اردو فکشن کی تاریخ میں سعادت حسن منٹو کا نام تعارف کا محتاج نہیں۔’انگارے‘ کی اشاعت سے اردو فکشن میں جو دور رس تبدیلیاں ہوئی تھیں وہ منٹو کے یہاں ملتی ہیں۔ کلاسیکل بورژوا اخلاقیات کے ڈھانچے کا انہدام ہو یا جنسی مسائل اور تکنیک کی سطح پر شعور کی رو اور داخلی خود کلامی کے تجربات کی پیش کش، منٹو کی افسانہ نگاری کا مطالعہ کرتے وقت یہ تمام چیزیں سامنے آتی ہیں۔منٹو نے اپنے گہرے مشاہدے، تخلیقی زر خیزی اوروسیع تجربے سے اردو فکشن کو متمول بنایا ہے۔اس نے اپنی بصیرت،ژرف نگاہی،انسانی نفسیات کی باریکیوں اور پیچیدگیوں کے شعور وادراک سے اردو فکشن کو ایک نئی سمت و جہت سے آشنا کیا۔جنس اور جسم فروش طوائفوں کا موضوع اردو فکشن میں پہلے بھی برتا گیا ہے۔مثال کے طور پر پریم چند کے آخری دور کی کہانیاں ’نئی بیوی‘ اور’مس پدما‘میں جنس کو فکر کا محور بنایا گیا ہے لیکن جنس کے موضوع کا ذکر برائے نام ہی تھا۔اسی طرح جسم فروشی کا موضوع سرفراز حسین عزمی دہلوی،مرزا رسوا، قاضی عبدالغفار اور پریم چند کے یہاں اظہار پا چکا تھالیکن ’انگارے‘ نے شجر ممنوعہ سمجھے جانے موضوعات کو جس طرح واشگاف انداز میں پیش کیا اس نے فکشن کی دنیا میں ایک نئی طرح ڈال دی۔ انجمن پنجاب نے اردو شاعری میں جس طرح موضوعاتی شاعری کی راہ ہموار کی تھی ٹھیک اسی طرح انگارے کی اشاعت نے فکشن نگاروں کے لیے شجر ممنوعہ سمجھنے جانے والے موضوعات کو اپنی تخلیقات میں جگہ دینے لیے ایک قوی محرک کا کام کیا۔ انگارے نے ان موضوعات کو فکشن کے اؒصل دھارے میں جگہ دی اور منٹو نے اس کی توثیق و تصدیق اس انداز میں کی ان کی طرف نگاہیں اٹھنے لگیں۔منٹو نے انگارے کی بے باک روایت سے کسب فیض کیا اورصرف اخذ و استفادے تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ اسے اعتبار و استناد کی منزل سے بھی ہمکنار کرایا۔ (یہ بھی پڑھیں کھول دو- سعادت حسن منٹو)
منٹو کے افسانوں کی تعداد دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک زر خیز تخلیقی ذہن کے مالک تھے۔ان کے افسانوں کی تعداد دوسو سے متجاوز ہے جن میں زندگی کی مختلف و متنوع جہات سمٹی نظر آتی ہیں۔ان کے افسانو ں میں جنس اور جسم فروشی کے مسائل کے علاوہ تقسیم و فسادات کے واقعات بھی شامل ہیں۔ کئی ایسے افسانے بھی ہیں جہاں جنس فکر کے مرکز میں ہے لیکن غور کرنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ ان افسانوں میں جنس کے علاوہ شخصیت کی دوسری تہیں اور جتہیں بھی کھل کر سامنے آتی ہیں وارث علوی نے بجا طور پر لکھا۔
”طوائفوں پر اس کی جتنی کہانیاں ہیں ہم انہیں جنسی کہانیاں نہیں کہہ سکتے۔حالانکہ جنس طوائف کی زندگی اور کردار کا حاوی جز اور پیشہ ہے لیکن ان افسانوں کے مرکز میں یاتو مامتا کا جذبہ ہے یا بے بسی اور تنہائی کا یا بے لوث خدمت گذاری کا یا پھر طوائف کے کردار میں ایسے پہلوؤں کی آئینہ داری ہے جو اس کی انسانیت اور نسائیت کو اجاگر کرتی ہے۔ان افسانوں میں دلچسپی کا مرکز جنس نہیں بلکہ دوسرے نفسیاتی اور اخلاقی عوامل ہیں۔“۱
’آتش پارے‘سے لے کر ان کے دیگر افسانوی مجموعوں تک رنگا رنگ کہانیوں کا ایک سلسلہ ہے جو منٹو کے بے مثل مشاہدے،وسیع تجربے اور انسانی رشتوں کی گہری آگہی کی داستان بیان کرتا ہے۔لیکن بایں ہمہ یہ بھی صداقت ہے کہ ان کی شہرت میں کچھ خاص افسانوں کا رول بہت اہم رہا ہے مثلاًدھواں،ٹھنڈا گوشت،کھول دو،کالی شلوار،بو وغیرہ ایسے ہی افسانے ہیں جنہوں نے ان کی شہرت کو بام عروج تک پہنچادیا۔ لیکن ان کے کئی افسانے ایسے بھی ہیں جن میں جنس یا جسم فروشی کا موضوع فکر کا محور نہیں بنا ہے اس کے باوصف وہ افسانے فنی اعتبار سے کامل ہیں مثال کے طور پر ٹوبہ ٹیک سنگھ،نیا قانون وغیرہ۔ان افسانوں کی پوری فضا سیاسی و سماجی شعور وآگہی سے معمور ہے جو اس بات کی مظہرہے کہ افسانہ نگار گر چہ اعلی تعلیم یافتہ نہیں اور نہ ہی اس کے پاس کسی باوقار یونیورسٹی کی اعزازی ڈگری ہے لیکن اس نے زندگی کی کتاب کو بہت باریکی سے پڑھا ہے۔ اس کے خد وخال اور نشیب و فراز کو اپنی تخلیقی بنت کا ناگزیر حصہ بنایا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں ٹوبہ ٹیک سنگھ-سعادت حسن منٹو)
منٹو کی افسانہ نگاری کی تفہیم کے عمل میں ہمیں دو تین امور کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے۔پہلی بات یہ کہ منٹو کا یقین ہے کہ انسان کی جبلت اور اس میں موجود حیاتیاتی قوت اس کے جملہ سماجی و اخلاقی دباؤاور قد غن کے مصنوعی پن کو چیلنج کرتی ہے اور آدمی اپنی جبلی قوتوں پر خارجی دباؤ کے قدغن استعمال کر کے خلاف فطرت کام کا مرتکب ہوتا ہے۔ خلاف فطرت کام میں انسان کی شکست طے ہے جو اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ جبلی قوت کے آگے ہم کتنے بے بس اور لاچار ہیں۔’سوراج کے لیے‘ ’تقی کاتب‘ ’کتاب کا خلا صہ‘’پڑھئے کلمہ‘ وغیرہ ایسے ہی افسانے ہیں جہاں آدمی کا خارجی اصول،ماحول،اس کا ارادہ،شعور و ادراک اس کی جبلی قوت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن باطنی قوت کے آگے ان خارجی عوامل کی دھار کند ہوجاتی ہے اور انسان کی باطنی قوت اسے مغلوب کردیتی ہے۔ ان کے کردار خلاف فطرت کاموں میں مصروف ہیں اور بالآخر شکست ان خارجی اصولوں کی ہی ہوتی ہے جو جبلی قوت کو چیلنچ کرتے ہیں۔
’تقی کاتب‘ میں تقی کے والد ایک دیندار اور پرہیز گار آدمی ہیں۔بیوی کی وفات کے بعد بچوں کی پرورش کے لیے اپنے خواہشات کی قربانی دی اور شادی نہیں کی لیکن یہ اخلاقی لبادہ اور سماجی قدغن کا مصنوعی پن اس وقت بے نقاب ہوجاتا ہے جب تقی کے والد اپنے بیٹے کی بیوی میں نازیبا دلچسپی لینے لگتے ہیں۔دوسری طرف ’کتاب کا خلاصہ‘ کی ’بملا‘ااسکول کے ماسٹر صاحب کی(یعنی) اپنے باپ کی زیادتی کا شکار ہوتی ہے۔لالہ ہری چرن سماج میں ایک معزز پیشے سے منسلک شخص ہے لیکن شادی نہ کرنے کا فیصلہ تا کہ بچی کی پرورش میں کسی طرح کی کوئی کمی نہ رہ جائے اس وقت کھوکھلا معلوم ہوتا ہے جب نالے میں پڑامردہ بچے کے بارے میں معلوم ہوتاہے کہ یہ بملا کے باپ ماسٹر صاحب کا بچہ ہے جو تعلقِ حرمین سے پیدا ہوا ہے۔’بد تمیز‘ بھی ایسا ہی افسانہ ہے جہاں ایک انقلابی خاتون عشرت جہاں اپنی ازدواجی زندگی پر سیاسی و نظریاتی پہرہ لگائے رکھتی ہے لیکن وہ بندھن بھی ایک دن منٹو کے گھر میں ٹوٹ جاتا ہے جو جبلی قوت کے آگے سماجی بندش کی شکست کے ساتھ ساتھ اس کا بھی اشارہ ہے کہ انسان کی فطری جبلت جب اپنا نکاس چاہتی ہے تو اسے مقام کی پرواہ نہیں ہوتی۔ وارث علوی نے درست لکھا ہے:
”ہم جتنا سمجھتے ہیں اس سے کہیں زیادہ جنسی طاقت کے سامنے کمزور ہیں اورہم جتنا جانتے ہیں اس سے کہیں زیادہ انسانوں کی باطنی زندگی میں جنس کی کارفرمائی ہے“۲
منٹو کے افسانہ نگاری کی دوسری اہم بات یہ کہ تمام انسانی تعلقات کی اساس عورت مرد کا رشتہ ہے اور دوسرے رشتوں کے سوتے بھی اسی ایک رشتے سے پھوٹتے ہیں جو زندگی کو پیہم رواں دواں رکھتے ہیں۔ا ن کے بیشتر افسانوں کو دیکھ جائیں آپ کو نظر آئے گا کہ خواہ طوائف یا جسم فروشی کا موضوع ہو یا جنسی نابلوغیت یا تقسیم و فساد ات کا موضوع کسی نہ کسی نہج اور زاویہ سے عورت اور مرد کے رشتے کا بیان ان کے افسانے میں آ ہی جاتا ہے۔تیسری بات یہ کہ وہ مامتا کے جذبے کو اس کی تقدیس و طہار ت کی وجہ سے اعلی ترین جذبہ خیال کرتے ہیں اور مرد کے لیے اس سے محرومی کو اس کی شخصیت کی تکمیل میں ایک کمی اور خلا مانتے ہیں۔ان کے کئی افسانے مامتا کے جذبے کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔ان کے افسانے’ممی‘’فوبھا بھائی‘وغیرہ اس جذبے کی عکاس کہانیاں ہیں۔
منٹو کے افسانے کرداروں کے بجائے پلاٹ اور تھیم کے اردگرد گردش کرتے ہیں۔ کچھ افسانے ایسے بھی ہیں جن میں انہوں نے سرگرم اور فعال کردارخلق کیے ہیں۔ بابو گوپی ناتھ، موذیل،سوگندھی،بشن سنگھ، منگو کوچوان وغیرہ ایسے ہیں کردار ہیں جو اپنی سرگرمی اور فعالیت کی وجہ سے قاری کے دلوں پر گہرا نقش چھوڑتے ہیں۔ افسانوں میں یہ کردار حرکت وعمل کا استعارہ بن گئے ہیں لیکن منٹو کے افسانوں کی مجموعی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں تامل نہیں ہوتا کہ وہ ایک ایسے افسانہ نگار ہیں جو کہانی اور تھیم کو فوقیت دیتے ہیں۔منٹو کی اس ترجیح کی وجہ سے ان کی کہانیوں کے پلاٹ بہت چست اور گٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔وہ اختصار کے ساتھ جامعیت کا دامن تھامے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔وہ افسانے میں تفصیلات کو نظر انداز نہیں کرتے لیکن تفصیلات بھی اتنی ہی جتنی کہ واقعہ کو آگے بڑھانے میں ممدو معاون ثابت ہوسکیں۔ اس لیے ان کی افسانہ نگاری کا ایک خاص وصف گٹھا ہوا پلاٹ ہے۔پلاٹ چست اور گٹھا ہو اس کے لیے صرف وہی تفصیلات ضروری ہوتی ہیں جو تھیم کو آگے بڑھانے میں مد د دیں نیا قانون، ٹھنڈا گوشت، کھول دو، ٹوبہ ٹیک سنگھ،کالی شلوار، بو،دھواں وغیرہ ایسے ہی کامیاب افسانوی فن پارے ہیں جن کے پلاٹ گٹھے اور چست ہیں۔منٹو کا یہ ہنر ان کی ایک خاص عادت میں پنہاں ہے اور وہ ہے کفایت شعاری۔منٹو الفاظ کے استعمال میں کفایت شعاری سے کام لیتے ہیں جو ان کے پلاٹ کو بدنظمی سے بچا لے جاتی ہے۔افسانہ نگار کی حیثیت سے منٹو کی یہ خوبی یقیناً انہیں ایک منفرد اورممتاز مقام عطا کرتی ہے۔ منٹو کے یہاں الفاظ کی کفایت شعاری کے متعلق محمد حسن عسکری لکھتے ہیں۔
” یوں تو منٹو نے کبھی غیر ضروری الفا ظ استعما ل نہیں کیے۔لیکن اب ان افسانوں میں منٹو کی توجہ اس بات پرمرکوز نظر آتی ہے کہ انداز بیان میں زیادہ سے زیادہ اختصار کے ساتھ زیادہ سے زیادہ جامعیت ہو، کیفیات وواردات کی باریکیاں بھی شامل ہوں اور زور بیان بھی ہاتھ سے جانے نہ پائے جن تفصیلات سے افسانہ ایک ٹھوس تجربہ بنتا ہے وہ بھی موجوداور تأثر کی وحدت بھی قائم رہے۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تجربات زیادہ بہتر اسلوب سے متعلق ہیں۔لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ جب منٹو اپنے تازہ ترین تجربات کوسمیت کر آئندہ بابو گوپی ناتھ،جیسا بھرپور افسانہ لکھیں تو اس نئے اسلوب بیان کی وجہ سے معنویت میں اضافہ ہوا“۳ (یہ بھی پڑھیں نیا قانون-سعادت حسن منٹو)
منٹو کہانی کہنے کے گر سے واقف ہیں۔اس لیے بہتر آغاز کے ساتھ وسط میں مختلف واقعات کی کڑیوں کو اس طرح مربوط کرتے ہیں کہ فطری انداز میں افسانے کا ایک ہیولا بن جاتا ہے۔بات سے بات نکال کر مو ضوع سے بہکے اور بھٹکے بنا کہانی کو اس کے منطقی انجام تک پہونچانا منٹو کا آرٹ ہے۔”منٹو نے ایک مباحثے کے دوران کہا تھا کہ ایک تأثر کا،خواہ کسی کا ہو اپنے اوپر مسلط کر کے اس انداز سے بیان کردینا کہ وہ سننے والے پر بھی وہی اثر کرے یہ افسانہ ہے۔ منٹو یہی عمل اپنے افسانوں اور کرداروں کے ساتھ کئے ہیں“۴۔ منٹو آغاز،وسط اور انجام ہر مقام پر جس فنکارانہ ہنرمندی اور خوش سلیقگی کا مظاہر ہ کرتے ہیں اس سے ان کی استادی کا قائل ہونا پڑتا ہے۔
افسانے میں جہاں اختصار کو بہت اہمیت حاصل ہے تاکہ تأثر کی وحدت مجروح نہ ہو وہاں آغاز کی اہمیت و وقعت مزید بڑھ جاتی ہے۔اگر افسانے کا آغاز مؤثر اور دلکش نہ ہو تو اسے پڑھنے کے لیے افسانہ نگار قاری کو آمادہ نہیں کرسکتا۔ افسانہ پڑھا جائے اس کے لیے یہ از حد ضروری ہے کہ اس کی ابتدا بہت اچھی ہو تاکہ قاری اس کے سحر میں گرفتا ر ہوجائے۔
منٹو ابتدا ہی سے اپنی سحر انگیزی سے قاری کے ہوش و حواس پر قابض ہوجاتے ہیں۔او ر مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے لیے طومار نہیں کھڑے کرتے بلکہ سیدھے سادے الفاظ اور سامنے کی باتوں سے ایسا سماں باندھتے ہیں کہ آدمی کے تحیر میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور مزید جاننے کی چاہت موجزن ہوجاتی ہے۔وہ قاری کے تجسس میں اضافہ کرتے ہیں۔مثال کے طور پر ’نیا قانون‘ کی یہ ابتدا ملاحظہ کیجئے۔
”منگو کوچوان اپنے اڈے پر بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔گو اس کی تعلیمی حیثیت صفر کے برابر تھی اور اس نے کبھی اسکول کا منھ بھی نہیں دیکھا تھا لیکن اس کے باوجود اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔اڈے کے وہ تمام کوچوان جن کو یہ جاننے خواہش ہونی تھی کہ دنیا کے اندر ہورہا ہے۔ استاد منگو کی وسیع معلومات سے اچھی طرح واقف تھے۔“۵
ابتدائی چند جملے پڑھتے ہی قاری مزید جاننے اور سمجھنے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ ہوجاتاہے اور پھر افسانہ نگارکے بنے ہوئے جال میں پھنستا چلا جاتا ہے۔منٹو کے افسانے ’پہچان‘ کی ابتدا ملاحظہ کریں
”ایک نہایت ہی تھرڈ کلاس ہوٹل میں دیسی وسکی کی بوتل ختم کرنے کے بعد طے ہوا کہ باہر گھوما جائے اور ایسی عورت کی تلاش کی جائے جو ہوٹل اور ہوٹل اور وسکی کے پیدا کردہ تکدّر کو دور کرسکے“۔
بلاؤز کی تمہید بھی دیکھیں
”کچھ دنوں سے مومن بہت بے قرارتھا۔اس کا وجود کچا پھوڑا سا بن گیا تھا۔ کام کرتے وقت باتیں کرتے ہوئے حتی کے سوچنے پر بھی ایک عجیب قسم کا درد محسوس ہوتا تھا۔ایسا درد جس کو اگر وہ بیان بھی کرنا چاہتا تو نہ کرسکتا“۔
منٹو افسانے کی ابتدا کہیں بالکل عام سی بات سے کرتے ہیں اور انوکھے انداز بیان کی وجہ سے قاری کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔’پہچان‘ کی ابتدا کچھ اسی طرح کی ہے وہ ہمیں چونکاتے نہیں ہیں لیکن ہمارے اندر یہ جاننے کی خواہش زور پکڑ لیتی ہے کہ آخر آگے کیا ہوا۔دوسری طرف’بلاؤز‘ کے کردار مومن سے ہمیں یک گونہ ہمدردی سی ہوجاتی ہے اور ہم اس کے درد میں خود کو شریک محسوس کرنے لگتے ہیں۔در اصل فن کا اصل کمال یہی ہے جو بن بتائے اور غیر محسوس طریقے پر آپ کو فنکار کے ساتھ اس کے فکری سفر پرروانہ کردیتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں موپاساں اور منٹو میں موضوعاتی یکسانیت – محمد ریحان )
آغاز ہی طرح منٹو کے افسانوں کا انجام بھی غیر متوقع اور تعجب خیز ہوتا ہے۔اور یہ تعجب خیزی اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب افسانہ جنسی نفسیات کے ارد گرد گردش کرتا نظر آتاہے۔وہ افسانے کا اختتام ایسے موڑ پر کرتے ہیں جہاں سے سوچ کی مختلف اور متنوع لہریں جنم لیتی ہیں۔افسانوں کے ایسے اختتام پر قاری چونک پڑتا ہے اور پھر بیک وقت مختلف خیالات و افکار کی یلغار شروع ہوجاتی ہے۔ یہاں محض دو ایک مثالوں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔’کھول دو‘منٹوکے اعلی ترین افسانوں میں سے ایک ہے جس کی کہانی تقسیم اور فسادسے متعلق ہے۔ رضاکار گروپ نے سکینہ کے ساتھ جو انسانیت سوز کام کیاوہ انتہائی مایوس کن لیکن تلخ حقیقت ہے۔رضاکار گروپ کے ہاتھوں سکینہ اتنی بار نشانہ بنی ہے کہ ڈاکٹر کے کہنے’کھول دو‘پر غیر دانستہ طور پر اس کے ہاتھ اپنے ازاربند کی طرف جاتے ہیں۔ڈاکٹر کھڑکی کھولنے کے لیے کہتا ہے باپ سراج بیٹی کے زندہ ہونے پرخوش ہوتا ہے لیکن دوسرے ہی لمحے دونوں کی پیشانی پر پسینہ آجاتاہے۔ صرف لفظ ’کھول دو‘ تین مختلف لوگوں کے لیے تین الگ الگ معانی کا حامل نظر آتا ہے۔منٹو یہاں پر دنیا کے بڑے بڑے فنکاروں کا ہم پلہ قرار پاتا ہے جب وہ قاری کے سامنے سو چ کی ان گنت لہریں چھوڑ جاتا ہے۔ اور پھر سوچنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ یہ کام کسی معمولی آدمی کا نہیں بلکہ ایسے آدمی کا ہے جو کہانی کہنے کے گر سے نہ صرف واقف ہے بلکہ اس کے اثر و تاثیر میں شدت کے معیاروں سے آگاہ ہے۔ منٹوکے دوا ور افسانوں کے اختتامیے پر غور کریں۔
’نیا قانون‘کا یہ اختتامیہ دیکھیں
”استاد منگو کو پولیس کے سپاہی تھانے لے گئے۔ راستے میں اور تھانے کے اندر وہ ’نیا قانون‘ ’نیا قانون‘ چلاتا رہا مگر کسی نے نہ سنی۔’نیا قانون، نیا قانون کیا بک رہے ہو۔قانون وہی ہے پرانا“ اور اس کو حوالات میں بند کردیا گیا“
’ہتک‘ کی سوگندھی ہم سے اس طرح رخصت ہوتی ہے۔
”بہت دیر تک وہ بید کی کرسی پر بیٹھی رہی،سوچ بچار کے بعد بھی جب اس کو اپنا دل پرچانے کا کوئی طریقہ نہ ملا تو اس نے اپنے خارش زدہ کتے کو گود میں اٹھا یا اور ساگوان کے چوڑے پلنگ پر اسے پہلو میں لٹا کر سوگئی“۔
منٹو کے دونوں افسانوں نیا قانون اور ہتک کے اختتامیے کو بغور دیکھیں تودو الگ الگ واقعات نظر آتے ہیں۔یہ دونوں خاتمے اپنی انتہائی شکل میں ہمارے جذبات و خیالات میں زبردست تموج پیدا کرتے ہیں۔سوگندھی جو اپنی نفی ذات کے المیے سے دوچار ہے اس نے انسان کے مقابلے ایک خارش زدہ کتے کو زیادہ قابل اعتبار سمجھا،منگو کوچوان کے لیے سپاہی کا جملہ ’قانون وہی پرانا ہے‘ ایک خواب کی شکست ہے۔ برابری و مساوات کے خواب کی شکست۔یہ جملہ منگو کوچوان کے خوابوں کے لیے تازیانہ ہے۔
قاری کے ذہن و دماغ کو اپنے گرفت میں رکھنے کے لیے منٹو ایسے شعری وسائل کا استعمال کرتے ہیں جو نادر تشبیہات و استعارات سے عبارت ہیں۔اس سلسلے میں منٹو کے افسانے ’بغیر عنوان کے‘ سے یہ مثال دیکھیے۔
”وہ اس کی چال کو غور سے دیکھتا رہا۔جس میں ٹیڑھا پن تھا۔ ویسا ہی ٹیڑھا پن جیسا کہ برسات کے موسم میں چارپائی میں کان کے باعث ہوجایا کرتا ہے۔“
ایک دوسری مثال دیکھیں۔
”اس انداز سے اس نے راجو کو اپنے دماغ سے جھٹکا دیا، جیسے کسی گھوڑے نے اپنے جسم سے تما م مکھیاں ایک ہی جھرجھری کے ذریعے سے اڑادی ہیں۔“
”دور بہت دور جہاں سمندر اورآسمان گھل مل رہے تھے،بڑی بڑی لہریں آہستہ آہستہ اٹھ رہی تھیں اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک بہت بڑا گدلے رنگ کا قالین ہے جسے ادھر ادھر سے سمیٹا جارہا ہے“۔
اچھی اور مؤثر تحریر کی خصوصیات کے لیے فاؤلر نے اپنی کتاب کنگز انگلش میں کچھ قواعد و ضوابط بتائے ہیں۔
۱۔ عام فہم اور جانے پہچانے الفاظ کو غیر مانوس اور دورافتادہ الفاظ پرترجیح دینا
۲۔ واضح اور ٹھوس الفاظ کو غیر واضح اور مبہم الفاظ پر ترجیح دینا
۳۔ایک واحد لفظ کو گھما پھرا کر بیان کرنے والے بہت سے الفاظ پر ترجیح دینا
۴۔ چھوٹے چھوٹے الفاظ کو موٹے موٹے اور بھاری بھرکم الفاظ پر ترجیح دینا
منٹو زبان و بیان کی ان باریکیوں سے اچھی طرح واقف نظر آتے ہیں۔
منٹو کے افسانوی زبان و بیان کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتاہے کہ وہ مندرجہ بالا اصول و ضوابط سے پوری طرح آگاہ تھے اور اپنی تحریروں میں اس کا التزام بھی کرتے تھے۔منٹو کے معاصرین افسانہ نگار بھی منٹو کی زبان اور اسلوب بیان کے سلسلے میں ان کی مہارت کو تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ منٹو کے خاکے میں کرشن چندر نے درست لکھا ہے:
”تھوڑے عرصے ہی کے بعد منٹو نے اپنا طرز انشا اختراع کرلیا جو اسی کا ہے۔عباس،اشک،عصمت اور کرشن چندر کے بہترین نقال مل جائیں گے لیکن منٹو اور کسی حدتک بیدی کے طرز انشا کو آج تک کوئی نہ اپنا سکا۔اردو ادب میں ایک ہی منٹو ہے۔“۶
راجندر سنگھ بیدی بھی منٹو کی زبان و بیان کے سلسلے میں لکھتے ہیں:
”میں منٹو کو واحد ایسا ادیب اور فنکار سمجھتا ہوں جس میں فن اور زبان کا برابر کا امتزاج ہے۔“ ۷
منٹو کی افسانہ نگاری کی دیگر خوبیوں اور کمالات سے قطع نظر یہ خوبی بھی بہت اہم ہے کہ وہ آدمی کو اس کے خاص سیاسی و سماجی پس منظر میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ریڈیو سے لے کر فلمی دنیا تک،ممبئی،دلی اور ہجر ت کے بعد پاکستان میں بھی لاہو ر اور کراچی جیسے پررونق شہروں میں قیام کے دوران زندگی جتنی رنگا رنگ اور بو قلمونی کے ساتھ ان کے سامنے آئی وہ خاصے کی چیز ہے۔تجربات و مشاہدات کا یہ پھیلا ؤ ان کے افسانے کے دائرہ کو بھی وسیع سے وسیع تر کرتے ہیں۔ان کے افسانوں میں لوگوں کی ریل پیل ہے،سڑکیں،کوٹھے،بازارمیں گھر اور آنگن کی چہل پہل ہے، شادی کے ہنگامے ہیں،نکڑ اور چوراہوں کی ہما ہمی ہے، سیاسی جلوس،دنگے اور فسادات ہیں کرداروں کی طبقاتی، سماجی،مذہبی اور پیشہ ورانہ مشغولیات و مصروفیات ہیں۔
منٹوکی پوری زندگی ایسے علاقوں میں گزری جس کو دیہی زندگی سے کوئی علاقہ نہیں۔ہندوستان اور پاکستان دونوں مقامات پر وہ وہاں کے پررونق اور بھاگ دوڑ کی زندگی والے شہروں میں رہے۔شہروں کی زندگی کے آداب انہیں فطری طورپر ملے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے بیشتر افسانوں میں شہری اور متمدن دنیا کی جھلک کے ساتھ ساتھ وہاں کے نچلے طبقے کے لوگوں کی زندگی کی تفصیل ملتی دکھائی دیتی ہے۔ان کا فن ان کی ہنرمندی اور موضوعات کے بیان میں خوش سلیقگی اور شہری و متمدن معاشروں کی عکاسی سے عبارت ہے۔انہوں نے دیہی زندگی سے متعلق بھی افسانے تحریر کیے مثال کے طور پر صاحب کرامات، حافظ حسن دین،کبوتروں والا سائیں، شاہ دولے کا چوہا، ہرنام کوراور یزید وغیرہ۔ان کہانیوں میں انہوں نے پنجاب کے گاؤں کی فضا کو چابکدستی سے پیش کیا ہے۔ لیکن ان کا اصل جوہر انھی افسانوں میں کھلتا ہے جن کی فضا اور جن کا ماحول مدنیت پر مبنی ہو۔شہروں کے فلک بوس عمارتیں ہی نہیں بلکہ یہاں کی جھگی جھونپڑیاں بھی ان کی فکر کا محور و مرکز رہی ہیں۔اور ان جھونپڑیوں میں پنپنے والے رشتوں کا بھی بیان ہے۔
وہ افسانوں میں وہی لسانی محاورے اور زبان کے وہی ساختیے استعمال کرتے ہیں جو شہری و صنعتی زندگی کی دھوپ چھاؤں سے عبارت ہیں۔’ننگی آوازیں‘ منٹو کی ایک ایسی ہی کہانی ہے جس میں انہوں نے شہری زندگی میں جگہ کی کمی اور اس میں جنسی محرومی سے پیدا ہونے والے نفسیاتی مسئلہ کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔بھولو کا ہوش وحواس کھو بیٹھنا اس کی جنسی نا آسودگی کا براہ راست نتیجہ ہے۔اس سے یہ بھی آشکار ہوتا ہے کہ جسمانی ضروریات کی عد م تکمیل سے کبھی کبھی انسان ذہنی تواز ن کھو بیٹھتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں صنف افسانہ اور اس کا آغاز و ارتقا – ڈاکٹر احمد علی جوہر )
منٹو نے اپنے افسانوں کے لیے شہر ی فضا اور ماحول کو منتخب کیا ہے۔موضوع خواہ کوئی ہو،جنس،جسم فروشی،نابلوغیت کی نفسیات،عورت کے مختلف روپوں کی نفسیات،انسان کی نفسیات ان کے مشاہدات وتجربات کا اظہار ہر جگہ ہوا ہے۔ شہر میں رہنے والے آدمی کی نظر سے ان موضوعات کو پرکھنے اور دیکھنے کا ان کا فن ہمیں انسانی نفسیات کی تہوں اور اس کی مختلف جہتوں سے واقف کراتا ہے۔ وہ سماج کے اعلا سے اعلا اور ادنا سے ادنا طبقے کی نفسیات کی باریکیوں اورپیچیدگیوں کو بڑی خوبی سے بیان کرتے ہیں۔اسی لیے اطہر پرویز کی یہ بات مناسب معلوم ہوتی ہے:
”یہ سعادت بہت کم زبانوں کو حاصل ہے کہ اس کے افسانے کے ابتدائی دور میں ہی متعدد بڑے قد آور افسانہ نگار سامنے آئے۔یہ اردو زبان کی خوش قسمتی ہے کہ پریم چند کے بعد کرشن چندر،منٹو،عصمت چغتائی،راجندر سنگھ بیدی،احمد ندیم قاسمی،حیات اللہ انصاری اور ممتاز مفتی جیسے افسانہ نگار وں نے عظیم افسانے تخلیق کئے جو دنیا کے بہترین افسانوں میں شمار کئے جاسکتے ہیں“۔۸
حواشی:
۱۔منٹو ایک مطالعہ،وارث علوی ۷۶،اشاعت ۷۹۹۱ء وجے پبلیشرز گولا مارکیٹ دریا گنج نئی دلی
۲۔منٹو ایک مطالعہ وارث علوی،ص ۶۷
۳۔تخلیقی عمل اور اسلوب،محمد حسن عسکری بحوالہ منٹو ایک مطالعہ وارث علوی ص ۲۲۔۱۲
۴۔منٹوکے نمائندہ افسانے،پیش لفظ،مرتبہ،اطہر پرویز ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڈھ سن اشاعت ۱۰۰۲ء
۵۔منٹوکے نمائندہ افسانے،مرتبہ،اطہر پرویز ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڈھ سن اشاعت ۱۰۰۲ء
۶۔’منٹو نامہ،جگدیش چندرودھاون،جگدیش چندر ودھاون،ایم اے مکر جی نگر،۹۸۹۱،ص ۳۰۳
۷۔’منٹو نامہ،جگدیش چندرودھاون،جگدیش چندر ودھاون،ایم اے مکر جی نگر،۹۸۹۱،ص ۳۰۳
۸۔منٹوکے نمائندہ افسانے،مرتبہ،اطہر پرویز ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڈھ سن اشاعت ۱۰۰۲ ص ۳
ڈاکٹر نوشاد عالم
اکادمی برائے فروغِ استعداد ِ اردو میڈیم اساتذہ
جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی۔۵۲
موبائل نمبر:09971260657
ای میل:naushadalam1@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |