وصیہ عرفانہ
سمستی پور، بہار
فکر رسا ذہن آسان راہوں کے عادی نہیں ہوتے۔بالخصوص جنہوں نے دشوار گذار راہوں سے زندگی بسر کرنے کا ہنر سیکھا ہو، ان کی طبیعت ہموار راستوں کو گوارا نہیں کرتی۔وہ اپنی افتاد طبع سے مجبور ہو کر جدید اور نادر راہیں تلاش کرتے ہیں اور راستوں کی مشکلات کو سر کرتے ہوئے منزل پر پہنچ کر روحانی آسودگی کی بے پایاں لذت کشید کرتے ہیں۔ریحانہ محمد علی کا شمار اسی زُمرے میں کیا جا سکتا ہے۔جب تحقیقی موضوع کے انتخاب کا مرحلہ انہیں درپیش ہوا تو ان کا ذہن روایتی ڈگر پر چلنے کے لئے آمادہ نہ ہوا اور انہوں نے ایک اچھوتے موضوع ’’مشاہیر ادب کے ازدواجی خطوط کا تنقیدی جائزہ‘‘کا انتخاب کیا۔گرچہ ابتدائی مرحلے میں ہی لوگوں کے معنی خیز اور تمسخرانہ رویے سے انہیں اس موضوع کے سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہو چکا تھا۔لیکن بات پھر وہیں پہنچ جاتی ہے کہ ہر کسی کو سازگار حالات کہاں راس آتے ہیں۔وہاب اشرفی جیسی جید شخصیت کی رہنمائی اور نگرانی نے ان کے حوصلے کو مزید تقویت بخشی اور با لآخر اپنی نوعیت کی منفرد اور اہم کتاب سے آج ہم روبرو ہیں۔
اردو ادب کی تاریخ میں مکتوب نگاری کی روایت خاصی قدیم ہے لیکن مرزا غالب کے خطوط نے اس روایت کو سب سے زیادہ وقار اور استحکام بخشا۔غالب نے مکتوب نگاری کو مکالمہ اور مکتوب کو حالات حاضرہ کا آئینہ بنا دیا۔یوں بھی خط کی کائنات میں ایک بے تکلفی اور اپنائیت بھری ایسی فضا ملتی ہے جس میں لکھنے والا ظاہری حجابوں سے بے نیاز اپنی اصل اور واقعی شکل میں نظر آتا ہے اور اپنی شخصیت کا حقیقی تعارف پیش کرتا ہے۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کسی ادیب کی داخلی شخصیت کی تفہیم میں اسکے خطوط بے حد اہم ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ شخصیت کے تحلیل و تجزیہ میں ادیب کے خطوط کو اہم وسیلہ مانا جاتا رہا ہے۔خطوط شخصیت کا آئینہ ہوتے ہیں اور جب یہ خطوط ازدواجی ہوں تو آئینہ اور بھی صیقل ہو جاتا ہے۔کیونکہ عام نجی خطوط میں مکتوب نگار محض اپنی فطرت اور اپنے مزاج کا اظہار کر پاتا ہے جبکہ ازدواجی خطوط میں اس کی ’’جنسیات،جبلیات اور رومانیت‘‘ کی بھی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔چونکہ زن و شو یکساں اغراض و مقاصد کے مشترکہ امین ہوتے ہیں اور دونوں کے درمیان مخصوص بے تکلفانہ فضا بھی ہوتی ہے۔لہٰذا جنس اور رومان کے علاوہ دیگر معاشرتی،اخلاقی اور معاشی مسائل بھی ان خطوط میں جگہ پاتے ہیں جن کی وجہ سے ادیبوں سے متعلق متعدد روزن وا ہو جاتے ہیں۔لہٰذاکہا جا سکتا ہے کہ عام نجی خطوط کی بہ نسبت ازدواجی خطوط کسی ادیب کی شخصیت کی تفہیم میں زیادہ بہتر پیمانہ ثابت ہو سکتے ہیں۔اس تناظر میں ریحانہ محمد علی کی یہ تحقیقی کاوش اہمیت رکھتی ہے۔
ریحانہ نے اپنی تحقیق کی بنیاد ان ازدواجی خطوط پر رکھی ہے جو مطبوعہ ہیں۔اردو ادب میں ایسے خطوط کثیر تعداد میں موجود
ہیں۔ان کی یہ کوشش رہی ہے کہ ان ازدواجی خطوط کی ادبی اہمیت کا جائزہ لیا جائے،ان میں مذکور معاشرتی ،معاشی اور اقتصادی پہلوؤں کا تجزیہ کیا جائے،زن و شو کے مابین رومانی و جنسی روابط پر روشنی ڈالی جائے نیز ان خطوط کے وسیلے سے زن و شو کے باہمی رشتے کی آئینہ داری کی جائے۔ان امور کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے اپنے تحقیقی مراحل کا تعین کیا ہے۔لیکن اس خوبی سے کہ یہ مقالہ مرحلوں میں منقسم ہونے کے باوجود نہایت مربوط اور تسلسل بیانی کے وصف سے آراستہ ہے۔تحقیق کے لئے واضح فکر، صائب رائے،غیر مبہم تصورات اور پیچیدگی سے مبرّا فیصلہ کن صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ مقالہ محقق کے ان اوصاف کو منعکس کرنے میں کامیاب ہے۔اظہار بیان کی قدرت اورالفاظ کے موزوں انتخاب نے اس مقالے کی دلکشی اور دل پذیری میں اضافہ کر دیا ہے۔مثلاً وہ ادبی خطوط کی تعریف یوں بیان کرتی ہیں:
’’ادبی خطوط سے یہ مراد ہر گز نہیں ہوتی کہ کسی الہامی کیفیت کا ذکر ہو یا ژولیدہ اور
مشکل الفاظ کا استعمال ہو ، یا یہ کہ کسی فلسفیانہ بحث کو راہ ملے۔یہ تو کسی شخص کی خوش
سلیقگی،خوش مزاجی،بر جستگی،نفاست طبع اور پُر مزاح زندگی کے احوال ہوتے ہیں۔
جو بات عام آدمی کے یہاں مسئلہ ہو جاتی ہے اور بار کی کیفیت پیداکرتی ہے،وہی
بات ادیب کے یہاں مزاح کا رنگ پیدا کرتی ہے اور ذہن کے دریچے کھولتی ہے۔‘‘
گویا کہا جا سکتا ہے کہ احساس جمال اور حس لطافت ہی وہ عناصر ہیں جن کی وجہ سے ایک عام خط ادبی خط کے زُمرے میں شمار ہو جاتا ہے۔بالمشافہ گفتگو میں ایک انسان دوسرے انسان سے بہت سارے تحفظات رکھتے ہوئے روبرو ہوتا ہے جبکہ خط کی کائنات میں ادیب خود کو بے خوف، بے باک اور مطمئن محسوس کرتا ہے۔وہ اپنے ہمراز یا دوست کو خط لکھتے وقت اپنی جبلت کو مخفی نہیں رکھ پاتا۔اس وقت اس کا قلم صرف سچے جذبات کا اظہار کرتا ہے،کوئی آئیڈیلزم یا اصول پرستی اظہار کے راستے میں حائل نہیں ہوتی۔اس سلسلے میں شبلی کے خطوط بنام عطیہ فیضی اور خواجہ حسن نظامی کے خطوط بیّن مثال ہیں۔ریحانہ نے شاد عظیم آبادی اور مجنوں گورکھپوری کے خطوط کے حوالے سے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ بعض ادیب خطوں کی شفاف دنیا کو بھی اپنی غلط بیانی اور فرضی مضامین سے آلودہ کر دیتے ہیں۔غالباً یہی سبب ہے کہ وہ ان خطوط کو ادیبوں کے اعمال نامے سے موسوم کرتی ہیں۔
ریحانہ محمد علی کا مئوقف ہے کہ ادیب زن و شوکے خطوط محض رومانی کیف پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ ان میں حالات حاضرہ،محفل دوستاں،معاشرتی ماحول اور معاشی و اقتصادی معاملات بھی موضوع بحث بنتے ہیں۔ان خطوط میں ادیبوں کی انسان دوستی اور رشتہ داروں کے تئیں ان کے جذبات بھی منعکس ہوتے ہیں۔علاوہ ازیں، خط کے اسلوب کے توسط سے متعلقہ ادیب کی اپنی شخصیت بھی عیاں ہوتی ہے کیونکہ خط میں اظہار کی سطح ہر مصلحت سے بے نیاز ہوتی ہے۔موصوفہ نے اپنے مطالعے کے ضمن میں پروفیسر عابد حسین اور صالحہ عابد حسین،مہدی افادی اور عزیز ا لنسا بیگم،خواجہ حسن نظامی اور محمودہ فاطمہ،ستیش چندر چکرورتی اور ان کی اہلیہ،عبد ا لغفور شہباز اور شمسو بیگم،خواجہ غلام ا لسیّدین اور سعیدہ فرحت،جاں نثار اختر اور صفیہ اختر،جاں نثاراختر اور خدیجہ اختر،امرتا پریتم اور امروز،خواجہ حسن نظامی اور لیلیٰ بنت ا لعرب،پریم چند اور شیو رانی،سجاد ظہیر اور رضیہ سجاد ظہیر،فیض اور ایلس،سردار جعفری اور سلطانہ جعفری،جان عالم اور بیگمات اودھ جیسے نامور ادیبوں کے خطوط کو موضوع بحث بنایا ہے۔ان خطوط میں ان کرداروں کی جیتی جاگتی،ہنستی بولتی،کچھ سیاہ کچھ سفید،متحرک دنیا آباد ہے۔آج موبائل اور ویڈیو کالنگ کے عہد میں رومان کا کیف بھی سائنٹفک ہو چکا ہے۔سکنڈ کے حساب سے باتیں ہوتی ہیں اور ایس ایم ایس نے ایک غیر محاوراتی، غیر قواعدی اور مختصر ترین ،بے کیف، بے جان زبان کی بنیاد ڈال دی ہے جس کے ذریعے ضرورت کا اظہار تو کیا جا سکتا ہے ،جذب و کیف کی ترسیل ناممکن ہے۔رومان و کیف کی اس قحط سامانی کے پس منظر میں مذکورہ ادیبوں کے ازدواجی خطوط کے تجزئیے کے ذریعے ریحانہ نے جذبات و احساسات کے گمشدہ کیف کی بازیافت کا دلکش عمل انجام دیا ہے۔ زن و شو اگر قریب ہوں تو ایک دوسرے کی قربت سے ہی جذباتی طور پر آسودہ رہتے ہیں۔پھر وہاں لفظوں کے ذریعے ترسیل جذبات کی ضرورت لاحق نہیں ہوتی لیکن دونوں کے مابین اگر فاصلے ہوں تو خط اظہار جذبات کا بہترین ذریعہ ٹھہرتا ہے۔ریحانہ مختلف مزاج و ماحول کے زن و شو کے خطوط درج کر ان کے تقابلی مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتی ہیں کہ بیگمات اودھ ہوں یا صفیہ جیسی محنت کش خاتون،امروزؔ جیسا وسیع ا لنظر محبوب ہو یا شہباز جیسے اصول پسند شخص۔۔۔۔۔ماحولیاتی اعتبار سے مختلف ہونے کے باوجود احساسات و جذبات کی کارفرمائیاں یکساں انداز سے جاری و ساری ہیں۔آرزوئے شوق اور خیالِ وصل خط کی روح بن کرجلوہ گر ہے۔
جیسا کہ میں نے قبل بھی عرض کیا ہے کہ ریحانہ محمد علی نے زن و شو کے خطوط میں محض رومانی پہلوؤں تک ہی اپنی توجہ محدود نہیں رکھی ہے بلکہ ان خطوط کے توسط سے متعلقہ عہد کے حالات ،معاشرتی ماحول،معاشی مسائل اور انسانی تعلقات کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔نتیجتاً ہم دیکھتے ہیں کہ معاصر ادیبوں کے سلسلے میں مکتوب نگاروں کی بیباک و بے خوف آرا کیا ہیں؟فیض منٹو کی فنکارانہ عظمت کو تسلیم نہ کرنے کے باوجود ان کی دیانت داری اور راست گوئی کے معترف ہیں۔جاں نثار اختر رشتوں کی نزاکت سے بے نیاز اپنی دوسری بیوی خدیجہ سے مجازؔکی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان سے اپنے والہانہ لگاؤ کا اعتراف کرتے ہیں۔صفیہ کے خط میں احتشام حسین ،آل احمد سرور اور احمد ندیم قاسمی کے ادبی میلان کے سلسلے میں آزادانہ اور دوٹوک رائے ملتی ہے۔اسی طرح ادیبوں کے معاشی حالات کا حقیقی اندازہ ان کے خطوط سے ہو جاتا ہے۔نشاط ا لنسا بیگم کے نام حسرتؔ کا ایک خط شروع سے آخر تک ان کے معاشی حالات اور ذہنی و خانگی حالات کی خستگی کی غمازی کر رہا ہے۔ایک شوہر نے اپنی بیوی کو خط لکھا ہے لیکن حالات کی ستم ظریفی اور زندگی کی کشاکش نے ایک لفظِ محبت لکھنے کی فرصت نہیں دی ہے۔صفیہ کے زیادہ تر خطوط محبت و لطافت کا مرقع ہیں لیکن جاں نثار اختر کے خطوط بنام صفیہ میں اکثر معاشی کشاکش کی ہی عکاسی ملتی ہے۔ان خطوط کے مطالعے کے دوران یہ حقیقت روشن ہوتی جاتی ہے کہ فکر معاش، رومان اور دانش وری دونوں پر سبقت رکھتی ہے۔
ازدواجی خطوط سے انسانی تعلقات اور باہمی رشتوں کی نہج پر بھی بھرپور روشنی پڑتی ہے۔ایک ادیب بھی انسان ہوتا ہے اوربھرے پُرے رشتوں کے درمیان رہتا ہے۔اس کا واسطہ بھی سماج اور سماج کے دیگر افراد سے پڑتا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ عام انسان کی بہ نسبت ایک ادیب ان رشتوں کے تئیں کتنا حساس ہوتا ہے۔مختلف خطوط کے تجزئیے کے دوران ریحانہ اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ باہمی تعلقات کے معاملے میں ادیب عام انسانوں سے جداگانہ مزاج نہیں رکھتا ہے۔ان کی رائے میں عورتیں سسرالی رشتوں سے قلبی طور پر زیادہ قریب نہیں ہوتیں جبکہ مرد ادیب اپنے سسرالی رشتہ داروں سے زیادہ قریب اور اپنے رشتوں سے مزید دور ہو جاتا ہے۔میری رائے میں،مرد ادیب میں رشتوں کے سلسلے میں عام آدمی کی بہ نسبت زیادہ بے حسی پائی جاتی ہے لیکن تخلیقی مزاج کی حامل خواتین میںرشتوں کے تئیں زیادہ حساسیت اور احساس ذمہ داری ملتی ہے۔اس سلسلے میں عبد ا لغفور شہباز کے خطوط کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے جس میں اپنی ذمہ داریوں کے تئیں اکتاہٹ و بے زاری اور اپنی والدہ کی ثانوی حیثیت کا اظہار ملتا ہے جبکہ صفیہ اختر کے خطوط میں نہ صرف تمام سسرالی رشتوں کے لئے اپنائیت اور حساسیت ملتی ہے بلکہ گاہے گاہے اختر کو بھی انہوں نے رشتوں کے تقدس اور احترام کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے۔اسی طرح امرتاؔ کے خطوط بنام امروز میں بھی انسانی ہمدردی اور انسان دوستی کی نمایاں جھلکیاں ملتی ہیں۔غالباً اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ عموماً مردوں پر کسب معاش کی ذمہ داری ہوتی ہے اور حالات کی کشاکش سے وہ رفتہ رفتہ ایسے رشتوں سے بے گانہ و بے زار ہونے لگتے ہیں جو ان کی رومانی زندگی کو منتشر و مضمحل کرنے لگے۔معاش کی تگ و دو ان کے احساسِ جمال کو مجروح کرنے لگتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ازدواجی زندگی کے ابتدائی دور میں ادیب زن و شو کے خطوط میں جو رومانویت اور ادبی چاشنی ملتی ہے،بعد کے خطوط میں وہ معدوم و مفقود ہوتی جاتی ہے۔اکثر ایسے خطوط محض خیریت نامہ یا منشی کا بہی کھاتہ نظر آنے لگتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ معاشی تنگ حالی سے انسانی جذبات و اخلاقیات میں بھی تنگی پیدا ہو جاتی ہے۔ویسے بھی مرد خود آگاہ،خود بیں اور خود پرست ہوتا ہے اور اگر وہ ادیب ہو تو اس کی نرگسیت اور بھی درجۂ کمال پر ہوتی ہے جبکہ خواتین ادیب کی ذمہ داریاںجیوں جیوں بڑھتی ہیں،ان کا ظرف زیادہ وسیع،طبیعت زیادہ متواضع اور فطرت زیادہ منکسر ہوتی جاتی ہے۔اس ضمن میں صفیہ اختر کے خطوط کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔صفیہ خود پیسے کما کر جاں نثار اختر کو بھیجتی تھیں۔انہوں نے اپنے شوہر کی کفالت کے لئے ہر طرح کی تگ و دو کی ،پھر بھی ان کے خطوط سے برد باری اور لطافت کم نہیں ہوئی بلکہ وہ شوہر کی حاکمانہ فطرت کا ہر مقام پر احترام کرتی رہیں۔جبکہ عبد ا لغفور شہباز ذمہ داریوں کی بوکھلاہٹ میں متعدد خطوط میں بیوی سے اپنی والدہ کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ماں کے تقدس و احترام سے بے نیازی کا عام مظاہرہ ان کے خطوط میں ملتا ہے۔ریحانہ نے ادیبوں کے خطوط کو اس نہج سے پیش کر کے متعلقہ ادیبوں کی تحلیل نفسی کے امکانات کو روشن کر دیا ہے۔اس ضمن میں تفصیلی مطالعے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
بہر کیف ! ریحانہ محمد علی نے نہایت خوب صورتی سے ادیبوں کے ازدواجی خطوط کے اسرار و رموز کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔یقیناً یہ ایک قابل قدر کوشش ہے انہوں نے اپنی تحقیق کے ذریعے نہ صرف ادیب زن و شو کے رومانی و جذبات تعلق پر روشنی ڈالی ہے بلکہ ان خطوط کی ادبی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے۔انہوں نے اپنے مؤقف کہ ازدواجی خطوط معاشی،معاشرتی اور
اقتصادی حالات کے بھی بہترین عکاس ہوتے ہیں،کو دلیلوں اور مثالوں کے ذریعے ثابت کیا ہے۔یہ خطوط ادیبوں کی شخصیت کو
ان کے اسلوب کے حوالے سے شناخت کرنے میں معاون ہیں۔اپنے اس نظرئیے کو بھی انہوں نے حوالوں کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔بلا شبہ کہا جا سکتا ہے کہ ریحانہ محمد علی نے جس نازک موضوع کو اپنی تحقیق کے لئے منتخب کیا تھا،اسے نہایت مہارت کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچا دیا۔ریحانہ کے سادہ و پُر کار اسلوب اور مختصر و جامع پیرایۂ اظہار نے اس مقالے کو جاذبیت اور دلکشی عطا کر دی ہے۔میں نے قبل بھی عرض کیا ہے کہ تحقیق کے لئے جیسی زبان اور جیسا انداز بیان مطلوب ہے مثلاً واضح ،ٹھوس،غیر مبہم اور غیر جذباتی،ریحانہ کی تحریریں ان سے متصف ہیںلیکن ان خصوصیات کی حامل ہونے کے باوجود ان کی تحریریں خشک اور بے کیف نہیں ہیں بلکہ ایک خاص نوع کی شیفتگی اور شگفتگی ان میں پائی جاتی ہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |