معاشرہ خاندان سے بنتا ہے جو کہ روز ازل سے ہی فرد و بشر کے طرز رہن سے ہم آہنگ ہے۔ فرد و بشر کا یہ سماج دن و رات اور ماہ و سال کی منظم آمدورفت کے تحت زندگی کی شاہراہ پر گامزن ہے جہاں فرحت و انبساط کے ساتھ رنج و الم کی بہتات بھی زندگی کا اہم حصہ رہی ہے۔
یہ سچ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر کائنات کی تمام تر چیزیں اس کے لئے مسخر کردیں مگر ساتھ ہی اسے کچھ حدود و قیود کا پابند بھی کردیا تاکہ انسان اپنی حد بشریت سے نکل کر معبود بننے کا دعوٰی نہ کر سکے اور تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی انسان نے ان حدود کو پھلانگنے کی کوشش کی تو حزن و یاس اس کی حیات فانی کا حصہ بنا ۔
خوشی و مسرت سے پرے رنج و غم کا سایہ جب بھی انسانی سروں پر منڈلایا تو انسان نے اپنے کرتوتوں پر نظر ثانی کرنے کے بجائے کبھی کسی فرد کو اس کا ذمہ دار قرار دیا تو کبھی ماہ و سال کو مورد الزام ٹھہرایا جب کہ قرآنی فرمان انسانی اعمال کو اس کا موجب گردانتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:” ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس” ۔( الروم :41)
ترجمہ: خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہو گیا لوگوں کے اپنے اعمال کی بنا پر۔
معاشرے میں نحوست و بدشگونی سے پر مانا جانے والا اسلامی مہینہ ” صفر ” ہے جسے عوام الناس منحوس سمجھتے ہوئے اس مہینے میں کوئی بھی خیر و برکت والا کام مثلا شادی بیاہ، نئے کاروبار کا آغاز نیز سفر وغیرہ سے گریز کرتے ہیں جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے کیونکہ شب و روز کا ہر حصہ خیر و برکت سے مالا مال ہے مگر عربوں میں رائج محاورہ ” صفر المکان ” کے زیر اثر دور جدید کی نسل تمام تر ترقی کے باوجود انہی توہمات و بدشگونیوں سے گھری ہوئی ہے جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
ماہِ صفر کے متعلق نحوست والا عقیدہ پھیلانے کی خاطر دشمنانِ دین سرکارِ دو عالم کی جانب منسوب جھوٹی روایات پھیلانے جیسے مکروہ اور گھناؤنے افعال سے بھی باز نہیں آئے چنانچہ ایک موضوع حدیث : ’’مَنْ بَشَّرَنِیْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہٗ بِالْجَنَّۃِ ‘‘۔ ترجمہ:’’جو شخص مجھے صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوشخبری دے گا، میں اُسے جنت کی بشارت دوں گا‘‘ کا اس قدر شہرہ کیا کہ معاشرہ انسانی اس سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا۔
مندرجہ بالا روایت سے استدلال کرتے ہوئے صفر کے مہینے کو منحوس سمجھا جاتا ہے، اور طریقہ استدلال یہ ہے کہ چونکہ اس مہینہ میں نحوست تھی، اس لئے سرکار ِدوعالم نے اس مہینے کے سلامتی کے ساتھ گذرنے پر جنت کی خوشخبری دی ہے۔ یہیں سے باطل عقائد و نظریات کا آغاز ہوتا ہے جب کہ یہ حدیث صحیح و معتبر نہیں ہے، بلکہ موضوع اور لوگوں کی گھڑی ہوئی ہے۔اس کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے، چنانچہ ائمہ حدیث نے اس من گھڑت حدیث کے موضوع ہونے کو واضح کرتے ہوئے اس عقیدے کے باطل ہونے کو بیان کیا ہے، ان ائمہ میں ملا علی قاریؒ، علامہ عجلونیؒ،علامہ شوکانیؒ اور علامہ طاہر پٹنی رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں۔
( تفصیل کے لئے دیکھئے ” الأسرار المرفوعۃ فی الأخبار الموضوعۃ المعروف بالموضوعات الکبریٰ،حرف الميم،رقم الحدیث: ۴۳۷،۲؍۳۲۴، المکتب الإسلامی) اور( کشف الخفاء و مزیل الإلباس، حرف المیم،رقم الحدیث:۲۴۱۸، ۲؍۵۳۸،مکتبۃ العلم الحدیث ) اور( الفوائد المجموعۃ فی الأحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للشوکانیؒ،کتاب الفضائل، أحادیث الأدعیۃ والعبادات فی الشھور، رقم الحدیث:۱۲۶۰، ص:۵۴۵، نزارمصطفیٰ الباز، مکۃ المکرمۃ) اور (تذکرۃ الموضوعات للفتنی،ص:۱۱۶،کتب خانہ مجیدیہ، ملتان) وغیرہ۔
بغائر نظر مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبیّ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیائے فانی میں تشریف لائے تو دنیا جاہلیت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی۔اور کئی طرح کے توہمات اور وساوس میں مبتلا تھی۔ زمانہ جاہلیت کے انہی باطل خیالات اور رسومات میں سے صفر کا اعتقاد بھی ہے۔ صفرکے متعلق ان کا گمان تھا کہ ہر انسان کے پیٹ میں ایک سانپ ہوتا ہے، جب پیٹ خالی ہوتواور بھوک لگی ہو تو وہ سانپ کاٹتا ہے اور تکلیف پہنچاتا ہے،اسکے علاوہ کئی لوگ صفر کے مہینے کے بارے میں بد فال لیتے تھے کہ اس میں بکثرت مصیبتیں نازل ہوتی ہیں۔ ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ بلادِ ہند میں اس طور پر مشہور ہے کہ اس دن خصوصیت سے نفلی روزہ رکھا جاتا ہے اور شام کو کچوری یا حلوہ پکا کر کھایا جاتا ہے،عوام اس کو ’’کچوری روزہ‘‘ یا ’’پیر کا روزہ‘‘ کہتے ہیں۔
علاوہ ازیں ماہِ صفر کے آخری بدھ کو ایک مخصوص طریقے سے ایک نماز بھی ادا کی جاتی ہے، جس کی ادائیگی کا ایک مخصوص طریقہ بیان کیا جاتا ہے،وہ یہ کہ ماہِ صفر کے آخری بدھ دو رکعت نماز، چاشت کے وقت، اس طرح ادا کی جائے کہ پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد ’’قل اللّٰھم مالک الملک‘‘ والی دو آیتیں پڑھیں اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد ’’قل ادعوا اللّٰہ أو ادعوا الرحمن‘‘ والی دو آیتیں پڑھیں اور سلام پھیرنے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں اور ان الفاظ سے دعا کریں ’’اللّٰھم اصرِف عنِّی شرَّ ھذا الیومِ واعصِمْنِی شُؤمَہ واجْعَلْہ علَیَّ رحمۃً وبرکۃً وجنِّبْنِی عَمّا أخافُ فیہ من نُحوساتہ وکرباتہ بفضلک یا دافعَ الشرور، ویا مالکَ النشور، یا أرحمَ الراحمین۔
(مجموعۃ رسائل اللکنوی،’’الآثار المرفوعۃ فی الأخبار الموضوعۃ ، علامہ عبد الحئ اللکنوی رحمہ اللہ)
مذکورہ مروجہ نماز اسی توہم کے پیش نظر ادا کی جاتی ہے کہ اس ماہ میں نازل ہونے والے شر سے بچا جا سکے۔
اسی طرح صفر کے آخری چہار شنبہ کو اکثر عوام خوشی و سرور وغیرہ میں اطعام ُ الطعام کرتے ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ ماہِ صفرکے آخری بدھ کو نبی کریم کو مرض سے شفاء ہوئی تھی، اس خوشی میں کھانا پکانے کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ ماہِ صفر میں خیرات کرنے کا ایک خاص طریقہ رائج ہے، عوام الناس کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ کی صحت یابی کی خوشی میں کی تھی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ صفر کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی ابتدا ہوئی تھی ۔ اور بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ یہ خیرات یہودیوں نے حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی خوشی میں کی تھی اور مسلمانوں میں یہ رسم [وہاں سے] منتقل ہوگئی ہے۔
بہت سے توہم پرست لوگ اس مہینے میں شادی نہیں کرتے،چنے ابال کر محلے میں بانٹتے ہیں تاکہ ہماری بلائیں دوسروں کی طرف چلی جائیں ،آٹے کی 365 گولیاں بنا کر تالابوں میں ڈالتے ہیں تاکہ ہماری مصیبتیں دفع ہوجائیں۔ رزق کے لیے 311 مرتبہ سورۃ مزمل پڑھنا،اس مہینے کو مردوں کے لیے بھاری سمجھنا اور اس کی تیرہ تاریخ کو منحوس سمجھنا آج بہت سے توہم پرستوں کا وتیرہ بن چکا ہے جب کہ اسلام نے واضح کیا کہ جیسے اعمال ہوں گے۔ویسے ہی نتائج نکلیں گےکوئی لمحہ کوئی دن،کوئی وقت ہمارے لیے منحوس نہیں ، البتہ ہماری بد اعمالیاں ہمارے لیے ضرور منحوس ثابت ہوتی ہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام تر بد فالیوں اور باطل عقائد کا سد باب کر دیا ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ” "لا عدوی ولاصفر ولامۃ”[بخاری کتاب طب باب لا صفر وھو یاخز البطن رقم ھامۃ ۵۸۱۷]
ترجمہ : اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر) ایک شخص کی بیماری ، دوسرے کو (خود بخود)لگ جانے(کا عقیدہ) ماہِ صفر (میں نحوست ہونے کا عقیدہ) اور (ایک مخصوص) پرندے کی بد شگونی (کا عقیدہ) سب بے حقیقت باتیں ہیں۔
ماہ صفر سے متعلق یہ بدشگونی کی مخالفت اس بات سے ہوتی ہے کہ اسی مہینے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مسلمانوں کو فتح خیبر سے سر فراز کیا گیا نیز اسی مہینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح بھی کیا۔
للہ تعالی کا فرمان ہے” قل لَّآ أَمْلِكُ لِنَفْسِى نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ ٱلْغَيْبَ لَٱسْتَكْثَرْتُ مِنَ ٱلْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِىَ ٱلسُّوٓءُ ۚ إِنْ أَنَا۠ إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍۢ يُؤْمِنُونَ( الأعراف:188)
آپّ کہیے کہ میں تو اپنے نفع و نقصان کا مالک بھی نہیں سوائے اس کے جو اللہ چاہے،اور اگر میرے پاس غیب کا علم ہوتا تو بہت ساری بھلائیاں اکٹھی کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی ،میں تو صرف ڈرانے والا اور خو شخبری دینےوالا ہوں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں۔
صفر وہ مہینہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کی عبادت کے علاوہ نہ کوئی خاص عبادت کی نہ ہی ہمیں کرنے کا حکم دیا اور نہ کسی خاص آفت و بلا سے بچنے کے لیے آگاہ کیا ۔ توہمات اور بد شگونی جو اس ماہ سے منسوب کیے جاتے ہیں ان کی کوئی اصل نہیں ،اس ماہ سے متعلق عربوں کے ہاں جو غلط نظریات پائے جاتے تھے اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عرب حرمت کی وجہ سےتین ماہ ذوالقعدہ ،ذوالحجہ۔ محرم،میں جنگ و جدل سے دور رہتے اور حرمت کے مہینوں کے ختم ہونے کے انتظار میں رہتے لہذا صفر شروع ہوتے ہی وہ لوٹ مار رہزنی اور جنگ و جدل کے ارادے سے جب گھروں سے نکلتے،تو ان کے نتیجے میں ان کے گھر خالی رہ جاتے یوں عربی میں یہ محاورہ صفر المکان”[ گھر کا خالی ہونا] معروف ہو گیا ۔
مشہور تاریخ دان سخاوی نے اپنی کتاب "المشہور فی اسماء الایام والمشہور میں ماہ صفر کی وجہ تسمیہ یہ لکھی ہے۔”عربوں نے جب یہ دیکھا کہ اس مہینے میں لوگ قتل ہوجاتے ہیں اور گھر برباد یا خالی ہوتے ہیں تو انہوں نے اس سے یہ شگون لیا کہ یہ مہینہ ہمارے لیے منحوس ہے۔ انہوں نے بربادی اور ویرانی کی اصل وجہ پہ غور نہیں کیا، نہ ہی اپنے عمل کے نتیجے کا احساس کیا”۔ تفسير ابن کثیر بتحقیق عبد الرزاق المہدی :3/347)
جبکہ نحوست کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے: وَكُلَّ إِنسَٰنٍ أَلْزَمْنَٰهُ طَٰٓئِرَهُۥ فِى عُنُقِهِۦ ۖ وَنُخْرِجُ لَهُۥ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ كِتَٰبًا يَلْقَىٰهُ مَنشُورًا( الاسراء: 13)
ترجمہ: اور ہم نے ہر انسان کا شگون اس کے گلے میں لٹکا رکھا ہے اور قیامت کے روز ہم ایک کتاب اس کے لیے نکالیں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا ۔
اور دوسری جگہ اللہ تعالی فرماتا ہے: مَّآ أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍۢ فَمِنَ ٱللَّهِ ۖ وَمَآ أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍۢ فَمِن نَّفْسِكَ ۚ وَأَرْسَلْنَٰكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا ۚ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ شھیدا” ( النساء: 79)
"بھلائی جو تمہیں پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو برائی تمہیں پہنچے تو وہ تمہارے نفس کی طرف سے ہے،
نیز اللہ تعالی فرماتا ہے٫ قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ( التوبہ: 51)
؛کہہ دیجئے کہ ہمیں ہرگز کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے ہمارے حق میں لکھ رکھی ہے،وہی ہمارا کارساز ہے اور مومنوں کو تو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے،
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور اس بات پہ یقین کرلو کہ اگر پوری امت جمع ہوکرتمہیں نفع پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہے اور اگر پوری امت مل کر تمہیں نقصان پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہے”۔ ( مسند أحمد و جامع ترمذی)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "بد شگونی شرک ہے بد شگونی شرک ہے ۔تین بار فرمایا اور ہم میں سے کوئی ایسا نہیں [اسے وہم ہوجاتا ہو] لیکن اللہ تعالی توکل کی وجہ سے اسے دور کردیتا ہے- (رواه أبو داود والترمذي وابن ماجه وأحمد)
اہل کتاب بھی جب دین کی اصل تعلیمات سے دورہوگئے تو اس طرح کے شگون لینے لگے جن کا ذکر قرآن مجید میں یوں کیا گیا ہے: أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ أُوتُواْ نَصِيبًا مِّنَ ٱلْكِتَٰبِ يُؤْمِنُونَ بِٱلْجِبْتِ وَٱلطَّٰغُوتِ۔۔۔۔۔۔ ( النساء: 51)
ترجمہ: کیا تم نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا وہ جبت اور طاغوت پہ ایمان لاتے ہیں۔
جبت بے حقیقت ،بے اصل،بے فائدہ چیز کو کہتے ہیں ۔چونکہ شگون کی بھی کوئی اصل بنیاد اور حقیقت نہیں ہوتی اس لیے اسلام میں ایسی تمام چیزیں جبت کے تحت آتی ہیں،جیسے کہانت،فالگیری،شگون اور توہمات ان سے منع کیا گیا ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعودسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس شخص کو بد شگونی کسی کام سے روک دے تو یقینا اس نے شرک کیا۔ عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی بتحقیق سلیم الہلالی :1/344،ح :293 والصحیحۃ للالبانی :3/53،ح: 1065و مسند احمد بتحقیق شعیب ورفقائہ : 11/623 ، ح:7045 ۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جہاں پہلی قوموں کا تذکرہ کیا ہے کہ وہاں کئی اقوام کے بارے میں یہ بتایا ہے کہ وہ اپنے انبیاء سے بد شگونی لیتے تھے اور جب کوئی مصیبت نازل ہوتی تو وہ کہتے کہ اسی نبی کی وجہ سے آئی ہے ،مثلا موسی کی قوم کے بارے میں بتایا:
وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوا بِمُوسَى وَمَنْ مَعَهُ“ ”جب ان کو کوئی برائی پہنچتی تو وہ موسی علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو منحوس قرار دیتے“۔ (سورۃ الاعراف :131)
مومن کے شایان شان یہ بات نہیں ہے کہ وہ نقصان ہونے کی صورت میں کسی سے بد شگونی لے ،یا کسی کو منحوس قرار دے جیسا کہ بعض لوگ ستاروں کے ذریعے سے فال نکالتے ہیں مثلا کسی کے بارے میں یہ کہنا کہ تمہارا ستارہ گردش میں ہے اسلیے تم جو کاروبار اب شروع کروگے اس میں خسارہ ہوگا ،اگر تم شادی کروگے تو اس میں برکت نہیں ہوگی۔ اسی طرح بہت سے لوگ کسی کی آمدورفت کو خوشی و مسرت یا رنج و الم سے تعبیر کرتے ہیں چنانچہ ہم اپنے معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کی آمد کو خوش آئند مانا جاتا ہے جبکہ بعض کی آمد کو نحوست کا نام دیا جاتا ہے جب کسی گھر میں کسی نئے فرد کا داخلہ ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض لوگ کسی انسان یا بلی کے بارے میں یہ تصور کرتے ہیں کہ اگر ان کا سامنا ہوگیا تو تمام کام نحوست کی نذر ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ۔
اس ضمن میں اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے شمار روایات ثابت ہیں جو توہم پرستی و بدشگونی کے خاتمے کا اعلان کرتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
ترجمہ: جاہلیت کے کاموں میں سے چار کام میری امت میں ایسے ہونگے جنہیں وہ چھوڑنے پر تیار نہیں ہونگے،حسب،کی بناء پہ فخر کرنا،کسی کے نسب میں طعنہ زنی کرنا،ستاروں کے ذریعے قسمت کے احوال معلوم کرنا[یا ستاروں کے ذریعے بارش طلب کرنا] اور نوحہ کرنا” [ مسلم:الجنائز باب التشدید فی النیاحۃ: ۹۳۴]
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ شخص ہم میں سے نہیں جو بد شگونی لے یا جس کے لیے بد شگونی لی جائے۔یا جو [علم نجوم کے ذریعے] کہانت کرے یا جس کے لیے کہانت کی جائے۔یا جو جادو کرے یا جس کے لیے جادو کا عمل کیا جائے۔[السلسلۃ الصحیحۃ:۲۱۹۵]
اور آپّ کا ارشاد گرامی ہے:جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس جائے اور اس سے کسی چیز کے متعلق سوال کرے تو اسکی چالیس راتوں کی نماز قبول نہیں کی جاتی۔
[مسلم:۲۲۳،صحیح الجامع للالبانی:۵۹۴۰]
کاہن کے پاس آپّ نے جانے کے بارے میں فرمایا: جو شخص کسی کاہن کے پاس جائے اور اس کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کرئے تو اسنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہ اتارے گئے دین الہی کا کفر کیا۔{ صحیح الجامع للالبانی:۵۹۳۹
مذکورہ بالا آیات و احادیث سے بدشگونی کی حرمت واضح ہوجاتی ہے اور بیشتر مصائب و آلام انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں یا بعض رنج و الم سے بندہ اس لئے دوچار ہوتا ہے تاکہ وہ اللہ سے تقرب حاصل کرلے مگرعموما انسان یہ سمجھتا ہے کہ نحوست باہر سے آئی ہے چناچہ وہ کبھی کسی انسان کو کبھی کسی جانور کو ،کبھی کسی عدد کو اور کبھی کسی مہینے کو منحوس قرار دینے لگتے ہیں۔
انتہائی شد و مد سے بد شگونی کی حرمت کے دلائل کے باوجود آج ہمارا معاشرہ توہمات و وساوس کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے جو ہمارے لئے نہایت افسوس کی بات ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ شب و روز اور ماہ و سال اللہ تعالٰی کے بنائے ہوئے منظم قوانین کے تحت سرگرداں ہیں اور ماہ صفر بھی انہی مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے جو نہ مصائب و آلام کے دروازے کھولتا ہے اور نہ ہی کسی خاص خوشی و مسرت کا حامل ہوتا ہے بلکہ رحمت و زحمت انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں یا بعض دفعہ بلندئ درجات کا موجب ہوتی ہیں لہذا خوشی و غم کو کسی ماہ و سال یا شخص سے منسوب کرنا بے بنیاد اور از روئے شریعت حرام ہے کیونکہ بدشگونی کو شرک سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ہمیں تمام خرافات و بدعات سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page