمیں پہچان… اے وطن میں بے وطن پردیسی… ہمیں پہچان… ہم پانکڑ کی شاخوں سے آرہے ہیں، جامن کی ٹہنیوں سے آرہے ہیں، سنگرہار کے پھولوں سے آرہے ہیں، امرود کی ڈالیوں سے آرہے ہیں۔ ہم بارہا تجھ سے مل چکے ہیں، کھیل چکے ہیں، اٹکھیلیاں کرچکے ہیں… ہمیں پہچان… ہمیں امردو کی ڈالیوں سے الگ کردیا گیاہے… جامن کی ٹہنیوں سے دور کردیا گیا ہے، پانکڑ کی شاخوں سے علاحدہ کردیا گیا ہے… سنگرہار کے پھولوں سے ہٹادیا گیا ہے… اب ہم وہاں نہیں ملیں گے۔ ہماری خوشبو چھین لی گئی… ہماری نغمگی نچوڑ لی گئی… ہماری گنگناہٹ لوٹ لی گئی… ہمارا شباب پامال کردیا گیا۔ سہاگ اجاڑدیا گیا… اے ہمارے بچپن کے ساتھی… ہم کو برباد کردیا گیا… اے ہمیں سہاگن دیکھ کر جانے والے… یہ بیوہ تیرا استقبال کرتی ہے، اپنی اجڑی ہوئی پیشانی سے،اپنی بے سندور کی مانگ سے… اپنی بے چوڑیوں کی کلائی سے، اپنی بے مہندی کی ہتھیلیوں سے… اپنے پھٹے ہوئے آنچل سے، اپنے بکھرے ہوئے لٹوں سے… پیارے اب ان میں افشاں نہیں ہے… اس پیشانی میں اب چمکیاں نہیں ہیں… اے بے گھر کے گھر والے… اے بے دیس کے دیس والے… آپہلے اس خانماںبربادسے گلے مل لے… پھر ہم تجھ سے ملنے والے نہیں … اب ہم تجھ سے پانکڑتلے نہیں ملیں گے، سنگرہار کے نیچے نہیں ملیں گے… اب ہمارا گھر یہی کٹھار کا گدلا پانی ہے… جس کے نیچے ہمارا لٹا ہوا سہاگ، ہماری پامال جوانی دفن ہے…‘‘ (ص۔۲۷۰۔۲۷۱)
ان جملوں پر غور کیجئے تو کسی کہانی کاحصہ معلوم ہوں گیاانہیں جس انداز سے پیش کیا گیا ہے وہ عام نثر کی ساخت سے الگ ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ یہ عام سوانح یا خودنوشت کے اسلوب سے مختلف دکھائی دیتا ہے۔اصل میں کلیم عاجز اگر اپنے رشتہ داروں کی شہادت اور ان کے تعلق سے ماضی کی یادوں کو عام اسلوب میںپیش کرتے تو اس شدت احساس کے ساتھ خیالات ہم تک نہیں پہنچ سکتے۔کلیم عاجز نے فساد سے متاثر ماحول کی تصویر پیش کی ہے،فساد کی وجہ سے عورتیں بیوہ ہوگئیں ، ان کے سہاگ اجڑ گئے،لڑکیوں کی آبروریزی کی گئی،بوڑھیون اور بچوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کردیا گیا۔کلیم عاجز نے پوری شدت کے ساتھ ان واقعات کو پیش کیا ہے جو فسادات کی وجہ سے رونما ہوئی۔ فسادات کی وجہ سے جو جانی نقصان ہوا اس کا اندازہ کلیم عاجز کے مذکورہ اقتباس کی آخری لائین سے لگایا جاسکتا ہے ’’اب ہمارا گھر یہی کٹھار کا گدلا پانی ہے… جس کے نیچے ہمارا لٹا ہوا سہاگ، ہماری پامال جوانی دفن ہے۔‘‘مزید ایک اقتباس ملاحظہ فرمائی جس سے اس قیامت کی تکلیف کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ کلیم عاجز لکھتے ہیں:
’’آؤ… ادھر آجاؤ…ان سے ملو…میں ان کا نام نہیں بتاوں گی…سفید باٹا کا کنواس شو؟…یاد آیا…؟گھونگھرایلے بال؟ …یاد آیا؟… ارے سنگرہارے کے پھول؟…آہ …دمو مامو…ہاں…دمومامو… تم تو دوڑ کر ملتے تھے…لپٹ جاتے تھے…تم کہو…شاہ صاحب،…دمرشاہ!… وہ کہیں … بیہودہ … بدتمیز…دوڑ کر ملو… لیکن ٹھہرو کیسے ملو گے؟…کیسے ملوگے میاں کلیم…کوئی اور گلے ملا ہوا ہے…بھچّر دیہات کی لڑکی…کیا جانے اردا پردہ…نئی نئی بیاہ کے آئی تھی۔…دن دہاڑے گلے ملی پڑی ہے…نا آنچل کا ٹھور ہے نہ بالوں کا ٹھکانہ ہے۔ماں باپ کے گھر سے دلہا کے ساتھ آئی تھی۔دلہا کے ساتھ خدا کے گھر گئی۔یہی سمجھتی ہوگی زندگی اسی کا نام ہے پندرہ سولہ سال ماں باپ کے گھر ۔سال چھ ماہ دلہا کے گھر، اللہ اللہ خیر صلہ اور کیا چاہیے۔لڑکن پھڑکن کے لیے اتنا بہت ہے۔‘‘ (ص۔۲۷۸۔۲۷۹)
