لفظ و معانی/ شمس الرحمن فاروقی – زین ہاشمی ندوی
شمس الرحمن فاروقی اردو دنیا کے جدید ذہن اور جدید نظریہ کا سراغ لگانے والے اہم ناقد ہیں، انھوں نے نظری اور عملی تنقید میں اپنے منفرد انداز فکر اور رویے کو عمیق غورو فکر کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اپنی تمام تنقیدی نگارشات میں چاہے وہ "لفظ و معنی” یا "شعر غیر شعر اور نثر ” "تنقیدی افکار” "عروض آہنگ اور بیان” "افسانے کی حمایت میں” یا انداز گفتگو کیا ہے، انھوں نے اپنی بات بہت وضاحت اور قطعیت کے ساتھ کہی ہے جس میں کسی طرح کا الجھاؤ اور پیچیدگی محسوس نہیں ہوتی. زیر تبصرہ کتاب "لفظ و معنی” شمس الرحمن فاروقی کے تنقیدی نظریات کی اساس کے طور پر متعارف ہے. لفظ و معنی کے مباحث ایک ایسی صورت حال کی نشان دہی کرتے ہیں جو ذات کی گرہ کشائی، اعصاب شکنی، تنہائی اور تردد کی مرہون منت ہے۔ لہذا جب ہم یہ کلیہ بنائیں کہ تجربات اور محسوسات جو ذہن میں واضح اور غیر واضح طریقہ سے ہر وقت مرتب ہوتے رہتے ہیں۔
کتاب کے Key Points کچھ اس طرح ہیں
ادب پر چند مبتیانہ باتیں:
اس باب میں اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ ادب کا موضوع کیا ہونا چاہئے؟ یا کیا ہوتا ہے؟ پھر یہ کہ کون سی ہیتیں یا ظاہری شکل وصورت ایسی ہے جیسے ادب کی ہیت یا ادبی ہیت کہہ سکتے ہیں؟ اور پھر یہ کہ ادب کا مقصد کیا ہے؟ اور انسان کو ادب کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟
غور سے دیکھیں تو ادب کا موضوع زندگی ہے۔ ادیب اپنے ذہن میں اٹھنے والی موجوں کے طلاطم سے بے چین ہو کر ان کو ظاہر کر دینے پر مجبور ہوتا ہے۔ پھر ان سے پیدا ہونے والے تجربات کبھی واضح ہوتے اور کبھی غیر واضح یہاں تک کہ نت نئے انداز سے ہر وقت کسی نہ کسی شکل میں نمودار ہوتے رہتے ہیں اور رفتہ رفتہ تخیل اور نغمہ کی آنچ میں پگھلنے کے بعد باہر امڈھنے کے لئے بے قرار ہو جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ ادب کا پہلا مقصد اظہار ہے ادیب سب سے پہلے خود سے گفتگو کرتا ہے پھر کسی دوسرے یا تیسرے سے
شخصیت سے فرار ممکن نہیں :
اس باب میں اس بات کی نشاندھی کی گئی ہے کہ کوئی بھی ادیب اپنی شخصیت، عادت و اطوار سے ہرگز راہ فرار نہیں اختیار کر سکتا، جب تک اس میں ایک طرح کی مخصوص شخصیت کی نشوونما نہ ہو تو اس کے ذریعے ایک اعلی قسم کا ادب پیدا ہونا مشکل ترین امر ہے، جب تک کوئی فن کار اپنی شخصیت کو اپنے فن کے مابین ایک رشتہ قائم نہیں کر دیتا اور اپنی شخصیت کی لطیف خوشبو سے اس کو معطر نہیں کرسکتا ، اس وقت تک وہ اعلی ادب تخلیق نہیں کر سکتا، مثلا شاعر غزل میں محض اپنی ہی بات نہیں کرتا، بلکہ دوسروں کی بات اس انداز میں کرتا ہے گویا وہ اسی کی ہوں، دوران مطالعہ بارہا محسوس ہوگا کہ شاعر "ہم اور میں” اور "تم اور وہ” کتنی بار استعمال کرتا ہے ؟ حقیقتاً یہ سب ایک ہی شخصیت کے مختلف ورژن (Version) کے علاؤہ کچھ اور نہیں۔
شعر کی ظاہری ہیئت:
اس باب میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ شعر کی زبان الفاظ اس کی ہئیت کا سب سے اہم اور لازمی حصہ ہے، کیوں کہ الفاظ کا رد عمل سامع کے جذبات پر بھی ہوتا ہے اور احساسات اور تخیلات پر بھی، حالانکہ دیگر عناصر کا فوری اثر صرف قوت سامعہ پر ہوتا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی کی رائے مطابق شعر کا آہنگ زبان سے کم دیر پا اثر رکھتا ہے۔ کوئی لفظ یا استعارہ تخصیص کی آنکھ پر جنتا نگین عکس چھوڑ جاتا ہے وہ صرف آہنگ کے بس کی بات نہیں ۔ شاعری کی زبان عام ہونی چاہیے کہ ہر خاص و عام سمجھ سکے نیز شاعری بحر اور اوزان سے آزاد ہونا چائے، فاروقی لکھتے ہیں "کہ جدید شاعری کا پہلا فرض یہ ہے کہ رباعی کو رباعی کو 23 اوزان سے آزاد کرائے ”
(لفظ و معانی ص 52)
اردو وزن و آہنگ کے کچھ مسائل
اس باب میں اس بات سے بحث کی گئی ہے کہ اردو شاعری کے اوزان کس اعتبار سے متعین کئے گئے ہیں۔ پھر اس طریقہ تعین سے ان اوزان میں کس نوعیت کی پیچیدگی پیدا ہوئی اس کے بعد کن مسائل کا ظہور ہوا۔
اردو عروض کی اساس مقداری ہے، اور یہاں وزن کی معیارات طویل نہیں طویل تر ہیں۔ جسکے فائدے بھی ہیں نقصانات بھی، اس سے فائدہ یہ ہوا کہ اوزان میں ایک قسم کی ہم آہنگی و یکسانیت موجود ہے، جو کانوں کو بھلی معلوم ہوتی ہے اور شعر کہنے اور پڑھنے میں کافی حد تک آسانی محسوس ہوتی ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ اصل زبان میں آوازوں کا وزن کافی لچک دار ہے ۔ کہیں کہیں بات کرنے میں زیادہ زور صرف ہوتا ہے اور کہیں کہیں بہت آسانی سے بست سمجھ آجاتی ہے ۔
ترسیل کی ناکامی کا المیہ:
اس باب میں یہ بات باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ زندگی میں ہمیں بیشتر مقامات پر ترسیل کی ناکامی کا احساس ہوتا رہتا ہے۔ اور جزبہ ترسیل کے ذریعے ہی جزبہ شاعری و جزبہ ابلاغ پروان چڑھتا ہے۔
جب ایک شاعر اپنے زمانے سے ہم آہنگ ہوتا ہے تو وہ اس زمانے اور اپنے ہم عصروں کی فکر اور مزاج سے خود کو الگ نہیں کر سکتا، جن باتوں کے بارے میں ہمارا گمان ہوتا ہے کہ ہم انھیں سمجھ رہے ہیں، در حقیقت ہم ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتے تب ہی ترسیل ناکام ہوتی ہے تو ابلاغ بھی ناکام ہو جاتا ہے۔
شعر کا ابلاغ:
اس باب میں یہ سمجھانے کوشش کی گئی ہے کہ ابلاغ شعر کی آخری منزل ہے۔ ابلاغ وہ عمل ہے جو شعر پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن میں واقع ہوتا ہے۔ جب شعر کو پڑھ کر وہ ان تجربات وکیفیات کا کسی نہ کسی حد تک احاطہ کر لیتا ہے ، جنھوں نے اس شعر کو جنم دیا تھا ، تو اسے ابلاغ حاصل ہو گیا۔ دوسری طرف ، ابلاغ صحت کے اس درجہ (Degree) کا نام ہے جس درجہ تک شاعر کی مجرد پسندی نے لفظی ترسیل کی صورت اختیار کی ہے۔ غور سے دیکھئے تو دونوں کیفیتیں تقریباً ایک ہی ہیں۔ کیوں کہ خود شاعر شعر کو اسی حد تک سمجھ سکتا ہے جس حد تک وہ الفاظ کے اندر محدود ہے۔
شعر کی داخلی ہیئت:
اس باب میں اس بات کا تجزیہ کیا گیا ہے کہ ہر فن پارے کی دو ہئیتیں ہوتی ہیں۔ خارجی اور داخلی ,داخلی ہیئت فن پارہ کے موضوع اور فن پارے کی خارجی شکل وصورت میں کوئی فرق نہیں کرتی۔ موضوع تجربہ ہے اور فن پارہ موضوع کا ماحصل achieved content یعنی تجربہ کا وہ حصہ جو نظم یا کہ یا کسی اور فن پارے کی شکل میں ظاہر ہوا۔ اس موضوع اور تجربہ کے درمیان تکنیک یا خارجی هئیت ایک باہمی رشتے کی پامالیوں کا کام کرتی ہے۔ یعنی موضوع وہی ہے جو ہئیت بن کر ظاہر ہوا ، اور ہیئت وہی ہے جو فنکار نے محسوس کی ہو۔
نئی شاعری ایک امتحان:
اس باب میں نئی شاعری سے متعلق سوالات قائم کئے ہیں مثلاً نئی شاعری سے آپ کیا مراد لیتے ہیں ؟ نئی اور پرانی شاعری کے درمیان کیا بنیادی فرق ہے اور کیا نئی شاعری ترقی پسند شاعری سے مختلف ہے؟ کیا نئی شاعری آج کی نت نئی تہذیبی ، علمی، ذہنی افق اور معاشرتی اور نفسیاتی پس منظر میں عصری شعور و احساس کی ذمہداری مکمل کر رہی ہے؟ کیا نئی شاعری کے لئے اظہار کافی ہے ؟ نئی شاعری اپنے مافی الضمیر کو قارئین تک پہونچانے میں کہاں تک کامیاب ہے؟ اور قارئین اور ناقدین نے اس کے مافی الضمیر تک پہونچنے کی کوئی کوشش کی یا نہیں ؟ اور کیا خود جدید شعرا نے قارئین تک اپنا مافی الضمیر پہونچانے کی کوئی کوشش کی یا نہیں
اس طرح کے سوالات کے نہایت ہی شرح بسط کے ساتھ جواب بھی دئے گئے ہیں ۔
مغرب میں جدیدیت کی روایت:
اس باب میں اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ کیا کبھی مغربی ادیب یا نقاد کو ان مسائل کا سامنا کرنا پڑا جن سے ہم آج دو چار ہیں؟
وہاں نہ کبھی جدیدت نام کی کوئی تحریک اٹھی اور نہ ہی کبھی کسی نئے لکھنے والے کی تضحیک کی گئی۔ مغرب میں جدیدیت کے تصور پر کسی بحث کی ضرورت ہی نہ تھی، کیوں کہ یہ سب کو معلوم تھا کہ ہر عہد اپنے نظریات کی تشکیل خود ہی کرے گا۔
ٹی ایس ایلیٹ شاعر اور مصلح:
اس باب میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ مشہور شاعر و نقاد ایلیٹ جس سے اختلاف بھی کیا گیا اور آئندہ بھی کیا جاتا رہے گا لیکن اس کے نظریات اور مشاہدات سے انکار قطعا ممکن نہیں۔
ایلیٹ ادب کے کئی گوشوں پر ایک طاقتور کی حیثیت رکھتا ہے، وہ خود بھی شاعر تھا اور شاعر کو معاشرے کا مصلح مانتا تھا، اس نے نظموں میں طبع آزمائی اور ڈرامے بھی لکھے، ایلیٹ نے تنقید پر بھی اتنی ہی بحث کی ہے جتنی کہ اس نے شاعری پر کی، بقول شمس الرحمن فاروقی: "الیٹ کے ڈرامے کی طرح اس کی تنقید بھی مستقل میں مطالعہ کی مستحق اور منتظر ہے”.
سید خواجہ میر درد:
اس باب میں خواجہ میر درد کی شاعری کے صوفیانہ عناصر کا جائزہ لیا گیا ہے، نیز جابجا اقبال اور آتش جیسے شعرا سے ادبی و فنی موازنہ بھی کیا گیا ہے اور غالب اور درد دونوں کی ذہنی ساخت کو مجموعی طور پر عقلی رومانیت intellectual romanticism کا نام دیا ہے۔
نئی غزل:
اس باب میں اردو غزل کے ارتقائی سفر کا نئے تجربات اور مشاہدات کو مدنظر رکھتے ہوئے جائزہ لیا گیا ہے نیز اس بات کو بھی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ نئی غزل کو دراصل نئے الفاظ کی تلاش ہے تاکہ نئے تجربات کو شامل کیا جاسکے یہ تجربات کافی نئے ہیں اتنے نئے کہ پچھلے سو برسوں میں کسی شاعر نے اس نوعیت کے تجربات کو اپنی غزل میں شاید و بائد ہی شامل کیا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی کی تمام تنقیدی نگارشات میں منظم طریقے سے جدیدیت کا انداز فکر اور رجحان نمایاں ہے۔ ویسے فاروقی بھی ادب کا اصل موضوع زندگی کو تسلیم کرتے ہیں مگر ان کا نظریہ زندگی ترقی پسند ناقدین سے بالکل منحرف ہے۔ فاروقی کے یہاں زندگی ”کل کی صورت میں ایک لامحدود شے ہے جس کا مکمل احاطہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں. لفظ و معنی کتاب ان کے تنقیدی نظریات کو سمجھنے اور برتنے کے لئے کافی معاون ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page