بہرائچ کے مشہور و معروف شاعر سید ساغر ؔمہدی اپنی کتاب تحریر و تحلیل میں حکیم محمد اظہر وارثی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’ چند اطباء شہر(بہرائچ) کی تاریخ میں بڑے بڑے نامور نباض اور حاذق گذرے جن میں حکیم ننھے نواب، حکیم مرتضیٰ حسین ، حکیم سیداحمد حسن، حکیم فضل احمد،حکیم عبد القدیرخاں،حکیم صفدر علی وارثی کے نام آج بھی لوگوں کے حافظوں کی رونق ہیں۔‘‘(تحریر و تحلیل ص ۱۲۸)
ان نامور حکیموں کے سلسلے کی اگے کی کڑی میں حکیم عبد الرؤف خاں جوہرؔ وارثی،حکیم عبد الباری کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم نام حکیم محمد سلیمان صدیقی کا بھی تھا جو اپنی طبی ،قومی اور علمی خدمات کی وجہ سے اپنا ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔جنکا ذکر یہاں کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حکیم حافظ محمد سلیمان صدیقی کی ولادت ۱۹ مارچ ۱۹۱۳ء کاغذی محال کرنیل گنج کانپور میں ہوئی۔آپ کے والد کا سیف اللہ تھا۔آپ کا آبائی وطن قنوج تھا۔جہاں سے کانپور آپ کے دادا آئے اور کانپور میں سکونت اختیار کی ۔کانپور میں ہی تعلیم حاصل کی۔
حکیم صاحب نے طبی تعلیم مکمل کی اور ۱۹۴۰ ء میں بورڈ آف انڈین میڈی سن صوبہ متحدہ سے آپ کو حکیم کے طور پر منظوری ملی اور ہوموپتھیک بورڈ آف میڈی سن اتر پردیش سے ۱۹۵۸ کو منظوری ملی ،اس طرح آپ یونانی اور ہوموپیتھک طریقہ سے لوگوں کا علاج کرتے رہے۔ ۱۹۴۲ ء میں حکیم سلیمان صاحبنے بہرائچ ہجرت کی اور شہر کے محلہ چھایا کنواں ناظرپورہ میں سکونت اختیار کی اور وہیں مطب کر لیا ۔یہیں آپ کی شادی ۱۹۴۶ء میں مسماۃ بدرالنساء بنت عبد النعیم جیلر ساکن محلہ چندن گڑھیا شیخاپورہ بہرائچ سے ہوئی۔ آپ کی اولاد وں میں چار صاحبزدایاں دو صاحبزدایوں کا کم عمری میں انتقال ہو گیا اور دو صاحبزادے محمد فیضان صدیقی (زوجہ بشریٰ فیضی بنت خلیل احمد ضلع اعظم گڑھ) اور ذیشان بن سلیمان ( زوجہ فرزانہ بنت ڈاکٹر ضیاالدین ضیاؔ بہرائچی محلہ بڑی ہاٹ بہرائچ) اور داماد جبریل امین صدیقی حجازی ؔابن مولانا عبد الشکور صدیقی دورؔبیتناروی، ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی ابن محمد شفیع خاں پٹوراری (سیکریڑی جماعت اسلامی ہند) ہیں۔آپ کی ایک پسرزادی ڈاکٹر ندیم سحر عنبرین بنت محمد فیضان صدیقی جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں شعبہ اسلامیات میں اسسٹنٹ پروفیسر(گیسٹ) ہیں ،آپ کے شوہر ڈاکٹر محمد تحسین زماں بھی شعبہ اسلامیات سے وابستہ
ہیں۔حکیم سیلمان صدیقی نےبہرائچ آنے سے قبل مسجد درگاہ حاجی علیؒ بمبئی میں ایک مرتبہ شبینہ کی نماز پڑھائی ۔جہاں پہلی ہی رکعت میں دو پارے پڑھ دیئے ،لوگوں نے بیچ میں متعددبار لقمہ دیئے لیکن آپ نے رکوع نہیں کیا ،تب آپ کے ایک ساتھی نے نیت توڑ کر آپ کے استاد(نام نا معلوم ہو سکا) سے جا کر کہاکہ سلیمان لقمہ نہیں لے رہے ہیں اس وقت آپ کے استاد وضو کر کے آئے اور نماز میں شامل ہو گئے اور لقمہ دیا ۔حکیم صاحب نے جب استاد کی آواز سن کر لقمہ لیا اور رکوع کیا۔بہرائچ میں بھی آپ نے محلہ قاضی پورہ کی کئی مساجد میں فاطمہ مسجد قاضی پورہ ، کٹہل والی مسجد قاضی پورہ میں امامت و تراویح کے فرائض انجام د ئےبغیر کسی اجرت کے۔اس کے علاوہ اکثر مسجد مسلم مسافر خا نہ قاضی پورہ میں بھی امامت کی۔ آپ سید ابو اعلیٰ موددی ؒبانی جماعت اسلامی ہند سے متاثر تھے اور جماعت اسلامی سے وابسطہ تھے۔آپ نے۱۹۴۸ء میں بہرائچ میں جماعت اسلامی ہند کی شاخ ضلع جماعت اسلامی بہرائچ کی بنیاد ڈالی اور ۱۹۴۸ء میں جماعت کے بہرائچ میں بانی اراکین میں خود حکیم سلیمان صدیقی ،حاجی شمیم بیگ اور سعد اللہ خاں شامل تھے۔حکیم صاحب جماعت کے بانی امیر منتخب ہوئے۔ان تینوں افراد میں صرف اب سعد اللہ خاں صاحب بقید حیات ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں مشاہیر بہرائچ کا اجمالی تعارف – جنید احمد نور )
حکیم صاحب اور ایمرجنسی
۲۵ جون ۱۹۷۵کی رات کو وزیر اعظم اندرا گاندھی نےملک میں ایمرجنسی کا اعلان کیا ۔ اس اعلان کے ساتھ ہی حکومت مخالف تمام سیاسی اور غیر سیاسی تنظمیوں سے وابسطہ افراد کو حکومت کے ذریعہ جیل میں قید کیا جانے لگا تھا۔ان غیر سیاسی تنظمیوں میں جماعت اسلامی ہند بھی تھی جس سے وابسطہ افراد کو ملک بھر سے حراست میں لیا گیا تھا۔جماعت اسلامی ہند کی نمائندگی یہاں بہرائچ میں حکیم صاحب ،حاجی مرزا شمیم بیگ اور سعد اللہ خاں صاحب کرتے تھے۔حکیم صاحب کے صاحبزادے فیضان صاحب بتاتے ہیں :
ایمرجنسی کا اعلان رات میں ہو ا تھا۔اگلے دن بعد نماز فجر والد صاحب (حکیم جی)حسب معمول تلاوت قرآن شریف کر رہے تھے۔اس روز ہلکی بارش بھی ہو رہی تھی اسی وقت کوتوالی شہر داروغہسچان سنگھ آپ کے گھرآئے اور دروازے پر دستک دی ،میں باہر آیا اور پوچھا کیسے آنا ہوا؟اس نے والد صاحب کے بارے میں میں پوچھا اور کہا کہ ملاقات کرنی ہے۔میں نے مطب کھول کر داروغہ کو بیٹھا دیا اور اندر چلا گیا اور والد صاحب سے بتایا کہ داروغہ سچان سنگھ آئے ہیں ملنا چاہتے ہیں۔
تھوڑی دیر بعد حکیم صاحب مطب میں آئے اور داروغہ سے پوچھا کہ کیسےآنا ہوا،داروغہ سچان سنگھ نے کہا کہ ا یس پی صاحب نے بلایا ہے ۔ تب حکیم صاحب نے پوچھا سچ بتاؤ کس مقصد سے آئے ہو جھوٹ مت کہو ،داروغہ پھر یہ کہا کوئی بات نہیں ہے بس بلایا ہے۔ اس کے بعدداروغہ نے مرزاشمیم بیگ اور سعد اللہ خاں کے بارے میں پوچھا، تب آپ نے اپنے صاحبزادے فیضان صاحب کو دونوں حضرات کو بلانے کے لئے بھیجا اور وہ دونوں افراد بھی حکیم صاحب کے یہاں آ گئے ،ضرورت کے تحت جب سعد اللہ خاں صاحب حکیم صاحب کے گھر سے جانے لگے تب داروغہ نے روکنے کی کوشش کی اس پر سعد اللہ صاحب نے جواب دیا کہ
’’میں نہ آپ کے بلانے پر آیا ہوں اور نہ میںآپ سے پوچھ کر جاریا ہوں، اپنے امیر کے بلانے سے آیا تھا اور ان کی اجازت سے جا رہا ہوں‘‘
کچھ دیربعدسعد اللہ صاحب واپس آئے اور داروغہ سچان سنگھ تینوں افراد کو پولس لائن لے گئے،جہاں رات سے ہی آر ایس ایس ،جن سنگھ اوردیگر سیاسی پارٹیوں کے رہنما موجود تھے،اس کے بعد بہرائچ کے قرب و جوار سےجماعت کے کارکنان بھی یہاں لائے گے ۔اس کے بعد سب کو بسوں میں بیٹھا کر ڈی۔ایم آفس سے سب کے کاغذات بنوائے اور سب کو ضلع جیل بہرائچ می ںمنتقل کر دیا ۔اسی رات میں پولس حکیم صاحب کے گھر پر تلاشی کے لئےآئی تب آپ کے بڑے صاحبزادے نے پولس سے تلاشی وارنٹ مانگا لیکن پولس کے پاس تلاشی ورانٹ نہ ہونے کی وجہ آپ کے گھر والوں نے پولس والوں سے کہاکہ دن میں اور تلاشی وارنٹ کے ساتھ آئیں لیکن پولس نے گھر کے باہری کمرے کو جو کہ مطب تھا کو جماعت اسلامی کے دفتر کے نام پر سیل کر دیا ۔ لیکن دوبارہ پولس نہیں آئی۔۱۹۷۷ء میں مقدمہ ختم ہونے کے بعد مطب کی سیل ختم کی گئی۔ہائی کورٹ لکھنؤ سے ضمانت ہوئی۔اس وقتڈی آئی آر میں جن افراد کی ضمانتیں منظور ہو جاتی تھیں ان پر میسا لگا دیا جاتا تھا جس سے انکی رہائی نہیں ہو پاتی تھی۔آپ اور آپ کے ساتھوں کی ضمانت کے کاغذات داخل کرنے سےپہلے معلوم ہوا کہ تمام افراد کے میسا کے کاغذات بن رہے ہیں اس لئے کچھ دنوں کے لئے کاغذات داخل نہیں کئے اور کچھ عرصہ بعد ضمانت کے کاغذات جمع ہوئے۔آپ کے ضامنداروں میں رحمت علی بکسے والے مقبرہ علاوہ خاں اور ممتاز احمد میکرانی ہوٹل والے چھاونی شامل تھے۔ اس طرح تقریباً ۱۰ ماہ تک جیل میں رہے اور تینوں افراد کی ضمانت اپریل ۱۹۷۶ء میں ہوئی۔۱۹۷۷ء میں سی جی ایم عدالت بہرائچ سے باعزت بری ہوئے۔جنتا پارٹی کی حکومت بننے کے بعدسبھی سیاسی قیدیوں کو مجاہد جمہوریہ کی سند ملی۔ اتر پردیش کی سماج وادی پارٹی کی حکومت میں جن افراد نے وظیفہ یابی کا فارم بھرا ان سب کو آج بھی حکومت کی جانب سے وظیفہ مل رہا ہے لیکن حکیم صاحب نے نہ ہی فارم کو بھرا اور نہ ہی وظیفہ لیا۔(یہ بھی پڑھیں بہرائچ اردو ادب میں – جنید احمد نور )
حکیم اور اسلامک نرسری اسکول بہرائچ
آپ نے مسلم قوم میں عصری تعلیم کی کمی کو پورا کرنے اور مسلم بچوں کوعصری تعلیم دینی ماحول میں دینے کے مقصد سے ایک نرسری اسکول۱۹۷۰ ء -۱۹۷۲ءمیں ’’اسلامک نرسری اسکول‘‘ بہرائچ کے نام سے اپنے پڑوسی حاجی نور احمد صاحب چونے والے(راقم کے دادا) کے مکان کے بالائی حصہ میں بنیاد رکھی تھی۔اسلامک نرسری اسکول کے پہلے طا لب علم میرے چچا جناب معراج احمد صاحب تھے۔اس کے قیام کے بارے میں شہر کے مشہورمعالج اور ایک طویل عرصہ سے اسلامک نرسری اسکول کے منیجر ڈاکٹر عبد الرحمن خاں اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ اسلامک نرسری اسکول شہر بہرائچ کا اپنی نوعیت کا واحد تعلیمی ادارہ ہے جو آج سے قریباً بارہ سال قبل شہر کے چند مخلص اور ملی درد رکھنے والے مسلمانوں کے دل میں وقت کی اس اہم ضرورت کا احساس پیدا ہوا۔انہوں نے انتہائی بے سرو سامانی کی حالت میں بہ توکل علی اللہ ادارہ کو قائم کرنے کا عزم کیا۔ابتدائی سرمایہ چند مخلص احباب کے تعاون سے بہم ہوا،سرو سامان کا ر مہیا کیا گیا۔(ہفتہ واربہرائچ ٰٹائمز،جلد ا، شمارہ ۱۲، ۲۸ اپریل ۱۹۸۳ء)
کچھ سالوں بعد اس ادارے سے الگ ہو گئے ، آپ کےبڑے صاحبزادے محمد فیضان صدیقی صاحب نے مسلم مانٹیسری کے نام سے اسکول کی بنیاد رکھی جو خوب چلا بعد میں اس کی شاخیں اترولہ (ضلع بلرام پور ) اور بلرام پور شہرمیں بھی قائم ہوئی ۔بہرائچ اور اترولہ میں اسکول کچھ سالوں بعد بند ہوگیا ،لیکن شہر بلرام پور میں آج بھی خوب چل رہا ہے جس کو اب آپ کے چھوٹے صاحبزادے محترم ذیشان بن سلیمان صاحب بخوبی چلار ہے ہیں۔
ادب سے تعلق
آپ اردو شاعری میں بھی دلچسپی رکھتے تھے اور حافظ ؔ تخلص سے شاعری بھی کرتے تھے۔لیکن کبھی عوامی طور پر شاعری نہیں کی۔آپ کے صاحبزادے کے مطابق آپ کا کلام قلمی بیاض کی شکل میں محفوظ ہے۔ آپ کے قریبی احباب میں منشی سبط عباس،حاجی محمد اسحاق قریشی،حافظ عبد القدوس،مشہورشاعر شوق ؔ بہرائچی، سیدمحمودحسن وکیل،حکیم محمد اظہر ؔوارثی،حکیم جوہرؔ ،حکیم عبد القدیر خاں،حکیم عبد الباری،، حاجی سید سلیم احمد ،عبد الرحمٰن خاں وصفیؔ، محمد سعید خاں شفیقؔ بریلوی ڈاکٹر محمد نعیم اللہ خاں خیالیؔ،ماسٹر عبداللہ فاروقی ،ماسٹر محمد نذیرخاں صاحب، عبد الحفیظ انصاری وکیل ،عبرتؔ بہرائچی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
آپ نے ہمدرد کے شربت روح افزا کی طرز پر اپنا ایک شربت’’شربت سرور افزا ‘‘کے نام سے بنایا تھا جو اپنے وقت میں بہت مقبول رہا ۔ آپ کی حکمت سے جڑا ایک واقعہ ضلع اسپتال بہرائچ میں ایک اسٹور کیپر تھے انکے لڑکے یا بھتیجہ کو گولی لگ گئی تو وہ بجائے اسپتال جانے اور ڈاکٹر کو دیکھانے کے حکیم صاحب کے یہاں پہونچا اور حکیم صاحب نے اس بچے کا علاج کی اور کچھ دوائیں دی ایک ہفتہ بعد گولی جہاں لگی تھی اپنے آپ باہر آئی اور اسٹور کیپر صاحب نے وہ گولی لاکر حکیم صاحب کو دیکھائی۔
وفات
حکیم سلیمان صدیقی کی وفات۱۲؍ اپریل ۱۹۹۶ء محلہ قاضی پورہ جنوب میں واقع رہائش گاہ پر ہوا ۔آپ کی تدفین شہر کے مشہور قبرستان مولوی باغ بہرائچ میں ہوئی۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
2 comments
[…] فکر و عمل […]
[…] فکر و عمل […]