مصنفہ: منو بھنڈاری
ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی
منو بھنڈاری کامختصر تعارف
منو بھنڈاری (۲۰۲۱ء ۔۱۹۳۱ء)نئی کہانی آندولن کے زیر اثر لکھنے والے نمائندہ افسانہ نگاروں، کملیشور ،موہن راکیش ،نرمل ورما،راجندر یادو،کرشنا سوبتی ،بھیشم ساہنی،امر کانت،ہری شنکر پرسائی، راجی سیٹھ وغیرہ کے درمیان ایک خاص توجہ کی حامل رہی ہیں۔ان کا اصل نام مہندر کماری تھا ،لیکن اپنے قلمی نام ’’منو بھنڈاری ‘‘ سے ادبی دنیا میں مشہور ہوئیں ۔ان کی تعلیم کا آغاز مدھیہ پردیش میں مند سور ضلع کے بھان پورا گائوں میں ہوا ۔بعدہ کلکتہ یونیورسٹی سے بی۔اے اور بنارس ہندو یونیورسٹی ،بنارس سے ہندی میں ایم ۔اے کیا ۔پھر اس کے بعد بالی گنج شکچھا سدن ،کلکتہ ،رانی بر لا کالج ،کلکتہ اور دلی کے مرانڈا ہائوس میں درس و تدریس سے وابستہ رہیں ۔
منو بھنڈاری کو ادبی ذوق و شوق ورثے میں ملا تھا ،چونکہ ان کے والد سکھ سمپت رائے بھنڈاری ہندی زبان و ادب سے بے حد لگائو رکھنے والے واقع ہوئے تھے ،اور اپنے عہد میں بے حد مشہور بھی ۔منو بھنڈاری کے تخلیقی سفر کا باضا بطہ آغاز ۱۹۵۶ء میں لکھا گیا افسانہ ’’میں ہار گئی ‘‘ سے ہوتا ہے ۔یہ افسانہ بھیرو پرساد گپت کی زیر ادارت شائع ہونے والا ماہنامہ ’’کہانی‘‘ میں شائع ہوا تھا۔’’میں ہار گئی ‘‘ ’تین نگاہوں کی ایک تصویر‘‘ ’ یہی سچ ہے ‘‘ ’ ایک پلیٹ سیلاب ‘‘’ اور تری شنکو‘‘ ان کے قابل ذکر افسانوی مجموعے ہیں ۔منو بھنڈاری کے افسانوی موضوعات جن مسائل کے آس پاس رہے ہیں ،ان میں عورتوں کے مساویانہ حقوق،توہم پرستی،کھوکھلے رسم ورواج اور ان پر غیر ضروری پابندیاںاورنوجوان لڑکیوں کے جنسی اور نفسیاتی مسائل کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔اس کے علاوہ دیگر سیاسی اور سماجی موضوعات بھی ان کے افسانوں میں ہم دیکھ سکتے ہیں۔ منو بھنڈاری کی شناخت اس حوالے سے بھی مستحکم رہی ہے کہ وہ ہندی کے مقبول ترین فکشن نگار ،صحافی ،دانشور اور نئی ہندی کہانی کے بنیاد گزار راجندر یادو کی اہلیہ تھیں ،اور دونوں نے ساتھ مل کر ایک ناول ’’ایک انچ مسکان ‘‘ بھی لکھا، جو ۱۹۶۲ء میں شائع ہوا ۔ان کے علاوہ تین اور ناول منو بھنڈاری نے لکھے جو بالترتیب’’آپ کا بنٹی ‘‘۱۹۷۱ء’’مہا بھوج ‘‘ ۱۹۷۹ء اور ’’سوامی ‘‘ ۲۰۰۴ء میں منظر عام پر آئے ۔منو بھنڈاری کے متعدد افسانوں اور ناولوں پر فیچر فلم ،ٹیلی فلم اور سیریل بھی بن چکے ہیں ۔علاوہ ازیں ان کے افسانوں اور ناولوں کے تراجم مراٹھی ، بنگالی ، جاپانی ،اردو ،انگریزی ،جرمن اور فرنچ میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔منو بھنڈاری کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ہندوستان کے مختلف اداروں نے انعامات و اعزازات سے بھی نوازا تھا۔مجموعی طور پر منو بھنڈاری کا ادبی سفر بے حد کامیا ب اور تابناک تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آخر کار صبح تڑکے بابو نے اپنی آخری سانس لی ۔