کلیم عاجز نے فساد کے بعدکی صورت حال کو پیش کیا ہے جیسے کہ ہم خوداسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔ایک فلم کی طرح سارے مناظر ہماری آنکھوں کے سامنے آتے جاتے ہیں۔ایک پندرہ سولہ برس کی نو شادی شدہ لڑکی کی داستان کو کلیم عاجز نے جس انداز میں پیش کیا ہے اسے پڑھ کر آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔یہ کوئی اور نہیں کلیم عاجز کی ممانی اور مامو کے قتل کی داستان ہے۔فسادیوں نے کم عمر لڑکیوں اور عورتوں کو بھی نہیں بخشا، انہیں بھی قتل کردیا ۔جب فساد کا زور بڑھا اور فسادی تلہاڑہ پہنچے اس وقت لوگوں نے اپنی جان بچانے کی ہر ممکنہ کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔اور جب موت کے سوداگروں کا سامنا نہیں کر سکے تو سب نے اللہ کے حضور دعائیں کی،اسی وقت فسادی وہاں پہنچ گئے اور سب کا قتل کردیا۔کلیم عاجز نے ان معصوم مقتول کا دلہن سے تشبیہ دی اور اور ان ظالموں کو کہار سے۔وہ لکھتے ہیںَ
’’اٹھو اٹھو…ڈوپٹہ ٹھیک کرو آنچل سنبھالو گھونگھٹ نکالو… گیت شروع کرو… کچھ وضو ہوا کچھ تیمم ہوا… ننھے ننھیاں بچے بچیاں… درجنوں کی تعدادہیں… قطارسے قرآن رحل پر رکھ بٹھادی گئیں… بقیوں نے کمسنوں نے جوانوں نے بوڑھیوں نے گھونگھٹ نکال کر آنکھیں بند کرکے ایک ساتھ گیت شروع کردیا۔ اعوذ بااﷲِ مِنَ الشیطان الرجیم۰ بسم اﷲ الرحمٰنِ الّرحیم… یا ایھاالّذین اٰمنو استعینوا باالصبروالصلوٰۃ… انا اﷲ مع الصابرین…کہارآپہنچے سواریاں لگ گئیں… اور شپاشپ دلہنوں کی رخصتیاں ہونے لگیں… کہار سواریاںاٹھاتے اٹھاتے تھک گئے کندھے بازو دکھ گئے مگر جانے والوں کو کون روکے اور روکے تو رکے کون…‘‘ (ص۔۲۸۰)
کلیم عاجز کے اس اقتباس سے یہ انداز ہ لگایا جاسکتا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد کتنی رہی ہوگی؟کلیم عاجز کی خود نوشت کا آخری حصہ دکھ کا ایک ایسا بیانیہ ہے جو زبان و بیان کی قوت کے سہارے وجود میں نہیں آسکتا تھا اس کے لیے ایک اور شئے درکارہے جسے فطرت نے کلیم عاجز کو ودیعت کی تھی۔فسادات کی ایک لمبی تاریخ ہے مگر کلیم عاجز نے اسے جو زندگی عطا کردی ہے ابھی اس کی طرف توجہ نہیں دی گئی ہے۔
فسادیوں نیجب تلہاڑا اور آس پاس کے محلے پر حملہ کیا اور جان لینے ، آبروریزی کرنے کے لیے آمادہ ہوئے تو مرد ، عورتیں اور بچے سب اپنی جان بچانے کے لئے پاس کے کنوئیں میں کود گئے۔مگر زندگی بچانے میں ناکام رہے۔کلیم عاجز نے اس واقعے کی طرف بھی اشارہ کیاہے۔وہ لکھتے ہیں:
’’آئو تمہیں ایسے کنوئیں دکھاتا ہوں جن میں بے شمار اشرفیاں دفن ہیں…ہراشرفی اشرفی نہیں ایک سلطنت کی قیمت ہے مگر ان کے لیے کوئی علامت نہیں بنی کوئی روایت نہیں بنی… یہ اشرفیاں دفن کی نہیں گئیں… دفن ہوگئیں… ہر اشرفی خود اچھلتی تھی اور خود چھلانگ لگاتی تھی… کوٹھوں سے، بالاخانوں سے، جھوکوں سے، دروازوں سے ریلا تھا اشرفیوں کا… جھناجھن، جھنا جھن، جھناجھن، چمکتی ہوئی اشرفیاں، جگمگاتی ہوئی اشرفیاں، سرخ اشرفیاں، سنہری اشرفیاں… اشرفیوں پر صورتیں کندہ ہوتی ہیں۔ بے جان، بے رنگ، ان اشرفیوں پر زندہ صورتیں تھی، جاندار، زندگی کی گرمیوں سے دھڑکتی ہوئی… بولتی ہوئی، گیسوئوں والی اشرفیاں، ماہ رخ اشرفیاں، چشم غزال اشرفیاں، غنچہ دہن اشرفیاں، آنچل لپیٹے ہوئے، ڈوپٹہ اوڑھے ہوئے اشرفیاں، آہوں والی اشرفیاں، آنسوئوں والی اشرفیاں، باپوں کی چہیتیاں، مائوں کی لاڈلیاں، شوہروں کی پیاریاں…‘‘ (ص۔۲۸۴)
یہ اشرفیاں کچھ اور نہیں بلکہ وہ معصوم بچے، عورتیں اور مرد تھے جو فسادیوں کے ڈڑ سے کنوئیں میں کود گئے کہ شاید جان بچ سکے۔مگر ایسا نہ ہوسکا۔فسادیوں نے کسی کو بیوہ کردیا کسی سے اس کی اولاد چھین لی تو کسی کی بیوی کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور کسی کے بہن کی عزت تار تار کردی گئی۔یہ سارے واقعات کلیم عاجز نے اپنی آنکھوں سے نہیںدیکھا تھا ۔
کلیم عاجز کی خود نوشت ’’ جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں اس تاریخی سچائی کا علم ہوتا جو ۱۹۴۶ میں فساد کی شکل میں رونما ہوا تھا۔ کتاب ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک قاری کے طور پر میں نے ان اقتباسات کا بطور فکشن پڑھنے کی کوشش کی ہے ۔ گرچہ ان میں تمام واقعات اور افراد اور اشیا حقیقی زندگی کا پتہ دیتی ہیں اور انہیں فرضی یا تصوراتی قرار نہیں دیا جاسکتا،لیکن کلیم عاجز نے ان تمام حقائق کی پیش کش میں ایک خیال ایک ایسی دنیا بھی آباد کی ہے جو غیر افسانوی نثر کا تاثرپیش کرنے کے باوجود افسانوی نثر کی حد میں داخل ہوجاتی ہیں۔ان اقتباسات میں مختلف کرداروں کے درمیان جو مکالمے پیش کئے گئے ہیں وہ نہایت فطری معلوم ہوتے ہیں۔وہ اشیا جو عام زندگی میں بہت شناسا معلوم ہوتی ہیں۔کلیم عاجز نے یہاں ان سے مکالمے کی جو صورت پیدا کی ہے وہ تخلیقیت کی اعلی ترین مثال ہے۔یہ سب خیال کی دنیا میں ممکن ہوسکا ہے۔کلیم عاجز کی اس نثر ی اسلوب سے یہ حقیقت بھی سمجھی جاسکتی ہے کہ حقائق اور اشیا تو سب کے لیے یکساں ہیں مگر انہیں دیکھنے اور محسوس کرنے کا عمل ہی ایک تحریر کو دوسری تحریر سے الگ کرتا ہے،اور الگ کرنے کا سب سے بڑا وسیلہ زبان ہے۔کلیم عاجز کی خودنوشت سوانح کا سب سے بڑا وصف اس کا مکالماتی انداز ہے۔اردو کی شاید کسی سوانح میں یہ اسلوب اختیار نہیں کیا گیاہے،کلیم عاجز نے اس مسئلے میں اپنی کوئی رائے نہیں لکھی ہے۔لیکن ایک قاری اس کے سبب تک پہنچنے کی کوشش تو کرسکتا ہے۔میں نے اپنی بساط بھر اس کتاب کو سمجھنے کی کوشش کی اور اس میں موجود افسانوی رنگ کو پیش کرنا چاہا۔کلیم عاجز نے خود نوشت کے لیے جس افسانوی اسلوب کو اختیار کیا ہے اس سے اس کتاب کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔کلیم عاجز نے عام بول چال کی زبان اختیار کی ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page