اس پوری کائنات اور اس میں وقوع پذیر ہونے والے تمام واقعات کو دیکھنے اور بیان کرنے کا نظریہ ہر کسی کا مختلف ہوا کرتا ہے۔ جب ایک مزدور اس کائنات کو دیکھتا ہے تو اس کو اس میں اپنی زندگی کی سخت گیریوں کے سوا کچھ معصوم رشتے اور ان کے علاوہ شاید ہی کچھ اور اس کو نظر آتا ہے۔ مگر جب ایک فلسفی، ایک شاعر ، یا ایک ادیب اسی کائنات کو دیکھتا ہے تو اس کا ایک نظر یہ ہوتا ہے۔ کائنات کو دیکھنے کا اپنا اس کا ایک الگ زاویہ ہوتا ہے۔ اب اس کا انحصار اس پر ہے کہ وہ کیا دیکھتا ہے۔ جس طرح ایک آدھے بھرے جام کو دیکھ کر ایک قنوطی ذہن کا انسان یہ کہتا ہے کہ یہ آدھا خالی ہو چکا ہے اور رجائی ذہن کا مالک یہ کہتا ہے کہ ابھی اس جام میں بہت شراب باقی ہے اس طرح اس کائنات کو جو وصال کے فلسفے کے نظریہ سے دیکھتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کائنات کا مقدر وصال ہے اور جو فراق کے نظریہ سے اس کائنات کی ساخت کا مشاہدہ کرتا ہے اس کو ہر شئے ایک دوسرے سے جدا ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اور ان دونوں نظریوں کے مشاہد کی ذہن میں گھر کرنے کے پیچھے اس کی خود کی زندگی میں بپا ہوئے بہت سے واقعات و حادثات کا عمل دخل ہوتا ہے۔ شیلی اس کائنات کو وصال کے نظریے سے دیکھتا ہے اور اپنی نظم Loves Philosophy میں کہتا ہے:
The fountain mingles with the river,
And the rivers with the ocean;
The winds of heaven mix forever,
with a sweet emotion;
Nothing in the world is single;
All things by a law divine
In one another’s being mingle;–
Why not I with thine?
علامہ جمیل مظہری اس کائنات کو فراق کے نظریے سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں:
کرمکِ بے مایہ گردِ ماہ پھر سکتا نہیں
اس کو چھو سکتا نہیں اور اُس پہ گر سکتا نہیں
ندیاں بے چین ہیں ، بے تاب ہیں، تھکی نہیں
لہریں ملنا چاہتی ہیں اور مل سکتی نہیں
ہر ستارہ اپنے سورج کے لیے مہجور ہے
اور سورج ہے کہ اپنی کہکشاں سے دور ہے
چاند دنیا سے جدا ہو کر ہے اب تک بیقرار
اسکی گردش اک طوافِ شوق ہے دیوانہ وار
صرف ذرہ ہی بہ حسرت مہر کو تکتا نہیں
آسماں بھی جھککر اس دھرتی کو چھو سکتا نہیں
کائنات اک عالمِ فرقت ہے، یہ دوری ہے کیا
میری مہجوری ہے کیا اور تیری مہجوری ہے کیا
اب اگر آپ شیلی کے پہلے شعر میں ’ندی‘ کی مثال دیکھیں تو آپ محسوس کرینگے کہ وہ کہتا ہے کہ سوتے ندی سے ملتے ہیں اور ندیاں سمندر میں جا ملتی ہیں اور ہوائیں آسمان میں ایک میٹھے احساس کے ساتھ گھل مل جاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ شیلے کو اس کائنات کی ہر شئے حالتِ وصال میں نظر آتی ہے۔ دوسری طرف جمیل مظہر کا اوپر نقل کیے گئے اقتباس میں دوسرا شعر دیکھیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ بالکل شیلے کی ہی مثال یہاں پر بھی موجود ہے یعنی یہاں بھی شاعر’ ندی‘ کی مثال دیتا ہے اور اس کی ہر حرکت کو فراق کی حالت میں محسوس کرتاہے۔
اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ وجودِ کائنات کا کون سا فلسفہ درست ہے۔ کیا واقعی شیلے کی بات مان لی جائے کہ اس کائنات کا ہر ذرہ حالتِ وصال میں ہے اور کسی کو کسی سے الگ نہیں دیکھاجا سکتا یا علامہ جمیل مظہری کی بات مان لی جائے کہ کائنات کا حالتِ فراق میںہونا اس کا مقدر ہے اور نتیجہ کے طور پر کائنات کی ہر شئے ایک دوسرے سے ملنے کو بیتاب رہتی ہے۔در اصل معاملہ یہ ہے کہ ان دونوں حضرات نے اپنا اپنا ایک نظریہ اپنی شاعری میں پیش کیا۔ اور اپنے نظریہ کے مطابق اپنا ایک مفروضہ طے کر لیا۔ ایسا نہیں کہ شیلی نے ایک جگہ یہ کہ دیا ہو کہ کہ یہ کائنات وصال کا مظہر ہے اور دوسری جگہ اس کے اشعار سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہو کہ نہیں یہاں تو فراق بھی ہے۔
مندرجہ بالا بحث سے میرا مقصد شیلی اور جمیل کا تقابل کرنا نہیں بلکہ ان دونوں حضرات کے نظریات اور فکری دھاروں پر بحث کرنا ہے۔ کیونکہ ایک شاعر جو ۱۷۹۲ء میں انگلستان کے سسکس میں پیدا ہوتا ہے اس کا موازنہ ہم اس شاعر سے کیونکر کریں جو ہندوستان کے مظفر پور میںتقریباََ ۱۱۲ سال بعد پیدا ہوتا ہے۔ سو سال سے زیادہ کا فاصلہ ہے تو ظاہر ہے کہ نظریہ میں فرق تو آئیگا۔ اور صرف یہی وجہ کیوں شیلی مغربی تہذیب کا پروردہ ہے اور اس ملک میں زندگی گذار رہا ہے جس کی حکومت تقریباََ آدھی دنیاپر ہے۔ دوسری طرف جمیل مظہری کی پیدائش غلام ملک میں ہوتی ہے اور جب ملک آزاد ہوتا ہے تو ان کی عمر اس وقت چالس سال کی ہوتی ہے جبکہ شیلی ۲۹ سال کی عمر میں یعنی انیسویں صدی کے اوائل ہی میں اس دارِ فانی کو الوداع کہ جاتا ہے۔ شیلی کی بیوی ایک ناول نگار تھی اس کا ادب سے گہرا تعلق تھا جب کہ جمیل نے چالیس سال کی عمر میں شادی کی اور وہ بھی کامیاب نہ رہ سکی۔ میں ان دونوں کی حالاتِ زندگی کا موازنہ نہیں کر رہا بلکہ افکار کا موازنہ نہ کیے جانے کی دلیل پیش کر رہا ہوں۔ البتہ نظریات کے بننے اور بگڑنے میں زندگی کے تلخ وشیریں لمحات ، واقعات اور حادثات کا عمل دخل ہوتا ہے۔ ایک ادیب و شاعر بھی اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی ہی میں جینے کے اصول و ضوابط طے کرتا ہے ۔زندگی کے تجربات اور مشاہدات ہی کی بنا پر نظریات وجود پذیر ہوتے ۔ اب ان دونوں حضرات کے سوچنے اور سمجھنے کے زاویے بالکل مختلف ہیں اس کی وجہ ان کے آس پاس کا ماحول اور ان کے مشاہدات ہیں جو ان کے افکار کو سمت عطا کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ جمیل مظہری کی زندگی میں رونما ہونے والے حالات نے ان کو اس کائنات کو فراق کی حالت میں دیکھنے پر مجبور کر دیا ہو۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ جمیل نے شیلی کے مقابلہ زیادہ دنیا دیکھی ممکن ہے کہ ان کے تجربات اتنے خوشگوار نہ رہے ہوں جتنے شیلی کے تھے۔ صرف نظم’ مہجوری ‘ہی میں نہیںبلکہ جمیل مظہری کی پوری شاعری فرا ق ، جدائی اور مہجوری کے جذبات سے بھری ہوئی ہے۔
۱۹۳۲میں جب ان کی سگی بہن صابرہ بیوہ ہو گئیں تو اس حادثے کا ان پر گہرا صدمہ ہوا۔ پوری زندگی شادی نہ کرنے اور بہن کی اولاد کی پرورش کرنے کی ذمہ داری انہوں نے سنبھال لی۔ بعد میں ماں کے اصرار پر شادی کی بھی تو ازدواجی زندگی خوشگوار کبھی نہ رہی۔ کوثر مظہری نے اپنی کتاب ’’انتخابِ کلامِ جمیل مظہری‘‘ کے مقدمہ میں ان کی حالاتِ زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’’جمیل کی شادی نہیں ہوئی، ساتھ ہی دوسرا حادثہ یہ پیش آیا کہ ۱۹۳۲ء میں ان کی سگی بہن صابرہ خاتون (چھ برس چھوٹی تھیں) بیوہ ہو گئیں۔ دو چھوٹے بچّے تھے۔ جمیل صاحب بہت جذباتی تھے اس لیے کبھی شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ انھوں نے بہن اور ان کے بچّوں کی پرورش کی ذمہ داری سنبھال لی۔ شادی کرنے کے لیے بہت ضد کی گئی۔ آخر کار ماں کے اصرار پر یہ شرط رکھی کہ کسی سن رسیدہ بیوہ سے شادی کرونگا۔۱۹۴۵ ء میں جب وہ چالیس سال کے تھے، مٹیا برج کلکتہ کی ایک ایسی ہی لڑکی سے شادی ہو گئی۔ لیکن یہ رشتہ خوشگوار نہیں بن سکا۔ ان کی زندگی میں تنہائی اور نا آسودگی جیسی تھی ، وہ بر قرار رہی۔ ۱۹۶۹ میں بیوی کا انتقال ہو گیا۔ جمیل مظہری اپنی بہن اور ان کے بچّوں اور اپنے بھائی رضا مظہری کے بچوں کو اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے تھے۔‘‘
(انتخابِ کلامِ جمیل مظہری، صفحہ ۱۱)
جیسا کہ اقتباسِ بالا سے معلوم ہوا کہ جمیل ایک جذباتی انسان تھے ان کی یہ جذباتیت ان کی شاعری میں بھی نظر آتی ہے۔ جمیل مظہری کی حالاتِ زندگی پر غور کرنے کے بعد ان کی نظموں کا ساختہ پس منظر ذہن میں ابھرتا ہے ان کی زندگی کے حالات اگر پیش نظر ہو تو ان کی نظموں کو، اونر ان میں پوشیدہ احساسات کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ جمیل کا یہ شعر دیکھیں:
میری عذرا زندگی کی ایک حقیقت ہے فراق
اس کی قسمت ہے فراق اس کی عنایت ہے فراق
مندرجہ بالا شعر کا اگر تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ جمیل کا مخاطب ان کا محبوب ہے جس کو وہ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اس کو وصال کی تمنّا چھوڑ دینی چاہیے کیونکہ زندگی کی حقیقت تو فراق ہے۔ اور یہ حقیقت ہی ہماری قسمت ہے اس کو بہ خوشی قبول کر لینا چاہیے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ یہ زندگی کا ایک تحفہ ہے زندگی کی عنایت ہے۔ اس شعر سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کو وصال کی تمنا تو ہے مگر چونکہ یہ کسی طور ممکن نہیںاس لیے فراق کی حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے اور خوشی خوشی تسلیم کر لینا چاہیے۔