شفق سوپوری عصر حاضر کے ایک بڑے ناول نگارے مانے جاتے ہیں اور کسی ناقد نے ان کو موجودہ دور کے دس بڑے ناول نگاروں میں شامل کیا ہے۔اب اس بیان میں خوشامد کتنی ہے اور سچائی کہاں تک ہے لیکن واقعی شفق ایک بڑے ناول نگار ہیں۔کوشل خاتون ان کا پانچواں ناول ہے اور ان میں صرف ”فائرینگ رینج کشمیر:1990“ کشمیر کے بارے میں ہے اور باقی چار ملک کے مختلف علاقوںکے بارے میں ہیں۔کوشل خاتون اور موسیٰ کو ایک ہی ناول کے دو حصّے کہہ سکتے ہیں کیونکہ دونوں ناول کرداری ناول اوردونوں اپنے کرداراور نفسیاتی خواہشات سے بھائی بہن لگتے ہیں۔دونوں کو شرم نہیں آتی ہے کہ جس تھالی میں کھایا اُس میں چھید نہیں کرنا چاہیے۔نفسیاتی خواہشات اور جنسی لذت کے حوالے سے شفق سوپوری اور وحشی سعید کا میدان ایک جیسا ہے دونوں کو شہری زندگی میں اس قسم کے گند خوب نظر آتے ہیں۔اور سچ کہیں تو شفق ،وحشی سعید سے اس معاملے میں زیادہ وحشی نظر آتے ہیں۔یقین نہ آئے تو موسیٰ کا (ص:33) اور کوشل خاتون کا (ص:138)کامطالعہ کیجئے گا۔جہاں تک شفق کے موضوعات کی بات ہے تو ان کو دور کے ڈھول سہانے لگتے ہیں اور مغربی بنگال کی آدی واسی لڑکی نیلما،نوئیڈا کی رنڈی کوشل،دہلی کی شہناز ان کو نظر آتی ہیں لیکن اپنے گرد نواح کی وہ لڑکیاں نظر نہیں آتی ہیں جو آئے دن جہلم میں کود کراپنے گناہوں اورمصیبتوں کا خاتمہ کرتی ہیں۔ان کو دور دراز کے آدی واسیوں پر ترس آتا ہے لیکن کشمیری جن بیماریوں ومصیبتوں میں آئے روز مبتلا ہوتے ہیں ان کادرد سمجھ نہیں آتا ہے۔بہرحال ایسا بھی کہا جاسکتاہے کہ کسی کی دور کی نظر صاف ہوتی ہے لیکن وہ نذیک کی چیز کو نہیں سوجھ بوچھ سکتا ہے جس کو سائنس کے طالب علم بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
کوشل خاتون میں کوئی نئی کہانی نہیں ہے بلکہ ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں چلنے والے لاکھوں چکلوں میں سے ایک کی کہانی ہے اوریہ چکلا یعنیProstitution سپا کے نام سے چلتے ہیں اور اشتہار مساج کا دیا جاتا ہے ۔تنخواہ ماہنانہ پانچ ہزار بتائی جاتی ہے لیکن ایک گائک سے پندرہ ہزار تک لیے جاتے ہیں۔شفق سوپوری نے سوال اُٹھایا کہ آکر کوشل خاتون جیسی لڑکیاں کیسے بنتی ہے؟ایک گاﺅں کی لڑکی جواپنے والدین اورچار بھائی بہنوں کے ساتھ رہتی ہے لیکن غریبی کی وجہ سے سب لوگوں کو دو کمروں میں گزارا کرنا پڑتا ہے۔
اور والدین کے ساتھ جوان بچوں کا سونا ہی کوشل جیسی لڑکیوں کو پریا شرما بننے پر مجبور کرتا ہے۔ایسا کوشل خاتون اور ان کی ماں ظرف النساءکی بات چیت سے بھی معلوم ہوتاہے۔ظرف النساءتلخ انداز میں کوشل کو کہتی ہے:
”کھجلی تو تجھے جب آئی تھی جب تو آٹھویں میں پڑھتی تھی“۔(کوشل خاتون،ص:105)
اس کا جواب کوشل خاتون بنا کسی لحاظ اور شرم وحیا کے یوں چلا کر دیتی ہے:
”ممی جن کے مکان میں دو کمرے ہوتے ہیں وہ پانچ بچے پیدا نہیں کرتے۔او رجب بچے جوان ہونے لگتے ہیں تو انہیں اپنے پاس نہیں سُلاتے ہیں“۔(ص:106)
شفق سوپوری کے ناولوں میں دو چیزیں لفظیات اور جنسیات جگہ جگہ ملتی ہیں ۔لفظیات ایسی کہ ناول پڑھتے وقت بار بار لغت اُٹھانا پڑتا ہے اور تقریر کریں تو بھی دھیان دینا پڑتا ہے اور اس پر طرہ امتیاز یہ ہے کہ سمیناروں ،ادبی محفلوں اور کانفرنسوں میں شفق موجود ہو اور کسی لفظ پر بحث نہ چھڑ جائے ممکن نہیں ہے،وہ تو فیس بک پر بھی لفظیات پر لوگوں کودرس دیتے رہتے ہیں۔ جنسیات کی بات کریں تو شرم وحیا کا کوئی لحاظ نہیں رکھتے ہیں اورایسا اس لئے بھی ہوسکتا ہے کہ جن چارناولوں میں جنسی ونفسیانی خواہشات کا ذکر ملتا ہے وہ چاروں ناول کشمیر سے باہر کے علاقوں اور لوگوں کے بارے میں ہیں۔ ان ایام میں شفق شرم وحیا کشمیر میں چھوڑ کر نوئیڈ ،دہلی اور بنگال میں وہی روپ اختیار کرتے ہیں۔کوشل خاتون میںصفحہ نمبر105-107تک ماں بیٹے کے درمیان ایسی وحیات باتیں بیان کی گئی ہے کہ شریف گھرانے کا قاری اس قسم کے ناول سے خوف کھائے گا لیکن وقت ،ماحول اور تکنالوجی کی ستم ظریقی یہ ہے کہ آجکل کے عالم بھی اس قسم کے ناول کو پسند کرنے لگے ہیں۔
کوشل خاتون اصل میں محمد شعبان اور ظرف النسا کی بیٹی ہوتی ہے اور ان کی دو بہنیں سونم اور پونم کے علاوہ دو بھائی ماہ رخ اور محمد ثمر بھی ہوتے ہیں۔اس کی سہیلی ساکشی اوراس کا بھائی آشیش بھی اہم کردار ہیں۔مینا،راہل،یعقوب،راج،وکیل چندر بھان،سرکاری وکیل گپتا جی،شکیلہ،سب انسپکٹر لکشمی دیوی،قاضی جی،کرشن چاچا،رگوناتھ،محمد ثمر کا بیٹاوغیرہ بھی ایک ایک باب میں نظر آتے ہیں۔ناول کی ہیروئین کوشل ہی ہے جو سپا میں پریا شرما کے نام سے دھندا کرتی ہے۔کوشل خاتوں گھروالوں کی نظرمیں نوئیڈا میں ملازمت کرتی ہے لیکن ان کا اصل چہرہ اُس وقت سامنے آتا ہے جب پولیس کی چھاپہ مار کارووائی کے دوران سپا سے چالیس رنڈیاں پکڑی جاتی ہیں اور ان میں ایک کوشل بھی ہوتی ہے۔پولیس والوں کی گالیاں،کورٹ میں ظرف النسا پر تھو تھو اور گاﺅں والوں کے طعنوں سے زیادہ پریشان کُن گالیاں خود کوشل خاتون کے منہ سے بیان ہوتی ہے۔وہ اپنے بہن ،بھائی، ماں اور جیجا کے سامنے ایسی ایسی گندی باتیں اور گالیاں دیتی ہیں کہ سب بھاگ جاتے ہیں۔لیکن کوشل خاتون کو اتنی بدذات کس چیز نے بنایا تھا، دہلی کے ماحول نے،والدین کی غریبی نے یا خود ان کی والدہ ظرف النسا نے،جو ہمیشہ ان کی خامیوں کوچھپاتی تھی۔جب ماں کو معلوم تھا کہ آٹھویں جماعت کی لڑکی غلط راستے پر چل رہی ہے توکیااس کو شوہر سے صلح مشورہ نہیں کرنا چاہیے تھا ؟اور کیا ان حالات میں ماں اس قسم کی بیٹی کو دہلی جیسے شہر بھیج سکتی ہے؟شاید ناول نگار بھی یہی کہنا چاہتا ہے کہ کوشل کو کوشل خاتون اور پریا شرما بنانے میں ماحول سے زیادہ والدہ کا ہاتھ ہے ۔اور شاید یہی وجہ ہے کہ رنڈی بننے کے بعد کوشل اپنی والدہ کو ہی زیادہ کوستی رہتی ہے اورنامعلوم بستر گرم کرنے کے باوجود بھی محمد شعبان سے ڈر تی ہے۔ایک ماں کی ذمہ داری باپ سے زیادہ ہوتی ہے کیونکہ بیٹی کے تمام مسائل اور حرکات وسکنات ماں کو معلوم ہوتے ہیں اور اپنی بیٹی کو کوشل خاتون بننے سے روکنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ شوہر سے صلح مشورہ کرنے سے گزرتا ہے۔
یہ ناول23 چھوٹے بڑے ابواب پر مشتمل ہے اور ان میں کچھ کو عنوان بھی دیا گیا ہے اور اکثر ابواب جنسی ونفسیاتی خواہشات پر ہی مشتمل ہے اور یہ شفق کا ٹریڈ مارک مانا جاسکتا ہے۔ان عنوانات میں”رانوں کے بیچ میں کھجلی ہورہی ہے،پینٹی بھگ جاتی ہے،پینٹی سپا میں ہی بھول گئی،رنڈی کی خرچی اور وکیلوں کا خرچہ پیشگی دیا جاتا ہے،والدین کے حقوق تب ختم ہوتے ہیں جب وہ مرجاتے ہیں،کاش میری ستر عورت پر انگارے برسائے ہوتے،میرے سینے پر آٹا گوندنا شروع کیا،رنڈی بنے گی“ وغیرہ شامل ہیں۔ان عنوانات سے ہی ناول کی گہرائی سمجھی جاسکتی ہے۔حالانکہ ناول میں سائنسی شعور اور منظر کشی کے نمونے بھی ملتے ہیں لیکن صرف اتنا ہی جتنا باب گیارہ میں استعمال ہونے والے آٹے میں نمک۔دو مختصر اقتباس پیشِ خدمت ہیں:
"بجلی چمکنے کے بعد ہی کیوں باول گرجتے ہیں۔بادل گرجنے کے بعد کیا بجلی نہیں چمک سکتی؟بادلوں کی کوکھ سے بجلی کیسے جنم لیتی ہے؟”(کوشل خاتون،ص:11)”
"ہوں!،مگر کشمیر کی سندرتا کا کوئی جوا ب نہیں۔“”تم گیے ہو کبھی۔“ہاں گیا تھا۔یہی کوئی دو تین سال پہلے۔جنت ہے وہ تو۔کہو تو اس سال جون میں چلتے ہیں۔تمہیں پہلگام،گلمرگ،سونہ مرگ،مغل گارڈن دکھا کے لاﺅں گا۔”(کوشل خاتون،ص:145)
شفق سوپوری نے کوشل خاتون کو دہلی سے نینی تال کے ہوٹل میں پہنچایا تاکہ منظر کشی کے مواقع پیدا ہوں،ورنہ دہلی میں عیاشی کے ہزاروں ہوٹل میسر تھے۔اب نیتی تال میں کشمیر کا ذکر چھیڑ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ،شاید یہی کہ مجھے کشمیراور کشمیری مناظر سے فطری لگاﺅ ہے لیکن نیتی تال کے بجائے کوشل،مینا،راہل اوریعقوب کشمیر کے ہوٹل میں بھی مستی کرسکتے تھے اور اسی بہانے گلمرگ،
پہلگام،بلوارڈ کی خوب منظر کشی دکھا سکتے تھے۔کشمیریت کی زندہ مثال ہم نور شاہ اورجان محمد آزاد کو قرار دے سکتے ہیں کیونکہ نورشاہ نے”آو سوجائیں“ میں ممبئی سے تعلق رکھنے والی نیلی کو نادرکے ساتھ رنگ رلیاں منانے ڈلگیٹ کے اوبرائے ہوٹل کے کمرہ 104اور107 میں بٹھایا اور کشمیرکی خوب سیر کرائی ہے ۔ فاروق رینزو شاہ نے اسرائیل کی موساد کوگلمرگ میں ایک گینگ اور سازش رچاتے دکھایا ہے تاکہ گلمرگ کی خوب سیر ہوجائے لیکن شفق کو بنگال،دہلی،الہ آباد،نوئیڈہ اور دیگر مقامات سے فرصت ہی نہیں ملتی ہے کہ کشمیرکے مسائل کی عکاسی کرے۔
محمد ثمر کو خواب وخیال میں شکیلہ کی عصمت لٹنے اور اس کی خودکشی سے اُن کی والدہ کا دیوانہ ہونا کافی پریشان کرتاہے اور بھوت پریت سے کافی ڈرلگتا ہے ۔لیکن یہ قصہ کچھ غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ البتہ کوشل خاتون اور ساکشی کے مسائل اور ماحول کچھ یکسان ہوتا ہے،دونوں کے والدین غریب ہوتے ہیں اور مجبوراً دونوں کو سپا میں رنڈی کا کام کرنا پڑتا ہے۔ناول میں دہرا پلاٹ نظر آتا ہے، ایک طرف کوشل خاتون چکلے کی گرمی سے باہر نہیں آتی ،دوسری طرف ساکشی یا لکشمی مجبوری کے سبب سپا میں کام کرتی ہے لیکن جوں ہی والدین کا کامیاب آپریشن ہوتا ہے، تو وہ راج سے شادی کرکے خوشگوار زندگی گزارنے لگتی ہے۔حالانکہ سپا سے جڑی رہنے کے سبب میاں بیوی میں نوک جوک ہوتی رہتی ہے لیکن بہت حد اپنے ماضی کو بول کر شرافت کی زندگی گزرتی ہے۔کوشل خاتون کو سپا کی ایسی لت لگ جاتی ہے کہ نہ صرف والدین کو چھوڑ کرراہل کے ساتھ رہنا پسند کرتی ہے بلکہ جس بوئے فرنڈ نے ضمانت کرائی اور اس کے لئے گالیاں کھائی،اُس کو بھی چھوڑ دیتی ہے ۔آشیش کا کردار کچھ کچھ پرانی داستانوں کے بے حس ہیروجیسا لگتا ہے،جن کو آسمانی طاقت کے سوا کچھ عقل نہیں ہوتی ہے۔سحرالبیان کے بد نظیر کی طرح جب کوشل خاتون اس کو چھوڑ کر راہل کے ساتھ رہنا پسند کرتی ہے، تو وہ رو رو کا اپنا بُرا حال کرتا ہے اور اس کی بے وقوفی کی حد تب نظر آتی ہے جب اپنی بہن ساکشی کی نوزائد بچی کا نام کوشل خاتو ن رکھتا ہے۔مصنف شاید یہ سمجھانے کی کوشش کررہا ہے کہ چکلے میں انسان صرف عزت،دھن ودولت اور شرافت ہی نہیں بھیج آتا ہے بلکہ اس کی عقل پر بھی پردہ پڑجاتا ہے کیونکہ کون بے وقوف اپنی بھانجی کا نام ایک طوائف کے نام پر رکھنا پسند کرے گا۔ (یہ بھی پڑھیں شفق کا نیا شعری بیانیہ اور انحراف کی شعریات – جاوید رسول )
شفق سوپوری کے ناول خصوصاً موسیٰ اور کوشل خاتون میںجنسی بھوک،جنسی تسکین اورشہوانی تعلقات سعادت حسن منٹو،عصمت چغتائی،شموئیل احمد اور وحشی سعید سے زیادہ بھیانک نظر آتے ہیں۔امراﺅ جان ادا اگر چہ طوائف بنتی ہے لیکن لاجونتی کی طرف اغواہ کے سبب ان حالات کا سامنا کرتی ہے اور ہمیشہ راہ فرار چاہتی ہے اور آخر میںتوبہ کرتی ہے، لیکن کوشل خاتون کے دل میں ڈرنام کی کوئی چیز نہیں ہے اور زبان پر ادب نام کا کوئی لحاظ نہیں ہے۔امراﺅ نے لکھنوی تہذیب کی ادبیت کی عمدہ مثال قائم کی ہے جبکہ کوشل خاتون تمام بدزبان رنڈیوں کی ماں معلوم ہوتی ہے۔صرف امیرن ہی نہیںبلکہ کوشل خاتون ”امراﺅ جان ادا“کی خورشید جان سے بھی دو قدم آگے نظر آتی ہے۔
خورشید اگرچہ مولوی صاحب کو درخت پر چڑھاتی ہے تو کوشل مردوں کو آٹا گوندھنے کا خوب سے خوب موقع فراہم کرتی ہے۔اردو فکشن میں منٹو کو بدنام زماں مصنف مانا جاتا ہے لیکن”ٹھنڈا گوشت“ کی کلونت کور اور ایشرسنگھ کی مستی کا مقابلہ کوشل اور راہل کی مستی سے کیجئے ،تو زبان ،مان ومریادا کافرق واضح نظرآتا ہے۔وہاں رومانس نظر آتا ہے ،یہاں وحشت نظر آتی ہے۔وہاں تڑپ محسوس ہوتی ہے ،یہاں حیوانیت ٹپکتی ہے۔افسانہ ’بو‘ کی ہیروئین کے ساتھ رندھیر کس قسم کی لذت حاصل کرتا ہے،”کالی شلوار“کی سلطانہ انبالہ چھاونی میں آٹھ دس گوروں کو نمٹانے کے باوجود بیس تیس روپے حاصل کرتی ہے لیکن کوشل ایک ہی گائک راہل سے ایک رات کے چودہ ہزار نقد اور پانچ ہزار کے کپڑے الگ حاصل کرتی ہے۔لیکن دونوں کی زبان اور شرفت میںزمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔سلطانہ کوجب گالی دینی ہوتی ہے تو وہ”الو کا پٹھا۔۔حرام زادہ ۔۔جیسے الفاظ سختی کے بجائے پیار کے ساتھ استعمال کرتی تھی،جس کو سُن کر گورے ہنس دیتے تھے،دوسری طرف کوشل خاتون کی گالیاں دہرانے سے ہی شرم آجاتی ہے۔جیسے :
"تو چپ بیٹھ! بہن کے لوڈے! تجھے کورٹ میں بک چودی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ مادر چود! تیری دیدی تو بھی اسی سپا میں کام کرتی تھی۔”(ص:110)
"ارے راسکل میں نے کچھ نہیں پہنا ہے۔دفع ہونا۔“(ص:147)”
اب ذرا لیڈی انسپکٹر کی زبان کا بھی جائزہ لیجئے۔جب محمد شعبان اپنی بیٹی کوشل کے پاﺅں پر گرکر رونے لگتا ہے، تو لیڈی انسپکٹر کہتی ہے :
"ابے چوتیے! نظر نیچی کر۔تمہاری بیٹی سپا میں ہی اپنی پینٹی بھول گئی ہے۔”(ص:40)
جب محمد شعبان رونے لگتا ہے تو لیڈی انسپکٹر اس کو دو چار تھپڑ مار کرکہتی ہے:
"سالے بھڑوے ! ناٹک کرتے ہو۔تم کو معلوم نہ تھا کہ یہ اچھال چھکا دھندہ کرتی ہے۔بے شرم تم نے کبھی پوچھا نہیں اس رنڈی سے کہ کس آفس میں کا کررہی ہے۔”(ص:41)
عصمت کے فحش افسانوں”لحاف،دو ہاتھ اور چوتھی کا جوڑا“کا مطالعہ کیجئے یا پھر منٹو کے ”کالی شلوار،بو،ٹھنڈا گوشت اوردھواں کا، ان میں زبان اورادبیت کا لحاظ ملتا ہے لیکن شفق سوپوری “
نے ایسی زبان استعمال کی ہے کہ اسکول،کالج او ریونیورسٹی تو دور ،ایک عام سیدھا سادہ قاری بھی ایسی زبان سے ڈر محسوس کرے گا۔ناول میں کچھ واقعات ایسے بھی ہیں جن سے نصیحت حاصل کرنی چاہیے اور کچھ واقعات سے پرانے زمانے کے رسم ورواج میں سماج کی بھلائی محسوس ہوتی ہے۔کرشن چاچا ”جب فلم میں گولی چلنے کی آواز سنتا ہے تو وہ بھاگ جاتا ہے اور اس کی سادگی کے مقابلے میں قاضی جی کی ایمانداری اور خوفِ خدا اُس وقت نظر آتا ہے جب فلم میں گانا شروع ہوتا ہے تو خدا کا قہر جان کرپہلے ہی بھاگ جاتا ہے۔شفق سوپوری نے عمدہ طریقہ سے سمجھایا ہے کہ پرانے زمانے میںعلم کم تھالیکن عمل زیادہ تھا۔لیکن عصر حاضر میں علم زیادہ ہے اور عمل نا کے برابرہے ۔اب قاضی جی جیسے ان پڑھ کا مقابلہ اپنے آپ کو عالم گردانے والے عبدالغنی بٹ(کشمیر کا ایک عالم،جس نے ممبر رسول پر مختلف سازوسامان کی چیزوں کی نمائش کی تھی اور ایسا کرنے میں شرم کے بجائے تقویٰ اور توحید کے گُن گاتا ہے) سے کیجئے۔وہ فلمی گانا سننے سے ڈرتا ہے اوریہ ساز کی نمائش ممبرِ رسول پر کرنے میں کوئی شرم وحقارت،گناہ وخطا محسوس نہیں کرتا ہے۔ پولیس والے اگرچہ کوشل کے والدین کو گندی گندی کالیاں دیتے ہیں لیکن ایک پولیس والا عمدہ طریقے سے سمجھاتا ہے کہ والدین کو اپنے بچوں کی تربیت کیسے کرنی چاہیے ،یوں مصنف بار بار والدین کے فرائض پر بات کررہا ہے۔ جج صاحب بھی موجودہ ہندوستان کے مسائل پر بہترین خطاب دیتا ہے اور والدین کے حقوق کی بات کرتا ہے۔جج صاحب نے گاﺅں کے ایک سماجی کارکن کے انٹرویو سے والدین کے فرائض کو بخوبی سمجھایا کہ ’اُس کارکن کا ماننا ہے کہ والدین کے فرائض تب ختم ہوتے ہیں جب وہ مرجاتے ہیں۔وہ دہلی میں نوکرکرنے والی بیٹی کی حفاظت وذمہ داری کے حوالے سے کہتا ہے کہ اُس کو فیملی کے ساتھ رہنے والے ایک گھر میں کریہ کا کمرہ دیا ہے،روزانہ ویڈیو کال کرتا ہوں کہ بیٹی کمرے پر ہی ہے یا باہر گئی ہے،اردگرد رہنے والے چند دکانداروں کو دوست بنالیا اور ان کو فون کرتا ہے اور مہینے میں کم از کم ایک بار دہلی جاکر اس سے ملاقات کرتا ہوں‘۔کیا موجود حالات کو دیکھتے ہوئے اور سماج میں رہنے والی ہزاروں کوشل خاتوں کی موجودگی میں والدین اپنے بچوں کی ایسی حفاظت کرتے ہیں۔لیکن حقیقی دنیا میں ایسے جج صاحب موجود ہوتے تو نہ سپا ہی کھلتا اورنہ کوئی کوشل خاتون بننے پر مجبور ہوتی ہے۔جب قانون ہی چھوٹ اور آسائش دیتا ہے ،تو لوگو ں کے دلوں میںقانون کا ڈر اور خوف ختم ہوجاتا ہے۔
کوشل خاتون اور پولیس کی گالیاں ایک طرف اورجج صاحب اور دیگر لوگوں کی نصیحت دوسری طرف چھوڑ کر ،اگر ناول کی مکالمہ نگاری پر بات کریں تو بہترین مکالمہ نظرآتے ہیں۔عدالت میں دووکیلوں کے سوال وجواب سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے شفق سوپوری نے ایل ایل بی کیا ہے یا پھر کچھ دنوں تک دہلی کی کسی عدالت میں وکیلوں کی بحث کا بغور جائزہ لیاہو۔
گپتا نے کوشل سے پوچھا:
"مس کوشل! کورٹ کو یہ بتاﺅ کہ کیا تمہارے گھر والوں کو اس بات کا علم تھا کہ تم سپا میں کام کررہی ہو؟”
"جی نہیں۔”
وکیل نے پوچھا:
"تم نے ان سے کیا کہا تھا؟”
"میں ایک بیوٹی پارلر میں کام کررہی ہوں۔”
جب سرکاری وکیل کوشل کے بوائے فرینڈ آشیش سے سوالات پوچھنے لگا۔وکیل نے پوچھا:
"او کے ! گوپال یہ مجھے سمجھاﺅ کہ کلائنٹ کوآمادہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟”
گوپال نے جواب میں کہا:
"جناب! مساج کرنے کے بعد اکثر لڑکیاں کلائنٹ سے اکسٹرا سروس کے لیے پوچھتی ہیں۔”
"یہ اکسٹرا سروس کیا ہوتی ہے۔” وکیل نے پوچھا:
"جناب! اکسٹراسروس تین طرح کی ہوتی ہے۔بی ٹو بی،ہینڈ جاب اور سیکس۔”(ص:63)
مکالمے نگاری میں باب13 ص:115 پر بھی عمدہ مکالمہ پیش کیا ہے کہ ظرف النسا کو بیٹی کوشل کی یاد ستاتی ہے اور وہ بے ساختہ کہہ اُٹھی ہے کہ”مُردے کا ماتم چالیس دن تک کیا جاتاہے۔”(ص:115) اور اس کے جواب میں محمد شعبان کہتا ہے:
"اور زندوں کاانتظار کیا جاتا ہے۔”(ص:115)
الغرض شفق سوپوری کی ناول نگاری میں بےباکی خوب نظرآتی ہے اوراس ناول میں کچھ زیادہ ہی بیباک دکھائی دیتے ہیں اور ایسا ماحول آج ملک کونے کونے میں پایا جاتا ہے۔جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ کہانی میں کوئی نیا پن نہیں ہے ،البتہ کوشل خاتون کا رنڈی پن اتنا وحشی دکھایا گیا ہے کہ والدین اور بھائی کیا،سہیلی ساکشی اور اس کاشوہر راج کیا،وہ ضمانت کرانے والے اپنے بوائے فرنڈ آشیش کو بھی چھوڑ دیتی ہے لیکن سپا میں کام کرنا بند نہیں کرتی ہے۔تومصنف کا سوال حق بجانب نظر آتا ہے کہ کیااس قسم کی ہوس پرست اورجسم فروش لڑکیوں کی ضمانت ہونی چاہیے ؟اورکیا ملک میں اس قسم کے کام کی چھوٹ ہونی چاہیے؟۔کیاجسم فروشی میں ملوس بیٹی کی کمائی کا گھروالوں کو علم ہونے کے باوجود چھانا جائز ہے؟،کیاسپا میں جسم فروشی کرنے والی لڑکیوں کو جیل میں بند کرنے کا جواز بنتا ہے اورسپا کے اثر رسوخ والے مالک آزاد گھوم رہے ہوں؟،کیا ایک ماں اپنی بیٹی سے سوال نہیں پوچھ سکتی کہ تمہارے اکاونٹ میں اتنے پیسے کہاں سے آئے؟ اور یہ چیزیں کہاں سے لائی ہیں؟ ۔۔۔اس قسم کے درجنوں سوال مصنف نے سوسائٹی میں رہنے والوں اورسوسائٹی کی حفاظت کرنے والوں اور خصوصا والدین سے پوچھے ہیں۔
Dr Mohd Yaseen Ganie
R/O: Babhara,Pulwama,J&K
Post Office: Rajpora, Pincode:192306
Mobile:7006108572
Email:myganie123@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page