ویسے پچھلے آٹھ دس دن سے ڈاکٹر سکسینہ گھر والوں سے کہہ رہے تھے، ’’ پرارتھنا کیجئے ایشور سے کہ اب وہ انہیں اٹھا لے ۔۔۔۔ورنہ ایک بار اگر کینسر کے درد نے انگڑائی لی تویہ بالکل برداشت نہیں کر پائیں گے۔‘‘ ممکن ہے کہ گھر والوں کے ذہن میں بھی اس طرح کے خیالات پنپ رہے ہوں ،لیکن ظاہر ی طور پر سبھی افراد غمناک خاموشی اوڑھے کھڑے رہتے،بالکل خاموش! ایک ’دم‘توڑدینے والی خاموشی کے درمیان ڈاکٹر سکسینہ تسلی آمیز جملے کہتے ،’’ اگر سوچو تو اس سے زیادہ آرام دہ موت بھلا اور کیا ہو سکتی ہے؟ چاروں بچے سیٹل ہی نہیں ہوئے ،کتنا دھیان بھی رکھتے ہیں پتا کا ۔ورنہ آج کے زمانے میں تو ۔۔۔بہت قسمت سے ملتی ہے ایسا میل ملاپ والی جوائنٹ فیملی،جس کے آدھے سے زیادہ لوگ تو اسی شہر میں اپنی زندگی گزر بسر کر رہے ہیں اور اپنی ذمے داری بھی ادا کر رہے ہیں ،کہیں کوئی چوک نہیں۔کوئی کمی نہیں۔‘‘
گھر کے تمام افراد ان پریشان کن لمحے میںایک دوسرے کو تکتے رہے۔بالکل خاموش ! البتہ میرے جی میں آیا کہ انہیں جملوں میںیہ اضافہ بھی کر دوں کہ ’کتنوں کو ملتے ہیں آپ جیسے ڈاکٹر ،جو دوران علاج گھر کا حصہ بن گئے ۔۔۔بابوکے کے تیسرے بیٹے ۔۔پر کہا نہیں گیا ۔میں بھی پریوار والوںکے ساتھ خاموش کھڑی رہی ۔
’’ اور سب سے اہم بات تو یہ کہ کتنوں کو نصیب ہوتی ہے۔۔۔۔ ایسی خدمت گزار بیوی ۔میں تو ان کی خدمت گزاری دیکھ کر حیران ہوں ۔آخر عمر تو ان کی بھی ڈھل رہی ہے ۔باوجود اس کہ کہ گزشتہ آٹھ ماہ سے انہوں نے نہ دن کو دن جانا ،نہ رات کو رات ! بس مسلسل ۔۔۔‘‘ اور جملے کو ادھورا چھوڑ پلٹ کر جانے لگے ۔نہ جانے کیوں مجھے یہ احساس ہوا کہ پلٹتے ہی وہ امی کی خدمت گزاری کا یہ رویہ دیکھ کر جھنجھلا گئے ہوں ۔اور میں سوچتی رہی کہ چلو ،کم از کم ایک شخص تو ہے جس کے دلوں میں امی کی اس شب و روز کی محنت و محبت کا احترام باقی ہے ۔۔۔ورنہ اہل خانہ کا رویہ تو اس جانب سرد پڑتا جا رہاہے ۔۔ بس جیسے وہ کرتی ہیں،تو کرتی ہیں ۔ان کے اس عمل کو کسی نے فرض کے کھاتے میں ڈال دیا ،تو کسی نے ان کی فطرت قرار دیا اور کسی نے ان کے اس رویے کو شب و روز کا معمول کہہ دیا ۔سب کے دھیان کے محور پر رہے بیمار بابو ۔یہ فطری بھی تھا ۔۔۔مرض تھا بھی تو ایسا ۔۔یوں سمجھیے گویا موت کا پیغام ۔ہاں ! مجھے یہ فکر ہر لمحہ پریشان کر رہی تھی کہ وقت پر کھانے کی لا پروائی ،بغیر پوری نیند لیے اور آرام کیے بنا دن رات لگی رہتی ہیں ، تو کہیں وہ بیمار نہ پڑ جائیں ،ورنہ بابو کی دیکھ بھال اس انداز سے کون کرسکے گا؟بابو دن دن بھر ایک خاص تیل سے سینے پر مالش کرواتے ،تو پوری پوری رات پیر دبواتے تھے ۔میں سوچتی کیا بابو کو ایک بار بھی خیال نہیں آتا کہ اماں بھی تو تھک جاتی ہوں ۔انہیں بھی تو رات میں نیند کی ضرورت ہوتی ہو گی یا دن میں وقت پر کھانے کی ،پر نہیں ، بابو کے ذہن میں ان باتوں کا خیال تک نہیں آتاتھا ،ان کی نظر میںاپنی بیماری اور اپنی تیمارداری ہی سب سے اہم تھی اور بابو اس حالت میں اماں سے خدمت کروانا اپنا حق سمجھتے تھے، تو اس طرح خدمت کرنا اماں کا فرض تھا۔ کئی بار اماں کو تھوڑی راحت دینے کے ارادے سے میں ہی کہتی کہ ’’بابو ،لائیے میں کر دیتی ہوں مالش۔۔۔۔چار بج رہے ہیں۔ اماں کھانا کھانے چلی جائیں۔تو بابو میرا ہاتھ جھٹک کر کہتے ،رہنے دے۔ ،نہیں کروانی مجھے مالش ۔اس تلخ جواب کے ساتھ ہی ان کی پیشانی پر ابھرتی سلوٹوں کو دیکھ کر پھر اماں کے ہاتھ رکتے ،نہ پیر ۔اسکے بعد تو میں نے بھی یہ کہنا چھوڑ ہی دیا ۔
تین مہینے پہلے بابو کو جب نرسنگ ہوم شفٹ کیا گیا توکچھ وقت کے لیے میں نے راحت محسوس کی ۔سوچا ،یہاں ان کی دیکھ بھال کا تھوڑا بوجھ نرس بھی اٹھایا کریں گی ۔اماں کو کچھ وقت راحت تو ملے گی ۔پر نہیں،یہ سارے خیالات میرے ذہن تک سمٹ کر رہ گئے۔نرس سے بابو صرف دوائی اور بی پی چیک کرواتے ۔دیگر ذمے داریاں معمول کی طر ح اماں نبھاتی رہیں ۔اماں رات دن بابو کے ساتھ نرسنگ ہوم میں رہتیں ۔مالش اور پیر دبانے کا کام بھی اسی انداز سے چلتا رہا ۔ہاں ! ڈاکٹر سکسینہ کی خصوصی سفارش پر رات میں کوئی ضرورت آن پڑے تو گھر کا کوئی ایک فر د وہاں موجود رہتا ۔
گزشتہ شب قریب نو بجے ہم سبھی کھانا کھا کر اٹھے ہی تھے کہ فون کی گھنٹی بجی ۔میں نے فون اٹھایا تو اس پار بڑے چچا تھے ۔’’چھوٹی !بھیا کی پہلے آواز گئی ا اور پھر تھوڑی دیر بعد وہ بے ہوش گئے ۔ڈاکٹر سکسینہ کو آواز دی ۔انہوں نے آکر اچھی طرح دیکھا اور پھر کمرے سے باہر آکر اتنا ہی کہا ،’بس ،یہ جان لیجئے کہ کچھ ہی گھنٹے کی اور بات ہے ۔آپ فون کر کے بچوں کو بلا لیجئے ۔ ‘نرس کو کچھ ہدایتیں دیں اور چلے گئے ۔اچھا! تو فون کر کے شوم کو یہ خبر کر دے کہ صبح کی پہلی فلائٹ سے آجائے ،لکھنئو فون کر کر بڑی کو بھی یہ کہہ دے کہ وہ بھی جلدی سے جلدی پہنچے ۔امریکا سے نمن کا آنا تو مشکل ہے ،پر تو اسے بھی خبر کر ہی د ے۔اور سن! فون کر کے تونرسنگ ہوم آجا ۔مجھے باہر نکلنا ہے ۔۔۔۔آخر سارے انتظامات بھی تو کرنے ہوں گے ۔‘‘
سنا تو میں سر تھام کر بیٹھ گئی ۔بغیر کوئی لفظ کہے روی نے سب کچھ بھانپ لیا ۔محبت بھرے لہجے میںمیرے شانو ںپراپنا ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا ،’’ نرسنگ ہوم چلنا ہے ‘‘؟ میںنے اس کا جواب آہستہ سے گردن ہلاتے ہوئے دیا، تو روی نے پوچھا ’’ کیا کہا چچا جی نے ۔۔۔۔کیا ؟ بابو بے ہو ش ہو گئے ہیں اور ڈاکٹر صاحب نے اچھی طرح دیکھنے کے بعد کہا کہ بس کچھ ہی گھنٹوں کی بات ہے ، گھر والوں کو خبر کر دو ۔۔۔یعنی کہ بابو اب ۔۔‘‘ اور میری آواز حلق میں پھنس کر رہ گئی ۔روی نے میری پیٹھ سہلائی ۔۔۔تم توحوصلہ رکھو ورنہ اماں کو کون سنبھالے گا‘‘؟ اماں کی باتیں سوچ کر میرے ذہن میں مختلف خیالا ت سر ابھار نے لگے ۔۔۔کیا گزرے گی ان پر ! پر خود کو پر سکون کرتے ہوئے میں نے ممبئی بڑے بھیا کو فون کیا ۔۔۔ساری باتیں سننے کے بعد وہ بول اٹھے ۔’’تھینک گاڈ ‘‘ بنا تکلیف شروع ہوئے ہی سکون و اطمینان کے ساتھ جانے کی گھڑی آ ہی گئی ۔