شیلی کائنات کے ہر ذرہ میں محبت اور وصال کا جویا ہے جب کہ جمیل کو اس کائینات کے ہر شئے کی حقیقت فراق نظر آتی ہے۔یہ شعر قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کر تا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ شاعر نے کبھی محبت کی اور وصال سے لطف اندوز نہ ہو سکا اس لیے وہ فراق کو ایک حقیقت اور اپنی قسمت تسلیم کرتا ہے؟ جمیل کی حالات زندگی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ممکن ہے کہ قاری کا یہ گمان سچ ہو۔ حالانکہ جمیل نے اس طرح کی کسی بھی حقیقت سے انکار کیا ہے۔ جمیل کا رشتہ کم عمری میں ان کی پھوپھی زاد بہن سے ہوا تھا اور ۲۴ سال سے کم عمر میں ہی یہ رشتہ کسی انجام تک پہنچنے سے پہلے ہی ٹوٹ گیا۔ کوثر مظہری نے ان کے اس رشتہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے؛
’’ان کا رشتہ اپنی پھوپھی زاد بہن سے طے ہو چکا تھا۔ وہ اسی زمانے میں کئی برسوں تک پیچش میں مبتلا رہے جس کے سبب وہ بقول مظہر امام اختلاجِ قلب کا شکار ہو گئے۔اکثر ایک طرح کی اضطرابی و اضطراری کیفیت ان پر طاری رہتی۔ بہت سے اعزا نے اسے جنون تصور کر لیا اور 24سال کی عمر میں یہ رشتہ کسی انجام سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔ جمیل نے خود کو اس رشتے سے جذباتی طور پرجوڑ لیا تھا۔ یہ رشتہ ان کے لیے جذبہ عشق میں مبدل ہو گیا جو ان کی شاعری میں مختلف شکلوں میں نمودار ہوتا رہا۔‘‘
(انتخابِ کلامِ جمیل مظہری ، صفحہ ۱۰)
مندرجہ بالا اقتباس سے اس امر کو تقویت ملتی ہے جس طرف ان کے اشعار پڑھنے سے گمان غالب ہوتا ہے۔ کائنات کو فراق کے نظریہ سے دیکھنے کا تصور جو جمیل کے یہاں ہے اس سے جمیل پوری طرح خوش تو نظر نہیں آتے ہاں البتہ دل کو سمجھانے کے لیے انہوں نے اس حقیقت کو قبول کر لیا ہے اور اپنے بنائے ہوئے مفروضہ کو ثابت کرنے اور اس کو تقویت دینے کے لیے وہ کائنات کے تمام ذروں کو حالتِ فراق میں اس لیے بھی محسوس کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے اندر سے یہ احساس جاتا رہے کہ فراق صرف ان ہی کا مقدر ہے۔ اپنے اس مقدر کو وہ اپنی شاعری کے ذریعہ تمام جہان کا مقدر بنا دیتے ہیں اور پھر اس مقدر سے ان کو گلا بھی ہے۔ وہ اس تقدیر کو قبول تو کرتے ہیں مگر اس کو بھی مشیت کی مجبوری گردانتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے اندر کہیں نہ کہیں اس فراق کے درد کی ٹیس کا احساس ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:
آہ یہ احساس یعنی جو بھی ہے مہجور ہے
سینہ تخلیق کا رِستا ہوا ناسور ہے
ہے مشیت بھی تو خود جکڑی ہوئی زنجیر سے
اک دھواں سا اٹھ رہا ہے سینہ تقدیر سے
دوسری طرف شیلی کی نظم کے یہ اشعار دیکھیں؛
And the sunlight clasps the earth,
And the moonbeams kiss the sea;–
What are all the kissings worth,
If thou kiss not me?
شیلی جب سورج کی کرنوں کو دیکھتا ہے کہ وہ زمین کو چوم رہی ہیں اور جب وہ چاندنی رات میں چاند کی شعاؤں پر غور کرتا ہے تو اس کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ شعائیں سمندر کی لہروں کو چوم رہی ہیں اور یہاں وہ اپنے محبوب سے مخاطب ہوتا ہے اور سوال کرتا ہے کہWhat are all these kissings worth, If thou kiss not me? کائنات میں موجود یہ تمام چیزیں جو کسی نہ کسی سے مل رہی ہیں یہ سب بے معنی ہیں اگر تم مجھ سے نہ ملو، مجھے پیار نہ کرو تو اور پھر ایسا کیوں نہیں ہو سکتا تم مجھ سے پیار کیوں نہیں کر سکتے؟
یہاں پر ایک بڑی اہم بات غور کرنے کی یہ ہے کہ شیلی اپنے محبوب سے شاکی ہے کہ وہ دل میں محبت کا جذبہ رکھے ہوئے بھی ایک بوسہ کے ذریعہ اپنی محبت کا اظہار نہیں کرتا۔اور اس وجہ سے اس کو کائنات کی تمام چیزوں کو ایک دوسرے سے قریب آتا دیکھ اپنے محبوب سے یہ شکایت ہے کہ اس کا محبوب اس کے قریب کیوں نہیں۔ جبکہ جمیل اپنے محبوب کو سمجھاتے ہیں کہ وہ شاکی نہیں ہیں وہ اس کو سمجھاتے ہیں کہ فراق ہی دنیا کی حقیقت ہے، ازل سے یہی کائنات کا مقدر ہے۔ جمیل کہتے ہیں؛
ہے ازل سے کائنات اک حالتِ ہجرِ دوام
رات سے دن کا بھی ملنا عارضی ہے صبح و شام
شیلی اور جمیل کے فکری دھاروں پر بحث کرنے کا جواز یوں ہے کہ جمیل مظہری نے اپنی نظم بہ عنوان ’مہجوری‘کہی تو اس نظم کے عنوان کے نیچے ایک نوٹ لگایا جو یوں ہے۔
’’[نوٹ: شیلی سے معاذرت کے ساتھ کیوں کہ یہ نظم اس کی نظم Loves Philosophy کا جوابی رخ ہے ۔ فرق یہ ہے کہ وہ کائنات کو حالتِ وصال میں دیکھتا ہے اور میں حالتِ فراق میں]‘‘
مزے کی بات تو یہ ہے کہ جس طرح شیلی نے اپنی نظم کو دو حصو ں میں تقسیم کیا ہے اسی طرض علامہ جمیل مظہری نے بھی اس نظم کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے فرق یہ ہے کہ سیلی کی نظم کے دونوں حصوں میں آٹھ آٹھ لائینیں ہیں جبکہ جمیل کی نظم مہجوری کے دونوں حصے سات اور چھ اشعار پر مشتمل ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ دونوں نظریوں میں کون سا نظریہ بہتر یا زیادہ مناسب ہے۔ اس ضمن میں تھوڑی سی فلسفیانہ بحث لازمی ہو جاتی ہے۔در اصل معاملہ یوں ہے کہ جب بھی دو اشیا کا وصال ہوتا ہے تو ان کا کہیں نہ کہیں کسی اور شئے سے فراق ضرور ہوتا ہے مثال کے طور پر جب بارش کی بوندیں زمین پر پڑتی ہیں تو ان کو دیکھ کر ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ان کا وصال ہو رہا ہے لیکن بالکل ایسی ہی ایک اور حقیقت ہے اور وہ یہ کہ ان بوندوں کا بادل سے فراق ہو رہا ہے دونوں یعنی وصال اور فراق حقیقت ہیں اب یہ مشاہدہ کرنے والے کی حس پر منحصر کرتا ہے کہ وہ کیا دیکھتا ہے ۔ آیا وہ بوندوں کا زمین سے وصال دیکھتا ہے یا باد ل سے فراق۔ یہ معاملہ محض بوندوں اور بادلوں کا ہی نہیں تمام کائنات کا ہے ۔شیلی کی ندرجہ بالا مثال ہی کو لے لیجیے۔سورج کی شعائیں جب زمین پر پڑتی ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ سورج سے نکلتی ہیں اور اس نکلنے کے عمل کو فراق سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔فلسفے اور نظریات کا معاملہ کچھ ایسا ہے کہ اس میں صحیح یا غلط کچھ نہیں ہوتابلکہ یہ اس پر منحصر کرتا ہے کہ کون حقیقت کو کس زاویے سے دیکھتا ہے یا دیکھنا چاہتا ہے۔ شیلی کی ملا قات لارڈ بائرن سے ہوئی تھی اور شاعری میں بائرن کا اثر بھی ملتا ہے۔ ظاہر ہے کہ بائرن ایک رومانی ذہن کا شاعر ہے یہ وہ شاعر ہے جو کہتا ہے کہ ـ’محبت وہاں بھی اپنا راستہ بنالیتی ہےجہاں بھیڑیے بھی گذرنے سے ڈرتے ہیں۔کوئی بھی شاعر اپنی سوچ کی سمت کو اپنے اشعار میں مخفی نہیں رکھ سکتا۔ اگر شیلی وصال کا قائل ہے تو اس کے اشعار میں (Loves Philosophyکے علاوہ بھی) اس کی دیگر نظموں میں بھی وصال کا فلسفہ ضرور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح علامہ جمیل مظہری اگر فراق کو کائنات کا مقدر تسلیم کرتے ہیں تو ان کا یہ فلسفہ جا بہ جا ان کی شاعری میں محسوس کیا جانا لازم ہے۔ اگر اس نظم مہجوری کے علاوہ بھی اگر آپ ان کے دوسرے اشعار پر غور کریں تب بھی آپ کو نا کا یہ فلسفہ نظر آئے گا۔ مثال کے طور پر ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
مندرجہ ذیل اشعار ان کی نظم ’اُسے بھول جا بھُلا دے‘ سے ہے۔ یہ نظم ۱۹۴۲ء میں شائع ہوئی تھی۔
یہ سمجھ لے خواب دیکھا تھا نشاط زندگی کا
یہ سمجھ لے وہ محبت نہیں کھیل تھا کسی کا
کہ بھرا تھا اک کھلاڑی نے سوانگ عاشقی کا
ہوا ختم جب تماشہ تو نہ پردہ کیوں گرا دے۔۔۔ اسے بھول جا بھلا دے
وہ نگاہیں ان نگاہوں سے دو چار کب ہوئی تھیں
وہ کلائیاں گلے کا ترے ہار کب ہوئی تھیں
وہ لگاوٹیں محبت کا سنگار کب ہوئی تھیں
یہ تصوراتِ باطل کے نقوش ہیں مٹا دے۔۔۔اسے بھول جا بھلا دے
یا پھراس نظم کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں جس کا عنوان ہی ہے ’فراق سی سالہ‘
صبر اک جبر مشیت، جبر کی غایت ہے صبر
ہجر جب ہو مستقل تو اک بڑی نعمت ہے صبر
وقت کو پچھلے قدم لوٹا نہیں سکتا کوئی
اپنی پچھلی زندگی دہرا نہیں سکتا کوئی
عشق نقشِ آب ہے، ہر شوق نقشِ آب ہے
زندگی خاشاک ہے اور وقت اک سیلاب ہے
ہم تو دو تنکے تھے اک سیل رواں میں بیش و کم
اتفاقاََ کر دیا تھا جن کو لہروں نے بہم
موج نے کروت جو لی صحبت وہ برہم ہو گئی
وصل کی وہ لمحگی تقدیرِ شبنم ہو گئی
یا پھر یہ شعر دیکھیں کہ ؎
ہستی ہے جدائی سے اس کی ، جب وصل ہوا تو کچھ بھی نہیں
دریا میں نہ تھا تو قطرہ تھا، دریا میں ملا تو کچھ بھی نہیں
اس طرح جمیل مظہری کی شاعری میں جا بہ جا ہجر اور فراق کی کیفیتیں محسوس کی جا سکتی ہیں۔ یہ دونوں شعرا شیلی اور جمیل مظہری دونوں زندگی کو دیکھنے کا ایک فلسفہ رکھتے ہیں شیلی کو دنیا جانتی ہے۔ علامہ جمیل مظہری کے اشعار کو دنیا میں کتنا پڑھا اور سمجھا گیا ہے۔ شیللی کے نظریہ پر کتنی باتیں کی جاتی ہیں اور جمیل کے نظریہ کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے۔ کیا یہ فرق اکیسویں صدی میں بھی باقی رہے گا ؟
نوٹ: مضمون نگار دی ونگس فاؤنڈیشن، نئی دہلی کے صدر ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |