خان پور ضلع ہوشیار پور متحدہ ہندوستان میں پیداہونے والابچہ محمدمنیرخان بڑا ہوکراُردوادب میں منیرؔنیازی کے قلمی نام سےاپناایک نام پیداکرگیا۔منیرؔنیازی بہترین شاعر،نثرنگار،صحافی اورکالم نگارتھے مگرانھوں نے زیادہ شہرت اورنام شاعری میں پیدا کیا۔
منیرؔ نیازی کا شمار اُن محدودے چند تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اُردو ادب کو نئے تخلیقی مزاج اورنئے طرزِ اظہار سے روشناس کرایا۔انھوں نے ادب کے دونوں میدانوں نظم ونثرمیں کھل کراپنے ہنرکے جوہردکھلائے۔ اُن کودوزبانوں کاشاعر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیوں کہ انھوں نے اُردواورپنجابی دونوں زبانوں میں ادب تخلیق کیا ۔ منظوم ادب میں نظم، غزل، قطعات اور گیت جب کہ منثورادب میں افسانہ،ایک ادھوراناول،کالم ،ڈرامے ،تبصرے ،اداریے اور فلیپ شامل ہیں ۔ شاعری میں غزل اور نظم میں کھل کراپنے ہنرکا لوہا منوایا ۔ نظم میں ہیئتیوں کے مختلف تجربات سے ندرتُ وانفرادیت پیداکی ۔ غزل کے میدان میں بھی کسی سے کم نہ تھے بلکہ غزل کو متنوع فکری جہات اور فنی اسالیب سے روشناس کیا۔ غزل اور نظم کے ساتھ ساتھ خالص ہندوستانی صنفِ سخن گیت نگاری میں بھی اپنی ایک الگ پہچان اور انفرادیت قائم کی ۔ انھوں نے گیت نگاری کے روائتی آہنگ کے ساتھ جدیدآہنگ کوبھی برتا جس سے اُن کی گیت نگاری کلاسیکی وروایتی آہنگ کے ساتھ ساتھ جدیدآہنگ کوبھی اپنے اندرسمیٹے ہوئے ہے ۔
منیرؔنیازی کوقدرت نے شعری ذوق ودیعت کررکھا تھا اوراُن کے مزاج اورشخصیت میں شعری صلاحیتیں کوٹ کوٹ کربھری ہوئیں تھیں اس لیے انھوں نے نثر میں طبع آزمائی کے باوجود نظم یعنی منظوم ادب میں اپنانام اورمقام پیداکیااوراُردوادب میں ایک نثرنگارکی بجائے شاعر معروف ہوئے۔ صرف اُردومیں ہی نہیں بلکہ اپنی ماں بولی پنجابی میں بھی اپناایک بطور شاعر نام بنایا۔
منیرؔنیازی کے اُردوشعری مجموعوں کی تعدادگیارہ ہے جن میں ”تیزہوااورتنہا پھول” ، "جنگل میں دھنک” ، "دشمنوں کے درمیان شام” ، "ماہِ مُنیر” ، "چھ رنگیں دروازے” ، ” آغازِ زمستاں میں دوبارا” ، ” ساعتِ سیار” ، "پہلی بات ہی آخری تھی” ، "ایک دعا جومیں بھول گیا ” ، "سفیددن کی ہوا اور سیاہ شب کا سمندر” اور "ایک مسلسل” جب کہ ماں بولی پنجابی شعری تخلیقات کے مجموعوں کی تعداد تین ہے جن میں "سفردی رات” ، ” چارچپ چیزاں ” اور” رستہ دسن والے تارے” شامل ہیں ۔ (یہ بھی پڑھیں ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں – منیر نیازی )
منیرؔ نیازی ایسے چند شعرامیں سے ہیں جن پر اُن کی زندگی میں ہی معتبرادباوشعراکے علاوہ ناقدینِ ادب نے قلم اٹھایا اوراُن کی شعری تخلیقات پراپنی تنقیدی آراپیش کیں ۔جس کی عمدہ مثال اُن کے اُردوشعری مجموعوں کے مقدمات ،دیباچہ جات اور فلیپ ہیں ۔ جن شخصیات نے اُن کے مجموعہ جات کے مقدمات ، دیباچہ جات اور فلیپ لکھے اُن میں اشفاق احمد ، مجیدامجد ، محمدسلیم الرحمن ، ڈاکٹرسہیل احمدخان ، انتظارحسین ، قمرجمیل ، احمدندیم قاسمی ، فیض احمد فیض ، شکیل شبنم ، خالدِ شریف ، فاطمہ حسن ، ڈاکٹراجمل نیازی ، اطہر غوری اور ڈاکٹرخورشید رضوی شامل ہیں ۔
مقدمات ،دیباچہ جات اور فلیپ میں عموماَ جوتنقید ملتی ہے اس کو تاثراتی تنقید کے زمرے میں رکھا جاتا ہے ۔ ہمارے ہاں یہ روشِ عام ہے کہ بڑے ادیب پہلے سے ہی مقدمات ، دیباچہ جات اور فلیپ لکھ کربیٹھے ہوتے ہیں اوراُن میں صرف نام بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے اورمقدمہ،دیباچہ یافلیپ مکمل ہوجاتا ہے جس کو تاثراتی تنقید کی بجائے صرف تاثر کہنا بجاہوگا ۔ مگر منیرؔ نیازی کے مجموعہ جات کے مقدمات ، دیباچہ جات اور فلیپ کوپڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ناقدین نے واقعی عرق ریزی اور کلام کو پڑھنے کے بعد اپنی تنقیدی آرا کا اظہار کیا ہے جوکہ تاثراتی تنقید سے آگے کاقدم ہے ۔اس تنقید کوہم حقیقی معنوں میں تنقیدِادب کہہ سکتے ہیں ۔اُن کے اولین شعری مجموعے "تیز ہوا اور تنہا پھول” کے دیباچہ میں اشفاق احمدکی تنقیدملاحظہ ہو۔
” منیرؔ نیازی کی شاعری میں ایک بڑاکمال اُس کی اختصارپسندی ہے ۔ اُس کے ہم عصریوں مات کھا گئے کہ اُن کی اڑانیں بہت وسیع تھیں ،اور بعد کی اڑانیں اُفق کے چکروں میں الجھ کر رہ جاتی ہیں ۔ "مسائیل” کی طرح عمودی نقطہ عروج پر نہیں پہنچ سکتیں ۔ دوسروں نے بیان شروع کیا اوربیان بندکردیا ، سننے والے سردھنتے رہے ۔ منیرؔ نے بات کی اورختم کردی ! سننے والے سوچنے پرمجبورہوگئے اورپھرایک ایک لفظ ،ایک ایک حرف ، ذہن کے چلومیں قطرہ قطرہ ہوکر ٹپکنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعری سے رغبت ہویانہ ہو ، ذہن کا چلوتوکسی کابھی خالی نہیں ہوتا ! ۔” (1)
اسی طرح اُن کے مجموعہ کلام "چھ رنگیں دروازے” کے دیباچے بعنوان ” منیرؔ کی منورشاعری” میں معروف شاعراورافسانہ نگاراحمدندیمؔ قاسمی ،منیرؔکی شاعری پررائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
” بعض اصحاب کہتے ہیں کہ منیرؔنیازی تنہائی کاشاعر ہے ۔ مشکل یہ ہے کہ ہراچھا شاعر ، فن کار تنہا ہی ہوتاہے ۔ وہ اپنے گردوپیش کی صورتِ حالات پر قناعت نہیں کرسکتا اس لیے تنہا ہے ۔ وہ اس بد صورت دنیا میں خوب صورتیوں کا متلاشی ہے اس لیے تنہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تنہائی کروڑوں ہم نفسوں اور ہم نصیبوں سے آباد ہوتی ہے ۔ اگر منیرؔنیازی کی تنہائی پسندی کامطلب یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کے خول میں اسیر ہے تومیں کیا تردید کروں گا ، منیرؔ کایہ مجموعہ کلام ہی اس مغالطے کی مسکت تردید ہے ۔” (2) (یہ بھی پڑھیں "بے گھری ، جلاوطنی اور جدید نظم ” – پروفیسر ناصر عباس نیّر)
یہی تنقید منیرؔ نیازی پربعد میں کام کرنے والوں کے لیے مشعلِ راہ اور بنیادبنی اوراسی بنیادی تنقیدنے اُردوادب میں میں منیرؔشناسی کی روایت کومستحکم اورمضبوط کیا۔ اگراس ابتدائی تنقیدمیں ہجویہ رویہ اپنایاگیاہوتاتووہ بھی ناقابلِ برداشت تھااوراگرمدح نگاری پرمبنی اندازاپنایاگیاہوتاتووہ بھی نقصان دہ ہوتا ۔ جوکچھ کسی کے ہاں موجودہے اُس کوجوں کاتوں بیان کردیناہی اُس تخلیق کار اوراپنے کام سے انصاف ہے ۔ کم یازیادہ کرکے بیان کرنا دونوں کے لیے باعثِ نقصان ہوتاہے ۔لہذامنیرؔ نیازی پراولیں کام یااولیں ایںٹ درست ثبت ہوئی جس پرعمارت کھڑی کرناآسان ہوگیا، وگرنہ جوحال مولانا محمدحسین آزادؔ نے اپنے استادِ محترم شیخ محمدابراہیم ذوقؔ کاکیا جس کے بعداُن پرجوکام بھی ہواوہ آزادسے متاثر ہوکر یا متنفر ہو کر کیا گیا، جس میں ذوقؔ کونقصان اُٹھانا پڑااورآج تک وہ سزابھگت رہے ہیں ۔اگرمولانامحمدحسین آزاداپنی کتاب ” آبِ حیات” میں شیخ محمدابراہیم ذوقؔ کے حوالے سے اس قدرمبالغہ آرائی سے کام نہ لیتے توشاید اُردوادب میں ذوقؔ شناسی کی روایت مثبت سمت میں آگے بڑھ سکتی ۔ مگرآزادکی مبالغہ آرائی نے ذوقؔ کوپس پشت ڈال کر محققین وناقدینِ ادب کی توجہ آزادکے بیان کردہ بیانات کوحق اورباطل ثابت کرنے میں ذؤقؔ کوہی بھلادیا۔ شیخ محمدابراہیم ذوقؔ پرجتنی تحقیقی وتنقیدی کتب دستیاب ہیں ماسوائے ڈاکٹرتنویراحمدعلوی کی چندکُتب کے جن میں "ذوقؔ سوانحِ اورانتقاد” نمایاں ہے کے سب آزادکی آراکے حق یامخالفت پرملتی ہیں ۔جن میں ذوق کی بجائے آزادکی تنقیدپرتنقیدملتی ہے۔ لہذااگراولین ناقدینِ منیرؔنیازی یامنیرؔ شناس اس قدرعرق ریزی سے کام نہ لیتے اورمدحیہ یاہجویہ اندازِ تنقید اپناتے تو آج اُردوادب میں منیرؔنیازی کاجومقام ومرتبہ ہے ہرگزنہ ہوتااورمنیرؔنیازی شناس ،منیرؔنیازی کی روایت کوآگے لے جانے کی بجائےراستے میں بھٹکتے پھر رہے ہوتے ۔ المختصرمنیرؔنیازی پراولین تنقیدجومقدمات،دیباچہ جات اورفلیپ کی صورت میں ہوئی اس نے منیرؔنیازی کے ادبی مقام ومرتبے اورادبی قدکومستحکم اورمضبوط کیا وگرنہ آج ذوقؔ کی طرح منیرؔ پربھی کوئی بات تک نہ کرتا۔
ہرتخلیق کاراورشاعرکی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ متنوع موضوعات کواپنی تخلیقات کاحصہ بنائےتاکہ اُس کی تخلیقات میں طرح طرح کے رنگ موجودہوں ۔اسی طرح منیرؔنیازی نے بھی طرح طرح کے سے اپنی شعری تخلیقات کوسجانے کی کوشش کی ہےجس وجہ سے اُن کے کلام میں طرح طرح کے رنگ موجود ہیں ۔ان طرح طرح کے رنگوں میں حیرت واستعجاب ،طلسم ،اپنے عہدکی نوحہ خوانی ،انسانی جذبات واحساسات ، احتجاجی رویے ،ہجرت کادردوغم اورنوحہ خوانی، ماضی کی یاداشت، مختلف طرح کے خواب، خواہشات وتمنائیں ،آرزوئیں ، عشق ومحبت، انانیت ونرگسیت، حقیقت پسندرویے،ترقی پسندیت، سیاسی وسماجی صورتِ حال،اپنائیت، حیرت ومستی کی ملی جلی کیفیات، ماضی کے گم شدہ مناظراوررشتوں کےانحراف کادکھ،ڈراؤنے سپنے، گہرے مشاہدات،مایوسی ونااُمیدی کے ساتھ اُمیدکی کرن، مردم بیزاری وتنہائی پسندیت،فطرت کی تلاش وجستجو،زندگی کے مثبت اورروشن پہلوؤں کی عکاسی ،مابعدالطبیعاتی سوالات واشارات، جلاوطنی کانوحہ، خوداعتمادی وشاعرانہ تعلی، معاصرسیاسی،سماجی ومذہبی رویے، تصورِموت، خوفِ تنہائی، خداسے زیادہ مخلوق ِ خداکاڈر، تصورِ عورت، وطن پرستی،کلاسیکیت سے جڑا ہوا منفرد انداز،انقلابی سوچ،معاملاتِ حسن وعشق، زندگی سے اکتاہٹ کاپہلو،افسانوی انداز، مذہب سے عقیدت،غمِ دوراں وغمِ جاناں اورعامیانہ رویے شامل ہیں۔
ان تمام موضوعات کوزیرِ بحث لاناممکن نہیں یہ ایک پورے تحقیقی مقالے کی ضرورت ہے مگرچنداہم اورانفرادی موضوعات کو قدرے مفصل اورعمومی موضوعات کو اجمالی طورپردیکھاجائے گا۔ہرتخلیق کار کے کچھ پسندیدہ موضوعات ہوتے ہیں جواس کے علاوہ کسی دوسرے تخلیق کار کے ہاں نہیں ملتے اوراگرملتے بھی ہیں تواُن میں وہ اثرپذیری نہیں ملتی ۔یہی انفرادیت اورپہچان ہوتی ہے جن کے باعث وہ ادب میں اپناایک الگ مقام اور پہچان رکھتاہے ۔
منیرؔنیازی کے ہاں بھی ہمیں چندایسے موضوعات ملتے ہیں جوخاص انھی کے موضوعات بن کررہ گئے ہیں ،جن میں حیرت واستعجاب ،طلسم، ہجرت ،نرگسیت اورحسن وعشق شامل ہیں ۔ان موضوعات پرمفصل بحث کریں گے۔ مگراس سے قبل فکرکے ساتھ فن پربات کرناضروری ہے کیوں فکروفن دونوں لازم وملزوم چیزیں ہیں ۔فکر،فن کے بغیرادھوری ہے اورفن ،فکر کے بغیرکسی کام کانہیں ۔انسان جتنامرضی خوب صورت خیال یافکررکھتا ہواگراس کواس کے بیان کرنے کاڈھنگ نہیں آتاتووہ فکروخیال بے کار ہوگا،اگراچھی فکرکے ساتھ بیان کا اندازآتاہوا تو فکر سود مند ٹھہرے گی۔ لہذاتخلیق کار کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ خوب صورت فکروخیال کے ساتھ ساتھ خوب صورت پیش کش کرنے کاہنرجانتاہو۔ایک اچھے تخلیق کار یاشاعر کایہ کمال ہوتاہے کہ وہ اچھی سوچ کے ساتھ اچھافن کار بھی ہو۔
منیرؔنیازی اچھے خیالات کے ساتھ اچھے فن کاربھی تھے ۔انھیں خیال کولفظوں میں اتارنے کاہنرخوب آتاتھا۔اُن کے اشعار کو دیکھاجائے توایسے محسوس ہوتا ہے جیسے لفظ ہاتھ باندھے اُن کاانتظارکررہے ہوں ،جونہی کوئی خیال سوجھافوراََلفظوں نے اُس کوشعرکی صورت دے دی۔منیرؔنیازی کے ہاں خوب صورت اورمنفردتشبیعات،استعارات،تراکیب و محاورات، مصوری، علامت نگاری ، پیکرتراشی، مکالمہ نگاری،وحدتِ تاثر،اختصار،نوکلاسیکیت،شاعرانہ تعلی،تلمیحات،سہل ممتنع،مختلف صنعتوں کا استعمال،کردارنگاری،تمثال نگاری،خودکلامی،تلازمات،تضمین نگاری،تکرارِلفظی،مترنم بحر،طویل بحر،چھوٹی بحر،موسم بطور علامات واستعارات،غیرمردف غزلیات،یک سطری تجربات،صنائع وبدائع اورلفظی جوڑتوڑ کاسماں ملتاہے جواُن کے خیالات کوخوب سے خوب تربناتاہے ۔ذیل میں کلامِ منیرؔ کے فکروفن کااجمالی ساجائزہ لیتے ہیں ۔
منیرؔنیازی کے کلام میں طلسماتی اندازبہت نمایاں ہے۔اُن کے کلام میں طلسم ایک منفردحیثیت سے ملتاہے یوں محسوس ہوتاہے کہ طلسم اُن کی رگوں میں رچابساہےجس نے شاعری کاروپ دھار لیاہے،کیوں کہ جب داخلی کیفیات شاعری کی دیوی سے ٹکراتی ہیں توشعرمیں جولذت،شدت اورشعریت پیداہوتی ہے وہ دیدنی ہوتی ہے ،منیرؔنیازی کی داخلی کیفیات بھی شعرکے روپ میں آکرکچھ ایساہے سماں تخلیق کرتی ہیں جس سے اُن کی شعری فضا طلسم میں ڈوب جاتی ہے اورطلسماتی فضااٹکیلیاں کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے یہی مناظراوریہی رنگ منیرؔ کی انفرادیت کاباعث ہے ۔وہ ایسی شعری فضاتخلیق کرتے ہیں جوخوف،تحیر،تجسس،پُراسراریت اورآسیبیت سے مملوطلسم ہوش رباکی سی کیفیترکھتی ہے ۔وہ اِتنے حساس دل،نرم خواوردوربیں نظرانسان ہیں کہ جوفطرت اوراپنے گردوپیش کے ماحول سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ اُن کامشاہدہ اس قدرہے کہ وہ بات کہ تہہ تک پہنچ جاتے ہیں ،یہی حساسیت ،نرمی ودوربینی شعرکے روپ میں جب ڈھلتی ہےتوایک عجیب وغریب سماں پیداکرتی ہے ۔جس شاعرکاتجربہ ومشاہدہ جتناعمیق ووسیع ہوگا اُس کی شعری تخلیقات کے موضوعات اتنے ہی متنوع جہات اور دائرہ دردائرہ جہات پرمبنی ہوں گے ۔منیرؔ نیازی کے ہاں بھی ایساہی ہے انھوں نے اپنی شعری تخلیقات کے لیے جس موضوع کوبھی چُنا اُس کے متنوع دائرے چھوڑے ہیں ۔اب یہ نقاد پرمنحصرہے کہ وہ کتناعلم رکھتاہے اورکتنی عمیق نظری وعرق ریزی سے کام لیتاہے ،اور کتنی موضوعاتی جہات اوردائروں دردائروں تک رسائی حاصل کرکے اُن کومنظرِ عام پرلاتاہے ۔
منیرؔنیازی کی شاعری سے اُبھرنے والا نقشِ اول خوف،تحیر،تجسس،آسیبیت اور پُراسراریت کاہے۔اُجڑے مکانات،سونی وویران حویلیاں ،خنجربکف حبشنیں ،نیلے خوابوں کے شجر،طوفانی رات،سانپوں کی جھنکاریں ،ویران وسنسان درگاہیں، منڈیریں،پُراسراربلائیں،حسین اسپرائیں ،وحشی جانور،جنگل کی دھنک،دوزخی شہر،تھوہرکی قطاریں ،بے نام ونشاں شکلیں،سایے،آوازیں ،ڈراؤنی اوربدصورت شکلیں اور آوازیں،رنگ وبومیں پسی دوشیزائیں،چڑیلیں،ڈنئیں،جن بھوت،رستوں پرمرجانے والی اُمتیں،مستطیل کھڑکیاں،خالی شہر،ویران وسنسان راستے،تاریک گلیاں اورگھپ اندھیرے جیسی تمثالیں اُن کی شعری فضا کوتخلیق کرتیں ہیں۔ ایسی فضااُن کی شعری کائنات کوسہارتی ہے اوروہ نت نئے فکری وفنی تجربات کرتے ہیں ۔کیوں کہ ایسے مناظرکے لیے تراکیب تراشی،محاورات،نئی اور انوکھی تشبیعات واستعارات اورنئی اورمنفردتمثال ولفاظی کی ضرورت پیش آتی ہے جس کےلیے منیرؔنت نئے تجربات کرتے دکھتے ہیں ۔اُن کی ایک نظم”جنگل کاجادو”میں ایسی ہی طلسماتی منظرکشی دکھائی دیتی ہے جس میں اُن کے فکروفن کاحسین امتزاج دیکھنے کوملتاہے ،ملاحظہ ہونظم "جنگل کاجادو”سے ایک بند۔
جس کے کالے سایوں میں ہے وحشی چیتوں کی آبادی
اُس جنگل میں دیکھی میں نے لہومیں لتھڑی اک شہزادی
اُس کے پاس ہی ننگے جسموں والے سادھوجھوم رہے تھے
پیلے پیلے دانت نکالے نقش کی گردن چوم رہے تھے
ایک بڑے سے پیڑ کے اُوپرکچھ گدھ بیٹھے اونگھ رہتے تھے
سانپوں جیسی آنکھیں میچے خون کی خوش بو سونگھ رہے تھے (3)
یہاں ایک پورامنظردکھایاگیاہےجس میں اُن کی فکری وفنی خصوصیات پوری طرح جلوہ گرہیں جن پرمنیرؔنیازی کے خیال اورشعری بنت کوداددئیے بغیرگزرجانافنِ شعرکی بے حرمتی ہوگی۔انھوں نے جس طرح فکری حوالے سے جنگل کے اندرایک لڑکی کی نعش اورپھراُس کے اردگردپوراطلسماتی دائرہ یاجال بُناہے اس کی مثال اورکہیں نہیں ملتی مگریہ توصرف فکراورخیال تھا،اس فکروخیال کوپایہ تکمیل تک پہچانے کے لیے انھوں نے جس قدرفنی سہارالے کر پوری تصویرکشی کی ہے اُس کے نمونے اُن کے علاوہ کہیں چیدہ چیدہ نظرآتے ہیں ۔اس نظم میں پیکرتراشی،تصویرکشی،منظرنگاری،لفظوں کاانتخاب اوراس طلسماتی وڈراؤنے منظرسے میل کھاتے لوازمات،محاورات اورتلامات کوجس سلیقے سے منیرؔ نے برتاہے یہ انھی کاخاصہ ہے ۔نظم کی بُنت میں انوکھے اورمنفردمحاورات نے مزیدانفرادیت پیداکی ہے جس میں گردن چومنااورآنکھیں میچنابڑے واضح اورطلسماتی فضاسے جڑے محاورات ہیں جن کے ذریعے نظم میں مزیدنکھارنظرآتاہے۔منیرؔنیازی کی خوبی ہے کہ وہ وحدتِ تاثرکابہت خیال رکھتے ہیں اسی طرح اس نظم میں بھی وحدتِ تاثر کابہت خیال رکھاگیا ہے۔نظم میں سے کسی ایک مصرعے،لفظ یاایک حرف کوبھی نکالا جائےیااُس کی جگہ بدل دی جائے تو نظم اپنی معنویت کھودے گی۔یہی منیرؔکاکمال ہے کہ اُن کی بُنت اتنی عمیق ہوتی ہے کہ اُن کی نظم میں سے مصرعےیالفظ کونکالنایابدلناتوکجاایک حرف کونکالنایابدلنابھی ممکن نہیں کیوں کہ وحدتِ تاثراورشعری معنویت وشعریت ختم ہوکررہ جائے گی ۔اسی طرح اُن کی ایک نظم”جنگل میں زندگی”کاایک بندملاحظہ ہو۔
پُراسراربلاؤں والا
ساراجنگل دشمن ہے
شام کی بارش کی ٹپ ٹپ
اورمیرے گھرکاآنگن ہے(4)
اس نظم میں جنگل کی پُراسراریت اوراُس میں بلاؤں کے بسیرے کاذکرکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنگل بلاؤں سے بھراہواہے اس لیے یہ پورے کاپورامیرادشمن ہے ۔بلاؤں سے انسان خوف کھاتاہے اس لیے اُن کواپنادشمن گردانتاہے ۔یہ دیکھنے میں عام سی بات ہے جوہرانسان کے دل میں ہے اورگاہے گاہے وہ اس کاذکربھی کرتے ہیں مگرنہیں جس اندازسے تخلیق کابات کرتاہے اوروہ امرہوجاتی ہے عام انسان کے بس کی بات نہیں ۔ کیوں کہ تخلیق کارلفظوں کاہنرجانتاہے اس لیے وہ عامیانہ خیال کوبھی اس سلیقے سے بنتاہے کہ وہ عام بات بھی عام نہیں لگتی۔اس بنداورپوری نظم میں عام بات کومنیرؔنے خاص پسندبنادیاہے اوراب وہ عام نہیں لگتی۔تیسرے اورچوتھے مصرعے میں اپنے تاریک گھرکاذکرکرتے ہوئے اُن بلاؤں کورات کے وقت اپنے صحن میں پھرتے دکھایاہے۔لیکن بارش کے قطروں کی ٹپ ٹپ منیرؔکوایسے محسوس ہوتی ہے جیسے اُن کے صحن میں بلائیں چل رہی ہیں اورکسی انسان کی تلاش میں آوارہ گردی کررہی ہیں کیوں کہ ٹپ ٹپ کی تکرارسے محسوس ہوتا ہے کہ شعرمیں شدت پیداکی گئی ہے تاکہ اندازہ لگایاجاسکے کہ شاعرکتنے عمیق مشاہدات رکھتاہے ۔رات کے وقت انسان اپنے قدموں کی آوازسے بھی خوف زدہ ہوجاتاہے اوریوں محسوس کرتاہے جیسے اُس کاکوئی تعاقب کررہاہےمگرخوف کے مارے اُس میں اتنی ہمت تک نہیں ہوتی کہ وہ پیچھے مڑکرجرات کرے بلکہ وہ مزیدتیزچلتاہے تاکہ وہ جلداپنی منزلِ مقصودپرپہنچ پائے۔دیکھنے میں تویہ عام ساموضوع ہے مگرمنیرؔنے اس کوشعریت کے خمیرمیں گوندھ کرخاص بنادیاہے۔رات کی ایسی حیران کُن اور خوف ناک کیفیات پر منیرؔنیازی کے ہاں جگہ جگہ حوالے ملیں گے اور یہ صرف اُردوتخلیقات میں نہیں بلکہ ماں بولی پنجابی میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں ۔اُردوکی نسبت شدت کے ساتھ وہاں نظرآتی ہیں۔پنجابی شاعری میں سے طلسم اور رات کی ڈراؤنی کیفیت کااندازہ کیجیے۔
؎ گھردیاں کنداں اُتے دسن چھٹاں لال پھوار دیاں
ادھی راتی بوہے کھڑکن ڈیناں چیخاں ماردیاں
پنجابی ہماری مادری زبان ہے اور دوسرایہ اُردوسے کہیں زیادہ وسیع زبان ہے لہذاجوبات یا جذبہ پنجابی میں اداہوسکتا ہے اس کوکسی غیرزبان میں بیان کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔کیوں کہ غیر زبان میں ہمارے پاس الفاظ کاذخیرہ بہت کم ہوتا ہے اور دوسراجس جذبے کوہم بیان کرناچاہ رہے ہوتے ہیں اُس کے الفاظ ہمیں سہارانہیں دے رہے ہوتے ،اس لیے ہم اُس جذبے ،خیال یا فکر کو مکمل طورپرالفاظ میں اتارنے سے قاصر ہوتے ہیں ۔درج بالا شعر میں جوشدت اورتاثرہے اسی کو اُردو میں بدلنے سے یہ شدت نہیں رہے گی ۔ذرااسی شعر کااُردو ترجمہ ملاحظہ ہو۔
؎گھر کی دیواروں پردیکھوچھینٹیں لال پھوار کی ہیں
آدھی رات کودربجتے ہیں ڈائنیں چیخیں مارتی ہیں (5)
اب اس میں وہ شدت اور تاثرنہیں ملتا حالاں کہ منیرؔ نیازی نے اپنے اُردو کلام کے پنجابی اور اپنے پنجابی کلام کے اُردو میں خودتراجم کئے اورترجمہ کرتے وقت بھی تمام فکری وفنی محاسن کوبڑے سلیقے اور ڈھنگ سے برتاہے۔کیوں کہ اُن کواس بات کا بخوبی اندازہ تھاکہ دوسری زبان میں منتقل کرتے وقت اگر فکروخیال یافنی بنت میں معمولی سی جھول بھی آئی توشعر میں وہ تاثروشعریت نہیں رہے گی جس کی قارئین توقع رکھتے ہیں۔ اس لیے منیرؔ نے ترجمہ کرتے وقت بھی ادبی محاسن کاخوب خیال رکھامگرترجمہ کوکامیاب بناکربھی وہ شدت پیدانہ ہوئی جوماں بولی میں تھی ۔ (یہ بھی پڑھیں جامعہ کے شعبۂ اردو کی شعری کائنات – پروفیسر کوثر مظہری )
منیرؔنیازی کاکلام طلسم ،تحیر،تجسس،آسیبیت اور خوف وڈرکی کیفیات سے بھراپڑاہے جوکہ ایک مکمل مضمون کاتقاضا کرتاہے ۔یہاں چیدہ چیدہ چیزوں کاذکرکیاگیاہے وگرنہ انھوں نے ان سے ملتی جلتی تمام کیفیات کوجس طرح اپنے کلام میں کھپایا ہے یہ انھی کاخاصہ تھا۔انھوں نے خوف،ڈر،تحیر،تجسس،طلسم اورآسیبیت سے ملتی جلتی کیفیات میں سے اہم کو پوری پوری نظم میں بُنااورمعمولی کیفیات اُن کے کلام میں منتشرحالت میں ملتی ہیں ۔کہیں پوری نظم اور کہیں اکادکاشعر ضرور ملے گا۔انھوں نے اپنے پسندیدہ موضوع پرشعرکہہ کرحق اداکردیااور اس موضوع کواپنے نام سے منسوب کرلیا۔
ایسے موضوع پر اُن کی کہی گئی نظموں کے عنوانات بھی اسم بامسمیٰ ہیں ۔اُن کے عنوانات بول بول کرکہہ رہے ہیں کہ ہم طلسماتی رنگ کواپنے اندرچھپائے بیٹھے ہیں ۔طلسماتی نظموں کے عنوانات میں "لیلیٰ” ،”طلسمات”،”آخری عمرکی باتیں”،”میں اور بادل”،”ابھیمان”،”صدابصحرا”،”ایک آسیبی رات”،”پُراسرارچیزیں”،”خزانے کاسانپ”،”بھوتوں کیبستی”، "چڑیلیں”، "جنگل میں زندگی”،”سندربن میں ایک رات”،”سفرسے روکنے والی آواز”،”جنگل کاجادو”،”سفرکے طلسمات”، "ایک پکی رات”،”اداس کرنے والی آواز”،”خالی مکان میں ایک رات”،”آدھی رات کاشہر”،”بھوتوں کی بستی”، "جادوگر” اور "آدھی رات میں ایک نیم وادریچہ”قابلِ ذکرہیں۔
اس سے یہ ہرگزخیال نہیں کرناچاہیے کہ منیرؔ نیازی ایسے مناظرِ فطرت سے خوف زدہ ہیں یااُن کے اندر ڈرپایا جاتا ہے بلکہ وہ تو فطرت کے ایسے مناظرسے لطف اندوزہوتے ہیں۔منیرؔنیازی ایسے مناظرِفطرت کے بارے میں علم رکھتے ہیں اور مزید جاننے اورکھوجنے کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں اس لیے ایسے موضوعات کووہ اپنے کلام میں جگہ دیتے ہیں تاکہ وہ خود بھی جان سکیں اور اپنے قارئین کو بھی ایسے مناظرِفطرت کی سیرکرائیں جوایسے موضوعات پربات کرنے اورسننے سے جی چراتے اور گھبراتے ہیں ۔ہرانسان کے بس کی بات نہیں کہ ایسےموضوعات پرقلم اٹھائے ،اکثرلوگ دن دیہاڑے ایسے موضوعات پر بات کرنے یاسوچنے سے خوف کھاتے ہیں کہ یہی مناظررات کوخواب میں نیندسے نہ چونکا دیں ۔لہذامنیرؔکے معاصرین نے منیرؔ کی تقلید وپیروی شروع تو کی مگراس سنگلاخ راستے پرچل نہ سکے اورجلد ہی ہاربیٹھےاورراستہ بدل لیا۔اس حوالے سے ڈاکٹر فتح محمدملک یوں رقم طراز ہیں ۔
"منیرؔنیازی کی شاعری تحیروتجسس اور خوف وہراس کےجومنظر دکھارہی تھی۔نئے شاعروں کی ایک پوری کھیپ ان پر یوں فریفتہ ہوئی کہ اس کے ہاں دہشت وسراسیمگی سکہ رائج الوقت بن گئی مگراُن میں سے کوئی بھی منیرؔنیازی کی تقلید نہ کرسکا۔”(6)
مگرمنیرؔنیازی بہت دلیر،نڈر،بہادراور بے باک شخصیت کے مالک تھے لہذاانھوں نے ایسے موضوعات کواپنے کلام میں جگہ دے کر اس موضوع کو اپنے سے جوڑلیا۔ منیرؔنیازی پر ڈاکٹریٹ کرنے والی پروفیسر ڈاکٹرسمیرااعجازصاحبہ اُن کے ایسے موضوعات پرقلم اٹھانے اوراُن کی بہادری اور بے باکی کا اعتراف اپنی کتاب "منیر نیازی ۔۔۔شخص اور شاعر” میں ان الفاظ میں کرتی ہیں۔
"یہ پُراسراریت اور شاعرانہ حیرت تخلیقی وجدان کا لازمہ ہے۔ وہ کھلے ہوئے پھولوں ،تتلیوں ،سرسوں اور سبز گندم کے کھیتوں کودیکھ کرمعصوم خوشی سے سرشار نظر آتے ہیں اوریہ معصومیت انھیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ یہ آنکھ کیوں ہے؟یہ دن کیا ہے؟رات کیاہے؟سورج،چاند،ستارے کیاہیں ؟وغیرہ۔ایسے سوال ہمیشہ ایک معصوم شخص پوچھتا ہے۔ڈراہوا یاوحشت زدہ انسان نہیں۔یہی باتیں اُن کےہاں استعجاب کوبھی جنم دیتی ہیں ۔”(7)
طلسماتی موضوع منیرؔنیازی کے ہاں متنوع جہات کا حامل موضوع ہے،یہ موضوعاتی دائرہ وسیع الجہات ہے جودائرہ دردائرہ پھیلا ہواہے جس کا یہاں صرف اجمالی سا ذکر کیا گیا ہے ۔
حیرت واستعجاب اور سوالیہ انداز بھی منیرؔنیازی کا ایک اہم تخلیقی دائرہ ہے ۔منیرؔنیازی ایک معصوم بچے کی طرح حیرت واستعجاب کا شکار ہیں اور چھوٹے چھوٹے معصومانہ سوالات کرنا اُن کا ایک منفرد موضوع ہے ۔وہ فطری ،سیاسی ،سماجی،مذہبی،ملکی حالات اور ایسے ہی موضوعات کے حوالے سے چھوٹے چھوٹے سوالات اٹھاتے نظر آتے ہیں جس کے لیے وہ فکروخیال کے ساتھ ساتھ تمثیل نگاری ،محاورات،تراکیب ،صنائع بدائع اور دیگر فنی ہتھیاروں سے اپنے معصومانہ خیالات کو مزید معصومانہ اور متاثر کُن بناتے ہیں ۔ شاعری لفظوں کا کھیل ہے اور لفظوں کی جوڑ توڑ کے ساتھ ترتیب ِ الفاظ کے منیرؔ نیازی ماہر کھلاڑی ہیں ۔اُن کو لفظوں کے جوڑنے اور ادلنے بدلنے کا خوب ہنر اور سلیقہ قدرت نے ودیعت کر رکھا تھا جس کے ذریعے انھوں نے اپنے فن کا خوب چرچاکیا۔حیرت واستعجاب کی مثال کلامِ منیرؔ میں سے نظم "تسلی”سے ملاحظہ ہو۔
؎ابھی اور کچھ دن اکیلے پھرو
ہواؤں سے دل کی کہانی کہو (8)
ایک اورنظم "وصال کی خواہش”سے ایک بند ملاحظہ کریں ۔
کہہ بھی دے اب وہ سب باتیں
جودل میں پوشیدہ ہیں
سارے روپ دکھا دے مجھ کو
جواب تک نادیدہ ہیں (9)
اسی حوالے سے منیرؔنیازی کی غزل سے ایک شعر دیکھیئے۔
؎کیا وہاں بھی ہے کوئی
اے رہِ ملک عدم (10)
منیرؔنیازی کے ہاں یہ موضوع بھی اپنی پوری رنگا رنگی کے ساتھ نمایاں ہے ۔جس میں فکروخیال کے ساتھ فن کاری اور لفظی جوڑتوڑ سے بہترین تاثرپیدا کیا گیا ہے جوایک اچھے تخلیق کار کاوصف وامتیاز ہے۔
(جاری)
حوالی جات:
۔ اشفاق احمد،(دیباچہ)تیزہوا اور تنہا پھول،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور:خزینہ علم وادب ،2002ء،ص 7
2۔ احمدندیم قاسمی،(دیباچہ)چھ رنگیں دروازے،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور:خزینہ علم وادب ،2002ء،ص12
3۔ منیر نیازی،جنگل میں دھنک،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور:خزینہ علم وادب ،2002ء،ص65
4۔ منیرنیازی ، جنگل میں دھنک،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی ،لاہور: خزینہ علم وادب ،2002ء،ص64
5۔ منیر نیازی،سفید دن کی ہوا، مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور: خزینہ علم وادب ،2002ء،ص67
6۔ڈاکٹر فتح محمدملک،تحسین و تردید،راولپنڈی: اثبات پبلی کیشنز،1984ء،ص 197
7۔ ڈاکٹر سمیرا اعجاز،منیر نیازی ۔۔شخص اور شاعر،فیصل آباد:مثال پبلشرز،2014ء،ص 61۔160
8۔ منیر نیازی،جنگل میں دھنک،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور :خزینہ علم وادب ،2002ء، ص30
9۔ منیر نیازی،دشمنوں کے درمیان شام ،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور:خزینہ علم وادب ،2002ء،ص 9
10۔ منیر نیازی، پہلی بات ہی آخری تھی،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور: خزینہ علم وادب ،2002ء،ص 67
عمیرؔیاسرشاہین
پی۔ایچ۔ڈی (اسکالر)
یونی ورسٹی آف سرگودھا
0303.7090395
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
بہت ہی شاندار آپ جسے قابلِ ٹیچر رہنمائی کرنے والی ہوں تو طلباء کو کبھی بھی کوئی مشکل پیش۔ نہ آئے