ٹھیک ہے ، میں صبح کی پہلی فلائٹ سے آ تا ہوں ۔۔۔پر دیکھ، سشما تو نہیں آپائے گی ۔دونوں بچوں کے بورڈ کے امتحانات جو ہیں ۔میں اکیلاہی پہنچتا ہوں ۔ویسے بھی سارے لوگ آ کر بھی کیا کریں گے ؟ ‘‘دیدی کو فون کیا تو انہوں نے بھی صرف اتنا ہی کہا کہ میں جلد از جلد پہنچنے کی کوشش کرتی ہوں۔انہوں نے اس کے آگے پیچھے نہ کچھ کہا نہ پوچھا ۔بابو تو خیر جا ہی رہے ہیں پر اماں کے بارے میں ہی کچھ پوچھ لیتے ۔محسوس یوں ہوا کہ رسم ادائیگی کے لیے آنا ہے ،سو آ رہی ہیں ۔
بے سکونی کہ ان لمحات میں جب گاڑی میں بیٹھی تو روی سے بس اتنا کہنا ضروری سمجھا ،روی ! بھیا اور باجی کے سرد لہجے سے ایسا محسوس ہوا گویا وہ اس خبر کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہوں ۔۔۔بے فکر اور پر سکون ۔‘‘
ایسا کیوں سوچتی ہو ؟ تمہیں یاد نہیں، یاد کرو ان دنوں کو جب پہلی بار ڈاکٹرنے اس مہلک مرض کی رپورٹ تھمائی تھی ؟ کتنی دہشت میں تھے وہ۔کئی ماہ تک ابا کی تیمارداری بہت دل لگی سے چل رہی تھی ۔ابتدائی ماہ میں ممبئی سے بڑے بھیا آئے ،ایک دفعہ امریکا سے چھوٹے بھیا بھی آئے ۔۔۔انہون نے تو بیماری کا سارا خرچ اٹھانے کا ذمہ بھی لیا ،کیا آج بابو نرسنگ ہوم کا خرچ برداشت کر پاتے ،اور پھر ،قریب رہنے والے خاندان کے دیگر افراد کی آمد و رفت کا سلسہ بھی تو لگا رہتا ۔وقت کے ساتھ ساتھ بہت ساری چیزیں کروٹیں لیتی رہی ہیں ۔۔۔جو بہت فطری بھی تھا ۔‘‘
میں نے سوچا ،روی ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں ۔دوسروں کے بارے کیا اور کیوں رائے دوں ۔۔جس مستقل مزاجی سے میں گھنٹوں آکر بابا کے پاس بیٹھتی رہی تھی، حال کے دنوں میں تو کئی کئی روز گزرنے لگے تھے ۔شاید زندگی کی یہ ننگی حقیقیت ہے کہ وقت کے ساتھ جیسے جیسے بیماری کا عرصہ طویل ہوتا جاتاہے ، فرض کے طور پر بھلے ہی سب کچھ جیسے تیسے چلتا رہے لیکن انسان کی کسی انام پرت پر ضرب کے کم ہونے کا انتظار ختم نہیں ہوتا ۔شاید یہی وجہ ہے کہ اس خبر نے سبھی کو صدمے میں نہ ڈال کر راحت ہی پہنچائی ۔پھر بھی کم از کم ۔۔۔۔میرے ذہن میں رقص کرنے والی ہر وہ بات ،اور بے چین طبیعت کو محسوس کرنے والے روی کا ایک ہاتھ میری پشت پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔
’’پر سکون رہو شیوانی ،پر سکون !فی الوقت غیر ضروری باتوں سے خود کو ہلکا ن نہ کرو ۔تم صرف اور صرف اماں کے بارے میںسوچو ۔اس وقت انہیں تمہاری ہی ضروروت ہے ۔سارے لوگ تو بابو میں مصروف ہو جائیں گے ۔اور اماں پر جو گزرے گی ۔۔۔۔۔‘‘
’’ جانتی ہوں ۔اس طویل بیماری نے جہاں قریب سے قریب رشتوں کے تار پارہ پارہ کر کے بکھیر دیے ،وہاں ایک اماں جیسی صبر آزما اور خدمت گزار بیوی ہی تو تھیں جو ان کے وجود سے چمٹی رہیں ۔اسی لگائو اور شدت کے ساتھ ان کے شب و روز خدمت میں گزرتے رہے ،تنہائی کے اس بوجھ کو کیسے برداشت کر پائیں گی اماں؟ ۔۔۔کیسے قبول کر پائیں گی وہ اس صدمے کو ۔۔۔کیسے ؟
گاڑی جب اپنے مقام کو پہنچی تو محسوس ہو ا ،ارے نرسنگ ہوم آہی گیا ۔میں سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اماں کا سامنا کیسے کروں گی ؟ لڑکھڑاتے قدموں نے ہمت باندھی تو اوپر چڑھی اور آنکھیں کھلی رہ گئیں ، معمول کی طرح اماں اسی انداز سے بابوکا پیر دبانے میں مشغول تھیں ۔مجھے دیکھتے ہی انہوں نے کہا ۔ارے چھوٹی ، اس وقت تو کیسے آئی ؟
میں سمجھ گئی کہ چچا بغیر کچھ کہے ،یہاں سے نکل گئے ہیں ۔میں نے بھی پر سکون لہجے میں جواب دیا ۔’’چچا نے فون کیا تھا انہیں کسی ضروری کام سے باہر جانا تھا اس لئے انہوں نے مجھے یہاں حاضر ہونے کو کہا ،تو میں آ گئی ‘‘ ۔
امیاںسے نظریں ملانا بہت دشوار کن مرحلہ تھا ۔نظریں چراتے ہوئے میں نے خود کو پھیر لیا ۔نظر جب ناشتے دان پر پڑی تو پوچھ بیٹھی ۔
’’ دوپہر میںجو کھانا بھیجوایا تھا ،آپ نے کھایا ،یا ہمیشہ کی طرح ناشتے دان میں ہی پڑا رہا ۔؟
’’کیسی باتیں کرتی ہے چھوٹی ؟ آج کئی دنوں بعد یہ گہری نیند کے آغوش میںہیں ،پیر دبانا چھوڑ دوں تو جاگ نہیں جائیں گے ؟ اور گر نیند سے بیدارہوئے تو،تو ان کے مزاج سے واقف ہے نا ! دیکھا نہیں کیسے ٹانگیں پھنکارنے لگے ہیں یہ ۔تو ،دبانے دے مجھے ۔کھانے کا کیا ہے ،پیٹ میں پڑا رہے یا ناشتے دان میں،بات برابر سی ہے۔‘‘
اماں کے دل و دماغ میں با بوکے غصے کا ڈر گھر کر چکا تھا ،جو انہیں محو خواب جان کر بھی پیر دبانا نہیں چھوڑ رہی تھیں ۔گزشتہ کئی ماہ سے ان کا معمول تھا کہ کھانا ناشتے دان میںپڑا رہے یا پیٹ میں ،انہیں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا ۔وقت کے اس پڑائو میں انہوں نے کبھی نہ کسی سے شکایت کی اور نہ غصہ ،آخر وہ غصہ کریں بھی تو کس پر ؟ وقت نے انہیں غصہ کرنا نہیں بس غصہ پینے کا عادی بنا دیا تھا۔حیرت و استعجاب میں میرا ذہن بس یہی سوچ رہا تھا کہ ایک تجربے کار اماں کو کیا بالکل بھی خبر نہیں، کہ بابا گہری نیند نہیں، بلکہ بیہوشی کے عالم میں پڑے ہوئے ہیں ۔آٹھ ماہ کی اس طویل بیماری نے کیا بھوک ،اور نیند کے ساتھ ساتھ ان کی رگوں کو بھی خاموش کر دیا ہے ؟ گزرتے وقت کے ساتھ بابوکے ساتھ جو ہونے جا رہا ہے ،اس کی تکلیف ،ان حالات پر اماں کا رد عمل اور دوسری جانب پر سکون رہنے کا ناٹک ۔۔۔۔ایک عجیب سی گھٹن محسوس کر رہی تھی میں ۔
صبح ٹھیک پانچ بجے بابونے آخری سانس لی ۔پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد نرس نے مجھے ہدایت کی تھی کہ وہ اندر باہر کرنے سے گریز کریں ،ورنہ اماں کو شک ہوجائے گا اور وہ آہ و پکار کرنے لگیں گی ۔اس لیے میں نے خودکو سنبھالا اور وقفے وقفے سے بابو کی سانس کا اندازہ لیتی رہی ۔میں بابو کے سر پر ہاتھ پھیرنے کے بہانے اس ہدایت پر عمل کرتی رہی ۔
بس چند منٹ قبل ہی سانسوں کی بے ربطی کو دیکھتے ہوئے میں نے نرس کو آواز دی ۔کچھ دیر تک نرس نے پلس کا جائزہ لیا ،پھر اس نے آہستہ سے بابو کے پیروں سے اماں کے ہاتھوں کو جدا کر دیا ۔نرس کے اس پریشان کن عمل سے وہ سب کچھ بھانپ چکی تھیں ۔گویا بابو کے پیروں سے چمٹ کر جو آہ و پکار کا سلسلہ شروع ہوا تو انہیں سنبھال پانا بہت مشکل ہو گیا ۔خاندان کے دیگر افراد کچھ وقت پہلے ہی نیچے آ کر کھڑے ہو گئے تھے ۔نرس نے آواز لگائی تو چاچا ،چاچی اور روی اوپر آگئے ۔یہ سارے لوگ تو رات سے ہی اس خبر کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے ،گر کوئی نہیں تھی تو صرف اماں ۔جنہیں مطمئن کرنا ہمارے قابو میں نہیں تھا۔چاچی نے آبدیدہ آنکھوں سے اماں کی پشت سہلاتے ہوئے کہا ،دھیرج رکھو بھابھی !دھیرج رکھو ۔اور پھر روتے روتے امی جو خاموش ہوئیں تو ایسی خاموشی، گویا ان میں رونے کی طاقت نے دم توڑ دیا ہو ۔وہ رحل نما ہتھیلیوں میں چہرہ چھپائے بابا کے پائوں سے چمٹ کر ایک ہی انداز سے بیٹھی رہیں ۔کچھ دیر بعد نرس کے اشارے پر چاچی ،روی اور میں نے انہیں اٹھانے کی کوشش کی تو ،ان میں اٹھنا تو دور ،ہلنے کی قوت تک نہ تھی ۔میں حیران و پریشان ! کچھ دیر قبل ہی تو اماں پورے جوش و خروش کے ساتھ بابو کے پیر دبا رہی تھیں،اب ان میںہلنے تک کی قوت نہ رہی ۔رخصت تو بابوہوئے تھے ،پر محسوس یہ ہو رہا تھا کہ روح ،اماں کی نکل گئی ہو ۔
اب انہیں گھر لا کر بابو کے کمرے میں بیٹھایا گیا ۔اپنا بے جان سا جسم لے کر دیوار سے پشت لگاتے ہوئے وہ زمین پر ہی بیٹھ گئیں ۔۔۔دیگر افراد باہر چلے گئے ۔صرف میں ہی ان کے ساتھ بیٹھی رہی ،میں نے ارادہ کیا کہ یہاں سے ہلوں گی نہیں ۔اس حوالے سے ہونے والی تمام تیاریاں اپنے انداز سے چلتی رہیں ۔بڑے بھیا دس بجے کی فلائٹ سے اترتے ہی سیدھے نرسنگ ہوم چلے گئے ،دونوں چاچی گھر کے کاموں میں مصروف رہیں ۔ساڑھے گیارہ بجے کے قریب دونوں چاچا ،بھیا اور روی ،بابو کی سمادھی لے کر گھر آگئے ۔یہاں خاندان کے تمام افراد پہلے سے ہی منجمد ہو گئے تھے ۔جنازہ دیکھ بیک وقت سبھی آہ وپکار کرنے لگے ،اور پھر رسم و رواج کا سلسلہ شروع ہوا۔اپنڈت جی بھی اپنے مذہبی انداز میں نہ جانے کون کون سے شلوک پڑھتے رہے ۔پھر بابو کے قدموں کو چھونے کا سلسلہ شروع ہوا تو بالترتیب اماں ۔۔۔۔دونوں چاچی اور میں، کسی طرح اماں کو پکڑ کر باہر لائے ،ہاتھوں کو جوڑ کر اماں بابو کے قدموں میں جو سجدہ ریز ہوئیں تو پھر اٹھا ہی نہ گیا ۔کسی طرح ہم لوگوں نے انہیں اٹھا کر واپس کمرے میں بیٹھا یا اور میں قدم چھونے کی رسم کے لیے باہر نکل گئی ۔لوٹتے ہی دیکھا ،اماں اسی انداز سے اپنی پشت کو دیوار سے لگائے بیٹھی ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے ہیں ۔ان کے قریب بیٹھ کر پیٹھ سہلاتے ہوئے میں یہ سوچنے لگی ،یہ کیسی ستم ظریفی ہے ؟ اماں آج جس بابوکے لیے رو رہی ہیں ،ان کے ساتھ زندگی کے کیسے کیسے لمحات گزار ے ہیں بابو کی ہر ضرورت ۔۔ان کی ہر خواہشات کو پورا کرنے کے لیے ہمہ وقت لبیک کہا ۔۔۔ذرا سی چوک ہونے پر غصے کے خوف سے تھر تھر کانپتی اماں کے ان گنت منظر میری آنکھوں میں رقص کر نے لگے اور میں رو پڑی ،پر یہ آنسو اس وقت بابوکے لیے نہیںاماں کے لیے تھے ۔میری خواہش تھی کہ کسی طرح اماں سو جائیں ،پر وہ اپناجسم سیدھا کرنے کو بھی تیار نہ تھیں ۔
شام پانچ بجے کے قریب سارے لوگ لوٹتے ہی غسل میں مصروف ہوگئے ۔اور تبھی بڑے بھیا امی کے قریب آکر بیٹھے ۔اور پھر انہوں نے ہاتھ جوڑ کر اس پر سکون موت کے لئے بھگوان کا شکر ادا کیا ۔اور اماں کی پشت پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ان غمگین حالات میں انہیں تسلی بھرے الفاظ سناتے ہوئے انہیں حوصلہ دیتے رہے ۔ان سب کے درمیان وہ اور بھی بہت کچھ کہہ گئے ۔لیکن اماں نے ایک لفظ بھی نہ بولے، بالکل خاموش ،ان میں اب نہ بولنے کی ہمت رہی اور نہ رونے کی، شام کے وقت بڑی بہن کی آمد ہوئی اور آہ و پکار کی صدا بلند کرتے ہوئے اماں کے کمرے میں داخل ہو گئیں ۔آہ اماں !آہ ! میں تو بابوکا دیدار بھی نہ کر سکی ۔۔۔۔ارے ،مجھے کسی نے پہلے تو خبر کی ہوتی تو ،میں پہنچنے کی کوشش کرتی۔آہ بابو ! آہ اماں!۔۔۔میں نے کسی طرح انہیں خاموش کر ،کمرے سے باہر بھیجا ۔میں بالکل بھی نہیں چاہتی تھی کہ اماں کے پاس اب کوئی بھی آئے ۔یہ ممکن ہی نہیں ہو پا رہا تھا کہ وہ کچھ دیر سو لیں ۔دن کے بھوکوں نے رات کے پہر ڈٹ کر کھچڑیاں کھائیں ۔میں نے بھی اماں کے لیے پلیٹ لگائی اور انہیں مسلسل مناتی رہی کہ اماں کچھ تو کھا لیں ۔۔کل بھی سارا دن آپ نے ایک لقمہ بھی نہیں لیا تھا،پر اماں کچھ نہ بول سکیں ،اور نہ کھانے کو ہاتھ اٹھایا،منت و سماجت کے اس لمحے میںانہوں نے بس ایک ہمت جٹائی ،اور میرے آگے ہاتھ جوڑ دیے ۔اس انکار نے نہ مجھے کہنے کا حوصلہ دیا اور نہ کھانے کا ۔دوسرے روز صبح دس بجے کے قریب ماتم پرسی کا سلسلہ شروع ہوا ۔مرد حضرات باہر بیٹھ رہے تھے اور عورتیں اندر والے کمرے میں ،تمام عورتیں ایک طرف اور دوسری جانب گھونگھٹ لیے ،سر جھکائے بیٹھی اماں ۔عورتیںرسمی انداز میںروتی بلکتیں اور پھر غیر ضروری باتوں میںمصروف ہو جاتیں ۔کوئی بابوکی طویل بیماری کا تذکرہ کرتا تو کوئی ان کے بے باک جذبے کی،اور کوئی ان کے گمبھیر رویے کی ۔خادم کے اشارے پر میںآنے والوں کے لیے پانی کا انتظام کرنے باورچی خانے میںچلی گئی ۔پانی کا تشت لیے جب میں باہر آئی تو ہر آنے والا فرد اہل خانہ سے یہی کہتے ہوئے مخاطب ہوتا ۔۔’’دیکھو،یہ ان کی موت نہیں ،سمجھوکہ انہیں مکتی ملی ہے۔بلا کی قسمت پائی تھی ،جو مہلک مرض میں مبتلا رہ کر سکون سے رخصت ہو گئے ‘‘ یہ تو ان کے حسن سلوک کا نتیجہ تھا کہ ایسے مبارک وقت میں وہ رخصت ہوئے ‘‘کتنوں کو نصیب ہوتی ہے ایسی موت ؟ تمہیں مطمئن ہونا چاہئے ،کہ نہ کوئی تکلیف ہوئی ،اور نہ ہی کسی قسم کا عذاب جھیلنا پڑا ۔بس، اس جی کے جنجال سے انہیں چھٹکارا ملا ۔اے ایشور ان کی روح کو شانتی دینا ۔‘‘ گلاسوں کا خالی تشت لے کر جب میںرسوئی میں داخل ہوئی تو باہر سے لڑکھڑاتے قدموں سے باجی بھی اندر آئیں ۔’’ چھوٹی ، اماں وہاں پر بیٹھ کر کیا سو رہی ہیں ؟ یہ تو غنیمت تھی کہ میں ان کے قریب ہی بیٹھی تھی ۔لہذا میں نے ان کے خراٹوں کو بغور سنا ۔نہ جانے کسی اور نے گر سنا ہوگا تو ان کے ذہن میں کس قسم کے خیالات ابھرے ہوں گے ؟ اس وقت میں نے قریب ہو کر انہیں جگا دیا ۔نیند کے بوجھ سے شاید ان سے بیٹھا بھی نہیں جا رہا ہے ۔تو ان کے قریب ہو کر بیٹھ اور انہیں سنبھال ،ورنہ پھر کہیں ۔۔۔۔‘‘
’’اماں سو رہی ہیں ۔؟ میں نے فوراً تشت رکھا ،اور کمرے میںآئی ۔پاس میں بیٹھی چھوٹی بھابھی کو اشارے سے بلا یا اور ان کی مددسے قریب والے کمرے میں لا کر انہیں پلنگ پر لٹا دیا ،اور دھیرے دھیرے ان کے سر سہلاتی رہی ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ محو خواب ہوگئیں ،شاید ایک گہری نیند میں۔چند منٹ گزرے تھے کہ باجی آئیں اور یہ نظارہ دیکھ کر بوکھلا اٹھیں ۔غصے بھرے انداز سے بولیں’’ باہر عورتیں ان کے غم میںشریک ہونے آئیں ہیںاور یہ یہاں مزے لے کر سو رہی ہیں۔کل بابارخصت ہوئے، اور آج ان کا یہ روپ ۔؟ ‘‘
’’باجی ! میںنے انہیں بیچ میں ہی روک دیا ۔ ’’ آپ کو خبر نہیں،پر میں جانتی ہوں ۔‘‘ میںنے دیکھا ہے کہ ان آٹھ مہینوں میں اماںنے خالی پیٹ دن اور جاگتی آنکھوں سے کتنی راتیں گزاری ہیں۔خیر ! آپ تو لکھنئو کی حویلیوں میں اپنی خوشگوار زندگی کا لطف اٹھا رہی تھیں ،پر جو یہاںتھے ، جنہوں نے آنکھوں سے دیکھا ہے یہ سب ، کیا انہوں نے بھی کبھی اماں کا خیال کیا ؟ اور تو اور، جس بابوکے لیے شب و روز مشغول رہیں ،انہون نے بھی کبھی سوچا کہ ان کا جسم بھی انسانی جسم ہے۔۔۔نہیں، بس ذرا سی چوک پر کتنا تلخ رویہ اپناتے تھے بابو ،جن کے خوف سے اماں کانپ اٹھتی تھیں،باجی ! جان لیجئے آپ! کہ اماں کا وجودان آٹھ مہینوںمیںپوری طرح بکھر چکاہے۔ آج نہ ان میں بیٹھنے کی ہمت باقی رہی ،نہ رو نے کی ۔خاندان کی ساری عورتیںتو باہر بیٹھی ہیں۔۔۔آپ بھی جا کر بیٹھ جائیں ۔کہہ دیجئے ان سب سے کہ اماں کی طبیعت خراب ہو گئی ہے ،اور وہ بیٹھنے کی حالت میںاس وقت نہیںہیں ۔‘‘
میرا لہجہ اور میرے تیور دیکھ کر باجی کی آواز بیٹھ سی گئی ۔بس،اتنا ہی کہا ،’’ میں تو بیٹھ ہی جائوں گی ‘‘اور چہرہ پھیرتے ہوئے باہر نکل گئیں ۔میں نے اٹھ کر دروازہ بند کر دیا اور دوسری جانب کی کھڑکی کھول دی جس کے پلے باہر کی جانب کھلتے تھے ۔کھڑکی کھولتے ہی باہر سے گونجتی ہوئی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ۔۔۔’’ یہ گھڑی ماتم کی نہیں ،سکون کی ہے بیٹا ۔۔یاد نہیں ،ڈاکٹر صاحب نے کیا کہاتھا ؟ ہم سب کے مالک نے انہیں وقت پر آزاد کر ہی دیا ۔۔‘‘ میں چہرہ گھماتے ہوئے اماں کی جانب دیکھ رہی تھی۔ ان آوازوں سے کہیں وہ بیدار نہ ہو جائیں ،پر نہیں ،وہ نیند کے گہرے سمندر میں سو رہی تھیں ۔۔۔بالکل مطمئن !
٭ ٭٭٭٭٭٭٭
Dr. Faizan Hasan Zeyai,
S/o LATE DR. MOZAFFAR HASAN "AALI”,
MOH-BARADARI, PO-SASARAM-821115
DISTT.-ROHTAS(BIHAR)
E-mail : faizanzeyai.ssm@gmail.com
Mob-76318-87356
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |