کوثر مظہری کی کتاب ’’قراَت اور مکالمہ‘‘ایک مطالعہ – ڈاکٹر انوارالحق
ایک کامیاب نقاد کے طور پر اردو ادب میں خود کومستحکم کرنے کے لئے دو بنیادی شرائط ہیں جن کے بغیر کوئی کتنا ہی بڑا ادب کا پارکھ کیوں نہ ہو ،چاہے وہ متن کی کتنی بھی چھان پھٹک کیوں نہ کر لے، اس میں معنی کے کتنے بھی گوہر تلاش کیوں نہ کر لے ،اردو دنیا اسے بحیثیت نقاد قبول نہیں کرسکتی ۔ پہلی یہ کہ امید وار کی عمر کم از کم ساٹھ سال یا اس سے زیادہ ہونی چاہئے ۔ دوسری امید وار تیس چالیس یا اس سے زیادہ کتابوں کا مصنف ہو۔
ان دونوں شرائط میں سے کسی ایک پر بھی پور ا نہ اترنے کی صورت میں ایک کامیاب ناقد کی امید واری خارج ہوسکتی ہے ۔ابھی میں جس کتاب پر بات کرنے والا ہوں اس کا مصنف ان دونو ں میں سے کسی بھی شرط پر پورا نہیں اترتا پھر بھی اس کی تنقیدی بصیرت ،متن کی قراَت اور پرکھ کی صلاحیت اس کو اردو ادب کاایک اہم ناقدتسلیم کرنے پر مجبور کردیتی ہے ۔
زبان کا مقصد ہے خیالات کی ترسیل اورشایدادب میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے ، جب ایک شاعر کو ئی شعر کہتاہے تو وہ مختلف عوامل سے کام لیتاہے ،رعایت لفظی ،ایہام ، استعارات وتشبیہات ، اور نہ جانے کیا کیا ، مقصد اس کا بلا شبہ یہ ہوتا ہے ایک خاص قسم کا ابہام متنِ شعر کے معنیاتی نظام کے دائرے کو تہہ درتہہ اور وسیع تر کردے تاکہ قاری اس شعر کو محض لفظوں کا جال نہ سمجھے بلکہ ایک عمدہ ادب پارہ تصورکرے ۔متن کی اسی تفریق کے لئے بین المتونی تقابل اورپھر متن کا مقام متعین کرنے کے لیے نقاد کی ضرورت پڑتی ہے ۔ نثری تخلیقات میں قاری ایک حد تک فیصل ہوتاہے مگر شعری تخلیقات میں تو قاری بس لطف اندوز ہوتاہے اورلطف اندوزی اور بیزاری پر بات کرنی ہوتو یہ ذمہ داری ناقدکی ہوتی ہے ، اگر ناقد کسی گروہ بندی ،تعصب یا تنگ نظری کا شکار ہو تو یہ ذمہ داری ایک ذمہ دار ناقد کے بہ طور نہیں نبھا سکتا اور ٹھیک اسی طرح جب کوئی ناقد کسی خاص نظر یہ،یامکتب فکر سے حد درجہ مرعوب ہو تواس کے ذہن و دل پر اس خاص مکتب فکر کا اثر اس پر اس قدر غالب ہوتاہے کہ وہ آزادانہ طور پر فیصلے کرنے کی قوت سے محروم ہو جاتاہے اور ظاہر ہے ایسے میں وہ کھلی تنقید نہیں کرپاتا ۔
ایسے میں ایک خوش آیندبا ت یہ ہے کہ آج کا نقاد آزاد فضامیں سانس لے رہا ہے اور کسی بھی فن پارے کو پرکھنے کے لیے کسی خاص چشمے کے استعمال سے حتی المقدور گریز کرتاہے۔جہاں تک شاعری اور شاعر ی کی تنقید کا تعلق ہے تو یہ ایک بڑا ہی نازک اور سنجیدہ معاملہ ہے ۔ایسے میں کوثر مظہری کی تنقید نگاری معتبر ہے حالانکہ وہ مذکورہ بالادونوں شرائط میں سے کسی پر بھی کھرے نہیں اترتے اس لیے ان کو ابھی ایک ’’معروف‘‘نقاد تسلیم نہیں کیا جاسکتا (اللہ کا شکر ہے شرطیں اس زمانے میں تھوڑی ڈھیلی ہوئی ہیں ورنہ چند دہائیوں قبل تو ادب میں اس کو ادیب ،شاعریانقاد تسلیم ہی نہیں کیا جاتا تھا جب تک وہ زندہ رہتا تھا )
کوثر مظہر ی کا ایک ویژن ہے ، ایک وصول ہے نقد شعر کے بارے میں کوثر مظہری کے ایمان پر بات کر تے ہوئے ڈاکٹر ممتاز احمد خان اپنی رائے کچھ یوں ظاہر کرتے ہیں :
’’کوثر مظہر ی ہر طرح کے ادبی موضوعات پر لکھتے اوررسالوں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔وہ بسیار نویس ہیں اور کھل کر اپنی با ت کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں،کوثر مظہری کسی ’’اِزم‘‘کے قائل نہیں،ترقی پسند ی اور جدیدیت دونوں سے اختلاف کیا ہے اور ما بعد جدیدیت کے نام پر ادبی گروہ بندی کو بھی وہ ناپسند کرتے ہیں۔‘‘ (ماہنامہ پیش رفت ۲۰۰۳ )
اب یہاں قابل غور موضو ع یہ ہے کہ کیا ایک نقاد کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی نہ کسی ’’اِزم‘‘یا مکتب فکر یا رجحان کا مقلد ہو؟میں نہیں سمجھتا کہ ایک اچھے ناقد کے لئے یہ خصوصیتیں لازم ہیں البتہ میں اس کا قائل ضرور ہوں کہ نقاد کا جھکاؤکسی بھی مکتب فکر یا ’’اِزم ‘‘ کی طرف ہو سکتاہے ، اور یہ بھی ہو سکتاہے کہ وہ کسی ’’اِزم ‘‘کا قائل بھی ہو مگر یہ کوئی ضروری بھی نہیں۔ہاں جو ضروری ہے وہ ہے ’’جراَت افکار ‘‘کہ اس کے بغیر تنقید ناممکن ہے ۔ لہذٰڈاکٹر ممتاز احمد خان اسی مضمون میں لکھتے ہیں :
’’کہ آج کا تنقید نگار مغربی علوم و افکار کی دھونس میں آکر اپنے تہذیبی سرمائے اور اپنی مخصوص شناخت سے محروم ہونے کو آمادہ ہیں،وہ کسی بڑے سے بڑے ادیب و ناقد کے قول پر اپنی ذاتی سوچ ،اپنی منفرد فکر اور اپنی پسند کو قربان نہیں کر سکتا۔
ڈاکٹر کوثر مظہری اس عہدکے ایک وسیع المطالعہ،ذہین،بے باک اور ہر وقت سوچتے ہوئے ذہن و دماغ کے حامل تنقید نگار ہیں انھوں نے اپنے عہد کی ادبی تخلیقات کا مطالعہ سنجیدگی ،شوق اور اہتمام سے کیا ہے اور وہ ہمارے ادب کی سمت و رفتار پر نظر رکھتے ہیں۔‘‘ (ماہنامہ پیش رفت ۲۰۰۳ )
اقتباس بالا کی روشنی میں اور ڈاکٹر ممتاز احمد کی رائے کے مطابق کوثر مظہری اپنے دعوے پر کس قدر پورے اترتے ہیں یہ تو تب پتہ چلے گا جب ہم ان کی تازہ ترین تصنیف ’’قراَ ت اور مکالمہ‘‘پر بحث کریں اور معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ وہ خود تنقید کے سلسلے میں اپنی کیا رائے رکھتے ہیں او رقراَت سے کیا مراد ہے اور شاعری کی تنقید کے سلسلے میں وہ کیا ایمان رکھتے ہیں،کیا وہ بھی کسی enforcedنام نہاد تنقیدی اصول کے پابند ہیں؟یاپھرواقعی آزادانہ تنقیدی رویہ کے حامل ہیں ۔مذکورہ بالا کتاب میںشامل مضمون ’’عملی تنقید اور تفہیم شعر و شاعری‘‘کے عنوان کے تحت کوثر مظہری اپنی تنقید سے متعلق لکھتے ہیں:ـ
’’شاعری یا شعر کے معنیاتی نظام تک رسائی کے لئے جو اصولی Devicesہو سکتے ہیں ان میں اہم ترین استعاراتی بیت تک رسائی حاصل کرناہے ۔شعر پارے کو دیکھنا کہ اس کا Themeواضح ہے یا گنجلک ؛جو بات کہی گئی ہے وہ پیش یا افتادہ ہے کہ تازہ کار،پھر یہ بھی کہ نفس مضمون طبع زاد ہے کہ ماخوذ،غلط ہے کہ راست،اور پھر یہ دیکھنا کہ اس کا استعاراتی نظام کیسا ہے ۔ان تمام باتوں کی چھا ن پھٹک کرنا اور پھر شعر، نظم اور ادب پارے کی تفہیم کے لئے کوشش کرنا ایک مثبت اقدام ہے‘‘۔ (قراَت اور مکالمہ ،صفحہ ۷۲)
