یہ ہماری زبان کی بدنصیبی ہی کہی جائے گی کہ اس کا رسم الخط بدلنے کی تجویزیں بار بار اٹھتی ہیں، گویا رسم الخط نہ ہوا، ایسا داغ بدنامی ہوا کہ اس سے جلد ازجلد چھٹکارا پانا بہت ضروری ہو۔ کبھی اس کے لیے رومن رسم خط تجویز ہوتا ہے، کبھی دیوناگری اور افسوس کی بات یہ ہے کہ رسم خط میں تبدیلی کی بات کہنے والے اکثر خود اہل اردو ہی ہوتے ہیں۔
جب سے انگریز بہادر کی نگاہ کرم اس بات پر پڑی، اس کے دوست نما دشمنوں کی تعداد بڑھتی ہی گئی ہے۔ انگریزوں نے پہلے تو اس کا نام ’’ہندی‘‘ سے بدل کر ’’ہندوستانی‘‘رکھنا چاہا۔ جب وہ نہ چلا تو ان کی خوش قسمتی سے لفظ ’’اردو‘‘ ان کے ہاتھ آ گیا۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ اٹھارویں صدی کے اواخر تک ’’زبان اردوے معلیٰ‘‘ کا خطاب فارسی کے لیے عام تھا اور لفظ ’’اردو‘‘ کے معنی تھے ’’شاہجہاں آباد کا شہر‘‘ یا ’’قلعہ معلیٰ شاہجہاں آباد۔‘‘ جب دہلی (یعنی اردو بمعنی ’’دہلی شہر‘‘) میں ہندی (یعنی آج کے معنی میں اردو زبان) عام ہوئی تو اس کو (یعنی ’’ہندی‘‘ کو) ’’زبان اردوے معلیٰ‘‘ کہا جانے لگا۔ پھر مختصر ہوتے ہوتے یہ فقرہ ’’زبان اردو‘‘، یا ’’اردو کی زبان‘‘ اور پھر صرف ’’اردو‘‘ رہ گیا۔
انگریزوں کو بھی یہ بات موافق آتی تھی، کیوں کہ وہ چاہتے تھے کہ ہندوؤں کی کوئی الگ زبان ہو اور وہ ’’ہندی‘‘ کہلائے۔ لہٰذا انہوں نے ’’ہندی‘‘ کا نام ہماری زبان سے چھین کر ایک نئی زبان کو دے دیا، اور ہماری زبان کا نام صرف ’’اردو‘‘ رہ گیا۔ یعنی انگریزوں کی مہربانی سے ہماری زبان سارے ہندوستان کی زبان کے بجائے ’’اردو‘‘ یعنی ’’لشکر بازار‘‘ یا ’’شاہی کیمپ اور دربار‘‘ کی زبان ٹھہری۔
انگریزوں نے دوسرا ستم یہ کیا کہ انہوں نے لفظ ’’اردو‘‘ کے معنی ’’لشکر بازار، شاہی کیمپ اور دربار‘‘ نہیں، بلکہ ’’فوج، لشکر‘‘ بیان کیے۔ آہستہ آہستہ یہ بات اتنی مقبول ہوئی کہ سب اردو والے بھی یہی سمجھنے لگے کہ ہماری زبان دراصل ایک فوجی اور لشکری زبان ہے۔ ابھی حال ہی میں ’’ہماری زبان‘‘میں ایک نظم چھپی ہے جس میں یہ بات کم و بیش فخریہ کہی گئی ہے کہ اردو ’’لشکری‘‘ زبان ہے۔
احسن مارہروی نے ۱۹۱۰ میں ایک طویل نظم ’’اردولشکر‘‘ کے نام سے لکھی اور طبع کرائی تھی۔ میں نے اس کا ایک نسخہ نظامی بک ایجنسی بدایوں کے یہاں سے بڑے اشتیاق سے منگوایا کہ دیکھیں، آج سے کوئی سو برس پہلے احسن مارہروی نے اردو زبان کے نام کے بارے میں شاید کوئی دلچسپ بات کہی ہو، یا شاید یہ بتانا چاہا ہو کہ اردو دراصل ’’لشکری‘‘ زبان نہیں ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ اس نظم میں وہی عام بات دہرائی گئی ہے کہ اس زبان کی پیدائش اور ترقی مسلمانوں کے زمانے میں اور ان کی فوج وغیرہ میں ہوئی۔ لفظ ’’اردو‘‘ کے غلط لیکن مقبول معنی ’’لشکر‘‘ کی مناسبت سے احسن مرحوم نے اپنی نظم کا نام ’’اردو لشکر‘‘رکھ دیا، اور ولی دکنی سے لے کر اپنے زمانے تک کے بڑے ادیبوں کو ’’اردو لشکر کے سردار‘‘ قرار دیا۔
ابتدا اس کی ہوئی ہے اس زمانے میں یہاں
جب مسلمانوں کا تھا ہندوستاں میں خوب راج
گو عدالت کی زباں اردو نہ تھی پھر بھی بہت
فوج میں بازار میں چلتا تھا اس سے کام کاج
اس پر طرہ یہ کہ اردو کو انگریزوں کا احسان مند ٹھہرایا گیا ہے۔ احسن مارہروی کہتے ہیں،
ہے گورنمنٹ اپنی عادل ہم کو ہے اس سے امید
وہ ہمارے حال پر فرمائے گی بےشک کرم
کی حمایت جس قدر اردو زباں کی آج تک
وہ نہیں کچھ کم جو آسانی سے ہو جائے رقم
عدل پر اس سلطنت کے ناز کرنا چاہیے
ایسے عادل ایسے مصنف تھے نہ کسریٰ اور جم
ایسی صورت میں اگر گلکرسٹ (Dr. John Gilchrist) کو اردو کا محسن اعظم قرار دیا گیا تو کچھ تعجب کی بات نہیں۔ آپ نے کبھی غور کیا کہ اگر ہماری زبان کا اصل نام، یعنی ’’ہندی‘‘ برقرار رکھا جاتا تو یہ افسانہ گھڑنا اور رائج کرنا ممکن نہ تھا کہ یہ لشکری زبان ہے۔ بھلا کون تھا جو تسلیم کرتا کہ جس زبان کا نام ’’ہندی‘‘ ہو، اسے لشکریوں اور فوجیوں نے رائج کیا تھا؟ میرا من نے جب ’’باغ و بہار‘‘ میں ’’اردو‘‘ (یعنی دہلی) کی زبان کی ’’تاریخ‘‘اپنے لفظوں میں بیان کی تو انہوں نے سب سے بڑی ناانصافی اس زبان کے ساتھ یہ کی کہ انہوں نے یہ کہیں کہا ہی نہیں کہ یہ زبان (جسے وہ ’’اردو‘‘ کی زبان کہہ رہے ہیں) دراصل ’’ہندی‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ انہوں نے یہ تو کہا کہ اس زبان کو ’’اردو‘‘ (یعنی دہلی) کے سارے لوگ بولتے ہیں، کیا ہندو کیا مسلمان، کیا عورتیں کیا مرد، کیا بچے کیا بوڑھے، لیکن انہوں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ اس زبان کا نام ’’ہندی‘‘ ہے۔ جب میر کہتے ہیں،
کیا جانے لوگ کہتے ہیں کس کو سرور قلب
آیا نہیں یہ لفظ تو ہندی زبان کے بیچ
ان کی مراد جے شنکر پرشاد اور رام چندر شکل کی ہندی سے نہ تھی، اور نہ ٹی وی اور آکاش وانی کی ہندی سے تھی۔ لفظ ’’ہندی‘‘سے میر وہی زبان مراد لے رہے تھے جس میں وہ شعر کہتے تھے اور جسے ہم آج ’’اردو‘‘ کہتے ہیں۔
جب ہماری زبان کا نام ’’ہندی‘‘سے ’’اردو‘‘بنا دیا گیا تو انگریزوں اور انگریزوں کے حمایتی ’’قوم پرست‘‘ ہندوؤں کی توجہ رسم خط پر زیادہ زوروشور سے ہوئی۔ سب جانتے ہیں کہ اپنی خوبصورتی، کم جگہ میں زیادہ الفاظ کھپا دینے کی صلاحیت، فنکارانہ تنوع کے امکانات اور فارسی، عربی، سنسکرت سے اس کے ربط کے سبب سے اردو کا رسم الخط ہندوستانی تہذیب کی شانوں میں ایک شان ہے اور اردو کے مخصوص حالات کو مدنظر رکھیں تو اسے اردو زبان کی جان کہا جا سکتا ہے۔ یعنی موجودہ حالات میں اردو کا رسم الخط بدلنے کی تجویز درحقیقت اردو کو موت کے گھاٹ اتارنے کی تجویز ہے۔ رنج کی بات یہ ہے کہ اردو کے مخالفین اور دوست نما دشمن، مدت دراز سے اس کے رسم الخط کو اپنی دشمنی کا ہدف بنائے ہوئے ہیں۔
اردو کا رسم الخط بدل کر اسے رومن میں لکھنے کی تجویز سب سے پہلے حضرت گلکرسٹ (Gilchrist) نے رکھی تھی۔ افسوس ہے کہ ہم میں سے اکثر اب بھی گلکرسٹ کو اردو زبان کے محسنین میں شمار کرتے ہیں، جب کہ حقیقت برعکس ہے۔ اپنی کتاب The Oriental Fabulist مطبوعہ ۱۸۰۳ میں گلکرسٹ نے بخیال خود یہ ’’ثابت‘‘ کیا تھا کہ اردو ہی نہیں، بلکہ اور بھی کئی ہندوستانی زبانوں کو رومن رسم خط میں ’’آسانی اور صحت کے ساتھ‘‘ لکھا جا سکتا ہے۔ اس معاملے پر تھوڑی سی بحث مرحوم عتیق صدیقی نے اپنی کتاب Origins of Modern Hindustani Literature مطبوعہ علی گڑھ ۱۹۶۳ میں پیش کی ہے۔ لیکن گلکرسٹ کی تجویز میں جو سامراجی تکبر اور حاکمانہ تنگ نظری پنہاں ہے، اس کی طرف عتیق صدیقی نے اعتنا نہیں کیا۔ اس تجویز پر اعتراض کے بجائے صدیقی مرحوم نے اسے ’’ہندوستان کو متحد کرنے کی قابل تعریف کوشش‘‘ کا نام دیا ہے۔
گلکرسٹ کی بات پر اس وقت شاید زیادہ توجہ نہ دی گئی لیکن جب انگریزوں کے زیر اثر اردو اور ’’ہندی‘‘ کی تفریق قائم ہونے لگی اور ’’ہندی‘‘ زبان کو ہندوؤں کے ’’قومی تشخص‘‘ کی پہچان بنایا جانے لگا، تو ملک کے ایک طبقے نے، جو انجانے میں انگریزی سامراج کا شکار بن چکا تھا، اردو کی مخالفت کو بھی ’’ہندی‘‘ کے قیام کے لیے ضروری جانا۔ اردو کی مخالفت جن بنیادوں پر کی جانے لگی، ان میں ایک یہ بھی تھی کہ اردو کا رسم خط ’’ناقص ہے‘‘ یا /اور غیر ملکی ہے۔ چنانچہ راجندر لال مترا نے ۱۸۶۴ میں ایک مضمون بزبان انگریزی لکھا اور اپنے تئیں ثابت کیا کہ ناگری رسم الخط کو اردو رسم الخط پر فوقیت ہے۔ اس زمانے میں اردو رسم خط کو رومن کر دینے کی بات اتنے زور شور سے اٹھائی جا رہی تھی کہ گارساں دتاسی نے خدشہ ظاہر کیا کہ کہیں سیاسی مصلحت اور دباؤ کے تحت انگریز لوگ اردو کا رسم خط رومن کر ہی نہ ڈالیں۔ دتاسی نے لکھا کہ ایسا ہوا تو بہت برا ہوگا۔ اس معاملے کی تفصیل کے لیے فرمان فتح پوری کی کتاب ’’اردو املا اور رسم الخط‘‘ مطبوعہ اسلام آباد ملاحظہ ہو۔
راجندر لال مترا نے اپنے زمانے کے ’’ہندو قوم پرست‘‘ حلقوں پر گہرا اثر ڈالا تھا۔ بھارتیندو ہریش چندر سے بھی ان کے مراسم تھے۔ کچھ عجب نہیں کہ اگر بھارتیندو کو اردو سے ناگری رسم خط والی ’’ہندی‘‘ کی طرف راغب کرنے میں ’’ہندو قوم پرست‘‘ حلقوں کا ہاتھ تھا، تو انہیں اردو سے متنفر کرنے اور اس کے رسم الخط میں کیڑے نکالنے کی طرف راجندر لال مترا نے مہمیز کیا ہو۔ ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ وہی بھارتیندو ہریش چندر جنہوں نے ۱۸۷۱ میں لکھا تھا کہ میری اور میرے گھرانے کی عورتوں کی زبان اردو ہے، دس سال بعد ایجوکیشن کمیشن کے سامنے یہ کہتے ہوئے پائے جائیں کہ اردو رسم الخط ایک طرح سے مسلمانوں کی سازش ہے، کہ اس میں ’’لکھئے کچھ اور پڑھئے کچھ‘‘ کی آسانی ہے۔ اس طرح عام سادہ لوح رعایا کو دھوکا دینے کے لیے یہ رسم خط نہایت موزوں ہے۔
ان معاملات کی تفصیل کے لیے وسودھا ڈالمیا کی کتاب ملاحظہ ہو جو ۱۹۹۷ میں دہلی آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہوئی ہے۔ The Nationalization of Hindu Tradition Bharatendu Hirishchandra and Nineteenth Century Banaras اس کے علاوہ ساگری سین گپتا کی پی ایچ ڈی تھیسس بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے اجزا Annual of Urdu Studies No.91 میں شائع ہوئے ہیں۔
لطف کی بات یہ ہے کہ اردو پر ’’لکھیں کچھ، پڑھیں کچھ‘‘ کا الزام دھرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ خود دیوناگری اس عیب سے خالی نہیں۔ (اگر یہ عیب ہے) انگریزی وغیرہ کا تو پوچھنا کیا ہے، کہ جہاں معمولی آوازوں، مثلاب چ، ش، ف، وغیرہ کو بیان کرنے کے آٹھ آٹھ نو نو طریقے ہو سکتے ہیں۔ دیوناگری کا حال یہ ہے کہ یہاں کھ (Kha) اور رَوَ (ra va) میں کوئی فرق نہیں۔ ’’روانا‘‘ لکھئے اور ’’کھانا‘‘ پڑھئے۔ دَھ (dha) اور گھ (gha) میں اتنا کم فرق ہے کہ ذرا سی لرزش قلم سے گھر کی جگہ ’’دھر‘‘، ’’دھان‘‘ کی جگہ ’’گھان‘‘ ہو جاتا ہے۔ تھ (tha) اور یَ (ya) میں بھی اسی قدر کم فرق ہے کہ ’’تھان‘‘ کو ’’یان‘‘ پڑھ لینے کا پورا پورا مکان ہے۔ نون غنہ لکھنے کے لیے طرح طرح کے پاپڑ بیلے جاتے ہیں۔ اس ایک ہی آواز کو تین چار طرح لکھا جاتا ہے۔ ’’چندربندو‘‘ کچھ ہے، ’’ڑاں‘‘ اور طرح سے ہے، صرف ’’بندی‘‘ او رطرح کی ہے، اور کہیں آدھا ma (مَ) لگا دیتے ہیں۔ اس رنگ کے الجھاوے اور بھی ہیں، لیکن مثال کے لیے اتنے کافی ہوں گے۔ پھر اس دعوے کے کیا معنی کہ دیوناگری میں غلط پڑھنے کی گنجائش نہیں؟
کھڑی بولی کے متعدد الفاظ دیوناگری میں لکھے ہی نہیں جا سکتے، مثلاً مندرجہ ذیل الفاظ کی لکھائی سے دیوناگری قاصر ہے: کوا، لئے، گاؤں، ڈیوڑھا، بہن، کواڑ، کوئی، بوزن فَعَل (وتدمجموع) یا بروزن فعَ (سبب ثقیل) وغیرہ۔
اسی طرح یہ بھی ہے کہ انگنت الفاظ ایسے ہیں جن میں وسطی یا آخری حرف ساکن ہے لیکن دیوناگری انہیں متحرک لکھنے پر مجبور ہے۔ چنانچہ، چلنا chalana فاصلہ fasala چکنا Chikana، گھاس ghasa، جَنَتا janata وغیرہ لکھنا اور چلنا، راستہ، چکنا، گھاس، جنتا وغیرہ میں متحرک لکھے ہوئے حرف (ل، س/ص، ک، س، ن) کو ساکن پڑھنا پڑتا ہے جو ناگری رسم تحریر کی روح کے خلاف ہے۔
مندرجہ بالا مثالوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کھڑی بولی (یعنی اردو) اور ناگری رسم خط میں کوئی مناسبت نہیں۔ کھڑی بولی جو بعد میں اردو ہندی یعنی اردو کہلائی، وہ ناگری میں لکھی جانے کا تقاضا ہی نہیں کرتی۔ دیوناگری رسم الخط اور کھڑی بولی میں باہم مناسبت ہوتی تو یہ مشکلات بھی نہ ہوتیں اور یہ عدم مناسبت نہ ہوتی۔
عام اردو والوں نے رسم خط کی تبدیلی یا املامیں ’’اصلاح‘‘ کی تجاویز کو کبھی لائق توجہ نہ جانا۔ یہ ان کی سلامتی طبع کی دلیل ہے۔ لیکن اردو کے بعض ’’خیر خواہ‘‘ حضرات کو خواہ مخواہ ہی کرید لگی رہتی ہے کہ اس بےچاری غریب کی جورو کو اپنی بھاوج بناکر چھیڑتے رہیں۔ آزادی کے فوراً بعد ترقی پسند حلقوں سے آواز اٹھائی گئی کہ اس زبان کو زندہ رہنا ہے تو اسے اپنا رسم الخط بدل کر دیوناگری کر لینا چاہیے۔ جب اس بات پر کسی نے کان نہ دھرے تو آزادی کے دو دہائی بعد پھر بعض لوگوں نے، جن میں کچھ بہت بڑے ترقی پسند نام بھی انفرادی طور پر شامل تھے، یہی نعرہ بلند کیا۔ اس بار احتشام صاحب جیسے جید مفکر اور صائب الرائے ترقی پسند ادیب نے بھی اس آواز کو سختی سے دبا دینے کا مشورہ دیا لیکن اردو کی بے چارگی اس کے ’’دوستوں‘‘ کو ایسی دلکش لگتی ہے کہ وہ اسے بار بار رسوا کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی سیاسی لوگوں کو شوق چراتا ہے کہ اردو کی ’’اصلاح‘‘ فرمانے والوں میں اپنا بھی نام لکھوا لیں۔
چنانچہ آج ایک طرف تو ہمارے کچھ بہت بڑے ادیب کسی نہ کسی عنوان سے اردو کے رسم الخط میں تبدیلی لانے کی بات کرتے ہیں، تو دوسری طرف مولانا ملائم سنگھ بھی اردو والوں سے کہتے ہیں کہ رسم الخط بدل ڈالو، فائدے میں رہوگے۔ (یہی بات مرارجی دیسائی بھی کہتے تھے) فائدہ کیا ہوگا، اس کا حساب تو آسان ہے، کہ بہت ہی کم فائدہ ہوگا۔ لیکن نقصان کتنا ہوگا، اس کا حساب ناممکن ہے، کیوں کہ رسم الخط کی تبدیلی کسی بھی زبان کے لیے خسران عظیم کا باعث ہوتی ہے۔ اردو جیسی بتیس دانتوں میں دبی ہوئی ایک زبان بچاری کا تو پوچھنا ہی کچھ نہیں کہ رسم خط کھوکر وہ کس قدر مذلت میں گر جائےگی۔
اہل اردو براہ کرم اپنے تاریخی سرمایے پر نظر ڈالیں، انگریزوں کی سیاست کو خیال میں لائیں۔ اردو کے رسم خط میں تبدیلی کی ہر سفارش کے ڈانڈے انگریزوں کی ان سازشوں سے ملتے ہیں جو انہوں نے اردو/ہندی کا جھگڑا پیدا کرکے اس ملک کے ہندو مسلمان میں تفرقہ ڈالنے کی غرض سے رچی تھیں۔
گلکرسٹ نے اپنی کتاب The Oriental Linguist مطبوعہ ۱۸۰۲ (اول ایڈیشن ۱۷۹۸) میں لکھا ہے کہ میں جس زبان (یعنی اردو) کو ’’ہندوستانی‘‘ کا نام دینا چاہتا ہوں، اس کا اصل نام تو ’’ہندی‘‘ یا ’’ہندوی‘‘ ہے، لیکن اس سے ہمارا خیال ہندوؤں کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ ’’ہندی/ہندوی‘‘ وہ زبان ہے جو ہندوستان میں مسلمانوں کے ’’حملوں‘‘ کے پہلے بولی جاتی تھی۔ (بہت خوب، اسی تحقیق کے بل بوتے پر ہم اہل اردو مسٹر گلکرسٹ کو السنۂ ہند کا ماہر گردانتے ہیں! بہرحال آگے سنیے۔) گلکرسٹ نے مزید فرمایا کہ یہ بات تو ہے کہ اس (یعنی جس زبان کا نام میں ’’ہندوستانی‘‘ رکھنا چاہتا ہوں) زبان کے بولنے والے اسے ’’ہندی/ہندوی‘‘ ہی کہتے ہیں، لیکن اس سے کیا ہوتا ہے؟ ہندوستانی بیوقوف لوگ ہیں، انہیں ان باریکیوں کی طرف متوجہ بھی کیا جائے تو وہ خاک نہ سمجھیں گے۔ یہ نام (’’ہندی‘‘) تو ہندوؤں کی زبان کا ہونا چاہیے۔ رفتہ رفتہ ’’ہندی‘‘ کا وہ روپ بھی نمودار ہوگا جس میں سنسکرت اور دیگر ’’ہندوستانی‘‘ عناصر کی کثرت ہوگی۔ مسلمان ’’ہندوستانی‘‘ کو، اور ہندولوگ ’’ہندی‘‘ کو اختیار کر لیں گے۔ یہ دو طرز اس ملک میں مقبول ہو جائیں گے۔
مندرجہ بالا بیانات کی لغویت کی طرف آپ کو متوجہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان باتوں کی تردید کرنے کے بجائے خود ہم نے بھی اپنی ہی زبان کی برائیاں شروع کر دیں۔ لیکن ایک بات یہاں ضرور ذہن نشین کر لینی چاہیے۔ گلکرسٹ کی باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ اردو والوں نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ وہ فارسی عربی سے بھری ہوئی زبان لکھیں۔ بلکہ ’’ہندی‘‘ والوں کو سمجھایا گیا کہ تم سنسکرت بھری زبان لکھو۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر تارا چند کی کتاب The Problem of Hindustani (مطبوعہ الہ آباد ۱۹۴۴) کا مطالعہ سودمند ہوگا۔ انگریزوں کی خوشامد کے باوجود احسن مارہروی کو قومی یکجہتی کا اس قدر پاس ہے کہ انہوں نے اپنی طویل نظم ’’اردو لشکر‘‘ (جس کا ذکر اوپر ہوا) میں فارسی عربی لفظوں کو مع عطف واضافت لکھنے سے گریز کیا ہے اور انشا تو بہت پہلے ’’رانی کیتکی کی کہانی‘‘ لکھ کر ثابت کر چکے تھے کہ فارسی عربی الفاظ کو برتے بغیر بھی اردو لکھی جا سکتی ہے۔ (اور لطف یہ ہے کہ آج ہندی والے اس کتاب کو اپنی نثر کے شاہکاروں میں گنتے ہیں! ) انگریزوں کی سیاست کس کس طرح اردو زبان اور اس کے بولنے والوں پر کارگر ہوئی، اس کو سمجھنے کے لیے آلوک رائے کی کتاب Hindi Natioanalism مطبوعہ Longmans سنہ ۲۰۰۱ ملاحظہ ہو۔ آلوک رائے صاحب فرزند ہیں امرت رائے کے، لیکن انہوں نے اس کتاب میں امرت رائے کی بدنام زمانہ کتاب A House Divided کے بیانات کی قلعی کھول دی ہے۔
ادھر کچھ دنوں سے ولایت میں رہنے والے بعض اہل اردو کی طرف سے آواز اٹھی ہے کہ اردو کا رسم خط رومن کردیاجائے۔ وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ انگلستان میں رہنے والے اہل اردو کے بچے اردو بول تو سکتے ہیں لیکن لکھ نہیں سکتے۔ لہٰذا اگر اردو کا رسم الخط رومن کر دیا جائے تو وہ بخوبی اردو پڑھ اور لکھ بھی سکیں گے۔ ممکن ہے یہ تجویز کسی ایک فرد واحد کو، یا کسی گروہ کو اچھی معلوم ہوتی ہو، لیکن اس کے پس پشت دراصل سہل انگاری اور کاہلی ہے، کہ ہم اپنے بچوں کو اردو پڑھانے کی زحمت کا ہے مول لیں، کیوں نہ اردو کو انگریزی کر دیں، ہرے لگے گی نہ پھٹکری اور رنگ (ان کے خیال میں) چوکھا آئےگا۔
میں جاننا چاہتا ہوں کہ اگر یورپ اور امریکہ کے سیکڑوں مقامات میں پھیلے ہوئے لیکن مٹھی بھر یہودی اپنی زبان Yiddish کو اتنا فروغ دے سکتے ہیں کہ اس میں بڑے بڑے ادیب پیدا ہوں اور ہر یہودی، وہ چاہے جہاں بھی رہتا ہو، یدش پڑھ اور لکھ لیتا ہو، تو اردو والے جو صرف انگلستان میں لاکھوں کی تعداد میں ہیں، ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟
جب بنارس اور الہ آباد کے بنگالی یہاں چارسو برس سے رہتے رہنے کے باوجود اردو کے مذکر مونث، واحد جمع میں اب بھی غلطی کرتے ہیں، کیوں کہ بنگالی میں مذکر مونث نہیں ہے، اور اردو کے واحد جمع کے قاعدے بنگالی میں نہیں چلتے، تو اردو کے لوگ چند ہی برسوں میں اپنی زبان سے اتنے دور کیوں ہو جاتے ہیں کہ انہیں اسے لکھنا یا پڑھنا دشوار ہو جاتا ہے؟ پھر الہ آباد میں تو متعدد ایسے بنگالیوں سے بھی میری ملاقات ہے جو اردو اور بنگالی میں مکمل طور پر ذولسان ہیں۔ ممکن ہے وہ اردو پڑھ نہ سکتے ہوں، لیکن ان کا شین قاف اتنا ہی درست ہے جتنا کسی اردو والے کا ہو سکتا ہے اور آپس میں وہ اس دھڑلے سے بنگالی میں بات چیت کرتے ہیں کہ ہم لوگ منھ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ جو قومیں اپنی زبان اور تہذیب پر افتخار رکھتی ہیں ان کے یہی طور ہوتے ہیں۔ نہ معلوم ہم لوگ اپنی زبان کے بارے میں اس قدر مدافعانہ اور اعتذاری رویہ کیوں اپنائے بیٹھے ہیں؟
خیر، اب ان باتوں سے قطع نظر مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ اردو کا رسم الخط رومن کر دینے میں کئی طرح کے نقصانات عظیم ہیں۔ ان میں سے چند حسب ذیل ہیں،
(۱) اردو کا رسم الخط بدلنا اردو زبان اور ادب دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ بدلا ہوا رسم خط خواہ رومن ہو یاناگری، اس سے اردو زبان اور ادب دونوں کو ایسا دھکا پہنچےگا کہ ممکن ہے کہ وہ جاں بر ہی نہ ہو سکیں۔ وہ گراں قدر ادبی سرمایہ جو گزشتہ پانچ چھ سو برس سے اردو کے اپنے رسم خط میں لکھا گیا ہے، تقریباً سارے کا سارا ضائع ہو جائےگا۔ ہم اپنے کلاسیکی متون، اور کلاسیکی ہی کیوں، گزشتہ پانچ دہائی کے بڑے متون کے بھی اچھے ایڈیشنوں کے معاملے میں بہت مفلس ہیں۔ جو تہذیب اور معاشرہ اپنے بڑے ادیبوں کے اہم ترین متون کو بھی بازار میں دستیاب نہیں رکھتا، اس سے توقع کرنا فضول اور خام خیالی ہے کہ وہ اپنے سارے گزشتہ سرمایے کو نئے رسم الخط میں منتقل کرکے اسے عام اور متداول کرے گا۔
رسم الخط بدلا گیا تو دس برس بھی نہ گزریں گے کہ زبان اور ادب دونوں پر خاک اڑنے لگے گی اور اردو کے دشمن دل و جان سے یہی چاہتے ہیں۔ اس وقت تو یہ عالم ہے کہ نہ میر کا کوئی معتبر کلیات بازار میں ملتا ہے، نہ میرا نیس کا، نہ نصرتی یا باقر آگاہ کا۔ پریم چند، نذیر احمد، منٹو، راشد الخیری، حسن نظامی، بیدی، امجد حیدر آبادی وغیرہ کا تو پوچھنا ہی کیا ہے۔ لیکن ان کے پرانے ایڈیشن موجود ہیں اور پڑھنے والے انہیں پڑھ بھی سکتے ہیں۔ جب اردو کا رسم خط رومن یا ناگری ہو جائےگا تو آہستہ آہستہ ان کے پڑھنے والے عنقا ہو جائیں گے۔ کچھ دن بعد اردو کا پرانا سرمایہ اردو میں پڑھنے والا کوئی نہ ہوگا، حتی کہ یہ پرانے، گلے سڑے ایڈیشن بھی کچھ لائبریریوں اور کچھ کباڑیوں کے علاوہ کہیں اور نہ ملیں گے اور رومن یا ناگری میں یہ متون دستیاب ہوں گے نہیں۔ پھر نتیجہ ظاہر ہے۔
(۲) فرض کیا کوئی صورت ایسی نکل آتی ہے کہ اردو کا سارا ادب نہ سہی، سارا اعلیٰ ادب پہلے رومن یا ناگری میں منتقل کر لیا جائے، پھر رسم الخط بدلا جائے۔ اول تو یہ ممکن نہیں۔ اس کام کے لیے روپیہ ہی اتنا درکار ہوگا کہ ایک پوری حکومت کا خرچ اس سے چل جائےگا۔ لیکن مان لیا یہ ممکن ہوا بھی تو ہم جس رسم خط کو اختیار کریں گے، اس کے اپنے مسائل ہمارے سامنے آئیں گے اور ان کا اب تک کوئی حل نہیں بہم ہو سکا ہے۔ دوسری مشکل یہ ہوگی کہ جب اردو رسم خط ہی میں ایسے ایڈیشن نہیں ملتے جن کو پوری طرح صحیح نہیں تو کم و بیش لائق اعتماد کہا جا سکے، تو اردو سے ناگری یا رومن میں منتقل کرنے کے لیے کس ایڈیشن کو معتبر مانا جائےگا؟ اور بہت سی اہم کتابیں یا اہم شعرا کے کلیات تو ابھی طباعت پذیر بھی نہیں ہوئے۔ ان کے کس نسخے کو بنیادی متن قرار دیا جائے اور کیوں؟
(۳) رسم الخط بدلنے سے پہلے سب سے بڑا سوال یہ طے ہونا چاہیے کہ نئے رسم الخط میں اردو الفاظ کا محض تلفظ ظاہر کیا جائےگا، یا املا بھی ظاہر کیا جائےگا؟ اگر صرف تلفظ ظاہر کیا جائےگا تو نئے رسم الخط میں اردو کے بہت سے حروف تہجی باقی نہ رہیں گے۔ مثلاً س، ص، سب کو ایک ہی علامت کے ذریعہ ظاہر کیا جائےگا۔ اسی طرح ع اور الف میں ایک قائم رکھا جائےگا، ایک ترک ہوگا۔
(۴) جن لوگوں نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ اردو کا رسم الخط رومن کر دیا جائے، ان سے درخواست ہے کہ اس تجویز میں مضمر خرابیوں اور اس پر عمل درآمد ہونے کے خاص نقصانات کودھیان میں لائیں۔ ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں :
(۵) اردو کو رومن رسم الخط میں لکھنے کے لیے کوئی ایسا نظام ابھی تک نہیں ہے جسے سب قبول کرتے ہوں۔ بہت سے لوگ من مانی کرتے ہیں، بہت سے لوگ Library of Congress کے نظام پر عمل کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ Library of Congress کے نظام میں تھوڑی بہت تبدیلیاں کرکے اسے برتتے ہیں۔ بہت سے لوگ کم و بیش وہ نظام استعمال کرتے ہیں جو عربی سے رومن کرنے کے لیے متداول ہے۔ بہت سے لوگ کوئی اور نظام بکار لاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، خ لکھنے کے لیے حسب ذیل مختلف طریقے مستعمل ہیں،
چھوٹا ایکس(small x)
چھوٹا کے اور چھوٹا ایچ (kh)
چھوٹا کے اور چھوٹا ایچ، لیکن دونوں حرفوں کے نیچے لکیر (kh)
بڑا کے (K)
لہٰذا سوال یہ ہے کہ جب مختلف لوگ ایک ہی حرف کو رومن رسم خط میں مختلف طرح ادا کریں گے، کوئی کچھ لکھے گا، کوئی کچھ تو بچے کی تعلیم کس طرح ہوگی؟ یا پھر یہ ہوگا کہ کم و بیش ہر گھر میں رومن اردو اپنی ہی طرز کی ہوگی۔ کسی کا کسی سے میل نہ ہوگا اور اس کا امکان زیادہ ہے کہ ہر بااثر طبقہ اپنے طور پر اپنے قاعدے اختیار کرےگا۔ جس زبان کے بولنے والے ابھی تک اس بات پر متفق نہ ہو سکے کہ ’’دعویٰ‘‘ لکھیں یا ’’دعوا‘‘، ’’گذر‘‘ لکھیں یا ’’گزر‘‘، ’’توتا‘‘ لکھیں یا ’’طوطا‘‘، ’’وطیرہ‘‘ لکھیں یا ’’وتیرہ‘‘، ’’رحمٰن‘‘ لکھیں یا ’’رحمان‘‘، ’’تمغا‘‘ لکھیں یا ’’تمغہ‘‘، ’’معمہ‘‘ لکھیں یا ’’معما‘‘، ’’مہینہ‘‘ لکھیں یا ’’مہینا‘‘، ’’پیسہ‘‘ لکھیں یا ’’پیسا‘‘، ’’تماشہ‘‘ لکھیں یا ’’تماشا‘‘، ’’گئے‘‘ لکھیں یا ’’گیے‘‘ وغیرہ صدہا مثالیں ہیں)، اس کے بارے میں یہ توقع کرنا خام خیالی ہے کہ سب لوگ کان دباکر ایک ہی قاعدے پر اتفاق کر لیں گے اور جھگڑا نہ کریں گے۔
یہاں تو ابھی یہ عالم ہے کہ یہی فیصلہ کرنے میں سر پھٹول ہو رہی ہے کہ ’’کھ‘‘، ’’بھ‘‘ وغیرہ مخلوط آوازوں کو اردو حروف تہجی مانا جائے کہ نہیں؟ اور اگر مانا جائے تو انہیں کہاں جگہ دی جائے؟ ’’ب‘‘ کے فوراً بعد ’’بھ‘‘ آئے یا بڑی ’’ے‘‘ کے بعد؟ لغت میں پہلے ’’بیٹا‘‘ کا اندراج ہو یا ’’بھاری‘‘ کا؟ ابھی تو اسی پر تکرار ہے کہ لغت لکھتے وقت الف مد (آ) والے لفظ پہلے آئیں گے کہ خالی الف والے؟ بظاہر تو یہ بات ایسی ہے کہ اس میں کسی بحث یا اختلاف کی ضرورت ہی نہیں، لیکن اگر آپ اردو کے ’’مستند‘‘ لغات ملاحظہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس باب میں ’’نوراللغات‘‘ کا عمل کچھ ہے، ’’آصفیہ‘‘ کا کچھ اور ہے، فیلن کا کچھ دوسرا ہی ہے، اور ترقی اردو بورڈ پاکستان، کے عظیم الشان ’’اردو لغت، تاریخی اصول پر‘‘ کے خیالات دیگر ہیں۔ ایسی صورت میں یہ امید کرنا کہ سب لوگ تبدیل خط (Tranliteration) کے ایک ہی اصول پر اتفاق کر لیں گے، یاجلد اتفاق کر لیں گے، محض امید پرستی ہے۔
(۶) اردو میں بہت سی آوازیں ایسی ہیں جنہیں رومن رسم الخط ادا نہیں کر سکتا۔ مثال کے طور پر، حسب ذیل الفاظ کو رومن میں صحیح لکھنا غیرممکن ہے۔
بہن، قاعدہ، کہنا، کوا، کواں، دودھاری (بمعنی دودھاروں والی، مثلاً دودھاری تلوار)، دعا وغیرہ۔ ان الفاظ میں زیر زبر پیش کی جو آوازیں ہیں وہ رومن یا ناگری میں نہیں ادا ہو سکتیں۔
(۷) اگر صرف لفظ کو ادا کرنا ہے (اور بظاہر مقصد یہی معلوم ہوتا ہے) تو اردو کے ہزاروں الفاظ کا تلفظ بگاڑ کر رومن میں لکھنا ہوگا۔ مثلاً مندرجہ ذیل الفاظ کو دیکھیں،
پردہ، اگر اسے parda لکھیں تو لفظ غلط ہو جاتا ہے۔ اگر pardah لکھیں تو اور بھی غلط ہو جاتا ہے۔ اگر اسے pard لکھیںتو کوئی لفظ ہی نہیں بنتا۔ (ملحوظ رہے کہ بعض اوقات اسے انگریزی لفظ قرار دیتے ہیں تو اسے purdah لکھتے ہیں۔)
گناہ، اسے اگر gunah لکھیں تو h کی آواز انگریزی میں غائب ہو جائےگی، صرف ’’گنا‘‘ سنائی دےگا۔ انگریزی میں کوئی طریقہ ایسا نہیں کہ آخر میں آنے ہ والی ہائے ہوز کی آواز کو ملحوظ رکھ سکیں۔ مجبوراً اسے gunaha لکھنا پڑےگا جو تلفظ کے قطعاً منافی ہے۔
کارواں، اگر اس کے نون غنہ کے لیے کوئی ایک علامت سب لوگ مقرر کر بھی لیں تو رومن میں اس لفظ کو یا تو karvan لکھیں گے، یا karavan لکھیں گے۔ اردو کے لحاظ سے دونوں تلفظ غلط ہیں۔ اردو میں ’’کارواں‘‘ کی رائے مہملہ ساکن ہے، لیکن اس پر ہلکا سا زبر بھی ہے۔ رومن میں وسطی سکون ظاہر کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے اور جس طرح سکون/حرکت ’’کارواں‘‘، ’’فیصلہ‘‘ جیسے بےشمار لفظوں میں ہے، اس کے لیے رومن میں کچھ بھی انتظام نہیں۔
میر (یاے معروف)، دور (واؤ معروف) جیسے کتنے ہی الفاظ ہیں جو بہ اعتبار تلفظ رومن میں ادا نہیں ہو سکتے۔ انگر یزی میں miir کا تلفظ me’ar اور duur کا تلفظ du’ar ہے، کیوں کہ انگریزی تلفظ کے اعتبار سے آخری R نہیں بولا جاتا۔ اگر اسے بولنا ہے تو اس کے پہلے یا بعد حرکت دینی ہوگی، جو اردو تلفظ کے منافی ہے۔ اردو جاننے والے تمام انگریز اور امریکن اپنی زبان کی مجبوری کے باعث ’’میر‘‘ کو mere بروزن fear بولتے ہیں۔ ایک مدت ہوئی جب میں (زیادہ تر طالب علمی کے دنوں میں) انگریزی میں فلمیں دیکھ لیا کرتا تھا۔ اب فلم کا نام یاد نہیں رہا، لیکن اس میں ایک ہندوستانی کردار ’’کبیر‘‘ نامی تھا۔ مجھے اس کا تلفظ kabi’ar سن کر تھوڑی سی حیرت ہوئی۔ بعد میں مغربی ممالک میں ہر جگہ میں نے یہی صورت پائی۔ ’’کشمیر‘‘ کے پرانے ہجے اسی وجہ سے Cashmere تھے اور ایک خاص طرح کا اونی کپڑا آج بھی Cashmere کہلاتا ہے۔ اسی طرح، ایک خاص طرح کے ریشمی کپڑے کو Madras کہتے ہیں اور چونکہ اس ہجے میں دونوں A کی قیمت غیرمعلوم ہے، لہٰذا اس لفظ کو انگریزی قاعدے کے مطابق آج بھی ’’میڈرس‘‘ (’’میڈ‘‘ بروزن sad اور ’’رس‘‘ بروزن fuss) کہتے ہیں۔
(۸) عربی فارسی، خاص کر عربی کے انگنت الفاظ ہیں، اردو میں جن کے تلفظ کے بارے میں اختلاف ہے۔ بہت سے ایسے ہیں جن کے بارے میں اختلاف نہیں لیکن اردو میں ان کا تلفظ عربی/فارسی سے مختلف ہے۔ خیر، جہاں اختلاف نہیں، وہاں تو ممکن ہے کہ رومن میں بھی اردو کے تلفظ کو اپنا لیا جائے (حالانکہ بہت سے لوگ نہ مانیں گے) لیکن جہاں اختلاف ہے وہاں کیا کیا جائے، مثلا
rivayat لکھیں کہ
ravayat؟ murawat لکھیں کہ muruu’at؟ hisab لکھیں کہ hesab یا hasab؟ mihdi لکھیں کہ mahdi یا mehdi؟ (یہ خیال رہے کہ انگریزی میں Mihdi/Mahdi/Mehdi جو بھی لکھیں، حرف h پڑھنے میں نہ آئےگا اور بچے کو یہ سیکھنے میں بہت مشکل ہوگی کہ یہاں حرف h صاف صاف بولا جائےگا۔) taqii’ah لکھیں یا taqaiyah یا taqayyiah؟ sayyid لکھیں یا sayyad یا saiyad یا syed لکھیں؟ janaza لکھیں یا janazah؟ zimam لکھا جائے کہ zamam؟ qabool لکھنا بہتر ہے کہ qubool؟ اسی طرح، sha’oor درست مانا جائے یا shu’oor یا؟ furogh؟ اچھا ہے کہ farogh؟
(۹) ایک مشکل ان لفظوں میں ہوگی اور ایسے لفظ بہت ہیں اور رائج بھی ہیں، جن کو شعر میں تو اصل تلفظ کے اعتبار سے نظم کیا جاتا ہے لیکن بول چال میں ان کا تلفظ کچھ اور ہے۔ مثلاً، شمع، شکل، ذبح، شہد، ہرج، طرح، اطمینان، حرکت، کلمہ، صدقہ، وغیرہ۔
(۱۰) بہت سے ایسے لفظ ہیں جو موقعے یا رواج کے اعتبار سے کئی طرح بولے جاتے ہیں۔ ان کا کیا ہوگا؟ مثلاً یہ الفاظ رومن میں کس طرح لکھے جائیں گے؟
کہ: اس کے تین تلفظ ہیں۔ (۱) کاف کے بعد ہلکی یا ے معروف، (۲) کاف کے بعد ہلکی یاے مجہول، (۳) کاف کے بعد لمبی یاے مجہول۔ اور اگر ضرورت ہو تو کبھی کبھی کاف کے بعد طویل یاے معروف بھی بولی جاتی ہے۔
لیلیٰ، اور اس قسم کے تمام الفاظ جن کا تلفظ کبھی کبھی یاے معروف سے کرتے ہیں (بروزن ’’پھیلی‘‘) اور کبھی خاص کر اضافت کی حالت میں الف مقصورہ کے ساتھ (بروزن ’’پھیلا‘‘)
چیونٹی: اس کے تین تلفظ ہیں۔ (۱) چیں اوٹی بروزن فاعلن، (۲) چوں ٹی بروزن فع لن، (۳) چیوں ٹی، یاے مخلوط کے ساتھ، بروزن فع لن۔
حد، خط، کف، حج اور اس طرح کے دوسرے عربی لفظ جن کے آخری حرف پر تشدید ہے، لیکن وہ صرف اضافت کی حالت میں کبھی کبھی بولی جاتی ہے۔
مچھر، چپراس وغیرہ بہت سے لفظ ہیں جنہیں دلی والے اور بہت سے مشرقی ہندوستان والے، راے ہندی سے بولتے ہیں (مچھڑ، چپڑاس) اور باقی لوگ سادہ راے مہملہ سے۔
(۱۱) اب بعض باتیں اور دیکھ لیجیے۔ اگر املا نہیں ظاہر کرنا ہے تو بہت جگہ تلفظ بھی غلط ہو جائےگا۔ مثلاً مندرجہ ذیل پر غور کریں: ضعف، سعید، معذور، معقول۔
ضد کی اور بات ہے، لیکن ان لفظوں میں عین کا تلفظ سراسر الف یا ہمزہ کا نہیں۔ حسب ذیل سے مقابلہ کریں،
زور، لئیق، ماجور، ماقول۔
صاف ظاہر ہے کہ ضعف/زور، سعید/لئیق، معذور/ماجور اور معقول/ماقول کے تلفظ ایک نہیں ہیں۔ اول الذکر لفظوں میں تھوڑی سی آواز عین کی سنائی دیتی ہے۔ رومن اسے کس طرح ادا کریں گے؟
جن لفظوں میں واؤ معدولہ مع الف ہے (خوان، خواب) ان کا تلفظ ان لفظوں سے مختلف ہے جن میں واؤ معدولہ بے الف ہے (خوش، خود۔) ایسے الفاظ میں املا ظاہر کریں تو تلفظ ہاتھ سے جاتا ہے اور تلفظ ظاہر کریں تو املا کا خون ہوتا ہے۔
رومن میں ہمزہ کا متبادل کچھ نہیں۔ رومن رسم خط میں ہمزہ اور ع اور الف سب ایک ہو جائیں گے۔ مثلاً،
عکس/aks، تاسف/tassuf، عالم/alam
رومن میں پڑھنے والا ان الفاظ میں فتحہ کی آواز کا کچھ امتیاز نہ کر سکےگا۔ آہستہ آہستہ ان کا تلفظ بدل جائےگا اور پھر شاعری کو موزوں پڑھنا تقریباً ناممکن ہو جائےگا۔
استدلال ابھی اور بھی ہیں۔ لیکن جو ماننا چاہے اس کے لیے اتنے بہت ہیں اور جو نہ ماننا چاہے اس کے لیے پوری کتاب بھی کافی نہ ہوگی۔ بہرحال، رسم الخط کی تبدیلی کے مؤیدین سے میری درخواست ہے کہ وہ مسعود حسن رضوی ادیب کی چھوٹی سی کتاب ’’اردو زبان اور اس کا رسم الخط‘‘ پڑھ لیں اور اگر توفیق ہو تو اسی موضوع پر محمد حسن عسکری اور احتشام حسین کے مضامین بھی دیکھ جائیں۔ شان الحق حقی نے حال میں اچھی بات کہی ہے،
’’رسم الخط اپنی زبان کے لیے اور زبان اپنے بولنے والوں کے لیے ہوتی ہے۔ چند غیرملکیوں کی سہولت کے لیے اپنی زبان کی کایا پلٹ کرنا مضحکہ خیز حرکت ہوگی۔ دنیا کو اردو کی طرف متوجہ کرنا ہو تو ہمیں اس کے اندر بہتر سے بہتر ادیب پیدا کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ اس کی دم میں کھٹکھٹا باندھنے کی۔‘‘
اس پر میں صرف اتنا اضافہ کروں گا کہ اردو کا رسم خط اگر رومن کر دیا جائے تو جتنی سہولتیں حاصل ہوں گی ان سے کہیں بڑھ کر مشکلیں پیدا ہوں گی۔ اور یہ بات بھی دھیان میں رکھنے کی ہے کہ اگر ایک بار رسم خط کی تبدیلی پر ہم راضی ہو گئے تو یہ تقاضا بار بار اٹھےگا۔ آج لوگ دیوناگری یا رومن کے لیے کہہ رہے ہیں، کل کو کسی اور رسم الخط کے لیے مانگ ہوگی کہ اردو لکھنے کے لیے اسے بھی استعمال کیا جائے۔ خود ہندوستان میں لوگ کہیں گے کہ دیوناگری قبول ہے تو بنگالی کیوں نہیں؟ بنگالی قبول ہے تو تمل کیوں نہیں؟ پھر یہ سلسلہ ختم نہیں ہونے والا۔
جیسا کہ میں نے اوپر کہا، اپنے رسم الخط یا املا میں تبدیلی کا تقاضا کرنے کی بیماری صرف اردو والوں میں ہے۔ اگر کسی اور زبان والے سے کہیے کہ ’’میاں تمہارا رسم خط یا املا ناقص ہے، اسے بدل ڈالو‘‘ تو وہ مرنے مارنے پر آمادہ ہو جائےگا۔ اور ایسا نہیں ہے کہ مغرب میں تیسری دنیا سے آئے ہوئے صرف اردو کے ہی لوگ بستے ہوں۔ ہندوستان اور افریقہ اور ایشیا کی اکثر زبانیں بو لنے والوں کی کثیر تعداد مغرب میں مقیم ہے۔ ان میں سے تو کسی کی بھی زبان سے نہیں سنا گیا کہ ہمارے بچوں کو اصل رسم خط میں دقتیں پیش ہوتی ہیں، کیوں نہ اپنی زبان مثلاً مراٹھی، بنگالی، ملیالم، سنگھل، سواحلی، ہوکسا) کا رسم خط بدل کر رومن کر دیا جائے۔
کچھ دن ہوئے ایک صاحب کی تجویز نظر سے گزری کہ اردو میں حرف ملاکر لکھے جاتے ہیں۔ اس سے کمپیوٹر کو بڑی مشکل ہوتی ہے۔ دنیا کی اکثر زبانوں کی طرح اردو کے حرف بھی الگ الگ لکھے جائیں تو کمپیوٹر کے میدان میں آسانی ہو جائےگی۔
اول تو یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ الگ الگ حرف لکھنے سے کمپیوٹر کو کون سی آسانی ہو جائےگی؟ کمپیوٹر غریب اردو کا نقاد تو ہے نہیں کہ عقل سے عاری ہو۔ وہ تو ایک بہت ہی نازک اور حساس مشین ہے، جو سکھائےگا سیکھ لےگا۔ ایسا نہیں ہے کہ کمپیوٹر جب اردو فارسی عربی لکھتا ہے تو اسے معلوم رہتاہے کہ انگریزی یا فرانسیسی نہیں ہے اور اس میں مجھے بڑی مشکل ہونا چاہیے۔ کمپیوٹر تو حکم کا بندہ ہے۔ اس میں اقداری فیصلے کی صلاحیت نہیں۔ لیکن بنیادی سوال یہ کہ اردو میں حرفوں کو الگ الگ کیوں نہیں لکھا جاتا، جب کہ مثلاً رومن اور ناگری میں ایسا ممکن ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جن زبانو ں میں حرف الگ الگ لکھے جاتے ہیں ان میں اعراب بالحرف یا اعراب صریح، یا موقعے موقعے سے دونوں کا التزام ہوتا ہے۔ مؤخرالذکر کو سنسکرت/ہندی میں ’’ماترا‘‘ کہتے ہیں۔ اعراب بالحرف کے لیے وہاں شاید کوئی اصطلاح نہیں ہے۔ ان دونوں اصطلاحوں کے عمل کو یوں واضح کر سکتے ہیں۔ فرض کیجیے آپ نے اردو میں لکھا،
ہم
اب آپ سے کہا گیا کہ اچھا اس کے حرف الگ الگ کرکے رومن رسم خط میں لکھئے، جس طرح انگریزی لکھی جاتی ہے۔ تو آپ نے لکھا،
HM
اب ناطقہ سربگریباں کہ اسے کیا پڑھئے۔ ظاہر ہے کہ انگریزی میں کوئی لفظ اس قماش کا ہے ہی نہیں جس میں صرف یہ دوحرف ہوں۔ لامحالہ آپ کہیں گے، ’’لفظ، ’ہم‘ کے اعراب کیا ہیں؟ یہ معلوم ہو تبھی تو انگریزی میں لکھوں گا۔‘‘ آپ کی بات وزنی ہے، لہٰذا آپ کو بتایا گیا کہ یہاں ’ہم‘ میں اول مفتوح ہے۔ ’’بہت خوب، ابھی لیجیے۔‘‘ آپ نے جھٹ کہا اور لکھا،
HAM
اس بات سے قطع نظر کہ لفظ Ham کے انگریزی میں کئی معنی ہیں اور بھی معنی اردو لفظ ’ہم‘ کے معنی سے مطابقت نہیں رکھتے، آپ یہ ملاحظہ کریں کہ پڑھنے / سیکھنے والے کو کتنی مشکل ہوگی (اور آپ کے کمپیوٹر غریب کو شاید کتنی ’مشکل‘ ہوگی) جب یہ لفظ
ہم
رومن رسم خط میں، اردو رومن طرز کے مطابق، حرف الگ الگ کرکے لکھا جائےگا؟ اگر آپ اعراب بالحرف نہ دیں گے تو کوئی پڑھ ہی نہ سکےگا کہ لکھا کیا ہے؟ اردو میں تو رسم بن چکی ہے، پڑھنے والے کو معلوم ہے کہ شروع شروع کی اکا دکا منازل کے بعد اعراب صریح (زیر، زبر، پیش) میرا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ لہٰذا مجھے خود ہی معلوم کرنا ہے کہ مثلاً حسب ذیل شعرمیں الفاظ پر اعراب کیا ہیں۔
کئی گذرے سنہ ترا کم تھا سن جو لیے تھے سن ترے گھونگرو
گیا سینہ چھن گئے ہوش چھن جو بجے تھے چھن ترے گھونگرو
چنانچہ جب میرا سابقہ اردو زبان اور رسم خط میں لفظ ’ہم‘ سے پڑا تو میں نے یہ پکار نہ لگائی کہ ارے بھائی اس پر اعراب کیا ہیں؟ میں نے خود کو سکھا لیا ہے کہ یہاں اول حرف پر تین میں سے ایک حرکت ہوگی اور مجھے قیاس اور تجربے سے کام لے کر معلوم کر لینا ہے کہ اس وقت کون سی حرکت ہے۔ اگر مجھے صرف HM دکھایا جائےگا تو میں مرتے مرتے مر جاؤں گا لیکن مجھے اعراب نہ ملےگا۔ اچھا اگر یہ طے کرلیں کہ میاں جس طرح اردو میں اٹکل سے پڑھتے ہو، اسی طرح رومن میں اٹکل سے پڑھ لو۔ جان لو اس زبان میں اعراب بالحرف نہیں ہیں۔ اس پر التمس یہ ہے کہ کیا معنی، اردو زبان میں اعراب بالحرف نہیں؟ تو پھر اسی لفظ ’’نہیں‘‘ میں ہاے ہوز کے بعد کیا ہے؟ حرف دوم یہاں مکسور ہے اور حرف سوم پر کوئی حرکت نہیں، وہ لمبی اکی آواز ظاہر کر رہا ہے، کہنے کو چھوٹی ’ی‘ ہے۔
یہ اعراب صریح ہے، یعنی کسی حرف کو علامت میں بدل کر اس سے اعراب کا کام لیا جا رہا ہے۔ یہی چھوٹی ’ی‘ جب لفظ ’’ایدھر‘‘ میں آئےگی تو اور طرح لکھی جائےگی، جب لفظ ’’پیلی‘‘ میں لکھی جائےگی تو اور طرح لکھی جائےگی۔ اب ذرا ’’بانگ درا‘‘ کا پہلا مصرع حرفوں کو الگ الگ کرکے رومن طرز میں صرف اردو کے اعراب کے مطابق لکھئے،
اے ہ م ال ہ اے ف ص ی ل ک ش ور ہ ن د و س ت اں
میں نے لفظوں کے درمیان فاصلے رکھے ہیں، لیکن کوئی بندہ خدا اس مصرعے کو پہلے سے اردو میں پڑھے بغیر پڑھ ہی دے تو دیکھوں، صحیح اور موزوں پڑھنا تو دور رہا۔ کہیں پر اعراب غائب ہیں، کہیں اعراب صریح ہے، لیکن پھر بھی مبہم (مثلاً پتہ نہیں چلتا کہ ’ہندوستاں ‘ میں واؤ معروف ہے کہ مجہول؟)
معلوم ہوا اردو میں کہیں کہیں اعراب صریح ہے، زیادہ تر فقدان اعراب ہے، اور جہاں اعراب ہیں وہاں اکثر مبہم ہیں۔ ایسی زبان کو آپ انگریزی کی طرح الگ الگ حرفوں اور التزام اعراب کے ساتھ کس طرح لکھیں گے؟
ایک بات اور بھی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انگریزی میں اعراب بالحرف بالکل نہیں ہے۔ اور نہ ایسا ہے کہ اعراب بالحرف کی امداد سے تلفظ قطعی اور واضح ہو جاتا ہے۔ انگریزی میں جہاں جہاں (مثلاً) حسب ذیل حرف آخر لفظ میں ساتھ آتے ہیں، وہاں اعراب وبالحرف ہے،
BLE (aBLE) ; DLE (bundle); GLE (bunGLE); KLE (tacKLE)
مگر مشکل یہ ہے کہ ان تینوں میں حرف اور اس کے ماقبل کے درمیان حرکت یکساں نہیں ہے۔
Tableمیں b اور L کے بیچ میں ہلکا سا ضمہ ہے۔
Bundleمیں d اور L کے بیچ میں ہلکا سا کسرہ ہے۔
Bungleمیں b اور L کے بیچ میں کچھ نہیں ہے، فتحہ مان سکتے ہیں لیکن وہ اس قدر ہلکا ہے کہ ہونا نہ ہونا مساوی سمجھئے۔
Tackleمیں k اور L کے بیچ میں بہت ہلکا سا ضمہ ہے، ذرا کسرہ کی طرف مائل۔
لہٰذا وہاں بھی تلفظ کی مشکلیں اعراب کے ہونے یا نہ ہونے کی بنا پر ہیں، خواہ حرف کتنی ہی دور دور کیوں نہ لکھے جائیں۔ انگریزی کی نقل کرنے سے یہاں اردو کو کچھ نہ ملےگا۔
خلیل دھن تیجوی کی یہ بات باوزن ہے، ’’اگر غیراردوداں طبقہ بھی اردو لکھنا پڑھنا سیکھ لیتا ہے تو اردو کی آبیاری کرنے والوں کے بچوں کو (یہ کام) کیوں نہیں سکھایا جا سکتا؟‘‘ ہم اردو والوں کی یہ ادا خوب ہے کہ جس درخت سے پھل حاصل کرنا مشکل نظر آئے، اس درخت کی جڑ ہی کاٹ دینے پر تل جائیں گے، خود تھوڑی سی محنت نہ برداشت کریں گے۔ اسی طرح، رام پرکاش کپور نے بھی سچی بات کہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم لوگوں کو خود بینی سے فرصت ہی نہیں کہ ان الفاظ کے آئینے میں اپنی صورت دیکھیں،
’’اردو کی لڑائی خود ان لوگوں سے ہے جو اردو بولتے ہیں، اردو کے مشاعرے پڑھتے ہیں، اردو کی مجالس میں شریک ہوتے ہیں، اردو کے نام کی روٹی کھاتے ہیں، اردو کے کارواں کو چلاتے ہیں اور کبھی کبھی اردو کو سرکاری زبان بنادینے کی مانگ کرکے عوام کو گمراہ بھی کرتے ہیں۔ اردو میں فلمیں لکھ کر ہندی کے نام سے بیچتے ہیں۔ اردو کے گانوں پر ہندی سرٹیفکیٹ برداشت کرتے ہیں۔ ان تمام بڑے بڑے اردوداں حضرات کے بچے اردو نہیں پڑھتے، نہیں بولتے، نہیں لکھتے، نہیں جانتے۔ نہ ہی خود یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اردو جیسی زبان سیکھیں۔‘‘
گزشتہ چالیس برس سے میں اردو کے بڑے بڑے ادیبوں اور پروفیسروں کی خدمت میں حاضری دیتا رہا ہوں اور میں نے حتی المقدور اس بات پر ٹوکا بھی ہے کہ آپ کے بچے، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں اردو نہیں پڑھتے۔ یہ اچھی بات نہیں اور کچھ نہیں تو یہ خیال فرمائیے کہ آپ کی تحریروں سے آپ کے اخلاف محروم رہیں گے، یہ منصفی سے عاری ہے کہ نہیں؟ لیکن مجھے افسوس ہے کہ اکادکا کے سوا کسی کے کان پر جوں نہ رینگی۔ اور یہی لوگ ہیں جن کی صدائے ماتم سب سے زیادہ بلند سنائی دیتی ہے کہ ہائے اردو مر گئی یا مر رہی ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو، انہوں نے اپنے گھر سے اردو کو بدر کر دیا ہے، اس لیے وہ یہی کہنے میں عافیت سمجھتے ہیں کہ اردو کا خاتمہ ہو گیا، یا ہونے والا ہے۔
حقیقت، ظاہر ہے کہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ لیکن اردو کی بقا کے لیے سب سے زیادہ تعاون اور قربانیاں غریب غربا کی طرف سے یا پھر ان علاقوں سے آئی ہیں جنہیں ہم یو۔ پی والے اردو کے علاقے نہیں سمجھتے اور وہاں کے اردو بولنے والوں کو ’’اہل زبان‘‘ نہیں تصور کرتے۔ اردو کے لیے سعی اور جہد سب سے زیادہ بہار میں کی گئی اور کی جا رہی ہے۔ پھر مہاراشٹرا میں، جہاں اردو مخالف حکومتوں کے باوجود اردو ذریعۂ تعلیم کی درسگاہیں خوب برگ وبار لا رہی ہیں اور اردو میڈیم سے تعلیم پائے ہوئے بچے مسلسل ہائی اسکول کے امتحان میں سارے صوبے میں پہلی پوزیشن لاتے ہیں۔ یو۔ پی والے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اردو پڑھنا چھوڑ دیا تو سب نے چھوڑ دیا۔ وہ بہار اور مہاراشٹر کیا، مدھیہ پردیش، کرناٹک، آندھرا، ہماچل پردیش جا کے دیکھیں تو انہیں معلوم ہو۔ یو۔ پی والے اپنے گلے میں ’’اہل زبان‘‘ کا تمغا لٹکائے رہیں اور سمجھتے رہیں کہ اردو کا قل ہو چکا۔ دنیا ان پر ہنس رہی ہے، ابھی اور ہنسےگی۔
رام پرکاش کپور نے اپنی تحریر مطبوعہ ’’شاعر‘‘ ممبئی میں ہاشم علی اختر صاحب (سابق وائس چانسلر، عثمانیہ یونیورسٹی، اور پھر علی گڑھ یونیورسٹی) کا حوالہ دیا ہے کہ ان کے دوستوں، رشتہ داروں میں ’’چالیس کی عمر سے کم والا ایک بھی فرد اردو رسم الخط نہیں جانتا۔‘‘ لہٰذا ہاشم علی صاحب چاہتے ہیں کہ اردو کا رسم الخط بدل دیا جائے۔ یہ تو ایسا ہی ہوا کہ اگر کسی معاشرے میں چالیس سے کم عمر والے افراد جاہل ہوں تو ہاشم علی صاحب کی منطق کے مطابق اس معاشرے میں خواندگی (Literacy) کو منسوخ قرار دیا جائے اور اس کو ’’زبانی‘‘ (Oral) معاشرے کی سطح پر قائم کیا جائے۔ اور اگر کسی معاشرے میں چالیس سے کم عمر والے افراد کو کوئی بیماری ہے تو اس بیماری کا علاج کرنے کے بجائے اسے نارمل حالت صحت قرار دیا جائے اور سب لوگوں کے لیے اس بیماری میں مبتلا ہونا ضروری قرار دیا جائے۔
میں کئی گزشتہ تحریروں میں رومن اور ناگری رسم الخطوں کی کئی اور کمزوریاں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں، لہٰذا یہاں ان باتوں کا اعادہ نہیں کرنا۔ یہاں آخری بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حکومت سے مراعات کی بھیک مانگنے کے بجائے ہم اردو والوں کو خود اپنی زبان کے فروغ اور استحکام کی کوشش کرنا چاہئے۔ میں تو کہتا ہوں کہ حکومتوں نے جتنا کیا ہے اور جو کر رہی ہیں، اس سے زیادہ کی امید آپ کو کیوں ہو؟ خود ہمارا بھی کچھ فرض ہے کہ نہیں
مومیائی کی گدائی سے تو بہتر ہے شکست
موربے پر حاجتے پیش سلیمانے مبر
✍? شمس الرحمٰن فاروقی
شب خون
نومبر 2001ء
بشکریہ ڈاکٹر خالد مبشر صاحب ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page