مندرجہ بالا خیالات اس بات پردلالت کرتے ہیں کہ کوثر مظہری کے تنقیدی اصولوں کادائرہ کس قدر اصولوں پر مبنی ہے ۔ایک مثبت تنقید مثبت قراَـت کی وجہ سے وجود پاتی ہے اور مثبت تنقید فن پاروں کو مثبت رہنمائی عطا کرتی ہے ۔کسی بھی شعر یا شاعری کا معنیاتی نظامAbsoluteنہیں ہوتا البتہ خالقِ شعر بھی ان عام قارئین اور ناقدین میں سے ایک ہوتاہے جو شاعری کے کسی ایک معنیاتی نظام تک پہنچ پاتا ہے ۔یعنی ایک ہی شعر کا دوقاری دو الگ الگ مطلب اخذکرسکتاہے ،اور یہ منحصر کرتاہے دونوں قارئین کے عقل سلیم پر ،ذاتی تجربات پر اوران کی سماجی انفرادیت ،حیثیت اور حسّیت پر ۔
قراَت اورمکالمہ ایک ایسی تصنیف ہے جو اگر چند دہائیوں قبل شائع ہوئی ہوتی توکوئی بھی شخص موٹے شیشے کی عینک لگائے یہ نہیں کہتا کہ نئی نسل اپنا نقاد خود پیدا کرے ۔نئی نسل میں بحیثیت ناقد کوثر مظہری کو تسلیم کیا جانے لگا ہے اس دعوے کی پختگی کے لیے دلیل کے طور پر پرو فیسر خالد محمود، صدر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی یہ رائے اہمیت رکھتی ہے ۔’’عصر حاضر کے جواں سال نقادوں میں ڈاکٹر کوثر مظہری کا ادبی قد سب سے نمایاں نظر آتا ہے‘‘ علاوہ ازیں معروف ماہنامہ ’’آج کل‘‘ کے مدیر ابرار رحمانی کا یہ کہنا کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ ان کی تنقیدی تحریروں سے اس کی شناخت مستحکم ہوئی ہے ‘‘
(یہ بھی پڑھیں قرأت اور مکالمہ – پروفیسر کوثر مظہری )
ان کی اہم تصنیف’ جدید نظم : حالی سے میرا جی تک ‘ پر پروفیسر قمر رئیس، پروفیسر حامدی کاشمیری، پروفیسر گوپی چند نارنگ، پروفیسر شمیم حنفی، ڈاکٹر مولا بخش وغیرہ کی آراء بھی انہیں صورت استناد عطا کرتی ہیں۔ اس کتاب’’قراَت اور مکالمہ‘‘ کو سات حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ،پہلے حصہ میں ’’جواز اس کتاب کا ‘‘،’’قراَت و مکالمہ‘‘اور’’ عملی تنقید اور تفہیم شعر و شاعری ‘‘یہ تین مضامین ہیں ’’قراَت و مکالمہ ‘‘عنوان کے تحت تفہیم کے متعلق مغربی اور مشرقی تھیوری کے حوالے سے گفتگوکی گئی ہے ۔یہ مضمون بڑی اہمت کا حامل اس لیے بھی ہے کہ یہی مضمون اس کتاب کی وجہ تسمیہ بھی بناہے
ا۔ کوثر مظہری کے مطابق قاری ،ادب اور ادیب تینوں میں رشتہ پیدا کرنے کے لیے جو پہلی شرط ہے وہ ہے قراَت۔ اس لحاظ سے قراَت کے بغیر متن بے جان شئے اور سفید کاغذ پر آڑی ترچھی لکیروں کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے جس طرح بغیر مرض کی تشخیص کے ادویات بے معنی ہوتے ہیں اسی طرح قراَت کے بغیر متن بے معنی ہوتاہے ۔کو ثر مظہری نے اس مضمون میں قراَت کے مختلف طریقوں اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے قراَت کی اہمیت اورافادیت کے بارے میں مصنف کی یہ رائے ملاحظہ کیجئے ۔
’’قراَت سے صر ف معنی کی پر تیں ہی نہیں کھلتیں بلکہ متن کا وہ تہذیبی و ثقافتی اور سیا سی و سماجی سیاق بھی ابھر تاہے جس میں متن خلق ہوا ہوتاہے متن بنانے والے کی ذہنی ساخت اور اس کے نجی محسوسات اور جس ماحول کا وہ پروردہ ہے ، وہ بھی متن کی چادر سے جھانکنے لگتاہے ،جو قاری جس قدر اعلی زوق اور علمی وفود سے لیث ہوگا ،متن کے باطن میں اتر کر اس کے خزانے تک اسی حد تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا ۔‘‘(قراَت اور مکالمہ ،صفحہ ۱۱)
مندرجہ بالا اقتباس اس پورے مضمون کی کنجی ہے ۔ کوثر مظہری نے اپنی اسی سوچ کی تشریح پورے مضمون میں مختلف مغربی اور مشرقی مفکرین کے حوالے سے کرنے کی کوشش کی ہے ۔قاری کو بھی کوثر مظہری نے دوخانوں میں تقسیم کیا ہے ایک وہ عام قاری جو صرف متن پڑھتا ہے اور جوکچھ وہ پہلی نظر میں حاصل کرتاہے اسی پر اکتفاء کرتاہے ۔اور دوسرا وہ قاری جو تنقیدی شعور کا حامل ہوتاہے اور جومتن کی کئی تہوں اور پرتوں کو کرید کر معانی کی تلاش کرتاہے ۔ ایک بڑی بحث جو جدیدیت کے خاتمے کے ساتھ نکل پڑی تھی کہ متن کو کون رچتاہے مصنف ،قاری یاپھر متن خود ہی ایک کرشمائی شئے ہے جسے مصنف محض ہلکے سے سہارے سے اس میں معانی پیدا کردیتا ہے۔ گویا نہ مصنف کا کمال نہ قاری کا ،متن خود اپنے باطن میں معنی کو چھپائے بیٹھا ہوتاہے ،جیسے ہی قاری قراَت شروع کر تاہے معنی دنادن باہر آنے لگتاہے وغیر ہ ۔البتہ یہ بحث ابھی بھی جاری ہے ۔کوثر مظہری نے اس مضمون کے ذریعہ ایک نتیجہ خیزبحث کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی ہے۔
تھیوری کی اہمیت کو کوثر مظہری تسلیم کرتے ہیں ۔نئی نسل کی شناخت کے مسئلہ پر تووہ پہلے بھی (جواز و انتخاب میں )بحث کرچکے ہیں ۔بہرحال مضمون ’’قراَت اور مکالمہ‘‘میں پوری بحث کے بعد جو نتیجہ کو ثر مظہری نے اخذ کیا ہے وہ بہت ہی دلچسپ ہے ۔ظاہرہے کہ مندرجہ بالا بحث ہی دلچسپ ہے ۔کیوں کہ اگر مذکورہ بحث کے تینوں اہم پہلوؤں پر غور کیا جائے تو پتہ چلتاہے کہ منطقی اعتبار سے یہ تینوں صحیح معلوم پڑ تے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ معانی اور مفاہیم کی جستجو میں میرے خیال سے قاری ، ادب اور ادیب تینوں کی اہمیت اپنی اپنی جگہ مسلم ہے ۔کوثر مظہری نے متن کی تفہیم کے لیے کیا لیا لوازم ہیں، اس پر بات کرتے ہوئے جو نتیجہ اخذ کیا ہے ،ملاحظہ کیجئے
’’میرا ذاتی ادراک اور Perceptionتو یہ ہے کہ متن کی قراَت کے لیے کسی بھی ایزر ، فش،دریدا،بارتھ ،لاکاں،فوکو کی قطعی ضرورت نہیں ۔ ہاں آپ کے اپنے شعور کی بالیدگی اور قدرے Epistemeکی اہمیت ضرورہے ۔ ‘‘(قراَت اور مکالمہ صفحہ ۲۴)
گویا قراَت اور تفہیم متن کے لیے کسی تھیوری کی ضرورت نہیں ،اگر ضرورت ہے تو قاری کے بالیدہ شعور کی، اگر قاری کا شعور بالیدہ ہوگا تو وہ متن کی قراَت بہ آسانی کر سکتا ہے ۔اب یہا ں ایک سوال اور ہے کہ ’’شعور کی بالیدگی ‘‘بھی تو absoluteنہیں، یہ بھی سوال ہے کہ شعور کا کتنا بالیدہ ہونا ضروری ہے ؟اس کی تو کوئی پیمائش ہو نہیں سکتی ۔مطلب یہ ہے کہ جس کا شعور جتنا بالیدہ ہو گا وہ ادب کی تفہیم اسی بالیدہ نظری سے کرے گا ورنہ بچکانہ پن وہاں بھی نظر آئے گا ۔
اس کتاب کا دوسرا حصہ ’’نظمیہ ‘‘ہے یعنی اس حصہ میں نظم کی تنقید ہے ۔اس حصہ میں کل چودہ مضامین ہیں ۔اس میں تین مضامین ’’ اردومیں طویل نظموں کی روایت‘‘،’’اردونظم کا صحیح تناظر :حالی ،اختر الایمان ،اور میرا جی کے حوالے سے ،،ا ور’’ ۸۰ء کے بعد کی نظمیں ،اسلوب اظہار ‘‘تاریخی حیثیت کے مضامین ہیں ۔ اس کے علاوہ دیگر مضامین عملی تنقید کے نمونے ہیں۔
اس کتاب کے تیسرے حصے میں ’’اقبالیہ‘‘کے عنوان کے تحت جو مضامین شامل کئے گئے ہیں، وہ ہیں ۔’’علامہ اقبال کا تصورتہذیب‘‘اور ’’خدا سے اقبال کی ہم کلامی ‘‘یہ دونوں مضامین علامہ اقبال کے خاص شعری فلسفیانہ اوصاف پر مبنی ہیں ۔ علامہ اقبال کا تصور تہذیب ایک ایسا موضوع ہے جس پر بات بہت کم کی گئی ہے ۔ تہذیب کے زاویہ سے علامہ اقبال کے شاعرانہ اوصاف پر باتکم ہونا ایک المیہ ہے ۔ شاعر مشرق کی یہی تہذیبی پہچان انہیں اقبال بناتی ہے۔ یعنی تہذیبی اعتبار سے جب دنیا پر مغربی رعب اس قدر حاوی تھا کہ اسے ہی ترقی کا معیار سمجھا جاتا تھا۔ایسے میں علامہ اقبال نے مشرقی تہذیب کی وکالت کی جو ہوا کے رخ کے خلاف کشتی چلانے جیسا تھا۔ اردو ادب میں شاعری کی دنیامیں ’’تہذیب ‘‘ علامہ اقبال کا اور اردو فکشن کی دنیامیں قرۃ العین حیدر کا محبوب موضوع رہی ہے ۔دراصل تہذیب ادب کے بغیر اور ادب تہذیب کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل سکتا ۔گوپی چند نارنگ کا مشہور جملہ ہے ’’ادب تہذیب کا چہرہ ہے ‘‘۔ معاشرے میں تہذیبی اقدار کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئیتہذیب اور مذہب دونوں کے الگ الگ رول کو کوثر مظہری نے مختلف زاویوں سے اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔ نیز تہذیب کو وہ ثقافت سے ممیز کر تے ہیں۔ان کے مضمون کا یہ حصہ ملاحظہ کیجیے:
’’معاشرے میں تہذیبی و ثقافتی اقدار کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ تیذیب کا تعلق خارجی رسم ورواج سے ہوتا ہے جب کہ ثقافت انسان کی باطنی فکر سے رشتہ ہموار کرتی ہے۔ مذہب اور تہذیب کا مادّہ گرچہ ایک ہیمگر اول الذکر عقیدے سے اور موخرالذکر انسانی کردار اورمعاشرتی اقدار سے متعلق رول ادا کرتی ہے ۔ حالاں کہ تہذیب میں موزونیت پیدا کرنے کا کام عقیدہ بھی کرتا ہے۔ جب ہم کسی آدمی کو مہذّب کہتے ہیں تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس آدمی کے اخلاق و اطوار ، عقائد و رجحانات ، لباس اور خورد و نوش یہاں تک کہ اس کے طرز گفتگو میں ایک طرح کی موزونیت اور توازن ہوگا۔
علامہ اقبال کی شاعری میں قومی اور وطنی جذبات کے تحت در آنے والے تہذیبی عناصر غالب آگئے ۔ ان کی نظر میں سب سے مہذب انسان’’مردمومن‘‘ہو سکتا ہے۔‘‘
(قراَت اور مکالمہ :صفحہ ۲۳۶)
مندرجہ بالا اقتباس سے یہ اشارہ تو مل ہی جاتا ہے کہ پورے مضمون میں بحث کامحور کیا ہے اور کوثر مظہری کا زاویہ تنقید کیا ہے۔ کوثر مظہری تہذیب اور ثقافت کی تعریف الگ الگ کرتے ہیں اور اقبال کی شاعری کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں پہلا حصہ ا ن کے سفر انگلستان سے پہلے کی شاعری اور دوسرا سفر انگلستان کے بعد کی شاعری۔ علامہ اقبال کی شاعری کے خصوصی موضوعات میں مشرقی تہذیب، حب الوطنی، قومیت، مذہب اور اخوت وغیرہ اہم ہیں، مگر ان کا سب سے زیادہ فوکس کس موضوع پر ہے یہ کہنا آسان نہیں۔ ان کے یہاں ان دونوں ادوار میں یعنی انگلستان جانے سے پہلے اور انگلستان جانے کے بعد فکر اور موضوع کے اعتبار سے بہت بڑی تبدیلی آئی۔کوثر مظہری کے مطابق:
’’علامہ اقبال کے مطالعے اور مشاہدے میں پھر یہ بات آنے لگی کہ صرف وطنیت کے گیت سے انسانیت کا بھلا نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے دیکھا کہ اخوت اور محبت کی جگہ بغض، نفرت اور تعصب کی فضا ہے ۔ ان کے سامنے قرآن کی یہ آیت تھی:
یا ایھاالناس اِنّا خلقناکم مِن ذکروّ اُنثیٰ و جعلنکم شعوبا وّ قبائل لتعارفوا (پارہ ۲۶ ۔ آیت ۱۳)
’’اے لوگو!(سنو) ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔ اور ہم نے تم سب لوگوں کو مختلف قومیں اور قبائل اس لئے بنایا ہے کہ تم ایک دوسرے کو پہچان لیا کرو۔‘‘ اقبال نے اسلام کی روح کو سامنے رکھا۔ رنگ اور نسل کی تفریق، قوم اور وطن کی تفریق بنی نوع انساں کے لیے مہلک تصور کیا۔ جدید مغربی تہذیب و ثقافت میں روحانیت کے فقدان کو اقبال نے سمجھ لیا۔ ان کی نظر میں صحت مند سیاست کے لیے بھی مذہب اور اخلاق لازمی عوامل ہیں۔‘‘(قراَت اور مکالمہ: صفحہ ۲۳۹)
اقبال کے افکار میں تہذیب کی کار فرمائی کوثر مظہری کی نظر میںسب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ وہ اقبال کی شاعری کو اس زاویے سے دیکھتے ہیں جس میں اقبال نے مغربی تہذیب وثقافت کی مخالفت کرتے ہوئے مشرقی تہذیب کو صحت مندتہذیب کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا، جس میں مذہب و اخلاق کے لازمی عوامل بھی ہیں اور جس میںروحانیت کا فقدان بھی نہیں۔
اس کتاب کاچوتھا حصہ ’’غزلیہ ‘‘ہے جس میں کل پانچ مضامین ہیں ’’تحریک آزادی اور اردوغزل‘‘اور ’’معاصرغزل میں اسلامی افکار و اقدار ‘‘ ان دونوں مضامین میں اردوغز ل کا الگ الگ زاویے سے جائزہ لیا گیا ہے اوربقیہ مضامین میں مشہور غزل گو شعراء عرشی، صبا اکبر آبادی اورحفیظ بنار سی کی غزلوں کی تنقید پیش کی گئی ہے ۔ یہ وہ شعرا ہیں جن پر کم توجہ دی گئی ہے ۔ عرشی صاحب تو خیر تحقیق میں ایک اہم مقام پر فائز ہیں لیکن ان کی شاعری کی طرف کسی نے دھیان نہیں دیا۔البتہ غزل جیسی اہم صنف شاعری پر بات کرتے ہوئے ’’غزلیہ ‘‘کے تحت اپنے اتنے کم مضامین ہونے کے سبب صنف غزل کے ساتھ انصاف معلوم نہیں ہوتا ، البتہ جو مضامین ہیں وہ اپنے موضوع کے لحاظ سے اپنے آ پ میں مکمل ہیں۔
پانچواں حصہ ’’ہم عصریہ‘‘کے عنوان کے تحت ہے جس میں تین ہم عصر شعراء پر خامہ فرسائی کی گئی ہے اس عنوان کے تحت بھی تشنگی کا احساس ہوتاہے کیوں کہ صرف تین مضامین اس موضوع کے تحت دئے گئے ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس مجموعہ مضامین میں شامل بیشتر مضامین رسائل میں شائع ہوئے ہیںیا پھر سیمناروں میں پڑھے گئے ہیں ،شاید اسی لیے موضوعی اعتبار سے کہیں کہیں تشنگی کا احساس ہو تا ہے ۔اگر یہ کتاب ارادتاًاور قصداًایک موضوع پر ہوتی تو ایسا قطعی نہ ہوتا ۔لیکن اس کے باوجود سارے مضامین چونکہ شاعری کے حوالے سے ہیں، اس لیے اس کی حیثیت ایک موضوعی کتاب کی تو ہوہی جاتی ہے ۔
گوپی چند نارنگ اور شکیل الرحمن کی ایک ایک کتاب کا جائزہ اس کتاب کا چھٹا حصہ ہے جو کتابیہ کے عنوان کے تحت ہے اور آخری حصہ ’’دیگریہ ‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں ایک مضمون ’’شعر غالب کے انگر یزی تراجم‘‘کے عنوان سے شعر غالب کے الگ الگ مترجمین کے ترجمہ پاروں اور اصل متون کے ساتھ ان کا موازنہ ،پھر مترجمین نے ان انگریزی تراجم میں متن کے ساتھ اور معانی کے ساتھ کتنا انصاف کیا ہے ،اس کا پر مغز جائزہ لیا گیا ہے ۔ یہ ایک دلچسپ اور اہم مضمون ہے۔
اب تک کی تفصیل سے یہ تو پتہ چل ہی جاتاہے کہ نظمیہ کے عنوان سے زیادہ مضامین کا ہونا اس بات پر دال ہے کہ مصنف نے نظم کی طرف زیادہ توجہ دی ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا کوثر مظہری نظم کے مقابلے میں دوسری صنف شاعری کو اہمیت نہیں دیتے ہیں ؟اس کا جواب معلوم کرنے کے لئے کتاب کوپڑھنا ہی ایک راستہ ہے ۔مشہور دانشور EM Fosterنے کہا تھا:
"Books have to be read.It is the only way of discovering what they contain”
میری ذاتی رائے اس کتاب کے بارے میںیہ ہے کہ میں اس کتاب کو فرانسس بیکن کے وضع کردہ تین خانوں میں سے تیسرے خانے میں رکھتا ہوں ۔بیکن نے کتابوں کے جو تین اقسام وضع کئے ہیں وہ ہیں
Some books are to be tasted,others to be swallowed and few to be chewed and digested
تیسرا خانہ جس میں کچھ ایسی کتابیںجن کو دھیرے دھیرے چبایا اور ہضم کیا جاتاہے ،اسی خانے میںمیرا خیال ہے کہ ’’قراَت اورمکالمہ‘‘کو رکھا جا سکتاہے ۔آپ کا کیا خیال ہے ؟چونکہ کتاب تنقیدی ہے اس لیے اسے ناول کی طرح دو تین نشستوں میں پڑھنا مشکل ہے۔ البتہ کوثر مظہری کا اسلوب نگارش تنقید میں کچھ ایسا ہے کہ قراَت کے دوران بوجھل پن کا احساس نہیں ہوتا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ بھی متن سے مکالمہ کرنے لگے ہیں۔
٭٭٭
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page